شہدائے کربلا کی عظمت كا راز

 

تمام شہداء برابر نہیں ہیں بلکہ بعض شہادتیں بعض دوسری شہادتوں سے افضل و برتر ہیں ۔ شہدائے کربلا اس لئے دوسرے شہدا پر افضلیت نہیں رکھتے  کہ وہ بھوکے  پیاسے شہید ہوئے ۔ ایسے بہت سے شہدا ہیں جو آخر وقت تک تشنہ لب رہے ۔ بلکہ شہدائے کربلا کی فضیلت اس حساس موقع پر شہید ہونا ہے ۔ ان حالات میں اگر یہ واقعہ پیش نہ آتا اور یہ شہادتیں نہ دی جاتیں تو دین کی بساط الٹ کر رہ جاتی ۔ جو کام جتنا حساس ہو اتنا سخت بھی  ہوتا ہے ۔ اسی لئے اس بات کا یقین کرنے میں کوئی دشواری نہیں ہوتی کہ حسین ابن علی علیہما السلام پانچ مہینے یا اس سے کچھ  زیادہ مکہ اور مدینہ کے درمیان سر گرداں رہے تا کہ سب لوگ جان لیں ( کہ کیا ہونے والا ہے اور وہ کیا کرنے والے ہیں ) اور سب جان بھی  گئے کوفی ، عراقی ، حجازی سب کو معلوم ہوگیا تھا  ۔ اور امام صرف چالیس پچاس لوگوں کے ساتھ  کربلا میں وارد ہوئے ۔ کیونکہ سب اسی دن امام کے ساتھ  نہیں آئے تھے  بلکہ بہت سے بعد میں آئے تھے  اور کچھ  تو شب عاشور یا صبح عاشور امام سے ملحق ہوئے تھے  ۔ ان چالیس آدمیوں کا امام کے ساتھ  رہنا یقینا بہت سخت تھا  اس لئے کہ دشمن کے اتنے بڑے سیلاب کے سامنے ڈٹے رہنا معمولی بات نہ تھی بلکہ اس کےلئے مضبوط ارادوں والام دل ہونا چاہئے۔ 

پیغمبر کے زمانے کی طرح نہیں تھا  کہ پیغمبر خودہاتھ میں پرچم لے کر نکلتے تھے  اور سب لوگ ہنستے اور مسکراتے ہوئے ۔ پیغمبر کی ہمراہی میں نکلتے تھے  اور میدان جنگ میں پہنچ جاتے تھے  ۔ آج تمام اصحاب پیغمبر ( ص ) گہروں میں بیٹہ گئے تھے  عبد اللہ بن عباس ، عبد اللہ بن جعفر اور دوسرے افراد منہچھپا کر بیٹہ گئے تھے  جب کہ یہ لوگ پیغمبر کے قرابتداروں میں سے تھے  ۔ 

صرف ایک چہوٹا سا شجاع بہادر ، نڈر ، کفر کی آنکھوں میں آنکھیں  ڈالنے والے اور اسے حقارت کی نظر سے دیکھنے  والا گروہ آمادہ تھا  کہ تمام چیزوں کو نچھاور  کر کے پیغمبر کے نواسے پر اپنی جان قربان کرے ۔ 

شہدائے کربلا کی اہمیت کی وجہ یہ ہے ۔ چونکہ اس وقت یہ فیصلہ بہت سخت اور دشوار تھا  ۔ اسی لئے ابن زبیر ، ابن عمر ، ابن جعفر اور ابن عباس جیسے افراد اس قافلہ میں شامل نہ ہوسکے اور یہ سب ایک صف میں تھے  ان میں کوئی فرق نہیں تھا ۔ کوئی یہ تصور نہ کرے کہ عبد اللہ ابن جعفر اور عبد اللہ ابن عباس دوسروں سے الگ تھے  ۔ جی نہیں ایسا نہیں ہے ! نا فرمانی نافرمانی ہے چاہے وہ کوئی بھی  کرے ۔ ان سب نے نافرمانی کی تھی  کسی میں بھی  جرائت نہیں تھی  کہ حسین ابن علی کا ساتھ  دے سوائے ان چند افراد کے ۔ 

