صدقہ کیسے اور کس کو دیں؟ کم از کم صدقہ کتنا ہونا چاہئے؟

/ ثقافتی خدمات:
۔۔۔۔۔
تفصیلی سوال:
صدقہ (زکوۃ اور خمس کے سوا) دینے کی کیفیت کیا ہے، صدقے کے مستحقین کون ہیں؟ کونسی چیزیں بطور صدقہ دی جا سکتی ہیں؟ کم از کم صدقہ کتنا ہونا چاہئے؟
۔۔۔۔۔

مختصر جواب:
اسلام میں مستحب صدقہ اللہ کی رضا کے لئے ہے،
شرطیں:  
جس کو صدقہ دیتے ہو اس پر احسان نہ جتاؤ،
صدقہ دیتے ہوئے ریاکاری اور دکھاوے سے پرہیز کرو،
صدقہ ایسے محتاج کو دو جو اس کو گناہ میں خرچ نہ کرتا ہو،
صدقہ پاک اور حلال اموال سے نکالا جاسکتا ہے،
صدقے میں افراط اور تفریط [Two Extremes] سے پرہیز کرنا چاہئے، [نہ ہاتھ جیب پر رکھنا اور نہ ہی ہاتھ مکمل طور پر کھولنا] یعنی نہ تو صدقہ دینے میں کوتاہی کرو اور نہ ہی اپنی پوری دولت کو بطور صدقہ دے دو، کہ بعد میں خود محتاج ہوجاؤ،
یہ صدقہ انسان کی اپنی صلاحیت پر منحصر ہے اور بعض روایات میں ہے کہ صدقہ دے دو خواہ وہ ایک گھونٹ پانی ہی کی صورت میں کیوں نہ ہو۔
صدقے کے مستحقین میں اقارب اور رشتہ داروں کو ترجیح حاصل ہے۔
۔۔۔۔۔
تفصیلی جواب

تمہید
اسلام کی شرع مقدسہ میں صدقے کی اہمیت کے بارے میں قرآنی آیات اور احادیث خاندانِ عصمت و طہارت میں بہت زیادہ سفارشات ہوئی ہیں۔
اسلام میں صدقے کی دو قسمیں ہیں: ایک واجب صدقہ ہے جو درحقیقت “زکوۃ” [زکوۃِ مال اور زکوۃِ فطرہ] ہی ہے اور آیات و روایات میں اس زکوۃ کی مقدار بھی بیان ہوئی ہے اور اس کے مستحقین بھی متعین ہیں۔ (1) لیکن ہم یہاں اختصار کا لحاظ رکھتے ہوئے صرف مستحب صدقے پر بحث کررہے ہیں اور سوال بھی اسی صدقے کے بارے میں ہوا ہے۔

۔۔۔۔۔
الف۔ صدقے کی اہمیت
صدقے کی اہمیت میں احادیث بکثرت نقل ہوئی ہیں جن کے فوائد بہت زیادہ ہیں؛ مثلاً یہ کہ:
صدقہ رزق میں برکت کا سبب ہے
صدقہ بیماریوں کی شفاء ہے
صدقہ جہنم کی آگ سے دوری کا سبب ہے
صدقہ دنیا میں ستر بلاؤں اور میبتوں کو دفع کردیتا ہے
ستر شیطانوں کو دفع کرتا ہے
صدقہ عمر کے طویل ہونے کا سبب ہے و۔۔۔۔ (2)
۔۔۔۔۔
ب۔ صدقے کی آفات
خداوند متعال صدقہ دینے کی تعریف فرماتا ہے لیکن صدقے کی دو روشوں کو ہرگز پسند نہیں کرتا:
ایک وہ صدقہ جس میں ریا اور دکھاوے کا عنصر شامل ہو جو ابتداء ہی سے باطل ہے اور اس کا کوئی بھی مثبت ثمرہ نہیں ہے
دوسرا وہ جس کا ثواب محتاج شخص پر منت و احسان جتانے اور اذیت و آزار کی وجہ سے محو ہوکر رہ جاتا ہے،
صدقے کی یہ دو روشیں صدقے کے ضائع ہونے کا سبب بنتے ہیں اور اس کی قدر و قیمت نیست و نابود ہوجاتی ہے اور وجہ بھی یہ ہے کہ “یہ صدقہ رضائے الہی کے لئے نہیں دیا گیا”، اور اگر پھر اللہ کی رضا کے لئے ہو بھی، صدقہ دینے والا اپنی الہی نیت کو خالص نہيں رکھ سکا ہے اور ریا کی وجہ سے یا احسان جتانے کے بموجب یا پھر اذیت دینے کے باعث اس کو باطل کرچکا ہے۔ (3)

