دین میں فتنہ واقع ہونے کے متعلق قرآن کی پیشین گوئی

دین میں فتنہ واقع ہونے کے متعلق قرآن کی پیشین گوئی

قرآن کریم نے مسلمانوں کو سعادت و تکامل تک پہنچنے کے راستوں کی نشاندہی کی ہے اور ایک ایسے روشن چراغ کے مانند جو کبھی خاموش نہیں ہوسکتا، ہدایت کا صراط مستقیم حقیقت کے طلبگار انسانوں کو دکھایا ہے۔

حضرت محمد مصطفی (ص) نے بھی شرک و کفر کے گردو غبار کو انسانیت کے چہرے سے صاف کیا اور امید و کامیابی کا بیج حقیقت کے پیاسے انسانوں کے دل و جان میں بوکر اسے بارور اور پرثمر بنایا نیز حکومت کو توحید کی بنیاد پر قائم کیا۔

اس درمیان ایسے انسان کم نہ تھے جو کہ مصلحت اندیشی کے لحاظ سے مسلمان ہوتے تھے اور ان کا ایمان زبان کے مرحلہ سے آگے نہیں بڑھتا تھا نیز توحید ان کے دلوں میں جگہ نہ پاتی تھی۔

ظاہر سی بات ہے کہ ایسے لوگ جو کہ اپنے نفسانی خواہشات کو خدا کی رضا اور پیغمبر (ص) کے احکام پر مقدم رکھیں، جو کہ باطن میں اسلام اور پیغمبر (ص) کے دشمن تھے، وہ پیغمبر (ص) کے زمانہئ حیات میں مصلحت نہیں دیکھتے تھے کہ آشکار اور علانیہ مخالفت کے لئے اٹھیں، نیز حکومت الٰہی کو گرانے، امام معصوم (ع) کی مخالفت اور لوگوں کو ائمہئ معصومین علیهم السلامکی رہبری سے محروم کرنے کا نقشہ برملا کریں۔ لہذا یہ شیطان اور دنیا پرست انسان اس بات کے منتظر تھے کہ پیغمبر (ص) دنیا سے گزر جائیں تو پھر اپنے منحوس منصوبوں کو عملی جامہ پہنائیں۔

قرآن کریم اس سازش کو پیش نظر رکھ کر ہوشیار کرتا ہے: (أحَسِبَ النَّاسُ أَن یُّترَکُوا أَن یَّقُولُوا آمَنَّا وَ ہُم لایُفتَنُونَ)١؎ کیا لوگوں نے یہ خیال کر رکھا ہے کہ وہ صرف اس بات پر چھوڑ دیئے جائیں گے کہ وہ یہ کہہ دیں کہ ہم ایمان لے آئے ہیں اور وہ فتنہ میں مبتلا نہیں ہوں گے؟ ایک دن امیر ا لمومنین حضرت علی – قرآن کریم کے بارے میں ارشاد فرما رہے تھے اور لوگوں کواس الٰہی حبل المتین کے محور پر جمع رہنے اور اس کے احکام پر عمل کرنے کی دعوت دے رہے تھے اور اہل سعادت و شقاوت کو جنت و جہنم کی خبر دے رہے تھے کہ ایک شخص نے اٹھ کر فتنہ کے متعلق سوال کیا اور حضرت (ع) سے خواہش کی کہ اس بارے میں حضرت پیغمبر (ص) کا ارشاد بیان فرمائیے۔

…………………………………………………

(١) سورہ  عنکبوت، آیت ٢ ۔

حضرت (ع) نے جواب میں فرمایا: جب خداوند متعال نے اس آیہئ کریمہ (أَحَسِبَ النَّاسُ…) کو نازل فرمایا اور لوگوں کودین میں فتنہ واقع ہونے اور نہایت بڑے امتحان سے خبردار کیا، تو میں نے سمجھا کہ یہ فتنہ پیغمبر (ص) کی وفات کے بعد ہوگا۔

میں نے پیغمبر (ص) سے سوال کیا کہ یہ فتنہ جو کہ دین میں واقع ہوگا اور خداوند متعال نے جس کی خبر دی ہے کون سا فتنہ ہے؟ اور اس کی حقیقت کیا ہے؟

تو پیغمبر (ص) نے فرمایا کہ: میری امت میرے بعد فتنہ سے دوچار ہوگی۔

یہاں پر اس بات سے قبل کہ پیغمبر (ص) اپنی وفات کے بعد کے فتنوں کی قسموں کو بیان کریں، حضرت علی – اس خوف سے کہ کہیں راہ خدا میں شہادت کی کامیابی سے محروم ہو جائیں حضرت پیغمبر اسلام (ص) کو جنگ احد کی یاد دلاتے ہیں اور عرض کرتے ہیں: یقینا آپ کو یاد ہے کہ جنگ احد میں عالم اسلام کی کیسی بڑی بڑی شخصیتوں (مثلاً حضرت حمزہ سید الشہداء وغیرہ) نے سبقت حاصل کر لی تھی اور شہادت کی عظیم کامیابی پر فائز ہوئے اور میرے اور راہ خدا میں شہادت (اولیائے الٰہی کے اس معشوق) کے درمیان جدائی ہوگئی اور یہ جدائی مجھے بہت گراں لگی۔

آپ کو یاد ہے کہ آپ نے مجھے میری تمنا حاصل ہونے کی بشارت دی اور فرمایا: راہ خدا میں شہادت تمھیں ملنے والی ہے اور میں اسی طرح شہادت کے انتظار میں ہوں۔

یا رسول اللہ(ص)! آیا وہ فتنہ جو کہ آپ کے بعد واقع ہوگا میری شہادت تک پہنچے گا؟

پیغمبر (ص) نے جواب میں فرمایا کہ ہاں تم اپنی تمنا کو پہنچو گے۔

پھر پیغمبر (ص) امیر المومنین (ع) سے پوچھتے ہیں کہ جس وقت تم ایسے فتنے سے دوچار ہوگے تو تم کہاں تک صبر کرو گے؟

حضرت (ع) نے فرمایا: یا رسول اللہ(ص)! یہاں صبر کی جگہ نہیں ہے، بلکہ یہ ان امور میں سے ہے کہ اس پر شکر کرتا ہوں اور اسے اپنے لئے بشارت و خوشخبری سمجھتا ہوں۔

اس وقت حضرت پیغمبر اکرم (ص) ان فتنوں کے گوشوں کی طرف اشارہ فرماتے ہیں جو کہ دین میں واقع ہوں گے اور لوگوں کو ان سے ہوشیار کرتے ہیں۔

پیغمبر (ص) کے بعد فتنوں کی پیشین گوئی

حضرت پیغمبر اسلام (ص) حضرت علی – کو حضرت (ع) کی تمناپوری ہونے اور شہادت کی بشارت سے متعلق اطمینان دلانے کے بعد حضرت (ع) سے خطاب فرماتے ہیں اور ان فتنوں کی قسموں کو بیان فرماتے ہیں جو کہ دنیا پرست افراد کے ہاتھوں دین میں واقع ہوں گے۔

آنحضرت (ص) اپنے ارشاد میں فتنہ کی تین اہم قسموں کو بیان فرماتے ہیں:

