سقيفہ کي تشکيل ميں قريش کاکردار

 

علي  کي جانشيني کے بارے ميںپيغمبر ? کي تمام کوششوں اور واقعہ غديرکے باوجودسقيفہ کا اجتماع واقع ہوا خدا کافرمان زمين ميں دھرارہ گيا اور  رسول اکرم ? کا خانوادہ خانہ نشين ہو گيا ، اس سلسلہ ميں ضروري ہے کہ قريش کے کردارکي نشاندہي کي جائے اس لئے کہ قريش ہي چاہتے تھے کہ پيغمبر کي عترت کا حق غصب کريں ،حضرت علي  نے مختلف مقامات پر قريش کے مظالم اور خلافت حاصل کرنے کي کوشش کو بيان کيا ہے

امام حسن  نے جو خط معاويہ کو لکھا تھا اس ميں سقيفہ کي تشکيل ميںقريش کے کردار کو اس طرح بيان فرمايا : پيغمبر  ? کي وفات کے بعد قبيلہ? قريش نے اپنے آپ کواس حيثيت سے پہچنوايا کہ ہم لوگ پيغمبر سے زيادہ نزديک ہيں اور اسي دليل کي بنا پر تمام عربوں کوکنارے کرديا اور خلافت کواپنے ہاتھ ميں لے ليا ہم اہل بيت محمد? نے بھي يہي کہاتو ہمارے ساتھ انصاف نہيں کيا اور ہم کو ہمارے حق سے محروم کرديا

امام باقر نے بھي اپنے ايک صحابي سے فرمايا : قريش نے جو ستم ہمارے اور ہمارے دوستوں اور شيعوں پر کئے ہيں اس کے بارے ميں کيا کہوں؟ رسول خدا کي وفات ہوئي جب کہ پيغمبر ?نے کہا تھاکہ لوگوں کے درميان(خلافت کے لئے) اولي? ترين فردکون ہے؟ ليکن قريش نے ہم سے روگرداني کي اور خلافت کو اس کي جگہ سے منحرف کرديا ہماري دليلوں کے ذريعہ انصار کے خلاف احتجاج کيا اور اس کے بعد خلافت کو ايک دوسرے کے حوالے کرتے رہے اور جس وقت ہمارے پاس واپس آئي توبيعت شکني کي اور ہم سے جنگ کي قريش کافي مدت پہلے ايسا عمل انجام دے چکے تھے جس سے لوگ سمجھ گئے تھے کہ يہ خلافت کو غصب کرنا چاہتے ہيں اسي لئے انصار سقيفہ کي طرف دوڑے تاکہ قريش تک حکومت پہنچنے سے مانع ہوں ، اس لئے کہ قريش فرصت طلب تھے

خاندان پيغمبر سے قريش کي دشمني کے اسباب

اب سوال يہ پيدا ہو تا ہے کہ کيوں قريش خاندان پيغمبر سے دشمني رکھتے تھے؟ کياان کا دين اور ان کي دنيا اس خاندان کي مرہون منت نہيں تھي؟ کياانہوںنے اسي خاندان کي برکت کي وجہ سے ہلاک ہونے سے نجات نہيں پائي تھي ؟اس سوال کا جواب دينے کے لئے چند امور کي طرف اشارہ کرتے ہيں

(1) قريش کي رياست طلبي

قريش زمانہ جاہليت ميں پورے جزيرة العرب پر تمام عربوں ميں ايک امتياز رکھتے تھے، ابوالفرج اصفہاني کا اس بارے ميں کہنا ہے : تمام عرب قوميں قريش کو شعر کے علاوہ ہر چيز ميںمقدم جانتي تھي،يہ موقعيت اورحشيت ان کو دوجہتوں سے حاصل ہوئي تھي

(الف) اقتصادي قوت : قريش نے پيغمبر ? کے جد جناب ہاشم کے زمانہ ہي سے پڑوسي ممالک جيسے يمن، شام ،فلسطين ، عراق، حبشہ سے تجارت کرني شروع کردي تھي اور اشراف قريش اس تجارت کي وجہ سے بہت زيادہ ثروتمند ہو گئے تھے.

خداوند عالم اس تجارت کو قريش کے لئے سرمايہ افتخار اور عيش و مسرت قرار ديتے ہوئے فرماتا ہے :ايک دوسرے سے محبت و الفت پيدا کرنے گرميوں اور سرديوں ميں آپس ميں رابطہ رکھنے کے لئے اللہ کي عبادت کريں وہي پروردگارکہ جس نے بھوک سے انہيں نجات دي اورخوف و ہراس ان سے دور کيا

(ب) معنوي حيثيت :قريش کعبہ کے وجود کي بنا پر کہ جو عرب دنياميں ، عرب قبائل کے درميان ايک مشہورزيارت گاہ تھي نيز اسے عربوں کے درميان ايک خاص معنوي حيثيت حاصل تھي خاص طور پر ہاتھيوں کے لشکر ابرہہ کي شکست کے بعد قريش کا احترام لوگوں کي نظر ميں زيادہ ہو گياتھا اور يہ کعبہ کے کليد دار بھي تھے،قريش نے اس واقعہ سے فائدہ اٹھايا اور خود کو آل اللہ ، جيران اللہ اور سکان حرم اللہ کہلواناشروع کر ديا ، اسي وسيلہ کي بنياد پر انہوں نے اپنے مذہبي مقام کو استوار کرليااسي احساس برتري و اقتدار کي وجہ سے قريش نے کوشش شرو ع کي کہ اپني برتري کو ثابت کريں چونکہ مکہ کعبہ کي وجہ سے عرب کے لئے مرکز تھا جزيرةالعرب کے اکثر ساکنين وہاں آتے جاتے تھے،قريش اپني رسومات کو مکہ آنے والوں پرتھوپتے تھے طواف کعبہ کے وقت لوگوں کو متوجہ کرتے تھے کہ حاجي ان سے خريدے ہوئے لباس ميں طواف کريں(3) ليکن رسول اکرم کے ظاہر ہونے کے بعد انہوں نے احساس کيا کہ تعليمات اسلامي ان کي برتري اور انحصار طلبي کے منافي ہے ،قريش نے ان کو قبول نہيں کيا اور اپني تمام  طاقت کے ساتھ مخالفت ميں کھڑے ہوگئے اور جو بھي اسلام کي نابودي کے لئے ممکن تھا اس کوانجام ديا ليکن ہوتا وہي ہے جو خدا چاہتا ہے، آخر کار پيغمبر?نے قريش پرکاميابي حاصل کرلي ،آٹھويں ہجري ميں قريش کے کچھ افراد مدينہ آئے اور مسلمانوں سے مل گئے ليکن دشمني سے باز نہ آئے مثلاًحکم بن عاص نے پيمبرکا مذاق اڑايا آنحضرت? نے ا سے طائف کي جانب شہر بدر کرديا

