عالم اسلام کے لئے وھابیت کے بدترین تحفے وھابیت کا مسلمانوں کے خلاف کفر کا فتویٰ

وھابیوں کے اھم اور دلنشین ( اپنی دانست میں ) نظریوں میں سے ایک نظریہ مسلمانوں کو کافر اورمشرک سمجھنا ھے ، اس نظریہ نے عالم اسلام اور تمام مسلمانوں میںبہت ھی برے اور ناگوار اثرات ڈالے ھیںجن کے نتائج بے انتھا ناگوار ثابت ھوئے ، مذکورہ نظریہ کو اسلام دشمن طاقتیں ایک خطرناک اور نھایت مھلک حربے کے طور پر استعمال کررھی ھیں ، وھابی خود کو موحد اور مسلمان تصور کرتے ھیں جبکہ تمام دوسرے مسلمانوں کو کافر اور مشرک سمجھتے ھیں یہ لوگ تعصب کی بنا پر اپنی گمراھی، کج فکری اور بدعتوںکو بھی دینداری سمجھ کر تمام مسلمانوں پر کفر وگمراھی کے فتوے لگاتے ھیں، اور اس طرح وھابیوں نے امّت اسلامیہ کے پیکر پر ضربیں لگائی ھیں ، چنانچہ یہ فتوے اتحادبین المسلمین کی راہ میں مانع اورایک محکم دیوار ثابت ھوئے ھیں، اسی بناپر مسلمان، اسلام دشمن طاقتوں کے سامنے متحد نہ ھوسکے ۔

اس حقیقت کو ثابت کرنے کے لئے کہ وھابیوں کی فکر اور طریقہ کا رکی کوئی بنیاد نھیں ھوتی  اور نہ ھی ان کے فتوےٰ قرآن و سنت کے مطابق ھوتے ھیں،بلکہ یہ بایتں قطعاً قرآن و سنّت کے خلاف ھونے کے ساتھ ساتھ خطرناک اور تباہ کن بھی ھیں ،اس موضوع سے متعلق پھلے ایک مختصر سی بحث کرتے ھیں اور پھر سنی و شیعہ علماء کے فتووں کو پیش کریں گے ، او رآخر میں اس منحرف اور گندی فکر کے خطرناک ، مضّر اور دکھ دہ نتائج کا جائزہ لیں گے ۔

وھابی حضرات قرآنی توحید کے بارے میں ایک غلط نتیجہ گیری نیز مسائل اعتقادی کے متعلق غلط طرز تفکر کی بناپر تمام مسلمانوںکوجو انھیں کی طرح اسلام کا دم بھرتے ھیں ،کافر و مشرک سمجھتے ھیں اور ان کو مکہ مدینہ اور مسلمانوں کے دوسرے مقد س مقامات پر طعن و تشنیع کا نشانہ اور طرح طرح سے اذیت و آزار پھنچاتے ھیںاور ظلم وتجاوز سے باز نھیں آتے ، ان کا یہ کام سوفیصد خدا و رسول(ص)کی مرضی کے خلاف ھے ،ان کا مقصد مسلمانوں سے دشمنی ھے چونکہ وہ مسلمانوں کو اپنے سے الگ شمار کرتے میں اس لئے کہ وہ باتیں جنکی نسبت وہ اپنے علاوہ دوسروں کی جانب دیتے ھیں اور ان پر ظلم و تشدّد کو جائز سمجھتے ھیں نہ تو اس کی کوئی دلیل قرآن میں موجود ھے اور نہ ھی نبی اکرم(ص)  کی سنّت میں اسکا کوئی جواز ھے، انکا یہ عمل در حقیقت قرآن و سنت کے سراسر خلاف ھے۔

تعجب اس بات پر ھوتا ھے کہ ان تمام چیزوں کے با وجود ، وہ اپنے آپ کو اھل سنّت سمجھتے ھیں ،جبکہ واقعی اھل سنّت وہ حضرات ھیں جو گفتار و کردار میں سنّت پیغمبر(ص) اور رسول(ص)کے بتائے ھوئے راستے پر عمل پیراھوں، حالانکہ مسلمان علماء اعلام اور اسلامی پیشواؤں کی سیرت سے قطع نظر فقط سنّت اور و ہ شریعت محمدی(ص) جو تمام مسلمانوںکے لئے عمومی حیثیت رکھتی ھے، وھابیوں کے اس طرز تفکر کے خلاف ھے اور ان کے اعمال اور افکار کو مردود اور قابل مذمت بھی شمار کرتی ھے ۔

ابن تیمیہ ” منھاج السنة “ کی تیسری جلد کے ۱۹ویں صفحہ پر ان اشکالوں کو جواب دیتے ھوئے جو اس پر اس کے ھم مذھب اھل سنّت حضرات نے کئے ھیں لکھتا ھے ،( مذکورہ امور میں سے بہت سے امور کو گناہ کی فھرست سے خارج کرنے پر عذر شرعی ھے ، اور یہ ان اجتھادی مسائل میں سے ھیں جن میں اگر مجتھد واقعی حکم تک دست رسی پیدا کرے تو دو اجر وثواب ھے اور اگر واقعی حکم کو بیان کرنے میںخطا کرے تو ایک اجر ھے، اکثر وہ باتیں جو خلفاء راشدین سے منقول ھیں،  وہ اسی باب سے تعلق رکھتی ھیں )

ابن تیمیہ نے اپنی اس گفتار میں اس حدیث پر نظر رکھی ھے کہ جس حدیث کو بخاری نے اپنی کتاب ” صحیح بخاری “ میں عمر و بن عاص سے روایت کی ھے عمربن عاص کہتا ھے کہ رسول خدا(ص) نے فرمایا : ”جب کوئی حاکم شرعی کسی مسئلہ میں اجتھادکرے اور اسکے مطابق حکم صادر کرے اگر بیان   شدہ حکم، واقعی حکم کے مطابق ھو، تومجتھد کے لئے دو اجر و ثواب ھےں اور اگر مجتھد نے اجتھاد میں خطا کی ھے تو ایک اجر ملے گا “

اور پھر ابن تیمیہ ، اس کتاب کے بیسویں صفحہ پر لکھتا ھے کہ گذشتہ علماء، مفتی ، مراجع جیسے ابوحنیفہ ، شافعی ، ثوری ، داود بن علی اور دیگر مجتھدوںنے بیان کیا ھے کہ وہ مجتھد جو حکم شرعی کو بیان کرنے میں غلطی کرتے ھیں گناھگار نھیں ھیں غلطی اصول میں سے ھوںیا فرعی مسائل میں سے، جیسا کہ ا بن حزم نے مذکورہ بالا علماء  اور دوسروں سے نقل کیا ھے ۔

اسی وجہ سے ابوحنیفہ ، شافعی ،اور دوسرے علماء ( فرقہ حطابیہ کے علاوہ ) نفس پرست افراد کی گواھی قبول کرلیتے تھے ، ان کے پیچھے نماز پڑھنا صحیح سمجھتے تھے حالانکہ کافر کی گواھی مسلمانوںکے یھاں قبول نھیں ھے اوراسی طرح کافرکی اقتداء بھی صحیح نھیں ھے ۔

گذشتہ زمانے کے بزرگ علماء نے فرمایا ھے کہ ” بزرگ صحابہ ، تابعین اور دینی پیشوا کسی مسلمان کو کافر یا فاسق نھیں کہتے تھے اور اس مجتھد کوجو حکم کو بیان کرنے میں اجتھادی خطا کامرتکب ھوجائے ، گناھگار شمار نھیں کرتے تھے چاھے خطا علمی مسائل میں ھویا فقہ کے فرعی مسائل میں “

ابن حزم اُندلُسی اپنی کتاب ” الفِصَل “ کے تیسرے حصہ میں صفحہ ۲۴۷ پر(یہ کتاب اسلامی مذاھب کے عقائد کے متعلق لکھی ھے ) لکھتا ھے کہ ” علماء کے ایک گروہ کا عقیدہ یہ ھے کہ اگر کوئی مسلمان اعتقادی مسائل یا شرعی مسائل یا فتویٰ دینے میں اجتھادی خطا کرے تو  اسکو کافروفاسق شمارنھیں کیا جائیگا اور اگر کوئی شخص اجتھاد کرے او راپنے اجتھاد کردہ مسئلہ کو حق تصور کرے تو ایسے شخض کو ، ھر حال میںاجرملے گا ، اب اگر اسکا نظریہ واقعی حکم کے موافق ھے تو دو اجر ، اور اگر خطا کی ھے تو ایک اجر بھرحال ملے گا “[1]

وھابیت کا مسلمانوں کی جان و مال اور ناموس کی بے حرمتی کرنا

ان تمام مذکورہ بزرگ علماء کے نظریات اور اقوال جن کو وھابی بھی بزرگ مانتے ھیں اور ان کے نظریات کو تسلیم کرتے ھیں اور ان کتابوں کوسند کا درجہ دیتے ھیں ، مد نظر رکھتے ھوئے ھم اھل سنّت کے دعوے دار وہّابی فرقے سے یہ سؤال کرتے ھیں کہ اگر وہ سب باتیں جو تمھارے بزرگوں نے بیان کی ھیں ، دینی امور میں تمھارے عمل کی اصل اساس او ربنیاد کا درجہ رکھتی ھیںتو پھر کس شرعی دلیل کی بناپر ان تمام مسلمانوںکے فرقوں کو جوتمھارے مسلک کے موافق نھیں ، کافر ومشرک سمجھتے ھو ؟او ران پر ھر طرح کی سختی ،اذیت اور ظلم و تشدّد کو جائز سمحھتے ھو ؟ نیز ان کے ملک اور سرزمین کو کافر حربی کی سرزمین کے مانند خیال کرتے ھو ؟ حالانکہ خداوند عالم فرماتاھے : ”تمام مومنین آپس میں بھائی بھائی ھیں ۔

اور دوسری جگہ ارشاد ھوتا ھے: ” ان نعمتو ں کو یاد کرو جو خدا نے تمھیں عطا کی ھیں جب تم آپس میں ایک دوسرے کے دشمن تھے او رخداوندعالم نے تمھارے دلوں کو ملادیا اور اس طرح نعمت خدا سے تم ایک دوسرے کے بھائی ھوگئے ۔

پھر ارشاد فرماتا ھے : ” ھم نے مومنوں کے دلوں سے ھر طرح کی کدورتوں کو نکال پھینکاھے تاکہ مومنین آپس میں بھائی بھائی ھو جائیں اور جب ایک دوسرے سے ملاقات کریں توخوشی کا احساس کریں ۔

اور دوسری جگہ پر ارشاد ھوتاھے:  ” جن لوگوں نے ایمان قبول کیا اور نیک کام انجام دے خدا ان سے محبت کرتا ھے “ ۔

اور ایک جگہ یہ فرماتا ھے:  ” اگر وہ توبہ کریں نماز پڑھیں او رزکواة ادا کریں تو وہ تمھارے دینی بھائی ھیں اس طرح ھم اپنی آیتوں کو ان کے لئے بیان کرتے ھیں جوجاننا چاہتے ھیں یا جاننے کے خواہشمندھیں ۔

پیغمبر اسلام (ص) کی معتبر حدیثوں میں بیان ھوا ھے کہ ” اگر کوئی الله کی وحدانیت او رمحمد(ص)کی نبوت کی گواھی دے اسکی جان و مال اور عزت و آبرو محترم ھے اور ھر طرح کے تجاوز سے محفوظ ھے “

