زبان حق سے بیان حق اوراہل حق کی پہچان

پیغمبر آخر الزمان نے اپنی زبان فیض تر جما ن سے شاہ مردان﷼ کے لئے یہ اعلان فر مادیا:عَلِیٌّ مَعَ الْحَقِّ وَالْحَقُّ مَعَ عَلِیٍّ یَدُورُ حَیثُمَا دَارَ:حضرت علیں حق کے ساتھ ہیں اور حق، علیں کے ساتھ ہے جہاں علیں جا ئیں گے حق بھی وہیں جا ئے گا․

دوسرے مقا م پر خصوصیت کے ساتھ اس امت پر مو لا کی فضیلت کا اظہار کرتے ہو ئے حضور نے فر مایا:

حَقُّ عَلِیٍّ عَلٰی ھٰذِہِ الْاُمَّةِ کَحَقِّ الْوَالِدِ:اس امت پر حضرت علیںکا حق ویسے ہی ہے جیسے ایک باپ کا ہو تا ہے․(منتخب․․․:ص۴۰،ح ۴۴۴، بحوالہ بحار: ۳۶/۵/۱)

استاد بزر گوار محقق عالی مقدار، نویسندہٴ فعال حجة الاسلام والمسلمین آقائے ناصر باقری بید ہندی (قمی دامت برکاتہ) کی ذات ، محتاج تعارف نہیں ہے وہ ایران کے مختلف صوبوں منجملہ سمنان،زنجان،مرکزی اوربعض شہروں میں متعدد سرکاری مناصب پرفائز رہ چکے ہیں ”میانہ“ اور”ہمدان“ شہروںمیں کئی سال قضاوت کے عہدہ پر فائز رہے ہیں، قم میں جامعہ مدرسین کے ساتھ منسلک رہے اس دوران مجلہ” نورعلم“میں بہت سے مضامین ومقالے لکھے،مجمع جہانی اہل بیت(علیہم السلام)اورمجمع فقہ اہل بیت(علیہم السلام) سے بھی آپ کارابطہ ہے، ان تمام خوبیوں کے ساتھ ساتھ ایران عراق جنگ کے دوران آپ کے چھوٹے بھائی کو شہادت کاعظیم درجہ نصیب ہوا، موصوف حوزہٴ علمیہ قم مقدسہ کے ایک مقبول ومعروف رائٹر ہیں انھوںنے ملا قات کے دوران یہ خو شخبری دی کہ ان کی کتاب” حقوق ا ہل بیت علیہم السلام“ فی الحال مسودہ کی شکل میں مکمل ہے پھرنہا یت خلوص سے اپنا مسودہ حقیر کے سپر د کیا یہ اسی کا تر جمہ ہے موٴلف محترم کی اجازت سے میں نے بعض مفیدومناسب مطالب کااضافہ کیاہے اوراس کی نشاندہی بھی کردی ہے کہ یہ بات مترجم کی جانب سے ہے بہرحال میں اس سعادت پر اپنے پروردگار کی بار گا ہ میں بیحد شکر گزار ہوں خداوندعالم مولف محترم کو جزائے خیر دے لوگوں کو حقوق اہل بیت علیہم السلام سمجھنے اور انھیں ادا کر نے کی تو فیق دے ․(آمین)

موصوف کے قلمی آثار میں ماشاء الله بہت بر کت ہے وہ خدا داد صلاحیت سے پو را پو را فا ئدہ اٹھا تے ہوئے اپنے لئے آخرت کا ذخیرہ کر رہے ہیں ویسے توعام طور سے کثرت میںدِقت نہیں ہو تی ہے لیکن ان کے آثار کی یہ خصوصیت ہے کہ مطالب کو نہا یت دِقت اور خاص نظم کے ساتھ بیان کیا ہے آپ کے قلمی آثار کی تعداد سو(۱۰۰) سے زیادہ ہے نصف مطبوع اور تقریباً نصف النصف کا تر جمہ اردو میں بھی ہوچکا ہے جیساکہ انھوں نے مجھ سے بیان فرمایابہرحال ایران کے اکثر مشہور ومقبول علمی مجلوں منجملہ”نورعلم“ میں ان کے مضا مین اور مقالات برابر چھپتے رہتے ہیں․

