عزاداری

قال الحسین علیہ سلام: البکا من خشیة اﷲ نجاة من النار

( امام حسین ں نے فرمایا:خوف خدا میں  رونا انسان کو جہنم سے نجات دلاتا ہے)

ہر صاحب اولادبا لخصوص اور ہر انسان بالعموم اس بات کی تصدیق کر سکتا ہے کہ اگرکسی کو کوئی عزیز چیز کھو جائے بالخصوص جب  مہربان ماں  اپنے بچے کو کھوبیٹھے،زار و قطار رونے لگتی ہے اور اپنی کیفیت کو چلا چلاکرآہ و زاری کرکے بیان کرتی ہے اور جب اسکو وہ مل جاتا ہے اس وقت بھی اس کے آنکھوں  سے ّآنسوں جا ری ہوتے ہیں  اور اس حالت کو خوشی کے آنسوں  کہیں  گے ۔یعنی آنسوں  غم اور خوشی دونوں  کا اظہار ہے ۔جس طرح مقدمہ میں  عرض ہوا کہ رونے کے کئی اقسام ہیں ،اسی طرح اس کے کئی مراحل اور مدارج بھی ہیں  ،رونا چونکہ ایک فطری آلہ اظہار ہے اس لئے اسکے فطری خصوصیات کو درک کرکے اس کے اظہار کو نورانی اور الہی جہت عطا ہوتی ہے۔حضرت امام حسین   نے جس طرح رونے کی ایک صفت یہ بیان فرمایا ہے کہ :]خوف خدامیں روناانسان کو جہنم سے نجات دلاتاہے[اس سے پتہ چلتا ہے کہ رونے کا دوسرا نام لقا اﷲ ہے] اﷲ سے ملاقات[،اﷲ سے ملاقات کی سند یعنی جہنم سے نجات ہے اور امام حسین  کی مظلومانہ شہادت پر رونا لقا اﷲکو سمجھنے اور اس منصب کو حاصل کرنے کا نام ہے،کیونکہ عزاداری ہم کوامام حسین  کی یاد تک ھدایت کرتی ہے اور امام حسین ں کے پاس پہنچ کر امام حسین ہم کو خدا کے نزدیک کرتا ہے۔جب امام حسین  نے عصر عاشورا نعرہ استغاثہ بلند کیا ]ھل من ناصر ینصرنی[تو خیمہ اھل بیت سے رونیکی آواز بلند ہوئی امام بڑی تیزی کے ساتھ خیمہ کے نزدیک ہوتے ہیں  اور ارشاد فرماتے ہیں ‘ابھی تو میں  زندہ ہوں  آپ لوگ کیوں  روتے ہو؟ حضرت زینب ]س[ نے جواب دیا آپ کا استغاثہ سن کر علی اصغر  نے جھولے سے اپنے آپ کو گرایا ۔امام کے استغاثہ کو لبیک کہا ۔امام  کومجاہد بے نظیر اسلام  حضرت علی اصغر  کی ادا پسند آئی،حضرت زینب]س[ سے کہا ان کو میرے پاس لایئے،ان کو بغل میں  لیا بہت پیار کیا، اس اثناء میں  خلیفہ مسلمین کے اعوان انصار کہنے والے یزیدی لشکر سے حرملہ نے حلق حضرت علی اصغر  کو نشانہ بناکر امام حسین ں   کے آغوش میں  ہی شہید کیا،امام حسین  نے حضرت علی اصغر  کو حضرت زینب کے آغوش میں  دیا،چھے مہینے کے حضرت علی اصغر  کے کٹے ہوئے حلق مبارک کے سامنے اپنے دست شفاعت بڑھائے اور خون معصوم کو ہاتھوں  میں  لیا اوراس خون سے اپنے چہرے مبارک کو خضاب کیااسی حالت میں  ایک ایسا جملہ فرمایا جو عرفان الہی کے عالی ترین درجہ کی عکاسی اور مظلومانہ حالت کی مکمل انفرادی مثال ہے ۔