ہم پوری تاریخ میں شہدائے کربلا جیسے عظیم شہدا تلاش نہیں کر سکتے ۔ آج بھی  ویسے ہی دن ہیں آج ہمارے شہدا بھی  بہت عزیز اور با عظمت ہیں لیکن جیسا کہ امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا تھا  ( لا یوم کیومک یا ابا عبد اللہ ) کوئی دن کربلا کے دن کی طرح نہیں ہوسکتا ۔ تاریخ میں آج تک ایسا دن نہیں آیا ۔ اسلام سے پہلے ، صدر اسلام میں اور اس کے بعد سے آج تک ہمیں ایسا کوئی دن نہیں ملتا جو کربلا کی طرح ہو ۔ یہی وجہ ہے امام حسین علیہ السلام کو سید الشہداء اور بقیہ شہدائے کربلا کو شہدائے تاریخ کا سردار کہا جاتا ہے جو سب سے عظیم اور سب سے برتر ہیں ۔ ( ۶۷ )

 چراغ ہدایت

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی یہ حدیث مبارکہ یقینا اس نے سنی ہوگی 

( ان الحسین مصباح الھدیٰ و سفینۃ النجاہ ) 

بے شک حسین ( ع ) ہدایت کا چراغ اور نجات کی کشتی ہے ۔ یہ صرف کسی ایک خاص زمانے سے مخصوص نہیں ہے بلکہ ہر زمانے میں ایسا ہی ہے ۔ البتہ بعض زمانوں میں خاص طور پر اس کا جلوہ نظر آتا ہے ۔ جب واقعہ عاشورا پیش آیا یہ انہیں زمانوں میں سے تھا  ۔ علی و فاطمہ کے لخت جگر کا چراغ ہدایت اور کشتی نجات ہونا ان لوگوں کی سمجھ  میں آگیا جو ان کی معرفت حاصل چکے تھے  ۔ امام حسین واقعہ عاشورا سے دس سال پہلے امام بن چکے تھے  آپ اس وقت بھی  چراغ ہدایت اور کشتی نجات تھے  لیکن یہ بات لوگوں کے لئے اتنی واضح اور روشن نہیں تھی  واقعہ عاشورا میں واضح طور پر جلوہ گر ہوئی ۔ آج بھی  وہی زمانہ ہے ۔ آج سے سو سال بلکہ پانچ سو سال کی بنسبت امام عالی مقام کا چراغ ہدایت ہونا زیادہ سمجھ  میں آتا ہے۔ آج جب ہم کہتے ہیں کہ یہ زمانہ عصرتحریک اور عصر انقلاب ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ آج حسین ابن علی پھر  سے ایک ماہتاب عالم تاب بن کر چمک اٹھے  ہیں ( جو تیرہ سو سال سے اس امت کے دل میں ، ہماری مجسدوں امامباڑوں اور ہماری مجالس و محافل میں ایک چراغ بن کر چمک رہے تھے  ) جیسے واقعہ کربلا کے وقت بہت سے افراد تھے  جو اس چراغ کی نورانیت کو نہ دیکھ  سکے آج بھی  ایسے افراد ہے جو دل افروز چراغ عالم تاب کو نہیں دیکھ  پا رہے ہیں ۔ ( ۹ )

