شام غریباں میں خیموں کاجلنا

شہادت  اماممظلوم کے فوراً بعد اہل بیت اطہار کے لئے  سب سے سخت اور دشوار مصیبت، شام غریباں  میں خیموں کا جلنا ہے  مقتل ابو مخنف [1]،ارشاد مفید[2] ،مثیر الاحزان [3]،بحار الانوار [4]،معالی السبطین [5]،جیسی مشہور کتابوں میں اس ہولناک منظر کی عکاسی کچھ اس طرح کی گئی  ہے  ۔

جب اہل بیت کرام کو ذوالجناح کی خون آلود پیشانی دیکھ کر یہ یقین ہو گیاکہ امام حسین شہید کر دئے گئے ہیں تو سب لوگ شدید گریہ و زاری کرنے لگے ،عمر سعد نے غصے سے مملو ہوکر اپنے لشکروالوں کو مخاطب کیا”ویلکم اکبّوا علیھم فی الخیام و ضرّموھا ناراً و احرقوھا من فیھا”ان خیموں کی طنابوں کو اکھاڑ پھینکو اور جو بھی ان کے اندر ہیں ان کے ساتھ  جلا ڈالو !

اس کے بعد شمر ملعون چلّایا: جو اسباب بھی خیموں میں ہے اس کو لوٹ لو ! اب ایک طرف سے خیموں کو لوٹاجانے لگا اور دوسرا گروہ  آگ لگانے میں مصروف ہوگیا[6]

حمید ابن مسلم کہتاہے کہ ایک گروہ نے شمر کے ہمراہ سیّد سجّاد کے خیمہ پر حملہ کردیا جبکہ آپ کی حالت نہایت ہی ناساز تھی اور شدت مرض کےسبب ایک بستر  پر لیٹے ہوئے تھے میں نےدیکھا کہ آپ کابستر کھینچاجارہاہے  کچھ لشکر والوں نے کہاکہ کیااس بیمار جوان کو قتل نہیں کرو گے ؟ میں نے کہاتعجب ہے تم پر !  تم اسے بھی  قتل کرناچاہتے ہو ؟تب جاکر وہ اپنے اس برےعمل سے باز آئے اتنے میں عمر سعد بھی پہونچ گیا اور پکارا تم اس جوان کو اس کے حال پر  چھوڑ دو !اور اپنے کام میں مصروف رہو[7]

کسی صورت اہل بیت عصمت و طہارت ان بھڑکتے ہوئے شعلوں سے نکل کر باہر آئے ، ہر ایک کسی نہ کسی  طرف امان کی خاطر دوڑ رہاتھا لیکن دشمن ان کا پیچھا کررہے تھے ،اور تلواروں اور نوک نیزہ سے ان مصیبت زدہ افراد پر حملہ کر رہے تھے ،ہاتھوں کے کنگن ،چادریں ،اور کانوں سے گوشورے چھین رہے تھے جس کے سبب کان زخمی ہوچکے تھے اور ان میں سےخون بہہ رہاتھا  [8]

اس وحشتناک حالت کو سید ابن طاووس اس طرح بیان کرتےہیں : شام غریباں میں آل محمّد پرگویا  تمام مصیبتیں ایک ساتھ آن پڑی تھیں سب عورتیں اور بچے دوڑتے ہوئے قتل گاہ میں آئے کہ جہاں امام حسین  اپنے باوفاساتھیوں سمیت سر کٹائے ہوئے سو رہے تھے “فلمّا نطرن النسوۃ الی القتلی  صحن و ضربن وجوھھن “جب مخدرات عصمت و طہارت نے شہیدوں کے بے سر لاشوں کو دیکھا  گریہ و زاری کرنےلگی اور سر و صورت پیٹنے لگی [9]