”یَاعَلِیُّ! اِنَّ الْقَومَ سَیُفتَنُونَ بِاَموَالِہِم وَ یَمُنُّونَ بِدِینِہِم عَلٰی رَبِّہِم وَ یَتَمَنَّونَ رَحمَتَہُ وَ یَأمَنُونَ سَطوَتَہُ یَستَحِلُّونَ حَرَامَہُ بِالشُّبہَاتِ الْکَاذِبَۃِ وَ الأَہوَاءِ السَّاہِیَۃِ، فَیَستَحِلُّونَ الْخَمرَ بِالنَّبِیذِ وَ السُّحتَ بِالہَدِیَّۃِ وَ الرِّبَا بِالبَیعِ”١؎

اے علی! عنقریب لوگوں کو ان کے اموال کے ذریعہ آزمایا جائے گا اور وہ اپنے

…………………………………………………

(١) بحار الانوار، ج٣٢، ص ٢٤١ ۔

دین کے ذریعہ اپنے رب پر احسان رکھیں گے اور اس کی رحمت کی تمنا کریں گے اور خود کو اس کے غلبہ سے محفوظ سمجھیں گے جھوٹے شبہات اور بیہودہ خواہشوں کے سبب حرام کو حلال قرار دیں گے اور شراب کو آبِ جو، رشوت کو تحفہ اور سود کو تجارت قرار دیکر حلال سمجھ لیں گے۔

١۔ مالی فتنہ

سب سے پہلا مسئلہ کہ حضرت پیغمبر اکرم (ص) جس کی طرف اشارہ فرماتے ہیں، اموال میں فتنہ ہے۔ جو لوگ اسلامی فقہ سے آگاہ ہیں ان پر پوشیدہ نہیں ہے کہ اسلام کے عملی احکام کا ایک عظیم حصہ اموال، کسب و اکتساب، تجارت اور اقتصادی امور سے متعلق ہے۔

اسلام میں لوگوں کے حقوق کی طرف سب سے زیادہ اور اچھی طرح شارع مقدس نے توجہ دی ہے۔

خرید و فروش اور کسب و تجارت کے وہ اصول و ضوابط اور قواعد و احکام کہ شرع مقدس نے مسلمانوں کے لئے جن کی پابندی کو لازم قرار دیا ہے وہ ایسے اصول و قواعد ہیں جو کہ انسانوں کی اجتماعی زندگی کے حقیقی مصالح کی بنیاد پر تشریع اور نافذ کئے گئے ہیں تاکہ لوگ ان پر عمل کر کے سالم زندگی اور دنیوی و اخروی سعادت سے بہرہ مند ہوں۔ چونکہ معاشرہ میں سب سے زیادہ اقتصادی روابط بیع و شراء اور خرید و فروخت کی بنیاد پر انجام پاتے ہیں، اجتماعی زندگی کا وجود و قوام اور انسانوں کے درمیان تعلق و تعاون ایک دوسرے کی ضرورتیں پوری کرنے میں لین دین اور معاملات پر ا ستوار ہے او ردوسری طرف انسان کے اندر حرص اور لالچ کے جذبہ کی وجہ سے سودی معاملات جو کہ اسلام کی نظر میں سب سے زیادہ منفور اور بدترین قسم کے معاملات ہیں جو کہ لوگوں کے درمیان رائج رہے ہیں، لہذا قرآن نے سودی معاملات اور سودی لین دین سے شدت کے ساتھ منع کیا ہے۔

قرآن کا لہجہ اس کام سے منع کرنے کے متعلق نہایت سخت ہے یہاں تک کہ اسے خداوند متعال سے جنگ کے مانند سمجھتا ہے: (فَاِن لَّم تَفعَلُوا فَأذَنُوا بِحَربٍ مِّنَ اللّٰہِ وَ رَسُولِہِ)١؎ اگر تم نے سودی معاملات سے ہاتھ نہیں کھینچا تو سمجھ لو کہ خدا اور اس کے رسول (ص) سے اعلان جنگ کیا ہے۔

حضرت پیغمبر اکرم (ص) فرماتے ہیں کہ: میرے بعد لوگ اپنے اقتصادی روابط اور اموال میں فتنہ سے دوچار ہوں گے اور ربا (سود) کی حرمت کے متعلق قرآن کے صریحی حکم کو نظر انداز کردیں گے اور خرید و فروخت کے بہانے سے، بیہودہ حیلوں کے ذریعہ سود کھائیں گے۔

٢۔ اعتقادی فتنہ

جس بات کی ہر ایک عقلمند انسان اپنے تمام وجود کے ساتھ تصدیق کرتا ہے اور تصدیق کے بعد اسے اس کے لوازم کا پابند ہونا چاہئے وہ یہ ہے کہ ہم تمام انسان خدا کی مخلوق اور اس کے بندے ہیں۔ خداوند متعال ہی نے عالم کو خلق کیا ہے او رہم کو وجود کی

…………………………………………………

(١) سورہ  بقرہ، آیت ٢٧٩ ۔

نعمت سے بہرہ مند کیا ہے اور اس لئے کہ ہم انسان تکامل و سعادت تک پہنچیں اپنے بہترین بندوں کو آسمانی کتابوں کے ساتھ بھیج کر اپنی نعمت کو ہم پر تمام کردیا ہے۔

دین و ہدایت کا شکر و سپاس، جو کہ نعمت وجود کے بعد سب سے بڑی الٰہی نعمت ہے، خدا کی بندگی اور عبودیت قبول کرنے کے علاوہ تحقق نہیں پیدا کرسکتا کہ یہ بھی انسان کے حق میں سب سے زیادہ بلند مرتبہ سمجھا جاتا ہے۔

دوسری طرف خداوند متعال ہی انسانوں پر احسان کرتا ہے کہ اس نے اپنی نعمت ان کے حق میں تمام کی ہے اور ان کے پاس ہدایت ودین حق کو بھیجا ہے۔ سچ ہے کہ کتنے کم ہیں ایسے لوگ جو کہ اپنی ناقدری اور بے وقعتی کو پہچانتے ہیں اور خدا کی عظمت اور ان نعمتوں کی بزرگی کو سمجھتے ہیں جو انسان کے لئے پیدا کی گئی ہیں او ر اپنے حق میں خدا کے لطف و کرم کو درک کرتے ہیں۔

سچ ہے کہ کتنی بری اور ناپسند بات ہے اور کتنی بڑی ناشکری ہے کہ نادان انسان خدا پر احسان جتائے کہ اس نے اس کی ہدایت و رہنمائی کو قبول کیا ہے، وہ اس بات سے غافل ہے کہ خدا نے خود ہم پر احسان کیا ہے اس لئے کہ اس نے ہم کو دین حق کی ہدایت کی ہے۔

قرآن کریم حضرت پیغمبر اکرم (ص) کو خطاب کر کے فرماتا ہے: (یَمُنُّونَ عَلَیکَ أَن أَسلَمُوا قُلْ لا تَمُنُّوا عَلَیَّ اِسلامَکُم بَلِ اللّٰہُ یَمُنُّ عَلیَکُم أن ہَدَاکُم لِلاِیمَانِ)١؎ یہ لوگ آپ پر احسان جتاتے ہیں کہ اسلام لے آئے ہیں تو

…………………………………………………

(١) سورہ  حجرات، آیت ١٧ ۔

آپ کہہ دیجئے کہ ہمارے اوپر اپنے اسلام کا احسان نہ رکھو یہ خدا کا احسان ہے کہ اس نے تم کو ایمان لانے کی ہدایت دیدی ہے۔

یہ تم پر واجب و لازم ہے کہ بندگی ، اطاعت اور عبادت کے ساتھ اس حق کو شائستہ طور سے ادا کرو، نہ یہ کہ ایمان لانے کے بہانے سے اپنے کو صاحب حق سمجھو او رخداوند متعال سے تقاضا کرو۔