 غیر جانبدار لوگ

پیغمبر اکرم ( ص ) نے ارشاد فرمایا : جب بھی  معاشرے پر ایساحاکم ہو جائےجو حلال خدا حرام اور حرام خدا کو حلال کر رہا ہو ، خدا کے عہد و پیمان کو پائمال کر کے لوگوں پر ظلم و ستم ڈہا رہا ہو اور کینہ و دشمنی کی بنیاد پر لوگوں سے بدسلوکی کر رہا ہو ، توجو انسان اس صورتحال کو دیکھ  رہا ہو، اپنی زبان و عمل سے اس کے خلاف کوئی اقدام نہ کرے ( کان حقا علی اللہ ان یدخلھ مدخلھ ) خدا کو حق ہے کہ اس شخص کو بھی  وہیں رکہے جہاں اس ظالم کا ٹہکانہ ہے اور اسے بھی  اس کے ساتھ  عذاب میں مبتلا کرے ۔ آج بہت سے اسلامی ممالک میں ظالم و جابر حاکموں کی حکومت ہے جو حلال خدا کو حرام اور حرام الٰہی کو حلال کرنے میں لگے ہیں ۔ خدا کے عہد کو توڑ کر امریکہ سے عہد و پیمان کرتے ہیں ۔ ایسے ممالک میں وہ لوگ جو خاموش تماشائی بنے ہیں اور اس علم کے مقابلے اپنی کوئی ذمہ داری نہیں سمجھ تے یہ لوگ در حقیقت کس زمرے میں ہیں ؟ یہ سب قوت و طاقت جو خدا کی ملکیت ہے ان افراد کےہاتھ سے نکل کر غیروں کے ہاتھ میں جارہی ہے ۔ جہاں پر اتنا فساد ہو ظلم و زیادتی اور نا انصافی ہو وہاں خاموش اور بے پروا   رہنے کا مطلب یہ ہے کہ انسان نے اپنی معنوی قوت کو روک لیا ہے اور اسے خدا کی راہ میں خرچ نہیں کر رہا ہے ۔ یہ پیغمبر اکرم ( ص ) کا بیان ہے کسی اور کا نہیں ۔ حسین ابن علی کا قیام بھی  اس وجہ سے ہے کہ انہوں نے اس ظلم و زیادتی اور فساد کے مقابلے اپنی قوت و طاقت کا استعمال کیا اور انسانیت و تاریخ کو اس بات کا سبق سکھایا  کہ اگر تمہارے سماج میں اس طرح کی صورتحال پیش آئے تو تمہیں کیا کرنا  چاہیے ! ( ۱۰ )

 جہالت اور گمراہی کے خلاف جنگ

امام حسین علیہ السلام کی زیارت اربعین میں ایک جملہ ہے جو اس زیارت کے دوسرے بہت سے جملوں کی طرح پر معنی اور غور طلب ہے اور وہ جملہ یہ ہے ( و بذل مھجتھ فیک ) یہ ایک زیارت ہے لیکن اس کے ابتدائی جملے دعائیہ کلمات ہیں جس میں انسان خداوند متعال سے مخاطب ہو کر کہتا ہے ( و بذل مھجتھ فیک ) یعنی اے پروردگار ! حسین ابن علی نے اپنی جان اور اپنا خون تیری راہ میں قربان کیا ( لیستنقذعبادک من الجھالۃ ) تاکہ تیرے بندوں کو جہالت کی دلدل سے باہر نکالے ( و حیرۃ الضلالۃ ) اور گمراہی میں سر گرداں ہونے سے بچائے ۔ 

یہ سکہ کا ایک رخ ہے جسے حسین ابن علی ( ع ) کہا جاتا ہے سکے کے دوسرے رخ کا تعارف اس جملے کے ذریعے کروایا جا رہا ہے ( و قد تزاورعلیھ من غرتھ الدنیا و باع حظھ بالارذل الادنیٰ ) یہ وہ لوگ تھے  جنہیں زندگی کے فریب نے خود میں مشغول کر دیا تھا  ۔ مادی دنیا ، اس کی زرق و برق اور خواہشات نفسانی نے انہیں خود سے غافل بنا دیا تھا  ( و باع حظھ بالارذل الادنیٰ ) انہوں نے سعادت و خوشبختی جیسے عظیم سرمایہ کو ، جو خدا  خلقت کے ساتھ  ہر انسان کو عطا کرتا ہے ، بہت نا چیز اور حقیر داموں میں بیچ دیا تھا ، یہ ہے حسینی تحریک کا خلاصہ ۔ اگر چہ امام حسین علیہ السلام کا ظاہری مقابلہ یزید سے تھا  لیکن در حقیقت ان کا مقابلہ اس کم عمر کے یزید سے نہیں تھا  بلکہ ان کا مقابلہ جہالت ، ذلت ، گمراہی اور انسان کی زبوں حالی سے تھا ۔ امام حسین علیہ السلام ان چیزوں سے مقابلہ کر رہے تھے  ۔ ( ۱۱ )