جب قريش ميں رسول اکرم سے مقابلے کي طاقت نہيں رہي تو انہوں نے ايک نيا فارمولہ بنا ياکہ آنحضرت? کے جانشين سے مقابلہ کريں عمر نے ہميشہ ابن عباس سے کہا:  عرب نہيں چاہتے کہ نبوت اور خلافت تم بني ہاشم کے درميان جمع ہواسي طرح مزيد کہا: اگر بني ہاشم ميںسے کوئي امر خلافت کا ذمہ دار بن گيا تو اس خاندان سے خلافت باہر نہيں جائے گي اور ہمارا اس ميں کوئي حصہ نہيں ہوگا ليکن اگر بني ہاشم کے علاوہ کوئي اس کا ذمہ دار ہوگيا تو وہ لوگ اپنے ہي درميان ايک دوسرے کو منتقل کرتے رہيں گے

اس زمانے کے لوگ بھي قريش کے اس رويہ سے آگاہ تھے جيسا کہ براء بن عازب نے نقل کيا کہ ميں بني ہاشم کے چاہنے والوں ميںسے تھا جس وقت رسول اکرم ? دنيا سے گئے تو مجھے اس بات کا ڈر ہوا کہ قريش بني ہاشم سے خلافت کو نہ چھين ليں اور ميں کافي حيران وسر گردان تھا

قريش کا ابو بکر اور عمر کي خلافت پر راضي ہونا خود ان کے فائدے ميں تھا جيساکہ ابوبکر نے مرتے وقت قريش کے کچھ لوگوں سے کہ جو اس کي عيادت کے لئے آئے تھے کہا: ميں جانتا ہوں کہ تم ميں سے ہر ايک يہ خيال کرتا ہے کہ ميرے بعد خلافت اس کي طرف منتقل ہوگي ليکن ميں نے تم ميں سے بہترين شخص کو اس کے لئے چنا ہے

ابن ابي الحديد کہتا ہے: قريش عمر کي طولاني خلافت کي وجہ سے ناراض تھے اور عمربھي اس بات سے آگاہ تھے لہذاوہ اس بات کي اجازت نہيں ديتے تھے کہ وہ مدينہ سے باہر جائيں

(2) قبيلوں کي رقابت و حسادت

عربوں ميں قبيلوں کے درميان رقابت اور حسادت بہت تھي خدا وند عالم نے قرآن مجيد ميں سورہ تکاثراور سورہ سباء ميں اس مطلب کي طرف اشارہ کيا ہے، زمانہ جاہليت ميں بني ہاشم اور دوسرے تمام قبائل کے درميان رقابت موجود تھي، زمزم کھودتے وقت جناب عبدالمطلب کے مقابلہ ميں قريش کے تمام قبائل جمع ہوگئے تھے اور وہ نہيں چاہتے تھے کہ يہ افتخار صرف عبد المطلب کو حاصل ہو

يہي وجہ ہے کہ ابو جہل کہتا تھا ہم بني ہاشم سے ان کے شرف کي وجہ سے رقابت کرتے تھے وہ بھي لوگوں کو کھانا ديتے تھے توہم بھي لوگوںکو کھانا ديتے تھے ، وہ لوگوں کو سواري مہياکرتے تھے تو ہم بھي لوگوں کو سواري مہيا کرتے تھے تو وہ لوگوں کو پيسے ديتے تھے ہم بھي لوگوں کو پيسے بانٹتے تھے اور ہم ان کے ساتھ اس طرح شانہ بشانہ بڑھ رہے تھے جيسے گھوڑوں کي دوڑميں دو گھوڑے ساتھ چل رہے ہوں ، يہاں تک کہ ان لوگوں نے کہا : ہم ميں ايک ايسا پيغمبرمنتخب ہوا ہے کہ جس پر آسمان سے وحي نازل ہوتي ہے اب ہم ان تک کيسے پہونچتے ؟ خدا کي قسم !ہم اس پر ہرگز ايمان لائے اور نہ ہي ان کي تصديق کي

اميہ بن ابي ا     لصلت جو طائف کے اشراف ميں سے تھا اس نے اسي وجہ سے اسلام قبول نہيں کيااور پيغمبر? موعودکا سالہا سال انتظار کرتا رہاتاکہ اس انتطارميں خود کو اس منصب تک پہنچا دے جب اس کو بعثت رسول  ?کي خبر ملي پيروي کرنے سے اجتناب کيا اور اس کي علت يہ بتائي کہ مجھ کو ثقيف کي عورتوں سے شرم آتي ہے، اور اس کے بعد کہتا ہے : کافي عرصہ تک ميںان سے يہ کہتا رہاکہ وہ پيغمبر موعود ميںہوگااب کس طرح تحمل کروں کہ وہ مجھے بني عبد مناف کے ايک جوان کا پيرو ديکھيں

ليکن اس حسد ورقابت کے باوجود خدا نے پيغمبر  ? کو کامياب کيا اور قريش کي شان و شوکت کو خاک ميں ملاديا ،آٹھويں ہجري کے بعد اکثر اشراف قريش مدينہ منتقل ہو گئے اور وہاں بھي خاندان پيغمبر  ? کو تکليف دينے سے باز نہ آئے

