علّامہ شہید عارف حسین حسینی کی برسی

5 اگست ہمیں اس مرد مجاہد کی یاد دلاتا ہے جس نے علم و عمل اور میدان سیاست میں قدم رکھتے ہی، اپنی سیاسی بصیرت اور فہم و فراست کا لوہا منوالیا۔ جی ہاں ہماری مراد ملت جعفریہ پاکستان کے قائد علّامہ شہید عارف حسین حسینی کی شخصیت ہے کہ جن کی آج بائیسویں برسی ہے۔

علّامہ شہید عارف حسین حسینی کی برسی

چھری کی دھار سے کٹتی نہیں چراغ کی لو
بدن کی موت سے کردار مر نہیں سکتا

شہید علّامہ عارف حسین حسینی دسمبر سن 1946 میں ، پاراچنار سے پندرہ میل دور افغانستان کے ساتھ ملحق پیواڑ نامی ایک گاؤں میں پیدا ہوئے، آپ نے ابتدائی تعلیم پیواڑ ہی میں حاصل کی اور اس کے بعد دینی تعلیم میں مشغول ہوگئے ، اور پھر اعلی تعلیم کا شوق آپ کو نجف اشرف کھینچ لایا، نجف اشرف اس زمانے میں امام خمینی (رح) کی دینی اور سیاسی سرگرمیوں کا مرکز بنا ہوا تھا ، یہی وجہ تھی کہ حضرت امام خمینی (رح) اور آپ کے پیرو کاروں کو حکومت عراق کی طرف سے طرح طرح کی محدودیتوں اور پابندیوں کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔

نجف اشرف میں دوران قیام شہید علّامہ عارف حسین حسینی بھی امام خمینی (رح) کے افکار و کردار سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے اور یوں آپ نے بھی امام خمینی (رح) کے افکار و کردار کی ترویج شروع کردی۔جس کی بنا پر عراق کی حکمراں جماعت بعث پارٹی نے سن 1975 میں شہید علّامہ عارف حسین حسینی کو سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینے کے جرم عراق سے نکالدیا ۔یوں شہید علّامہ عارف حسینی اپنے مرجع و رہبر اور استاد و راہنما سے جغرافیائي لحاظ سے تو کوسوں دور ہوگئے مگر آپ کا دل اب بھی امام خمینی (رح) کے ساتھ دھڑکتا تھا ، یہ وہ زمانہ تھا جب ایران میں شاہ ایران کے خلاف امام خمینی (رح) کی تحریک زور پکڑتی جارہی تھی، لہذا شہید عارف حسینی نے پاکستان میں اپنے قیام کو مناسب نہیں سمجھا اور امام خمینی (رح) کے ایک سچے سپاہی کی مانند قم تشریف لے آئے اور یہاں پہنچ کر آپ نے حصول علم کے ساتھ ساتھ بھرپور طریقے سے شاہ ایران کے خلاف جاری تحریک میں حصّہ لیا ۔یہاں بھی آپ کو اسی مشکل کا سامنا کرنا پڑا جس سے آپ عراق میں دوچار ہوچکے تھے ، یوں آپ کو شاہ کی خفیہ پولیس ساواک نے تھانے میں طلب کرکے آپ سے اس بات کا عہد لینے کی کوشش کی آئندہ سیاسی سرگرمیوں میں حصّہ نہیں لیں گے، لیکن شہید عارف حسین حسینی جو مکتب حسینی کے پروردہ اور امام خمینی (رح) کے پیرو کار تھے بھلا کیسے ساواک کے ساتھ سمجھوتہ کرلیتے ۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ساواک نے آپ کو ایران سے نکالدیا۔
یوں آپ بادل نخواستہ ، رضا شاہ پہلوی کی ظالم و جابر حکومت کے خلاف امام خمینی (رح) کی عظیم الشان اور تاریخ ساز تحریک کو جو اپنے آخری مراحل طے کررہی تھی۔ چھوڑ کر پاکستان آگئے، لیکن آپ نے امام سے اپنا رابطہ نہیں توڑا ۔پاکستان پہنچنے کے بعد، آپ نے بڑے پیمانے پر سیاسی ، مذہبی اور ثقافتی لحاظ سے کام شروع کیا دسیوں مساجد اور امام بارگاہوں کی تعمیر، نادار لوگوں کی مالی اعانت، یتیموں اور بیواؤں کی سرپرستی آپ کے جملہ اقدامات ہیں، آپ کی انہی سرگرمیوں اور بڑھتی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے تحریک نفاذ جعفریہ پاکستان کی سپریم کونسل نے 10 فروری سن 1984 قائد تحریک مولانا مفتی جعفر صاحب کی رحلت کے بعد ملت جعفریہ کا قائد منتخب کرلیا ملت جعفریہ کے قائد کی حیثیت سے منتخب ہونے کے بعد تحریک کو قومی اور سیاسی سطح پر متعارف کرانے کی بھرپور جد وجہد کی اور اس وقت کی فوجی حکومت کے خلاف جمہوریت کی بحالی کے لئے چلائی جانے والی تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصّہ لیا اس دوران بارہا آپ کو نظربند کیا گيا، شہر بدر اور بعض شہروں میں داخلے کی پابندی پاکستان کی اس وقت کی فوجی حکومت کے خلاف آپ کی سیاسی سرگرمیوں کا ہی نتیجہ تھی اور یہ چیز حکومتی کارندوں کو سخت ناگوار گزرتی تھی۔ دوسری طرف آپ نے اتحاد بین المسلمین کا جو نعرہ بلند کیا اس نے امریکہ سمیت سبھی سامراجی اور طاغوتی قوتوں کو لرزا کررکھدیا اور چار جولائی سن 1987 کو لاہور میں ہونے والی تاریخی قرآن و سنت کانفرنس میں تحریک جعفریہ کا انقلابی منشور پیش کرکے پاکستان کے سبھی سیاسی اور مذہبی حلقوں میں تہلکہ مچادیا اور یوں اہل تشیع کے بارے میں جوشکوک شبہات اہلسنت برادران میں پائے جاتے تھے انہیں دور کردیا اور سبھی نے اہل تشیع اور اہلسنت برادری کے درمیان اتحاد و یکجہتی کا بارہا مشاہدہ کیا۔ شہید علّامہ عارف حسینی کے یہی افکار و نظریات اسلام دشمن قوتوں اور ان سرغنا امریکہ کے لئے سخت ناگوار تھے اور وہ اس کو اپنے دراز مدت مفادات کے لئے سخت خطرناک سمجھتے تھے۔ کیونکہ اسلامی جمہوریۂ ایران سے امریکہ اور دوسری استکباری قوتوں کو جو مار پڑی تھی اس کا صدمہ انہیں ابھی بھولا نہیں تھا ،لہذا ایسے ہر شخص کو جو امام خمینی (رح) کے اعلی انقلابی و اسلامی افکار کا پیرو اور مروّج ہو اسے راستے سے ہٹانے کا فیصلہ وہ بہت پہلے کرچکے تھے، عراق میں شہید باقر الصدر اور انکی ہمشیرہ محترمہ بنت الہدی کی شہادت نیز لبنان کے مجاہد عالم دین امام موسی صدر کی پراسرار گمشدگی طاغوتی طاقتوں کے اسی فیصلے کا نتیجہ ہے اور اس کےتحت علامہ عارف حسین حسینی کو بھی راستے سے ہٹانے کے لئے شہید کیا گيا، اگرچہ دشمن او کو شہید کرنے میں تو کامیاب ہوگیا لیکن ان کے افکار اور ان فکر آج بھی زندہ ہے اور بانی انقلاب اسلامی حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے تعزیتی پیغام میں ان کے افکارو نظریات کو زندہ رکھنے پر جو تاکید کی تھی ملت نے اس پر عمل کرتے ہوئے شہید کے فکر کو زندہ رکھا ہوا ہے ، ذیل میں علامہ شہید عارف حسین حسینی کی شہادت کی مناسبت سے پاکستانی قوم کے نام امام خمینی (رح) کے تعزیتی پیغام سے اقتباس قارئین کی نذر کیا جارہا ہے ۔

 

تبصرے
Loading...