شرک کے مراتب اور درجات

جس طرح توحید کے مراتب اور درجات ہیں‘ اسی طرح شرک کے بھی اپنے مقام پر کچھ مراتب ہیں اور

تعرف الاشیاء باضدادھا

(اشیاء اپنی اضداد سے پہچانی جاتی ہیں) کی رو سے مراتب شرک کے ساتھ مراتب توحید کا موازنہ کرنے سے توحید کو بھی بہتر طور پر پہچانا جا سکتا ہے اور شرک کو بھی۔

تاریخ بھی یہی بتاتی ہے کہ ابتدائے تاریخ سے انبیاء الٰہی جس توحید کی دعوت دیتے چلے آئے ہیں اس کے مقابلے میں طرح طرح کے شرک بھی موجود رہے ہیں۔

(الف) شرک ذاتی

بعض اقوام ثنویت یا تثلیت یا ایک دوسرے سے جدا کئی قدیم اوزاری مبداؤں کی قائل رہی ہیں اور کائنات کو چند محوروں اور کئی بنیادوں کی حامل سمجھتی رہی ہیں‘ اس قسم کے افکار کا منشاء کیا تھا‘ کیا ان میں سے ہر فکر اپنے دور کے عوام کی اجتماعی صورت حال کی آئینہ دار رہی ہے؟ مثلاً جب لوگ کائنات کے لئے دو قدیم اوزاری مبداؤں اور محوروں کے قائل تھے تو اس کی وجہ یہ تھی کہ ان کا معاشرہ دو مختلف سمتوں میں تقسیم ہو چکا تھا اور جب لوگ تین مبداؤں اور تین خداؤں کے قائل تھے تو ان کا اجتماعی اور سماجی نظام ایک تثلیثی نظام تھا یعنی ہمیشہ سے اجتماعی نظام ایک اعتقادی اصول کی صورت میں لوگوں کے ذہنوں میں منعکس ہوتا رہا ہے اور لامحالہ جب انبیائے الٰہی کی جانب سے کائنات کے ایک مبداء اور عقیدہ توحید کو موضوع گفتگو بنایا گیا‘ تو یہ وہی وقت تھا جب اجتماعی نظام ایک قطبی ہو چکا تھا۔ یہ نظریہ ایک فلسفی نظریے سے ماخوذ ہے جس کے بارے میں ہم پہلے بھی روشنی ڈال چکے ہیں اس کے مطابق انسان کی فکری و معنوی جہات اور علم‘ قانون‘ فلسفہ‘ مذہب اور فن پر مبنی معاشرے کی معنوی و روحانی بنیادیں اس کے سماجی اور خاص کر اقتصادی نظام کے تابع ہیں اور ازخود اس کی کوئی اصلیت نہیں ہے۔ گذشتہ بحث میں ہم اس نظریے کا جواب دے چکے ہیں اور چونکہ ہم فکر و خیال‘ نظریہ حیات اور سب سے بڑھ کر انسانیت کے سلسلے میں اصالت و استقلال کے قائل ہیں لہٰذا شرک و توحید کے سلسلے میں اس طرح کے عمرانی نظریات کو بے بنیاد سمجھتے ہیں۔

البتہ یہاں پر ایک اور مسئلہ بھی ہے جسے اس مسئلے کے ساتھ خلط ملط نہیں کرنا چاہئے اور وہ یہ کہ کبھی ایک اعتقادی اور مذہبی نظام کسی معاشی اور اجتماعی نظام میں ناجائز استفادہ کا ذریعہ بن جاتا ہے جیسا کہ مشرکین قریش کی بت پرستی سے متعلق خاص نظام سود خور عربوں کی مفاد پرستی کے لئے ایک وسیلہ تھا‘ حالانکہ ابوسفیان‘ ابوجہل اور ولید بن مغیرہ جیسے افراد پر مشتمل سود خوروں کا گروہ ان بتوں پر ذرہ برابر بھی ایمان نہیں رکھتا تھا بلکہ ان کے پیش نظر اس وقت کے معاشرتی نظام کی بقاء تھی اور وہ اسی کا دفاع کرتے تھے اور اس دفاع نے خاص کر اس وقت عملاً سنجیدہ صورت اختیار کر لی جب توحیدی نظام کو جو استحصال اور سود خؤری کا دشمن اور مخالف تھا‘ اسلام کی صورت میں نمودار ہوتا دیکھا۔ جب بت پرستوں نے اپنے وجود کو مٹتے دیکھا تو انہوں نے عوام الناس کے اعتقادات کی حرمت و تقدس کو بہانہ بنایا۔ قرآنی آیات میں اس نکتے کی طرف بہت زیادہ توجہ دلائی گئی ہے‘ خاص طور پر موسیٰ اور فرعون کے واقعے میں‘ لیکن جیسا کہ ہم جانتے ہیں یہ مسئلہ اس مسئلے سے مختلف ہے جس میں کہا گیا ہے کہ اقتصادی نظام بطور کلی فکری مذہبی نظام کی بنیاد ہے۔ فکری و مذہبی نظام‘ اقتصادی اور معاشرتی نظام کا جبری ردعمل ہوتا ہے۔

جس چیز کی انبیاء کے مکتب نے شدت سے نفی کی ہے وہ یہ ہے کہ ہر مکتب فکر لازمی طور پر معاشرتی اور اجتماعی ضروریات و خواہشات کا آئینہ دار ہے اور یہ ضرورتیں اپنے مقام پر اقتصادی حالات اور شرائط کی پیداوار ہیں۔ اس بناء پر یہ نظریہ سو فیصد مادی ہے اور انبیائے الٰہی کا توحیدی مکتب بھی اپنے مقام پر اپنے زمانے کی معاشرتی ضرورتوں اور اقتصادی احتیاجات کی پیداوار ہے‘ یعنی پیداواری آلات ایسی معاشرتی خصوصیات کا سبب ہیں جن کی توحیدی فکر کی صورت میں توجیہہ کرنا پڑے گی اور انبیاء بھی درحقیقت اس معاشرتی اور اقتصادی ضرورت کے مبعوث کردہ ہوتے ہیں اور کسی فکر‘ عقیدہ و تصور کا اقتصادی بنیاد پر قائم ہونے کا یہی مفہوم ہے اور اسی میں توحید کو بھی شامل کیا گیا ہے۔

