دين كے ساتھ جمہوريت كا رشتہ

 

واضح سي بات ہے كہ ايك فعال و حيات آفرين دين ميں جو انساني زندگي كے دونوں پہلوؤں ميں قانون سازي اور قانون كا نفاذ خداوند متعال سے مخصوس جانتا ہے ايك ايسي جمہوريت كے لئے كوئي گنجائش نہيں ہے كہ جس كے مطابق قانون سازي اور قانون كے نفاذ كا حق پوري طرح انسان كو عطا كر ديا جاتا ہے اور كم از كم اجتماعى زندگي كے مسائل ميں خداوند متعال كا كوئي كردار اور عمل دخل قابل قبول نہيں سمجھاجاتا اس منزل ميں مناسب نہ ہوگااگر دين اور مدني معاشري ميں دين كے كردار كے متعلق جان جاك روسو كے نظريات بيان كر ديئے جائيں تاكہ دين سے متعلق مغربي طرف تفكر اور نظريات كا ايك گوشہ واضح و آشكار ہو جائے ۔

متن:

جان جاك روسو كا كہنا ہے 11 دين اور معاشري كے درميان جو رشتہ ہے خواہ وہ عمومي سطح كا ہو يا خصوصي سطح كا دو قسموں ميں تقسيم كيا جاسكتا ہے۔

(1) (ايك مستقل) انسان كا دين

(2) (معاشرہ كے ايك) باشندے كا دين

(1) ايك ايسے انسان كا دين جومعاشرہ سے بالكل آزاد ہو عبادت گاہوں اور مسجد ومحراب كے مذہبي اصول و قواعد سے بھي آزاد عبادت وبندگي ميں خداوند متعال سے رشتے اور اخلاقيات كے ناقابل تغيير مسلمہ اصولوں كي بجا اور ي پر اكتفاء كرتا ہو اسے ہم الٰہي دين فطرت كا نام دے سكتے ہيں۔

(2) كسي مخصوس قوم وملت كا معاشرتي دين: يہ كسي خاص قوم وملت ميں رائج اور مقبول دين ہے جس كا پيرو اپنے خداؤں اور معبودوں كو اپني قوم اور جماعت سے مخصوس سمجھتا ہے، يہ دين مخصوس عقائد، شعائر اور اصول وقوانين كي روشني ميں خاص طرز پر عبادت اور ديگر مذہبي فرائض انجا م ديتا ہے، اس دين ميں، اپنے ہم مذہبوں كے علاوہ باقي سب لوگ كافر، جنگلي اور غيرشمار ہوتے ہيں اور سماجي حقوق اور شہري ذمہ داريوں سے محروم ہوتے ہيں، اس دين كو ہم الٰہي دين معاشرت كا نام دے سكتے ہيں اس دين ميں انسان كے لئے واجبات اور حقوق كا دائرہ عباد ت گاہوں تك محدود ہوتا ہے۔

دين كي تيسري قسم بھي موجود ہے جو پہلي دو قسموں سے زيادہ عجيب و غريب ہے كيونكہ يہ دين لوگوں كے لئے دو طرح كے قانون، دو سر براہ اور دو وطنوں كا قائل ہے اور لوگوں كو دو متضاد فرائض كي ادائگي پر مجبور كرتا ہے اور اس بات كي اجازت نہيں ديتا كہ ايك انسان ايك ہي وقت ميں ديندار مومن بھي ہو اور وطن پرست شہري قوانين كا پابند دنيادار انسان بھي۔

اس طرح كا دين بودھ لاماؤں LAMA اور، جاپانيوں نيز رومي عيسائيوں كا ہے اس كو مذہبي قائدين كا دين كہا جاسكتا ہے، اس دين كي بنياد خلط ملط آپس ميں الجھے ہوئے ايسے قوانين پر قائم ہے كہ جس كو كوئي نام نہيں ديا جاسكتا، جب ہم سياسي نطقہ نظر سے ان تين قسموں كے اديان كا جائزہ ليتے ہيں تو پتہ چلتا ہے ان تينوں قسموں كے دين ميں كمياں اور نقائص موجود ہيں۔

تيسري قسم كے دين ميں موجود خرابياں اس قدر واضح اور نماياں ہيں كہ اس كي خرابيوں اور نقائص كے باري بحث كرنا وقت ضائع كرنے كے مترادف ہوگا۔