بسم الله الرّحمٰن الرّحیم

الحمد لله ربّ العالمین و الصلوٰة و السلام علی المبعوث رحمة للعالمین الداعی الی الله باذنہ والسراج المنیر محمد صلی الله علیہ و آلہ الذین اوجب الله فی کتابہ موٴدتھم و فرض علی الامة ولایتھم و حثّ علی التمسک باذیالھم والانضواء تحت رایتھم․

حقوق اہل بیت علیہم السلام کی رعایت:

جب مامون کی طرف سے حضرت امام علی رِضا ںکوولی عہدکے عنوان سے پہچنوانے کے لئے پہلااجتماع ہواتوامام ںنے فرمایا:اِنَّ لَنَا عَلَیْکُمْ حَقّاً بِرَسُولِ اللهِ صَلّی اللهُ عَلَیہِ وَ آلِہٖ وَسَلَّم:جناب رسول خداکی جانب سے تمھارے اوپرہمارے کچھ حقوق ہیں ․

اسلام کی جومعنوی سعادتیں اوردنیاوآخرت کی نعمتیں وبرکتیں ہیں یہ سب آسانی سے میسرنہیں ہوسکتی ہیں حضرت پیغمبر اکرم صلی الله علیہ وآ لہ وسلم اوران کے اہل بیت علیہم السلام کی مسلسل کوششوں اورقیدخانوں کے رنج والم کوبرداشت کرنے کانتیجہ ہیں․(۱)

اہل بیت علیہم السلام خداکی حجت تھے انھوں نے مسلمانوں کی ہدایت کے لئے بہت کوششیں کیں، دین اسلام کے احکام و قوانین کی حفاظت کی، قوانین اسلام کو نشر کیا، رسول اسلام کے نقش قدم پر چلتے ہو ئے ان کے مشن کو آگے بڑھا تے رہے خدا وند عالم کے حقیقی احکام و معارف لوگوں تک پہنچا نے میں کسی کا ذرہ برابر خوف نہ کیا اہل بیت علیہم السلام نے اپنی پُر بر کت زندگی کو مسلمانوں کی سعادت کے لئے وقف کر دیا، انسانوں کے تکا مل اور ان کی سعادت کا سبب بنے اس راہ میں انھوں نے بہت زیا دہ رنج وآلام بر دا شت کئے یہی وجہ ہے کہ تمام مسلمانوں پر ان کے بہت عظیم حقوق ہیں کیو نکہ مسلمانوں کی زند گی، معنویت، تمدن اور عظمت یہ سب ان حضرات کی مرہون ہیں پس امت مسلمہ کا یہ فر یضہ ہے کہ اہل بیت عصمت و طہارت علیہم السلام کی حقانیت کو اپنے عقل وشعور میں ، ان کی محبت کو اپنے دل میں ، ان کے نا م اور ان کی یا د کو اپنے جسم وجان میں زندہ رکھیں، ان کی اطاعت کریں،ان کے اخلاق اور نیز ان کی سیرت سے در س حاصل کریں اور صرف انھیں حضرات کی پیر وی کریں، دینی احکام و معارف کے لئے ان کے پا س رجوع کر یں، ان کی ولادت کے دنوں میں خوشیاں منا ئیں اور ان کی شہادت کے دنوں میں مجلس غم بر پا کریں محزون و گر یاں ہوں، اپنی مجلسوں میں ان کے فضا ئل و مناقب بیان کر یں کیونکہ اکثر لو گ حقوق اہل بیت علیہم السلام کے با رے میں مقصر ہیں، ان کے حقوق ادا کر نے میں روگر دا نی ا ور کو تا ہی کر تے ہیں،خدا وند عالم کی با ر گا ہ میں جو ان کی قدر و منزلت ہے اس سے بے خبر ہیں لہٰذا ایک ایسے مجمو عہ کو تر تیب دینے کی ضرورت محسوس ہو ئی جو اہل بیت علیہم السلام کی منزلت وعظمت اور ان کے حقوق پر مشتمل ہو․