ابن سعد نے نقل کيا ہے کہ مہاجرين ميں سے ايک نے عباس بن عبدالمطلب سے چند بار کہا : آپ کے والد عبدالمطلب اور بني سہم کاہنہ غيطلہ دونوں جہنم ميں ہيں، آخر کار عباس غصہ ہو گئے اور اس کے منھ پر طمانچہ مارا اور اس کي ناک سے خون نکل آيا، اس شخص نے پيغمبر ? سے آکر عباس کي شکايت کي رسول ?نے اپنے چچا عباس سے اس با ت کي وضاحت چاہي ،عباس نے سارا قضيہ بيان کيا تو پيغمبر ? نے فرمايا : کيوں عباس کو اذيت ديتے ہو؟

حضرت علي  اپنے مخصوص کمال کي بنا پر زيادہ مورد حسد قرار پائے امام باقر   فرماتے ہيں کہ جب بھي رسول اکرم  علي  ـ کے فضا ئل بيان کرناچاہتے تھے يا اس آيت کي تلاوت کرنا چاہتے تھے جو علي  کي شان ميں نازل ہوئي تھي تو کچھ لوگ مجلس سے اٹھ کر چلے جاتے تھے، اس طرح کي روايت نبي اکرم ? سے بہت زيا دہ وارد ہوئي ہيں

آپ نے فرمايا: جس نے علي  سے حسد کيا اس نے مجھ سے حسد کيا اور جس نے مجھ سے حسد کيا وہ کافر ہوگيا 

يہاں تک کہ پيغمبر?کے زمانہ ميںبعض افراد علي سے حسد کرتے تھے اور آ پ کو اذيت پہونچاتے تھے جيسا کہ سعد بن وقاص سے نقل ہواہے کہ ميں اور دوسرے دو آدمي مسجد ميں بيٹھے علي  کي برائي کر رہے تھے کہ پيغمبر ? غصہ کي حالت ميں ہم لوگو ں کي طرف آئے اورفرمايا : علي  نے تمہارا کيا بگاڑاہے؟ جس نے علي  کو اذيت دي اس نے مجھ کو اذيت دي

(3)حضرت علي سے قريش کي دشمني

علي کي محروميت اورمظلوميت کي اہم ترين دليل قريش کي مخالفت اور دشمني تھي کيونکہ وہ حضرت علي  سے زک کھا چکے تھے حضرت نے رسول ? خدا کے زمانے ميںجنگوں ميں ان کے باپ،بھائيوںاور عزيزوں کو قتل کيا تھا ،چنانچہ يعقوبي حضرت علي  کي خلافت کے شروع کے حالات کے بارے ميںلکھتا ہے :قريش کے مروان بن حکم ،سعيد بن عاص اور وليد بن عقبہ کے علاوہ تمام لوگوں نے حضرت علي  کے ہاتھوںپر بيعت کي ، وليد نے ان لوگوں کي طرف سے حضرت علي  سے کہا:آپ نے ہم لوگوں کو نقصان پہنچايا ہے، بدرکے بعد ميرے باپ کي گردن اڑائي سعيدکے باپ کو جنگ ميں قتل کيا اور جب عثمان نے مروان کے باپ کو مدينہ واپس بلا نا چاہا تو آپ نے اعتراض کيا

اسي طرح خلافت علي  کے وقت عبيد اللہ بن عمر نے امام حسن  سے سفارش کي کہ آپ مجھ سے ملاقات کريں مجھے آ پ سے کام ہے، جس وقت دونوں کي ملا قات ہوئي تو عبيد اللہ بن عمرنے امام حسن  سے کہا : آپ کے والد نے شروع سے آخر تک قريش کو نقصان پہنچايا لوگ ان کے دشمن ہو گئے ہيں آپ ميري مدد کريں تاکہ ان کو ہٹا کر آ پ کو ان کي جگہ بٹھاديا جائے

جب ابن عباس سے سوال کياگيا: کيوں قريش حضرت علي سے دشمني رکھتے ہيں؟ تو  انہوںنے کہا : پہلے والوں کو حضرت علي  نے واصل جہنم کيا اور بعد والوںکے لئے باعث عار ہو گئے ،حضرت علي کے دشمن قريش کي اس ناراضگي سے فائدہ اٹھاتے تھے اورقضيہ کو مزيد ہوا ديتے تھے

عمر بن خطاب نے سعد بن عاص سے کہا : تومجھے اس طرح ديکھ رہا ہے جيسے ميںنے ہي تيرے باپ کو قتل کيا ہو ميں نے اس کو قتل نہيں کيا بلکہ علي  نے ان کو قتل کيا ہے

خود حضرت علي نے بھي ابن ملجم کے ہا تھوں سے ضربت کھانے کے بعد ايک شعر کے ضمن ميں قريش کي دشمني کي طرف اشارہ کيا ہے

تکلم قريش تمنا ي لتقتلني

فلا و ربک ما فازوا وما ظفروا

قريش کي خود تمنا تھي کہ وہ مجھے قتل کريں ليکن وہ کامياب نہ ہوسکے

(4)حضرت علي  کا سکوت :

اب يہ ديکھناچاہيے کہ حضرت علي  نے سقيفہ اور ابوبکر کي حکومت کے آغا ز کے بعد کيوں اپنے حق سے صرف نظر کيا ؟چند ماہ کے استدلال اور احتجاجات کے بے اثر ہونے کا يقين کر لينے کے بعد حکومت کے خلاف مسلحانہ جنگ کيوں نہيں کي؟ جب کہ بعض بزرگ اصحاب پيغمبر  ? آپ کے واقعي طرفداروں ميں تھے اور عمومي طور سے مسلمان بھي آپ سے مخالفت نہيں رکھتے تھے، بہ طورکلي کہا جا سکتا ہے کہ امير المومنين نے اسلام اور مسلمانوں کي مصلحت کو مد نظر رکھا اور سکوت اختيار کيا جيساکہ خطبہ شقشقيہ ميں آپ نے فرمايا:

”ميں نے خلافت کي قباکو چھوڑ ديا اور اپنے دامن کو اس سے دور کر ليا حالانکہ ميں اس فکر ميں تھا کہ آيا تنہا بغير کسي ياورومدد گار کے ان پر حملہ کردو ںيا اس دم گھٹنے والي تنگ و تاريک فضا ميں جوان کي کار ستانيوںکانتيجہ تھي اس پر صبر کروںايسي فضاجس نے بوڑھوں کو فرسودہ بناديا تھا، جوانوں کو بوڑھا اور با ايمان لوگوں کو زندگي کے آخري دم تک کے لئے رنجيدہ کرديا تھاميں نے انجام پر نگاہ کي تو ديکھا کہ بردباري اور حالات پر صبر کرنا ہي عقل و خرد سے زيادہ نزديک ہے اسي وجہ سے ميں نے صبر کيا ليکن ميں اس شخص کي طرح رہا کہ جس کي آنکھ ميں کانٹا اور گلے ميں کھردري ہڈي پھنسي ہوئي ہو ميں اپني ميراث کو اپني آنکھ سے لٹتے ہوئے ديکھ رہا تھا

حضرت علي  کے کلام سے خاموشي کے دوسرے اسباب کي طرف بھي اشارہ ملتا ہے (اگرچہ وہ اسباب جزئي ہيں جيسے 🙂

(1)مسلمانوں کے درميان تفرقہ

امير المومنين فرماتے ہيں: جب خدا نے اپنے پيغمبر  ?کي روح قبض کي قريش نے اپنے کو ہم پر مقدم کيا اور ہم (جو امت کي قيادت کے لئے سب سے زيادہ سزاوار تھے)کو ہمارے حق سے بازر کھا ليکن ميں نے ديکھا کہ اس کام ميں صبر و برد باري کرنا مسلمانوں کے درميان تفرقہ اور ان کے خون بہنے سے بہتر ہے کيونکہ لوگ نئے نئے مسلمان ہوئے تھے دين کي مثال بالکل دودھ سے بھري ہوئي اس مشک کي سي تھي کہ جس ميں جھاگ بھر گيا ہوکہ جس ميں ذرا سي غفلت اور سستي اسے نابود کر دے گي اور تھوڑا سا بھي اختلاف اسے پلٹ دے گا

(2)مرتد ہونے کا خطرہ

پيغمبر اکرم  ?کي وفات کے بعد، عرب قبائل کي بڑ ي تعداد کہ جنہوںنے پيغمبر اسلام  ?کي آخري زندگي ميں اسلام قبول کيا تھا وہ دين سے پلٹ گئے اور مرتد ہوگئے تھےکہ جس کي وجہ سے ،مدينہ کے لئے خطرہ بہت بڑھ گيا تھاان کے مقابلہ ميں مدينہ کي حکومت کمزورنہ ہو نے پائے اس لئے حضرت علي نے سکوت اختيار کيا حضرت علي  نے فرمايا: خدا کي قسم! ميں نے يہ کبھي نہيں سوچا اور نہ ميرے ذہن ميں کبھي يہ بات آئي کہ پيغمبر? کے بعدعرب منصب امامت اور رہبري کو ان کے اہل بيت سے چھين ليں گے اور خلافت کو مجھ سے دور کر ديں گے تنہا وہ چيز کہ جس نے مجھے نا راض کيا وہ لوگوں کا فلاں (ابو بکر ) کے اطراف ميں جمع ہوجانا اور اس کي بيعت کرنا تھا ميں نے اپناہاتھ کھينچ لياميں نے خود اپني آنکھوں سے ديکھا کہ کچھ گروہ اسلام سے پھر گئے ہيں اور چاہتے ہيں کہ دين محمد  ? کونابودکرديں، ميں نے ا س بات کا خوف محسوس کيا کہ اگر اسلام اور اس کے اہل کي مددد نہ کروںنيز اسلام ميں شگاف اور اس کے نابود ہونے پر شاہد رہوں تو ميرے لئے اس کي مصيبت حکومت اور خلافت سے محروم ہونے سے زيادہ بڑي تھي کيونکہ دنيا کا فائدہ چند روزہ ہے جو جلدہي ختم ہوجائے گا جس طرح سراب تمام ہوجاتا ہے يا بادل چھٹ جاتے ہيںپس ميں نے اس چيز کو چاہا کہ باطل ہمارے درميان سے چلا جائے اور دين اپني جگہ باقي رہے

امام حسن نے بھي معاويہ کو خط ميں لکھا :ميں نے منافقوں اور عرب کے تمام گروہ کہ جو اسلام کو نقصان پہنچانا چاہتے تھے ان کي وجہ سے اپنے حق سے چشم پوشي کي،? کہ ان لوگوں ميں کچھ ايسے تھے جن کے لئے قرآن نے شہادت دي ہے: ان کے قلوب ميں ايمان داخل ہي نہيں ہوا تھا اور انہوں نے زبردستي اسلا م قبول کيا تھا اور اپنے نفاق کي وجہ سے علي  کي ولايت کے منکر تھے حتي? کہ رسول? کے دور ميں بھي اس مطلب پر اعتراض کرتے تھے

طبرسي نے آيہ ”سئل سائل بعذاب واقع” کي تفسيرميںحضرت امام صادق سے نقل کيا ہے : غدير خم کے واقعہ کے بعد نعمان بن حارث فھري پيغمبر ? کے پاس آيا اور کہنے لگا:آپ کے حکم کے مطابق ہم نے خداکي وحدانيت اور آ پ کي رسالت کي گواہي دي اورآپ نے جہاد ، روزہ ،حج ، زکو? ة، نماز کا حکم ديا ہم نے قبول کيا ان تمام باتوں پر آپ راضي اور خوش نہيں ہوئے اور کہہ رہے ہيں کہ جس کاميں مولا ہوں اس کے علي مولا ہيں، کيا يہ آپ کي طرف سے ہے يا خداکي جانب سے ؟تو رسول ? خدا نے فرمايا: اس خدا کي قسم جس کے سوا کوئي خدا نہيں ہے يہ حکم خدا کي طرف سے ہے ،نعمان بن حا رث وہاں سے يہ کہتا ہوا واپس ہوا کہ اگر يہ مطلب حق ہے تو آسمان سے ميرے اوپر پتھر نازل فرما ،اسي وقت آسمان سے اس کے اوپر پتھر نازل ہو ااور وہ وہيں پر ہلا ک ہوگيا اس وقت يہ آيت نازل ہوئي