دين كي دوسري قسم اس پہلو سے كہ اس ميں خدا پرستي كا جذبہ قوانين كے احترام كے ساتھ جڑا ہوا ہے بڑي حد تك ٹھيك ہے، يہ دين لوگوں كو تعليم ديتا ہے كہ ملك و وطن كي حكومت كے ذريعے خدمت اس ملك كے خداؤں كي خدمت ہے اور وطن كي راہ ميں موت شہادت كا درجہ ركھتي ہے اور قوانين كي خلاف ورزي شرك و الحاد ہے، ليكن اس طرح كے دين كي خرابي ہے كہ ا س نے اپني بنياد جھوٹ اور بشريت كو فريب دينے پر ركھي ہے اہل مذہب كو وہم و خرافات پر جلدي سے يقين كر لينے كا عادي اور عبادت كو كھوكلي رسومات كي بھينٹ چڑھا ديتا ہے اس كي ايك اور خرابي يہ ہے كہ يہ آدمي كوتنگ نظر اور سركش بنا ديتا ہے اور يہ چيز لوگوں كو خونخوار اور متعصب بناديتي ہے اور وہ كشت و خونريزي كي فكر ميں رہتے ہيں اور دوسري مذاہب كے افراد كا قتل ايك مقدس عمل سمجھنے لگتے ہيں چنانچہ اگر كوئي شخص اس دين پر ايمان نہ لائے تو اس دين كے مطابق واجب القتل ہے۔ اس طرح كي قوميں دوسري اقوام كے ساتھ ہميشہ جنگ و دشمني كي حالت ميں رہتي ہيں اور خود ان كي سلامتي بھي ہميشہ خطري ميں رہتي ہے۔

باقي رہ گئي پہلي انفرادي يا دروني دين كي قسم جسے دين انسانيت يا دين مسيحيت كہا جا سكتا ہے، البتہ موجودہ عيسائي مذہب نہيں جو اصل انجيل كي تعليمات سے ميلوں دور ہو چكا ہے اس مقدس دين اور اس كے پاكيزہ آئين كے مطابق جو ايك اكيلا حقيقي دين سمجھا جاتا ہے تمام لوگ اپنے آپ كو خدا كا بيٹا تصور كرتے ہيں اور آپس ميں بھائي اور براردي كا رشتہ ركھتے ہيں جس معاشري كو مل كر تعمير كرتے ہيں موت كي منزلوں تك بكھرنے نہيں پاتا ليكن اس دين كا سياسي امور اور حكمرانوں سے كوئي تعلق و رابطہ نہيں ہوتا قوانين كو اپنے حال پر چھور ديتے ہيں۔

قانون كي مزيد تقويت كي كوئي فكر نہيں كرتا، اس طرح انسان جو ايك دوسري سے جڑے ہوئے ہيں اكٹھا ہوتے ہيں ليكن يہ رشتہ اور اجتماع ان كي زندگي ميں كوئي اثر مرتب نہيں كرتے بلكہ اس سے بڑھ كر دين مسيحيت (عيسائي مذہب) كي مشكل يہ ہے كہ اس ميں نہ صرف يہ كہ ہم وطنوں كا حكومت كے امور سے كوئي رابطہ ايجاد كرنانہيں چاہتا بلكہ ان كے درميان فاصلہ بڑھانے كي كوشش كرتا ہے بلكہ تمام دنياوي امور كي نسبت اپنے پيرؤں كے دل ميں يہي تصور پيدا كرتا ہے، كہا جاتا ہے كہ اصل عيسائي قوم قابل تصور حد تك كامل ترين معاشرہ ہے مگر ہماري خيال ميں اس تصور كے بر خلاف “يہ كامل معاشرہ “ايك انساني معاشرہ كے خصوصيات سے محروم ہے بلكہ اس طرح كامعاشرہ ميري نظر ميں اس طرح كا معاشرہ نہ قوت ركھتا ہے نہ دوام اور نہ ہي اس كے عوام كے درميان كوئي مستحكم رشتہ پايا جاتا ہے اور يہي بے عيب ونقص ہونا اس كے زوال اور خاتمہ كا باعث بنے گا۔

يقينا اس طرح كے معاشري ميں ہر شخص اپنا فريضہ انجام دے گا قوم قانون كو مقدس سمجھے گي سر براہان مملكت انصاف پسند اور خوش اخلاق ہوں گے حكمران نيك نيت اور سچائي پر گامزن ہوں گے، فوجوں ميں موت سے خوف نہيں ہوگا عوام ميں تكبر اور غرور نہيں ہوگا، يہ سب وہ خوبياں ہيں جو معاشري ميں حسن پيدا كرتي ہيں ليكن ہم بحث كي گہرائي ميں جانے كي اجازت طلب كريں گے۔

عيسائيت مكمل طور پر ايك معنوي دين ہے جو فقط آخرت اور اسماني امور پر نگاہ ركھتا ہے جس كے مطابق يہ دنياانسان كا حقيقي وطن نہيں ہے اگر چہ عيسائي اپنے معاشرتي فرائض پر عمل كرتے ہيں ليكن اس كا كوئي مقصد نہيں ہوتا كيونكہ اس دين كے مطابق ان كے انجام دينے كا كوئي اچھا يا بُرا نتيجہ مرتب ہونے والا نہيں ہے بس شرط يہ ہے كہ خود انسان اپني جگہ مرتكب گناہ نہ ہو۔ايك عيسائي كے لئے يہ امر بالكل اہميت نہيں ركھتا كہ دنياوي امور حسن و خوبي كے ساتھ آگے بڑھيں گے يا خرابي كے ساتھ، كيونكہ مملكت خوشحال ہو اور اسائش وآرام كے تمام وسائل فراہم ہوں تو بھي ايك عيسائي اس اسائش سے بہرہ مند نہيں ہو سكتا ۔

