رسالت کا گُلِ معطر

نام و القاب:

گلستانِ نبي اکرم۰ کےاس گلِ معطر کے متعدد بامعني نام و القاب ہيں جو بارگاہِ الہي سے فرشتے لےکر آئے ہيں۔ روايات ميں آيا ہے کہ بارگاہِ معبود ميں فاطمہ زہراٴ کے نوعظيم اور مقدس نام ہيں۔ يہ پاک نام فاطمہ، صديقہ، مبارکہ، طاہرہ، زکيہ،راضيہ، مرضيہ، محدثہ اور زہرا ہيں۔ ياد رہے کہ آپٴ کے يہ سب نام و القابايک مخصوص مفہوم و معني رکھتے اور آپٴ کي عظيم شخصيت کے مختلف پہلووں کينشاندہي کرتے ہيں۔

آپٴ کي کنيت، ام الحسن، ام الحسين، ام الائمہ اور ام ابيہا ہے۔

فاطمہ ۔۔ ايک مقدس نام:

يہ عظيم اور پاکيزہ لفظ ’’فاطمہ‘‘ گلِ معطرِ رسالت کا سب سے پہلا اورمشہور ترين نام ہے۔ امام جعفر صادقٴ اس بارے ميں فرماتے ہيں: بارگاہِ الہيميں بي بي فاطمہٴ کے متعدد عظيم اور منتخب نام ہيں اور ان ميں سے ايکفاطمہ ہے۔ پوچھا گيا: فاطمہ کا مطلب کيا ہے؟ فرمايا: اس کا مطلب يہ ہے کہآپٴ ہر بدي، ہر شر اور ہر تاريکي سے دور ہيں اور آپٴ کي کتابِ زندگي ميںسياہي اور ظلمت کا کوئي گذر نہيں۔

زھرا۔۔ چمکتا ستارہ:

يہ پاکيزہلفظ بھي بي بي فاطمہ کا ايک اور نام ہے۔ امام صادقٴ سے کسي نے پوچھا کہجنابِ فاطمہٴ کو زہرا کيوں کہتے ہيں؟ تو آپٴ نے فرمايا: کيونکہ جب آپٴعبادت کے لئے مصلائے عبادت پر کھڑي ہوتيں تو آپٴ کا نور آسمانوں کو اس طرحسے نوراني اور روشن کرديا کرتا تھاجس طرح سے ستارے زمين کو پُرنور کر ديتےہيں۔

يادِ قيامت اور بي بي فاطمہٴ کا غم:

آخرت اور قيامت کي ياد بيبي فاطمہٴ کو اس طرح پريشان کر ديتي تھي کہ آپ کا سکون او ر چين ختم ہوجاتا اور آپ آخرت کو ياد کر کے گريہ فرمايا کرتي تھيں۔ امير المومنين عليٴفرماتے ہيں: ايک دن رسولِ اکرم ۰ نے فاطمہ کو ديکھا کہ وہ خوفِ خدا سے لرزرہي ہيں اور آپٴ کا پيکر مبارک غم و اندوہ ميں ڈوبا ہوا ہے۔ آپ۰ نے اس کيوجہ دريافت کي تو فرمايا: بابا! مجھے روزِ قيامت ياد آگيا تھا۔‘‘

وحي کے منقطع ہونے پر آپٴ کي پريشاني:

زہرائے مرضيہٴ کے لئے ايک پريشاني يہ بھي تھي کہ رسالتمآب۰ کي وفات کے بعد نزولِ وحي کا سلسلہ منقطع ہوگيا تھا۔

نبي اکرم ۰ ايک تفصيلي حديث ميں فرماتے ہيں: فاطمہ ميرے بعد مسلسل پريشاناور گرياں رہے گي؛ ايک طرف سے انقطاعِ وحي کي وجہ سے اور دوسري جانب سےميرے فراق ميں۔

اسلام کي اس مثالي خاتون کا وحي کے انقطاع اور فرشتوںکے نزول ميں تعطل پر متفکر ہونا، ان تمام سختيوں کے باوجود جن کا آپٴ نےسامنا کيا، آپٴ کي فضيلت و کمال کي دليل ہے۔

بي بي فاطمہٴ کي عبادت:

بي بي فاطمہٴ شعور اور عشق رکھنے والے عبادتگزاروں کے لئے نمونہ عمل ہيں۔آپٴ کا ايک لقب بتول ہے جس سے مراد ہر وابستگي سے دور ہوکر خدا سے لولگانا ہے۔ مناجاتِ پروردگار کے لئے آپٴ کے عشق نے آپ کي ذات پر ايسا اثرڈالا تھا کہ نماز کے دوران خوفِ خدا سے آپ کي سانس بے ترتيب ہو جاتي اورآپٴ نماز ميں اس قدر کھڑي رہتي تھيں کہ پاوں ميں ورم آجاتا تھا۔

ايکمرتبہ جب آنحضور۰ نے آپٴ کو ايک دعا تعليم دي تو آپٴ نے فرمايا: يہ دعا‘ دنيا اور جو کچھ اس ميں ہے، اس سب سے ميرے نزديک زيادہ محبوب ہے۔ 

آپ نے اسي عشق کي خاطر اپنے بچوں اور زندگي کي تمام رعنائيوں کو تج ديا تھا۔

 

تسبيحاتِ بي بي زہراٴ:

ايک دن جناب زہراٴ رسول اللہ ۰ کي خدمت ميں پہنچيں اور اپنے لئے ايکخدمتگار کي درخواست کي۔ آپ۰ نے فرمايا: خدمتگار کي بجائے ايک ايسا ہديہديتا ہوں جو پوري دنيا سے زيادہ قيمتي ہے۔ جب تم سونے جارہي ہو تو ٣٤مرتبہ اللہ اکبر، ٣٣ مرتبہ الحمد للہ اور ٣٣ مرتبہ سبحان اللہ پڑھا کرو۔ 

اس دن کے بعد سے بي بي فاطمہٴ ہميشہ اس ذکر کو دہراتي رہيں اور يہ ذکرتسبيحاتِ جناب زہراٴ کے نام سے مشہور ہوا۔ اس کي تاثير کا يہ عالم ہے کہامام محمد باقرٴ فرماتے ہيں: حمد و تعريف ميں تسبيح فاطمہٴ سے بڑھ کر خداکي عبادت نہيں ہوئي۔

انسان دوستي کا درس:

بي بي فاطمہ زہراٴ اپنيقابلِ فخر زندگي کے دوران ہميشہ انسان دوستي کا سمبل رہيں۔ چنانچہ امامحسن مجتبيٰ فرماتے ہيں: ميري مادر شبِ جمعہ ميں صبح تک بيدار رہتيں اورمومنين کے لئے دعا کرتي رہتيں۔ حيرت اس بات پر ہے کہ اپنے لئے ہرگز دعانہيں کرتي تھيں۔ ميں نے ان سے سبب پوچھا تو فرمايا: بيٹا! پہلے ہمسايوںاور دوسرے بندگانِ خدا کي فکر اور اس کے بعد اپني اور اپنے خاندان کي فکر۔بي بي فاطمہٴ ان کلمات ميں ہميں يہ بتا رہي ہيں کہ ہر حال ميں دوسروں کوترجيح ديني چاہئے اور ايثار کرنا چاہئے۔

قرآن کے ساتھ بي بي کي انسيت:

حضرت فاطمہٴ کو قرآن سے ايسي اُنسيت تھي کہ آپٴ کام کاج کے دوران اور جوپيستے ہوئے بھي قرآن کي تلاوت ميں مشغول رہتيں۔ اس اُنسيت کا گھروالوں پرايسا اثر تھا کہ آپ کي خادمہ بي بي فضہ نے بيس سال تک قرآن سے ہٹ کر باتنہيں کي اور ہر سوال کا جواب بھي قرآن کي آيت سے ديتي رہيں۔ روايات کےمطابق يہ اُنسيت محشر ميں بھي نظر آئے گي اور بي بي فاطمہٴ ميدانِ حشر ميںبھي تلاوتِ قرآن ميں مشغول ہوں گي اور جنت ميں بھي تلاوت آيات کے ساتھوارد ہوں گي۔ آپٴ نے حضرت عليٴ کو وصيت کي تھي کہ قبر کي پہلي رات ميرےسرہانے قرآن کي زيادہ تلاوت کرنا۔

خوشروئي اور خوش اخلاقي:

حضرتفاطمہٴ نے مشترکہ زندگي ميں ہميشہ اپنے شريکِ حيات حضرت عليٴ سے کشادہروئي، بشاشت اور مسکراتے ہوئے ملاقات کي تاکہ عليٴ کے دل کے آئينے سےغبارِ غم و اندوہ صاف ہو جائے اور گھر اور خاندان کا ماحول تازگي اور فرحتکا احساس لئے ہوئے ہو اور يکسانيت اکتاہٹ کا باعث نہ بن جائے۔ ہر مرد وعورت پر اس خوش اخلاقي کي تاثير کا اندازہ بخوبي جناب فاطمہٴ کے اس قول سےلگايا جا سکتا ہے کہ آپٴ نے فرمايا: ’’مومن کے سامنے خوشروئي سے پيش آنےکا اجر جنت ہے۔‘‘

مذہبي سوالات کے جواب:

لوگوں کے فکري سوالوں کےجوابات دينا آپٴ کي شخصيت کے ايک اور فکر انگيز پہلو کي نشاندہي کرتا ہے۔يہ خصوصيت ايک ايسے دور ميں جلوہ گر ہو رہي تھي کہ جب عورتوں کو نہ صرف يہکہ دوسروں جيسا ايک عام آدمي نہيں سمجھا جاتا تھا بلکہ انسان بھي نہيںسمجھتے تھے اور لڑکيوں کو باعثِ ننگ و عار اور خاندان کے لئے باعثِ شرمشمار کرتے تھے۔ آپٴ نہ صرف يہ کہ گھر کے کام کاج کيا کرتي تھيں بلکہ علومو معارفِ الہي کا مرجع بھي تھيں۔ علمي حوالے سے سوائے امامٴ کے کسي اورشخصيت سے ان کا مقابلہ نہيں کيا جاسکتا تھا اور اخلاقي حوالے سے اور ميلجول کے لحاظ سے ان کا مقابلہ صرف ان کے والد سے کيا جاسکتا تھا۔ آپٴ نےلوگوں کے ساتھ روابط کا طريقہ اپنے بابا سے سيکھا تھا خصوصاً وہ لوگ جودين کے حوالے سے ابہام کا شکار ہوں۔

خطبہ جناب فاطمہٴ:

جناب فاطمہزہراٴ کي تقرير جس کے کلمات حسين اور معاني انتخاب شدہ تھے، وہ بھي بغيرپڑھے ہوئے اور مدينہ والوں کے اژدہام کے سامنے، آپٴ کے فضائل کا ايک سنہريباب ہے۔ چنانچہ اس کے لامحدود معاني اور دل انگيز الفاظ کي جلوہ نمائي سےدوست و دشمن حيرت سے انگلياں دانتوں ميں دبا ليتے ہيں اور ميدانِ ادب کےشہ سوار اس خطبے کي تفسير اور کلمات و عبارات کي توضيح ميں رطب اللسانہوتے ہيں۔ شہر مدينہ ميں آپٴ کا تاريخي اور حکمت آموز خطبہ مہاجرين وانصار کے بزرگوں کے سامنے، اس قدر عظيم معاني سے لبريز ہے کہ اگر اسے جنابصديقہ زہراٴ کي کرامت کہا جائے تو مبالغہ نہ ہوگا۔ اس خطبے ميں اسلام اورانسان کے زندہ ترين مسائل جيسے؛ توحيد، نبوت، امامت اور قيامت کو بہتخوبصورت جملوں اور ادبي و کلامي ہنر کے ساتھ پيش کيا گيا ہے۔

فاطمہٴ۔۔ نورِعينِ نبي۰ کي ماں:

جناب زہراٴ نے خاندانِ نبوت و امامت کے دو پھولوں کو اپني آغوش ميں تربيتدي اور ہر ماں سے زيادہ ان کي تربيت کے لئے زحمت اٹھائي۔ کيونکہ يہ دو بچےصرف آپٴ کے بيٹے ہي نہيں بلکہ آخري نبي۰ کي آنکھوں کا نور بھي تھے۔ رسولاکرم۰ بي بي فاطمہٴ سے فرمايا کرتے: ميرے دو پھولوں؛ حسن اور حسين کو لےآو۔ جب آپٴ بچوں کو لے کر نبي۰ کے پاس آتيں تو آپ۰ بچوں کو اپنے سينے سےلگاتے، ان کا بوسہ ليتے اور ان کي خوشبو سونگھتے۔