سقيفہ ميں بھي يہ لوگ قريش کے حامي اورطرف دار تھے جيسا کہ ابو مخنف نے نقل کيا ہے کہ کچھ صحرائي عرب مدينہ کے اطراف ميںکار وبار کے لئے آئے ہوئے تھے اور پيغمبر? کي وفات کے دن مدينہ ميںموجود تھے ان لوگوں نے ابو بکر کي بيعت کرنے ميںاہم کردار ادا کيا تھا

(3) عترت پيغمبرکي حفاظت

پيغمبر ? کے اصلي وارث اور دين کے سچے حامي نيز خير خواہ رسول? کے خا ندان والے تھے يہ لوگ قرآن کے ہم پلہ اورہم رتبہنيز پيغمبر ?کے دوسري عظيم ياد گارنيز قرآن وشريعت کي تفسير کرنے والے تھے انہوںنے پيغمبر? کے بعد اسلام کا صحيح چہرہ لوگوں کے سامنے پيش کياتھا ان لوگوں کا قتل ہوجانا ناقابل تلافي نقصان تھا امير المؤمنين فرماتے ہيں: ميںنے سوچا اور فکر کي کہ اس وقت اہل بيت کے علاوہ کوئي ميرا مدد گار نہيں ہے ميں راضي نہيں تھا کہ يہ لوگ قتل کر دئيے جائيں

سقيفہ کے بعد شيعوں کے سياسي حالات

اگرچہ سقيفہ تشکيل پانے کے بعد حضرت علي  سياسي ميدان سے دور ہوگئے تھے، شيعہ مخصوص گروہ کي صورت ميں سقيفہ کے بعدسياسي طور پر وجود ميں آئے اور انفرادي يا جماعت جماعت کي صورت ميں حضرت علي  کي حقانيت کادفاع کرتے رہے پہلے حضرت فاطمہ  زہراکے گھر جمع ہوئے اور بيعت سے انکار کيا اور سقيفہ کے کارندوں سے روبروہوئے

ليکن حضرت علي تحفظ اسلام کي خاطر خشونت اور سختي کا رويہ ان کے ساتھ اپنانا نہيں چاہتے تھے بلکہ وہ چاہتے تھے کہ بحث و منا ظرہ کے ساتھ مسئلہ کا تصفيہ کريںچنانچہ براء بن عازب نقل کرتا ہے:ميں سقيفہ کے قضيہ سے دل برداشتہ رات کے وقت مسجد نبي ? ميں گيا اور ديکھا: مقداد، عبادہ بن صامت ، سلمان فارسي ،ابوذر ، حذيفہ اور ابوالہيثم بن تيہان پيغمبر ? کے بعد رونما ہونے والے حالا ت کے بارے ميں گفتگو کر رہے ہيں ہم سب ايک ساتھ ابي بن کعب کے گھر گئے تو اس نے کہا: جو بھي حذيفہ کہيں اس کي رائے بھي وہي ہوگي

آخر کار شيعان علي  نے جمعہ کے دن مسجد نبي? ميں ابو بکر کے ساتھ مناظرہ کيا اور اس کو ملامت کيا ، طبرسي نقل کرتے ہيں:

ابا ن بن تغلب نے امام صادق   سے پوچھا : ميں آپ پر فدا ہو جاؤں،جس وقت ابو بکر رسول خدا ?کي جگہ پر بيٹھے تو کيا کسي نے اعتراض نہيں کيا ؟امام نے فرمايا : کيوں نہيںانصار و مہاجرين ميںسے بارہ افرادنے مثلاًخا لد بن سعيد ،سلمان فارسي ، ابوذر ، مقداد، عمار، بريدہ اسلمي ،ابن ا لہيثم بن تيھان ، سہل بن حنيف ،عثمان بن حنيف ،خزيمہ بن ثابت (ذوالشہادتين)،ابي بن کعب ،ابو ايوب انصاري ايک جگہ پر جمع ہوئے اورانہوں نے سقيفہ کے متعلق آپس ميں گفتگو کي، بعض نے کہا : مسجد چليںاور ابوبکر کو منبر سے اتارليں ليکن بعض لوگوں نے اس سے اتفاق نہيںکيا يہ لوگ اميرالمومنين کي خدمت ميں حاضر ہوئے اورکہا چلتے ہيں اور ابوبکر کو منبر سے کھينچ ليتے ہيں حضرت نے فرمايا: ان لوگوں کي تعداد زيادہ ہے اگرسختي کرو گے اور يہ کام انجام دوگے تو وہ لوگ آئيں گے اور مجھ سے کہيں گے کہ بيعت کرو ورنہ تمہيںقتل کرديں گے بلکہ اس کے پاس جائوجو کچھ رسول خدا  سے سنا ہے اس سے بيان کرو، اس طرح سے اتمام حجت ہوجائے گي ،وہ لوگ مسجد ميںآئے اور سب سے پہلے خالد بن سعيد اموي نے کہا : اے ابوبکر! آپ جانتے ہيں کہ پيغمبر? نے جنگ بني نضير کے بعد کياکہا تھا : ياد رکھو! اور ميري وصيت کو حفظ کرلو تمہارے درميان ميرے بعد ميرے جانشين اور خليفہ علي ہيں ، اس کے بعد جناب سلمان فارسي نے اعتراض کيا اس کے بعد جب دوسرے لوگوں نے احتجا ج کيا تو ابوبکر منبر سے نيچے اترے اور گھر چلے گئے اور تين دن تک گھر سے باہر نہيں نکلے ،خالد بن وليد ، ابو حذيفہ کا غلام سالم اور معاذبن جبل کچھ افراد کے ساتھ ابو بکر کے گھر آئے اور اس کے دل کو قوت دي، عمر بھي اس جماعت کے ساتھ مسجد ميں آئے اور کہا کہ اے شيعيان علي  اور دوستداران علي،  جان لو اگر دوبارہ ان باتوںکي تکرار کي تو تمہاري گردنوں کو اڑا دوں گا