كيونكہ اسے خوف لاحق ہتا ہے كہ اگر اپنے ملكي افتخارات پر فخر ومباہات كرے گا تو ايك ناقابل معافي گناہ اور تكبر كا مرتكب ہوجائے گا اگر مملكت ويران اور تباہ و برباد ہوجائے تو گناہگار بندوں كو ان كے اعمال كي سزا ملنے اور ہلاك ہوجانے پر خداكا شكر اداكرتا ہے ايك ايسے معاشري ميں فلاح و بہبود اور نظم ونسق كي بر قراري كے لئے ضروري ہے كہ مملكت كے تمام باشندے كسي بھي استثناء كے بغير پوري طورپر اچھے عيسائي بن جائيں ۔اگر خدانخواستہ ان ميں كوئي ايك شخص بھي خود غرضي جاہ ومقام كا حريص پيدا ہوجائے تو پاكيزہ نفس باشندوں كو دھوكاديكر اپنے مذموم مقاصد كے حصول كے لئے زمين ہموار كر لے گا كيونكہ نيك سادہ دل عيسائي اساني سے اپنے ايك ہم مذہب بھائي كے متعلق بد گماني كي اجازت نہيں دے سكتا، اور جب مكر وفريب كے ذريعے ايك ايسا شخص اپنا تسلط قائم كرے گا اور قوت و اقتدار اس كے ہاتھ ميں آجائے گا تو اپنے لئے بلند وبالا مقام كا قائل ہوگا اور لوگوں سے كہے گا كہ ميرا حترام كرو مجھے بڑا سمجھو اب اگر اس نے اپنے اقتدار سے غلط فائدہ اٹھكيا تو لوگ كہيں گے خدا كي يہي مصلحت ہے كہ اس كے ذريعے لوگوں كي تنبيہ كرے گويا يہ خدائي لاٹھي ہے جس كے ذريعے خدا پنے بندوں كو سزا دے رہا ہے۔

اس طرح ايك عيسائي كا ضميرو وجدان اجازت نہيں ديتا كہ اس غاصب انسان كو (اقتدارسے) بر طرف كر دے كيونكہ اگر ايسا كيا جائے تو لوگوں كے آرام و اسائش ميں خلل واقع ہو گا اسے اقتدار سے ہٹانے كے لئے طاقت كا استعمال كرنا پڑے گا جس سے خونريزي ہوگي عيسائيوں كي نرم دلي اور امن پسندي كے ساتھ يہ چيز ميل نہيں كھاتي۔

علاوہ از ايں ايك عيسائي كي نظر ميں اس چيز كي كوئي اہميت نہيں كہ انسان رنج و الم كي اس فاني دنيا ميں آزاد رہے يا غلام بن كر رہے؟ اصل ہدف و مقصد تومحبت ہے جس كے حصول كا راستہ تسليم ورضا ہے ۔اب اگر كسي دوسري قوم سے جنگ چھڑ گئي تو تمام عيسائي باشندے بڑي اساني سے ميدان جنگ ميں نكل آئيں گے كسي كے ذہن ميں فرار كي فكرپيدا نہيں ہوگي كيونكہ انھيں اپنا مذہبي فريضہ انجام دينا ہے ليكن اس كے ساتھ ہي ان كے دلوں ميں فتح و كاميابي كا نشہ بھي نہيں ہوتا وہ كاميابي سے زيادہ اس امر كي مہارت ركھتے ہيں كہ كيسے مراجائے؟

ان كي نظر ميں فتح و شكست كي كوئي اہميت نہيں!كيا خدا سے زيادہ كوئي ان كي مصلحت سےآگاہ ہے؟ اب يہ ديكھنا ہے كہ ايك معاشرتي دين كے عقائد كيا اور كيسے ہوں؟