صحیح بخاری میں ایک روایت عبداللهبن عباس ۻسے نقل ھوئی ھے کہ جسوقت معاذبن جبل کو یمن بھیجا تو آنحضرت(ص)نے ارشاد فرمایا ” بہت جلد اھل کتاب( یھود ونصاریٰ) سے ملاقات کروگے، جس وقت ان کے پاس  پھونچ جاؤ تو ان کو اسلام کی دعوت دینا کہ وہ خداکی وحدانیت یعنی لاالہ الاالله اور رسول(ص)کی رسالت کااقرار کریں ، اگر انھوں نے تمھاری اس بات کو قبول کر لیا تو پھر ان سے یہ کھنا کہ خدائے یکتا نے تم پر ھرروز پانچ وقت نماز کو واجب کیا ھے اگر اسکو بھی قبول کرلیں توپھر ان سے کھنا کہ خدا نے تم پر زکوٰةادا کرنا واجب کیا ھے اور ان کے مالداروں سے زکوٰة وصول کرکے ان کے غریب افراد میں تقسیم کردینا اگر اس بات کو بھی مان لیں تو پھر ان کے اموال پر کوئی تعرّض یا تجاوز نہ کرنا چو نکہ پھر ان کے اموال محفوظ ھیں “

اس طرح کی ایک اور روایت بخاری نے ابن عباسۻ سے نقل کی ھے کہ جب پیغمبر(ص) نے لوگوں کو خدائے یکتا پرایمان لانے کا حکم دیا تو ارشاد فرمایا ” کیا تم جانتے ھو کہ خدا پر ایمان لانے کامطلب کیا ھے “ لوگوں نے جواب دیا ، خدا او ر اسکا رسول(ص)بہتر جانتے ھیں ، تب آنحضرت(ص) نے ارشاد فرمایا ” خدائے وحدہ لاشریک پر ایمان لانا یعنی اس بات کی گواھی دیں کہ خدا ئے یکتا کے علاوہ کوئی خدا اور معبود نھیں اور محمد(ص) الله کے رسول(ص) ھیں اور نماز پڑھیں ،زکوٰة دیں ، ماہ رمضان میں روزہ رکھیں اور جو بھی مال غنیمت حاصل ھو  اس میں سے خمس ادا کریں “

اسی کتاب خدا سے آشنا ئی اور سیدالمرسلین کی شریعت سے آگاھی رکھنے والو! ذرا انصاف سے بتاؤ کہ کیا اھل حق او رتمھاے مسلمان بھایئوں سے وھابیوں کی عدالت اور دشمنی ، احکام الٰھی کی حدودسے تجاوز اوران کو پائمال کرنا نھیں ھے ؟!

قارئین محترم کو یاد دھانی کرانے کی ضرورت نھیں کہ مذھب اسلام اور وہ شریعت جو خدا کے منتخب بندے حضرت محمد(ص) پر خدا کی جانب سے نازل ھوئی ھے ، وھابی فرقے کے اعمال ، کردار اور غلط رویّہ کے سراسر خلاف ھے ، وھابیوں کو یہ بتا دینا ضروری ھے کہ خداوند عالم کا حکم ھے:

” اَفَحُکمُ الجَاہِلِیّةِ یَبغُونَ وَ مَن اَحسَنُ مِنَ اللهِحُکماًلِقَومٍ یُوقِنُونَ“[2]

”کیا ایام جاھلیت کے طور طریقوں کی پیروی کرتے ھو ؟ خداوند عالم کی شریعت اوراحکام جن کو خدانے مومنوںکے لئے  نازل فرمایا ھے ، کیا اس سے بہتر کوئی شریعت ھے“

اس لئے اگر کوئی اپنی جانب سے کوئی حکم بیان کرے تو گویا اس نے اپنی خواہشات نفسانی کی پیروی کی اور ایسا کرنے سے خداوند عالم نے اپنے نبی(ص) کو بھی روکا اورمنع فرمایا ھے ، خداوند عالم فرماتا ھے ”وَلَا تَتَّبِعِ الہَوَیٰ “ خواہش نفسانی کی پیروی نکرو ، اور خداوند عالم کا حکم ھے کہ فقط ھمارے نازل کردہ قانون کے مطابق عمل کرو ۔

لہٰذا اگر کوئی شخص خدا کے اس حکم پر عمل نکرے تو اس نے خدا کے حکم سے سرپیچی کی ھے وہ بھی ایسی حالت میں کہ جب حق اس کے لئے ظاھر اور آشکار ھوگیا ھو اور حقیقت کی علامتوں کو دیکھ رھاھو“[3]

وھابیوںکاخدا کے حکم کی نافرمانی کرنا

بھر حال حق کی پیروی کا معیار یہ ھے کہ جو بھی قرآن نے حکم دیا اس کو تہہ دل سے قبول کرےںاور اس پر سر تسلیم خم کردےں ،ورنہ اس طرح سے تو ھر فرقہ اپنے آپ کو حق پر سمجھتا ھے اور دعویدار ھے کہ انصاف اور احسان کی راہ پر گامزن ھے جیسا کہ یہ طریقہ نادان اور جاھل افراد کے یھاں رائج ھے بالکل ویسے ھی وھابیت کے روز مرّہ کا معمول بن چکاھے ، چونکہ وھابیوں کے ملاّ اور مفتی اور دین کے بزرگان اکثر اوقات اپنی عادت اور خواہشوں کے مطابق فتویٰ دیتے ھیں نہ کہ قرآن اور پیغمبر(ص)کی سنّت کے مطابق ۔

اس لئے اس آیہٴ شریفہ کا مضمون وھابی فرقہ پر صادق آتاھے:

” اگر انھوں نے حق سے روگردانی کی تو اے پیغمبر جان لیجئے کہ خدا یھی چاہتا ھے کہ وہ لوگ اپنے بعض گناھوں میں مبتلا ھوجائیں چونکہ ان میں سے بہت لوگ فاسق ھیں“

اور اس آیہٴ شریفہ کا مضمون بھی انھیں کے حال پر صادق آئے گا :

” وہ لوگ جو خدا کے نازل کردہ (قرآن ) کے مطابق حکم نھیں کرتے ،فاسق ھیں“۔

یہ بھی اس صورت میں ھے کہ جب خدا اور رسول کی مخالفت کو جائز نہ سمجھتے ھوں ورنہ اگر جائز سمجھیں تو کافر ھو جائیں گے جیسا کہ خداوند عالم کا ارشاد گرامی ھے ” وہ لوگ جو خدا کے نازل کردہ قانون کے مطابق حکم نھیں کرتے ، وہ کافر ھیں“۔

ھاں البتہ اگر فرض کریں کہ مسلمان آپس میں کسی مسئلہ سے متعلق اختلاف یا نزاع کریں تو ان پر واجب ھے کہ اس اختلافی موضوع کوخدا اور رسول(ص) پر چھوڑ دیں جیسا کہ خداوند عالم نے ارشاد فرمایا ھے کہ” اگرکسی چیز کے بارے میں نزاع اور اختلاف رکھتے ھو تو خدا اور رسول(ص)کی طرف رجوع کرو اگر خدا اور روز آخرت پر ایمان رکھتے ھو ۔

اور دوسری جگہ پر فرماتا ھے ” جب بھی کسی چیز کے متعلق  شدید اختلاف نظر ھو جائے تو اس کے حکم کو خدا اور اسکے رسول پر چھوڑدو“ مندرجہ بالا مطلب کو مد نظر رکھتے ھوئے یہ نتیجہ نکلتا ھے کہ اگر کوئی مسلمانوں کے قول میں سے کسی ایک فرقے کے اعتقاد کا مسخرہ اور مذاق اڑائے نیز اس پرلعن و طعن کرے اور کفرو الحاد سے نسبت دے تویہ سب اور اس طرح کے دوسرے کام مسلمانوں کے درمیان اختلاف پھیلانا اور تفرقہ اندازی ھے حس سے خداوند عالم نے اس آیہٴ کریمہ میں منع فرمایا ھے:

” جن لوگوں نے اپنے دین میں تفرقہ پھیلا یا اور مختلف فرقوںمیں تقسیم ھوگئے ایسے لوگوں سے کوئی امید نہ رکھو“ ۔

اور فرماتا ھے ” اے ایمان لانے والوں خدا کو اس طرح پہچانو جیسا کہ پہچاننے کا حق ھے اور ایسے کام کرو کہ جب تم مرو تو با ایمان مرو“

اور اس آیہٴ شریفہ میں ارشاد ھواھے ” ان لوگوں کے مانند نہ ھوجاؤ کہ جو لوگ مختلف فرقوں میں تقسیم ھوگئے اور اللہ کی طرف سے روشن اور واضح دلائل آنے کے باوجود آپس میں اختلاف کر بیٹھے چونکہ ان کے انتظار میں ایک عظیم عذاب موجود ھے“۔

قارئین محترم ! جیسا کہ آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ خداوند عالم با ایمان لوگوں کو حکم دیتا ھے کہ اس کی رسیّ (دین) کو مضبوطی سے پکڑلیں اور تفرقہ اندازی سے پرھیز کریں“ اور اپنی رسّی کو مضبوطی سے تھام لینے کی تفسیر بھی یہ کی ھے اسکے دین کو قبول کریں اور اسپر ایمان لے آئیں ۔

اس میں کوئی شک نھیں کہ اس آیہٴ شریفہ کی روسے اللہ کا پسندیدہ دین فقط سلام ھے:

” اِنَّ الدِّینَ عِندَ اللّٰہِ الاِسلاَم “( بیشک خدا کا پسندیدہ دین اسلام ھے)  اسلام ایمان بھی ھے جیسا کہ اس بات کی تفسیر کلمہ شھادتین میں ھوئی ھے ( یعنی لا الہ الاّ اللّٰہ و محمد رسول اللّٰہ )،اس بنا پر بھی مسلمان ایک ھی دین کے ماننے والے ھیں خداوند عالم نے مسلمانوں کے لئے کچھ حدیں معین کردی ھیں جن سے تجاوز کرنا جائز نھیں ، اس طرح خداوند عالم نے مسلمانوں پر ظلم و ستم کرنا حرام قرار دیا ھے نیز مسلمانوں کی جان و مال اور ناموس پر تجاوز اور تعرّض کوبھی ایک دوسرے پر حرام کیا ھے،صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں ھے کہ پیغمبر اسلام(ص)نے حجة الوداع کے موقع پر ارشاد فرمایا ”تمھاری جان و مال و عزت اور ناموس ایک دوسرے پر حرام ھے جیسے کہ آج تم لوگ محرم ھو،اور احرام حج باندھے ھوئے ھو اس محترم مھینہ ( ذی الحجہ) اور اس محترم شھر مکہ میں تمھاری جان و مال و عزّت اور آبرو نیز ایک دوسرے کا خون بھانا حرام ھے پھر آپ نے سب لوگوں سے پوچھا:

”کیا میںنے تم لوگوں تک اسلام کا پیغام نھیںپھونچا یا؟  آگاہ ھو جاؤ اور حاضرین ، غائبین کو مطلع کریں“صحیح بخاری میں یہ روایت مختلف راویوں سے نقل ھوئی کہ رسول اکرم(ص) نے حجة الوداع کے موقع پر ارشاد فرمایا: ” غور سے دیکھو اور توجہ سے سنو اور اسلام کے حقائق اور معارف کو خوب اچھی طرح سمجھو“ کھیں ایسا نہ ھو کہ میرے بعد کافر ھو جاؤ اور ایک دوسرے کے خون کے پیاسے بن جاوٴ۔