صدقہ دینے میں ایک بہت ہی اہم نکتہ یہ ہے اس کو خفیہ طور پر دیا جائے۔

صدقہ دینے کی کیفیت:

خداوند متعال نے صدقے کی دو قسمیں بیان کی ہیں:
1۔ آشکار اور اعلانیہ صدقہ
2۔ خفیہ اور رازداری سے دیا گیا صدقہ
اللہ نے ان دونوں قسموں کی تعریف فرمائی ہے کیونکہ ان دنوں قسموں کے صدقے کے اچھے اور اہم نتائج اور اثرات ہیں۔
اول الذکر صدقے کی تعریف ہوئی ہے اس لئے کہ جب آپ اعلانیہ صدقہ دیتے ہیں تو یہ درحقیقت لوگوں کو نیک کاموں کی عملی دعوت ہے اور اس سے بہت سے لوگوں کو ترغیب دلائی جاتی ہے کہ وہ بھی صدقہ دیں اور دوسری طرف سے اس سے محتاجوں اور مسکینوں کو دلاسہ ملتا ہے۔
محتاجوں کو دلاسہ ملتا ہے، وہ کیسے؟ وہ یوں کہ وہ دیکھتے ہیں کہ معاشرے میں مہربان اور نیکوکار لوگ موجود ہیں جو ان کو تنہا نہیں چھوڑتے اور انہيں گرتے ہوا نہیں دیکھ سکتے اور معاشرے میں ان کے لئے اپنے کچھ اموال مختص کردیتے ہیں تا کہ ان کی ضروریات پوری ہوں اور یہ وہ مہربان لوگ ہیں جو محتاجوں کی مدد کرکے اپنی آخرت کے لئے ذخیرہ بنانے کا اہتمام کرتے ہیں۔
یہ عمل [اعلانیہ صدقہ دینا] اس لحاظ سے بھی بہت اہم ہے کہ محتاج اور مسکین افراد کی ناامیدی امید میں بدل جاتی ہے، اور اپنے گھر میں اور معاشرتی کردار ادا کرنے کے سلسلے میں، نشاط و طراوت کی نعمت سے بہرہ ور ہوجاتے ہیں اور محسوس کرتے ہیں کہ اگر سرمایہ دار لین دین اور تجارت کرتا ہے، تو صرف اپنے مفاد ہی کے لئے نہیں کرتا بلکہ وہ اپنے اموال میں محرومین اور سائلوں کے لئے معلوم اور متعین حق قرار دیتے ہیں۔ چنانچہ اس عمل کے بہت سے معاشرتی اور نہایت اہم اثرات ہیں۔ (4)
سورہ معارج کی چند آیات کا اردو ترجمہ ملاحظہ ہو:
إِنَّ الْإِنسَانَ خُلِقَ هَلُوعاً (19) إِذَا مَسَّهُ الشَّرُّ جَزُوعاً  (20) وَإِذَا مَسَّهُ الْخَيْرُ مَنُوعاً (21) إِلَّا الْمُصَلِّينَ (22) الَّذِينَ هُمْ عَلَى صَلَاتِهِمْ دَائِمُونَ (23) وَالَّذِينَ فِي أَمْوَالِهِمْ حَقٌّ مَّعْلُومٌ (24) لِّلسَّائِلِ وَالْمَحْرُومِ (25) وَالَّذِينَ يُصَدِّقُونَ بِيَوْمِ الدِّينِ (26) وَالَّذِينَ هُم مِّنْ عَذَابِ رَبِّهِم مُّشْفِقُونَ (27)
ترجمہ: یقینا انسان بہت چھوٹے دل والا پیدا ہوا ہے ٭ جب اس پر کوئی مصیبت آتی ہے تو وہ بے قرار ہو جاتا ہے  ٭ اور جب کچھ بھی دولت ہاتھ آتی ہے تو بخل سے کام لیتا ہے  ٭ سوا ان نماز گزاروں کے  ٭ جو ہمیشہ نماز کے پابند رہتے ہیں  ٭ اور جن کے مال میں ایک مقرر حق ہے  ٭ سوال کرنے والے اور نہ سوال کرنے والے محتاج کے لئے  ٭ اور جو جزاء وسزا کے دن کو سچ مانتے ہیں  ٭  اور جو اپنے پروردگار کی طرف سے سزا سے ڈرتے رہتے ہیں۔   