جواب يہ ہے كہ معاشرتي دين كے عقائد اسان و مختصر اور دائري معين وو اضح ہوجانے چاہئے كسي تفسير و تشريح كي ضرورت نہ ہو ايك حكيم و فرزانہ قوي و قادر، محسن و كريم، بصير و دور انديش مدبر وآگاہ، خداپرايمان، اخروي زندگى، نيكو كاروں كي سعادت و خوشبختي اور بدكاروں پر عذاب كا يقين معاشرتي معاہدہ اور قوانين كے تقدس پر ايمان و اعتقاد يہ وہ امور ہيں جو معاشرتي دين كے بنيادي عقائد ہونے چاہئے۔اس كے ساتھ ہي ساتھ ديگر تمام اديان سے نرم روي وخوش رفتاري بھي ضروري ہے ليكن ان ہي كے ساتھ جو خود بھي اس اصول پر يقين ركھتے ہوں ليكن جو شخص معاشرتي امور ميں خوش رفتاري اور ديني امور ميں نرمي و سہل انگاري كے درميان فرق كا قائل ہے اور فقط معاشرتي ميدان ميں حسن خلق اور نرمي كا قائل ہے غلطي پر ہے دونوں كو جدا كرنا ممكن نہيں ہے سياسى، عقائد، مذہبي عقائد كے ساتھ وابستہ ہيں يا دونوں ميدانوں ميں سخت رويہ اپنايا جائے گا يا دونوں ميں سہل انگاري سے كام ليا جائے گا۔

ايسے لوگوں كے ساتھ امن و محبت كے ساتھ زندگي گذارنا محال ہے كہ جن كو يقين ہو آخرت كا عذاب اور سزا ان كو مقدر بن چكا ہے كيونكہ ايك ايسے شخص سے محبت كا مطلب يہ ہوگا كہ خدا سے جنگ و دشمني مول لي جائے كہ جس نے اسے عذاب ميں مبتلا كر نے كا فيصلہ كيا ہے، پس ضروري ہے كہ ايسے لوگوں كو ياتو راہ راست پر لكيا جائے اور وہ سچا دين قبول كر ليں يا انھيں سزا دي جائے۔

ليكن عصر حاضر ميں كوئي ايك خطۂ ارض ايسانہيں جہاں پر فقط ايك ہي قومي دين رائج ہو لہٰذا ضروري ہے كہ ان تمام اديان كے ساتھ جو دوسري اديان كے پيرؤں سے نرمي اور خوش رفتاري سے پيش آتے ہيں خوش رفتاري كا رويہ اختيار كيا جائے بشرطيكہ اپنے دين و عقائد اور قوم ووطن كے تئيں فرايض كو ضررو نقصان نہ پہنچے ۔ 12

جان جاك روسو كي (دين سے متعلق) اس تحرير كو پڑھ كر يہ حقيقت آشكار ہوجاتي ہے كہ “روسو”نے دين كو انسان كے خود ساختہ اصولوں اور تحريف شدہ آئين و دستور كي روشني ميں ديكھا ہے ايسے آئين جو دين كي حقيقي روح سے بے بہرہ ہيں اور انساني تمدن اور زندگي كے اصولوں سے دور كچھ خشك تعليمات كے سوا كچھ نہيں ہيں۔اسلام اس طرح كے كھوكھلے تصورات سے بيزار ہے اور اگر ہم دين اسلام كي حيات آفريں تعليمات كي روشني ميں “روسو” كي اس گفتگو كا جائزہ ليں تو اس ميں متعدد كمياں اور كمزورياں موجود مليں گي ان ميں سے بعض كي طرف ہم يہاں اشارہ كرتے ہيں تاكہ حقيقت واضح ہو سكے۔

1) روسو نے اديان كي تقسيم كرتے ہوئے دين كي تيسري قسم كے باري ميں لكھا ہے كہ”اس طرح كا دين حكومت كے نظام قوانين اور وطن سے مختلف نظام قوانين اور وطن كا تصور پيش كرتا ہے اور انسان دونظام دو وطن اور دو حكمران كے درميان سر گرداں اور تقسيم ہو جاتا ہے جس كا نتيجہ بدعنواني اور انحراف كے سوا كچھ نہيں ہو سكتا، يہ چيز معاشرہ كو صحيح سمت ميں حركت سے روك ديتي ہے۔

اسلام ميں ايسا غلط تصور نہيں پايا جاتا ہے اس طرح كي دوگانگي اسلام ميں كہيں نہيں ملے گي اسلام كے مطابق صرف خداوند متعال كو قانون ساز ي كا حق اور اختيار حاصل ہے اور صرف خدا ہي دنيا كا حقيقي حاكم ہے اور اسي نے امت واحدہ كے لئے صحيح سمت ميں حركت كي راہ معين كي ہے، جس طرح خدا كي ذات ميں كوئي اس كا شريك نہيں اسي طرح عبوديت و تشريع يعني بندگي اور قانون سازي كے حق ميں اس كا كوئي شريك نہيں ہے۔