اس مقدمہ کو بیان کرنے سے ھمارا مقصد یہ ھے کہ یہ ثابت کریں کہ وھابیوں کے کارنامے اور اعمال کتاب و سنّت کے خلاف ھیں چونکہ قرآن اور سنّت کافرمان ھے کہ مسلمان کو دوستی و محبت کی فضا ھموار کرنی چاہئے نہ یہ کہ مسلمانوں کے درمیان نفرت کا بیج بوئیں اور ان کے درمیان دشمنی ایجاد کریں ان میں سے بعض کو کافر شمار کریں اور مارپیٹ اور برا بھلا کہہ کرظلم و تجاوز کریں ھم اسکے علاوہ وھابیوں سے اور کچھ نھیں کھنا چاہتے :” تِلکَ آیَاتُ اللّٰہِ نَتلُوہَا عَلَیکَ بِالحَقِّ“[4] ،[5]

مسلمانوں کی بے ا حترامی اور ان کی تکفیر سے متعلق اسلام کا صاف اور صریح موقف

اب ھم قارئین کرام کی مزید معلومات کے لئے نیز موضوع کی اھمیت کا لحاظ کرتے  ھوئے مسلمانوں کو کافر بتانے کے متعلق ایک عمیق اور تفصیلی بحث پیش کرتے ھیں اور اس بحث میں فریقین کے علماء کے نظریات کا بھی جائز ہ لیں گے تا کہ مؤثر اور مفید ھو۔

اسلامی روایات کو پیش نظر رکھتے ھوئے یہ نتیجہ نکلتا ھے کہ اگر کوئی کلمہٴ شھادتین زبان پر جاری کرے اورمسلمان ھونے کا دعویٰ کرے تو اسے کافر کھنا جائز نھیں اور فریقین کے اصلی مدارک  میں اس موضوع سے متعلق بہت سی روایات نقل ھوئی ھیں جن میں مسلمانوں کو کافر کھنے سے منع کیا گیا ھے نیز ایسا کھنے یا کرنے والے کی مذمت کی گئی ھے یھاں تک کہ بعض روایات میں تو کافر کھنے والے کو ھی کافر بتایا گیا ھے ان میں سے بعض آیات و روایات کی طرف ھم اشارہ کرتے ھیں۔

خداوند عالم قران مجید میں ارشاد فرماتاھے:

” وَ لَا تَقُولُوا لِمَن اَلقَیٰ اِلَیکُم السَّلاَمُ لَستَ مُؤمِناً “[6]

( جو شخص بھی اسلام کا دعویٰ کرے اس سے یہ نہ کھو کہ تم مسلمان نھیں ھو اس آیہٴ شریفہ کے شان نزول کے متعلق لکھا گیا ھے کہ پیغمبر اسلام(ص) نے ” اسامہ بن زید“ کو ان یھودیوں کی طرف بھیجا کہ جو فدک کی کسی آبادی میں زندگی بسر کررھے تھے تا کہ ان کو اسلام کی دعوت دیں یا کافر ذمّی کے عنوان سے خراج دینے کے شرائط کو قبول کرنے کی دعوت دیں ایک  ”مرد اس“ نامی یھودی ، خدا کی وحدانیت نیز پیغمبر(ص)  کی رسالت کی گواھی دیتے ھوئے مسلمانوں کے استقبال لئے بڑھا لیکن اسامہ نے اس کے اسلام کو فقط زبانی اسلام ( لقلقہ زبانی) خیال کرتے ھوئے قتل کرڈالا ، اور اسکے مال کو مال غنیمت کے طور پرلے لیا ،اورجب یہ خبر پیغمبر اسلام(ص) تک پھونچی تو آپ بہت رنجیدہ اور ناراض ھوئے اور فرمایا:

تونے مسلمان کو قتل کیا ھے ؟اسامہ نے عرض کی : یا رسول اللہ(ص) وہ شخص اپنی جان بچانے اور مال کی حفاظت کی غرض سے اسلام کا اظھار کررھا تھا تو پیغمبر اسلام(ص)نے فرمایا:

” فَھَلاّ شَقَقتَ قَلبَہُ“ تو نے اس کے قلب کو تو چیر کر نھیں دیکھا تھا شاید وہ حقیقت میں مسلمان ھوگیا ھو۔

اسی مضمون کی دوسری روایت صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں نقل ھوئی ھے کہ خود اسامہ بن زید راوی ھیں وہ اس طرح بیان کرتے ھیں کہ ” رسول خدا(ص) نے ھمیں مقام ” جرقَہ“ بھیجااور جب ھم لوگ وھاں پھونچے اورصبح کے وقت ھمارا ان لوگوں سے مقابلہ ھوا اور ان لوگوں کو شکست دی اور باقی لوگ فرار ھوگئے تو ھم نے او رانصار میں سے ایک شخص نے اس فراری کا پیچھا کیا اور جیسے ھی ھم نے اسے پکڑا توفوراً ا سنے”  لاالہ الا اللّٰہ “زبان پر جاری کردیا یہ سن کر انصاری شخص نے اس کے قتل کا ارادہ بدل لیا لیکن میں نے آگے بڑہ کر اپنے نیز ے سے قتل کردیا جب ھم لوٹ کر آئے تو یہ خبر اور صورتحال پھلے ھی پیغمبر (ص) تک پھونچ چکی تھی۔

حضرت(ص) نے اسامہ کو دیکھتے ھی فرمایا :اے اسامہ تم نے اس کو اللہ کی وحدانیت کی گواھی دینے کے باوجود قتل کرڈالا؟!  اسامہ کا بیان ھے کہ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ (ص)یہ شخص اس طرح سے اپنے کو قتل ھونے سے بچانا چاہتا تھا ،آنحضرت(ص) نے اپنے اس کلام کو بار بار دھرایا :” لا الہ الاّاللّٰہ “کھنے کے باوجود تم نے اسے قتل کردیا؟!  آنحضرت(ص) نے اس جملہ کو اس قدر دھرایا کہ میں نے تمنا کی کہ اے کاش میں اس حادثہ سے پھلے مسلمان نہ ھوا ھوتا۔

اسامہ بن زید نے حضرت کے رویّہ سے جو مطلب اخذ کیا وہ یہ ھے کہ اسکے تمام اعمال نماز وروزہ جھاد وغیرہ اس گناہ کے خلع کو پورا نھیں کرسکتے اور گناہ کے بخشے نہ جانے کا خوف رھا،  اسی وجہ سے تمناکی کہ اے کاش اس حادثہ سے پھلے مسلمان نہ ھوا ھوتااور اس حادثے کے بعد مسلمان ھوتا۔

ان آیات و روایات سے یہ استفادہ ھوتا ھے کہ اگر کوئی اسلام کا اظھار کرے یعنی کلمہ شھادتین کھے تووہ مسلمان ھے اس کو کافرکھنا یا سمجھنا جائز نھیںھے، اگر ھمارے پاس صرف یھی آیات وروایات ھوتیں، تو مذاھب اسلامیہ اور مسلمانوں کو ایک دوسرے پر کفر کا فتویٰ لگانے سے روکنے کے لئے کا فی تھیں چونکہ جو شخص خودکو ” لا الہ الاّ اللّٰہ “ کی پناہ میں قرار دے وہ محترم ھے  اوراسکی جان و مال بھی محترم ھے بلکہ جو افراد اسی نیّت سے کلمہ شھادتین پڑھیں ان کے لئے تو اور زیادہ احترام ھونا چاہئے ،ان سے بغض و عناد رکھنا سب وشتم کرنا، نیز ان کوکافر و فاسق کھنا جائز نھیں حالانکہ اسی طرح کی بلکہ اس سے بھی صاف اور صریح الفاظ میں بہت سی روایتیں فریقین کے یھاں مختلف روایوں سے نقل ھوئی ھیں۔

ان میں سے ایک روایت یہ ھے نبی مرسل نے ارشاد فرمایا :

” َمن کَفََّرَ مُومِناً صَارَ کاَفِراً“ جو شخص کسی مومن کو کافر کھے وہ خو د کافر ھو جائیگا ۔

اور امام باقر علیہ السلام نے ارشاد فرمایا:

” مَا شَہِدَ رَجُلٌ عَلَی رَجلٍُ بِکُفرٍ قَطُّ الَابَاءَ بہ اَحَدِہِمَا اِن کَانَ شَہِدَبہ عَلیَ کَافِرٍ صَدَقَ وَ اِن کَانَ مُؤِمنًا رَجَعَ الکُفرُ اِلَیہِ فَاِیَّاکُم وَالطَّعنَ عَلَی المُوٴمِنِینَ“۔

”کوئی شخص بھی کسی کے کفر کی گواھی نھیں دے سکتا مگر یہ کہ ان دونوں میں سے ایک کفر کا مستحق ھو، اگر یہ گواھی کافر کی نسبت تھی ( یعنی مخاطب واقعی کافر تھا) تو گواھی سچی ھے اور اگر مؤمن کے بارے میں کفر کی گواھی دی ھے تو خود گواھی دینے والاھی کافر ھے لہذا مؤمن پر طعنہ زنی سے پرھیز کرو۔

اس مضمون کی روایت کنزالعمال میں وارد ھوئی ھے کہ آنحضرت(ص) نے فرمایا:

” اَیَّمَا إِمرَءٌ قَالَ ِلاَخِیہِ کَافِرٌ فَقَد بَاءَ بہَا اَحَدَہُما اِن کَانَ کَمَا قَالَ وَ اِلاّ رَجَعَتْ عَلَیہِ“ ۔

”جو شخص بھی اپنے برادر مؤمن کو کافر کہہ کر خطاب کرے ان دونوں میں سے ایک ضرور کافر کھلانے کا حق دار ھے اگر مخاطب واقعی کافر تھا تو صحیح کھا لیکن اگر مخاطب کافر نھیں تھا تو خود کھنے والا کفر کا مستحق ھے۔

ایک ا ور روایت صاد ق آل محمد حضرت امام جعفر صادق(ع)سے نقل ھوئی ھے کہ آپ نے فرمایا:

” مَلعُونٌ مَلعُونٌ مَن رَمَیٰ  مُؤمِناًبِکُفرٍوَ مَن َرمَیٰ مُؤمِناًبِکُفرٍ فَہُوَکَقَتلِہِ “

ملعون ھے ملعون ھے وہ شخص جو کسی مومن پر کفر کی تھمت لگا ئے او رجو بھی ایسی تھمت لگائے گویا ایسا ھے کہ جیسے اس نے اسے قتل کر دیا ھو ۔

اور اسی مضمون کی روایت کنز الاعمال میں وار د ھوئی ھے کہ رسول اکرم(ص)نے ارشاد فرمایا:

”اِذَا قَالَ رَجُلٌ ِلاَخِیہِ کَافِرٌ فَہُوَ کَقَتلِہِ وَ لَعَنُ المُومِنِ کَقَتْلِہِ“

”جو بھی اپنے برادر مومن کو کافر کھے ایسا ھے کہ جیسے کسی نے اسے قتل کردیا ھو نیز کسی مومن پر لعنت کرنا بھی اسکو قتل کر دینے کے برابر ھے ۔

ھم اگرگذرے ھوئے زمانہ پر نظرکر یں اور اسلامی مذاھب اور مسلمانوں کی تاریخ کا بغور مطالعہ کر یں تو ھمیں پتہ چلے گا کہ بہت مرتبہ ایسا ھوا ھے کہ کسی کو فاسق یا کافر کھنا ، بہت سے بے گناہ افرا د کے قتل کا باعث بن گیا ۔