اس کے علا وہ حقوق اہل بیت علیہم السلام کے متعلق تحقیق کر نے میں زندگی کے بہترین لمحات گزریں گے نیز اس سے ان کے بلند و با لا مقام کی معرفت حاصل ہو گی اور ان کی حقانیت کے متعلق ہما را عقیدہ اور زیادہ پختہ ہو گا․

انھیں باتوں کے پیش نظر میں نے خدا کے فضل وکرم سے اہل بیت علیہم السلام کا جو حق میری گر دن پر ہے اسے ادا کر نے کے لئے حق شنا سی کے عنوان سے”حقوق عترت“ کی مختصر بحث کی ہے امید ہے کہ اس رسالہ کا مطا لعہ کر نے سے لوگوں میںاہل بیت علیہم السلام کی پیر وی اور اطاعت کا جذبہ پیدا ہو گا․

اس مختصر مجمو عہ میں اجما لی طو رپر حقوق کے چند عنا وین ذ کر کئے گئے ہیں مختصر استد لال بھی پیش کیا گیا ہے اگر استدلال کو مفصل ذ کر کیا جا تا تو کچھ اور ہی با ت ہو تی چو نکہ حقوق اہل بیت علیہم السلام کے بارے میں مکمل طور سے اطلاع حاصل کرناصاحبان حق کی معرفت حاصل کر نے پر متوقف ومنحصر ہے نیز ان کی شناسائی حاصل ہو نے کے بعد”معرفت“ ”محبت“ اور”اطاعت“کا جذبہ پیدا ہو گا پس سب سے پہلا قدم یہ ہے کہ ہم اپنے گنجینہٴ معرفت کو پُر کریں اگر ان حضرات کی معرفت ہمیں اچھی طرح حاصل ہو جا ئے گی تو لا محالہ طور پر ہم ان سے محبت کریں گے، ان سے محبت کرکے ہم بھی ان کے برابر ہو جا ئیں گے پس ہم اہل بیت علیہم السلام کی زیادہ سے زیادہ معرفت حاصل کریں اس را ہ میں ہم جتنی بھی کو شش کریں گے وہ کم ہی ہو گی کیو نکہ ان کا مقا م بہت بلند ہے خدا وند عالم نے جو مجھے اس مجمو عہ کے مر تب کر نے کی تو فیق دی اس کی با ر گاہ میں شکرگزار ہوں امید ہے کہ اگرچہ یہ معمو لی ہد یہ ایک ٹڈی کی ٹانگ کے برابر ہے پھربھی پیغمبر اسلام کی خد مت میںقبول ہو جا ئے گا،یہ رسالہ آنحضرت کی رسالت کی عظیم نعمتوں کے مقابلہ میں مختصر و نا قص ہے ان شاء الله میرے لئے اس دن ذخیرہ بنے گا جس دن لایَنْفَعُ مَالٌ وَّلابَنُونَ اِلَّا مَنْ اَتَی اللّٰہَ بِقَلْبٍ سَلِیْمٍ․

آخر میں میں اپنے نہا یت بااخلاص درود وسلام کا نذرانہ حضرت پیغمبر اکرم صلی الله علیہ وآ لہ وسلم اور ان کے خاندان پر نثار کر تا ہوں اور عاجزی کے ساتھ عرض کر تا ہوں:اللھم اجعلنا من المعترفین بحقھم و الذّابین عنھم، الحمد للّٰہ الذی جعلنا محباً لاھل العصمة  و رزقنا ولایتھم و نرجو من کرمہ و احسانہ القدیم شفاعتھم․