دین کے لئے فدا کاری

عاشورا کا سب سے پہلا سبق دین اور خدا کی راہ میں فدا ہوجانا ہے ۔ عاشورا کا یہ  سب سے واضح درس ہے ۔ ان سخت و حالات میں امام عالی مقام نے تمام مسلمانوں بلکہ تمام عالم بشریت ، تمام آزاد منش افراد چاہے وہ مسلمان ہوں یا غیر مسلم ، کو یہ درس دیا کہ اگر انسان کا شرف ، اس کی آزادی اور استقلال ، انسانی اقدار اور مسلمانوں کا دین خطرے میں پڑ جائے تو ان سخت شرائط میں بھی  دین کا دفاع ایک اسلامی اور انسانیفریضہ ہے۔ یہ نہ کہا جائے کہ حالات سخت ہیں یہ بہانہ نہ بنایا جائے کہ بہت مشکل ہے ۔ ہو سکتا ہے اور  دین کا دفاع ہمیشہ اور ہر حال میں کیا جا سکتا ہے ۔حسین ابن علی ( ع ) نے محکم ارادے ، جذبۂ فداکاری اور شہادت طلبی کے ذریعہ ان سخت حالات میں دین کا دفاع کا جب وہ بالکل اکیلے تھے  ۔ بنی ہاشم اور قریش کے بزرگوں اور اصحاب کی اولاد نے بھی  امام کا ساتھ  نہ دیا ۔ مکہ میں عبد اللہ ابن زبیر ، مدینہ میں عبد اللہ ابن جعفر اور عبد اللہ ابن عمر یعنی وہ افراد جن کے باپ صدر اسلام کی قد آور اور نامی شخصیتیں تھیں اور لوگوں کی چشم امید ان پر لگی ہوئی تھی ۔ یہ وہ لوگ جن سے لوگوں کی امیدیں وابستہ تھیں لیکن یزیدی ظلم کے مقابلے اٹھ  کھڑے ہونے پر تیار نہ ہوئے اور پیغمبر کی نصرت پر آمادہ نہ ہوئے ۔ کیا حسین ابن علی ان کی نصرت کی امید لگائے بیٹھے  تھے  ؟ کیا ان کے مدد نہ کرنے سے امام اپنے عمل سے دستبردار ہوجاتے ؟ نہیں امام نے ایسا کچھ  بھی  نہیں کیا ۔ جب بیچ راستے ہی میں امام کو خبر ملی کہ اب کوفے والے ان کا ساتھ  نہیں دیں گے اور وہ اکیلے رہ گئے ہیں تو وہ پیچھے نہیں ہٹے۔ جب کربلا کے اس بیابان میں ان کے تمام ساتھ ی شہید ہوگئے اورصرف چند خواتین یا بچے باقی بچے تو اس وقت بھی  دفاع اور جہاد کو جاری رکھا  ۔ اگر آخری وقت تک امام راضی ہوجاتے اور سر تسلیم خم کر دیتے تو یزیدی فوراً مان لیتے ۔ لیکن امام اس کے آگے جہکے نہیں ۔ یہ ایک عظیم درس تھا  کربلا کے  واقعہ کا۔ ( ۱۲ )

جب دینداروں کی قلت ہوجائے

عاشورا کا ایک درس یہ بھی  ہے کہ اس نے افراد کو دو حصوں میں تقسیم کردیا کوفے کے بہت سے بزرگوں اور رؤسائے شہر نے امام حسین ( ع ) کو خط لکہ کر بلایا تھا  اور یہ دعوت اس وقت دی تھی  جب امام مدینہ سے نکل چکے تھے  ۔ لوگوں کو  خبر نہیں تھی  کہ ماجرا کیا ہے ؟ ان کے وہم و گمان میں بھی  نہیں تھا  کہ ایک سخت امتحان اور دشوار مرحلہ سے گزرنا ہوگا ۔ مکہ سے بہت سے افراد امام کے ساتھ  نکلے تھے  لیکن انہیں معلوم نہیں تھا  کہ اس تحریک کا انجام کیا ہوگا ۔ اگرچہ بظاہر راستہ دشوار نظر آرہا تھا  لیکن ابھی  حقیقت حال سے بے خبر تھے  ۔ جیسے ہی حقیقت دہیرے دہیرے ظاہر ہونے لگی حق و حقیقت کے طرفدار کم ہونے لگے ۔ سختیوں نے اہل دنیا کو بہگا دیا ۔ جیسے کہ خود امام فرماتے ہیں (الناس عبید الدنیا و الدین لعق علی السنتھم فاذامحسوا بالبلاء قلت دیانون) اس وقت صورت حال بالکل یہی تھی  ۔ جب مشکلات سامنے آتی ہیں تو دینداروں کی تعداد میں کمی ہونے لگتی ہے اور جب تک آرام اور سکون ہے دعویدار بہت ہوتے ہیں ۔ اس وقت مکہ ، مدینہ ، کوفہ اور پورے عالم اسلام میں بہت سے افراد تھے  جن کا دعویٰ تھا  کہ وہ دین کے پیرو کار ہیں اور بے چوں و چرا اس پر عمل کرنے والے ہیں ۔ بہت سے لوگ تھے  جو حسین ابن علی ( ع) کو فرزند رسول کے عنوان سے پہچانتے تھے  ، مانتے تھے  اور ان سے محبت بھی  کرتے تھے  لیکن جب امام حسین علیہ السلام مکہ سے نکلنے لگےتو ان میں سے بہت سے امام کے ساتھ  آنے پر تیار نہ ہوئے ۔ آپ یہ تصور نہ کریں کہ عبد اللہ ابن جعفر امام کو نہیں مانتے تھے  یا بنی ہاشم کے وہ افراد جو امام کے ساتھ  نہیں آئے امام کو امام نہیں سمجھتے تھے  ۔ جی نہی؛ ایسا نہیں ہے ۔ یہ سب حسین ابن علی کو اپنا امام مانتے تھے  انہیں فرزند رسول اور ایک عظیم انسان سمجھ تے تھے  لیکن ان کا ساتھ  دینے پر آمادہ نہ ہوئے چونکہ بہت سخت تھا  امام کا ساتھ  دینا ۔ ( ۱۴ )