اس بنا پر دینی مکتب فکر میں اصل، خدا کے سامنے تسلیم، بندگی اور عبودیت ہے، نہ کہ خدا کے سامنے انانیت اورتکبر ۔

حضرت پیغمبر اکرم (ص) خدا کے سامنے تسلیم و بندگی کے جذبہ کے بجائے انانیت، تکبر اور استکباری جذبہ رکھنے کو دین میں فتنہ کا ایک مظہر بتاتے ہیں۔

آنحضرت (ص) فرماتے ہیں: میرے بعد دین میں فتنے کے مظاہر میں سے ایک مظہر یہ ہوگا کہ لوگ بجائے اس کے کہ دین و ہدایت کی نعمت پر خدا کے شکر گزار ہوں اور دین حق کی خاطر اس کے ممنون ہوں، خود خدا پر احسان جتائیں گے کہ دین کو قبول کیا ہے، اپنے کو صاحب حق اور خدا کا قرضخواہ سمجھیں گے اور خدا سے (قرض کا تقاضا کرنے کے مانند) جزا اور رحمت کی امید رکھیں گے اسی طرح ایمان لانے کے عوض (متکبرانہ طریقے سے) اپنے کو کسی بھی طرح کی سزا کا مستحق نہ سمجھیں گے، اگرچہ خداوند متعال کوئی بھی جزا و سزا، بغیر دلیل کے کسی بندے کو نہیں دیتا، لیکن پیغمبر اکرم (ص) ایسا جذبہ رکھنے کو ”دین میں فتنہ” سمجھتے ہیں، اس لئے کہ ایسا جذبہ رکھنے والے جس وقت دینی احکام کی پابندی ان کے نفسانی خواہشات کے موافق نہیں ہوتی تو آسانی کے ساتھ غلط توجیہیں کر کے خود کو اور دوسروں کو فریب دینے لگتے ہیں۔

اس بنا پر خدا کے سامنے ایسا استکباری اور متکبرانہ جذبہ رکھنا، دین کی حقیقت اوراسلام کی روح (کہ صرف دین خدا کے سامنے سراپا تسلیم ہونا ہے) کے موافق نہیں ہے۔

٣۔ جھوٹی توجیہیں خطرناک ترین فتنہ

دین میں سب سے زیادہ خطرناک فتنہ، کہ جس نے پیغمبر (ص) کو بھی تشویش میں رکھا اور پیغمبر (ص) نے اسے حضرت علی – سے بیان کرتے ہوئے اس سے ہوشیار کیا تھا، وہ دین میں تحریف کی سازش اور اس کا فتنہ نیز منزل اعتقاد میں الٰہی محرمات کو حلال کرنا ہے۔ اگر چہ منزل عمل میں احکام شریعت کی رعایت نہ کرنا اور پروردگار کی خدائی کے سامنے استکباری جذبہ رکھنا بہت بڑا گناہ ہے، لیکن اس سے زیادہ خطرناک یہ ہے کہ انسان اپنے دین مخالف اعمال اور گناہوں کے لئے غلط اور جھوٹی توجیہیں گڑھنے لگے اور اپنے نفسانی خواہشات پر دین و شریعت کا رنگ چڑھانے لگے۔

اس صورت میں شیطان تمام قوتوں کے ساتھ مسلمان نما دنیا پرستوں کی مدد کے لئے دوڑ پڑتا ہے تاکہ احکام دین کی تحریف اور شبہات پیدا کرنے میں ان کی مدد کرے۔

حضرت پیغمبر اکرم (ص) فرماتے ہیں فتنہ پرور افراد اپنے نفسانی خواہشات کو پورا کرنے کے لئے غلط افکار و تخیلات، جھوٹی توجیہات اور شبہات کے ذریعہ اس بات کے درپے ہیں کہ الٰہی محرمات کو حلال کردیں اور دین خدا کے ساتھ کھلواڑ کریں۔

جس بات کی یاد دہانی ضروری ہے اور حضرت پیغمبر اکرم (ص) بھی فتنوں اور فتنہ پروروں کے سامنے حضرت علی – کے فریضہ کے بیان میں جس بات کی طرف توجہ دیتے ہیں، وہ ایسی فتنہ انگیزیوں کے باقی رہنے کا مسئلہ ہے جو کہ امام زمانہ حضرت صاحب الامر عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کے ظہور تک جاری رہے گا۔ جو کچھ پیغمبر اکرم (ص) نے شراب کو اس بہانے حلال کرنے کے عنوان سے کہ شراب وہی حلال کشمش ہے، یا رشوت کو تحفہ اور ہدیہ کے بہانے سے حلال سمجھنے، اور سود خواری کو خرید و فروخت کے بہانے حلال سمجھنے کو بیان کیا ہے، وہ صرف ان فتنوں کے چند نمونے ہیں جو کہ دین میں واقع ہوں گے، نہ یہ کہ یہ مسئلہ فقط انھیں چیزوں میں منحصر ہے۔

آج بھی ایسے افراد مسلمانوں کے درمیان پائے جاتے ہیں جو ظاہری طور سے مسلمان ہیں اور ہرگز اپنے کو اسلام کے دائرہ سے خارج نہیں سمجھتے، لیکن باطنی اور روحی لحاظ سے وہ ایسے نہیں ہیں کہ احکام الٰہی کو تہ دل اور رغبت کے ساتھ قبول کریں۔

یہ لوگ جن میں سے بعض اجتماعی حیثیتوں کے بھی حامل ہیں ایک طرف مغربی ثقافت اور مکتب فکر سے متأثر ہو کر خود باختگی کا شکار ہوگئے ہیں اور اپنی دینی شخصیت سے فاصلہ اختیار کرلئے ہیں، اور دوسری طرف ان کی معلومات دین کے معارف کے متعلق ناکافی ہیں۔حالانکہ ان لوگوں میں دین کے خصوصی مسائل کے متعلق اظہار نظر کی تھوڑی سی بھی صلاحیت نہیں ہے۔ بس مسند قضاوت پر بیٹھ جاتے ہیں اور کبھی کبھی دشمنان دین کی تشویق اور شیطان کے وسوسوں سے متاثر ہو جاتے ہیں اور شعوری یا لاشعوری طور پر ایسی باتیں کہتے ہیں جو اسلام کے دائرہ سے خارج ہو جانے اور انکار دین کا باعث ہوتی ہیں۔

مثال کے طور پر اگر کوئی کہے کہ اسلام کے قوانین صدر اسلام اور اس زمانہ کے لوگوں سے مخصوص ہیں اور اس کے احکام صدر اسلام کے معاشروں کے مناسب اور موافق تھے، لیکن زمانہئ حال اور اکیسویں صدی میں قرآن اور احکام اسلام معاشرہ کی رہبری کے لئے کافی نہیں ہیں لہذا اس کے احکام کو انسانوں کی صوابدید اور پسند کے مطابق تبدیل کرنا چاہئے، یا کوئی شخص یہ کہے کہ اکیسویں صدی کے لوگ اپنے زمانہ کے مطابق ایک نبی و پیغمبر کے محتاج ہیں، ایسی باتیں اگر چہ انکار دین کے معنی میں سمجھی جاتی ہیں، لیکن خود یہ باتیں پہلے درجہ میں دین و احکام دین کی صحیح شناخت نہ رکھنے کی نشانی ہیں۔

