شریکةالحسین

ع :رفتہ رفتہ حسین کی آوازساری دنیا پہ چھائی جاتی ہے۔
جس طرح عورت!عور ت کے لئے اور مرد!مردکے لئے نمونہ یااسوہ (آئیڈیل) ہوسکتا ہے، اسی طرح عورت ! مردکے لئے اورمرد !عورت کے لئے نمونہ یااسوہ (آئیڈیل) ہوسکتا ہے اور اگر عوامی سطح سے بلند ہوکر دیکھا جائے تو شہزادی زہراۖ کے بعد ثانی زہر ا یعنی زینب بنت علی ! علم و حلم، راہ خدا میں ایثارو قربانی و وفاداری ،صبر واستقلال،سیرت و کردار،بہادری ودلاوری ،ہمت و جرائت ،زہدو تقویٰ و عبادت ، دین اسلام کی نشرواشاعت، شریعت وعزاداری کی پاسبانی ، مجلس عزائے حسین کی بانی ،ظالم کے گھر میں مظلوم کا ماتم کرنے والی ،فضائل و مصائب محمدۖ و آل محمد بیان کرنے والی ، اسیر رہتے ہوئے بھی خطبوںوتقریروں کے ذریعہ لوگوںکو شہادت اور مقصد شہادت ِحسین سے آگاہ کرنے والی ،ظلم و زیادتی کے خلاف مظلوم کی آواز بلند کرنے والی اورباطل کے خلاف پرچم حق بلند کرنے والی وغیرہ ،کئی اعتبار سے تمام انسانوں کے لئے بلا تفریق صنف ،نمونئہ عمل ہیں ۔ اب آئیے ” عالمئہ غیر معلمہ ” ”عقیلئہ بنی ہاشم ” معصوم صفت بی بی کے حالات اور بھائی کے ساتھ ملکر دین اسلام کی نصرت میں کئے گئے اقدام پرایک طائرانہ نظرڈالتے ہیں کہ جس اقدام کی بدولت آج پوری دنیا میںجہاں جہاں شیعان حیدر کرار پائے جاتے ہیںوہاں وہاں انسانیت !مجلس عزائے حسین سے درس اسلام و ایمان حاصل کررہی ہے۔
نام کاانتخاب اور رسول ۖ کا تاثر٭
آپۖ کی ولادت کے سلسلہ میں اکثر مورخین کا اتفاق ہے کہ (فقد ولدت عقیلة زینب فی العام السادس للھجرت علیٰ ما اتفق المورّخون علیہ ذالک یوم الخامس من شھر جمادی الاوّل(الخ) جناب زینب بنت امیر المومنین کی جب ٥جمادی الاوّل ٦ ھ میں ہوئی تو اس موقع پر جناب رسول خدا ۖ اپنی بیٹی فاطمہ ۖ کے گھر تشریف لائے اور نواسی کو اپنی آغوش میں لیا، سینہ سے لگایا، رخسارہ پر رخسارہ رکھااور بے پناہ گریہ کیا!یہاں تک کہ آپ ۖ کی ریش مبارک آنسوئوں سے تر ہوگئی یہ دیکھ کر جناب سیدہ ۖنے عرض کی باباجان: خدا آپ ۖ کو کبھی نہ رلائے ،آپۖ کیوں رو پڑے ؟ ارشاد فرمایا :اے جان پدر،میری یہ بچی تیرے بعد ( راہ خدا میں) متعدد تکلیفوں اور مختلف مصائب میں مبتلا ہوگی اس بات کو سن کر جناب سیدہ ۖنے بھی بے اختیار رونے لگیں ۔ اس کے بعد رسولۖ خدا نے اپنی اس نواسی کا نام ”زینبۖ ”رکھا یہ لفظ ِ ” زین ”اور” اب ”سے مرکب ہے جو کثرت استعمال سے زینب ہوگیا جس کے معنی ہیں ”باپ کی زینت”۔رسولۖ خدا نے یہ نام لوح محفوظ کے مطابق بذریعئہ جبرئیل خدا ئے تعالیٰ کے حکم سے رکھا تھا ۔اور نسب کے اعتبار سے بھی شہزادی زینب ۖ کی ذات اعلیٰ و ارفع ہے۔دل چاہتا ہے کہ یہاں پر شہزادی زینب ۖ کے ساتھ ضمناً شہزادی ام کلثوم ۖکا تعارف بھی مختصراً ہے۔