روایت میں ملتا ھے کہ قیامت کے دن ایسے شخص کو لایا جائیگا کہ جس نے دنیا میں اچھے کام انجام دئے ھیں لیکن حساب و کتاب کے وقت اپنے اعمال نامے میں ایک عظیم گناہ کو مکتوب دیکھ کر یہ اعتراض کرے گا ( کہ میں نے یہ گناہ انجام نھیں دئے) تو اسکو جواب دیا جائیگا کہ فلاں کے قتل کا گناہ تیری گردن پر ھے تو وہ کھے گا کہ میں نے کسی ایسے شخص قتل کو نھیں کیا او رمیرے ھاتھ کسی کے خون سے آلودہ نھیں ھیں ، تو اسے جواب ملے گا کہ تم نے فلاں شخص کے بارے میں کوئی بات سنی اور اسکو دوسروں کے سامنے نقل کر دیا ،و ھی بات اثر انداز ھوئی او رآخر کار وہ قتل ھو گیا ،لہٰذا تو اس بات کونقل کر نے کی بنا پر تم اسکے قتل میں شریک ھو ۔

ان تمام روایات کو مدنظر رکھتے ھوئے جو فریقین کے حوالے سے نقل کی ھیں ھم اس نتیجہ پر پھونچتے ھیں کہ ایک دوسرے کو فاسق کھنا یا کافر سمجھنا ، گا لیاں دینا اورجاھلانہ بغض و عناد اسلامی مذاھب او رمسلمانوں میں فرقہ وارنہ جنگ ، صدر اسلام سے ابتک رواج پاچکی ھے یہ قطعاً حرام ھے ا ورفریقین کی روایات کے صریحاً مخالف ھے ۔

مندرجہ بالا آیات و روا یات نیز اسی طرح کی اور بہت سی روایات کو پیش نظر رکھتے ھوئے بڑی جرآت کا کام ھے کہ روایات میں ان تمام صراحتوں کے با وجود کوئی مسلمان فقط اس نیّت سے کہ اسکے دینی عقائد اور اصول کی طرف قلباً مائل نھیں یا بعض صحابہ کے نا مناسب سلوک اور اعمال کی بنا پر یا اس سے بھی بڑ ھ کر اپنے سیاسی یا اقتصادی مقاصد کی وجہ سے یا اپنے علوم اسلامی سے متعلق، مختلف فھم و فراصت کی بنا پر دوسرے مسلمان پر فسق اور کفر کی تھمت لگائے یا اسلام سے منحرف ھونے کی نسبت دے ۔

( یہ بڑی جرائت کا کام ھے ) لیکن افسوس کہ اسلام کے ماننے والے ، اسلامی اصول اوربنیاد ی مسائل سے جھالت کی بنا پر آپس میں نامناسب سلوک رکھتے ھیں اور یھی نامناسب اور غیر منطقی سلوک مسلمانوں میں تفرقہ اور گروہ گروہ تقسیم ھونے کا سبب بنا ، اس بنا پرھرگروہ دوسرے کو اپنا دشمن سمجھتا ھے اور ایک دوسرے کو گالی گفتار سے نوازتے ھوئے کفر کے فتوے لگاتا ھے ۔

مذکورہ موضوع پر غیر صریح روایتیں

ان روایات کے علاوہ جو بطور صریح اور واضح الفاظ میں مسلمانوں کو ایک دوسرے کو کافر کھنے سے روکتی ھیں، دوسری روایتیں بھی ملتی ھیںجو اس عمل کے مضّر اور منفی اثرات کو بیان کرتی ھیں،عنوان مذکورہ کے علاوہ اور دوسرے عنوان بھی ھیں جنکا اسلام کی نظر میں حرام ھونا مسلّم الثبوت ھے ۔

ان عنوانوں کے روشن مصداقوں میں سے کسی کو کافر کھنا بھی ھے اور مؤمن کی بے حرمتی یا مؤمن پرتھمت لگانا سبّ وشتم کرنا ، لعنت کرنا حقیر اور ذلیل سمجھنا ، نیز مذاق اڑانا ، سرزنش کرنا،  مؤمن کی توھین اور اسکواذیّت وآزار پھونچا نا ، اسکے عیب تلاش کرنا اور مسلمانوں کے ساتھ دشمنی و غیرہ وغیرہ بہت سے عنوانات پائے جاتے ھیں جو سب کے سب غیر صریح طور پر مرتبط مسئلہ کی حرمت پر دلالت کرتے ھیں کہ ان  میں سے بعض کی طرف مختصر طور پر اشارہ کرتے ھیں ۔

مؤمن کی بی حرمتی پر اسلام کی واضح مخالفت

اسلامی قانون میں مسلمان کی جان کی طرح اس کا مال اور عزّت و آبروبھی محترم ھے چنانچہ پیغمبر اسلام(ص) نے فرمایا ھے :

” اِنَّ اللهَ حَرَّمَ عَلَی المُسلِمِ دَ مَہُ وَ مَالَہُ وَ عِرضَہُ وَ اِن  یَظُنُّ بِہِ سُؤءُ الظَّنِّ“

” خداوند عالم نے ھر مسلمان پر ، دوسرے مسلمانوں کی جان ، مال ، عزّت و آبرو اور ان کے بارے میں بدگمانی کرنے کو حرام قرار دیا ھے “

جس نے بھی اس عمل کو انجام دیا ،و ہ گناہ کبیرہ کا مرتکب ھوا اور گناہ کبیرہ پر عذاب کا وعدہ کیا گیا ھے ۔

خلاصئہ مطلب یہ ھے کہ مؤمن کی آبروریزی اور بے احترامی کسی طرح سے بھی جائز نھیںھے، چاھے اسکا مذاق اڑانے یا مسخرہ کرنے کے ذریعہ ھو یا اسکی سرزنش، توھین، جھوٹاسمجھنا ، لعنت و ملامت اور تکفیر کرنے کے ذریعہ ھو ،چنانچہ ایک مسلمان کو کافر کھنا سب سے زیادہ واضح نمونہ ھے ۔اس سلسلہ میںحضرت امام جعفر صادق(ع) فرماتے ھےں:

” مَن رَوَیٰ عَلَی مُؤمِنٍ رِوَایَةً یُرِیدُ بِھَا شَینَہُ وَ ہَدمَ مُرُوََّتِہِ لِیَسقُطَ مِن اَعیُنِ النَّاسِ اَخرَجَہُ اللهُ مِن وِلَاَیَتِہِ اِلیٰ وِلاَیَةِ الشَّیطَانِ فَلاَ یَقبَلُہُ الشَّیطَانُ “

” جو شخص بھی مؤمن کی عیب جوئی اور بے احترامی کی غرض سے کوئی بات کھے تا کہ اسکو لوگوں کی نظروںسے گرا دے تو خداوند عالم ایسے شخص کو اپنی رحمت سے نکال کرشیطان کی سرپرستی  میں بھیج دیتا ھے ،اور شیطان بھی اسکو قبول نھیں کرتا “۔

تکفیر سے بدتر اور کون سی قبیح بات ھوگی جو مؤمن کی روحانی ،معنوی اور اعتقادی شخصیت کو پامال کرتی ھے ۔

اسلام میں کسی مؤمن پر تھمت لگانے کی ممانعت

تھمت یعنی کسی انسان کی طرف کسی ایسی بری چیز کی نسبت دینا جو اس میں نھیں پائی جاتی ، دین اسلام نے اس طرح کے برے اعمال کی شدّت سے ممانعت کی ھے ، اور بڑے ھی شدید لہجے میں منع کیا ھے نیز اس قبیح فعل کو بڑے گناھوںمیں شمار کیا ھے ،تھمت اور بری نسبت دینے کی بھی بہت سی قسمیں ھیں ، بھرحال کسی پر بے دینی کی تھمت لگانا تھمت کی سب سے بدترین قسم ھے ، تھمت کے متعلق روایتیں ایسے تمام افراد کے شامل حال ھیں ، ( جو دوسروں پر بے دینی و غیرہ کا الزام لگاتے ھیں )

حضرت رسالت مآب(ص) فرماتے ھیں :

”مَن بَہَتَ مُؤمِناً اَو مُؤمِنَةً اَو قَالَ فِیہِ مَا لَیسَ فِیہِ ، اَقَامَہُ اللهُ عَزَّوَجَلَّ یَومَ القِیَامَةِ عَلیٰ  تَلٍّ مِّنْ نَاْرٍحَتیَّ یَخرُجَ مِمَّا قَالَ فِیہِ

”جوشخص کسی مؤمن یا مومنہ پر بہتان لگائے یا ان کے بارے میں کوئی بری بات کھے جو ان میں نھیں پائی جاتی تو خداوند عالم قیامت میں آگ کی سیڑھی پر اسے روکے رھے گا تا کہ جو بدگوئی ( کسی مؤمن کی نسبت ) کی ھے اس کا بھکتان بھگتے ۔

حضرت امام جعفر صادق(ع) فرماتے ھیں:

” مَن ِاتّہََمَ اَخَاہُ فِی دِینِہِ فَلاَحُرمَةَ بَینَہُمَا وَ مَن عَامَلَ اَخَاہُ بِمِثلِ مَا عَامَلَ فَہُوَبَرِیٴٌ مِمَّا یَنتَحِل“

”جوبھی اپنے دینی بھائی پر تھمت لگائے تو ان کے درمیان پھر کوئی احترام باقی نھیں رھا اور جو شخص اپنے برادر دینی کے ساتھ ، وھی طریقہ اپنائے اور ویسے ھی ملے جیسا کہ دوسرے لوگوں کے ساتھ ملتا ھے تو ایسا شخص مذھب سے خارج ھے ۔

اسلام نے کسی مؤمن پر لعنت اور گالی گفتار سے منع کیا ھے

ایک دوسرے کی طرف بری اور نازیبا نسبت دینا ناگوار الفاظ کھنا جیسے خائن، فاسق ، فاجر ، ملعون و غیرہ کھنا اور اس سے بھی بڑھکر مشرک ، کافر و غیرہ کھنا یا ایسے الفاظ کھنا کہ جن سے کسی  مسلمان کی حقارت اور ذلّت ھوتی ھو قطعاً اور یقیناً حرام ھے ، اور بہت سی روایتوں میں اس برے عمل سے روکا گیا ھے ۔

حضرت امام باقر علیہ السلام فرماتے ھیں :

”سِبَابُ المُؤمِنِ فُسُوقٌ وَ قِتَا لُہُ کُفرٌ وَحُرمَة ُ مَا لِہِ کَحُرمَةِ دَمِہِ“

”مؤمن کو گالی دینا فاسق ھونے کا سبب ھے اسکے ساتھ جنگ کرنا کفر ھے اور اسکا مال بھی اسکی جان کی طرح قیمتی اور محترم ھے ۔

مزید فرماتے ھیں کہ ” وَلَعنُ المُؤمِنِ کَقَتلِہِ “ مؤمن پر لعنت کرنا اسکے قتل کرنے کے برابر ھے ۔

مسلمانوں کی طرف کفر کی نسبت دینا حرام ھے

اس بارے میں علماء کے فتوے

ھم یھاں پر اسلامی مذاھب کے ائمہ اور بزرگ علماء اسلام کے فتوے مختصر طور پر پیش کرتے میں ،تا کہ یہ بات روشن ھو جائے کہ اسلامی معاشرے میں ایک دوسرے پر تھمت لگانا ، کفر و تھمت کے لئے راہ ھموار کرنا، نیز کفر کے فتووںکی اسلام کی نظرمیں کوئی اصل و بنیاد نھیں ھے چونکہ قبیح اورگھناؤنی باتیں نہ اسلام کی حیات بخش تعلیم سے سازگارھیں اور نہ ھی آیات وروایات اور علماء اسلام کے فتاویٰ سے اسکی تائید ھوتی ھے۔