امام حسین ں نے فرمایا: ھون علی ما نزل بی انہ بعین اﷲ(خدایا میرے لئے یہ مصیبت آسان ہے کیونکہ تو دیکھ رہا ہے )۔ایک طرف ایک ایسا انسان ہے جو چھے مہینے کے شیر خوار کو ،اسکے رھبر اور باپ کے ہاتھوں  پر تیر سے ذبح کرتا ہے اور اس کام کو اسلام کی نصرت سے تعبیر کرتا ہے ،دوسرے طرف ایک ایسا انسان ہے جو اپنی امت کے شیر خوار اور بیٹیے کی مظلومانہ شہادت کا اس طرح شاہد ہے کہ نذدیک ترین حالت میں  اپنے ہاتھوں  پر شیرخوار کو خون میں  غلطان تڑپ تڑپ کر جان دیتا دیکھتا ہے اور ہر اہل دل انسان کو اس حالت کی طرف مجذوب کرکے خدا کے ساتھ یہ کہہ کر ملاقات کراتا ہے کہ” خدا یا میرے لئے یہ مصیبت آسان ہے کیونکہ تو دیکھ رہا ہے”۔کیا اس حالت کو درک کرنا عبادت نہیں  ہے ۔قرآن کی تفسیر نہیں  ہے،انسان کی معراج نہیں  ہے۔ اس معرفت کو درک کرنا انسان کو جہنم سے نجات دلانے کا وسیلہ بنتا ہے ۔اس حالت کو کسی علمی پیچ و خم کے ساتھ بیان کرنے کی ضرورت نہیں  ہے ۔کربلا کے ایسے حسینی منظر کو پڑھ کر ،یا، سن کر انسان کے وجدان میں  ایسی حالت پیدا ہوتی ہے کہ یا انسان کے آنکھوں  سے آنسوں  یا آہ کی صدا یا غم کی کوئی نہ کوئی حالت ظاہر ہوجاتی ہے ۔جب کھبی کربلائی حسینی، میں  غرق فکر ہوجائیں  تو یہ سوال ضرور ایجاد ہوتا ہے کہ آخرکس چیز نے امام حسینں  کو سکون و اطمنان بخشا۔،ہاتھوں  پر شیر خوار کو بے گناہی کے جرم میں  انسانیت کو لرزانے والی حالت میں  مارا جاتا ہے اور امامں  اظہار اطمنان کرتا ہے ۔اسی طرح جب کوفے کے دربار میں  ابن زیاد مسجد کو اپنا دربار بنائے ہوئے تخت نشین ہو کر کربلا کے اسیروں  کو دربار میں  دیکھ کر خوشی کا اظہار کرتا ہے مگر ایک خاتون کو دیکھ کر ،جو کہ اسیر ہو کر بھی فاتحانہ تیور کے ساتھ نمایاں  دکھ رہی تھی ،تعجب کے حالت میں  سوال کیا کہ یہ خاتون کون ہے ۔اسکو بتایا گیا کہ یہی علی]ع[ اور فاطمہ ]س[ کی بیٹی زینب ]علیہا سلام [ہے۔ابن زیاد نے حضرت زینب سے مخاطب ہو کر کہا:” ]نعوذبا اﷲ[الحمد ﷲ الذی قتلکم۔۔۔۔ ابن زیاد، اھل بیت رسول ]ص[ کو اسیر بناکر شکر خدا بجا لاتا ہے کہ خدا نے نملوگوں  کو قتل کیا، ذلیل کیا ، تمہارے باپ]حضرت علی[ کے جھوٹ کو بر ملا کیا۔وغیرہ ۔۔۔نعوذبا اﷲ۔ ایسے ایسے الفاظ استعمال کرتاہے جسے سن کر ثانی زہر زینب پر کیا بیتی ہو گی خدا جانتا ہے۔حضرت زینب کا ابن زیاد کو جواب ،کربلا کے عرفانی مقامات میں  سے ایک وہ مقام ہے جسکی تعبیر صرف عارف ربانی اور اہل دل انسان ہی بتا سکتے ہیں ۔