چونکہ قرآن انسان کے لئے فطرت کا قائل ہے اور فطرت کو انسانی وجود کا ایک بنیادی پہلو سمجھتا ہے جو اپنے مقام پر افکار اور احتیاجات کی بنیاد بنتا ہے لہٰذا قرآن انبیاء کی دعوت توحید کو اسی فطری ضرورت کا جواب دہ سمجھتا ہے اور عام انسانی اور توحیدی فطرت کے سوا کسی دوسری چیز کو توحید کی بنیاد قرار نہیں دیتا۔

اسی لئے طبقاتی شرائط کو کسی فکر یا عقیدے کا جبری عامل نہیں جانتا اور طبقاتی حالات بنیادی حیثیت کے حامل ہوں اور فطرت کی کوئی حیثیت نہ ہو‘ تو پھر جبراً ہر شخص کی فکر کے شاہین اور خواہشات کا رخ اسی طرف ہو گا جس طرف اس کی طبقاتی شرائط کا تقاضا ہو گا۔ ایسی صورت میں اختیار و انتخاب کی بات ختم ہو جائے گی‘ نہ تو فرعون جیسے قابل ملامت ہوں گے اور نہ ہی ان کے مخالف ستائش و تحسین کے لائق‘ کیوں کہ انسان اسی لئے مستحق ملامت یا لائق تحسین ہوتا ہے‘ جب وہ ارادہ و اختیار رکھتا ہو۔ لیکن اگر اس کے ہاتھ میں اس کا اختیار نہ ہو (جیسے سیاہ فام باشندوں کی سیاہی اور سفید فام باشندوں کی سفیدی) نہ تو وہ ملامت کا مستحق ہو گا اور نہ ہی لائق تحسین و ستائش۔ لیکن ہم جانتے ہیں کہ انسان طبقاتی سوچ کا غلام نہیں ہے۔ وہ اپنے طبقاتی مفادات کے خلاف قیام کر سکتا ہے جیسا کہ فرعون کے ناز و نعم سے پلنے والے حضرت موسیٰ نے قیام کیا تھا اور یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اس قسم کی گفتگو کرنا جہاں انسان کی انسانیت کو سلب کر لیا جائے وہاں ایک بے ہودہ اور باطل بات سے زیادہ کچھ بھی نہیں ہے۔

البتہ اس کا مطلب یہ بھی نہیں ہے کہ مادی حالت کا فکری کیفیت اور فکری کیفیت کا مادی حالت پر کوئی اثر نہیں ہوتا اور یہ ایک دوسرے پر بے اثر ہیں بلکہ اس کے معنی ایک کے غالب اور دوسرے کے مغلوب ہونے کی نفی ہے وگرنہ قرآن نے خود کہا ہے کہ

ان الانسان لیطغیٰ ان راہ استغنیٰ

“انسان جب اپنے آپ کو بے نیاز اور طاقت ور سمجھنے لگتا ہے تو باغی ہو جاتا ہے۔”(سورئہ علق‘ آیت ۷)

قرآن نے ایک طرف انبیاء کے خلاف سرمایہ داروں کے خصوصی کردار کا ذکر کیا ہے اور دوسری طرف یہ بھی بتایا ہے کہ مستضعفین نے انبیاء کی خصوصی حمایت کی ہے اور اس طرح سے یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ وہ ہر شخص میں‘ فطرت انسانی (کہ جو انسان کو دعوت بیداری دیتی ہے) کے وجود کا قائل ہے۔ ان دونوں گروہوں کے درمیان فرق یہ ہے کہ ان میں سے ایک گروہ (سرمایہ دار) کو روحانی اعتبار سے ایک بڑی رکاوٹ یعنی موجود مادی مفادات اور جن ظالمانہ امتیازات کو حاصل کیا ہے ان سے عبور کرنا ہو گا لیکن دوسرے گروہ کی راہ میں ایسی کوئی رکاوٹ نہیں ہے اور بقول سلمان فارسی “نجی المحفون” جن کا بوجھ ہلکا ہے‘ انہی کو نجات حاصل ہے بلکہ جہاں ان کی فطرت کو مثبت جواب فراہم کرنے کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہیں وہاں ایک سہولت اور بھی حاصل ہے اور وہ یہ کہ اپنی پرمشقت زندگی سے بہتر حالت تک پہنچتے ہیں اور اسی سبب پیغمبروں کے پیروکاروں میں اکثریت ان لوگوں کی رہی ہے جو اپنے معاشرے کے مستضعف لوگ تھے لیکن ہمیشہ ایسا ہوتا رہا ہے کہ انبیاء نے دوسرے گروہ میں سے اپنے حامی پیدا کئے اور انہیں اپنے طبقے اور طبقاتی نظام کے خلاف قیام پر ابھارا جیسا کہ مستضعفین کے گروہ میں سے کچھ لوگ اپنی بعض عادات و خصائل اور وراثتی میلانات وغیرہ کی وجہ سے انبیاء کے دشمنوں سے مل گئے۔ قرآن نے حضرت موسیٰ اور حضرت پیغمبر اکرم کے خلاف لوگوں کے جذبات کو بھڑکانے والے فرعونوں اور ابوسفیانوں کی اپنے زمانے کی شرک آلود نظام سے وابستگی اور حمایت کو طبقاتی نظام کی جبری سوچ پر محمول نہیں کیا اور یہ نہیں کہا کہ انہوں نے اپنے طبقاتی نظام کے تقاضے کی بناء پر ایسا کیا ہے اور وہ ایسی روش اختیار کرنے پر مجبور تھے اور ان کے عقائد میں معاشرتی تقاضوں کی چھاپ تھی‘ بلکہ قرآن نے یہ بات پیش کی کہ یہ لوگ دھوکہ باز تھے اور حقیقت کو خداداد فطرت پر سمجھنے کے باوجود اس کا انکار کرتے تھے۔

وجحد و ابھا و استیقنتھا انفسھم   (سورئہ نمل‘ آیت ۱۴)

قرآن کریم نے ان کے کفر کو کفر جحودی سے تعبیر کیا ہے یعنی دل میں اقرار اور زبان پر انکار۔ دوسرے الفاظ میں قرآن نے اس طرح کے انکار کو اپنے ضمیر کی آواز کے خلاف ایک طرح کے قیام سے تعبیر کیا ہے۔

ایک بڑی غلطی یہ ہوتی ہے کہ بعض افراد نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ قرآن‘ مارکسزم (Historical Materialism) کو قبول کرتا ہے۔ ہم اسلامی تصور کائنات سے متعلق اپنی بحث کے دوسرے حصے میں جہاں “معاشرے اور تاریخ” کا اسلامی نقطہ نظر سے جائزہ لیں گے‘ اس موضوع پر تفصیل کے ساتھ گفتگو کریں گے۔ یہ نظریہ نہ تو تاریخ کے عینی حقائق پر منطبق ہے اور نہ علمی اعتبار سے اس پر بحث کی جا سکتی ہے۔