شیعہ علماء کرام کے فتوے

شیعہ مذھب میں عظیم اور بزرگ علماء جیسے شیخ صدوق(رہ) کتاب ھدایہ میں ، شیخ مفید(رہ) اوائل المقامات میں ، محقق حلی (رہ) شرایع الاسلام میں صاحب جواھر(رہ)جواھر الکلام میں ، آیت اللہ الحکیم مُستمسک میںاورجناب آملی (رہ)نے مُصباح الھدیٰ میں ، علامہ مجلسی(رہ) نے بحارالانوار میں ، اور الحاج آقاے رضا  ھمدانی  (رہ) نے مُصباح الفقیہ ، میںتحریر کیا ھے کہ جو شخص شھادتین (لاالہ الاا لله محمد رسول الله)کا اظھار کرے وہ شخص مسلمان ھے ،اور اسلام کے اجتماعی حقوقی او ر عدالتی احکام اس پر جاری ھوں گے۔

نمونہ کے طور پر شیخ صدوق  (رہ) کی کتاب الھدایة کی عبارت پیش خدمت ھے ،موصوف  فرماتے ھیں:

”الِاسلاَمُ ہُوَ الاِقرَارُ بِالشَّھَادَتَیںِ وَ ہُوَ الَّذِی یُحقَنُ بِہِ الدِّمَاءُ وَ الاَموَالُ وَ مَن قَالَ لاَ اِلٰہَ اِلّااللهُ مُحَمَّدٌرَسُولُ اللهِ(ص) فَقَد حُقِنَ مَالُہُ وَ دَمُہ‘ُ‘

”اسلام یعنی خدا کی وحدانیت اور حضرت محمد(ص) کی رسالت کا ا قرار کرنا ،اور جس نے شھادتین کو زبان پر جاری کر لیا اسکی جان و مال ھر طرح کے تجاوز سے محفوظ ھے لہذا جو بھی” لا الہ الاالله محمد رسول الله “کھے اسکی جان و مال محفوظ ھے “

بغیر کسی شک و تردید کے علماء ان فتاویٰ کے ھوتے ھوئے کسی کو بھی، کسی ایسے شخص کو کافر کھنے کی اجازت نھیں دے سکتے جو کلمہ شھادتین کا اقرار کرے اگر چہ زبانی ھی اقرار کرے۔

سنّی علماء کے فتوے

اشعری کا فتویٰ :

”احمدبن زاھرسرخی “جن کا شمار امام ابوالحسن اشعری کے بزرگ شاگردوں میںھوتا ھے، نقل کرتے ھیں کہ وہ(ابوالحسن اشعری ) اپنے زندگی کے آخری لحظات میں میرے غریب خانہ پر تشریف فرماتھے اسوقت مجھے حکم دیا کہ ان کے سبھی شاگردوں اور دوستوں کو ان کے پاس بلاؤں، جب لوگ جمع ھو گئے تو سب کو مخاطب کرتے  ھوئے  فرمایا:

”اَشھِدُوا عَلَی اِنَّنیِ لَا اُکَفِّرُاَحَداً مِّن اَھلِ القِبلَةِبِذَنبٍ ِلاَنَّہُم کُلُّہُم یُشِیرُونَ اِلَی مَعبُودٍ وَاحِدٍ وَ الِاسلاَمُ یَشمُلُہُم وَیَعُمُُّہُم“

” تم سب لوگ گواہ رھنا کہ میں نے کبھی بھی کسی ایسے شخص کو جوایک قبلہ کا ماننے والا ھے اسکے کسی گناہ کی وجہ سے اُسے کافر نھیں کھا اس لئے کہ وہ سب ایک ھی معبود کی عبادت کرتے ھیں وہ لوگ اسلام میں شامل ھےں، اوروہ سب اسلام کے دائرے میں ھیں “

ابوحنیفہ و غیرہ کا فتویٰ :

”قال ابن حزم  ”وَذَہَبَ طَائفَة ٌاِلَی انّہُ لَا یُکَفِّرُ وَلَا یُفَسِّقُ مُسلِمٌ بِقَولٍ قَالَہُ فِی اِعتِقَادٍ اَوفَتیَا … وَہَذَا قَولُ اِبنِ اَبِی لَیلیٰ وَ اَبِی حنیفہ و الشافعی و سفیان الثوری و داؤد ابن علی و ھو قول کل من عرفنا لہ قولاً فی ھٰذہ المساٴلة من الصحابة و لا نعلم فیہ خلافاًفی ذلک“

ابن حزم ( جن کا شمار فرقہ ظاھر یہ کے رھبروں میں ھوتا ھے ) کہتے ھیںکہ علماء کاایک گروہ اور جماعت کا نظریہ یہ ھے کہ کسی مسلمان کو اسکے عقیدہ یا ایسے فتووں پر عمل کرنے کی وجہ سے جومشھو ر نھیں ، فاسق یا فاجر نھیںکھاجاسکتا اور یھی نظریہ ابی لیلیٰ جو ابو حنیفہ کے ھم عصر تھے اور ابو حنیفہ ،شافعی ، سفیان ثور ی ( ابو حنیفہ کے دوسرے ھم عصر ) اور داؤد بن علی کا نظریہ ھے ، اور ھم نے کسی صحابی کو بھی اس نظریہ کا مخالف نھیں پایا ۔

جب شیخ الاسلام تقی الدین سبکی سے اھل ھوا و ھوس اور بدعت کرنے والوں کی تکفیر کے متعلق سوال ھو تا ھے تو وہ جواب میں تحریر کرتے ھیں :

”اے میرے بھائی یہ بات ملحوظ خاطر رھے کہ کسی مؤمن کے کفر کے متعلق اظھار کرنا نھایت مشکل اور سخت کام ھے ، لہذا جوشخص مؤمن ھو اسکے لئے کسی ایسے شخص کو جو” لا الہ الاالله محمدرسول الله“ کا اقرار کرتا ھے ، فقط ھوا پرستی یاکسی بدعت کی بنیاد پر کفر کا فتویٰ لگانا بہت ھی خطرناک کام ھے اور کسی کی طرف بھی کفر کی نسبت دینا کوئی آسان کام نھیں ۔

اور دوسری جگہ پر جب ان سے غالی ، بدعتی اور ھوا پرست متکلمین او ر فلاسفہ سے متعلق سؤال ھو تا ھے تو فرماتے ھیں کہ یہ جان لینا چاہئے جسکے دل میں الله عزو جل کا خوف ھو وہ کسی ایسے شخص کے کفر کے متعلق زبان کھولنے گی ھرگزجرات نھیںکر سکتا جو ” لاالہ الاالله  او ر  محمد رسول الله “کا اقرار کرنے والاھے ۔۔۔ نیز انھوں نے اپنی گفتگو کو جاری رکھتے ھوئے فرمایا کہ کوئی شخص بھی کسی مؤمن کو کافر نھیں کہہ سکتا مگر یہ کہ خود اصول دین سے خارج اور کلمہ شھادتین کا منکر ھوجائے نتیجہ میں ایسا شخص اسلام کے دائرے سے خارج ھوجائیگا “ ۔

اوزاعی کہتے ھیں:

” خدا کی قسم اگر مجھے ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا جائے تب بھی شھادتین کا اقرار کرنے والے کوکافر نھیں کہہ سکتا “

حسن بصری فرماتے ھیں:

جب ان سے نفس پرستوں کے متعلق سؤال کیا گیا تو اپنے جواب میں فرمایا کہ تمام وہ افراد جو خدا کی وحدانیت کی گواھی دیتے ھیں ، ھمارے رسول(ص) کے امّتی ھیں اور یقیناً جنّت میں جائیں گے۔

زھری ، سفیان ثور ی اور سعیدبن مسیّب و غیرہ جیسے بزرگ علماء بھی کسی مسلمان کو کافر کھنے کی اجازت نھیں دیتے اور اس کی تکفیر کو حرام جانتے ھیں ۔

لہٰذا جب یہ ثابت ھوگیا کہ کسی پر تھمت لگانا یا کسی مسلمان کو کافر کھنا بے بنیاد بات ھے اورآیات و روایات کی روشنی میں اسلام کی شدید مخالفت بھی اس موضوع سے متعلق ظاھر اور روشن ھوگئی تو تمام مسلمانوں پر خصوصاً ان علماء پر کہ جو دین اور شریعت کے محافظ ھیں ، واجب اور ضروری ھے کہ معاشرے کے دامن سے اس کثیف اور ننگین دھبّہ کو مٹانے کی کوشش کرےں اور ان منحوس باتوں کا معاشرے سے نام ونشان تک مٹا دیں اور مسلمانوں کو ان بے بنیاد باتوں سے جو مصیبتیں مشکلات، کدورتیں، تفرقہ بازی اور جنگ و جدل سے نجات دلاکر آسودہ خاطر کریں عقیدہ اور فرعی احکام میں فقط اسلامی اصولوں پر اعتماد کرتے ھوئے معاشرے میں اخوت اور بھائی چارگی کی فضا دوبارہ ھموار کریں، آپس میں سماجی رابطوں اور تعلقات کو مضبوط سے مضبوط تر بنائیں اور تمام مسلمانوں کو متحد ھوکر الله کی رسّی ( دین )کو مضبوطی سے پکڑنے کی دعوت دیں ، یہ الٰھی اور اسلامی انقلاب جو سرزمین ایران پر ظھور پذیر ھوا اسکی قدردانی کرتے  ھوئے  آپس میں بے وجہ کینہ اور کدورتوں کو دور کرنے کی کوشش کریں اور سب کو ایک صف میں کھڑے ھوکر ایک جسم وجان کے مانند اسلام کے لئے ایک مضبوط حصار میں تبدیل ھوجائیں اور سامراج اور ظالم طاقتوں کا نام ونشان مٹادیں ،اس امید کے ساتھ کہ الله کی عطا کردہ اس عظیم نعمت کے سایہ میں مسلمانوں کے درمیان اتحاد اوریکجہتی کی فضاقائم ھو ، اور اس کے سایہ میں اسلامی برادری اپنی عزت و عظمت کو دوبارہ حاصل کرلیں تا کہ پھرکسی کو اپنی عظمت رفتہ کا ماتم نہ کرناپڑے ۔[7]

وھابیوں کے ھاتھوں اھل کربلا کا قتل عام

وھابیوںکی زندگی کی بھیانک اور تاریک تاریخ میں وہ دردناک غم انگیز اور دل، ھلا دےنے والے حادثات نظر آتے ھیں ،جوایک زمانہ گذر جانے کے باوجود بھی بھلائے نھیں جاسکتے ، ان میں سے ایک حادثہ کربلا کے مقدس شھر پر  ۲۱۶اھ میں افسوسناک حملہ کی شکل میں پیش آیا ، ھم اس دردناک قتل عام واقعہ کا خلاصہ” ڈاکٹر سید عبدالجواد کلید دار“ کی کتاب” تاریخ کربلا“ نامی کتاب سے نقل کررھے ھیں وہ لکھتے ھیں کہ :

”واقعہ عاشورا کے دردناک واقعہ کے بعد تاریخ کربلامیں جو سب سے بڑا افسوس ناک اور ھولناک واقعہ ھواھے وہ وھابیوں کے ھاتھوں کربلاکے لوگوں کا قتل عام ھے جو ۶ا۲اہجری میں پیش آیا ، یہ دل کو لرزادینے والادردناک حادثہ جس کے شعلہ ، چنگاریاں اور اثرات تمام اسلامی اور یورپی ملکو ں میں اب بھی باقی ھےں ، مسلمانوں اور مغربی تاریخ نگاروں نے اس واقعہ کے غم انگیز اور دردناک اثرات کے متعلق بہت کچھ لکھاھے اور لکھتے رہتے ھیں نیز اس واقعہ کو کربلاکی تاریخ میں دوسرے دردناک واقعہ کے عنوان سے یادکرتے ھیں ۔