بنا برايں دين اسلام نے ہرگز امت اسلاميہ كو دو نظاموں ميں سرگرداں نہيں چھوڑا ہے، اسلام ميں فقط ايك ہي نظام ہے جو ايك پوري معاشري كي اجتماعى سعادت اور فلاح و نجات كا ضامن ہے اور انسان كے لئے حقيقي كمال كے راستے كي نشان دہي كرتا ہے، انساني زندگي كے مختلف پہلوؤں اور شعبوں كو صحيح رخ ديتا ہے اور خداوند متعال كے لامحدود علم كي روشني ميں انسان كي تمام مشكلات كا حل پيش كرتا ہے اسلام صرف عالم تخليق اور انسان كے اندر محدود نہيں ہے، بنا برايں ايك حقيقي مسلم معاشرہ وہ معاشرہ ہے جس ميں اسلام كي حكمراني ہے اور كسي بھي قسم كے غير اسلامي تسلط و حكمراني كو قبول نہيں كرتا غيروں كي دست درازي سے “اسلامي چہار ديواري” كي پوري طرح حفاظت ركھتا ہے۔

2) روسوكي گفتگو سے ظاہر ہوتا ہے كہ انھوں نے دين كي حقيقت كو ايك حكومت كے لئے اس كي افاديت كے پر تو ميں پركھا ہے كہ دين معاشر ے كے امور كو آگے بڑھنے كے لئے حكومت كو كس قدر وسائل فراہم كرتا ہے يعني ان كي نظر ميں دين كي پركھ كا اعليٰ ترين معيار يہ ہے كہ دين سياسي اور معاشرتي نظام كي گاڑي آگے بڑھانے ميں كس قدر كامياب ہے!!گويا انھوں نے معيارہي كو الٹ ديا ہے!! دين كي شناخت اور اس كي حقانيت پر ايمان كے لئے دين كے عقلي و فطري سرچشموں كو معيار قراردينا چاہئے اگر ايك دين كے معتقدات اور آئين و دستور قابل قبول منطقي ماخذ اور مسلم عقلي دلائل پر استوار و ثابت ہوں اور خداوند متعال كي طرف دين كا منسوب ہونا درست ہو اور دين كي حقانيت پوري طرح ثابت ہو جائے تو انسان اپنے امور كي باگ ڈور دين كے سپرد كر دے گا اور اس الٰہي دين سے زندگي گذارنے كے طريقے اور پروگرام طلب كر ے گا، نہ يہ كہ پہلے اسماني تعليمات سے بي نياز ہو كر نظام بنائيں اور پھر كسي دين كو اس وقت تك قبول نہ كريں جب تك وہ دين خود ہماري تيار كردہ نظام كے رائج كرنے ميں مدد گار نہ ہو اور ہماري طور طريقے كي تائيد نہ كرے۔

3) روسونے اديان كي دوسري قسم بيان كرتے ہوئے كہا ہے كہ يہ دين لوگوں كو خرافات اور توہمات ميں مبتلا كر ديتا ہے اور پروردگار كي عبادت كو كھوكھلے طور طريقوں كا اسير بنا ديتا ہے، ليكن ہم ديكھتے ہيں كہ اسلام كے لئے ہرگز يہ بات صادق نہيں آتى، اسلام ميں عبادات كا نظام اور انساني كمال اور تہذيب و تمدن كي ترقي ميں اسلام كا تعميري كردار بت پرستي اور اسكيم انند ہر قسم كے توہمات و خرافات سے بالكل پاك ہے اور يہي بات كافي ہے كہ ہم اس طرح كے تصورات كي حقيقي الٰہي دين كے بھي گنجائش كي نفي كرديں كسي سلسلے ميں، يہ حقيقت اس وقت مزيد آشكار ہو جاتي ہے جب ہم اسلامي نظام كے حدود اربعہ كا جائزہ ليتے ہيں اور ديكھتے ہيں كہ اس پيكر الٰہي كے وجود اور حيات ميں عبادات كا كس قدر اہم كردار ہے پھر بھي شفاعت اور شفاعت كرنے والوں سے متعلق روسو نے جو اشارہ كيا ہے اسلام ميں اس كا ايك تعميري اور حيات آفريں پہلو ہے اور وسيع نتائج كا حامل ہے ۔اسلام نے بيہودہ قسم كي وہم و خرافات پر مبني (بتوں كي) شفاعت كو قبول نہيں كيا ہے بلكہ شفاعت كا وہ تصور ديا ہے جو مثبت اور تعميري ہے جو انسان كو اہم اھداف ومقاصد كے حصول كي طرف رغبت دلائے اور اسے اميد وار بنائے۔

4) روسو نے اديان كي عالمي حيثيت كو بيان كرتے ہوئے كہا ہے كہ ان اديان كے پيرو فتح و كامراني كي نسبت موت كي زيادہ مہارت ركھتے ہيں اور اس تصور كي تائيد ميں عيسائي دين اور آئين سے استفادہ كيا ہے كيونكہ عيسائيت اپنے پيرووں كو تعليم ديتي ہے كہ دنيا سے كنارہ كش رہيں اور اپني روح كو دنيا كي فاني لذتوں سے پاك ركھيں اور فتح و كاميابي كي اميدميں معاشرتي اہداف كي تكميل كے لئے شركت نہ كريں۔