بہرحال متعدد مبداء پر اعتقاد شرک در ذات ہے اور توحید ذاتی کا مدمقابل ہے۔ قرآن برہان (برہان تمانع) قائم کرتے ہوئے کہتا ہے:

لوکان فیھما الھة الا اللّٰہ لفسدتا(۱)

“اگر آسمان اور زمین میں اللہ کے سوا کئی خدا ہوتے تو یہ دونوں تباہ ہو چکے ہوتے۔”

بہرحال اس قسم کا اعتقاد اہل توحید کی صفت اور دائرئہ اسلام سے خارج ہو جانے کا باعث بنتا ہے اور اسلام شرک در ذات کو ہر صورت میں بطور کلی رد کرتا ہے۔

(ب) شرک در خالقیت

بعض قومیں اللہ کو بے مثل و مانند اور عالم ہستی کا واحد مبداء سمجھتی تھیں لیکن بعض دوسری قومیں مخلوقات کو اس کے ساتھ خالقیت میں شریک گردانتی تھیں مثلاً وہ کہتی تھیں کہ خداوند عالم “شر اور برائی” کی خلقت کا ذمہ دار نہیں بلکہ “شر” کو بعض دیگر مخلوقات نے جنم دیا ہے۔(۲)

اس طرح کا شرک جو خالقیت اور فاعلیت میں شرک ہے‘ توحید افعالی کا مدمقابل ہے۔ اسلام اس طرح کے شرک کو بھی ناقابل معافی سمجھتا ہے۔ البتہ شرک در خالقیت کے بھی اپنے مقام پر کئی درجات ہیں کہ جن سے بعض کا تعلق شرک خفی سے ہے نہ کہ شرک جلی سے‘ اور اس میں انسان اہل توحید کے زمرے اور دائرئہ اسلام سے مکمل طور پر خارج نہیں ہوتا۔

(ج) شرک صفاتی

شرک در صفات انتہائی دقیق اور مشکل ہونے کے سبب عام لوگوں کے درمیان موضوع گفتگو نہیں ہوتا۔ یہ موضوع صاحبان فکر و فہم اور اہل نظر کے لئے مخصوص ہے جو ان مسائل پر غور و فکر تو کرتے ہیں لیکن کافی مقدار میں تعمق و صلاحیت نہیں رکھتے۔ مسلمان متکلمین میں اشاعرہ اس طرح کے شرک کے مرتکب ہوئے اور اس طرح کا شرک بھی شرک خفی کہلاتا ہے البتہ دائرئہ اسلام سے خارج ہونے کا موجب نہیں بنتا۔

(د) شرک در پرستش

بعض قومیں پرستش کے مرحلے میں لکڑی‘ پتھر‘ دھات‘ حیوان‘ ستارے‘ چاند‘ سورج‘ درخت یا دریا وغیرہ کو پوجتی رہی ہیں۔ اس نوعیت کا شرک کثرت سے تھا اور آج بھی دنیا کے بعض حصوں میں یہ موجود ہے۔ یہ شرک‘ شرک در عبادت میں شمار ہوتا ہے اور یہ توحید در عبادت کا مقابل ہے۔ اوپر بیان کئے جانے والے شرک کی اقسام اور مراتب نظری سے منسوب ہیں اور غلط معرفت پر مبنی ہیں لیکن یہ شرک‘ شرک عملی ہے اور اس کا تعلق غلط ہونے اور غلط انجام پانے سے ہے۔

البتہ شرک عملی کی بھی اقسام اور درجات ہیں اور ان میں سب سے بلند درجہ وہ ہے جو انسان کو دائرئہ اسلام سے خارج کر دیتا ہے اور جسے شرک جلی کہا جاتا ہے لیکن شرک خفی کی بعض ایسی اقسام ہیں کہ جن کا اسلام اپنی توحید عملی کے پروگرام میں سخت مقابلہ کرتا ہے۔ ان میں سے بعض شرک تو اتنے چھوٹے اور مخفی ہوتے ہیں جن کو طاقت ور ترین خوردبین سے بمشکل دیکھا جا سکتا ہے۔

جناب رسالت مآب سے ایک حدیث میں وارد ہوا ہے:

الشرک اخفی من دبیب الذر علی الصفافی اللیلة الظلما و ادناہ یحب علی شئی من الجور و یبغض علی شئی من العدل و ھل الدین الا الحب و البغض فی اللہ قال اللہ ان کنتم تحبون اللہ فاتبعونی یحببکم اللّٰہ(تفسیرالمیزان (عربی متن) آیت قل ان کنتم تحبون اللّٰہ فاتبعونی کے ذیل میں)۔

شرک کی چال اس چیونٹی کی چال سے بھی زیادہ مخفی ہے کہ جو گھپ اندھیری رات میں ایک صاف پتھر پر قدم جمائے آگے بڑھ رہی ہے۔ سب سے چھوٹا اور کم ترین شرک یہ ہے کہ انسان بہت معمولی ظلم کو پسند کرے اور اس پر راضی ہو جائے یا پھر بہت معمولی حد تک عدل سے دشمنی اختیار کرے۔ کیا دین اللہ کے لئے دوستی اور اللہ کے لئے دشمنی کے علاوہ بھی کوئی چیز ہے؟ خداوند عالم ارشاد فرماتا ہے:

“کہہ دو اے رسول! اگر تم اللہ سے دوستی کے دعویدار ہو تو میری پیروی کرو (میرے ان احکامات کی پیروی کرو جو اللہ کی طرف سے نازل ہوئے ہیں) اللہ تم کو دوست رکھے گا۔”

اسلام ہر طرح کی نفس پرستی‘ مقام پرستی‘ مال پرستی اور شخصیت پرستی کو شرک گردانتا ہے۔ قرآن جناب موسیٰ اور فرعون کے قصے میں بنی اسرائیل پر فرعون کے جابرانہ تسلط کو “بندہ بنانے” سے تعبیر کرتا ہے۔ خداوند عالم جناب موسیٰ کی زبانی فرعون سے اس کے جواب میں ارشاد فرماتا ہے:

وتلک نعمة تمنھا علی ان عبدت بنی اسرائیل (سورئہ اعراف‘ آیت ۱۲۷)