یہ رسالہ حضرت محمدوآل محمد(صلوات اللهوسلامہ علیہم اجمعین)کے دامن سے متمسک ”ناصرباقری بیدہندی“کے قلم سے دارالعلم قم میں۱۳۷۹ئھ شمسی میں اختتام کوپہونچااوردانشورگرامی جناب آقائے کرارحسین اظہری (زید عزہ) نے اردومیں اس کاترجمہ کیامیں ان کاشکرگزارہوں․

دعواھم فیھا سبحانک اللّٰھمّ وتحیّتھم فیہا سلام وآخر دعواھم ان الحمد لله رب العالمین․

اہل بیت علیہم السلام کو ن ہیں؟

پیغمبر اکرم صلی الله علیہ و آ لہ وسلم نے منا سب اور حساس مقاما ت پر برابر ”اہل بیت علیہم السلام “کے متعلق گفتگو کی ہے اور آپ نے اپنے قو ل و عمل میں اس لفظ کو اپنے کچھ خاص قر یبی و معصوم افراد پر اطلاق کیا ہے جو فکر اور عمل میں بالکل آپ ہی جیسے تھے حضور نے ان کے بارے میں بڑی سفارشیںاور تاکیدیںکی ہیں اس طرح سے اسلامی امت پر بہت سی اہم ذمہ دا ریاں عائد کی ہیں․

قرآن مجید میں بھی مختلف مقامات پر متعدد تعبیرات کے ساتھ صراحت یا اشا رہ میں جنا ب رسول خدا صلی الله علیہ و آلہ وسلم کی عترت کا ذکر ہے خدا نے اہل بیت علیہم السلام کی پیر وی کو لازم قرار دیا ہے بنا بر این اہل بیت علیہم السلام کی معرفت حاصل کر نا ہما را ایک دینی فریضہ اور اجتماعی ضرورت ہے اسی لئے قطعی و یقینی دلیل سے یہ ثابت ہو نا چا ہئے کہ اہل بیت علیہم السلام کے مبا رک نا م کے دائرہ میں کو ن کو ن لو گ آتے ہیں؟ اس لفظ کے سب سے بہتر مصداق کو ن ہیں؟اور ان کے حقوق کیا ہیں؟

خاندان عصمت و طہا رت علیہم السلام کے بارے میں قر آن مجید کی آیت میںایک مر کب تعبیر”اَھْلُ الْبَیْت“ ہے یہ ترکیب، آ یت تطہیر میں وارد ہو ئی ہے خدا وند عالم سو رہٴ مبا رکہ احزاب کی آ یت نمبر ۳۳ میں با لکل صراحت کے ساتھ ار شاد فر ما تا ہے:اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰہُ لِیُذْھِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ اَھْلَ الْبَیْتِ وَیُطَھِّرَکُمْ تَطْھِیْراً․

خداکا تکوینی ارادہ(۱) یہ ہے کہ تم اہل بیت علیہم السلام سے رجس وپلیدی کو دور رکھے اور تمھیں اس طرح پا ک رکھے جو پا ک رکھنے کا حق ہے․

جو شخص قرآن کریم اور پیغمبر اکرم صلی الله علیہ وآ لہ وسلم کی پا کیزہ سنت پر غور کرے گا وہ اچھی طرح سمجھ جا ئے گا کہ پیغمبرکے اہل بیت علیہم السلام کا قرآن اور سنت کی اصطلاح میں ایک خاص مفہوم ہے مزید وضاحت کے ساتھ یہ کہا جائے کہ قرآن اور سنت پیغمبر نیز دوسرے مقامات پر جولفظ”اہل بیت“ (علیہم   السلام وارد ہوا ہے اس سے عا م لو گ مراد نہیں ہیں کہ تمام وہ لو گ جو پیغمبر  سے

․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․

۱۔ تکوینی ارادہ وہ ہے جسے خدا وند عالم اپنے فعل سے متعلق ر کھتا ہے اور جیسے ہی ار ادہ کر تا ہے وہ ہو کر رہتا ہے یعنی ایسانہیں ہے کہ خدا توارا دہ کرے لیکن وہ کا م انجام نہ پا سکے․