صبر جمیل

امام حسین علیہ السلام اپنا سب کچھ  اپنا سب سے قیمتی اور عظیم سرمایہ میدان میں لے کر آگئے تا کہ دین کا دفاع کریں اور پھر  صبر بھی  کیا ۔ امام کا یہ صبر بہت اہمیت کا حامل ہے ۔ ہم نہیں جانتے ” صبر ” کسے کہتے ہیں ۔ صبر کی حقیقت کو صبر کی جگہ سمجھ ا جا سکتا ہے ۔ بہت سی بزرگ شخصیتیں ، محدثین ، برجستہ افراد عقلا ، ہمدرد ، سب بار بار آتے تھے  اور امام سے کہتے ہیں آپ ایک ایسا کام کرنے جا رہے ہیں جس کا کوئی فائدہ نہیں ہے ۔ خود آپ کا بھی گھاٹا ہوگا  اور خاندان پیغمبر کو بھی  ۔ اور آپ کے اس کام سے اہل حق ذلیل و رسوا ہونگےاس طرح کی باتیں کرتے تھے  ۔ جب امام نے مکہ سے نکلنے کا ارادہ کیا اور بہت سے افراد کو معلوم ہوا تو اخلاقی رکاوٹیں شروع ہوگئیں اور شب عاشور تک جاری رہیں ۔ لیکن امام عالی مقام نے ان تمام چیزوں کے مقابل صبر کیا وہی صبر جس کا میں نے تذکرہ کیا ۔ امام خمینی ( رح ) نے بھی  اسی طرح صبر کیا ۔ جب آپ نے تحریک شروع کی تو آپ سے کہا جاتا تھا  : ” آقا یہ جوان نابود ہوجائیں گے ۔ قتل کردئے جائیں گے ، حکومت اور نظام خطرہ میں پڑ جائے گا ” لیکن آپ نے صبر کیا ۔ ان خیر خواہوں کی نصیحتوں کے آگے صبر کرنا بہت عظیم کام ہے ۔ صبر کرنے کے لئے بہت قوت و طاقت درکار ہے ۔ صبر صرف جسمانی مشکلات اور اذیتوں کے مقابل نہیں ہے ۔ مصلحت پسندی اور مصلحت تراشی جیسے دباؤ کے مقابلے صبر اور صحیح ، اورواضح راستے سے جدا نہ ہونا وہ صبر جمیل ہے جسے امام حسین ( ع ) نے انجام دیا ۔ ( ۱۵ )

 سب کچھ  قربان کردیا

ایک محدث یا ایک مفسر وہ شخص ہوتا ہے لوگ جس کے پاس آتے ہیں ۔ اس کے علم سے فیضیاب ہوتے ہیں اور اس کی نصیحتوں کو سنتے ہیں ۔ اس طرح کے افراد تھے  ، اس طرح کے نمایاں افراد تھے جو لشکر حسینی میں شامل تھے  ۔ البتہ ان بہتر افراد کے ساتھ  کچھ  خواتین ، کچھ  بچے ، بہنیں ، بیویاں ، بیٹیاں حرم اہل بیت ، امام حسین علیہ السلام کے اعزا و اقارب یہ سب تھے  جنہیں امام اپنے ساتھ  لائے تھے  ۔ ان سب کو لائے تاکہ اسلام اور خدا کی راہ میں قربانی دیں ۔ امام حسین ( ع ) کو آغاز سفر ہی سے اس واقعہ کی توقع تھی  ۔ امام حسین ( ع ) کا قیام اس شخص کی طرح نہیں تھا جو موت سے فرار اختیار کر رہا ہو ۔ بلکہ وہ اس شخص کی طرح تھے  جو مسکرا کر موت کا استقبال کر تا ہے ۔ 