“یعنی تو نے ایک بنی اسرائیل کو اپنا بندہ بنا لیا ہے اور پھر مجھ پر احسان جتاتا ہے کہ جب میں تیرے گھر میں تھا تو ایسا یا ویسا تھا؟”

واضح سی بات ہے کہ بنی اسرائیل نہ تو فرعون کی پرستش کرتے تھے اور نہ ہی فرعون کے غلام تھے بلکہ اس کے ظالمانہ طاغوتی نظام کے تحت تسلط تھے۔ قرآن ایک اور مقام پر فرعون کی زبان سے اس غلبے اور ظالمانہ تسلط کو ان الفاظ میں نقل کرتا ہے:

انا فوقھم قاھرون (سورئہ مومنون‘ آیت ۴۷)

“لوگ ہمارے ماتحت اور ہم ان پر حاکم اور قاہر ہیں۔”

اسی طرح ایک اور مقام پر پھر فرعون کی زبان سے نقل کرتا ہے:

وقومھالنا عابدون

“یعنی جناب موسیٰ اور ہارون کی قوم (بنی اسرائیل) ہماری غلام ہے۔”

اس آیہ کریمہ میں “لنا” کا لفظ (ہمارے لئے) اس امر کا بہترین قرینہ ہے کہ یہاں پرستش مراد نہیں ہے کیوں کہ اگر بالفرض بنی اسرائیل پرستش پر مجبور ہوتے تو وہ تنہا فرعون کی پرستش کرتے نہ کہ فرعون کے سب ساتھیوں کی۔ وہ چیز جو فرعون اور فرعون کے تمام ساتھیوں کی طرف سے (جسے قرآن کی اصطلاح میں “ملا”(۱) فرعون) ان پر مسلط کی گئی تھی‘ جبری اطاعت تھی۔

حضرت علی علیہ السلام خطبہ قاصعہ میں فرعون کے ہاتھوں بنی اسرائیل کی محکومیت اور اس کے ظالمانہ تسلط کو بندہ بنانے سے تعبیر کرتے ہیں اور فرماتے ہیں:

اتخذ تھم الفراعنة عبیدا

“فراعنہ نے انہیں اپنا عبد بنا رکھا تھا۔”

اس کے بعد آپ اس بندگی کی وضاحت یوں کرتے ہیں:

فسا موھوم العذاب و جرعوھم المرار فلم تبرح الحال بھم من ذل الھلکۃ و قھر الغلبۃ لا یجدون حیلۃ فی امتناع و لا سبیلا الی دفاع

“فرعونوں نے انہیں تکلیفیں دیں‘ عذاب میں ڈالا‘ کڑوے گھونٹ پلائے‘ لوگ ہلاکت میں ڈالنے والی ذلت اور دشمن کی ظالمانہ فرماں روائی پر مبنی مقہوریت میں اپنی زندگی کے دن کاٹ رہے تھے ان کے پاس اپنے بچاؤ کا کوئی راستہ نہیں تھا۔”

سب سے زیادہ واضح اور روشن گفتگو اس آیت میں ہے جس میں اہل ایمان سے خلافت الٰہیہ کا وعدہ کیا گیا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے:

وعد اللّٰہ الذین امنوا منکم و عملوا الصالحات لیستخلفنھم فی الارض کما استخلف الذین من قبلھم و لیمکنن لھم دینھم الذی ارتضی لھم و لیبد لنھم من بعد خوفھم امنا یعبدوننی لا یشرکون بی شیئا (سورئہ نور‘ آیت ۵۵)

“خداوند عالم نے ان سب لوگوں سے جو تم میں ایمان لائے اور جنہوں نے نیک عمل انجام دیئے‘ یہ وعدہ کیا ہے کہ ضرور ان کو زمین کی خلافت دے گا جیسا کہ ان سے پہلے والوں کو دے چکا ہے اور ان کے اس دین کو جسے اس نے ان کے لئے پسند کر لیا ہے‘ اقتدار عطا کرے گا اور ان کے خوف کو امن سے بدل دے گا‘ اس وقت وہ میری عبادت کریں گے اور کسی چیز کو میرا شریک نہیں ٹھہرائیں گے۔”

اس آیت کا آخری جملہ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ جب حق کی حکومت اور خلافت الٰہیہ کا قیام عمل میں آئے گا اور اہل ایمان ہر ظالم کی قید اطاعت سے آزاد ہوں گے تو وہ صرف میری عبادت کریں گے اور کسی کو میرا شریک نہیں بنائیں گے۔ یہاں سے یہ بات معلوم ہو جاتی ہے کہ قرآن کی نظر میں ہر حکم کی اطاعت عبادت ہے‘ اگر خدا کے لئے ہو تو اطاعت الٰہی ہے اور اگر غیر اللہ کے لئے ہو تو شرک ہے۔

یہ ایک عجیب بات ہے کہ جبری اطاعتیں جو اخلاقی نقطہ نظر سے ہرگز عبادت نہیں ہیں معاشرتی نقطہ نگاہ سے عبادت محسوب ہوتی ہیں- رسول اکرم ۱کا ارشاد ہے:

اذا بلغ بنو العاص ثلثین اتخذوا مال اللّٰہ دولا و عباد اللّٰہ خولا و دین اللہ دخل(شرح ابن ابی الحدید‘ شرح نہج البلاغہ‘ خطبہ ۱۲۸ کی شرح)

“جس وقت عاص بن امیہ کی اولاد (مروان بن حکم کا دادا اور اکثر خلفائے بنی امیہ) ۳۰ کی تعداد تک پہنچ جائے گی تو اللہ کا مال ان کے درمیان تقسیم ہونے لگے گا اور یہ لوگ اللہ کے بندوں کو اپنا بندہ قرار دیں گے اور اللہ کے دین میں دخل اندازی کریں گے۔”

یہاں پر بنی امیہ کے ظلم و استبداد کی طرف اشارہ ہے۔ ظاہر ہے کہ بنی امیہ نہ لوگوں کو اپنی پرستش کی دعوت دیتے تھے اور نہ انہوں نے لوگوں کو اپنا غلام بنایا ہوا تھا‘ بلکہ انہوں نے لوگوں پر اپنے استبداد اور جبر کو مسلط کر رکھا تھا‘ جناب رسول خدا نے اپنی مستقبل بین الٰہی نگاہوں سے اس صورت حال کو ایک طرح کا شرک اور “رب و مربوب” کا رابطہ قرار دیا ہے۔