ایک انگیریز ”اسٹیفن ھمیسلی، لوئیکر “ اپنی ” تاریخ عراق کی چارصدیاں “ نامی کتاب میں لکھتا ھے کہ نجدی عربوں کا بار ھویں صدی ہجر ی کے اواخر تک وھی عقیدہ اور مذھب تھا جو باقی سارے مسلمانوںکا عقیدہ اور مذھب تھا اور دونوںمیں کوئی فرق نہ تھا، یہ اس زمانے کی بات ھے   جب محمدبن عبدالوھاب نے اپنے نئے نظریات او رافکار کا نشانہ بادیا نشین عربوں کو بنایا تھا ۔

اس زمانے میں محمدبن عبدالوھاب کے نظریات کوسب سے پھلے محمدبن مسعود نے قبول کیا   جو عرب کی بادیا نشین آبادی کا بادشاہ تھا ۔

محمدبن عبدالوھاب کہ جس نے بغداد میں تعلیم حاصل کی پھر مدینہ کا رخ کیا تب مقام عوینہ (جو حجاز میں واقع ھے ) کی طرف لوٹ آیا ۔

وہ دردناک واقعہ جو وھابیوںکی قساوت قلبی ، سنگ دلی ، درندگی اور حرص و ھوس پرستی پر دلالت کرتا ھے کہ جسکو وہ ( وھابی ) دین او ردینداری سمجھتے ھیں وہ واقعہ ھے کہ جب وھابیوںکے لشکر نے مسلمانوں کے قتل عام کے لئے پیش قدمی کی ۔

وھابی لشکر کے شھر کربلا کے قریب آنے کی اطلاع اس وقت ھوئی کہ جب کر بلا کے رھنے والے اکثر افراد زیارت کی غرض سے نجف اشرف گئے تھے اور باقی لوگ جو کربلا میں موجود تھے دروازوں کو بند کرنے میں مشغول ھوگئے ۔

وھابیوں کا لشکر چار سو سوار اور چھ سو پیادہ افراد پر مشتمل تھا ، یہ ایک ہزارسپاھیوں پر مشتمل لشکر شھر کے باھر پڑاؤ ڈال کر خیمہ زن ھوا ، پھر اپنی فوج کو تین دستوں میں تقسیم کرنے کے بعد آخر کار ”باب المحیّم“نامی محلہ کی جانب سے شدید حملہ کرنے کے بعد شھر میں داخل ھو گئے ۔

لوگ چار و ںطرف سے تتر بتر ھو کر بھا گ کر جان بچانے کی کوشش کر رھے تھے تب وھابیوں نے امام حسین (ع) کے روضہ کا رخ کیا اور راستہ صاف کرکے روضہ منور تک جا پھونچے روضہ میں گھس کر حضرت کی مقدس ضریح کو توڑدیا اور نھایت بی حرمتی کی اور روضئہ مبارک کی تمام نفیس اشیاء قیمتی ھدایا ، شمعدان ، جھاڑ فانوس بیش بھا قالینیں اور گرانقیمت چراغدان ، گنبد میں لگا ھوا سونا اور تمام ھیرے و جواھرات اور اس طرح کی بہت سی قیمتی چیزوں کو لوٹ کر شھر سے باھرنکل گئے ، اس ظلم و تشدّد پر ھی اکتفاء نہ کیا بلکہ روضہ اقدس کے صحن میں نیز مقدس ضریح کے پاس ظلم و بربریت کا وہ کھیل کھیلا کہ انسانیت بلبلا اٹھی، شیشہ اور آئینوں سے روضہ مبارک کی مزیّن در و دیوار کو مسمار کرتے ھوئے ضریح کے نزدیک پچاس مؤمنین کو ا ورصحن اطھرمیں پانچ سو بے گناہ زائرین کو بڑی بے دردی سے قتل کرڈالا ۔

سفّاک ، سنگدل اور وحشی درندوں نے شھر میں ھر طرف تباھی، لوٹ مار ، قتل و غارت گری کا بازار گرم کردیا جو بھی نظر آیا ذرّہ برابر رحم کئے بغیر اسے قتل کردیا ،گھروں کو تاراج اور شھر کو ویران کردیا، اس قتل و غارت گری میں مرد عورت پیرو جوان ضعیف و کمزور یھاں تک کہ بچوں پر بھی رحم نہ کیا ، کوئی بھی ان کی درندگی سے محفوظ نہ رہ سکا ، مورخین نے قتل ھونے والوں کی تعداد اکی ہزار اور بعض نے فقط زخمیوں کی تعداد پانچ ہزار تک بتائی ھے،مدینہ کے وھابی ملاؤں نے ۳۴۴اھ میں جنّت البقیع اور دوسری جگھوں پر مقدس قبروں کو مسمار اور منھدم کرنے کا فتویٰ صادر کردیا اس سال ۸شوال کو شہزادی کو نین صدیقہ طاھرہ دختر رسول(ص) حضرت فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھا کی قبّہ مبارک کو منھدم کرنے کا  فتویٰ جاری کیا اس فتوے کے فوراً بعد شہزادی کو نین کی قبر مبارک کو منھدم کردیا گیا ۔

اسکے بعد ھمارے چار امام یعنی حضرت امام حسن مجتبیٰ (ع) امام زین العابدین (ع) امام محمد باقر (ع) اور امام جعفر صادق (ع) کے مبارک مرقدوں اور رسولخدا کے چچا جناب عباس پیغمبر اکرم(ص) کے فرزند جناب ابراھیم (ع) اور آنحضرت(ص) کی پھوپھیوں اور بیویوں کی قبروں نیز جناب فاطمہ بنت اسد کی قبر مبارک اور اسلامی لشکر کے سردار رسول خدا کے چچا جناب حمزہۻ کی قبر مقدس کوبھی منھدم کردیا یھاں تک کہ نشان قبر بھی مٹا نے کی کوشش کی گویا یہ بھیانک جرائم کرکے اس آیہٴ شریفہ پر عمل کرنے کا ثبوت دیا :

”  قُل لَااَسئَلُکُم عَلَیہِ اَجراً اِلاَّالمُوَدَّةَ فِی القُربیٰ “[8]

اے پیغمبر ان سے کھدو کہ میں اپنے اقرباء کی مودّت اور محبت کے سوا ء تم لوگوں سے کسی اجر کا طلبگار نھیں ھوں ۔

شیعہ مذھب کے عالی مقام مجتھد اور عظیم مرجع آقائے محمد باقر اصفھانی کہ جو وحید بھبھانی کے نام سے مشھور ھیں ، ان کے نواسے ایک بزرگ اور مشھور عالم علامہ آقائے احمد کرمانشاھی جو اس زمانہ کے مشھور علماء میں سے ھیں اپنی ” مرآةالاحوال جھاں نما “ نامی کتاب میں وھابیوں کے کربلا پر ظالمانہ حملہ کے بارے میں تحریر فرماتے ھیں یھاں پر اس کتاب سے کچھ باتیں پیش کردینا مناسب سمجھتے ھیں ،علامہ احمد کرمانشاھی جو اسوقت ( کربلامیں وھابیوں کے ظالمانہ حملہ کے موقع پر ) کرمانشاہ میں تشریف فرماتھے اس طرح تحریر فرماتے ھیں:

” ان دنوں وھابی جماعت کی کربلائے معّلیٰ اور اس پاک ومقدس شھر میں قتل و غارت گری   جو خبریں موصول ھوئی ھیں ان کا خلاصہ یہ ھے اس مقدس شھر ( کربلا) اور اسکے اطراف وجوانب میں ساکن افراد ۶ا۲اھ میں عید غدیر کے موقع پر حضرت علی (ع) کے روضئہ اقدس کی زیارت اور حضرت کی ڈیوڑھی پر بوسہ دینے کی غرض سے نجف اشرف گئے ھوئے تھے اور اس شھر میں موجود نہ تھے ، بدنھاد اور منحوس سعود (بادشاہ وقت ) کو جب اس بات کی خبر ھوئی کہ کر بلا کامقدس شھر خالی ھے ، اس نے اس شھر مقدس کو راتوں رات گھیر لیا ، جس وقت ذی الحجہ کے مھینے میںغدیرکے دن مومنین زیارت اور عید کی تیاری میں مشغو ل تھے ، قلعہ کو پوری طرح سے محاصرہ میں لے لےا ،افرادکی کمی اور سامان جنگ کی قلّت اور وھاں کے حاکم ” عمد ناصبی “ کی سستی کی وجہ سے مومنین کی کمر ٹوٹ گئی اور لوگوں کی قوت دم توڑگئی اور مرکز ضلالت کی گمراہ فوج نے قلعہ کے دروازہ کو توڑکر نیز اطراف و جوانب سے شھر میں داخل ھوکر قتل و غارت گری شروع کردی چنانچہ تین ہزار مقدس مجاور اور زائرین درجہ شھادت پر فائز ھوئے ، اور قبہ مبارک نیز حضرت سید الشھداء حضرت امام حسین (ع) کے روضہ اقدس کو ناقابل تلافی نقصان پھونچا اور ضریح مقدس کے جوارمیںبسنے والوں کے گھروں کو تاراج کرڈالا اور زوال کے بعد اس منحوس فوج کے مقام درعیّہ کی طرف چلے جانے کے بعد ظلم اور بربریت کا یہ کھیل ختم ھوا ۔[9]

میر عبداللطیف شوشتری جو شھر شوشتر کے نورانی سلسلہ سادات اور سید نعمت الله جزائری کی نسل میں سے ھیں اور صفوی حکومت کے آخر ی دور کے مشھور ومعروف مجتھد اور فقیہ ھیں ، موصوف اپنی” تحفہ العالم “نامی کتاب میں جو ایک سفرنامہ ھونے کے باوجودتاریخی جغرافیائی شعر و ادب اور ھندسہ شناسی کے متعلق اپنے دامن میں بہت سے اھم نکات لئے ھوئے ھے اور فارسی زبان کے سیاست سے متعلق ایک اھم اور قدیمی کتابوں میں شمار ھوتی ھے ، محمد بن عبدالوھاب کے نمایان ھونے اور اسکی منحرف تعلیم و تریبت نیز اسکی باطل فکروں ، کربلائے معلّیٰ پرحملہ ، ضریح مقدس اور قبروں کومنھدم کرنے کے متعلق بہت ھی روشن بیانات ملتے ھیں قارئین محترم کومکمل فائد ہ ،نیز معلومات میں اضافہ کی خاطر مرحوم مجتھد کے بیان کو یھاںپر بیان کردینا مناسب ھے ۔

آپ اپنے سفرنامہ کے اختتام میں کہ جو’ ’ ذیل التحفہ“ کے نام سے موسوم ھے ، تحریر فرماتے ھیں :

”بھرحال جس وقت میں وھاں تھا تو عبدالعزیز وہّابی کی کدورتوں کی خبر موصول ھوئی کہ اس نے ۸اذی الحجہ  ۶ا۲اھ میں عرب کی بدّو فوج کو لے کر کربلائے معلّیٰ کی مقدس سرزمین  پر چڑھائی کی، اور تقریباً چار پانچ ہزار مؤمنین کو تہہ تیغ کرڈالا ، اور روضئہ منوّرہ کی جو بے ادبی اور بے حرمتی کی ھے، اسے قلم لکھنے سے قاصر ھے ، شھر کو برباد اور غارت کردیا ، مال و اسباب لوٹ لیا اور تباھی مچانے کے بعد اپنے وطن ”درعیّہ“ کی طرف چلاگیا “

جب بات یھاں تک پھونچ گئی تو مناسب ھے کہ کچھ باتیں وھابیوں کے حالات کے بارے میں رقم کردی جائیں تا کہ قارئین محترم وھابی مذھب سے پورے طور پر آگاہ ھوجائیں ،اور تشنگی محسوس نہ کریں۔