ضروری ہے کہ ایسے افکار و نظریات کے حامل افراد اظہار نظر اور زبان کھولنے سے پہلے صحیح طور سے اپنی بات کے معنی اور ان کے لوازم و نتائج پر توجہ دیں۔ اس صورت میں شاید ایسی باتیں کہنے سے پرہیز کریں کہ جن سے ”دین میں فتنہ” کی بو آتی ہے، اور خود کو دشمنان اسلام و قرآن اور شیطان کے جال سے چھڑا لیں۔

عام لوگوں کو گمراہ کرنے کے لئے ماحول کو تاریک کرنا

جو کچھ اب تک بیان کیا گیا اس سے ہمیں معلوم ہوگیا کہ دین و قرآن کے دشمنوں کے ہتھکنڈے اور وسائل فوجی حملہ اور فتنہ میں، ثقافتی یلغار اور فکری حملہ اور فتنہ کے ہتھکنڈوں سے بالکل مختلف ہیں۔ کہا گیا کہ وہ لوگ فوجی حملہ کے برخلاف فکری فتنہ جاری رکھنے میں آشکارا طور پر انکار دین اور لوگوں کے دینی مکتب فکر کی مخالفت کا موقف ظاہر نہیں کرتے اور علانیہ طور سے اپنے قلبی اعتقادات کو ظاہر نہیں کرتے۔ کیونکہ اس صورت میں جو لوگ ان کی باتیں سنتے ہیں وہ ان کی باتوں میں غور و فکر کر کے یا ان کو قبول کر لیتے ہیں یا ان کے بطلان کو سمجھ جاتے ہیں اور ہر حال میں ان کے باطل عقائد کو قبول کرنے کی صورت میں جو گمراہی آجاتی ہے وہ علم و آگاہی کی بنیاد پر ہوتی ہے اور یہ جو کچھ ہوا ہے اسے فتنہ کا نام نہیں دیا جاسکتا کیونکہ فریب اور افکار میں تحریف کے ذریعہ گمراہ نہیں کیا گیا ہے۔

جو کچھ آج ہمارے معاشرہ میں ثقافتی فتنہ کے عنوان سے پایا جاتا ہے اور قرآن اور دینی مکتب فکر کے دشمن پوری کوشش کے ساتھ فکری حملہ کے ذریعہ اس کو انجام دے رہے ہیں، وہ یہ ہے کہ معاشرہ کے ثقافتی اور فکری ماحول کو اس طرح آشفتہ اور تیرہ و تار بنادیں کہ لوگ خصوصاً طالب علم جوان طبقہ، حق و باطل کی تشخیص کی قدرت کھو بیٹھے اور لاشعوری طور پر ان کے باطل اور گمراہ کن افکار و اعتقادات کے جال میں پھنس جائے۔

واضح سی بات ہے کہ اگر ایک ملک کا تعلیم یافتہ طبقہ فکری انحراف سے دوچار ہو جائے تو اس معاشرہ کے عام لوگوں کے انحراف اور گمراہی کا میدان بھی ہموار ہو جاتا ہے کہ ”اِذَا فَسَدَ الْعَالِمُ فَسَدَ الْعَالَمُ” جب عالم فاسد و گمراہ ہو جاتا ہے تو سارا عالم فاسد و گمراہ ہو جاتا ہے۔

اس بنا پر مذکورہ ثقافتی فتنہ کہ جس سے پیغمبر اکرم (ص) نے خبردار کیا ہے، وہ ان خطرناک ترین امور میں سے ہے جو کہ لوگوں کی دنیا و آخرت کی سعادت کو خطرے میں ڈالتا ہے۔

ہمارا خیال ہے کہ ایسے خطروں سے مقابلے کے لئے اسلامی حکومت کو چاہئے کہ حقائق دین بیان کرنے اور قرآن کے مکتب فکر اور معارف کو نشر کرنے کی قدرت کے اعتبار سے اتنی قوی ہو، اور پرائمری (مکتب) سے لیکر کالج اور یونیورسٹی تک کے تعلیمی نظام نیز ملک کے تمام ثقافتی مراکز کو اپنی دقیق نظارت کے تحت رکھے اتنا کہ اسلام کے دشمن اور بدخواہ افراد ثقافتی اور فکری ماحول کو پرآشوب کر کے دوسروں کو گمراہ کرنے پر قادر نہ ہوں۔

دوسری طرف علمائے دین کا اہم ترین فریضہ بھی لوگوں کی ہدایت و اصلاح کرنا (خصوصاً معاشرہ کے جوان طبقہ کی اصلاح اور ہدایت جو کہ دینی معارف اور قرآنی علوم سے کافی آشنائی نہیں رکھتے) اور ثقافتی فتنہ کا مقابلہ کرنا ہے۔

یہ دینی علماء کا فریضہ ہے کہ توضیح و تفصیل کے ساتھ عوام او رجوان نسل کو ثقافتی اوراعتقادی خطروں سے اور دشمنان دین کی سازش سے آگاہ کریں اور انھیں شیطانی جالوں سے بچائیں۔ اور یہ دیندار لوگ ہی ہیں جو کہ باعمل دینی علماء کی حمایت و نصرت کے ساتھ معاشرہ کی ہدایت کے لئے اہم اور بڑے فرائض کے انجام دینے میں ان کا ساتھ دے سکتے ہیں۔

جیسا کہ کتاب کے شروع میں بیان کیا تھا اب ہم اس حصہ میں حضرت علی – کی نظر سے نہج البلاغہ میں مذکورہ دینی ثقافت اور مکتب فکر کے مخالفین کے علل و مقاصد کو ذکر کر تے ہیں۔ پہلے ہم حضرت علی – کی نظر سے مذکورہ افراد کا تعارف کرائیں گے پھر بحث کو دینی مکتب فکر اور قرآنی تعلیمات و احکام کی مخالفت میں ان افراد کے علل و مقاصد کو بیان کر کے ختم کردیں گے۔

دینی معارف میں تحریف کرنے والے حضرت علی – کی نظر میں

امیر المومنین حضرت علی – ان لوگوں کو جو حقائق دین میں تحریف کرنا اور لوگوں کی دینی تہذیب و ثقافت کو برباد کرنا چاہتے ہیں، عالم نما جاہل کہتے ہیں۔

حضرت علی(ع) ارشاد فرماتے ہیں: ”وَ آخَرُ قَد تُسَمَّی عَالِمًا لَیسَ بِہِ”١؎ قرآن کے سچے پیرووں کے مقابل ایک دوسرا گروہ بھی ہے جو کبھی کبھی معاشرہ کے درمیان عالم و دانشور تصور کیا جاتا ہے، اس نے اپنا نام عالم رکھ لیا ہے حالانکہ اسے علم سے کوئی واسطہ نہیں ہے۔

ایسے لوگ حقیقت سے خالی اورعاریتی عناوین سے سوء استفادہ کر کے لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں۔ ممکن ہے یہ سوال قارئین کے سامنے آئے کہ تو پھر جو کچھ یہ لوگ علمی اور دینی مطالب کے نام سے بیان کرتے ہیں وہ کیا ہے؟ وہ لوگ جو اپنی باتوں کو دین و قرآن سے ماخوذ قرار دیتے ہیں ان کو حضرت علی – جواب دیتے ہیں: ”فَاقْتَبَسَ جَہَائِلَ مِن جُہَّالٍ”٢؎ یہ لوگ جو کچھ دین سے اپنے اخذ شدہ مفاہیم اور علمی مطالب کے نام سے بیان کرتے ہیں اور دین کی مختلف قرائتوں کے بہانے سے دین پر اپنے باطل عقائد لادنا چاہتے ہیں، وہ ایسی جہالتیں ہیں جو کہ دوسرے جاہل و نادان انسانوں سے لی گئی ہیں اور وہ انھیں دینی معارف اور علمی مطالب کے نام سے بیان کرتے ہیں۔

