علمی پیشرفت کے اصل محرکات

جیسا کہ ہم نے پہلے بھی عرض کیا ہے کہ امام جعفر صادق علیہ السلام کے دور امامت میں غیر معمولی طور پر ترقی ہوئی ہے۔ معاشرہ میں فکر و شعور کو جگہ ملی گویا سوئی ہوئی انسانیت ایک بار پھر پوری توانائی کے ساتھ جاگ اٹھی، بحثوں ، مذاکروں اور مناظروں کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔ انہی مذاکرات سے اسلام کو بہت زیادہ فائدہ ہوا‘ علمی ترقی اور پیشرفت کے تین بڑے محرکات ہمیں اپنی طرف متوجہ کرنے ہیں۔ پہلا سبب یہ تھا کہ اس وقت پورے کا پورا معاشرہ مذہبی تھا۔ لوگ مذہبی و دینی نظریات کے تحت زندگی گزار رہے تھے۔

پھر قرآن و حدیث میں لوگوں کو علم حاصل کرنے کی ترغیب دی گئی تھی ۔ لوگوں سے کہا گیا تھا کہ جو جانتے ہیں وہ نہ جاننے والوں کو تعلیم دیں‘ حسن تربیت کی طرف بھی اسلام نے خصوصی توجہ دی ہے۔ یہ محرک تھا کہ جس کی وجہ سے علم و دانش کی اس عالمگیر تحریک کو بہت زیادہ ترقی ہوئی۔ دیکھتے ہی دیکھتے قافلے کے قافلے اس کا رواں علم میں شامل ہو گئے۔ دوسرا عامل یہ تھا کہ مختلف قوموں، قبیلوں، علاقوں اور ذاتوں سے تعلق رکھنے والے لوگ مشرف بہ اسلام ہو چکے تھے۔ ان افراد کو تحصیل علم سے خاص لگاؤ تھا ۔تیسرا محرک یہ تھا کہ اسلام کو ہی وطن قرار دیا گیا یعنی جہاں اسلام ہے اس شہر ، علاقے اور جگہ کو وطن سمجھا جائے۔ اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوا کہ اس وقت جتنے بھی ذات پات اور نسل پرستی کے تصورات تھے وہ اسی وقت دم توڑ گئے۔ اخوت و برادری کا تصور رواج پکڑنے لگا۔ایک وقت ایسا بھی آیا کہ اگر استاد مصری ہے تو شاگرد خراسانی یا شاگرد مصری ہے تو استاد خراسانی، ایک بہت بڑا دینی مدرسہ تشکیل دیا گیا ۔ آپ کے حلقہ درس میں نافع، عکرمہ جیسے غلام بھی درس میں شرکت کرتے ہیں‘ پھر عراقی، شامی ‘حجازی، ایرانی اور ہندی طلبہ کی رفت و آمد شروع ہوگئی ۔دینی ادارے کی تشکیل سے لوگوں کا آپس میں رابطہ بڑھا اور اس سے ایک ہمہ گیر انقلاب کا راستہ ہموار ہوا۔ اس زمانے میں مسلم، غیر مسلم ایک دوسرے کے ساتھ رہتے۔ رواداری کا یہ عالم تھا کہ کوئی بھی کسی کے خلاف کوئی بات نہیں کرتا تھا۔ عیسائیوں کے بڑے بڑے پادری موجود تھے۔ وہ مسلمانوں اور ان کے علماء کا دلی طور پر احترام کرتے بلکہ غیر مسلم مسلمانوں کے علم و تجربہ سے استفادہ کرتے۔ پھر کیا ہوا؟ کہ دوسری صدی میں مسلمانوں کی اقلیت اکثریت میں بدل گئی۔ اس لحاظ سے مسلمانوں کا عیسائیوں کے ساتھ رواداری کا مظاہرہ کرنا کافی حد تک مفید ثابت ہوا۔ حدیث میں بھی ہے کہ اگر آپ کو کسی علم یا فن کی ضرورت پڑے اور وہ مسلمانوں کے پاس نہ ہو تو وہ غیر مسلم سے بھی حاصل کر سکتے ہیں۔ نہج البلاغہ میں اس چیز کی تاکید کی گئی ہے اورعلامہ مجلسیؒ نے بحا ر میں تحریر فرمایا کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ

”خذوا الحکمة و لو من مشرک“

”یعنی اگر آپ کو مشرک سے بھی علم و حکمت حاصل کرنا پڑے تو وہ ضرور حاصل کریں۔“ 

اور ایک حدیث میں ہے کہ

”الحکمة ضالة المومن یا خذھا اینما و جد ھا“

”یعنی حکمت مومن کا گم کردہ خزانہ ہے اس کو حاصل کرو چاہے جہاں سے بھی ملے۔“

بعض جگہوں میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ

”ولو من یدمشرک“

”کہ خواہ پڑھانے والا مشرک ہی کیوں نہ ہو۔ “

قرآن مجید میں ارشاد خداوندی ہے:

”یؤتی الحکمة من یشاء و من یوت الحکمة فقد اوتی خیراً کثیراً“(بقرہ ۲۶۹)

”اور جس کو (خدا کی طرف سے) حکمت عطا کی گئی تو اس میں شک ہی نہیں کہ اسے خوبیوں کی بڑی دولت ہاتھ لگی۔“

واقعاً صحیح ہے کہ علم مومن کا گمشدہ خزانہ ہے اگر انسان کی کوئی چیز گم ہو جائے تو وہ اس کے لئے کتنا پریشان ہوتا ہے اوراس کو کس طرح تلاش کرتا ہے ۔ مثال کے طور پر آپ کی ایک قیمتی انگوٹھی ہو اگر وہ گم ہو جائے‘ تو آپ جگہ جگہ چھان ماریں گے اور اگر وہ آپ کو مل جائے تو بہت زیادہ خوشی ہو گی۔ علم سے زیادہ قیمتی چیز کونسی ہو سکتی ہے اس کو تلاش کرنے اور طلب کرنے کیلئے انسان کو اتنی محنت کرنی چاہیے۔ اس کے لیے ضروری نہیں ہے کہ تعلیم دینے والا اور فن سیکھانے والا مومن و مسلمان ہی ہو‘ بلکہ آپ علوم اور جدید ٹیکنالوجی کافروں ، مشرکوں سے بھی حاصل کر سکتے ہیں ۔ حضرت علی علیہ السلام کا ارشاد گرامی ہے ”مومن علم کو کافر کے پاس عارضی مال کے طور پر دیکھتا ہے اور خود کو اس کا اصلی مالک سمجھتا ہے “ اور وہ خیال کرتا ہے کہ علم کا لباس مومن ہی کو جچتا ہے کافر کو نہیں۔

جیسا کہ ہم نے پہلے عرض کیا ہے کہ مسلمانوں کا غیر مسلموں کے ساتھ اچھا سلوک کرنا اس بات کا سبب بنا کہ وہ تحقیق و تلاش کرتے ہوئے دائرہ اسلام میں داخل ہو گئے۔ ایک وقت تھا کہ مسلمان، عیسائی، یہودی، مجوسی وغیرہ سب ایک جگہ ، ایک شہر ، ایک محلہ میں رہتے تھے۔ وہ انتہا پسندی کا مظاہرہ کرنے کی بجائے ایک دوسرے سے استفادہ کرتے تھے۔ یہ بات پورے معاشرے کے لیے مفید ثابت ہوئی۔ مشہور مورخ جرجی زیدان نے اس وسعت قلبی کو انسانی معاشرہ بالخصوص مسلما نوں کے لیے نیک شگون قرار دیا ہے ۔ وہ سید رضی کے واقعہ کو نقل کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ سید رضی اپنے دور کے بہت بڑے عالم دین تھے بلکہ غیر معمولی طور پر درجہ اجتہاد پر فائز تھے۔ آپ سید مرتضی علم الھدیٰ کے چھوٹے بھائی تھے جب ان کے ہم عصر عالم دین ابو اسحق صابی نے انتقال کیا تو رضی نے ان کی شان میں ایک قصیدہ کہا۔ ابو اسحق صابی مسلمان نہ تھے یہ مجوسی فرقے سے ملتے جلتے خیالات کے حامل تھے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ عیسائی ہوں۔ یہ اعلیٰ پایہ کے ادیب، ممتاز دانشور تھے ۔ادیب ہونے کے ناطے سے قرآن مجید سے بہت زیادہ عقیدت رکھتے تھے۔ وہ اپنی تحریر و تقریر میں قرآن مجید کی متعدد آیات کا حوالہ دیا کرتے تھے۔ ماہ رمضان میں دن کو کوئی چیز نہیں کھاتے تھے۔ کسی نے ان سے پوچھ لیا کہ آپ ایک غیر مسلم ہیں تو رمضان میں دن کو کھاتے پیتے کیوں نہیں ہیں تو کہا کرتے تھے کہ ادب کا تقاضا یہ ہے کہ ہم افراد معاشرہ کا احترام کرتے ہوئے ان کی مذہبی اقدار کا احترام کریں چنانچہ سید رضی نے کہا۔