شیخ عبدالوھاب جو وھابیت کی اصل و بنیاد ھے ،نجد کے علاقہ درعیّہ سے تعلق رکھتا تھا ، اپنے زمانہ میں اپنے ھم عمر لوگوں کے درمیان ذھانت میں مشھور تھا ، اور چالاک سمجھا جاتا تھا ،اور سخی بھی تھا ، لہذا جو بھی اسکی دست رسی میں ھوتا تھااپنے تابعین اور مددگاروں میں خرچ کر دیتا تھا،اپنے ھی وطن میںتھوڑی بہت عربی علوم کی تعلیم حاصل کی ، بھر حال حنفی فقہ میں تھوڑی بہت جانکاری کے بعداصفھان کی طرف سفر کیااور و ھاں کے یونانی فلسفی ماحول میںیونانی فلسفہ کے مشھور اساتذہ سے فلسفہ یونانی کے کچھ مسائل سیکھے اور یونانی فلسفہ جو اپنی دلیل خود ھی باطل کرنے کے مترادف ھے او رگویا اپنے لئے خود ھی قبر کھودنے کے برابر ھے ،میں تھوڑی بہت تعلیم حاصل کی، اس کے بعد اپنے وطن واپس چلا آیا اور  ۱۱۷۱ھ میں وھابی مذھب کا علمبردار بن کر ابھرا ، وہ حنفی طریقہ پر عمل پیرا تھا اور اصول میں امام ابوحنیفہ کا مقلّد تھا اور فروع دین میں اپنی رائے پر عمل کرتا تھا ،آخر کار اصول کے بعض مسائل میں بھی ابوحنیفہ کی تقلید کے طوق کو گردن سے اتار کر پھینکا اور اپنی مستقل رائے کا اظھار کرنے لگا، اپنی ذاتی رائے کے مطابق جو بھی اس کو اچھا لگتا تھا وھی کہتا تھا اور اس پر لوگوں کو عمل کرنے کی دعوت دیتا تھا اس کی اپنی ذاتی رائے تھی کہ مسلمانوں کے تمام فرقے یھودی ،عیسائی اور تمام لوگ مشرک او رکافر ھیں اور سب ھی کو بت پرستوں کے زمرے میں شمار کرتا تھا او راپنی اس باطل رائے پر یہ دلیل پیش کرتا تھا کہ مسلمان حضرت رسول اکرم(ص) کی قبر منور پر ،ائمہ ھدیٰ اور اولیاء، اوصیاء کے مقدس روضوں اور پُر نور قبروں سے متوسل ھوتے ھیں، جو خود مٹی اور پتھر سے بنے ھوئے ھیں او رقبر میں سونے والے مردوں سے توسل کرتے ھیں، ان کی قبروں کے سامنے سجدہ کرتے ھیں ان کے آستانوں پر جبین نیاز خم کرتے ھیں۔

حالانکہ حقیقت میں یہ بت پرستی اور بتوں کی عبادت ھے کہ اگر بتوں کی تصویر یا خود بت یا اس کی مخصوص شکل کو خدا نہ سمجھیں بلکہ یہ کھیں کہ یہ ھمارا قبلہ ھے اور فقط اس کے واسطے سے اپنی حاجتوں کو خدا کی بارگاہ میں پیش کرتے ھیں جیسا کہ یھودی اور عیسائی کلیساؤں او راپنی عبادتگاھوں میں حضرت موسی ٰ (ع) او رحضرت عیسیٰ (ع) کی تصویر نصب کرکے خدا کی بارگاہ میں اپنا شفیع قرار دیتے ھیں جب کہ خدا کی عبادت یہ ھے کہ ذات اقدس کے لئے عبادت کرےں اور سجدہ ریز ھوں او رکسی کو خداوندعالم کا شریک قرار نہ دیں۔

گفتگو کا خلاصہ یہ ھے کہ اس کے بعض مددگار قبیلوں نے اس کی پیروی کی اور اس طرح نجد کے دیھاتی علاقوں میں مشھور ھوگیا وہ ھمیشہ حضرت رسول اکرم(ص) کے روضہ کی گنبد اور ائمہ کے روضوں کے منھدم کرنے سے متعلق موضوع کو ورد زبان رکھتا تھا اور اس کو اپنا نصب العین اور اپنے منحوس مقاصد کی کامیابی میں رکاوٹ سمجھتا تھا ،وہ ھمیشہ اسی کوشش میں لگا رہتا تھا کہ اگرقدرت وطاقت حاصل ھوجائے تو سب روضوں کو تباہ و برباد کرکے ان مقدس آستانوں کا نام و نشان تک مٹادیں لیکن موت نے اسے مھلت نہ دی اور مرگیا ۔

یھاں تک کہ عبدالعزیز جو محمد بن الوھاب کا ھم عصر تھا خود بھی اور اسکا بیٹا سعود کہ وہ دونوں خلیفہ، جانشین اور امیرالمسلمین جیسے ناموں سے موسوم تھے،انھوں نے بھی نجد اور اسکے اطراف و جوانب کی بستیوں پر اکتفا ء نھیں کی بلکہ دور درازکے شھروں اور علاقوں کو بھی اسی طور طریقہ پر عمل کرنے کو کھا اور انھیں طو رطریقوں کو رائج کرنے میں بہت کو شاں رھے نیز اپنے پیروکا روں کے لئے تمام مسلمان فرقوں کے جان و مال کو حلال قراردے دیا اور اپنے لشکر اور اپنے پیروکاروں کو یہ حکم دیا کہ جس علاقہ میں جاؤ و ھاں کے مردوں کو قتل کرڈالومال و دولت لوٹ لو، لیکن عورتوں اورناموس پر ھاتھ نہ ڈالو اور لشکر کے ھر فرد کو جنگ کے وقت ایک رقعہ خازن جنّت کے نام لکھ دو تا کہ وہ اپنی گردن میں لٹکالے تا کہ جس وقت اسکی روح جسم سے جدا ھو فوراً بغیر کسی سؤال و جواب اور تاخیر کے بہشت میں داخل ھوجائے ، اسکے مرنے کے بعد اس کی آل و اولادکی ذمہ داری لے لی ، اس طرح سے ھر فوجی، مال و دولت او رجنّت کی لالچ میں سکون او راطمینان کے ساتھ  جنگ میں قدم رکھنے لگا ۔

چونکہ اگر فتح ھوئی تو مال اور دولت ھاتھ آئے گا او راگر قتل ھوگیا تو اس رقعہ کی وجہ سے ( جو خازن جنّت کے نام اسکی گردن میں آویزاں ھے ) بغیر حساب وکتاب کے جنّت میں داخل ھوجائےگا۔

اس طرح گذشتہ سالوں میں نجد کے آس پاس کے علاوہ اور دوسرے شھر مثلاً احساء ، قطیف، اور بہت سے عرب علاقوں پر ، بصرہ کی حدود تک دوسری طرف عمان کے قریب علاقوں تک اور بنی عقبہ کے تمام علاقوں پر قھر اور غلبہ سے قابض ھو گئے ، لوگوں نے قتل وغارت  اورتاراجی اور قید و بند کے مصائب سے تنگ آکر مجبوراً ان کے مذھب اور طو رطریقوں کو اپنا لیا ، اس طرح اسکی حکومت اور اقتدار کا اثر دنیا کے مختلف گوشوں میں پھیل گیا چندمرتبہ ان کے قھر و غلبہ کے متعلق روم کے بادشاہ اور عجم کے دوسرے بادشاھوں تک یہ خبر بھیجی گئیں اسکے باوجودکسی نے ان کو روکنے کی کوشش نہ کی اور نہ ھی ان کے مقابلہ اور دفاع کے لئے کوئی قدم اٹھایا ،اس کے بعد صاحب کتاب تحفة العالم اس رسالہ کا بعض حصّہ نقل کرتے ھیں جو محمدبن عبدالوھاب نے اپنے اعتقاد اور فتووں کے متعلق لکھا ھے جیسا کہ آپ فرماتے ھیں کہ میں نے مذکورہ رسالہ کو محمدبن عبدالوھاب کے ماننے والے کے پاس دیکھا ھے اس رسالہ کو عربی ھی میں نقل کرنے کے بعد یہ تحریر فرماتے ھیں۔

اگر چہ اسکی اکثر دلیلیں جو اس نے قرآن کی آیتوں سے استدلال کے طور پر پیش کی ھےں،  ان سب کا جواب بھی قرآن ھی کی آیات میں موجود ھے مثال کے طو رپر شعائر اللهکی تعظیم وتکریم رسولخدا(ص) کی اطاعت جو خداوند عالم کی اطاعت ھی میں مضمر ھے لہٰذا جب رسول(ص) کی اطاعت کا فرض اور واجب ھونا ثابت ھوگیا جیسا کہ یہ آیت بھی اطاعت رسو ل(ص) کی تائید کررھی ھے:

” وَ مَا یَنطِقُ عَنِ الہَوَیٰ اِن ہُوَ اِلاّٰ وَحیٌ یُوحیٰ“

آنحضرت(ص)کے فرمان کے مطابق جنت اور ارکان دین کا زبان سے اقرار کرنا بھی مھم ترین واجب او رفریضہ ھے اور جو کچھ آنحضرت یا صاحبان امر سے اپنی مشکلات اور مصیبتوں میں اپنے منافع یا اپنے ضرر سے بچنے کے لئے اپنی زندگی کی خوشحالی یاتنگ دستی کے ایّام میں یا آخر ت میں نجات سے متعلق متوسل ھو، تو اپنے اور خدا کے درمیان ان حضرات وسیلہ اور شفیع قرار دے تو نہ کوئی حرج ھے اور نہ اس سے کسی عقیدہ کو کوئی ٹھیس پھونچتی ھے لیکن وھابی افراد یا محمدبن عبدالوہّا ب کے پاس اپنی باتوں کو ثابت کرنے کے لئے سب سے بڑی اورخطرناک دلیل شمشیر برّان اور تیغ آبدار ھے ، اور ایسی دلیل کا جواب تلواروںکی تیز دھاروں کے علاوہ کچھ نھیں ھوسکتا [10]

خونین حج او رمسلمانوں کے قتل عام کا دردناک واقعہ

”اِنَّ الَّذِینَ کَفَرُوا ویَصُدُّونَ عَن سَبِیلِ اللهِ وَالمَسجِدِ الحَرَامِ الَّذِی جَعَلنَاہُ لِلنَّاسِ سَوَاءً العَاکِفِ فِیہِ وَالبَادِ وَ مَن یُرِد فِیہِ باِلِحَادٍ بِطُلمٍ نُذِقْہُ مِن عَذَابٍ اَلِیمٍ“[11]

” بے شک جو لوگ کافرھوبیٹھے اور خدا کی راہ سے اور مسجد الحرام ( خانہ کعبہ ) سے جسے سب لوگوںکے  لئے ( عبادتگاہ ) بنا یا ھے ( اور ) اسمیں شھری اور بیرونی سب کا حق برابر ھے (لوگوں کو) روکتے ھیں(انکو ) اور جو شخص اسمیں شرارت سے گمراھی کرے اسکو ھم دردناک عذاب کامزاچکھا دیں گے “

بغیر کسی شک وشبہ کے حج ایک اھم انسان ساز او راسلام کو پھیلانے کے لئے بہت ھی عظیم عبادت اور نھایت مؤثر ذریعہ ھے، حج میں بہت سی ایسی خصوصیات او رصفات پائی جاتی ھے جو حج کو تمام عبادتوں سے ممتاز بنادیتی ھےں ، ھم یھاں پر حج کو مختلف گوشوں اور پھلووں کی طرف مختصرسا اشارہ کریں گے اور پھر اس دردناک اور افسوس ناک واقعہ کے متعلق کچھ بیان کریں گے جو سعودی حکومت کے نوکروں نے ایرانی ( اور غیر ایرانی ) حاجیوں کا حج کے دوران قتل عام کیا ھے ۔