توحید اور شرک کی حدود

توحید اور شرک نظری ہو یا عملی اس کی ٹھیک حد کیا ہے؟ کون سی فکر توحیدی ہے اور کون سی مشرکانہ؟ کس طرح کا عمل توحیدی ہے اور کس طرح کا مشرکانہ؟ کیا اللہ کے سوا کسی اور ہستی پر ایمان رکھنا شرک ہے؟ (شرک ذاتی) اور کیا توحید ذاتی کا لازم یہی ہے کہ اللہ کے سوا کسی چیز کی موجودیت (چاہے وہ مخلوق کی حیثیت ہی سے کیوں نہ ہو) پہ ایمان نہیں رکھنا چاہئے (ایک طرح کا عقیدہ وحدت وجود)؟

مخلوق خدا کا فعل خدا ہونا ایک واضح سی بات ہے۔ فعل خدا خود اس کی شانوں میں سے ایک شان ہے‘ کوئی اس کا ثانی نہیں اور کوئی اس کے مدمقابل نہیں۔ اللہ کی مخلوقات اس کی فیاضیت کی تجلیاں ہیں۔ مخلوق ہونے کی حیثیت میں وجود مخلوق پر اعتقاد توحید کی ضد نہیں ہے‘ بلکہ اسے تمام اور مکمل کرنے والی ہے۔ پس توحید و شرک کی حد کسی دوسری چیز کا وجود رکھنا یا نہ رکھنا چاہے وہ اسی مخلوق سے کیوں نہ ہو‘ نہیں ہے۔

کیا سببیت و مسببیت اور تاثیر و تاثر پر اعتقاد رکھنا شرک ہے؟ (خالقیت اور فاعلیت میں شرک) اور کیا توحید افعالی کا لازم یہ ہے کہ ہم دنیا کے سبب و مسبب کے نظام کا انکار کریں اور ہر سبب اور ہر اثر کو براہ راست اور بلاواسطہ خدا سے نسبت دیں اور اسباب کے لئے کسی کردار کے قائل نہ ہوں؟ مثلاً ہم یہ کہیں کہ آگ کا جلنے میں‘ پانی کا سیراب کرنے میں‘ بارش کا نشوونما میں اور دوا کا صحت دینے میں کوئی کردار نہیں‘ اورخدا ہی ہے جو بطور مستقیم صحت دیتا ہے‘ بطور مستقیم سیراب کرتا ہے‘ بطور مستقیم نشوونما کرتا ہے اور بطور مستقیم ہی صحت بخشتا ہے اور ان عوامل کا ہونا نہ ہونا یکساں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ کا طریقہ یہی ہے کہ اپنے کاموں کو ان امور کے ذریعے انجام دے مثلاً اگر انسان کی عادت یہ ہو کہ ہمیشہ لکھتے وقت اپنی ٹوپی سر پر رکھتا ہو تو اگر ٹوپی کے ہونے یا نہ ہونے کی لکھنے میں کوئی تاثیر نہیں ہے‘ لیکن لکھنے والا یہ نہیں چاہتا کہ ٹوپی کے بغیر لکھے۔ اشیاء کا ہونا یا نہ ہونا کہ جنہیں ہم عوامل و اسباب کہتے ہیں اسی مثال کی مانند ہیں اور اگر ہم اس کے سوا کسی اور چیز کے قائل ہوتے ہیں تو گویا ہم خدا کی فاعلیت میں نہ صرف ایک بلکہ کئی شریک قرار دیتے ہیں۔ (اشارہ اور جبری مکتب فکر)

یہ نظریہ بھی درست نہیں ہے جس طرح مخلوق پر ایمان شرک ذاتی اور خدا کے مقابل ایک دوسرے خدا اور محور پراعتقاد کے مساوی نہیں بلکہ اس سے خدائے واحد کے وجود پر اعتقاد مکمل ہوتا ہے۔ اسی طرح اگر ہم اس امر پر توجہ کرتے ہوئے کہ مخلوقات جس طرح اپنی ذات میں مستقل نہیں تاثیر میں بھی استقلال سے عاری ہیں اور اسی کے وجود سے موجود اور اسی تاثیر سے موثر ہیں۔ تو نظام کائنات میں مخلوقات کے کردار اور تاثیر و تاثر پر اعتماد بھی شرک در خالصیت نہیں ہے بلکہ یہ اعتقاد خداوند عالم کی خالصیت کو مکمل کرتا ہے‘ ہاں! اگر ہم مخلوقات کے لئے تاثیر‘ استقلال اور تفویض کے قائل ہو جائیں اور یہ سوچنے لگیں کہ کائنات سے خدا کی نسبت ایسے ہی ہے جیسے صنعت گر کی صنعت کے ساتھ (مثلاً گاڑی بنانے والی کی گاڑی کے ساتھ نسبت) اس طرح کہ صنعت اپنے وجود میں آنے کے لئے صنعت گر کی محتاج ہوتی ہے لیکن جب یہ وجود میں آ جاتی ہے تو ایک خاص طریقے پر اپنا کام جاری رکھتا ہے‘ صنعت گر کا صنعت کے بنانے میں تو ہاتھ ہوتا ہے‘ لیکن چیز کے بن جانے کے بعد اس کے کام کرنے میں نہیں۔ اگر گاڑی بنانے والا مر بھی جائے تب بھی گاڑی اپنا کام انجام دے گی۔ اگر ہم اس انداز میں سوچنا شروع کر دیں کہ اللہ کے ساتھ کائنات کے عوامل جیسے پانی‘ بارش‘ بجلی‘ حرارت‘ مٹی‘ گھاس‘ حیوان اور انسان وغیرہ کی نسبت بھی ایسے ہی ہے (جیسا کہ معتزلہ اتفاق سے اسی چیز کے قائل ہیں) تو یہ قطعی طور پر شرک ہے۔ مخلوق اپنے وجود میں آنے اور بقا کے لئے خالق کی محتاج ہے۔ اپنی بقا اور تاثیر کے لئے اتنی ہی محتاج ہے جتنی اپنے وجود میں آنے کے لئے‘ یہ کائنات عین فیض‘ عین تعلق‘ عین ارتباط‘ عین وابستگی اور عین “اسی سے” ہے۔ لہٰذا اشیاء کی تاثیر اور ان کی سببیت عین تاثیر اور سببیت خدا ہے۔ انسان ہو یا غیر انسان کائنات کی توانائیوں اور قوتوں کی خلاقیت عین خلاقیت خدا اور اس کی فاعلیت کا پھیلاؤ ہے‘ بلکہ کارخانہ عالم میں اشیاء کے عمل دخل کی سوچ شرک ہے اور یہ فکر ہمارے ذہنوں میں اس امر کا نتیجہ ہے کہ ہم نے اپنی نادانی کی بناء پر ذات حق کے مقابل موجودات کو مستقل گردانا ہے اور اسی سبب اگر موجودات کا اثرانداز ہونے میں کوئی کردار ہو تو ہم ان تاثیرات کو دوسرے محوروں کی طرف موڑ دیتے ہیں‘ پس توحید و شرک کی حد یہ نہیں ہے کہ ہم تاثیرات اور اسباب میں غیر خدا کے لئے کسی کردار کے قائل ہوں یا نہ ہوں۔