نسبی یاحسبی تعلق رکھتے ہیں یہ لفظ سب کو شامل ہو جا ئے بلکہ اس کے معنی خاص اور محدود ہیں اور وہ یہ حضرات ہیں:حضرت علی ں حضرت فا طمہ علیہا السلام اور ان کی نسل سے ائمہ ہُدیٰ علیہم السلام․

البتہ یہ یاد ر ہے کہ جب آ یت تطہیرنازل ہو ئی تھی تو شرو ع شروع میں ”اہل بیت“ علیہم السلام کے مصداق صرف پنجتن آل عبا(علیہم السلام)ہی تھے لیکن بعد میں خود انھیں حضرات نے اس لفظ کو وسعت عطا کی پو رے ان بارہ(۱۲) اماموں پر اس کا اطلاق کرنے لگے جن کی اما مت و اطاعت پر شیعہ کو فخر ہے آیت تطہیر کے اعلان کے مطابق پنجتن پاک علیہم السلام ہر طرح کی پلیدی سے دور ہیں وہ کبھی جھوٹ نہیں بو ل سکتے، جھوٹ ایک عظیم رجس ہے خدا نے انھیں ہر قسم کے رجس وگناہ سے دور رکھاہے پس اگر معصومین علیہم السلام میں سے کو ئی ایک معصوم کچھ خاص لوگوں کو ” اہل بیت“ علیہم السلام کے عنوان سے یاد کریں تو گو یا خدا و پیغمبر نے انھیں” اہل بیت“ علیہم السلام کے مبارک لفظ سے یا د کیا اس اعتبار سے آ یت تطہیر اور روایات نبوی کے علاوہ جو با رہ(۱۲) اماموں کا تعارف کرا تی ہیں کچھ ایسی روا یا ت بھی ہیں جن میں ہر امامں نے اپنے بعد والے امامں  کا تعارف کرایا ہے ان سب سے استدلال کیا جا سکتا ہے پس اس لحاظ سے جو یہ کہا گیا کہ آیت تطہیر حضرت علیں حضرت فاطمہ علیہاالسلام،حضرت امام حسن ں اور حضرت امام حسینں سے مخصوص ہے تو یہ اس لئے کہا گیا ہے کہ جب آیت نازل ہو ئی تھی تو صرف یہی حضرات موجود تھے ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ اس آ یت کے شان نزول میں جو احا دیث وارد ہوئی ہیں یہ تطبیق کے اعتبار سے ہے یعنی جو” اہل بیت“ علیہم السلام اُس وقت مو جو د تھے ان پر منطبق ہو ئی پس اس میں انحصار نہیں ہے کہ صرف یہی موجود ہ پنجتن (علیہم السلام)ہی” اہل بیت“ علیہم السلام ہیں یعنی ان پانچ(۵) حضرات کے علاوہ بقیہ ائمہ علیہم السلام بھی” اہل بیت“ ہیں․

جنا ب رسول خدا صلی الله علیہ وآ لہ وسلم نے برابر اپنی امت کے لئے آیت تطہیر کی توضیح بیان کی تا کہ لو گ اچھی طرح سمجھ جا ئیں اور پھر اس کے مطابق عمل کریں آنحضرت نے بڑی شدت کے ساتھ یہ کو شش کی کہ یہ مقدس وشریف کلمہ اپنے خواص کے علاوہ دوسروں کے لئے استعمال نہ کریں آپ کامقصد یہ تھا کہ” اہل بیت“ علیہم السلام کے علاوہ خصوصاً آپ کی بیویاں اس کے دا ئرہ میں نہ آ سکیں․

اہل سنت کے ایک بز رگ عالم حاکم حسکانی لکھتے ہیں:آیہٴ تطہیر جنا ب رسول خدا صلی الله علیہ وآ لہ وسلم،حضرت فاطمہ زہراء علیہا السلام حضرت امام حسن ں حضرت امام حسینں اورحضرت علی ں بن ابیطا لبں کی شان میں نا زل ہو ئی ہے جب یہ آ یت نا زل ہو ئی تو پیغمبر نے ان حضرات پر اپنی عبا کا سایہ کیا اورفرما یا: خدا یا!یہ لو گ میرے اہل بیت(علیہم السلام)ہیں ان سے پلیدی وزشتی اور گناہ کو دور اور انھیں پا ک و پا کیزہ رکھ!

