زینب یعنی حسین آینہ تأنیث میں

تو اب بھی برداشت کرنا چاہتی ہے، صبور رہنا چاہتی ہے حتی کہ حسین کو بھی تسلی دے سکے!

بچوں کی نظریں تجھ پر جمی ہوئی ہیں؛ تو اگر پرسکون رہے تو انہیں سکون ملے گا اگر بے چینی ظاہر کرے تو وہ چین و آرام کھودیں گی۔

سجاد جو تیرے خیمۂ تیمار میں لیٹے ہوئے ہیں حوادث و وقائع کا اندازہ تیری آنکھوں سے لگاتے ہیں۔

پس تجھے اس حد تک سکون و طمأنینہ سے رہنا ہے کہ گویا تمام واقعات مقررہ معمول کے مطابق رونما ہورہے ہیں؛ ایسا ہی تو ہے؟ کیا تو نے اس دنیا میں داخلے کے لمحے سے اسی روز کے لئے تیاری نہیں کی تھی؟ 

پس تجھے قطرہ قطرہ پگھلنا ہے اور پھر بھی خاموش رہنا ہے۔ گھونٹ گھونٹ خون دل پینا ہے مگر شکوہ ہرگز نہیں کرنا۔ جیسا کہ صبح (صبح عاشور) سے ہی تو نے ایسا ہی کیا ہے۔ حسین آج صبح سے لے کر ایک ایک صحابی کی شہادت کے ساتھ شہید ہوتے رہے ہیں۔ ہر شہید کے ہر قطرہ خون کے ساتھ زمین پر بیٹھے ہیں اور تو نے ہر بار انہیں تسلی اور تشفی دی ہے۔ ہر بار اپنے کلام سے ان کے دل کو گرمادیا ہے اور ان کے دل کی آنکھوں کے آنسو پونچھ لئے ہیں۔ 

حسین جب بھی میدان سے واپس آئے ہیں، تو نے ان کے چہرے اور سر میں سفید ہونے والے نئے بال گن لئے ہیں۔ بہن اگر بھائی کی جبین کی سلوٹوں کی گہرائی نہ پہچانے، وہ بہن نہیں ہے؛ اور پھر یہ ظاہری دنیا کی باتیں ہیں ہر بہن اپنے بھائی کے چہرے میں ان چیزوں کا مشاہدہ کرسکتی ہے۔ زینب یعنی قلب حسین کی گہرائیوں کی پہچان، یعنی حسین کے قلب کی دہلیزوں پر جینا، حسین کی رگوں سے عبور کرنا اور حسین کی نبض کے ساتھ دھڑکنا، زینب یعنی حسین آئینہ تأنیث میں، زینب یعنی پائے حسین میں چھبنے والے کانٹوں کی تکلیف کو آنکھوں سے چکھ لینا، زینب یعنی حسین کی پیٹھ کا بوجھ دل پر اٹھانا۔

حسین جب مسلم بن عوسجہ کے جسد خاکی سے لوٹ کر آئے، جب خون حیبب سے ان کی داڑھی خضاب ہوئی، جب چلنے کی سکت حر بن یزید ریاحی کے بے جان بدن پر لٹادی، جب عمرو بن خالد صیداوی کے خون آلود سجادے سے اٹھ کر آئے، جب دل سعید بن عبداللہ پر لگے زخم دے کر ٹکڑے ٹکڑے ہوگیا، جب عبداللہ اور عبدالرحمن غفاری نے سلام وداع سے ان کی آنکھیں اشکوں سے بھردیں، جب زہیر نے اپنی آخری نگاہ سے حسین کے دل کو آگ لگادی، جب وہب اور ان کی زوجہ کا خون عاشقانہ انداز سے گھل مل کر حسین کے قدموں میں جمع ہوا، جب جون نے عروج کے آخری لمحات میں اپنے پورے وجود کو حسین کی موجودگی کی خوشبو سے معطر کیا، جب ۔۔۔۔۔