جناب زہراٴ نے ايسےمجتبيٰ کي پرورش کي جس نے صلح کر کے اسلام کي حفاظت کي اور ايسے سيدالشہدائ کو پالا جس نے جنگ کر کے اسلام کو بچايا۔ يقينا جناب فاطمہٴ کےعلاوہ کسي اور کے بس کي بات نہ تھي کہ ايسے بچے اسلامي معاشرے کے حوالےکرے جن کي ولايت و محبت اسلام کي اساس اور ان سے دوري کفر کي بنياد قرارپائے۔ آپٴ نے اس ذمہ داري کو بخوبي نبھايا اور آنے والي نسلوں اور مستقبلکي ماوں کو تربيت کرنے کا درس ديا۔

بچوں ميں عبادت کے شوق کي پرورش:

بي بي فاطمہٴ کي دلسوز و سبق آموز مناجاتيں، تعليم دينے والي دعائيں، شبِقدر پر آپٴ کي توجہ اور غروب کے وقت شب بيداري اور بچوں کا دعا کرنا، بچوںکو قرآن سے آشنا کرنا، بچپن ميں نماز پڑھنا اور خدا سے رازونياز کرنا، يہجناب فاطمہ زہراٴکے تربيتي طريقوں ميں سے بعض طريقے ہيں۔ اس طرح سے بي بيفاطمہٴ بچوں کے پاک و پاکيزہ اور تازہ و شاداب ذہنوں کو صحيح نظريات اورعظيم نشو و نما کے لئے تيار کرتي تھيں۔

فاطمہ زہراٴ عليٴ کے لئے بہترين ساتھي:

حضرت زہراٴ نے نو سال حضرت عليٴ کے ساتھ گذارے۔ اس پورے دور ميں آپٴ ايسيشريکِ حيات ثابت ہوئيں جو بيوي ہونے کے ناطے ہر ذمہ داري پر پوري طرح عملکرتي رہيں۔ کبھي اپني بات کو حضرت عليٴ کي بات پر برتر نہ سمجھا اور ہميشہاطاعت گذار اور وفاشعار بيوي ثابت ہوئيں۔ ايک مرتبہ عليٴ نے پوچھا: فاطمہٴمجھے کيوں نہ بتايا کہ گھر ميں کچھ نہيں ہے تو ميں وہ فراہم کر ديتا۔ آپٴنے جواب ميں فرمايا: ’’یاعليٴ! مجھے اپنے پروردگار سے شرم آتي ہے کہ آپ سےايسي چيز چاہوں جس کو فراہم کرنا آپ کے امکان ميں نہ ہو۔‘‘ جب جنگ کے موقعپر حضرت عليٴ تھکے ہارے گھر لوٹتے تو بي بي فاطمہٴ ان کا خيال رکھتيں، انکي مرہم پٹي کرتيں، خون آلود تلوار اور لباس کو دھوتيں اور حضرت عليٴ سےاس طرح پيش آتيں کہ آپٴ اپني ساري تھکاوٹ بھول جاتے۔ حضرت عليٴ فرماتےہيں: جب ميں گھر لوٹتا تو ميرے سار ے غم اور پريشانياں دور ہو جاتيں۔ 

فاطمہٴ کا گھر:

شہر مدينہ کے اس گھر سے اور اس گھر ميں رہنے والوں سے رسول اللہ ۰ بہتمحبت کيا کرتے تھے۔ يہ گھر فرشتوں کي آمد و رفت کي آماجگاہ اور انتہائيسادہ اور آرائش و تجملات دنيوي سے دور تھا۔ امام خميني۲ بي بي فاطمہٴ کےگھر اور اہلِ خانہ کي تعريف ميں فرماتے ہيں: فاطمہٴ کا يہ چھوٹا سا گھراور يہ افراد جو اس گھرميں پلے بڑھے ہيں، يہ تعداد ميں چار پانچ افراد ہيںليکن حقيقت ميں خدا کي تمام قدرت کو انہوں نے تجلي دي اور ايسي خدماتانجام ديں کہ مجھے، آپ کو اور پوري انسانيت کو تعجب ميں ڈال ديا۔ خدا کادرود و سلام ہو اس معمولي سے حجرے پر جو نور ِعظمتِ الہي کي جلوہ گاہ اوراولادِ آدمٴ ميں سے بہترين انسانوں کي پرورش گاہ تھا۔ وہ خاتون کہ جس نےمعمولي سے حجرے اور حقير سے گھر ميں ايسے انسانوں کي تربيت کي کہ جن کانور عالمِ خاک سے عالم ملکوت تک اور اس سے بھي آگے تک درخشندہ ہے۔