جناب زینبۖ و ام کلثومۖ کی خاندانی وجاہت و حشمت ٭
جناب زینبۖ و ام کلثوم ۖ آپس میں حقیقی بہنیں تھیں، آپ دونوں بہنوں میں جناب زینبۖ سن میںبڑی تھیں، جناب ام کلثوم ۖ اپنی بہن جناب زینب ۖ کے کارناموں میں برابر کی شریک تھیں، سفر کربلا میںدونوں ساتھ ساتھ رہیں،دونوں کا مشن اور مقصد حیات ایک تھا۔ بہرحال دونوں بہنیں! حضرت رسول خداۖ و خدیجةالکبریٰ ۖکی نواسیاں ،حضرت ابو طالبۖ وفاطمہۖ بنت اسد کی پوتیاں ،حضرت علی و فاطمہۖ کی بیٹیاں،حضرت امام حسن وامام حسین کی حقیقی اور حضرت عباس و جناب محمد حنفیہ کی پدری بہنیں تھیں ۔ جس کی بالائی سطح میں حضرت حمزہ ،حضرت جعفر طیار ،حضرت عبدالمطلب اور جناب ہاشم ہیں ! اس سلسلہ کے پیش نظر دونوں بہنوں کی عظمت اور بھی نمایاں ہوجاتی ہے۔جس طرح ان کے آبائو اجداد ،ماں باپ اور بھائی بے مثل وبے نظیر ہیںاسی طرح یہ دو بہنیں بھی اپنی مثال آپ ہیں۔ بیشک !جناب زینب ۖو ام کلثوم ۖ معصومہ نہ تھیں مگر ان کے محفوظ عن الخطاء ہونے سے کوئی انکار نہیں کرسکتا ۔بہر حال زیر نظر مضمون جناب زینب ۖ کے لئے مخصوص ہے ۔
مولا علی کاتاثر٭
ڈاکٹر بنت الشاطمی اندلسی اپنی کتاب میں رقمطراز ہیں کہ حضرت زینب ۖکی ولادت پر جناب سلمان فارسی نے حضرت امیر المومنین کو مبارکباد دی تو آپ رونے لگے اور ان حالات و مصائب کا تذکرہ فرمایا جن سے جناب زینبۖ مستقبل میں دوچار ہونے والی تھیں ۔یہاںپر مستقبل کے مصائب سے مراد یقیناکربلااور بعدکربلا کے مصائب ہیں جس کی خبر خدا وند عالم نے بذریعئہ جبرئیل !رسولۖ کواور رسولۖ نے اپنے اہلبیت کو ولادت امام حسین کے موقع پر ہی دیدی تھی ۔ اسی وجہ سے اس وعدہ کو” وعدئہ طفلی” کہا جاتا ہے ۔ علاوہ از یں اکیسویںرمضان ٤٠ ھ کی شب میںبھی مولاعلی نے اپنے پسران ودختران سے وصیت کرتے ہوئے مستقبل میں رونما ہونے وا لے حالا ت سے آگاہ فر مایاتھا ، حسب مراتب اہل خانہ کو الگ الگ ذمہ داریاں سونپی تھیں اور واقعات کربلا کی مصیبتوں پر صبر کرنے کی تلقین اور یاد دہانی کرادی تھی۔بہر حال وہ اہلبیت رسولۖجو کبھی اپنے لئے نہ جئے بلکہ ہمیشہ اللہ کی مرضی کے لئے زندگی گذاری وہ اپنا چھوٹا سا کارواں لیکر راہ خدا میں عازم سفر ہوئے۔
مدینہ سے مکہ اور مکہ سے کوفہ کی جانب سفر٭
امیر شام کی ہلاکت کے بعد جب یزید( لعنة) تخت سلطنت پر قابض ہوا تو اس نے اپنے حواریوں سے بیعت لینے کے بعد اہل مدینہ بالخصوص امام حسین اور ان کے ساتھیوں سے بیعت لینے کے لئے مدینہ کے گورنر ولید کو خط لکھا کہ حسین سے بیعت لے لو !اور اگر بیعت نہ کریں تو ان کو قتل کردو!چنانچہ خط ملنے پر ولید نے امام کو دربار میں بلایااور بیعت کا مطالبہ کیا ۔ امام گفت وشنید کے بعد گھر واپس آئے( ظاہر ہے کہ حسین ایسا شخص، یزیدجیسے فاسق و فاجر کی بیعت کیونکر کر سکتا ہے ؟)