ان تمام اوقات اور لمحات میں صرف تیری نگاہیں تھیں جو انہیں سکون بخشتی تھیں اور تیرے ہی ہاتھ تھے جو ان کے وجود کے اشکوں کو پونچھتے رہے۔ 

جب بھی میدان سے واپس آئے تو نے غم کا بوجھ ان کی نگاہوں کی پشت سے اتار کر اپنے دل کی پشت پر لاد لیا۔ 

حسین ہر بار آتے اور جاتے ہوئے تعزیتیں تیرے دامن میں بھرتے رہے اور تیری نگاہوں سے التیام و شفا حاصل کرتے رہے۔ یہی بات ہی تو تھی کہ ہر بار وہ غموں کا بوجھ لے کر اور بھاری ہوکر آتے اور وجود ہلکا کرکے میدان کی طرف لوٹتے رہے، ہر بار تھک ہار کر، شکستہ ہوکر آئے لیکن برقرار اور استوار ہوکر میدان کی جانب لوٹے۔ 

اب بھی تیرا دل چاہتا ہے کہ برداشت کرتی رہے، صبور ہونے کا ثبوت دے حتی کو حسین کو تسلی دے! جیسا کہ کہ صبح سے ایسا ہی کرتی رہی ہے جبکہ سورج نصف النہار سے گذرگیا ہے لیکن اب ماجرا مختلف ہے۔ 

اس وقت یہ تیرا ٹکڑے ٹکڑے ہونے والا دل ہے جو بنی ہاشم کے نوجوانوں کے دوش پر خیموں کی طرف بڑھ رہا ہے۔

اس وقت یہ تیری جان کے میوے ہیں جو گھوڑوں کے سموں تلے روندی گئے ہیں اور یہ روندے ہوئے میوے اس وقت آپ کو لوٹائے جارہے ہیں۔

علی اکبر تیرے لئے محض ایک بھتیجا ہی نہیں ہے، بلکہ تیری امیدوں اور ارمانوں کی تجلی ہے۔ تیری محبتوں کی تجلی، علی اکبر تیرے لئے دوبارہ پیغمبر ہیں/ (اشبہ الناس برسول اللہ – شبیہ ترین ہیں رسول اللہ (ص) سے)۔

علی اکبر تیرے لئے تیرے باپ کی نشانی ہے، علامت ہے ماں [زہراء (س)] کی، علی اکبر تیرے لئے شہادت محسن کے گھاؤ کا اندمال والتیام ہے۔ محسن، وہی شہید جو کبھی آیا ہی نہیں دنیا میں، پھول کی کلی جو کھلنے سے پہلے ہی مسل دی گئی۔

محسن کی شہادت، سب سے پہلی شہادت تھی جو تیری آنکھوں کے سامنے واقع ہوئی۔ تو چار سالہ ہی تھی جب تو نے دروازے اور دیوار کے بیچ سے ماں کی فریاد سنی تھی جو کہہ رہی تھیں “انھوں نے میرے محسن کو مار ڈالا ہے” اور پھر تو ہی ان کی طرف دوڑی تھی سب سے پہلے۔ 

محسن کی شہادت تیرے دل پر ابدی زخم بن کر رہ گئی، بھائی کی شہادت چارسالہ بہن کی آنکھوں کے سامنے، اور جب تک علی اکبر نہیں آیا یہ زخم مندمل نہ ہو سکا۔

اب تیرے زخم کا یہ مرہم خون میں لت پت ہے۔ درحقیقت یہ تیرا پرانا زخم ہی ہے جو اب تازہ ہو گیا ہے۔ 

تو حسین کو ہر دم اور ہر لمحے آغوش میں لینے اور حسین کی خوشبو کو اپنے تمام وجود سے محسوس کرنے کا اشتیاق رکھتی تھی لیکن تو عظیم تھی اور حسین عظیم تر، تو بڑے تھی اور حسین زیادہ بڑی تھے۔ اور شرم و حیاء کی رکاوٹ مسلسل موجود تھی چنانچہ حسین کو دیکھنے اور صرف نگاہوں سے ہی تکتے رہنے پر اکتفا کرتی رہی مگر یہ کہ کوئی سفر پیش آتا، چندروزہ فراق پیش آتا یا کوئی غمی خوشی کا لمحہ ورنہ تو آنکھوں ہی سے حسین کی سر و چہرے کو بوسہ باران کرتی رہی۔