اب دیکھتے ہیں کہ مؤخر الذکر والے [غیر اعلانیہ اور خفیہ] صدقے کے اثرات کیا ہیں:
خفیہ طور پر دیئے جانے والے صدقے کے اثرات یہ ہیں کہ:
یہ صدقہ ریا اور دکھاوے سے دور ہے
محتاج و مسکین کی آبرو محفوظ رہتی ہے اور
محتاج اور مسکین شخص ذلت و خفت محسوس نہيں کرتا؛

چنانچہ کہا جاسکتا ہے کہ اعلانیہ صدقے کے اثرات اور فوائد کچھ زیادہ ہی ہیں لیکن خفیہ صدقہ دینا زیادہ خالص اور پاک انداز سے انجام پاتا ہے اور اس کی فضیلت زیادہ ہے۔
چونکہ دین اسلام اخلاص پر بہت زیادہ تاکید کرتا ہے لہذا کوئی عمل جس قدر کہ خالص تر ہوگا اس کی فضیلت اسی قدر زیادہ ہوگی چنانچہ اگرچہ اللہ تعالی نے دونوں قسموں کے صدقے کو ممدوح جانا ہے لیکن وہ خفیہ صدقے کو ترجیح دیتا ہے اور سورہ بقرہ کی آیت 271 میں فرماتا ہے:
“إِن تُبْدُواْ الصَّدَقَاتِ فَنِعِمَّا هِيَ وَإِن تُخْفُوهَا وَتُؤْتُوهَا الْفُقَرَاء فَهُوَ خَيْرٌ لُّكُمْ وَيُكَفِّرُ عَنكُم مِّن سَيِّئَاتِكُمْ وَاللّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ”۔
ترجمہ: اگر تم ظاہر کرو خیرات کو تو یہ بھی اچھا ہے، اور اگر اسے پوشیدہ رکھو اور محتاجوں کو دے دو تو وہ بہتر ہے تمہارے لیے اور تمہارے کچھ گناہوں کا کفارہ ہو جائے گا اوراللہ تمہارے اعمال سے با خبر ہے ہی۔

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا:  
“جو کچھ  اللہ نے تم پر واجب کیا ہے اس کی اعلانیہ بجا آوری بہتر ہے اس کی خفیہ بجا آوری سے اور جو کچھ اللہ نے مستحب قرار دیا ہے اس کی خفیہ بجاآوری بہتر ہے اس کی اعلانیہ بجا آوری سے”۔ (5)

البتہ صدقہ دینے والا صدقہ دینے میں اعتدال کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے یعنی ایسا نہ ہو کہ صدقے میں کنجوسی برتے اور ایسا بھی نہ ہو کہ اس طرح سے صدقہ دے کہ خود دشواریوں سے دوچار ہوجائے۔
خداوند متعال کا ارشاد ہے:
“وَلاَ تَجْعَلْ يَدَكَ مَغْلُولَةً إِلَى عُنُقِكَ وَلاَ تَبْسُطْهَا كُلَّ الْبَسْطِ فَتَقْعُدَ مَلُوماً مَّحْسُوراً”؛ (6)
ترجمہ: اور اپنے ہاتھ کو اپنی گردن سے بندھا ہوا نہ رکھو اور نہ اسے بالکل پھیلا ہی دو، کہ اس صورت میں لعنت ملامت میں گرفتار، رنج و غم، پریشانی میں مبتلا بیٹھو گے۔  