يہ تصورات و نظريا ت جو روسو نے دنيائے عيسائيت كو سامنے ركھ كر بيان كئے ہيں اسلام سے ان كا دور كا بھي واسطہ نہيں ہے اسلام نے خدا كے دين كي حكمراني اسلامي مقاصد كي تكميل اور اسلام معاشري كي عزت و سر بلندي كے لئے جہاد كو بہترين عبادت قرار ديا ہے، بيشك اس راہ ميں حركت كے اسباب و عوامل فتح و كامراني كي لذتوں سے كہيں زيادہ بلند محركات كے حامل ہوتے ہيں اور وہ خاموش بيٹھے رہنے كي اجازت نہيں ديتے مسلمان كے نزديك فتح كا مطلب يہ ہے كہ انساني كمال و ارتقاء كي گاڑي تاريخ كے ہر دور ميں اپنے اعلي مقاصد اور عظيم اہداف كے حصول كے لئے ہميشہ آگے بڑھتي رہے، اس كا اصل مقصد ايك كامل توحيد پر ست معاشرہ تشكيل دينا ہے جو تمام پہلوؤں سے سعادت و كامراني كا حامل ہو اسي حقيقت كے تحت ہر مسلما ن پر فرض ہے كہ اس ہدف كے حصول كے لئے ہر ممكن كوشش كرے ايك لمحے كے لئے بھي غفلت سے كام نہ لے۔ چنانچہ اس ھدف كے حصول كے لئے ہروقت آمادہ و تيار رہنے پر جن كيات و روايات زور دياگيا ہے بہت فراوان ہيں، نمونے كے طور پر قران كہتا ہے: (وَاَعِدُّوا لَھُم ما استطعتم من قوہ ورباط الخيل) ۔ 13 “اور تم سب ان كے مقابلہ كے لئے امكاني قوت اور گھوڑوں كي صف بندي كا انتظام كرو”

انسان مومن اجتماعى مفادات كے لئے كام كرنا ذاتي مفادات كي تكميل سے مقدم سمجھتا ہے جس سے پتہ چلتا ہے كہ اسلام ميں زہد اور دنيا سے دوري كا مطلب اس كے سوا كچھ نہيں ہے كہ انسان خود كومادي دنيا كي حقير لذتون سے آزاد كر لے اور معنويت كي روحاني فضاؤں ميں پرواز كرے تاكہ اگر كوئي مادي چيز ہاتھ سے چلي جائے تو اس كے لئے افسوس نہ كرے اور اگر كوئي چيز حاصل ہو جائے تو اس پر فخر و مباحات نہ كرے، اسلامي نظام ميں انساني زندگي ميں نظم و ضبط ايجاد كرنے، زندگي كے كاروان كو رواں دوان ركھنے عدل و انصاف قائم كرنے اور معاشري كو بہترين انداز ميں سعادت اور كمال و ترقي سے ہمكنار كر نے كي تمام راہيں دكھائي گئي ہيں ۔اگر چہ يہ موضوع وسيع بحث كا طالب ہے اور اس كتاب ميں اس كي گنجائش نہيں ہے اس كتاب ميں صرف “اسلام ميں حكومت كي بنياد” كے متعلق بحث كرنا مقصود ہے لہٰذا جس حد تك يہ موضوع حكومت كي بحث سے مربوط ہے اسي حد تك ہم بحث و گفتگو كريں گے۔

5) روسو نے دين كي دوسري قسم بيان كرنے كے ضمن ميں كہا ہے كہ اس طرح كے دين آئين دوسري اديان سے دشمني و عداوت كو رواج ديتے ہيں اور انساني معاشري ميں بد گماني اور جنگ و نزاع كي ذہنيت ايجا د كرتے ہيں ۔

جب كہ حقيقت يہ ہے كہ يہ صورت حال اسي وقت ممكن ہے جب ايك معاشرتي نظام ميں توسيع پسندانہ مادي معيارات كارفرما ہوں، ليكن اگر ہم اسلام پر نظر ڈاليں اور خوشنودي پروردگار پر مركوز اس كے توحيدي نظام ميں انساني محركات كا جائزہ ليں تو دين سے دشمني و عداوت كے بجائے مفاہمت اور امن و آشتي كي توقع وابستہ نظراي گي۔

علاوہ ازايں اسلام قبول كرنے والوں كے متعلق اسلام كے موقف اس موقف سے مختلف ہے جو روسونے متمدن اديان كے متعلق تصور كيا ہے اسلام اگر چہ اپنے مخالفين كو دشمن تصور كرتا ہے ليكن اس كا مطلب يہ نہيں كہ اسلام اپنے دشمنوں كو قتل كر دينے كا خواہشمند ہے جب اسلام انسانيت كے دشمن مشركين سے در گذر كرتا ہے تو بدرجہ اوليٰ اسماني كتابوں پر ايمان ركھنے والے دين دار افراد كو عدالت پر مبني بعض معين شرائط كے تحت اپنے دين كے مطابق زندگي گذارنے كي اجازت ديتا ہے حتي بعض اوقات اسلام نے ان (كافر كتابي) كے ساتھ نيكي كرنے كو قابل ستائش اور پسنديدہ قرار ديا ہے جوا پنے مقام پر بيان ہوا ہے ۔