۔ منشائے یزید سے اہل خانوادہ کو باخبر کیا اور حمایت اسلام میں وطن چھوڑنے کا ارادہ بھی ظاہر کردیا اسکے بعد جناب زینبۖ نے بھی اپنے شوہر کی اجازت سے مدینہ کو خیرآباد کہا اور اپنے دونوں بیٹوں کو بھی ساتھ میں لیااور اسلام کوبچانے اور وارث اسلام کی حمایت کرنے کے لئے ساتھ ہوئیں ۔امام حسین نے دیگر عزیز و اقارب کو بھی ساتھ میں لیا اور ٢٨ رجب ٦٠ھ کو اپنے وطن سے نکلتے وقت یہ کہا کہ میں نے یہ اقدام و قیام ! امت جد کی اصلاح یعنی ” امر بالمعروف اور نھی عن المنکر ”کیلئے کیا ہے تاکہ نا نا کا دین”اسلام” اور اس کے ماننے والے محفو ظ رہیں چاہے میںقربان ہوجائوں! ۔منازل طے کرتا ہوا حسینی قافلہ ٤ شعبان ٦٠ھ کو مکہ پہونچا اور ٨ ذی الحجہ تک وہیں قیام پزیر رہنے کے بعد خاص مصلحت کے تحت حج کو عمرہ سے تبدیل کرتے ہوئے کارواں مکہ سے کوفہ کے لئے روانہ ہوا ۔ دوسری جانب کوفہ سے امام کا راستہ روکنے کے لئے ابن زیاد ملعون نے حر کی قیادت میںایک لشکر بھیجا تاکہ امام کو گرفتار کرکے لے آئے۔ ایک منزل پر حر اور امام کا قافلہ آمنے سامنے ہوا ،اما م نے دیکھا کہ حر اور اس کا لشکر شدت پیاس سے جاںبلب ہے تو اس صحرائی علاقہ میںجہاں دور دور تک پانی ملنے کا امکان نہیں تھا وہاں امام سے ،حر اور اس کے سپاہیوں کی پیاس دیکھی نہ گئی لہذا امام کے پاس اپنے قافلہ والوں کے لئے جو پانی موجود تھا اس سے اپنے جانی دشمن حر اور اس کے لشکر والوں کو سیراب کیا اس کے بعد جب امام نے آگے بڑھنا چاہاتو حر نے بڑھ کر روک دیا ۔جس کے نتیجہ میں ٢محرم ٦١ھ کو امام کربلا کے چٹیل میدان میں وارد ہوئے مزید فوج یزیدی وہیں جمع ہونے لگی،روز عاشور ہ حر اور اس کے خونی رشتوں کا ضمیر بیدار ہوااور امام پر قربان ہوکر حر، حضرت حر کہلائے ۔ بہر حال واقعئہ کربلا کے ذریعہ یزید ابن معاویہ اوراس کے حامیوں کے ظالمانہ و قاتلانہ چہرہ سے نقا ب اتر گئی او رحسین اور ان کے ساتھیوں کا مظلومانہ کردار، زمانہ پر ظاہرہوگیا۔
کربلا میں قیام٭
یزید ملعون کے حکم سے ابن زیاد نے اور ابن زیاد ملعون کے حکم سے عمر ابن سعد ملعون نے لاکھوں کی فوج کے ذریعہ روز عاشور ہ ٦١ ھ کو امام حسین اور ان کے باوفا ساتھیوں کو تین دن کا بھوکا پیاسا ،بے دردی سے شہید کردیا ۔ بعد شہادت منادی نے صدا بلند کی ”الا قتل الحسین بکربلا و الا ذبح الحسین بکربلا”یہ غم ایسا تھا کہ زمین کربلا لرز اٹھی، فرات کا پانی نیزوں اچھلا،آسمان سے خون کی بارش ہوئی،سیاہ و سرخ آندھیاںچلیں،پتھروںسے خون تازہ نمودار ہوا، شہدا کے لاشوں کو پامال کیا گیا، ماں جائی بہن نے فریاد کی مگر ظالموں کی سمجھ میں نہ آیا ،، خیام حسینی میں آگ لگادی گئی ،سیدانیوں کے سروں سے ردائیںچھینی گئیں، جناب زینب نے اہل حرم کی پاسبانی کی، اپنے دونوں بیٹے عون و محمد قر بان کئے ، وقت شہادت اور بعد شہادت بھائی کے ہم وغم اور مشن میں برابر کی شریک رہیں۔اسی لئے تو انھیں” شریکةالحسین ” کہا جاتاہے۔بھائی بہن کی محبت کی ایسی نظیر کائنات میں نہ تو کبھی ملی ہے اور نہ ہی کبھی مل سکتی ہے کہ جیسی محبت آقا حسین او ر شہزدی زینب میں رہی۔