پیغمبر اسلام نے دوسرے مقام پر ار شاد فر مایا:اَنَاْ وَعَلِیٌّ وَّ الْحَسَنُ وَالْحُسَیْنُ وَ تِسْعَةٌ مِّنْ وُّلْدِ الْحُسَیْنِ مُطَھَّرُونَ مَعْصُومُونَ:میں، علیں حسنںحسین ںاور حضرت امام حسین ںکے دس(۱۰) بیٹے ہم سب پاک اور معصوم ہیں․(۲)

اس حدیث میں اور اسی طرح کی دو سری احادیث میں آنحضرت نے خاندان وحی کا تعارف کرا یاہے اور ان میں ”اہل بیت “علیہم السلام کے مصادیق کوبھی واضح طورپر بیان کیا ہے․

ان پا نچ حضرات کی شان میں آ یت تطہیر کا نازل ہو نا محدثین ومحققین کے نز دیک مشہور و ثابت ہے اور بہت سی کتابوں میں متعدد اصحاب سے اس کے بارے میں روایات مو جو د ہیں لہٰذا کسی شک و شبہہ کی گنجا ئش با قی نہیں رہ جا تی ہے․(۳)

واحدی نے” اسباب النزول“ میں لکھا ہے:ان الآیة نزلت فی النّبیّ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم و علی و فاطمة والحسنین علیہم السلام خاصة لایشارکھم فیھا غیرھم:یہ آ یت خاص طور سے جنا ب رسول خدا ،علیںفاطمہ علیہاالسلام اورجناب حسنین علیہما السلام کے بارے میں نا زل ہو ئی ہے کوئی دوسرا ان کا شریک نہیں ہے․(۴)

ابن حجر اس کے با رے میں لکھتے ہیں:اکثر مفسرین کا نظریہ ہے کہ یہ آیت حضرت علیں حضرت فاطمہ علیہاالسلام، حضرت امام حسنں حضرت امام حسین ںکی شان میں نا زل ہو ئی ہے․(۵)

حاکم حسکا نی نے ابو سعید خدر ی سے متعدد روایات کو نقل کیا ہے جن میں یہ وارد ہے کہ مذ کو رہ آ یت پنجتن پاک علیہم السلام کی شان میں نازل ہو ئی ہے․(۶)

ابو جعفر محمد بن جریر طبری(متوفیٰ ۳۱۰  ئھ)نے اپنی تفسیر میں اس مضمون کی پندرہ(۱۵) روایات کو نقل کیا ہے․(۷)

سیو طی نے تفسیر در منثور میں مختلف طر یقوں سے اٹھا رہ(۱۸)روایات کو نقل کیا ہے جن میں یہ وارد ہے کہ صرف پنجتن آل عبا علیہم السلام مراد ہیں․(۸)

شیعہ محدثین نے بھی بہت سی ایسی روایات کو نقل کیا ہے جن میں یہ واردہے کہ آ یت تطہیر میں اہل بیت علیہم السلام سے مراد صرف پنجتن پاک علیہم السلام ہیں․

کتاب”غایة المرام“ میں پچہتر(۷۵)روایات نقل ہو ئی ہیں جن میں اکتالیس(۴۱) روایات،اہل سنت سے اور چونتیس(۳۴) روایات، طرق شیعہ سے منقول ہیں․(۹)

قابل تو جہ بات یہ ہے کہ عظیم الشان مفسرحضرت آیت الله علامہ طباطباۺئی نے فر ما یا ہے:

اس سلسلہ میں اہل سنت سے جو روایات منقول ہیں وہ ہم شیعوں سے زیادہ ہیں․(۱۰)