لہٰذا اس دشمني وعداوت كي منطقي دليل اور توجيہ و تاٴويل موجود ہے اس دليل كي طرف ہم نے اس وقت اشارہ كيا جب ہم نے بحث كي كہ دين كي قدرو قيمت درج ذيل دو امور كي روشني ميں معلوم كي جا سكتي ہے:

(1) دين كس حد تك واقعيت پر مبني ہے

(2) دين كس حد تك عدالت كي ضمانت فراہم كرتا ہے اور معاشري كو سعادت و خوشبختي سے ہمكنار كرتا ہے۔

جب دين كي حقانيت ثابت ہوجائے اور يہ بھي ثابت ہو جائے كہ كي بنياديں عدالت، حقيقي مصلحتوں اور مفادات پر استوارہيں تو دين كي ہر قسم كي مخالفت حقيقي عدالت اور انسانيت كي حقيقي مصلحتوں اور مفادات كي مخالفت كے مترادف ہوگي۔

اس كے بعد ہم كہيں گے: اسلام نے اپنے دامن ميں موجود خصوصيات اور خوبيوں كي وجہ سے ديني اور دنياوي حكمراني ميں اتحاد و ہماہنگي ايجاد كرنے كے ميدان ميں عظيم كاميابي حاصل كي ہے ليكن مسيحيت اس ميدان ميں ناكام رہي ہے (جيسا كہ روسو نے اس كي تصديق كي ہے، روسو نے اس كاميابي پر نبي اكرم صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم مدح ستائش كي ہے كيونكہ روسو نے گمان كيا كہ يہ سب كاميابياں حضرت محمد صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم كي ذاتي مہارت دور اندشي اور تدبير امور كا نتيجہ تھيں ليكن روسو اس امر سے غافل رہا ہے كہ يہ ميدان مہارت ذہانت، دور انديشي اور تدبير كا نہيں بلكہ اس كي بنياديں اسلام كي حقيقي روح اور اسلام كي فطري حقانيت پر استوار ہيں، وہ اسلام جو وحي كي صورت ميں نبي اكرم حضر ت محمد صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم پر نازل ہوا۔

روسو كہتا ہے كيونكہ ہر دور ميں حكومت اور مدني قوانين موجود رہي ہيں لہٰذا مخلوط حكمراني اور تسلط كا نتيجہ يہ بر آمد ہوا كہ ہميشہ سے كشمكش اور نزاع بھي موجود رہي جو صحيح نظام اور بہترين پاليسياں مرتب كرنے كي راہ ميں ركاوٹ بني۔ 14

لہٰذ لوگ نہ سمجھ سكے كہ كيا حاكم كي اطاعت ضروري ہے يا پاپ كي اطاعت؟

حضرت محمد صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم كے نظريات اور ان كي پاليسياں بہترين تھيں اور انھوں نے بہترين سياسي نظام مرتب كيا جب تك ان كي حكومت خلفاء كے زير سايہ رہي ايك ايسي حكومت تھي جو مكمل طور پر ان امور سے نمٹنے كي صلاحيت ركھتي تھے ۔

جب عربوں نے ترقي كى، تہذيب و تمدن سے آشنائي كے نتيجہ ميں ثقافت يافتہ اور تہذيب و تمدن يافتہ ہوئے تو نازك مزاج اور سست وكاہل بن گئے لہٰذا بربري نژاد لوگ ا ن پر مسلط ہوگئے، يہي وقت تھا نئے سري سے دو حكمرانوں (حكمران اور پاپ كي حكمراني) كے درميان تقسيم اور جدائي شروع ہوئي ۔بہرحال يہ تقسيم بندي اور جدائي مسيحيت كي نسبت مسلمانوں ميں كم تھي جگہ جگہ مسلمانوں ميں يہ تقسيم قابل مشاہدہ ہے بالخصوص علي كے پيروكاروں ميں، فارس حكومتون ميں يہ تقسيم بندي اور جدائي قابل مشاہدہ ہے۔ 15

روسو نے ان دو حكمرانوں كے درميان جدائي كے مسئلہ كے لئے راہ حل پيش كرتے ہوئے كہا ہے: “دين حكمراني كو فقط شخصي مسائل تك محدود كر كے پس پشت ڈال ديا جائے،،