گیارہویں کی صبح کر بلا سے روانہ ہوتے وقت اسیری کا منظر بڑاہی دردناک اور دل سوز تھاجس کی منظرکشی کے لئے میرے پاس الفاظ نہیں!شاعر اہلبیت جناب ناطق صا حب پھندیڑوی نے اس طرح نظم فرمایا:۔
اے شمر بتا آخر اس ظلم کی کچھ حد ہے محتاج رد ا خواہر مجبو ر کفن بھائی
تھے مصحف زہراۖ کے چھانٹے ہوئے دو پارے قرآں کی قسم ناطق یہ دونوں بہن بھائی
کربلا میں اسیری کے بعد مصائب بھرا سفر٭
گیارہ (١١)محرم کو شمر بن ذی الجوشن ملعون نے جناب سید سجاد سے کہاکہ اب تمہیں عورتوں اور بچوں سمیت کوفہ، دربار ابن زیاد میں چلنا ہوگاامام سید سجاد نے فرمایا کہ میں اپنی پھوپھی زینب سے عر ض کرتا ہوں ۔چنانچہ انہوں نے پھوپھی سے عرض کی ،زینبۖ بنت علی کو جلال آگیا ،لیکن فوراًبھائی کی وصیت یاد آگئی سر جھکا کرکہا بیٹا ہر مصیبت برداشت کرونگی ۔اس کے بعد یزید ملعون کے سپاہی لٹا ہوا قافلہ لیکر کوفہ کے لئے روانہ ہوئے اور غضب یہ کیا کہ ان رسول زادیوۖںکو مقتل کی طرف سے گزارا گیا، مورخین کا بیان ہے کہ جیسے ہی یہ حسینی قافلہ مقتل میں پہنچا حشر کا سماں پیش ہوگیا زینب ۖنے اپنے کو ناقہ سے گرادیا اور فریاد و فغاں کرنے لگیں ،آپۖ نے فرمایا:۔
”اے محمد مصطفےٰ ۖجن پر ملائکہ آسمان سے درود بھیجتے ہیں ،دیکھئے یہ حسین خاک و خون میں آلودہ ٹکڑے ٹکڑے ہوکر چٹیل میدان میں پڑے ہیں آپۖ کی بیٹیاں اور نواسیاں قیدی ہیں آپۖ کی اولاد مقتول ہے اور ہوا ان پر خاک اڑا رہی ہے ”۔
شہزادی ۖکا یہ درد ناک مرثیہ سن کر دوست اور دشمن میں کوئی ایسا نہ تھا جورونے نہ لگا ہو ،جانور بھی رونے لگے اور ان کی آنکھوں سے آنسو ٹپک رہے تھے اس موقع پر جناب زینب ۖکے ساتھ دیگر بیبیاں بھی نوحہ و فریاد کر رہی تھیں ۔پھر روانگی کا بندوبست شروع ہوگیا ،بے محمل ناقوں پر سر برہنہ مخدرات عصمت و طہارت سوار کی گئیںاور شہداء کے سروں کو نیزوں پر بلند کیا گیااور شہداء کے لاشے زمین گرم پر پڑ ے رہے ۔
اہل حرم کو رسن بستہ کرکے کوفہ و شام کے لئے لیجایا جانا٭