شاید آپ کو تعجب ہو کہ کیسے ممکن ہے کہ لوگ جہل و نادانی کو دوسروں سے حاصل کرتے ہیں؟ دوسروں سے جہل و نادانی کے حاصل کرنے کے کیا معنی ہیں؟ اس بات کے لئے کہ ہم حضرت علی – کے کلام کے ا عجاز سے واقف ہوں اور حق سے منحرف افراد

…………………………………………………

(١) نہج البلاغہ ، خطبہ ٨٦ ۔

(٢)نہج البلاغہ ، خطبہ ٨٦ ۔

کے مقابل اصلاح و ہدایت سے متعلق اپنی ذمہ داری سے زیادہ سے زیادہ آشنا ہوں، دوسروں کی ان جہالتوں او رنادانیوں سے جو آج علمی سوغاتوں کے نام سے بیان کی جارہی ہیں، عالم نما جاہلوں کے اقتباس کے ایک نمونہ کی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔

آج کل مغرب میں یہ فلسفی فکر رائج ہے کہ حصول علم انسان کے لئے نا ممکن ہے اور انسان کو چاہئے کہ ہر چیز میں شک کرتاہو اور ہرگز کسی چیز کے بارے میں یقین پیدا نہ کرے۔

اس نظریہ کے طرفدار معتقد ہیں کہ اگر کوئی شخص کہے کہ میں کسی مطلب اور بات کا یقین رکھتا ہوں تو یہ اس کی نافہمی اور حماقت کی نشانی ہے، اس لئے کہ کسی چیز کا علم ممکن ہی نہیں ہے۔

وہ لوگ اس شک و جہل پر بڑے فخر کے ساتھ کہتے ہیں کہ علم و دانش اور عقل مندی کی علامت یہ ہے کہ انسان کسی مطلب کا ، خواہ دینی ہو یا غیر دینی، یقین نہ کرے۔ ایسی اٹکل پچو باتیں تقریباً ایک سو سال سے اہل یورپ کے درمیان چھڑی ہوئی ہیں اور اس سے پہلے شکّاکین١؎ کی فکری بنیاد رہی ہیں۔

آج کل ہمارے معاشرہ میں بھی کچھ لوگ ان کی جاہلانہ باتوں کومبنیٰ قرار دیکر اسی بات کے درپے ہیں کہ لوگوں کے دینی معتقدات میں شک و شبہہ پیدا کر کے، اس بہانے سے کہ ہم کسی چیز کے متعلق یقینی معرفت نہیں حاصل کرسکتے، ان کو اپنے دینی اعتقادات میں

…………………………………………………

(١) شکّاکین: قدیم یونان میں حکماء کا ایک گروہ تھا، جو اس بات کا قائل تھا کہ تجربہ سے ماوراء کسی بھی چیز کا علم محال ہے اور کسی امر میں قطعی رائے اور حکم کا اظہار نہیں کرنا چاہئے اور تمام امور کو شک و شبہہ کے ساتھ دیکھنا چاہئے (مترجم)۔

سست اور کمزور کردیں اور اپنے نفسانی خواہشات اور مقاصد کو عملی جامہ پہنائیں۔

نرالی بات یہ ہے کہ وہ لوگ ان باتوں کو علمی مطالب کے نام سے بیان کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ ہمارے بافہم اور نکتہ سنج لوگ ان کو قبول کرلیں۔

امیر المومنین حضرت علی – پوری تاریخ میں ایسے شیطان صفت انسانوں کے وجود کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ”فَاقْتَبَسَ جَہَائِلَ مِن جُہَّالٍ وَ اَئَضَالِیلَ مِن ضُلَّالٍ”١؎ وہ لوگ ایک گمراہ او رجاہل گروہ سے جاہلانہ اور گمراہ کن باتیں لے لیتے ہیں اور ان کو علمی مطالب کے عنوان سے بیان کرتے ہیں۔ ان کی علمی بات یہ ہے کہ ہر چیز میں شک کرنا چاہئے اور بشر کو کسی چیز میں علم و یقین نہیں پیدا کرنا چاہئے، دینی امور میں ہر شخص جو بھی سمجھتا ہے وہی حق ہے، اس لئے کہ اصلاً کوئی حق و باطل وجود نہیں رکھتا، حق و باطل کے لئے ہر شخص کی ذاتی سمجھ کے علاوہ کوئی معیار نہیں پایا جاتا۔

”وَ نَصَبَ لِلنَّاسِ اَشْرَاکاً مِن حَبَائِلَ غُرُورٍ وَ قَولِ زُورٍ”٢؎ اس گمراہ و نادان گروہ اور عالم نما جاہلوںنے مکر و فریب اور جھوٹی باتوں کے جال بچھا دیئے ہیں اور لوگوں کو اپنے گمراہ کن اقوال و اعمال سے فریب دیتے ہیں۔

”قَد حَمَلَ الْکِتَابَ عَلٰی آرَائِہِ”٣؎ یہ لوگ قرآن کریم کی تفسیر اپنی رائے سے کرتے ہیں اور اس کی آیات کو اپنے افکار و خیالات پر حمل کرتے ہیں اور حق کو اپنے نفسانی میلانات و خواہشات کے مطابق قرار دیتے ہیں۔

………………………………………………..

(١) نہج البلاغہ، خطبہ ٨٦ ۔     (٢)گزشتہ حوالہ ، خطبہ ٨٦ ۔    (٣)گزشتہ حوالہ ، خطبہ ٨٦ ۔

پھر حضرت علی – ان افراد کے تبلیغاتی ہتھکنڈوں کو قابل توجہ قرار دیتے ہیں اور فرماتے ہیں: وہ لوگ لوگوں کی توجہ اور دوسروں کو اپنی طرف کھینچنے کے لئے لوگوں کو گناہان کبیرہ اور ان کے برے انجام سے محفوظ قرار دیتے ہیں اور لوگوں کو ان کے ا نجام دینے کی تشویق کرتے ہیں اور جرائم و معاصی کے ارتکاب کو لوگوں کی نظر میں آسان اور بے اہمیت بنادیتے ہیں۔

یہ لوگ حقیقت میں ان حرمت شکنیوں کے ذریعہ لوگوں میں دینی غیرت اور خدا ترسی کے جذبہ کو کمزور کردیتے ہیں۔

حضرت علی – فرماتے ہیں: یہ لوگ بحث و گفتگو میں ایسا ظاہر کرتے ہیں کہ ہم شبہات کے مواقع پر توقف کرتے ہیں اور مشکوک و مشتبہ احکام اور باتیں کہنے سے پرہیز کرتے ہیں، حالانکہ یہ لوگ دین و شریعت کے احکام و موازین سے بے خبر اور شبہات کے بھنور میں پھنسے ہوئے ہیں۔

باتوں میں اس طرح اظہار کرتے ہیں کہ ہم خلاف دین احکام اور بدعتوں سے الگ رہتے ہیں، حالانکہ بدعتوں ہی کے درمیان اٹھتے بیٹھتے ہیں چنانچہ دین کے بارے میں وہ جو بات اپنی رائے سے کہتے ہیں، وہ بدعت ہے۔