حضرت زینب ]س[ کا ابن زیاد کو دندان شکن جواب، جو جتنا ،متین ہے اتنا ہی انقلاب آفرین:” ما رائت الا جمیلا” اے ابن زیاد کربلا سے کوفے تک ہم نے صرف نیکی دیکھی ہے۔ایک طرف امام حسین ہاتھوں  میں  چھے مہینے کے علی اصغر کا خون چہرے کو مل کر اسے آسان مصیبت کا نام دیتا ہے تو دوسری طرف شریکة الحسین زینب ]س[تمام مصائب کو خوبصورتی کا نام دیتی ہے تو معلوم ہوتا ہے جو ہم دیکھ رہیں  اسکو امام حسین  اور انکے اعوان انصار نہیں  دیکھ رہیں  ہیں ۔ہم ظلم باطل کو دیکھ رہیں  ہیں  اور وہ جلوہ حق کو دیکھ رہے ہیں اور اس جلوہ حق کو دیکھنے کیلئے رونا وہ وسیلہ ہے جو انسان کو عالی مقام حاصل کرنے کی سعادت عطا کرتا ہے۔جس طرح میں  ایسے مقامات کی نشان دہی ہوئی ہے از جملہ:و اذا سمعوا مآ انزل الی الرسول تری أعینھم تفیض من الدمع مما عرفوا من الحق یقولون ربنا أمنا فا کتبنا مع الشٰھدین(اور جب اس کلام کو سنتے ہیں  جو رسول پر نازل ہوا ہے تو تم دیکھتے ہو کہ ان کی آنکھوں  سے بے ساختہ آنسو جاری ہو جاتے ہیں  انہوں  نے حق کو پہچان لیا ہے اور کہتے ہیں  کہ پروردگارا ہم ایمان لے آئے ہیں  لہذا ہما نام بھی تصدیق کرنے والوں  میں  درج کرلے)]٥:٨٣[عزاداری امام حسین  انسان کو اس مقام تک پہنچاتی ہے۔یہ فطری آلہ ہے جب اس میں  فطری رنگ ملتا ہے اسکا اثر بھی فطری ہوتا ہے اور امام حسین  کی شہادت پر رونے پر تاکید اسی پیغام کی عکاسی ہے کہ امام  کی شہادت فطری خصلت کو زندہ  رکھنے کے جرم میں  وجود میں  آئی ہے اگر اسلامی نقطہ سے دیکھا جائے کلیات بیان ہوا ہے” کل مولود یولد علی الفطرہ” ( ہر مولود فطرت توحید پر متولد ہوتا ہے) غریضہ فطری کو زندہ رکھنے کیلئے اور انسان کو کمال تک پہچانے کیلئے پیغمبر اسلام]ص[ مبعوث ہوئے ہیں اور قرآن اس ادعی کابین نمونہ ہے۔اور جب اسی فطرت کو مٹانے کا اقدام معاویہ نے اپنے بیٹے یزید کو قرآن کا محافظ اور مسلمانوں  کا خلیفہ بناکر کیا ،اس وقت ہر خدا شناس پر فرض بنتا تھا کہ خدا شناسی کے پرچم کو زندہ رکھنے کیلئے یزید کے اعمال کے ساتھ اظہار برائت کرے۔کیونکہ معاویہ نے خدا شناسی کے لباس میں  خدا شناسی کی روح ختم کی تھی اس لئے یزید مسلمانوں  کا خلیفہ بنا اور پورے عالم اسلام میں  اسلام ناب محمدی ]ص[ کے چندمحافظ امام حسین ں کی قیادت میں  یزید کی خلافت کے منکر کے طور پر سامنے آئے۔امام حسین ں نے یزید کو خلیفہ مسلمین تسلیم نہ کرنے کی دلیل یوں  بیان فرمائی ہے:

” انی لم اخرج اشراً ولا بطراً ولا مفسداً ولا ظالماًو انما خرجت لطلب الاصلاح فی امة جدی ارید ان آمر بالمعروف و انھی عن المنکر و اسیر بسیرة جدی و ابی علی ابن ابیطالبں ”(میں  اقتدار ا، خودخواہی یا عیاشی اور فساد اور ستمگری کیلئے مدینہ سے خارج نہیں  ہو رہا ہوں  بلکہ اس سفر سے میرا مقصد امر با المعروف ،نہی عن منکر کرناہے میں  چاہتا ہوں  فاسد مت کی اصلاح اوراپنے جد بزرگوار رسول خدا ]ص[کی سنت اور اپنے والد علی ابن ابیطالب  کی سیرت کو زندہ کروں )

ظاہر سی بات ہے امام حسین  کے چاہنے والے پر فرض بنتا ہے کہ اس انسان سازی مکتب ]کربلا[ کے اصلی خد و خال کو بیان کرنے کا اہتمام کرے۔عصر حاضر جو کہ عصر امام حسین سے کئی اعتبار سے مختلف نہیں  ہے ،عزاداری امام حسین  کو اس طرح قائم کرنا ہے کہ جس سے اسکے اسم ورسم دونوں  پیام کربلا کو صبغة اﷲ میں  ظاہر کرے۔کیونکہ آج امریکا کا صدر بوش بھی امام حسین کے پیغام کے ساتھ استحصال کر رہا ہے ۔کہتا ہے کہ’ میں  دنیا میں  امن اور سلامتی کیلئے جنگ کررہا ہوں  نہ کہ قدرت حاصل کرنے کیلئے’!اس طرح دنیا کا سب سے خونخوار درندہ بوش ، امام حسین کے الفاظ استعمال کر کے انسانیت کو نابودی کی طرف دکیل رہا ہے اس لئے اس حساسیت کو سمجھنا ہے اور بوش اور امام حسین  کے پیغام کے مفہوم کو عام اذہان کیلئے روشن کرنا ہے کہ کس کا دعوی کیا ہے۔کیونکہ امام حسین  اب مسلمانوں  کیلئے محدود نہیں  رہا اس لئے عزاداری امام حسین  کو زینب وار ادا ہونا ہے۔تلہ زینبیہ پر چڑھ کر چلانا ہے” اسلام علیک یا رسول اﷲ،صلی علیک رب  ملائکة السمائ، ھذا حسینک مرمل بدمائ، مقتع اعظائ، مسلوب عمامة رو ردا” دربار یزید میں  ” ما رائت الا جمیلا ”کا تفسیر بیان کرنا ہے۔جس طرح زینب ]س[ نے ہر فرصت کو مناسب انداز میں  ادا کیا اور اپنے کسی عادت میں  بدلاو آنے نہ دیا از جملہ یہ کہ صبح عاشورا،معمول کے مطابق بچوں  کو قرآن پڑھایا ، یا شام غریبا دسویں  محرم کی رات بھی نماز شب قضا نہ کیا۔ وغیرہ۔۔۔عزاداری امام حسین  اس طرح قائم کرنا ضروری ہے کہ امام حسین زمان ولی فقیہ حضرت آیت اﷲ العظمیٰ خامنہ ای اور یزید زمان امریکی صدر جارج بوش کی درمیاں  اختلاف اور اھداف دنیا کیلئے روشن ہوجائے۔یہ کام تبھی پاک اور خالص بنا رہے گا جب تک ہم عزاداری کے سب سے مہم عنصر یعنی اشک ماتم سے پیغام حسینی  کی تبلیغ کرتے رہیں  گے جو کہ مؤمن کا گہوارہ ہے استکبار کا نہیں ۔استکبار کھبی بھی اشک ماتم سے اپنے اھداف کی ترجمانی نہیں  کر سکتا۔اگر کرے بھی اسکی مکر دائمی نہیں  ہو سکتی۔ اس کے مقابلے میں  عاشقان الہی ہیں  اپنی قربت کا اظہا ر آنسوں  بہانے سے کرتے ہیں ۔قرآن اور دنیا کے جملہ تواریخ اس بات کے شاہد ہیں ۔

نتیجہ:

عزاداری امام حسین  عرفان الہی اور انسان سازی کا مکتب ہے اس کو زندہ رکھنا قرآن اور سنت کی ضمانت ہے اورگریہ کے ساتھ عزاداری کرنا اثر انداز اور مطلوب طریقہ ہے۔ عصر حاضر چونکہ یزیدیت سے بھرا پڑا ہے اسلئے کل یوم عاشورا و کل ارض کربلا کے شعار کو سمجھنا اور اسکو لبیک کہنا امام حسین  کے چاہنے والوں  کیلئے شعار ہونا چاہئے تاکہ کل منجی عالم بشریت آقا امام زمان عج کے رکاب میں  شریک ہو سکیں ۔

تبصرے
Loading...