کیا مافوق الفطرت طاقت و تاثیر پر ایمان توحید و شرک کی حد ہے؟ یعنی فطرت کے عام قوانین سے ماوراء طاقت کی حامل ہستی پر ایمان خواہ وہ فرشتہ ہو یا انسان (مثلاً پیغمبر یا امام) شرک ہے لیکن متعارف اور معمولی حد میں کسی قوت و تاثیر پر اعتقاد شرک نہیں ہے اسی طرح کیا دنیا سے چلے جانے والے انسان کی طاقت و تاثیر پر اعتقاد شرک ہے کیوں کہ مردہ انسان تو جماد ہے اور طبیعی قوانین کی رو سے جماد نہ شعور رکھتا ہے نہ طاقت اور نہ ار ادہ‘ پس مرنے والے کی قوت ادراک پر ایمان‘ اسے سلام کرنا‘ اس کی تعظیم بجا لانا‘ اسے احترام کی نظر سے دیکھنا‘ اسے اپنی حاجتوں کے لئے بلانا اور اس سے کچھ چاہنا شرک ہے؟ کیوں کہ اس سے غیر خدا کے ماورائے طبیعی طاقت پر اعتقاد لازم آتا ہے‘ اسی طرح کیا اشیاء کے لئے پراسرار اور ناقابل شناخت تاثیرات کا عقیدہ شرک ہے اور کسی شے کے لئے شفا دینے کی تاثیر یا استجابت کے لئے کسی خاص مکان کی خصوصیت پر عقیدہ گمراہی ہے؟ کیوں کہ یہ امر کسی شے کے بارے میں مافوق الفطرت طاقت پر ایمان کا لازم ہے کیوں کہ کائنات کی ہر قدرتی و فطری چیز قابل شناخت‘ قابل تجربہ‘ قابل حس اور قابل لمس ہے لہٰذا اشیاء کے لئے مطلق تاثیر کا عقیدہ شرک نہیں ہے (جیسا کہ اشاعرہ کا خیال ہے) بلکہ اشیاء کے لئے ماورائے طبیعت تاثیر کا عقیدہ شرک ہے‘ پس ہستی دو حصوں میں تقسیم ہوتی ہے۔ ایک طبیعت دوسرا ماورائے طبیعت‘ ماورائے طبیعت اللہ تعالیٰ کا خاص دائرئہ کار ہے اور عالم طبیعت مخلوق کا خاص دائرئہ کار ہے یا پھر یہ خدا اور مخلوق دونوں کی مشترک قلم رو ہے۔

بعض کاموں کا تعلق ماورائے طبیعی پہلوؤں سے ہے مثلاً احیاء (زندہ کرنا) و اماتہ (مارنا)‘ روزی دینا اور ایسے دیگر کام اور باقی معمول اور غیر معمول کے کام اللہ کے افکار سے مختص ہیں اور باقی کام مخلوقات کے دائرئہ کار میں آتے ہیں۔ یہ بات توحید نظری کے پہلو سے ہے۔

لیکن توحید عملی کے پہلو سے غیر اللہ کی طرف ہر قسم کی معنوی توجہ یعنی توجہ کرنے والے کا چہرہ و زبان دوسرے شخص کے چہرے اور کان کی طرف متوجہ نہ ہو بلکہ توجہ کرنے والا اپنے اور مدمقابل شخص کے درمیان ایک طرح کا قلبی و معنوی رابطہ برقرار کرنا چاہتا ہو‘ اور اسی رابطے کے ساتھ اسے بلائے‘ اپنی طرف متوجہ کرے‘ اس سے متوسل ہو جائے اور اجابت کی تمنا کرے‘ یہ سب کچھ شرک اور غیر اللہ کی پرستش میں آتا ہے۔ اس لئے کہ عبادت الٰہی انہی چیزوں کا نام ہے اور غیر اللہ کی عبادت بحکم عقل اور بضرورت شرع جائز نہیں اور اس سے انسان لازمی طور پر اسلام سے نکل جاتا ہے‘ علاوہ ازیں اس طرح کے اعمال کی بجا آوری اس چیز سے قطع نظر کہ یہ غیر اللہ کے لئے عبادت کا عملی نمونہ ہے اور بالکل وہی طریقہ ہے جو مشرک اپنے بتوں کے لئے انجام دیتے تھے اور یہ چیز مدنظر شخصیت (پیغمبر یا امام) کے لئے ماورائے طبیعی طاقت پر اعتقاد کو بھی ظاہر کرتی ہے (عصر حاضر میں وہابیوں اور وہابی نماؤں کا نظریہ یہی ہے)۔

اس نظریے کو ہمارے زمانے میں کسی حد تک فروغ حاصل ہوا ہے اور ایک خاص طبقے میں روشن فکری کی علامت بن گیا ہے۔ لیکن مختلف توحیدی معیاروں کو سامنے رکھتے ہوئے یہ نظریہ توحید ذاتی کے لحاظ سے اشاعرہ کے نظریے کی حد تک شرک سے آلودہ ہے اور خالصیت اور فاعلیت میں توحید کی رو سے اسے شرک آمیز ترین نظریات میں سے ایک قرار دیا گیا ہے۔

پہلے اشاعرہ کے نظریہ کی رو میں عرض کر چکے ہیں کہ اشاعرہ نے اشیاء سے اس لئے تاثیر اور سببیت کی نفی کی ہے کہ اس کا لازمی نتیجہ اشیاء کی تاثیر اور سببیت پر اعتقاد اللہ کے مقابل دوسرے محوروں اور دوسری حقیقتوں پر ایمان کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے اور ہم نے یہ بھی کہا تھا کہ اشیاء اس صورت میں اللہ کے مقابل محور و منبع بنتی ہیں جب وہ اپنی ذات میں مستقل ہوں‘ یہاں سے یہ پتہ چلتا ہے کہ اشاعرہ غیر شعوری طور پر اشیاء کے لئے ایک طرح کے استقلال ذاتی کے قائل ہیں جس کا لازمہ شرک ذاتی ہے۔ لیکن یہ لوگ غفلت کا شکار تھے اور چاہتے تھے کہ اشیاء کی تاثیر کا انکار کر کے توحید در خالصیت کو استحکام بخشیں لہٰذا انہوں نے شرک در خالصیت کو رد کرنے کے خیال سے لاشعوری طور پر شرک در ذات کی تائید کر دی ہے۔