اگر روسو مسيحيت كو مد نظر ركھتے ہوئے يہ راہ حل پيش كرے تو يہ راہ حل درست اور قابل قبول ہے، ليكن مجموعي طور پر اس مشكل كا حقيقي علاج اور صحيح راہ حل ان دوحكمرانوں (حكمران اور پاپ كي حكمراني) كے درميان اتحاد وہماہنگي ايجاد كرنا ہے جسے اسلام نے حضرت محمد صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم كي مہارت اور بالغ نظري كے نتيجہ ميں نہيں بلكہ تعليمات الٰہي كي روشني ميں پيش كيا ہے

وطن

وطن سے مراد كيا ہے؟ روسو كي مذكورہ بالا عبارت سے ظاہر ہوتا ہے كہ وطن سے مراد زمين كا ايسا حصہ ہے جس پر افراد زندگي بسر كرتے ہيں، اور پيمان معاشرت كي اكائيوں كو تشكيل ديتے ہيں اور حكومت كي اقسام ميں سے كسي ايك قسم كو نافذ كرتے ہيں، حكومت سے متعلق اسلامي تصور وطن كي اس تعريف كو قبول نہيں كرتا (چنانچہ عنقريب بحث آئے گي) اسلام ميں وطن سے مراد وہ تمام مسلم ممالك ہيں جن ميں ايك ايسي اسلامي حكومت حكم فرما ہو جو اسماني تعليمات ك بنياد پر بنائے ہوئے قوانين كے مطابق حكمراني كرے، يہ حكومت پيمان معاشرت كي بنياد پر استوار نہ ہو امام (معصوم عليہ السلام) كے دور ميں متعدد اسلامي حكومتوں كا تصور ممكن نہيں ہے ليكن امام عليہ السلام كي غيبت كے زمانے ميں متعدد علاقے (ممالك) قابل تصور ہيں جن ميں ايسے حكمرانوں كي حكومت ہو جو اسلامي نظام اور اسلامي قوانين كو نافذ كرنے والے ہوں، اور ان حكمرانوں كي حكومت كا جواز يہ ہو كہ يہ ساري حكمران، امام كي نيابت اور نمايندگي ميں حكمراني كرتے ہيں، اسي بنياد پر اسلام ميں متعدد وطن متصور نہيں ہيں۔

بلكہ فقط ايك اسلامي وطن قابل تصور ہے جسے اسلامي فقہ كي اصطلاح ميں “دارالاسلام”كہا جاتا ہے۔

وطن كي اصطلاح كے متعلق ايك تجويز

ہمارا مشورہ ہے كہ اسلامي سر زمين كي بجائے “دارالاسلام”كي اصطلاح استعمال كي جائے اور وطن كي تعبير فقط وہاں پر استعمال كي جائے جہاں پر مسافر اور غير مسافر كے فقہي احكام بيان كرنا مقصود ہوں كيونكہ اگر شخص وطن (وہ جگہ جہاں پر وہ رہائش پذير ہے) ميں ہو تو اس كے (نمازو روزے) كے احكام كچھ اور ہيں جب كہ سفر ميں ہو تو اس كے احكام كچھ اور ہيں۔

ہم نے يہ تجويز اس لئے پيش كي ہے كيونكہ وطن كي اصطلاح ميں بعض مغربي رنگ اور

ابہامات پائے جاتے ہيں جس كي بنياد پر دو ايسے علاقے (ممالك) كہ جن ميں لوگ زندگي گذاري رہے ہوں (دو عليحدہ عليحدہ) پيمان معاشرت كي بنياد پر دو وطن شمار ہوتے ہيں، يا قوميت كي بنياد پر، يا جغرافيائي حدود كي بنياد پر يا بعض دوسري عناصر كي بنياد پر دو وطن شما ر ہوتے ہيں۔

كيونكہ ان ميں درج ذيل امتيازات اور فرق پائے جاتے ہيں لہٰذا ان امتيازات كي بنياد پر ان كے لئے متعدد وطن قابل تصور ہيں:

1) پيمان معاشرت

2) قوميت ونژاد

3) جغرافيائي حدود

4) فوجي اثرو رسوخ

جب كہ اسلام ميں دو وطنوں كے درميان حقيقي فرق اور حد فاصل اسلام اور كفر ہے (كفر كي بنياد پر ايك وطن اور اسلام كي بنياد پر دوسرا وطن)

11. مؤلف نے روسو كے نظريات كا خلاصہ بيان كيا ہے ليكن ہم روسو كي كتاب سے اس كي مكمل عبارت نقل كر رہے ہيں۔ (مترجم)

12. العقد الاجتماعى، ص2۰6 تا213 البتہ كچھ اختصار كے ساتھ۔

13. سورۂ انفال آيت 6۰۔

14. روسو كي يہ گفتگو مسيحي حكومت كے متعلق ہے ۔ (مترجم)

15. العقد الاجتماعى، ص2۰4۔

 

 

تبصرے
Loading...