حج، دنیا کے تمام مسلمانوں کے لئے ھے

اور کسی مخصوص قوم یا نسل سے تعلق نھیں رکھتا

خداوند عالم قرآن مجید میں حج کے متعلق فرماتاھے ۔

”وَاَذِّن فِی النَّاسِ بِالحَجِّ یَاتُو کَ رِجَالاً وَعَلَی کُلِّ ضَامِرٍ یَاتِینَ مِن کُلِّ فَجٍّ عَمِیقٍ“[12]

”اور لوگوں کے در میان حج کا اعلان کرو تا کہ لوگ ھر طرف سے جس طرح بھی ممکن ھوپیدل یا سوار ھو کر دور دراز علاقوں سے آ پ کی آواز پر لبیک کھیں اور خانہ خدا کی زیارت سے مشرّف ھوں ،اور حج کے لئے ھر ممکن وسیلہ سے استفادہ کریں “

قرآن مجید دوسرے جگہ فرماتا ھے:  سَوَاءً العَاکِفِ ِفیہِ وَ البَادِ“

خانہ خدا سب کے لئے برابر ھے چاھے مقامی افراد ھوں یا با ھرسے آنے والے مسافر،لہٰذا حج خدا کے سامنے تمام انسا نوں کو برابری کو کا درس دیتا ھے،اور حج انسانوں کے آپسی تعلقات میں مساوات کا عملی درس ھے ، اور انھی مفاھیم کے پیش نظر حج کے سیاسی پھلو کی ابتدا ھوتی ھے،لہٰذا حج برابری اور مساوات کا اعلان ھے اور تبعیض جیسی ظالم اور درد ناک رسوم کے باطل کرنے کا حکم اور احساس برتری جیسی لعنت کو معاشرے سے دور کرنے کا اعلان ھے۔

قرآن اور وحی کی اصطلاح میں حج کسی خاص سرزمین کے افراد سے مخصوص نھیں بلکہ یہ خدا کی عبادت کے لئے ایک عام دعوت ھے حج کے روحانی سفر میں کوئی بھی شخص کسی دوسرے پر برتری نھیں رکھتا ۔

اس معنوی سفر میں مقام کا دور ھونا بھی قریب محسوس ھوتا ھے قران مجید کے فرمان کے مطابق وہ مسجد جو حرم کعبہ میں بنائی گئی ھے اور تمام لوگوں کے لئے نماز ودعا اور طواف کی جگہ اور مقام ھے کہ ، سب لوگوں کے لئے برابر قرار دی گئی ھے لہذا اس اعتبار سے مکہ میں رھنے والے اور دور درازسے آنے والے مسافروں میں کوئی فرق نھیں ھے ، حج اس دنیا سے تعلقات اور روابط سے جدا ھوکر خداوند عالم کی طرف ایک طرح کی ہجرت ھے۔

معمار کعبہ وہ بت شکن اور مجاھد مرد تھا جو ھمیشہ ظلم سے برسرپیکار رھا اور ایسا اھل سیاست تھا جو اپنے زمانے میں رائج ایسے سیاسی نظام سے ٹکرایا جس میں بت پرستی ایک عام بات اور لوگوں کو جاھل رکھنارواج پاچکا تھا ،اور ان کی مقدس ترین چیز بتوں کو توڑ ڈالا اور اس عمل سے ان ظالموں کے ظاھر بظاھر اعلان جنگ فرمایا لہذا اس اعتبار سے بھی حج ایک سیاسی پھلو رکھتا ھے چونکہ کعبہ کا بنانے والا معمار اور بانی ایک سیاسی مدبّر ،مجاھد ، یکتاپرست اور ایثار وقربانی دینے والا شخص تھا ۔

خداوند عالم قرآن مجید میں دوسری جگہ ارشاد فرماتاھے :

”وَطَہِّرَبَیتِی لِلطَّائِفِینَ وَ القَائِمِینَ  وَالرُّکعَّ ِالسُّجُودِ“[13]

”اے ابراھیم تم ھمارے گھر کو طواف کرنے والوں،قیام کرنے والوں اوررکوع و سجودکرنے والوں کے لئے پاک وپاکیزہ بناؤ“

اس آیت کی روسے خانہ کعبہ کو ھر نجاست سے پاک و پاکیزہ ھونا چاہئے اور چونکہ خود قرآن مجیدمیں شرک کو گناہ اورگناہ کو نجاست کھاگیا ھے ،لہٰذا حرم امن الٰھی میں ظلم و ستم کے لئے کوئی جگہ نھیں اور حرم الٰھی کو ظلم و ستم سے پاک و پاکیزہ بنا نالازم اور ضروری ھے ،آیہٴ شریفہ میں ”وَطَہِّر بَیتِی “ے فقط ظاھری نجاست سے پاک و صاف کرنا ھی مراد نھیں ھے بلکہ حرم امن جو حضرت جبرئیل کے رفت آمد کی جگہ ھے مشرکوںکے شرک اور ظالموں کے ظلم سے پاک وپاکیزہ کرنا بھی مراد ھے ،یعنی خدا وند عالم فرماتا ھے کہ میرے گھر کو ظلم و ستم کی نجاست سے پاک و پاکیزہ رکھو ،لہٰذا خانہ خدا سے ظلم و ستم نیز ظالموں کو مٹانا ایک طرح سے خانہ خدا کو پاک رکھنا ھی ھے ،اور یہ کا م طبّی دستور کے مطابق ایک معنوی اور روحانی فریضہ ھے ویسے ھی ایک عظیم سیاسی وظیفہ بھی ھے ،تب ھی خداوند عالم تھدید و خوف دلا رھا ھے کہ جو ظالم بھی حرم کعبہ پر تجاوز کا ارادہ کرے (چاھے کعبہ کی ظاھری شکل کو ختم کرنا چاھے یا اسکے روحانی اور معنوی اثر کوختم کرنا چاھے ) یا حاجیوں کو روکے (زمانہ حاضر کی طرح رسوم شرعیہ اور اعمال و مناسک حج پر عمل کرنے سے روکے ) اور ظلم کے ساتھ شرک پھیلا ئے تو ایسا شخص اپنے شرمناک ارادہ میں کامیاب ھونے سے پھلے ھی دردناک عذاب میں مبتلا ھو جائیگا ،(انشاء اللہ)قرآن مجیدکا اعلان ھے کہ حج اورخانہ خدا کی زیارت کے بارے میں ظلم و ستم کا ارادہ بھی الٰھی انتقام کا سبب ھے:

” وَ مَن یُرِد فِیہِ بِاِلحَادٍ  بِظُلمٍ نُذِقہُ مِن عَذَابٍ اَلِیمٍ “

”جو بھی حرم امن میں ظلم کے ساتھ الحا دو شرک کا ارادہ کرے (اور صراط الٰھی کو مسدود کرنا چاھے اور لوگوں کو خانہ خدا کی زیارت اور مسجد الحرام میں عبادت کرنے سے روکے ) ھم اسکو دردناک عذاب کا مزہ چکھائیں گے“

اسی وجہ سے ھماری روایات کی کتابوں میں ایک باب بنام ”باب من ارادلکعبہ بسوء“کے عنوان کے تحت نقل ھوا ھے اورائمہ معصومین (ع)سے اس بارے میں بہت سی روایات نقل ھوئی ھیں ۔

حج کے متعلق اسلامی حکومت کی ذمہ داریاں

خانہ کعبہ کی زیارت اور اعمال حج کاا نجام دینا ، دین اسلام کے ان اھم ترین واجبات میں سے ھے کہ اگر کوئی مسلمان بغیر کسی عذر کے وظیفہ حج کو انجام نہ دے تومرتے وقت اس سے کھاجائیگا کہ یہ شخص مسلمانوں کی صف سے خارج ھے اور ایسے شخص کو غیر مسلموں کی صف میں لکھا جائیگا، حضرت علی (ع) کی وصیت سے استفادہ ھوتا ھے کہ اگر خانہ کعبہ کی زیارت بالکل ترک کردی جائے تو عذاب الٰھی کا نازل ھوناایک فوری عمل ھے اور بغیر کسی مھلت کے عذاب نازل ھو جا ئیگا ، ”اللهُ اَللهُفِی بَیتِ رَبِّکُم فَاِنَّہُ اِن تُرِکَ لَم تَنَاظَرُوا“

اگر کوئی سال ایسا آئے کہ لوگ کعبہ کی زیارت نہ کرنے جائیں اور خانہ خدا کا کوئی زائر اور حاجی نہ ھو، تو اسلامی حکومت پر واجب ھے کہ بیت المال کے خرچ سے لوگوں کو حج کے لئے بھیجے جیسا کہ حضرت امام صادق(ع)نے فرمایا ھے:

” لَو عَطَّلَ النَّاسُ الحَجََّ لَوَجَبَ عَلَی الِامَامِ اَن یَجُرَّہُم عَلَی الحَجِّ اِن شَاؤُوا وَ اِن اَبَوا فَاِنَّ ہَذَا البَیتَ اِنَّمَا وَضَعَ لِلحَجِّ …

فَاِن لَم یَکُن لَہُم اَموَالٌ اَنفَقَ عَلَیہِم مِن بَیتِ مَالِ المُسلِمِینَ “۔

اس بنا پر حج اسلام کا سیاسی عبادی پھلو ھے اگرچہ (ھمارادین و ھی ھے جو ھماری سیاست ھے اور ھماری سیاست بھی و ھی ھے جو ھمارا دین ھے)

یعنی ھمارا دین اور سیاست ایک ھی چیز ھے اور حج کا سیاسی عبادی ھونا ان وظائف پر غور کرنے سے بھی ثابت ھوتا ھے جو مسلمانوں کے پیشوا اور امام کی ذمہ داری ھے او رحج کا سیاسی عبادی ھونا ان احکامات سے ثابت ھے اور بخوبی ظاھر ھے کہ جو حکومت اسلامی کے لئے پیش کئے گئے ھیں ، لہٰذا اس اعتبار سے بھی حج کے بہت سے سیاسی پھلو ھیں ۔

حج

[1] تجزیہ و تحلیل عقائد فرقہ وہّابی مولفہ آیت الله مرحوم سید محمد قزوینی مترجم علی داونی مطبع ،  قدر ص ۲۵۔

[2] سورہ مائدہ آیت ۵۰۔

[3] تجزیہ و تحلیل عقائد فرقہ وہّابی مولفہ آیت الله مرحوم سید محمد قزوینی مترجم علی داونی مطبع قدر ص ۳۸۔

[4] سورہ بقرہ آیت ۲۵۲۔

[5] تجزیہ و تحلیل عقائد فرقہ وہّابی مولفہ آیت الله مرحوم سید محمد قزوینی مترجم علی داونی مطبع قدر،ص ا۴۔

[6] سورہ نساء آیت ۹۴۔

[7] نشریہ حوزہ نمبرآبان  ۳۶۵ا س ص ۷۶ ۔

[8] سورہ شوریٰ آیت ۲۳۔

[9] تجزیہ و تحلیل عقائد فرقہ وہّابی ص ا۲ ۔

[10] تحفة العالم و ذیل التحفہ میر عبداللطیف خان شوشتری کا سفرنامہ مرتبہ ص ، موحد مطبع طھوری ص ۴۷۷۔

[11] سورہ حج آیت ۲۵)۔

[12] سورہ حج آیت ۲۷۔

[13] سورہ حج آیت ۲۶۔

تبصرے
Loading...