راوی کہتا ہے: خداکی قسم میں شام غریباں کے اس منظر کو کبھی نہیں بھلاسکتاکہ جب زینب علیا مقام بھائی کے لاشے پر یہ بین کر رہی تھیں “وا محمّداہ ،صلی علیک ملیک السمآء ،ھذا حسین مرمل بالدماء ،مقطع الاعضاء و بناتک سبایا”اے حبیب خدا ! آسمان میں رہنے والے فرشتے آپ پر  درود بھیجتےہیں اور یہ آپ کالاڈلا حسین اپنے ہی خون میں ڈوباہواہے اور اسکے بدن کو ٹکڑے  ٹکڑے کر دیاگیاہےاور آپ کی بیٹیوں کو قیدی بناکر کوچہ بہ کوچہ پھرایاجائے گا “بابی من اضحی عسکرہ فی یوم الاثنین نھبا”میرے ماں باپ قربان جائیں اس ذات پر کہ جس کے دوستوں نے اس کے پردہ جلالت کو بروز پیر (سقیفہ میں ) تار تار کر دیا اوراس کے گھر کو آگ لگائی !پھر اسکے بعد فرماتی ہیں میرے ماں باپ نثار ہو جائیں اس غریب، مسافر پر جو اب اپنے اہل وعیال میں واپس نہیں آئے گا ! میرے ماں باپ قربان ہو  جائیں اس جسم نازنیں کے جو تیروں سے اس طرح چھلنی ہے کہ کوئی حصہ زخموں سے خالی نہیں  اور اب علاج کے قابل بھی نہیں ! میرے ماں باپ فدا ہوں اس ذات پرکہ جو مظالم کانشانہ بنا اور تشنہ لب شہید ہوا اور اس کی داڑھی خود اسی کے خون سے لال ہوئی ،جس کے جد رسول خدا ہیں اور جو خدیجہ کبری کانواسہ ہے میرا سلام ہو محمّدمصطفی ،علی مرتضی ،فاطمہ زہرا،اور خدیجۃ الکبری پرراوی کہتا ہےکہ خداکی  قسم اپنے اور پرائے  یہ منظر دیکھ کر منھ پھیر پھیر کر رونے لگے اس کے بعدسکینہ آئیں اوراپنےکو بابا کے لاشے پر گرادیا پھر کٹی  ہوئی گردن کو  آغوش میں  لے کر بین کرنےلگیں “فاجتمع عدۃ من الاعراب حتّٰی  جرّوھا عنہ “کچھ عرب آئے اور زبردستی  آپ کو بابا کے لاشے سے جدا کردیا  [10]

[1] مقتل الحسین ،ابو مخنف ،ص۲۰۰ اور اس کے بعد

[2] ا؛ارشاد،المفید،ج۲ ،ص۱۱۲

[3] مثیر الاحزان ،ابن نما الحلی ،ص۷۷۔۷۸

[4] بحار الانوار ،ج۴۵ ،ص۵۸۔۶۰

[5] معالی السبفین ،المازندرانی ،ج۲ ص۷۸۔۸۵

[6] الدمعۃ الساکبہ ،ج۴ ص۳۶۹ ،وسیلۃ الدارین ،الزنجانی،ص۳۴۳ ،اسرار الشہادۃ الدربندی ،ص۴۳۶

[7] وقعۃ الطف ،ابو مخنف ،،ص۲۵۷ ،الارشاد المفید ،ج۲ ص۱۱۲۔۱۱۳ ،اعلام الوری ،الطبرسی،ج۱ ،ص۴۶۹۔۴۷۰ ،معالی السبطین ،ج۲ ص۸۲ المجلس ،۲ ،لواعج الاشجان ،السید محسن الامین ،ص۱۴۸۔۱۴۹

[8] الامالی ،الصدوق،ص ۱۳۹ ،المجلس،۳۱  ،ح۲ ،بحار الانوار،ج۴۵ ص۱۶۰ الباب ۳۷ العوالم ،ص۳۰۵  وسیلۃ الدارین ،الزنجانی ،ص۳۴۳

[9] الملہوف علی قتلی الطفوف ،سید ابن طاووس ،ص۱۸۰

[10] الملہوف علی قتلی الطفوف ،سید ابن طاووس ،ص۱۸۰۔۱۸۱ اور اسی روایت کاخلاصہ اسی کتاب کے ص۷۸۔۷۹ تک ،العوالم ،لبحرانی،ص۳۰۳ لواعج الاشجان ،محسن الامین ،ص۱۵۱ 

تبصرے
Loading...