زمانہ ظہور میں شیطان کا انجام

قرآن مجید شیطان کے بارے میں نقل فرماتا ہے: آدم کو سجدہ نہ کرنے اور الہی فرمان سے سرکشی کرنے کے بعد شیطان ، اللہ تعالی سے عرض کرتاہے:”قال رب فانظر نی الی یوم یبعثون‘‘(سورہ حجر،آیہ۳۶.)اس نے کہا کہ پروردگار مجھے روز حشر تک مہلت دیدے۔‘‘ شیطان نے اس درخواست میں، اللہ تعالی سے دو چیزوں کا تقاضا کیاہے:(۱)۔اُسے مہلت دی جائے (۲)۔یہ مہلت قیامت تک اور لوگوں کے دوبارہ اٹھنے تک ہونی چاہئے۔

خداوند کا اس کی درخواست پر جواب اس طرح تھا:(قال فانک من المنتظرین الی یوم الوقت المعلوم)( سورہ حجر،آیہ۳۷و۳۸.) فرمایا: تجھے مہلت دیدی گئی ہے ایک معلوم اور معین وقت تک۔ اللہ تعالی نے اسکی پہلی درخواست کو قبول کر کے اسے مہلت دی ہوئی ہے لیکن اس کی دوسری درخواست کہ جس میں اس نے قیامت تک کی مہلت مانگی تھی کو قبول نہیں کیا گیاہے، بلکہ اسے ایک معلوم اورمعین وقت تک ہی مہلت دی گئی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ ” وقت معلوم، کس زمانے کو کہاجاتاہے؟

میں امام صادق علیہ السلام سے ایک روایت نقل ہوئی ہے کہ ابن وھب نے امام علیہ السلام سے آیت میں ابلیس کے انجام کے بارے میں سوال کیا ہے کہ اس دن سے کونسا دن اوروقت مراد ہے؟ امام علیہ السلام نے فرمایا: ”اے وھب ! کیا تمہارے خیال میں وہ دن، لوگوں کے معبوث ہونے کا دن(قیامت) ہے؟ (ایسا نہیں ہے) بلکہ اللہ تعالی ابلیس کو ہمارے قائم کے قیام کے دن تک مہلت دے گا، اس دور میں امام علیہ السلام ، ابلیس کہ مضبوطی سے پکڑ کر اسے قتل کردیں گے اور وہ دن، وقت معلوم ہے۔‘‘( بحارالانوارج۶۰،ص۲۲۱)

البتہ شیطان اور ابلیس کے قتل کا یہ معنی نہیں ہے کہ تمام شیاطین بالخصوص شیطان صفت انسانوں کا خاتمہ ہوگا ،کیونکہ تکلیف باقی ہے اور یہ تکلیف خرِد شر کے اختیاری ہونے میں مضمر ہے۔ بعض ایسے انسان ہیں جو شیطان کا کردار ادا کرتے ہیں اس کے علاوہ نفس امارہ بھی ہے لیکن گناہوں اور انحراف کی طر ف لے کر جانے میں اہم کردار ادا کرنے والے شیطانوں کے سربراہ کا خاتمہ ہوگا۔( تفسیر المیزان، ج۱۴، ص۱۶۷۔۱۶۹ سورہ مبارکہ حجر کی آیت ۳۸ کے ذیل میں.)

 

 

تبصرے
Loading...