ہما رے معاصر حضرت حجة الاسلام سید علی موحد ابطحی نے کتاب”آیة التطہیر فی احادیث الفریقین“ کی جلداوّل میں پچاس(۵۰) سے زیادہ صحابہ سے تطہیر سے متعلق روایات کو نقل کیا ہے جنا ب رسول خدا صلی الله علیہ و آلہ وسلم نے اس بات کا خاص اہتمام ر کھا ہے کہ ”اہل بیت علیہم السلام“ پنجتن آل عبا میں محدود رہیں آپ نے ا س سلسلہ میں دو قسم کے ایسے عمل انجام دیئے کہ دونوں استثنائی اور یاد گار ہیں:

اوّل: حدیث کساء میںوارد ہے کہ آپ کے دوش مبا رک پر جو عبا تھی اہل بیت علیہم السلام کے او پر اس کا سایہ کر دیا تا کہ دوسروں سے انھیں امتیاز حاصل ہو جا ئے جنا ب ام سلمہۻ نے جب اندر داخل ہونا چا ہا تو انھیں منع کر دیا پھر ان کی طہارت کے لئے دعا کرتے ہو ئے با ر گا ہ خدا میں عر ض کیا:

”خدا یا!یہ لو گ میرے اہل بیت( علیہم السلام )ہیں ان سے رجس و پلیدی کو دور رکھ! اور انھیں پا ک و پا کیزہ رکھ!“

دوم:آنحضرت نے مصداق”اہل بیت علیہم السلام“ کو محدود کرنے کے لئے جو دوسرا طریقہ اختیار فر ما یا وہ یہ کہ آٹھ(۸)مہینے(۱۱)یا اس سے زیادہ(۱)مدت تک جب نما صبح کے لئے جنا ب فاطمہ زہراء علیہا السلام کے بیت الشر ف کی طرف سے گزر تے تھے تو اس طرح پکا رتے تھے:

” نماز کا وقت ہو چکا ہے خدا تمھیں بخش دے! پھر اس آ یت کی تلا وت فرما تے تھے:اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰہُ لِیُذْھِبَ․․․  ․

آنحضرت کی یہ تا کید وتنبیہ پھر چادر کے نیچے جمع ہونا اور روزانہ”اہل بیت علیہم السلام “ کوسلام کر نا ان سب باتوں سے یہ ظاہر و ثابت ہو تا ہے کہ”اہل بیت علیہم السلام“صرف اسی گھر کے لوگ ہیں․

جنا ب رسول خداصلی الله علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں حضرت علی ں  حضرت فاطمہ علیہاالسلام،حضرت امام حسن ںاور حضرت امام حسین ں پر اس لفظ کا انطباق اتنا زیادہ واضح اور روشن تھا کہ آنحضرت کے اصحاب کبھی اس کی ضرورت محسوس نہیں کر تے تھے کہ ”اہل بیت علیہم السلام“ کے بارے میں آپ سے سوال کریں․

․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․

۱۔بعض نے دس (۱۰)ما ہ کی مدت بتا ئی ہے،دیکھئے: شواہد التنزیل:۲/۵۰؛ ینابیع المودة: ص۲۶۰۔ سترہ (۱۷) ما ہ کی مدت بھی بتا ئی گئی ہے،دیکھئے: مجمع الزوائد:۹/۱۶۹؛شواہد التنزیل:۲/۵۰۔ انیس(۱۹) ما ہ کی مدت کا بھی ذ کر ہے، دیکھئے: مجمع الزوائد: ۹/۱۶۹؛ الصراط المستقیم:۱/۱۸۸،واضح رہے کہ ان روایات میں جو آنحضرت کے سلام کر نے کی مدت میں اختلاف ہے وہ اس وجہ سے ہے کہ جس راوی نے جتنے مہینے سلام کر نے کو دیکھااس نے وہ مدت بیان کر دی․