قافلہ کوفہ کے لئے روانہ ہواجہا ں عبیداللہ ابن زیاد ملعون یزید کی طرف سے گورنر تھا جب قافلئہ حسینی کوفہ لایا گیا تو بازار کوفہ میں داخلہ کے وقت جشن کاماحو ل تھا ،جناب زینب ۖکی فریادی آواز کو ماند کرنے کے لئے باجوں کی آواز تیز کرادی گئی،بازار کوفہ میں جناب زینبۖ ،جناب ام کلثو مۖ اور امام سجاد نے زبردست تقریریں کیںاور واقعہ کربلا پر بھرپور روشنی ڈالی ، یہاں پر جناب زینب کے خطبہ کے چند الفاظ ذکر کرناچاہتا ہوں کہ جس میں انہوں نے ذکرشہادت فرمایا ہے :”تم نے خاتم النبیین ۖکے جگر گوشہ اور جوانان جنت کے سردار کو قتل کردیاجو جنگ میں تمہارا مقام امن تھا جو تمہارے گروہ کے لئے جائے پناہ اور تمہاری صلح کی جائے قرارتھا”(ماخوذ از طرز ذاکری و عزاداری)۔اس کے بعد ابن زیاد ملعون نے کوفہ کے بازاروں میں تشہیر کرنے کے بعد” مخدرات عصمت و طہار ت” کو ایک ہفتہ تک قید بامشقت میں رکھا اور اس کے بعد یزید ملعون کو خوش کر نے کی خاطر اور حکم یزید کی تعمیل کرتے ہوئے” شام” کیلئے روانہ کر دیا ۔
چنانچہ خاردار راہوں ، چٹیل میدانوںا و رصحرائوںسے گذرتا ہوا یہ قافلہ٣٦دن میں( اوربروائتے١٦ربیع الاوّل ٦١ ھ کو ) وارد شام ہوا دربار یزید ملعون میں داخلہ سے پہلے اس قافلہ کو تین دن تک ”باب السّاعات ”پر ٹھہرایا گیاکیونکہ دربار سجنے میںتین دن کا وقت اور باقی تھا، درباریزید کے آراستہ ہونے کے بعد یزید ملعون نے شمر ملعون کو حکم دیا کہ قیدیوںکو دربار میں لایا جائے، اہل حرم کے لئے دیگر منازل کی طرح یہ منزل بھی بڑی ہی دشوا ر گذار تھی۔والد محترم،شاعر اہلبیت جناب مولانا عبداللہ صاحب کچھ اس طرح فرماتے ہیں:۔
بڑی ہی فکر تھی دیں کی بقا رہے ورنہ کجا یزید کا دربار اور کجا زینب
قافلہ دربار میںداخل ہوا ہزاروںکرسی نشین رسول اللہ ۖ کے گھرانہ کی مخدرات کا تماشہ دیکھنے کے لئے جمع تھے بھرے دربار میں یزید ملعون نے جناب زینبۖ سے کلام کرنا چاہا جناب فضہ نے مز احمت کی،پھر یزید ملعون کی طعنہ زنی پر علی کی شیر دل بیٹی نے خطبہ دیتے ہوئے دکھ درد بھرے لہجہ میں کچھ اس طرح کے جملے ارشاد فرمائے کہ ” اے ہمارے آزاد کئے ہوئے کی اولاد کیایہی عدل ہے ؟ اسی کو انصاف کہتے ہیں کہ تیری تو عورتیں اور کنیزیں تک پردہ میں ہوں نبی زادیوں کی چادریں چھین کر انھیں بے پردہ سر برہنہ ایک شہر سے دوسرے شہر کشاں کشاں لے جا یا جائے ” خطبہ کے کلمات سن کر دربار میںہلچل مچ گئی۔ پھر بازارو دربار میں تشہیر کرنے کے بعدمخدرات عصمت و طہارت کو ایسے قید خانہ میںڈال دیا گیا جہاں دن کی دھوپ اور رات کی اوس پڑتی تھی اور مزید اس دوران اہل حرم پر مصیبت کا ایک اور پہاڑ ٹوٹ پڑا کہ زندان شام میں چار سالہ بچی سکینہ کی اپنے بابا حسین کو روتے روتے، یاد کرتے کرتے ، یزیدی سپاہیوں کے مظالم سہتے سہتے( دس ١٠صفر کو) شہادت واقع ہوگئی ۔وقت آگے بڑھا اورجب یزید مردود کو اپنی شکست کا احساس اچھی طرح ہوگیاتو آل رسولۖ کو قید بامشقت میں رکھنے کے بعد رہا کردیا ۔
شام سے رہا ہوکر اربعین کے موقع پر قافلہ واپس کربلا پہنچا٭
