“غیب پر ایمان” متقین کی صفت

رہبر انقلاب اسلامی كا اپنے درس تفسير میں “غيب پر ايمان ركھنے” کو متقین کی صفت قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ “مادہ پرستوں كی زندگی بے مقصد ہے”

“غیب پر ایمان” متقین کی صفت

مترجم:غلام جابر محمدی
مصحح:ادريس احمد علوی

ممكن ہے آپ كہیں كہ كئی ايسے مادی افكار كے حامل افراد ہیں جن كے پاس حقيقی مقاصد بھی ہیں۔ میں عرض كروں گا كہ ان مقاصد كو وہاں ديكھنا چاہیے جہاں احساسات ، عادات اور ضروريات غالب نہ ہوں كيونكہ جہاں پر جذبات ، عادات اور ضروريات موجود نہ ہوں وہاں پر مادہ پرست انسان كی زندگی اور اس كی جدو جہد متوقف ہو جاتی ہے۔ اگرچہ بعض لوگ ضرورت كے پيش نظر مجبور ہیں كہ سعی و كوشش كریں چونكہ مادہ پرست لوگ بھی اپنی ضروريات پورا كرنے كے لیے جدو جہد كرتے ہیں۔ ان میں سے بعض خاص قسم كے جذبات ركھتے ہیں جيسے قوم پرستی كے جذبات۔ یہی قوم پرستی اسے مجبور كرتی ہے كہ وہ اس كے لیے جدوجہد كرے ، كوشش كرے حتی كہ اسی راستے میں اپنی جان قربان كر دے ليكن یہ جذبات عقل و منطق كے تابع نہیں ہیں ۔
اگر ايك ايسے مادی شخص كو جو جذبات میں غرق ہوكر وطن كی راہ میں خود كو فدا كر ديتا ہے،كوئی پكڑ كر عليحدگی میں لے جا ئے اور یہ پوچھے كہ تم كيوں جان قربان كر رہے ہو؟اگرتم مر جاٶ تو كيا ہو جا ۓ گا ؟ كيا تمہارے مرنے سے وطن زندہ ہو جاۓ گا ؟ جب تم خود ہی نہیں رہو گے تو یہ وطن ہو يا نہ ہو تمہارے لیے اس كا كيا فائدہ ہے ؟ تم اس لیے مر رہے ہو تاكہ دوسرے زندگی كر سكیں ؟!
اگرچہ مادہ پرست اس كا اقرار نہیں كرتے ليكن اگر انہیں یہ كہا جاۓ تو وہ جواب میں بلند مقاصد اور اپنے وجدان وغيرہ جيسے عناوين بيان كرتے ہیں ليكن انہی كے اعترافات كو بعض مقامات پر مشاہدہ كيا جا سكتا ہے جيسے ٫٫ روجہ مارٹين ڈاؤگر ٬٬ كی كتاب میں جسے اس فرانسيسی رائٹر نے ناول كی صورت میں لكھا ہے اور اس كا نام ٫٫ ٹيوو خاندان ٬٬ ہے، اس میں ہم نے پڑھا كہ یہ شخص انيسویں صدی اور بيسویں صدی كے اوائل كا اومانيسٹ تھا۔ وہ اور دوسرے اومانيسٹوں كا یہ نظریہ تھا كہ انسان اور انسانيت سے عشق و محبت انسانی وجدان كو اس كے مذھبی رجحانات اور مذھبی جذابيت سے بے نياز كر ديتا ہے۔ یہ لوگ ماركس ازم سے پہلے بہت كتابیں لكھا كرتے تھے اور یہ ٫٫ رجہ مارٹين ٬٬ انہی افراد میں سے ہے جو اپنی كتاب میں اس قصہ كو بہترين انداز میں پيش كرتا ہے ۔ وہ اس میں داستان كے ہيرو كی زبانی یہ بيان كرتا ہے كہ جب ايك لا علاج مرض میں مبتلا ہو گيا تو اس نے سوچا كہ ميری جدو جہد كا كيا فائدہ ہے ۔ پھر اپنی داستان لكھتے ہوے اپنے اومانيسٹی تفكر كو بطور كامل بيان كرتا ہے جس سے یہ سمجھا جا سكتا ہے كہ وہ یہ كہہ رہا ہے كہ زندگی گزارنے كا مقصد صرف یہی ہے كہ تو لطف اندوز ہو سكے ۔ ايك مادہ پرست انسان كا اس سے زيادہ مقصد ہو بھی كيا سكتا ہے كہ وہ اپنا پورا مقصد لذت دنيوی كو ہی سمجھتا ہے ۔
مادی تفكركی بنياد پر آپ كی زندگی ايك نقطہ سے دوسرے نقطہ تك عبارت ہے يعنی پيدائش سے مرنے تك يا يوں كہا جاۓ كہ بچپن سے مرنے تك كيونكہ بچپن كا زمانہ تو كوئی چيز نہیں ہے ليكن بچپن كے بعد سےموت تك ايك دورانیہ ہے اور یہ دورانیہ بہت جلد گزر جاتا ہے۔ پس اس عرصے میں جتنی پرتعيش زندگی بسر كرو گے اتنی ہی زيادہ لذت حاصل كرو گے ۔ انسانی زندگی كا مقصد اس كے سوا كچھ نہیں ہے۔
اب كيا یہ فكر، انسانی زندگی كو سنوارنے اور انسان كی اعلی مقاصد تك رسائی كے لیے اچھا پروگرام پيش كر سكتی ہے ؟ ايسے عالی اہداف كی طرف انسان كی رہنمائی كر سكتی ہے؟ اور اس كٹھن راستے میں انسان كو مشكلات كا سامنا كرنے پر آمادہ كر سكتی ہے ؟ ہر گز نہیں۔ یہ تو ايسا ہی ہے كہ میں خود كو تيزی كے ساتھ ديوار كی دوسری طرف پہنچانے كی كوشش میں اپنا سرديوارپر دے ماروں۔ لہذا میں كس لیے تيزی سے جاٶں ؟ كيوں جد و جہد كروں ؟
یہی فرق ہے ايسے شخص كی فكرمیں جو اس كائنات سے ماوراء كو بھی سمجھتا ہے اور ايسے شخص كی فكر میں جس كا ہم و غم اس چند روزہ زندگی كی لذات میں خلاصہ ہو جاتا ہے اور یہ بہت بڑا فرق ہے۔

 

تبصرے
Loading...