بعینہ یہی اعتراض وہابی قسم کے افراد کے نظریے پر ہوتا ہے‘ یہ لوگ بھی غیر شعوری طور پر اشیاء کے لئے ایک طرح کے استقلال ذاتی کے قائل ہیں اور اسی لئے معمولی عوامل کے ماورائے طبیعی کردار پر اعتقاد کو اللہ کے مقابل ایک محور اور ایک طاقت پہ اعتقاد کا باعث بنتے ہیں اور اس بات سے غافل ہیں کہ وہ ہستی یا وہ وجود جو اسی تمام تر ہویت کے ساتھ ارادہ حق سے وابستہ ہے اور اپنی کوئی مستقل حیثیت نہیں رکھتا اس کی مافوق الطبیعی تاثیر خود اپنے ساتھ منسوب ہونے سے پہلے حق کی طرف ہوتی ہے اور اس کا وجود اشیاء تک فیض حق کے گزرنے کے لئے ایک وسیلے سے زیادہ کچھ نہیں کیا۔ جبرائیل کا فیض وحی و علم‘ میکائیل کا رزق کے لئے‘ اسرافیل کا احیاء کے لئے اور عزرائیل (ملک الموت) کا قبض ارواح کے لئے وسیلہ ہونا شرک ہے؟

توحید در خالصیت کے اعتبار سے یہ نظریہ شرک کی بدترین انواع میں سے ہے‘ اس لئے کہ اس میں خالق و مخلوق کے درمیان ایک طرح سے کام کی تقسیم عمل میں آئی ہے اور ماورائے طبیعی یا مافوق الفطرت امور کو خاص اللہ کی حدود اور طبیعی امور کو خاص اللہ کی مخلوقات یا بطور اشتراک خدا یا مخلوق کی حدود میں شمار کیا گیا ہے۔ مخلوق کے لئے مخصوص قلم رو اور دائرئہ کار کا عقیدہ شرک در فاعلیت ہے‘ یہی حال اشتراکی حدود کا بھی ہے اور یہ بھی شرک در فاعلیت کی ایک دوسری قسم ہے۔

رائج تصور کے برخلاف‘ وہابیت صرف امامت کے خلاف ایک نظریہ نہیں ہے بلکہ امامت کا مخالف ہونے سے پہلے توحید اور انسان کا بھی مخالف ہے۔ توحید کا مخالف اس اعتبار سے ہے کہ اس نے خالق و مخلوق کے درمیان کام کی تقسیم کی ہے۔ اس کے علاوہ وہ ایک طرح کے خفی شرک ذاتی کا قائل ہے‘ جس کی وضاحت ہم پہلے کر چکے ہیں اور انسان کا مخالف اس اعتبار سے ہے کہ وہ انسان کی انسانی صلاحیت کو درک نہیں کرتا جس کی رو سے ملائکہ اس کے سجدے پر مامور ہوئے ہیں اور اس نے انسان کو ایک فطری حیوان کی حد میں لاکھڑا کیا ہے۔

اس کے علاوہ مردہ اور زندہ کے درمیان اس شکل میں جدائی کہ مردہ دوسری دنیا میں بھی زندہ نہیں ہے اور اس کی تمام شخصیت اس کا بدن ہے کہ جو جماد کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔ ایک مادی اور غیر الٰہی سوچ ہے اور ہم آئندہ معاد کی بحث میں اس موضوع پر گفتگو کریں گے‘ نامعلوم مرموز و مجہول اثرات اورمعلوم آثار کے درمیان تفکیک اور پہلے کو دوسرے کے برخلاف ماورائے طبیعی جاننا شرک کی ایک دوسری قسم ہے۔

رائج تصور کے برخلاف‘ وہابیت صرف امامت کے خلاف ایک نظریہ نہیں ہے بلکہ امامت کا مخالف ہونے سے پہلے توحید اور انسان کا بھی مخالف ہے۔ توحید کا مخالف اس اعتبار سے ہے کہ اس نے خالق و مخلوق کے درمیان کام کی تقسیم کی ہے۔ اس کے علاوہ وہ ایک طرح کے خفی شرک ذاتی کا قائل ہے‘ جس کی وضاحت ہم پہلے کر چکے ہیں اور انسان کا مخالف اس اعتبار سے ہے کہ وہ انسان کی انسانی صلاحیت کو درک نہیں کرتا جس کی رو سے ملائکہ اس کے سجدے پر مامور ہوئے ہیں اور اس نے انسان کو ایک فطری حیوان کی حد میں لا کھڑا کیا ہے۔

اس کے علاوہ مردہ اور زندہ کے درمیان اس شکل میں جدائی کہ مردہ دوسری دنیا میں بھی زندہ نہیں ہے اور اس کی تمام شخصیت اس کا بدن ہے کہ جو جماد کی صورت اختیار کر لیتا ہے‘ ایک مادی اور غیر الٰہی سوچ ہے اور ہم آئندہ معاد کی بحث میں اس موضوع پر گفتگو کریں گے‘ نامعلوم مرموز و مجہول اثرات اور معلوم آثار کے درمیان تفکیک اور پہلے کو دوسرے کے برخلاف ماورائے طبیعی جاننا شرک کی ایک دوسری قسم ہے۔