اسي طرح وہ چند صحابہ جو وفات پيغمبر  کے وقت زکو ة وصول کرنے پر مامور تھے جب وہ اپني ماموريت سے واپس آئے جن ميں خالد بن سعيد اوراس کے دو بھائي ابان اور عمر وتھے، ان حضرات نے ابو بکر پر اعتراض کيا اور دوبارہ زکو? ة وصول کرنے سے انکار کيا اور کہا: پيغمبرکے بعد ہم کسي دوسرے کے لئے کام نہيں کريں گے

خالد بن سعيد نے حضرت علي سے يہ درخواست کي آپ آئيے تاکہ ہم آپ کي بيعت کريں کيونکہ آپ ہي پيغمبر اکرم  ?کي جگہ کے لائق و سزاوار ہيں

خلفاء ثلاثہ کي حکومت کے پورے 25 سالہ دور ميں شيعيان علي  آپ کو خليفہ اور امير المومنين کے عنوان سے پہچنواتے رہے،عبد اللہ بن مسعود کہتے ہيں : قرآن کي فرمائش کے مطابق خليفہ چار ہيںآدم،داؤد ،ہارون اور علي 

حذيفہ بھي کہتے تھے: جو بھي امير المومنين بر حق کا مشاہدہ کرنا چاہتا ہے وہ علي  سے ملاقات کرے

حارث بن خزرج جو پيغمبر ? کي جنگوں ميں انصار کے علمدار ہواکرتے تھے نقل کرتے ہيں : نبي اکرم ?نے علي  سے فرمايا : اہل آسمان آپ کو امير المومنين کہتے ہيں

يعقوبي لکھتا ہے: عمر کي چھ رکني کميٹي کي تشکيل اور عثمان کے انتخاب کے بعد کچھ لوگوں نے يہ ظاہر کيا کہ ہم علي  کي طرف رجحان رکھتے ہيں اور عثمان کے خلاف باتيں کرتے تھے، ايک شخص نقل کرتا ہے کہ ميںمسجدالنبي ?ميں داخل ہوا ديکھا ايک آدمي دوزانو بيٹھا ہے اور اس درجہ بيتاب ہو رہا ہے جيسے تمام دنيا اس کي تھي اور اب پوري دنيا اس سے چھن گئي ہے لوگوں سے مخاطب ہو کر کہہ رہا ہے: قريش پر تعجب ہے کہ خلافت کو خاندان پيغمبر? سے خارج کرديا حالانکہ ان کے درميا ن سب سے پہلا مومن اوررسول خدا ?کا چچا زاد بھائي دين خدا کا دانا ترين عالم ا ور فقيہ ترين شخص صراط مستقيم موجود تھا ،خدا کي قسم! امام ہادي و مہدي اور طاہر و نقي سے خلافت کو لے ليا گياکيونکہ ان کا ہدف اصلاح امت و دين داري نہ تھا بلکہ انہوں نے دنيا کو آخرت پر ترجيح دي” راوي کہتا ہے:ميں نزديک ہوا اور دريافت کيا خدا آپ پر رحمت نازل کرے آپ کون ہيں؟ اور يہ شخص جس کے بارے ميں بيان کر رہے ہيں وہ کون ہے؟ فرمايا :ميں مقداد بن عمر وہوںاور وہ علي بن ابي طالب  ہيں، ميں نے کہا : آپ قيام کريںميں آپ کي مدد کرو ں گا ،مقداد نے کہا: ميرے بيٹے يہ کام ايک دو آدمي سے ہونے والا نہيں ہے

ابوذر غفاري بھي عثمان کي خلافت کے روز مسجد نبوي? کے دروازہ پر کھڑے کہہ رہے تھے جو مجھے پہچانتا ہے وہ پہچانتا ہے اور جو نہيں پہچانتا وہ مجھے پہچان لے ميں جندب بن جنادہ ابوذر غفاري ہوں ، محمد  ?علم آدم کے وارث اور تمام فضائل انبياء کے حامل ہيںاور علي  محمد?کے جانشين اور ان کے علم کے وارث ہيں، اے پيغمبر? کے بعد سرگرداں امت! آگاہ ہوجاؤ جس کو خدانے مقدم کيا تھا اس کو اگر تم مقدم رکھتے اور ولايت کو خاندان رسول ?ميںرہنے ديتے تو خداکي نعمتيں اوپر اور نيچے سے نازل ہوتيں جو بھي مطلب تم چاہتے اس کا علم کتاب خدا اور سنت پيغمبر ? سے حاصل کرليتے ليکن اب تم نے ايسا نہيں کيا تو اپنے اعمال کا نتيجہ ديکھنا? 

ہاں شيعيان علي کے پہلے گروہ ميںيہي پيغمبر اکرم ? کے اصحاب با وفا تھے انہيں کے ذريعہ تشيع تابعين تک منتقل ہوئي اور انہيں کي تلاش و کوشش کي وجہ سے عثمان کي حکومت کے آخري دور ميں سياسي حوالہ سے حضرت علي  کي خلافت کے اسباب فراہم ہوئے?

شيعہ صحابي

ہم پہلے بيان کر چکے ہيں کہ جس نے سب سے پہلے پيروان علي کو شيعہ کہا وہ حضرت محمد مصطفي? کي ذات گرامي تھي، رسول اکرم ? کے زمانہ ميں آپ? کے کچھ صحابہ شيعيان علي  کے نام سے مشہور تھے ،محمدکرد علي خطط الشام ميں لکھتا ہے :رسول اللہ? کے زمانہ ميں اصحاب ميں سے چند بزرگ، دوستداران علي  کے نام سے معروف تھے جيسے سلمان فارسي  جوکہتے ہيں ہم نے رسول خدا ?کے ہاتھوں پر بيعت کي تاکہ مسلما نوں کے ساتھ خيرخواہي کريں اور علي  کے دوستوں اور ان کي اقتدا کرنے والوں ميں سے رہيں، ابوسعيد خدري کہتے ہيں: ہم کو پانچ چيزوں کا حکم ہو الوگوں نے چار پر عمل کيا اور ايک کو چھوڑديا پوچھا گيا وہ چار چيزيںکون سي ہيں؟ ا نہوں نے کہا: نماز ،زکو?ة ،روزہ? ماہ رمضان اور حج ،پھر پوچھا گيا کہ وہ کيا ہے جس کو لوگوں نے ترک کرديا؟ تو انہوںنے کہا : وہ علي بن ابيطالب  کي ولايت ہے لوگوں نے کہا: کيا يہ بھي انہيں چار چيزوں کي طرح واجب ہے؟ کہا: ہاں يہ بھي اسي طرح واجب ہے،يا ابوذر غفاري ، عمار ياسر ، حذيفہ بن يمان ، خزيمہ بن ثابت ذوالشہادتين ابو ايوب انصاري ، خالد بن سعيد قيس بن سعدوغيرہ شيعہ? علي  کے عنوان سے جانے جاتے تھے