جب علی اکبر آیا بہانوں کا پھل اتر گیا اور رکاوٹیں دور ہوگئیں۔

تیرا چھوٹا حسین [علی اکبر] تیری آغوش میں تھا اور تو حسین طلبی کے تمام جذبات اس کے نثار کرسکتی تھی۔ 

اس کے بعد علی اکبر تھا اور تیرا مہر و محبت سے بھرپور دامن۔ علی اکبر تھا اور تیرے نوازش بھرے ہاتھ، علی اکبر تھا اور تیری پرستارانہ نگاہیں اور۔۔۔ حسین تھا اور تیرے جذبے کا ادراک۔

اور اب بھی حسین سب سے بہتر جانتے ہیں اس تعلق کو اور تیری تعزیت کی اتہاہ گہرائیون کا خوب ادراک رکھتے ہیں۔ 

تیرا جی چاہتا ہے کہ پھر بھی برداشت کرے، صبور بنے اور حتی حسین کو تسلی دے۔

لیکن کس طرح؟ اس شکستہ قامت سے وجود حسین کے خیمی کا عمود بننا ممکن نہیں ہے۔

اس جلے اور پگھلے دل سے حسین کے جگر پر مرہم رکھنا ممکن ہی نہیں۔

اس وقت صاحب عزاء تو ہے تو حسین کو تسلی کیونکر دے سکے گی؟

ضرورت نہیں ہے اے زینب! حسین اس حقیقت کو خوب سمجھتے ہیں۔

جب علی اکبر کا پارہ پارہ جسم خیموں کے قریب آپہنچتا ہے اور جب تو بین کرتی فریاد کناں، اپنے وجود کو خیموں سے باہر کی طرف پھینکتی ہے، جب چہرے کی چوڑائی جتنے اشک بہاتی ہے اور جب چہرے کو ناخنوں سے خراشتی ہے، جب علی کے پیکر تک پہنچتے پہنچتے کئی بار زمین پر گرتی ہے، جب علی اکبر کے پیکر پر گر جاتی ہے، حسین چلا کر کہتے ہیں: “زینب کی مدد کوآؤ”۔

حسین جن کی قامت اس عزا میں ٹوت پھوٹ چکی ہے اور قد خم ہوچکا ہے؛ حسین جن کے دل پر پورے عالم کا غم آ بیٹھا ہے اور دنیا ان کی اشکبار آنکھوں کے سامنی تیرہ و تار ہوچکی ہے؛ حسین جو خود عزا کی بلند ترین چوٹی پر کھڑے ہیں، صرف تیرے لئے فکرمند ہیں اور دوسروں کو چلاچلا کر بلاتے ہیں اور کہتے ہیں “زینب کی مدد کو آؤ”۔ تھوڑی دیر بعد اپنے جانے کا غم بھی تیرے دل پر چھوڑ کر رخصت ہونے والے ہیں اور تو پھر بھی صف ماتم بچھا کر اس غم کو دین مبین کا پیغام بنا کر دنیا والوں کو پہنچانے کے لئے تیار ہے ازل سے۔

سلام ہو تجھ پر 

تو نے کربلا میں عاشورا کو دفن نہیں ہونے دیا

اے اول عزادار حسین

تو نے یزید اور یزیدیت کو تا قیامت کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں چھوڑا 

دعا کرنا کہ ہم بھی حسینی بنیں 

اگر حسینی نہ بن سکیں تو زینبی بن کر تیری سنت کا احیاء کریں

دعا کرنا کہ ہم يزیدیوں کے زمرے میں شمار نہ ہوں

دعا کرنا کہ ہم آج کے تمام یزیدی قوتوں کو پہچان لیں یہی ہے تیرے اور تیرے حسین کے مکتب کا خاصہ “دشمن شناسی”۔

 

تبصرے
Loading...