تقریباً ایک سال تک اہل بیت رسولۖ کو ایسے قیدخانہ میں ر کھا گیا جہاںدن کو دھوپ اور رات کو اوس پڑتی تھی اور ایک دن یزیدکا کارندہ زندان کے دروازہ پر آیا اور کہا کہ سید سجاد آپ کو یزید نے بلایا ہے ، سید سجاد تو چلے گئے لیکن بی بی زینب تڑب گئیں اور دعا کی پالنے والے خیر ہو، توُ تو جانتا ہے کہ اسوقت ہمارا واحد سہارا یہی بھتیجہ ہے،کچھ دیر کے بعد دیکھا کہ سید سجاد سامنے کھڑے ہیں،ہتھکڑیاں و بیڑیاں کھل چکی ہیں سید سجاد کو دیکھا تو شہزادی کی جان میں جان آئی سید سجاد کہتے ہیں پھوپھی اماں! یزید نے ہمیں رہا کردیا اور کہا ہے کہ چاہے یہاں رہیں چاہے مدینہ چلے جائیں یہ سن کر جناب زینب نے بھتیجے سے فرمایا : بیٹا اگر یزید رہا کرنے پر آمادہ ہی ہے تو اس سے کہو کہ ایک حجرہ خالی کرادے تاکہ میں اپنے مانجائے کو دل کھولکر رو سکوں ،کیونکہ جب سے میرا بھائی مارا گیا ہے میں ٹھیک سے رو نہ سکی ،جب جب میں رو تی تھی یزید کے سپاہی نوک نیزہ سے اذیت دیتے تھے چنانچہ یزید نے ایک حجرہ خالی کرادیا ،لوٹا ہوا مال واپس ہو ا اور شہدأ کے سر بھیجے گئے بیبیوں نے اپنے اپنے وارث کا سر بڑھ کے لے لیا اور جناب زینب نے ما نجائے حسین کے سر کو لیا، اپنے بھیا کا ماتم کیا اور شام کی عورتوں سے تعزیت قبول کی اسطرح سات شب وروز تک کر بلا کے شہیدوں کی مصیبتوں کو یاد کرکے نوحہ وماتم کیا گیا ۔
اس کے بعد حسینی قافلہ کربلا کے لئے روانہ ہوگیا اور ٢٠صفر ٦٢ھ کو وارد کربلا ہوا ،اور بی بی زینب نے اپنے کو قبر حسین پر گرادیا ،تین دن تک فریاد و فغاں اور نوحہ وماتم کیا گیا اور شہیدوں کا پہلا چہلم منایا گیا ۔چہلم کے بعد یہ قافلہ مدینہ کو روانہ ہوگیا۔
اہل حرم کی وطن واپسی٭
قریب مدینہ قافلہ ٹھہرا ،بشیر بن جزلم نے اہل مدینہ تک خبر غم پہنچائی جیسے ہی خبر ملی تو اہل مدینہ جوق در جوق قافلہ کی قیام گاہ پر سروپا برہنہ روتے پیٹتے جمع ہوگئے۔ان آنے والوں میں جنا ب ام سلمہ ، جناب محمد حنفیہ اور جناب عبداللہ بن جعفر بھی تھے ،کسی طرح قافلہ داخل مدینہ ہوا،مدینہ میں داخلہ کے بعد روضئہ رسول ۖمیںبے پناہ فریاد وفغاں ہوئی ،بنی ہاشم کے گھروں میں ١٥شب وروز چولہا نہیں جلااور تا حیات گریہ و زاری کرتے رہے او ر ذکر شہادت اور امام حسین کے مشن کو عام کرتے ر ہے بالخصوص جناب زینب اور جناب سید سجاد نے” اسلام محافظ مشن” کوپائے تکمیل تک پہنچایا۔
جناب زینب نے تقاریر و خطبات کے ذریعہ نواسئہ رسولۖ امام حسین کی شہادت کے بعد تا حیات !ذکر شہادت اور پیغام حسین کوقریہ بہ قریہ ،شہر بہ شہر نشرکیا اور لوگوں کویزید کے مقصد اور امام وقت ! حسین کے پیغام سے روشناس کرایا ،ورنہ حاکم وقت یزید ملعون تویہ چاہتا تھا کہ اپنے ناپاک ارادوںاور شہادت حسین پر ایسا پردہ ڈال دیا جائے کہ لوگ وقتی حادثہ سمجھ کر بھول جائیں اور لوگ مجھے صحیح اور حسین کو (العیاذ باللہ)حکومت وقت کا باغی ٹھرائیں۔