ارایت من حملوا علی الا عواد

ار ا یت کیف خبا ضیا ء ا لناد ی

کیا آپ نے دیکھا کہ یہ کون شخص تھا کہ جس کو لوگوں نے تابوت میں رکھ کر اپنے کندھوں پر اٹھا رکھا تھا؟ کیا آپ نے سمجھا ہے کہ ہماری محفلوں کا چراغ بجھ گیا ہے؟ یہ ایک پہاڑ تھا جو گر گیا کچھ لوگوں نے سید رضی پر اعتراض کیا کہ آپ ایک سید، اولاد پیغمبر اور بزرگ عالم دین ہوتے ہوئے ایک کافر کی تعریف کی ہے؟ فرمایا جی ہاں

”انما رثیت علمہ“

”کہ میں نے اس کے علم کا مرثیہ کہا ہے۔“

وہ ایک بہت بڑا عالم تھا، دانشمند تھا میں نے اس پر اس لیے مرثیہ کہا ہے کہ اہل علم ہم سے جدا ہو گیا ہے‘ اگر اس زمانے میں ایسا کیا جائے تو لوگ اس عالم کو شہر بدر کر دیں گے۔ جرجی زیدان کہتا ہے کہ ایک جلیل القدر عالم دین نے حسن اخلاق اور رواداری کا مظاہرہ کر کے اپنی خاندانی عظمت اور اسلام کی پاسداری کا عملی ثبوت دیا ہے۔ سید رضی حضرت علی علیہ السلام کے ایک لحاظ سے شاگرد تھے۔ کہ انہوں نے مولا امیر المومنین علیہ السلام کے بکھرے ہوئے کلام کو جمع کر کے نہج البلاغہ کے نام سے ایک ایسی کتاب تالیف کی کہ جسے قرآن مجید کے بعد بہت زیادہ احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ سید رضی اپنے جد امجد پیغمبر اسلام اور حضرت علی علیہ السلام کی تعلیمات سے بہت زیادہ قریب تھے۔ اسی لیے توکہتے ہیں کہ علم و حکمت جہاں کہیں بھی ملے اس لے لو۔ یہ تھے وہ محرکات کہ جن کی وجہ سے لوگوں میں فکری و نظریاتی اور شعوری طور پر پختگی پیدا ہوئی اورتعلیم و تربیت ، علم و عمل کے حوالے سے جتنی بھی ترقی ہوئی ہے یہ سب کچھ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی مہربانیوں کا نتیجہ ہے۔ پس ہماری گفتگو کا نتیجہ یہ ہوا کہ اگرچہ امام جعفر صادق علیہ السلام کو ظاہری حکومت نہیں ملی اگر مل جاتی تو آپ اور بھی بہتر کارنامے انجام دیتے لیکن آپ کو جس طرح اور جیسا بھی کام کرنے کا موقعہ ملا آپ نے کوئی لمحہ ضائع کئے بغیر بے شمار قابل ستائش کام کیے ۔ مجموعی طور پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ مسلمانوں کے جتنے بھی علمی و دینی کارنامے تاریخ میں موجود ہیں وہ سب صادق آل محمد علیہ السلام کے مرہون منت ہیں۔

شیعہ تعلیمی مراکز تو روز روشن کی طرح واضح ہیں۔ اہل سنت بھائیوں کے تعلیمی و دینی مراکز میں امام علیہ السلام کے پاک و پاکیزہ علوم کی روشنی ضرور پہنچی ہے۔ اہل سنت حضرات کی سب سے بڑی یونیورسٹی الازھر کو صدیوں قبل فاطمی شیعوں نے تشکیل دیا تھا اور جامعہ ازہر کے بعد پھر اہل تسنن کے مدرسے اور دینی ادارے بنتے چلے گئے ۔ان لوگوں کے اس اعتراض (کہ امام علیہ السلام میدان جنگ میں جہاد کرتے تو بہتر تھا؟) کا جواب ہم نے دے دیا ہے ان کو یہ بات بھی بغور سننی چاہیے کہ اسلام جنگ کے ساتھ کبھی نہیں پھیلا بلکہ اسلام تو امن و سلامتی کا پیامبر ہے۔ مسلمان تو صرف دفاع کرنے کا مجاز ہے‘ آپ اسے جہاد کے نام سے بھی تعبیر کر سکتے ہیں۔ امام علیہ السلام کی حلم و بردباری اور حسن تدبرنے نہ فقط ماحول کو خوشگوار بنایا بلکہ لوگوں کو شعور بخشا، علم جیسی روشنی سے مالا مال کر دیا، اسلام اور مسلمانوں کی عظمت و رفعت میں اضافہ ہوا۔