ج۔ صدقہ کس چیز سے دیں؟
کچھ تاریخی روایات میں ہے کہ بعض افراد چوری کرکے اس میں سے صدقہ دیا کرتے تھے لیکن قرآن و حدیث نے صدقہ دینے کے لئے ضوابط کا تعین کیا ہے۔
خداوند متعال قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے:
“يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ أَنفِقُواْ مِن طَيِّبَاتِ مَا كَسَبْتُمْ”؛ (سورہ بقرہ، آیت 267)
ترجمہ: اے ایمان والو! اپنی کمائی کی اچھی، پاک و حلال چیزوں سے خیرات کرو۔
یعنی یہ کہ پاک اور حلال اموال میں سے ـ تمہاری اس کمائی میں سے جو تم حاصل کرتے ہو ـ صدقہ دے سکتے ہو؛
علاوہ ازیں تمہاری کوشش یہ ہونا چاہئے کہ پست اور ناچیز اموال میں سے صدقہ نہ دیا جائے؛ کیونکہ صدقہ اللہ کی رضا کے حصول کے لئے دیا جاتا ہے؛ صدقے میں ایک کردار صدقہ دینے والے کا ہے اور ایک طرف خدا کی ذات ہے اور دوسری طرف سے بےنوا اور محتاج افراد ہیں اور اگر مؤمنین ان مسائل کا لحاظ نہ رکھیں تو [معاذ اللہ] خدا کی بھی توہین ہوگی اور محتاجوں اور مساکین کی بھی تذلیل لازم آئے گی۔ (7)
اللہ تعالی قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے:
“لَن تَنَالُواْ الْبِرَّ حَتَّى تُنفِقُواْ مِمَّا تُحِبُّونَ وَمَا تُنفِقُواْ مِن شَيْءٍ فَإِنَّ اللّهَ بِهِ عَلِيمٌ”؛ (سورہ آل عمران، آیت 92)
د۔ صدقه کس کو دیں؟
عمرو بن جموح ایک مالدار بزرگ تھے۔ ایک دن وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ کی خدمت میں عرض گزار ہوئے:
میں کس چیز میں سے صدقہ دوں اور کن لوگوں کو دوں؟
آیت کریمہ نازل ہوئی:
“يَسْأَلُونَكَ مَاذَا يُنفِقُونَ قُلْ مَا أَنفَقْتُم مِّنْ خَيْرٍ فَلِلْوَالِدَيْنِ وَالأَقْرَبِينَ وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينِ وَابْنِ السَّبِيلِ وَمَا تَفْعَلُواْ مِنْ خَيْرٍ فَإِنَّ اللّهَ بِهِ عَلِيمٌ”؛ (8)
ترجمہ: لوگ آپ سے پوچھتے ہیں کہ وہ کیا خیرات کریں [اور صدقہ دیں]؟ کہہ دیجئے کہ جو مال بھی تم صرف کرنا چاہو ، وہ ->”ماں، باپ، عزیزوں” 
امر مُسَلَّم یہ ہے کہ یہاں جو کچھ بیان ہوا یہ واضح مصادیق ہیں لیکن موضوع ان ہی مصادیق تک محدود نہیں بلکہ حقیقت میں انسان ہر اس چیز سے صدقہ اور خیرات دے سکتا ہے جن سے صدقہ اور خیرات دینا ممکن ہے اور جن کو صدقہ دیا جاسکتا ہے ان کا دائرہ بھی بہت وسیع ہے۔ ہم نے یہاں اختصار کو ملحوظ خاطر رکھا ہے۔

کچھ آیات کریمہ سورہ بقرہ سے:

… وَمَا تُنفِقُواْ مِنْ خَيْرٍ فَلأنفُسِكُمْ وَمَا تُنفِقُونَ إِلاَّ ابْتِغَاء وَجْهِ اللّهِ وَمَا تُنفِقُواْ مِنْ خَيْرٍ يُوَفَّ إِلَيْكُمْ وَأَنتُمْ لاَ تُظْلَمُونَ (272) لِلْفُقَرَاء الَّذِينَ أُحصِرُواْ فِي سَبِيلِ اللّهِ لاَ يَسْتَطِيعُونَ ضَرْباً فِي الأَرْضِ يَحْسَبُهُمُ الْجَاهِلُ أَغْنِيَاء مِنَ التَّعَفُّفِ تَعْرِفُهُم بِسِيمَاهُمْ لاَ يَسْأَلُونَ النَّاسَ إِلْحَافاً وَمَا تُنفِقُواْ مِنْ خَيْرٍ فَإِنَّ اللّهَ بِهِ عَلِيمٌ (273) الَّذِينَ يُنفِقُونَ أَمْوَالَهُم بِاللَّيْلِ وَالنَّهَارِ سِرّاً وَعَلاَنِيَةً فَلَهُمْ أَجْرُهُمْ عِندَ رَبِّهِمْ وَلاَ خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلاَ هُمْ يَحْزَنُونَ (274) (سورہ بقرہ)
ترجمہ: آپ پر انہیں ٹھیک راستے پرلگا دینے کی ذمہ داری نہیں ہے۔ وہ تواللہ جسے چاہتا ہے ٹھیک راستے پر لگاتا ہے اور جو تم لوگ مال و دولت خیرات میں دو گے وہ اپنے ہی لیے اور نہیں خیرات کرو گے مگر اللہ کی خوشنودی کے لیے اور جو مال و دولت خیرات میں دو گے وہ پورا پورا تمہیں ادا کر دیا جائے گا اور تم پر ظلم نہیں کیا جائے گا (٭) ان تنگ دست افراد کا حق ہے جو اللہ کی راہ میں بے چارہ و تدبیر ہو گئے ہیں اس طرح کہ روئے زمین پر سفر نہیں کر سکتے نا واقف انہیں رکھ رکھاؤ کی وجہ سے مال دار سمجھے گا، تم انہیں ان کے قیافہ سے پہچان سکتے ہو، وہ لوگوں سے لپٹ کر سوال نہیں کرتے اور جو کچھ مال ودولت تم پر خرچ کرو تو بلاشبہ اللہ اس کا جاننے والا ہے (٭) وہ جو اپنے اموال رات اور دن میں، خفیہ اور اعلانیہ خیرات میں دیتے ہیں، ان کے لیے ان کا اجر ہے ان کے پروردگار کے یہاں اور انہیں کوئی کھٹکا نہیں ہو گا اور نہ افسوس ہو گا۔

لہذا، اگرچہ انفاق اور صدقہ و خیرات کا دائرہ بہت وسیع ہے لیکن اسلام نے اس کے لئے کچھ ترجیحات بھی بیان کی ہیں:
بےشک والدین اگر محتاج ہیں تو پہلی ترجیح والدین ہی ہیں
اس کے بعد رشتہ دار اور اقارب و اعزاء کی باری آتی ہے
بعدازاں یتیموں کی باری ہے اور پھر
وہ لوگ جو درحقیقت محتاج نہیں ہیں لیکن کسی حادثے کی وجہ سے، سفر خرچ ختم ہونے کی بنا پر، یا گھریلو اخراجات بڑھنے اور رقم ختم ہونے اور مقروض ہونے کی وجہ سے محتاج ہوجاتے ہیں۔ (9)
اب اس سوال کا جواب ـ کہ کم از کم صدقہ کس قدر ہونا چاہئے ـ یہ ہے کہ آپ کی قوت جس قدر ہو، اتنا ہی صدقہ دے دیا کریں، حتی کہ بعض روایات میں پانی کا ایک گھونٹ ہی بطور صدقہ بیان ہوا ہے۔ (10)
 
نتیجہ:
آیات و روایات کے مطابق، صدقہ دینا ایک نہایت اہم کام ہے، لیکن صدقہ دینے والا صرف رضائے الہی کو ہی مد نظر رکھے اور احتیاط رہے کہ کہیں محتاج فرد پر احسان جتانے یا اسے اذیت پہنچانے یا ریاکاری اور دکھاوے کے ذریعے اپنا اجر ضائع نہ کرے۔ جتنا ممکن ہو صدقہ و خیرات دے، اور صدقات میں والدین اور اقرباء کو ترجیح دے۔
۔۔۔۔۔۔

1۔ سوره توبہ، آیت 60۔
2۔ شیخ حر عاملی، وسائل الشیعة، ج 6، ص 257، موسسة آل البیت، قم، 1409ق۔
3۔ طباطبائی، سید محمد حسین، المیزان، ترجمه، موسوی همدانی، ج 2، ص 601، جامعه مدرسین، قم، 1374۔
4۔ همان، ج 2، ص 610۔
5۔ کلینی، فروع کافی، ج 1، ص 7، دارالکتب الاسلامیة، تهران، 1365۔
6۔ سورہ بنی اسرائیل [اسراء]، آیت 29۔
7۔ داور پناه، ابوالفضل، انوار العرفان فی تفسیر القرآن، ج 4، ص 500،انتشارات صدر، تهران، 1375۔
8۔ سورہ بقرہ، آیت 215۔
9۔ مکارم شیرازی، تفسیر نمونه، ج2، ص104۔
10۔ طیب، سید عبد الحسین، تفسیر اطیب البیان، ج 1، ص 230،انتشارات اسلام، تهران، 1378۔

تبصرے
Loading...