جنا ب زینبۖ مدینہ میں اکثر مجالس عزا بپا کر تی تھیں اور خود ہی ذاکری فرماتی تھیں ،اس وقت کے حکام کو یہ گوارا نہ تھاکہ واقعئہ کربلا کھلم کھلا طور پر بیان کیا جائے۔چنانچہ عروہ بن سعید وا لی مدینہ نے یزید کو لکھا کہ مدینہ میں جناب زینب کی موجودگی لوگوں میں ہیجان پیدا کر رہی ہے ،انہوں نے اور ان کے ساتھیوں نے تجھ سے خون حسین کے انتقام کی ٹھان لی ہے۔ یزید نے اطلاع پاکر فوراً والی مدینہ کو لکھا کہ زینب ۖ اور ان کے ساتھیوں کو منتشر کردے اور ان کو مختلف ممالک میں بھیج دے ۔
اس حکم کے آنے کے بعد والی مدینہ نے جناب زینبۖ سے کہلا بھیجا کہ آپ جہاں مناسب سمجھیںیہاں سے چلی جائیں ،یہ سننا تھا کہ حضرت زینبۖ کو جلال آگیا اور فرمایا کہ ”واللّٰہ لاخرجن وان اریقت دمائنا”یعنی خدا کی قسم! ہم ہرگز یہاں سے نہ جائیں گے چاہے ہمارے خون بہادئے جائیں! یہ حال دیکھ کر زینب ۖبنت عقیل نے عرض کی :اے میری بہن صبر سے کام لینے کا وقت ہے بہتر یہی ہے کہ ہم کسی اور شہر میں چلے جائیں۔فخر جت زینبۖ من مد ینة جدھاالرسول ثم لم ترھاالمد ینةبعد ذالک ابداً۔یعنی پھر حضرت زینب ۖ مدینئہ رسولۖ سے چلی گئیں اس کے بعد سے پھر مدینہ کی شکل نہیں دیکھی ،وہ وہاں سے نکل کر مصر پہنچیں ۔
علامہ محمد حسین الادیب نجفی لکھتے ہیں: ”وقضت العقیلة زینب ع حیاتھا بعد اخیھا منتقلة من بلد الی بلد تقص علی النّاس ھنا و ھناک ظلم ھذاالانسان الی ر خیم الانسان .الخیعنی جناب زینب ۖ اپنے بھائی کی شہادت کے بعد سکون سے نہ رہ سکیںوہ ایک شہر سے دوسرے شہر میں مصروف تبلیغ رہیں اور شہادت حسین پر تفصیلی روشنی ڈالتی رہیں ۔یہاںتک کے آپ ۖ شام پہنچیں اور وہاں قیام کیا کیونکہ وہاںآپۖ کے شوہر جناب عبداللہ بن جعفر کی جائداد تھی۔ ایک دن آپ اس باغ میں تشریف لے گئیں جس کے ایک درخت میں آقا حسین کا سر معلق کیا گیا تھااس باغ کو دیکھ کر شہزادی زینبۖ بے چین ہوگئیں یہ دیکھکر ایک دشمن ِ اہلبیت آگے بڑھا اور آپ کے سر پر زور سے بیلچہ مارا وہیں ٦جمادی الثاّنی غالباً ٦٢ھ میں آپۖ کی شہادت واقع ہوگئی ۔ شہادت سے متعلق جناب ظہور جارچوی کا ایک شعرکچھ اس طرح سے ہے۔

سر کے ٹکڑے ہوئے،روئیں نہ پکاریں زینبۖ خاک پر گرکے سوئے خلد سدھاریں زینبۖ

بعد شہادت تدفین بھی شام ہی میںا نجام پائی، یہی وجہ ہے کہ آج بھی ملک شام میں شہزادی زینب ۖکامزار، مرکز زیارت بناہواہے اور پاسبان حق مشرف بزیارت ہوتے رہے ہیں اور ہوتے رہیںگے ۔ مزید جو حضرات مو منین و مومنات زیارت کے مشتاق ہیں خداوند کریم ان کو بھی شہزادی ثانی زہرا ۖاور دیگر معصومین کے مقدس روضوں کی زیار ت نصیب فرمائے اور بلا تفریق صنف سبھی کو ان کی سیرت طیّبہ پر عمل پیرا ہونے کی توفیق کرامت فرمائے۔ فقط!

 

تبصرے
Loading...