باقی رہا یہ سوال کہ آئمہ طاہرین (ع) عنان حکومت ہاتھ میں لے کر اسلام اور مسلمانوں کی بخوبی خدمت کر سکتے تھے انہوں نے اس موقعہ سے فائدہ نہیں اٹھایاپر امن رہنے کے باوجود بھی ان کو جام شہادت نوش کرنا پڑا؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ حالات اس قدر بھی ساز گار و خوشگوار نہ تھے کہ آئمہ اطہار (ع) کو حکومت و خلافت مل جاتی؟ امام علیہ السلام نے حکمرانوں سے ٹکرانے کی بجائے ایک اہم تعمیری کام کی طرف توجہ دی۔ علماء فضلاء ، فقہاء اور دانشور تیار کر کے آپ نے قیامت تک کے انسانوں پر احسان عظیم کر دیا۔ وقت وقت کی بات ہے آئمہ طاہرین علیھم السلام نے ہر حال، ہر موقعہ پر اسلام اور مظلوم طبقہ کی بھر پور طریقے سے ترجمانی کی۔ حضرت امام رضا علیہ السلام کو مامون کی مجلس میں جانے کا موقعہ ملا آپ نے سرکاری محفلوں اور حکومتی میٹنگوں میں حق کی کھل کر ترجمانی کی اور جیسے بھی بن پڑا غریبوں اور بے سہارا لوگوں کی مدد کی۔ امام رضا علیہ السلام دو سال تک مامون کے قریب رہے۔ اس دور میں آپ سے کچھ نہ کچھ احادیث نقل کی گئیں اس کے بعد آپ کی کوئی حدیث نظر نہیں آتی ۔ دوسرے لفظوں میں مامون کے دور میں آپ کودین اسلام کی ترویج کیلئے کام کرنے کا موقعہ ملا اس کی وجہ مامون کی قربت ہے اس کے بعد پابندیوں کا دور شروع ہو گیا۔ آپ جو کرنا چاہتے تھے وہ بندشوں اور رکاوٹوں کی نظر ہو گیا۔ پھر آپ کو جام شہادت نوش کرنا پڑا۔ جو آپ کے باپ دادا کے ورثہ میں شامل تھا۔

وصلی اللہ علیٰ محمد وآلہ طاہرین

ایک سوال اور ایک جواب

سوال: کیا جابر بن حیان نے ذاتی طور پر امام جعفر صادق علیہ السلام سے علم حاصل کیا تھا؟

جواب: میں نے عرض کیا ہے کہ یہ ایک سوال ہے جو تاریخ میں واضح نہیں ہے ابھی تک تاریخ یہ فیصلہ نہ کر سکی کہ جابر بن حیان نے سو فی صد امام جعفر صادق علیہ السلام سے درس حاصل کیا ہے۔ البتہ کچھ ایسے مورخین بھی ہیں جو جابر کو امام علیہ السلام کا شاگرد تسلیم نہیں کرتے۔ ان کا کہنا ہے کہ جابر کا زمانہ امام علیہ السلام کے بعد کا دور ہے۔ ان کے مطابق جابر امام علیہ السلام کے شاگردوں کا شاگرد ہے۔ لیکن بعض کہتے ہیں کہ جابر نے براہ راست امام علیہ السلام سے کسب فیض کیا ہے ۔ جابر نے ان علوم میں مہارت حاصل کی ہے کہ جو پہلے موجود نہ تھے‘ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ امام جعفر صادق علیہ السلام نے مختلف شعبوں میں اپنے ہونہار شاگرد تیار کیے تھے جس کا مقصد یہ تھا کہ اس سمندر علم سے ہر کوئی اپنی اپنی پیاس بجھا کر جائے۔

جیسا کہ حضرت امیر علیہ السلام نے کمیل بن زیاد سے فرمایا ہے:

”ان ھھنا تعلماً جماً لو اصبت لہ حملة“(نہج البلاغہ قول ۱۳۹)

آپ نے اپنے سینہ اقدس کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا دیکھو یہاں علم کا بڑا ذخیرہ موجود ہے کاش! اس کے اٹھانے والے مجھے مل جاتے۔“ ہاں کوئی تو ایسا ؟جو ذہین توہے نا قابل اطمینان ہے اور دنیا کے لیے دین کو آلہ کار بنانے والا ہے۔ یا جو ارباب حق و دانش کا مطیع تو ہے مگر اس کے دل کے گوشوں میں بصیرت کی روشنی نہیں ہے یا ایسا شخص ملتا ہے کہ جو لذتوں پر مٹا ہوا ہے یاایسا شخص جو جمع آوری و ذخیرہ اندوزی پر جان دئیے ہوئے ہے۔

تبصرے
Loading...