ایسے انسان اگر چہ صورت میں انسان ہیں لیکن ان کا قلب و روح جانوروں کا قلب و روح ہے، کیونکہ یہ نہ تو باب ہدایت کو پہچانتے ہیں کہ اس کا اتباع کر کے ہدایت یافتہ ہو جائیں، اور نہ ضلالت و گمراہی کے دروازے کو پہچانتے ہیں کہ اس سے الگ رہیں، یہ افراد در حقیقت زندوں کے درمیان چلتی پھرتی لاشیں ہیں۔

پھر حضرت علی – لوگوں کو مخاطب کر کے فرماتے ہیں: حق و باطل واضح ہو جانے اور ہر ایک کو پہچاننے کے بعد آخر تم لوگ کدھر جارہے ہو اور تمھیں کس سمت موڑا جارہا ہے؟ جبکہ حق کے عَلَم قائم ہیں اور اس کی آیات اور نشانیاں واضح ہیں، منارے نصب کئے جاچکے ہیں اور تمھیں بھٹکایاجارہا ہے اور تم بھٹکے جارہے ہو، دیکھو تمھارے درمیان تمھارے نبی (ص) کی عترت (اہلبیت(ع)) موجود ہے، یہ سب حق کے زمامدار، دین کے عَلَم اور صداقت کی زبان ہیں، انھیں قرآن کریم کی بہترین منزل پر جگہ دو اور ان کے پاس اس طرح وارد ہو جس طرح پیاسے اونٹ چشمہ پر وارد ہوتے ہیں۔

تمھیں اہلبیت رسول (ص) کے انوار ہدایت سے روشنی حاصل کرنا چاہئے، تو پھر کیوں اپنے کو علوم اہلبیت (ع) سے محروم کئے ہو اور حیران و سرگرداں کیوں ہو؟

قرآن کریم حضرت علی – کے بیان سے بھی زیادہ سخت بیان کے ساتھ ان عالم نما جاہلوں کا نام لیتا ہے اور لوگوں کو ان کی فریب کاریوں سے ڈارتے ہوئے فرماتا ہے: ”وَ کَذٰلِکَ جَعَلنَا لِکُلِّ نَبِیٍّ عَدُوّاً شَیَاطِینَ الاِنسِ وَ الجِنِّ یُوحِی بَعضُہُم اِلٰی بَعضٍ زُخْرُفَ الْقَولِ غُرُوراً وَ لَو شَاءَ رَبُّکَ مَافَعَلُوہُ فَذَرْہُم وَ مَایَفتَرُونَ”١؎ اور اسی طرح ہم نے ہر نبی کے لئے انس و جن کے شیاطین کو ان کا دشمن قرار دیا ہے یہ آپس میں ایک دوسرے کی طرف دھوکہ دینے کے لئے مہمل باتوں کے اشارے کرتے ہیں اور اگر خدا چاہ لیتا تو یہ ایسا نہ کرسکتے ، لہذا اب آپ انھیں ان کے افترا کے حال پر چھوڑ دیں۔

…………………………………………………

(١) سورہ  انعام، آیت ١١٢ ۔

انبیاء (ع) کے دشمن اور ہدایت الٰہی کے مخالف اگر چہ ظاہری صورت میں انسان ہیں، لیکن چونکہ ان کی تمام کارستانیاں اور کوششیں، دوسروں کو گمراہ کرنے، شبہوں اور وسوسوں میں ڈالنے، لوگوں کے دینی اعتقادات کو کمزور کرنے اور ہدایت الٰہی کا مقابلہ کرنے کے علاوہ کوئی نتیجہ نہیں رکھتیں، لہذا قرآن ان کو شیاطین انس کہتا ہے اور لوگوں کو ان کی پیروی سے روکتا ہے۔

قرآن کے ساتھ مسلمان نما دنیا پرستوں کا برتاؤ

جو لوگ خدا پر ایمان اوراس کے لوازم کے اعتبار سے ذرا سا بھی قوی نہیں ہیں اور شائستہ و بائستہ طور سے ایمان ان کے قلب و روح میں رسوخ نہیں کئے ہے، وہ لوگ نفسانی خواہشات اور خدا کی خواہش نیز دینی اقدار کے درمیان تعارض کے موقع پر خوشروئی کا اظہار نہیں کرتے اور روحی اعتبار سے چاہتے ہیں کہ دینی احکام و اقدار کی اپنی نفسانی خواہشات کی جہت میں من مانی طور پر تفسیر و توجیہ کریں۔ اور اگر دین و قرآن کی تفسیر ان کی نفسانی خواہشات سے میل کھاتی ہے تو اس گروہ کو بہت اچھا لگتا ہے، کیونکہ ایک طرف اپنی نفسانی خواہشات کو بھی حاصل کرلیتے ہیں اور دوسری طرف بظاہر اسلام کے دائرہ سے خارج بھی نہیں ہوتے اور اسلامی معاشرہ میں مسلمان ہونے کی خصوصیات اور مراعات سے بھی بہرہ مند ہوتے ہیں۔

اسی طرح واضح سی بات ہے کہ جن لوگوں کی روح و جان میں ا یمان و تقویٰ راسخ نہیں ہے اور الٰہی احکام نیز دینی اقدار کے ذرا سا بھی پابند نہیں ہیں وہ بھی دین و قرآن سے حاصل کردہ ایسے من پسند مطالب کا استقبال کرتے ہیں اور جو لوگ دین و قرآن اور دینی اقدار کی تفسیر و توجیہ ان کے نفسانی خواہشات کے مطابق کرتے ہیں وہ ان کی پیروی کرتے ہیں، انھیں اپنا نمونہ قرار دیتے ہیں اور ان کی تعریف و تمجید کرتے ہیں۔ نیز فطری طور پر ایسے لوگ دینی علماء کے اس گروہ سے اچھا سلوک نہیں رکھتے جو کہ قرآن و احکام کی تفسیر و توجیہ حق کے مطابق کرتے ہیں اور لوگوں کے ذوق و شوق اور پسند کے موافق نہیں کرتے ہیں۔

بہت افسوس ہے کہ آج کل ہم دیکھتے ہیں کہ بہت سے لوگ دینی متون و کتب کی مختلف قرآئتوں کے بہانے سے اس بات کے درپے ہیں کہ اپنے نفسانی میلانات و خواہشات پر دینی رنگ چڑھائیں اور اپنے دنیوی اغراض و مقاصد تک پہنچنے کے لئے دین خدا اور قرآن کریم کے ساتھ کھلواڑ کریں۔

امیر المومنین حضرت علی – مذکورہ حالت کی پیشین گوئی کے ساتھ اپنے زمانہ اور آخری زمانہ میں قرآن کی غربت و مہجوریت کے متعلق شکوہ کرتے ہیں اور ارشاد فرماتے ہیں:

”اِلَی اللّٰہِ اَشْکُو مِن مَعشَرٍ یَعِیشُونَ جُہَّالًا وَ یَمُوتُونَ ضُلاَّلاً وَ لَیسَ فِیہِم سِلْعَۃٌ أَبْوَرُ مِنَ الْکِتَابِ اِذَا تُلِیَ حَقَّ تِلاوَتِہِ وَ لاسِلْعَۃٌ أَنفَقُ بَیْعاًوَ لا أَغْلَیٰ ثَمَناً مِنَ الْکِتَابِ اِذَا حُرِّفَ عَنْ مَوَاضِعِہِ”١؎