رسول اللہ۰کے نزديک بي بي فاطمہٴ کا درجہ:

پيغمبر اکرم۰ کے نزديک بي بي فاطمہٴ انسان کي شکل ميں حور، فرشتوں کے ساتھہم سخن ہونے والي ذات (محدثہ)، باغِ رسالت کا گُلِ معطر، رسول اللہ ۰ کاپارہ وجود، قلبِ نبي۰، محبوبِ حبيب خدا، آپ۰ کے نزديک عزيز ترين شخصيت ہيںاور آپ۰ کي ذات رسالت کے شجرِ مقدس اور وجودِ رسول۰ سے ہے۔ آپٴ ايمان کےعظيم ارکان ميں سے ايک رُکن، کشتيِ نجات، رازِ خلقت، حق کو باطل سے جداکرنے کا معيار، اور فکر و گفتار و کردار و صورت و سيرت ميں پيغمبر اکرم۰سے سب سے زيادہ شباہت رکھنے والي شخصيت تھيں۔ ان سے محبت، اللہ کے رسول۰سے محبت اور ان کي زيارت کا اجر اللہ کے نبي۰ کي زيارت کے اجر کي طرح ہے۔آپٴ کے آسماني راستے پر چلنے والوں کو نجات اور کاميابي کي نويد سنائي گئيہے۔ سخنِ رسول۰ کے مطابق يہ ايسي خاتون ہيں جو امير المومنين عليٴ کےبرابر قرار دي گئي ہيں اور ايک ايسا نوراني چشمہ کوثر ہيں جس کے دل کو خدانے يقين سے سرشار کر ديا ہے۔

(يہ جملات احاديث سے لئے گئے ہيں۔ ان کےلئے رجوع کيجئے: بحار الانوار، اصولِ کافي، رياحين الشريعہ، مناقب الزہرا،فاطمہ الزہراٴ شادماني دل پيامبر۰، پاسدارِ اسلام، فاطمہ الزہراٴ، سفينہالبحار، فضل فاطميہ وغيرہ)

رسول اللہ۰کا بي بي فاطمہٴ کو پيار کرنا:

بي بي فاطمہٴ نے اپني عقلِ کامل کے سائے ميں دوستي و دشمني، پسند و ناپسنداور احساسات کے ہر جلوے ميں الہي معيار مقرر کئے تھے۔ اسي لئے آنحضور۰اپني بيٹي کو بہت زيادہ پيا رکيا کرتے تھے۔ آپ۰ بي بي کي پيشاني پر بوسہديتے جو کہ سيدہٴ کي فکر کي تائيد ہے اور ہاتھوں کو چومتے تاکہ يہ بتا ديںکہ ميري بيٹي کا ہر عمل اور ہر کام مجھے قبول ہے۔ جس نے اس کي فکر کيمخالفت کي اس نے مجھ سے دشمني کي۔

نبي اکرم۰ سے فاطمہٴ کي محبت:

جناب سيدہٴ کو آنحضور۰ سے دو قسم کي محبت تھي: آپٴ رسول اللہ ۰ کو سب سےپيارا اور مکمل ترين باپ سمجھتي تھيں اور بيٹي کي حيثيت سے محبت کے پھولنچھاور کرتي تھيں۔ اس کے ساتھ بي بي سيدہٴ رسول اللہ ۰ کي امت کا حصہ بھيتھيں اور نبي اکرم۰ کو عظيم ترين مخلوق اور سردارِ انبيائ سمجھتي تھيں۔ بيبي عائشہ کہتي ہيں: جب کبھي رسول اللہ ۰ فاطمہٴ کے پاس تشريف لاتے تو آپٴبابا کے احترام ميں اٹھ کھڑي ہو جاتيں اور ہاتھوں پر بوسہ دے کر اپني جگہپر بٹھاتيں۔ رسولِ خدا ۰ اور بي بي فاطمہ سلام اللہ عليہا کے درميان محبتکے جذبات کو بخوبي بيان کرنے والي احاديث ميں سے ايک روايت ميں آيا ہے کہ: جنگ اُحد کے دوران جب بي بي فاطمہ اور آپ۰ کي پھوپھي بي بي صفيہ رسول اللہکے نزديک آئيں تو آپ۰ نے عليٴ سے فرمايا: ميري پھوپھي کو مجھ سے دور رکھوليکن فاطمہٴ کو نہ روکنا۔ جناب سيدہٴ نے جب آنحضرت۰ کے زخمي بدن اور خونآلود چہرے کو ديکھا تو چلا اٹھيں اور خون صاف کرنے لگيں اور فرمايا: جس نےرسول اللہ کے چہرے کو خون آلود کيا ہے اس پر اللہ کا سخت غضب ہو۔