یہی وہ مام ہے جہاں رسول اکرم کی اس بات کا مفہوم ہماری سمجھ میں آتا ہے کہ سیاہ رات میں سخت پتھر پر سیاہ چیونٹی کی مدھم اور غیر محسوس چال کی طرح شرک انسان کے عقائد و افکار میں نہایت آہستگی سے قدم آگے بڑھاتا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ خدا نے انسان اور کائنات کے بارے میں توحید اور شرک کی حد “اسی سے ہونا” اور “اسی کی طرف لوٹنا” ہے۔ توحید نظری میں توحید و شرک کی حد “اسی سے وابستگی” (اناللہ) ہے۔ جس حقیقت اور جس وجود کو ہم ذات و صفات و افعال میں “اسی سے وابستگی” کی ھویت و خصلت کے ساتھ جانیں گے تو ہماری یہی شناخت درست حقیقت کے مطابق اور توحیدی نگاہ ہو گی خواہ وہ شے ایک یا کئی اثرات کی حامل ہو یا نہ ہو اور خواہ ماورائے طبیعی پہلو رکھتی ہو یا نہ رکھتی ہو‘ اس لئے کہ خدا صرف آسمان‘ ماورائے طبیعت اور ملکوت و جبروت کا خدا نہیں ہے بلکہ پوری کائنات کا خدا ہے۔ وہ عالم طبیعت کے اتنا ہی زیادہ نزدیک ہے اور معیت و قیومیت رکھتا ہے جتنی ماورائے طبیعت کے ساتھ اور کسی موجود کا ماورائے طبیعی پہلو رکھنا اسے خدائی پہلو عطا نہیں کرتا۔ ہم پہلے کہہ چکے ہیں کہ کائنات اسلامی تصور کائنات کی رو سے “اسی سے ہونے” کی ماہیت کی حامل ہے۔ قرآن کریم اپنی متعدد آیات میں مردہ کو زندہ کرنے اور پیدائشی اندھے کو شفا دینے جیسے معجزانہ کاموں کو بعض انبیاءسے نسبت دیتا ہے لیکن اس کے ساتھ باذنہ کے لفظ کا اضافہ کرتا ہے۔ یہ لفظ جملہ امور میں “اسی سے ہونے” کی ماہیت کو ظاہر کرتا ہے تاکہ کوئی یہ نہ سمجھے کہ انبیاء۱اپنی ذات میں مستقل ہیں۔ پس توحید نظری اور شرک نظری کی حد “اس سے ہونا” ہے ایسے وجود کی موجودیت پر اعتقاد جو “اس سے” نہ ہو شرک ہے اور اس موجود کی تاثیر پر اعتقاد کہ جس کا موثر ہونا “اس سے” نہ ہو یہ بھی شرک ہے خواہ زمین و آسمان کی خلقت جیسا مافوق الطبیعی اثر ہو یا پتے کے ہلنے کی طرح معمولی اور نہایت چھوٹا اثر توحید عملی میں توحید و شرک کی حد “اسی کی سمت” ہے (انا الیہ راجعون) ہر موجود پر توجہ خواہ وہ ظاہری توجہ ہو یا باطنی اگر حق کی سمت آگے بڑھنے کے لئے توجہ بطور ایک راہ ہو‘ اور اسے مقصد نہ بنایا جائے تو یہ خدا کی طرف توجہ ہو گی ہر حکومت اور ہر راستے پر اس عنوان سے توجہ کہ یہ راستہ ہے اور راستے کی علامتوں اور نشانیوں پر‘ علامتوں اور نشانیوں ہی کے عنوان سے توجہ صرف اس لئے کہ راستہ کھو نہ جائے یا مقصد سے دوری پیدا نہ ہو “مقصد کی سمت ہونا” اور “مقصد کی سمت بڑھنا” ہے۔

انبیاءاور اولیاء کے راستے ہیں:

انتم السبیل الاعظم والصراط الاقوم (زیارت جامعہ کبیر کے جملے ہیں)

یہ ہستیاں میرے اللہ کے راستے کی طرف جانے کی علامات اور نشانیاں ہیں۔

و اعلاما لعبادہ و منارا فی بلادہ و ادلاء علی صراطہ (زیارت جامعہ کبیر کے جملے ہیں)

یہ لوگ ہادی اور حق کی جانب رہنمائی کرنے والے ہیں۔

الدعاة الی اللّٰہ والا دلاء علی مرضاة اللّٰہ (زیارت جامعہ کبیر کے جملے ہیں)

پس مسئلہ یہ نہیں ہے کہ اولیاءکو پکارنا‘ ان کی زیارت کرنا‘ ان سے توسل رکھنا اور ان سے مافوق طبیعی امر کی توقع رکھنا شرک ہے بلکہ مسئلہ کچھ اور ہے۔

سب سے پہلے ہمیں یہ معلوم کرنے کی ضرورت ہے کہ آیا اولیاءنے مراتب قرب الٰہی میں اتنی بلندی حاصل کی ہے کہ حق تعالیٰ کی طرف سے اس حد تک مستحق عنایت الٰہی ہوں؟ قرآن کریم سے یہ استفادہ ہوتا ہے کہ خداوند عالم نے اپنے بعض بندوں کو ایسے مقامات اور درجات عنایت فرمائے ہیں۔(دیکھئے مولف محترم کی کتاب ولائھا و ولایتھا)

دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ جو لوگ وسیلہ پیدا کرتے ہیں زیارت کے لئے جاتے ہیں اور اپنی حاجت طلب کرتے ہیں ایک توحیدی اعتبار سے صحیح ادراک کے حامل ہیں یا نہیں؟ کیا واقعی یہ لوگ “اسی کی سمت” کے مقصد سے زیارت کو جاتے ہیں یا “اس کو” فراموش کر کے صاحب زیارت کو مقصد قرار دیتے ہیں بلاشک لوگوں کی اکثریت اسی جبلی توجہ کے ساتھ زیارت کو جاتی ہے۔ ممکن ہے بہت کم لوگ ایسے بھی ہوں جو اگرچہ جبلی حد تک ہی سہی توحیدی فکر کے حامل نہ ہوں تو ایسے لوگوں کو توحید کا درس دینے کی ضرورت ہے نہ کہ زیارت کو شرک قرار دیا جائے۔

تیسرا مسئلہ یہ ہے کہ وہ اقوال و افعال جو تسبیح و تکبیر و تحمید پر دلالت کرتے ہیں غیر اللہ کے لئے شرک ہیں کیوں کہ یہ براہ راست ذات کامل علی الطلاق اور غنی علی الاطلاق کی ستائش ہیں اور سبوح مطلق و منزہ مطلق ہر نقص و عیب سے مبرا ہے۔ وہی بزرگ مطلق ہے اور صرف اسی کی طرف تمام تعریفیں لوٹتی ہیں۔ تمام “حول” اور تمام “قوتیں” اسی کی ذات سے قائم ہیں۔ اس طرح کی تعریفیں چاہے قولی صورت میں ہوں یا فعلی غیر اللہ کے لئے شرک ہیں اور ہم پہلے اس موضوع پر بحث کر چکے ہیں کہ کس طرح کے امور عبادت میں شامل ہیں۔

تبصرے
Loading...