میں خداوند متعال کی بارگاہ میں فریاد کرتا ہوں ایسے گروہ کی جو زندہ رہتے ہیں تو جہالت کے ساتھ اور مرجاتے ہیں تو ضلالت کے ساتھ، ان کے نزدیک کوئی متاع،

…………………………………………………

(١) نہج البلاغہ، خطبہ ١٧ ۔

کتابِ خدا سے زیادہ بے قیمت نہیں ہے جبکہ اس کی واقعی تلاوت کی جائے اور اس کی برحق تفسیر کی جائے، اور کوئی متاع اس کتاب سے زیادہ قیمتی اور فائدہ مند نہیں ہے جبکہ اس کے مفاہیم میں تحریف کردی جائے اور اسے اس کے مواضع سے ہٹا دیا جائے۔

اسی طرح امیر المومنین حضرت علی – آخری زمانہ کے لوگوں کے درمیان قرآن اور معارف دین کی حیثیت کے متعلق ارشاد فرماتے ہیں:

”وَ اِنَّہُ سَیَأتِی عَلَیکُمْ مِن بَعدِی زَمَانٌ لَیسَ فِیہِ شَیءٌ أَخْفَیٰ مِنَ الْحَقِّ وَ لا أَظْہَرَ مِنَ الْبَاطِلِ وَ لااَکْثَرَ مِنَ الْکِذْبِ عَلَی اللّٰہِ وَ رَسُولِہِ وَ لَیسَ عِندَ أَہلِ ذٰلِکَ الزَّمَانِ سِلْعَۃٌ اَبْوَرَ مِنَ الْکِتَابِ اِذَا تُلِیَ حَقَّ تِلاوَتِہِ وَ لا أَنفَقَ مِنہُ اِذَا حُرِّفَ عَن مَوَاضِعِہِ وَ لا فِی الْبِلادِ شَیءٌ اَنْکَرَ مِنَ الْمَعرُوفِ وَ لا أَعرَفَ مِنَ الْمُنْکَرِ فَقَد نَبَذَ الْکِتَابَ حَمَلَتُہُ وَ تَنَاسَاہُ حَفَظَتُہُ فَالْکِتَابُ یَومَئِذٍ وَ اَہْلُہُ طَرِیدَانِ مَنفِیَّانِ وَ صَاحِبَانِ مُصْطَحِبَانِ فِی طَرِیقٍ وَاحِد ٍ لا یُؤوِیہِمَا مُؤوٍ فَالْکِتَابُ وَ اَہْلُہُ فِی ذَالِکَ الزَّمَانِ فِی النَّاسِ وَ لَیْسَا فِیہِم وَ مَعَہُمْ وَ لَیْسَا مَعَہُمْ لِاَنَّ الضَّلالَۃَ لاتُوَافِقُ الْہُدَیٰ وَ اِنِ اجْتَمَعَا فَاجْتَمَعَ الْقَوْمُ عَلٰی الْفُرْقَۃِ وَافْتَرَقُوْا عَلیٰ الْجَمَاعَۃِ کَأَنَّہُم أَئِمَّۃُ الْکِتَابِ وَ لَیْسَ الْکِتَابُ إِمَامَہُمْ”١

”یقینا میرے بعد تمھارے سامنے وہ زمانہ آنے والا ہے جس میں کوئی شے حق

…………………………………………………

(١)نہج البلاغہ، خطبہ ١٤٧ ۔

سے زیادہ پوشیدہ اور باطل سے زیادہ نمایاں نہ ہوگی، سب سے زیادہ رواج خدا اور رسول (ص) پر افتراء کا ہوگا اور اس زمانے والوں کے نزدیک کتاب خدا سے زیادہ بے قیمت کوئی متاع نہ ہوگی اگر اس کی واقعی تلاوت کی جائے اور اس سے زیادہ کوئی فائدہ مند بضاعت نہ ہوگی اگر اس کے مفاہیم کو ان کی جگہ سے ہٹا دیا جائے، شہروں میں ”منکَر” سے زیادہ معروف اور ”معروف” سے زیادہ منکَرکچھ نہ ہوگا، حاملان کتاب کتاب کو چھوڑ دیں گے اور حافظان قرآن قرآن کو بھلادیں گے، کتاب اور اس کے واقعی اہل، شہر بدر کردیئے جائیں گے اور دونوں ایک ہی راستہ پر اس طرح چلیں گے کہ کوئی پناہ دینے والا نہ ہوگا، کتاب اور اہل کتاب اس دور میں لوگوں کے درمیان رہیں گے لیکن واقعاً نہ رہیں گے، انھیں کے ساتھ رہیں گے لیکن حقیقتاً الگ رہیں گے، اس لئے کہ گمراہی، ہدایت کے ساتھ نہیں چل سکتی ہے چاہے دونوں ایک ہی مقام پر رہیں، لوگوں نے افتراق پر اتحاد اوراتحاد پر افتراق کرلیا ہے جیسے یہی قرآن کے امام اور پیشوا ہیں اور قرآن ان کا امام و پیشوا نہیں ہے”۔

نہایت ضروری ہے کہ ہمارا معاشرہ آئندہ کے افراد اور دینی حالات کے متعلق قرآن اور نہج البلاغہ کی ان پیشین گوئیوں کو قابل توجہ قرار دے اور اپنے معاشرہ پر غالب و حاکم ثقافتی اور فکری حالت کو بھی ملاحظہ کریں اور اس کا ان پیشین گوئیوں سے مقائسہ کریں تاکہ خدانخواستہ اگر معاشرہ کا دینی ماحول غلط سمت میں دیکھیں تو خطرہ کا احساس کریںاور معاشرہ کے دینی ماحول کی اصلاح کریں، ہر زمانہ کے لوگوں کو چاہئے کہ ولی فقیہ اور دینی علماء کی پیروی کے ذریعہ اپنے عقیدتی حدود اور دینی اقدار کی حفاظت و حراست کا انتظام کریں اور قرآن کو نمونہ قرار دیکر اپنے کو آخری زمانہ کے فتنوں سے محفوظ رکھیں اور ان پیشین گوئیوں کا مصداق قرار پانے سے ڈریں اور پرہیز کریں۔

بہرحال امیر المومنین حضرت علی – ایسی پیشین گوئی فرماتے ہیں کہ: ”ایک زمانہ میرے بعد آنے والا ہے کہ اس زمانہ میں کوئی چیز حق سے زیادہ مخفی اور کوئی چیز باطل سے زیادہ مشہو رنہ ہوگی، اس زمانہ میں خدا اور رسول خدا پر افتراء سب سے زیادہ امور میں سے ہوگا جو کہ عالم نما جاہل اور دنیا پرست منافقین اپنے مقاصد حاصل کرنے کے لئے انجام دیں گے۔

لوگوں کو حضرت علی – کی تنبیہ

جو بات اس خطبہ میں بہت زیادہ اہمیت کی حامل ہے اور ایک سخت تنبیہ لوگوں کے لئے سمجھی جاتی ہے یہ ہے کہ آئندہ تمام لوگوں کے ماحول اور روحی کیفیت کی تصویر کشی ہے۔ جو کچھ اب تک قرآن کریم کی آیات اور حضرت علی – کے کلام سے اس کتاب میں زیر بحث و گفتگو قرار دیا گیا ہے اگرچہ وہ تمام لوگوں سے خطاب ہے، لیکن ان میں زیادہ تر روئے سخن معاشرہ کے خواص اور ان لوگوں کی طرف ہے جو معاشرہ کے کلچر اور ماحول کو تحت تاثیر قرار دینے والے ہیں۔