یہ با ت بھی قا بل تو جہ ہے کہ آنحضرت نے فر مایا:اَللّٰھُمَّ اِنَّ ھٰوٴُلَآءِ اَھْلُ بَیْتِیْ:خدا یا! یہ لو گ میرے اہل بیت (علیہم السلام) ہیں یعنی میرے اہل بیت علیہم السلام بس یہی لو گ ہیں اگر پیغمبراکرم کی بیویاں یا خاندان کے دوسرے لوگ بھی” اہل بیت“ علیہم السلام میں شامل ہو تے توآنحضرت اس طرح فر ما تے:اَللّٰھُمَّ ھٰوٴُ لَآءِ مِنْ اَھْلِ بَیْتِی:خدایا! چا در کے نیچے مو جود تمام افراد میرے” اہل بیت“ علیہم السلام سے ہیں حرف”مِنْ“جو تبعیض پرد لا لت کر تا ہے اسے استعمال کرتے یہ نہیں فر ما تے کہ یہ میرے اہل بیت (علیہم السلام) ہیں․

ابو الجا رود کا بیان ہے : زید بن علی ںبن حسینں نے کہا:

”کچھ جا ہل لو گوں کا خیا ل ہے کہ آ یت سے مراد آنحضرت کی بیو یاں ہیں․“

انھوں نے جھوٹ کہا وہ گناہ کے مر تکب ہو گئے کیونکہ اگر آیت میںآنحضرت کی بیویاں مراد ہو تیں تو خدا اس طرح ارشاد فر ما تا:لِیُذْھِبَ عَنْکُنَّ الرِّجْسَ وَ یُطَھِّرَکُنَّ تَطْھِیْراً،آیت میںمونث کی ضمیریں آ تیں جیسا کہ ان آ یا ت میں مونث کی ضمیریں آئی ہیں:وَاذْکُرْنَ مَایُتْلٰی فِیْ بُیُوْتِکُنَّ․(۱۲)  وَلَاتَبَرَّجْنَ․(۱۳)لَسْتُنَّ کَاَحَدٍ مِّنَ النِّسَآء․(۱۴)

لغت کے بزرگ علماء نے جو منا قشہ کیا ہے کہ آیا”اہل بیت“کا اطلاق آنحضرت کی بیویوں پر کیا جا سکتا ہے؟

اس سے بھی یہ با ت ظاہر ہو تی ہے کہ یہ آیت حضرت علیں حضرت فاطمہ علیہاالسلام اورجناب حسنین علیہما السلام کی شان میں نازل ہو ئی ہے اہل لغت نے کہا ہے:

اَھْل: کے لغوی معنی یہ ہیں:شو ہر کے خاندان اور رشتے دار لو گ یہ لفظ ، بیوی کو شامل نہیں ہو تا ہاں!صرف از باب توسعہ در لغت وبطور مجاز شامل ہو سکتا ہے․(۱۵)

زید بن ار قم جو ایک بزرگ صحابی تھے ان سے حصین نے پیغمبر اکرم صلی الله علیہ وآ لہ وسلم کے”اہل بیت علیہم السلام“ کے با رے میں پو چھا کہ کیا حضور کی بیویاں بھی ان کے اہل بیت میں شمارہوں گی؟

زیدنے کہا:خداکی قسم نہیں!کیونکہ بیوی کچھ دنوں تک اپنے شوہر کے ساتھ رہتی ہے ممکن ہے کہ دونوں کے در میان اختلاف بھی ہو ایسی صورت میں شو ہر، طلاق دے دیتا ہے وہ اپنے باپ کے گھر واپس آجا تی ہے جب کہ آنحضرت کے اہل بیت علیہم السلام کو یہ شرف حاصل ہے کہ وہ پیغمبر کے نسبی رشتے دار ہو تے ہیں․

مذ کو رہ خبر سے یہ با ت واضح ہو جا تی ہے کہ اہل بیت علیہم السلام سے مراد خمسہٴ طبیہ ہیں یہ بات اہل سنت کے نزدیک با لکل واضح ہے اسی لئے زید سے سوال ہوا کہ کیا پیغمبراکرم کی بیویاں بھی” اہل بیت علیہم السلام“میں شامل و داخل ہیں؟(۱۶)

تبصرے
Loading...