عفت نفس

عفت نفس:انسان کے عظیم ترین اخلاقی صفات میں ایک صفت عفت نفس بھی ہے جس کا تصور عام طور سے جنس سے وابستہ کر دیا جاتا ہے، حالانکہ عفت نفس کا دائرہ اس سے کہیں زیادہ وسیع تر ہے اور اس میں ہر طرح کی پاکیزگی اور پاکدامانی شامل ہے ۔۔ قرآن مجید نے اس عفت نفس کے مختلف مرقع پیش کیے ہیں اور مسلمانوں کو اس کے وسیع تر مفہوم کی طرف متوجہ کیا ہے۔ ”وراودتہ التی ہو فیبیتہا ان نفسہ و غلقت الابواب و قال ہیت لک قال معاذ اللہ انہ ربی احسن مثوای انہلا یفلح الظالمون۔“ (یوسف ۲۳)

”اور زلیخا نے یوسف کو اپنی طرف مائل کرنے کی ہر امکانی کوشش کی اور تمام دروازے بند کرکے یوسف کو اپنی طرف دعوت دی لیکن انہوں نے برجستہ کہا کہ پناہ بخدا وہ میرا پروردگار ہے اور اس نے مجھے بہترین مقام عطا کیا ہے اور ظلم کرنے والوں کے لیے فلاح اور کامیابی نہیں ہے۔“

ایسے حالات اور ماحول میں انسان کا اس طرح دامن بچا لینا اور عورت کے شکنجے سے آزاد ہو جانا عفت نفس کا بہترین کارنامہ ہے، اور الفاظ پر دقت نظر کرنے سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ یوسف نے صرف اپنا دامن نہیں بچا لیا بلکہ نبی خدا ہونے کے رشتہ سے ہدایت کا فریضہ بھی انجام دے دیا اورزلیخا کو بھی متوجہ کر دیا کہ جس نے اس قدر شرف اور عزت سے نوازا ہے وہ اس بات کا حق دار ہے کہ اس کے احکام کی اطاعت کی جائے اور اس کے راستے سے انحراف نہ کیا جائے اور یہ بھی واضح کردیا ہے کہ اس کی اطاعت سے انحراف ظلم ہے اور ظلم کسی وقت بھی کامیاب اور کامران نہیں ہو سکتا ہے ۔ ”للفقراء الذین احصروا فی سبیل اللہلا یستطیعون ضرباً فی الارض یحسبہم الجاہل اغنیاء من التعفف تعرفہم بسیماہم لایسئلون الناس الحافا وما تنفقوا من خیرٍ فان اللہ بہ علیم“ (بقرہ۲۷۳)

ان فقراء کے لیے جو راہ خدا میں محصور کر دیے گئے ہیں اور زمین میں دوڑ دھوپ کرنے کے قابل نہیں ہیں، ناواقف انھیں ان کی عفت نفس کی بنا پر مالدار کہتے ہیں حالانکہ تم انہیں ان کے چہرے کے علامات سے پہچان سکتے ہو، وہ لوگوں کے سامنے دست سوال نہیں دراز کرتے ہیں حالانکہ تم لوگ جوبھی خیر کا انفاق کروگے خدا تمہارے اعمال سے خوب باخبر ہے۔

جنسی پاکدامنی کے علاوہ یہ عفت نفس کا دوسرا مرقع ہے جہاں انسان بد ترین فقر و فاقہ کی زندگی گذارتاہے جس کا اندازہ حالات اور علامات سے بھی کیا جاسکتا ہے لیکن اس کے باوجود اپنی غربت کا اظہار نہیں کرتاہے اور لوگوں کے سامنے دست سوال نہیں دراز کرتا ہے کہ یہ انسانی زندگی کا بدترین سودا ہے۔ دنیا کا ہر صاحب عقل جانتا ہے کہ آبرو کی قیمت مال سے زیادہ ہے اور مال آبرو کے تحفظ پر قربان کر دیا جاتاہے۔ بنابریں آبرو دے کر مال حاصل کرنا زندگی کا بد ترین معاملہ ہے جس کے لیے کوئی صاحب عقل و شرف امکانی حدود تک تیار نہیں ہوسکتا ہے۔ اضطرار کے حالات دوسرے ہوتے ہیں وہاں ہر شرعی اور عقلی تکلیف تبدیل ہو جاتی ہے۔ ”واذا خاطبہم الجاہلون قالو سلاماً“ ۔

”جب جاہل ان سے جاہلانہ انداز سے خطاب کرتے ہیں تووہ سلامتی کا پیغام دے دیتے ہیں“ ”والذینلا یشہدون الزور واذا مروا باللغو مروا کراًام۔“ (فرقان ۷۳)

”اللہ نیک اور مخلص بندے وہ ہیں جو گناہوں کی محفلوں میں حاضر نہیں ہوتے ہیں اور جب لغویات کی طرف سے گذرتے ہیں تو نہایت شریفانہ انداز سے گذر جاتے ہیں اور ادھر توجہ دینا بھی گوارا نہیں کرتے ہیں۔

ان فقرات سے یہ بات بھی واضح ہو جاتی ہے کہ عباد الرحمان میں مختلف قسم کی عفت نفس پائی جاتی ہے۔ جاہلوں سے الجھتے نہیں ہیں اور انھیں بھی سلامتی کا پیغام دیتے ہیں۔ رقص و رنگ کی محفلوں میں حاضر نہیں ہوتے ہیں اور اپنے نفس کو ان خرافات سے بلند رکھتے ہیں۔ ان محفلوں کے قریب سے بھی گذرتے ہیں تو اپنی بیزاری کا اظہار کرتے ہوئے اور شریفانہ انداز سے گذر جاتے ہیں تاکہ دیکھنے والوں کو بھی یہ احساس پیدا ہوکہ ان محفلوں میں شرکت ایک غیر شریفانہ اور شیطانی عمل ہے جس کی طرف شریف النفس اور عباد الرحمان قسم کے افراد توجہ نہیں کرتے ہیں اور ادھر سے نہایت درجہ شرافت کے ساتھ گذر جاتے ہیں۔

 

 

تبصرے
Loading...