ابن ابي الحديد کاپہلے دور کے شيعوں کے بارے ميںکہناہے علي  کي افضليت کا قول پرانا قول ہے اصحاب اور تابعين ميں سے اکثر اس کے قائل تھے جيسے عمار، مقداد، ابوذر، سلمان، جابر، ابي بن کعب، حذيفہ، بريدہ ،ابو ايوب ،سہل بن حنيف، عثمان بن حنيف ابولہيثم بن تيھان، خزيمہ بن ثابت ،ابوالطفيل عامر بن واثلہ، عباس بن عبد المطلب اور تمام بني ہاشم اور بني مطلب، شروع ميں زبير بھي حضرت علي  کے مقدم ہونے کے قائل تھے بني اميہ ميں سے بھي کچھ افراد جيسے خالد بن سعيد اور اس کے بعد عمر بن عبدالعزيز بھي علي  کي افضليت کے قائل تھے? (ابن ابي الحديد ، شرح نہج البلاغہ ، دار احياء التراث العربي ،بيروت ج20 ص 221،222)

سيد علي خان شيرازي نے درجات الرفيعةفي طبقات الشيعہ ميںايک حصہ شيعہ صحابيوں سے مخصوص کيا ہے، سب سے پہلے بني ہاشم کا ذکر کيا ہے اس کے بعد تما م شيعہ صحابيوں کوپيش کيا ہے، پہلا حصہ جو بني ہاشم سے مربوط شيعہ اصحاب سے ہے اس طرح ذکر کيا ہے: ابوطالب، عباس بن عبدالمطلب، عبداللہ بن عباس ، فضل بن عباس ، عبيداللہ بن عباس، عبدالرحمن بن عباس ، تمام بن عباس، عقيل بن ابي طالب ، ابو سفيان بن حارث بن عبدالمطلب ،نوفل بن حارث بن عبدالمطلب عبداللہ بن زبير بن عبد المطلب ،عبداللہ بن جعفر ،عون بن جعفر ،محمدبن جعفر ،ربيعہ بن حارث بن عبدالمطلب ،طفيل بن حارث بن عبدالمطلب، مغيرہ بن نوفل بن حارث بن عبدالمطلب ،عباس بن عتبہ بن ابي لھب عبدالمطلب بن ربيعہ بن حارث بن عبدالمطلب ،جعفر بن ابي سفيان بن حارث بن عبدالمطلب ?(سيد علي خان شيرازي ، الدرجات الرفيعة في طبقات الشيعة مؤسسة الوفا، بيروت ص141?195)

سيد علي خان نے دوسرے باب ميں شيعيان بني ہاشم کے علاوہ اصحاب شيعہ کا اس طرح تذکرہ کيا ہے عمربن ابي سلمہ، سلمان فارسي ،مقداد بن اسود ،ابوذر غفاري ، عماربن

ياسر ، حذيفہ بن يمان ،خزيمہ بن ثابت، ابو ايوب انصاري، ابوالہيثم مالک بن تيہان ، ابي ابن کعب ،سعد بن عبادہ ،قيس بن سعد ،سعدبن سعدبن عبادہ ، ابو قتادہ انصاري ،عدي بن حاتم عبادہ بن صامت، بلال بن رباح ، ابوالحمرا ، ابو رافع، ہاشم بن عتبہ بن ابي وقاص ، عثمان بن حنيف ، سہل بن حنيف ،حکيم بن جبلہ العدوي، خالد بن سعيد بن عاص، وليد بن جابربن طليم الطائي، سعد بن مالک بن سنان ، براء بن مالک انصاري ،ابن حصيب اسلمي کعب بن عمرو انصاري ،رفاعہ بن رافع انصاري، مالک بن ربيعہ ساعدي ،عقبہ بن عمربن ثعالبہ انصاري، ہند بن ابي ہالہ تميمي ،جعدہ بن ہبيرہ ، ابو عمرہ انصاري ، مسعود بن اوس ، نضلہ بن عبيد ،ابو برزہ اسلمي ،مرداس بن مالک اسلمي ، مسور بن شدا دفہري، عبداللہ بن بديل الخزاعي ، حجر بن عدي کندي ، عمر وبن الحمق خزاعي ، اسامہ بن زيد ،ابو ليلي? انصاري ، زيد بن ارقم اوربراء بن عازب اوسي ?(سيد علي خان شيرازي ، الدرجات الرفيعة في طبقات الشيعة مؤسسة الوفا، بيروت ص197 ،455)

مؤلف رجال البرقي نے بھي شيعيان ا ورمحبان علي جو اصحاب پيغمبر سے تھے انہيںاپني کتاب کے ايک حصہ ميں اس طرح ذکرکيا ہے:

سلمان ، مقداد،ابوذر، عمار،اور ان چار افراد کے بعد ابوليلي ،شبير ،ابو عمرة انصاري ابو سنان انصاري ،اور ان چار افراد کے بعدجابر بن عبداللہ انصاري، ابو سعيد انصاري جن کا نام سعد بن مالک خزرجي تھا،ابو ايوب انصاري خزرجي ، ابي بن کعب انصاري ابوبرزہ اسلمي خزاعي جن کا نام نضلہ بن عبيد اللہ تھا،زيد بن ارقم انصاري بريدہ بن حصيب اسلمي ،عبدالرحمن بن قيس جن کا لقب سفينہ راکب اسد تھا،عبداللہ بن سلام ،عباس بن عبد المطلب،عبد اللہ بن عباس ،عبد اللہ بن جعفر ، مغيرہ بن نوفل بن حارث بن عبد المطلب ،حذيفة اليمان جو انصار ميں شمار کئے جاتے تھے، اسامہ بن زيد ، انس بن مالک ابو الحمرائ،براء بن عا زب انصاري اور عرفہ ازدي ?(احمد بن محمد بن خالدبرقي، رجال البرقي ،مؤسسةقيوم ص29 ،31)