آدابِ فاطمہٴ:

حضرت فاطمہ زہراٴ اپني حساس روح اور زود فہمي کي وجہ سے قوانين و آدابِاجتماعي کا لحاظ کرنے ميں سر فہرست تھيں۔ مفسروں نے لکھا ہے کہ اس آيت کےنازل ہونے کے بعد کہ جس ميں حکم ہوا تھا کہ رسول اللہ کو اس طرح نہ پکاروجس طرح سے ايک دوسرے کو پکارا کرتے ہو، جس کا مطلب يہ تھا کہ نبي اکرم۰ کوعام نام کے بجائے، خدا کے پسنديدہ عنوان اور ان کي رسالت کي شان کو مدنظررکھتے ہوئے پکارا جائے، ريحانہ رسول۰، جناب بتولٴ نے جو کہ آداب و تہذيبکے باغ کا معطر ترين پھول اور قرآن پر عمل کرنے ميں سب سے برتر تھيں، آپ۰کو کبھي بابا کہہ کر نہ پکارا بلکہ يارسول اللہ کہتي رہيں يہاں تک کہ خودنبي اکرم ۰ نے فرمايا: يہ آيت تمہارے اور تمہارے بچوں کے لئے نازل نہيںہوئي ہے۔ تم مجھ سے ہو اور ميں تم سے ہوں۔ تم مجھے بابا کہو کہ يہ لفظميرے دل کو بہتر طور پرزندہ کرتا ہے اور تمہارے پروردگار کے لئے خوشنوديکا باعث ہے۔

جناب زہراٴ سے رسول اللہ۰کي محبت:

رسول اللہ ۰ اورجناب زہراٴ کے درميان باہمي محبت، باپ بيٹي کي محبت سے بڑھ کر تھي۔ آپ۰دونوں کا باہمي رشتہ ايک روحاني تعلق تھا جس کي بنياد ان دونوں عظيم اورتعجب انگيز شخصيتوں کا ايک دوسرے کي معرفت رکھنا اور ايک دوسرے کے ساتھ ہمآہنگ ہونا تھا۔ نبي اکرم ۰ ہر روز صبح و شام دونوں گھروں کے درميان موجودکھڑکي سے، آپٴ پر سلام کرتے اور درود بھيجتے تھے۔ اللہ کے رسول۰ منبر ومحراب ميں، کوچہ و بازار ميں، آشنا اور اجنبيوں کے سامنے اور ہر محفل ومجلس ميں بي بي فاطمہٴ کي عظمت بيان کيا کرتے تھے۔ آپ۰ کو بي بي فاطمہٴ سےجدائي کي تاب نہ تھي لہذا جب کبھي سفر کے لئے تشريف لے جاتے تو سب سے آخرميں اپني بيٹي سے رخصت ہوتے اور واپسي پر سب سے پہلے آپٴ ہي کے گھر تشريفلے جاتے۔

نبي کے سچے پيروکار:

ايک عورت اپنے شوہر کے کہنے پر بي بيفاطمہٴ کے حضور آئي اور پوچھا کہ ميں کس طرح نبي اکرم۰ کے پيروکاروں ميںشامل ہوسکتي ہوں؟ آپٴ نے انفرادي جواب دينے کي بجائے آنے والي نسلوں تک کےلئے ايک معيار بيان فرما ديا او رکہا: حکمِ خدا کے مطابق جو کچھ ہم امرکرتے ہيں، اس پر سچے دل سے عمل کرو اور جن چيزوں سے ہم تمہيں خبردار کرتےہيں ان سے پرہيز کرو تو تم ہمارے پيروکار ہو اور صحيح معني ميں ہمارے محبہو۔ بصورتِ ديگر تم ہمارے راستے، ہماري تہذيب و ثقافت اور ہمارے دين واخلاق سے بيگانہ ہو۔

 

تبصرے
Loading...