ایسا نہیں ہے کہ امام حسین علیہ السلام حکومت کے خواہاں نہیں تھے  ، یا کوفہ کو اپنے کنٹرول میں نہیں لینا چاہتے تھے  یا یہ کہ وہ صرف ایک کہیل تماشا کر رہے تھے  ، امام حسین علیہ السلام یقیناً کوفہ کی حکومت کے لئے نکلے تھے  لیکن اپنی شہادت کو بھی  دیکھ  رہے تھے  اور جو افراد ان کے ساتھ  تھے  اور ان کی بات سنتے تھے  ان سے فرمایا کرتے تھے  ( ألا ومن کان باذلا فینا محجتھ و مؤطئا الی لقاء اللہ نفسھ … ) وہ شخص جو حاضر ہے کہ ہماری راہ میں اپنا خون   دے ،خود بھی  حاضر تھے  کہ اپنا خون دیں، مکمل طور سے آمادہ تھے  ۔ وہ شخص جس نے اپنے نفس کو آمادہ کر لیا ہے خدا سے ملاقات کے لئے ۔ امام نے اپنے کو آمادہ کر لیا تھا  کہ خدا سے ملاقات کریں اور جانتے تھے  کہ شہید ہوجائیں گے اور انہیں یہ  امیدبھی تھی  کہ شہادت سے پہلے اپنے مقصد تک پہنچ جائیں گے ۔ امام حسین علیہ السلام کے پاس جو کچھ  تھا  سب لے کر آئے اس خونخوار دشمن اسلام اور قرآن کے سامنے ، کیونکہ جانتے تھے  کہ اس قربانی سے راستہ کہل جائے گا ۔ ( ۱۶ )

تلوار ہمیشہ تیار رہے

ایک روایت کے مطابق شب عاشور امام حسین علیہ السلام تنہائی میں ایک شعر گنگنا رہے تھے  جس کا مفہوم یہ تھا  کہ اب ان کا وقت آخر آگیا ہے جناب زینب سلام اللہ علیہا وہیں کھڑی تھیں لہٰذا یہ سن کر گریہ کرنے لگیں ۔ روایت میں یہ بھی  ہے کہ امام حسین علیہ السلام اس وقت اپنی تلوار کو صیقل کر رہے تھے  ۔ یعنی امام حسین علیہ السلام یہ نہیں کہہ رہے تھے  کہ کل تو ہم جانا ہی ہے اب چاہے ایک گہنٹے پہلے یا ایک گہنٹہ بعد میں لہٰذا اگر تلوار تہوڑی کند بھی  ہے تو کیا فرق پڑتا ہے ۔ جی نہیں ! راہ خدا میں جہاد کرنے والے کی تلوار کند نہیں ہونی چاہئے یعنی اس کی قوت و طاقت بہت اعلیٰ و ارفع ہونی چاہئے ۔ ( ۱۹ )

9. قصر فیروز یونٹ میں سپاہ پاسداران کے درمیان خطاب        

10.نو و دس محرم سے قائد انقلاب کا خطاب          

11.نماز جمعہ تہران کے خطبہ سے اقتباس               

12.لشکر عاشورا کے درمیان ایک خطاب                

13.امام حسین کی ولادت باسعادت کے موقع پر ایک خطاب

14.سپاہ جنوب کے ایک گروہ سے خطاب                

15.درس خارج کی اختتام پر چند کلمات                 

16.نماز جمعہ تہران کے خطبہ سے اقتباس                

17.نماز جمعہ تہران کے خطبہ سے اقتباس                 

18.نماز جمعہ تہران کے خطبہ سے اقتباس                

19.قصر فیروز یونٹ میں سپاہ پاسداران کے درمیان خطاب   

 

تبصرے
Loading...