بعض شيعہ علماء رجال عقيدہ رکھتے ہيں کہ شيعہ صحابہ کي تعداد اس سے زيادہ تھي جيسا کہ شيخ مفيد  نے وہ تمام اصحاب جنہوں نے مدينہ ميںحضرت کے ہاتھوں پر بيعت کي خصوصاًوہ اصحاب جو جنگوں ميںحضرت کے ساتھ تھے انہيں شيعيان و معتقدين امامت حضرت علي ميں سے جاناہے جنگ جمل ميں اصحاب ميں سے پندرہ سو افراد حاضر تھے? (شيخ مفيد ، محمدبن محمدبن نعمان ،الجمل ،مکتب الاعلام الاسلامي ، مرکز النشر ، قم ، ص 109?110)

رجال کشي ميں آيا ہے :شروع کے اصحاب جو حق کي طرف آئے اور حضرت علي  کي امامت کے قائل ہوئے وہ يہ ہيں: ابو الہيثم بن تيہان،ابو ايوب،خزيمہ بن ثابت،جابر بن عبد اللہ ،زيد بن ارقم، ابو سعيد،سہل بن حنيف،برا ء بن مالک،عثمان بن حنيف،عبادہ بن صامت،ان کے بعد قيس بن سعد ،عدي بن حاتم،عمرو بن حمق،عمران بن حصين،بريدہ اسلمي، اور بہت سے دوسرے جن کو” بشر کثيرة”سے تعبير کيا ہے?(شيخ طوسي ، ابي جعفر ، اختيار معرفة الرجال ، رجال کشي ، موسسہ آل البيت التراث،قم ،1404ھ ج1،  ص181?188)

مرحوم مير داماد تعليقہ رجال کشي ميں بشر کثير کي وضاحت و شرح ميں کہتے ہيں کہ صحابہ ميں سے بہت سے بزرگان اور تابعين کے چنندہ افراد ہيں

سيد علي خان شيرازي نے کہا ہے کہ اصحاب پيغمبر? کي بيشتر تعداد امير المومنين کي امامت کي طرف واپس آگئي تھي کہ جس کا شمار کرنا ہمارے لئے ممکن نہيں ہے اور اخبار نقل کرنے والوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اکثر صحابہ جنگوں ميں حضرت علي کے ساتھ تھے

محمد بن ابي بکر نے معاويہ کو خط لکھا کہ جس ميں علي  کي حقانيت کي طرف اشارہ اس بات سے کيا ہے کہ اکثر اصحاب پيغمبر?حضرت علي کے ارد گرد جمع ہيں

محمدبن ابي حذيفہ جو حضرت علي  کے وفادارساتھي تھے اور معاويہ کے ماموں کے بيٹے تھے حضرت علي  سے دوستي کي بنا پرمدتوں معاويہ کے زندان ميں زندگي بسر کي اور آخر کار وہيں دنيا سے رخصت ہوگئے ،معاويہ سے مخاطب ہوکر کہا : جس روز سے ميں تجھ کو پہچانتا ہوں چاہے وہ جاہليت کا دور ہو يا اسلام کا تجھ ميں کوئي تبديلي نہيں آئي ہے اور اسلام نام کي کوئي چيز تيرے اندر نہيں پائي جاتي، اس کي علامت يہ ہے کہ تو مجھے علي سے محبت کي بناپر ملامت کرتا ہے حالانکہ تمام زاہد و عابد، مہاجر وانصار علي  کے ساتھ ہيں اور تيرے ساتھ آزاد کردہ غلام اور منافقين ہيں

البتہ جو لوگ امير المومنين کي فوج ميں تھے ان سب کا شمار آپ کے شيعوں ميںنہيں ہوتا تھا ليکن چونکہ آپ قانوني خليفہ تھے اس لئے آپ کا ساتھ ديتے تھے اگر چہ يہ بات تمام لوگوں  کے بارے ميں کہي جاسکتي ہے سوائے ان صحابيوں کے جو علي  کے ساتھ تھے اس لئے کہ وہ اصحاب جو حضرت امير کے ساتھ تھے کہ جن سے وہ اپني حقانيت ثابت کرنے کے لئے مد د ليتے تھے ان کے بارے ميں يہ کہنا درست نہيں ہے جيسا کہ سليم ابن قيس نقل کرتا ہے: امير المومنين صفين ميںمنبر پر تشريف لے گئے اور مہاجر و انصار کے سبھي افراد جو لشکر ميں تھے منبرکے نيچے جمع ہوگئے حضر ت نے اللہ کي حمد و ثنا ء کي اور اس کے بعد فرمايا: اے لوگو!ميرے فضائل و مناقب بے شمار ہيں ميںصرف اس پر اکتفا کرتا ہوں کہ جب رسول?خدا سے اس آيت کے بارے ميں ”السابقون السابقون اولئک المقربون ”  پوچھا گيا توآپ نے فرمايا : خدا نے ا س آيت کو انبيا و اوصيا کي شان ميں نازل کيا ہے اور ميں تمام انبيا و پيغمبروں سے افضل ہوں اور ميرا وصي علي  ابن ابي طالب تمام اوصياء سے افضل ہے اس موقع پر بدر کے ستّر اصحاب جن ميں اکثر انصار تھے کھڑے ہو گئے اور گواہي دي کہ رسول ? خدا سے ہم نے ايساہي سنا ہے? (سليم ابن قيس العامري ، منشورات دار الفنون ، للطبع والنشر والتوزيع ، بيروت ،1400ھ ص 186، طبري، ابي منصور احمد ابن علي ابن ابي طالب ، الاحتجاج ، انتشارات اسوہ ، ج 1 ص 472)

 

تبصرے
Loading...