اس خطبہ میں حضرت علی – معاشرہ کے بعض خواص پر غالب و حاکم روح کی توضیح کے بعد، کہ وہ لوگ اپنے د نیوی اغراض و مقاصد حاصل کرنے کے لئے سب سے زیادہ افترا اور جھوٹ کی نسبت خدا اور پیغمبر (ص) کی طرف دیتے ہیں اور دین و قرآن کی تفسیر اپنی رائے سے کر کے لوگوں کو گمراہی کی طرف کھینچتے ہیں، تمام لوگوں پر غالب و حاکم مکتب فکر اور ماحول کے متعلق اس طرح پیشینگوئی فرماتے ہیں: اس زمانہ کے لوگ بھی ایسے ہیں کہ اگر قرآن اور کتاب خدا کی صحیح اور برحق تفسیر و توضیح کی جائے تو وہ ان کے نزدیک سب سے زیادہ گھٹیا اور بے قیمت چیز ہے، اور اگر ان کے نفسانی خواہشات کے مطابق تفسیر کی جائے تو ان کی نظر میں وہ سب سے زیادہ رائج اور پر رونق چیز ہے۔

اس زمانہ میں دینی تعلیمات اور الٰہی اقدار لوگوں کی نظر میں سب سے زیادہ ناپسند اور برے سمجھے جائیں گے اور مخالف دین چیزیں سب سے زیادہ پسندیدہ اور محبوب سمجھی جائیں گی۔

باخبر لوگوں پر یہ بات پوشید ہ نہیں ہے کہ قرآن کے دشمن اور سامراجی طاقتیں آج اس بات کے درپے ہیں کہ ایسے مکتب فکر اور ماحول کو ہمارے معاشرہ پر حاکم کریں۔

وہ لوگ ثقافتی اور فکری حملہ کی سازش کر کے دینی مقدسات پر حملہ اور مخالف دین چیزوں کی تبلیغ کے ساتھ چاہتے ہیں کہ دھیرے دھیرے اسی ماحول کو ہمارے معاشرہ پر غالب و حاکم کردیں کہ جس کی امیر المومنین حضرت علی – نے پیشین گوئی کی ہے اور لوگوں کو اس میں مبتلا ہونے سے ڈرایاہے۔

حضرت علی – اس کے آگے ارشاد فرماتے ہیں: ”اس زمانہ میں کلام خدا سے آشنا افراد سے بے اعتنائی کے علاوہ، اور حافظان قرآن سے، کہ جن کا فریضہ دینی اقدار کی حفاظت و پاسداری ہے، انجام فریضہ میں غفلت و فراموشی کے علاوہ کوئی تحرک نہیں دیکھا جائے گا۔

اس زمانہ میں قرآن اور اس کے سچے پیرو اور علمائے دین اگرچہ لوگوں کے درمیان ہوں گے لیکن درحقیقت ان سے جدا ہوں گے اور لوگ بھی ان سے دور ہوں گے اس لئے کہ وہ ان کو گوشہ نشین اور کنارہ کش کر کے ان کی پیروی نہیں کریں گے۔ وہ حضرات اگرچہ لوگوں کے درمیان ہی زندگی بسر کریں گے لیکن لوگوں کے دل ان کے ساتھ نہ ہوں گے کیونکہ جو راستہ لوگ اختیار کریں گے گمراہی ہوگی اور وہ راہ قرآن کے ساتھ، جو کہ راہ ہدایت ہے، جمع نہیں ہوسکتا۔

آخر میں حضرت علی – ارشاد فرماتے ہیں:

”فَاجْتَمَعَ الْقَومُ عَلٰی الْفُرقَۃِ وَ افْتَرَقُوا عَلیٰ الْجَمَاعَۃِ کَأَنَّہُم أَئِمَّۃُ الْکِتَابِ وَ لَیْسَ الْکِتَابُ إِمَامَہُمْ”

لوگ اس زمانہ میں افتراق و اختلاف پر اجتماع کریں گے۔ گویا اس بات پر توافق کرلیں گے کہ قرآن اور حقیقی مفسرین سے موافقت نہ کریں، اور اس حال میں کہ گویا خود کو قرآن کا رہبر سمجھیں گے اور قرآن کی تفسیر و توجیہ اپنی نفسانی خواہشات کے مطابق کریں گے، عالم نما جاہلوں کی پیروی کر کے، حقیقی مفسرین، دینی علماء اور سچے مسلمانوں سے جدا ہو جائیں گے اور ان سے فاصلہ اختیار کرلیں گے،بجائے اس کے کہ فکر و عمل میں قرآن کو اپنا امام، رہبر اور راہنما قرار دیں، قرآن کو پیچھے چھوڑ کر اس کی امامت و رہبری سے روگردانی کریں گے او ردین و قرآن کی تفسیر اپنی رائے سے کریں گے۔

اس وقت دین و قرآن کے دشمنوں نے مسلمان قوم کو ان کی دینی شخصیت سے کھوکھلا کرنے کے لئے اپنی تمام قوتیں صرف کردی ہیں اور اس کوشش میںہیں کہ ان کے دینی عقائد کمزور کر کے ان کی شخصیت، آزادی اور استقلال کو چھین لیں۔

ان حالات کی اہمیت اور حساسیت کے پیش نظر بہت ضروری ہے کہ ملت مسلمان خصوصاً دینی علماء خطرہ کو سمجھیں اور ہوش میں آجائیں اور ا پنے کو ہرگز اسلام و قرآن کے دشمنوں کے خطرے سے محفوظ نہ سمجھیں۔

اس درمیان، جیسا کہ اس کے قبل اشارہ کیا گیا، اہم نکتہ یہ ہے کہ اسلام کے عالمی دشمن اور کفر اپنے سامراجی مقاصد کو حاصل کرنے کے لئے، لوگوں کے دینی مکتب فکر کے مقابلہ اورثقافتی حملہ میں، فوجی حملہ کے برخلاف، اسلام اور امت اسلامی سے اپنی دشمنی کو علانیہ طور پر ظاہر نہیں کرتے۔

اس حملہ میں وہ لوگ ایسے انسانوں کو اپنا آلہئ کار بناتے ہیں جو ظاہر میں مسلمان ہیں اور اسلامی معاشرہ میں زندگی گزارتے ہیں، جو ایک طرف اجتماعی اور ثقافتی عہدوں اور حیثیتوں کے حامل ہوتے ہیں اور دوسری طرف دینی معارف کے سلسلہ میں کچھ مطالعہ رکھتے ہیں اگر چہ وہ بہت کم او رناقص ہوتا ہے، یہ افراد شعوری یا لاشعوری طور پر بیگانہ طاقتوں کا آلہئ کار بن کر دینی معارف کو تحریف کر کے لوگوں کی گمراہی کے اسباب فراہم کرتے ہیں۔

قرآن کریم کی بہت سی آیات اور ائمہئ معصومین علیهم السلامکی روایات میں ان افراد کی مذمت کی گئی ہے اور لوگوں کو تاکید کی گئی ہے کہ ان کی باتیں سننے سے پرہیز کریں اس لئے کہ یہ افراد دنیوی اوراخروی سعادت کے حصول سے باز رہنے اور گمراہی کا سبب ہوجاتے ہیں۔

تبصرے
Loading...