دوسری رات/ توحید ذاتی

ثقافتی اوراق
گزشتہ شب، توحید کی گفتگو کی، اور یہ کہا کہ توحید کے معنی خدا کو ایک جاننا ہیں، وہ ہر چیز کا خالق ہے اور کوئی اس کا شریک اور مثل نہیں۔
قرآن کریم کی ایک تہائی آیتیں توحید کے بارے میں ہیں، اور تمام پیغمبر توحید کا درس دیتے رہے ہیں۔ توحید کے مقابلے میں شرک ہے، شرک کے معنی خدا کے لیے شریک قرار دینا ہیں۔ اور یہ ایسا گناہ ہے جو ناقابل بخشش ہے۔ لہذا توحید اور اس کی قسموں؛ توحید ذاتی، توحید صفاتی، توحید افعالی اور توحید عبادی، کو جانیں تاکہ شرک جلی اور شرک خفی میں اپنا دامن آلودہ کرنے سے محفوظ رہ سکیں۔
توحید ذاتی
ہم سب نماز، ختم کی مجلسوں، اہل قبور کی زیارتوں، سونے سے پہلے اور مختلف اوقات میں سورہ توحید یا سورہ اخلاص یا وہی سورہ قل ھو اللہ کی تلاوت کرتے ہیں۔ ہمارے بہت سے گھروں کی دیواروں پر چار قل کے چاٹ لٹکے رہتے ہیں۔
اس سے زیادہ دلچسپ وہ جملہ ہے جو پچپنے میں ہر کہانی سنانے سے پہلے ہمیں لوریوں میں سنایا جاتا تھا’’ یکی بود، یکی نبود، غیر از خدا ھیچکس نبود‘‘۔ (ایک تھا، ایک نہیں تھا، خدا کے علاوہ کوئی نہیں تھا)۔
سورہ قل ھو اللہ کی آیتیں اور وہ جملے جو کہانیوں کے شروع میں ہمیں سنائے جاتے تھے اور ہم نے بھی انہیں اپنے بچوں کو سنایا، ان کے معنی بغیر اس کے کہ ہم ان کی طرف متوجہ ہوں ’’توحید ذاتی‘‘ پر دلالت کرتے ہیں۔
توحید ذاتی کی بھی دو قسمیں ہیں:
پہلی یہ کہ خدا کا کوئی مثل و نظیر نہیں ہے وہ یکتا ہے و بلا شریک ہے، سورہ اخلاص کی آخری آیت  “ولم يكن له كفواً أحد”  اسی مفہوم کو واضح کرتی ہیں۔
دوسری یہ کہ خدا کا کوئی جزء نہیں ہے وہ بسیط ہے اجزاء سے مرکب نہیں ہے کسی چیز سے مل کر نہیں بنا ہے؛ سورہ اخلاص کی پہلی آیت ــ “قل هو الله أحد ــ اسی معنی کو پہنچا رہی ہے۔
لہذا توحید ذاتی یعنی یہ کہ خدا کی ذات یکتا ہے اس کا کوئی مثل و مانند نہیں ہے اور وہ بسیط ہے اجزاء نہیں رکھتی، وہ ایسا اکیلا ہے کہ دوسرے کا اس کے لیے تصور ممکن نہیں، ہر چیز اس کی مخلوق ہے اور کسی چیز کو اس کے ساتھ موازنہ نہیں کیا جا سکتا۔ “لَیسَ کَمِثلِهِ شَىْء؛ کوئی چیز اس کے جیسی نہیں، (سورہ شوریٰ، آیت ۱۱)
شاید اسی وجہ سے ائمہ طاہرین (ع) نے اپنی مناجات میں فرمایا ہے: “ما عَرَفناکَ حَقَّ مَعرِفَتِک؛ ہم نے ویسے تجھے نہیں پہچانا جیسا تجھے پہچاننے کا حق تھا، اس لیےکہ ممکن نہیں ہے اس وجود کی حقیقت کہ جس کا کوئی مانند نہیں، کوئی چیز اس کے شبیہ نہیں اور نہ وہ کسی چیز سے قابل قیاس ہے کا ادراک کیا جا سکے۔
ایک تھا ایک نہیں تھا۔۔۔
لیکن اس معروف جملہ کا قصہ کیا ہے؟ بلآخر ایک تھا یا ایک نہیں تھا؟ اگر خدا کے علاوہ کوئی نہیں تھا تو کہانیوں کے پہلوان کون تھے؟ کیا اس جملے میں تناقض نہیں پایا جاتا؟
نہیں! اگر یہ جان لیں کہ ہم کیا کہہ رہے ہیں اور اگر یہ جملہ’’ ایک تھا، ایک نہیں تھا‘‘ کو صحیح ادا کریں تو نہ اس میں تناقض ہو گا اور نہ ہی وہ غلط، بلکہ توحید کا ایک مکمل درس اس میں پوشیدہ ہے۔
’’ایک تھا‘‘ یعنی صرف خدا تھا، اور ’’ ایک نہیں تھا‘‘ یعنی یہ جو خدا ایک ہے وہ عدد والا ایک نہیں ہے جس کے بعد دو اور تین کا تصور آتا ہے بلکہ ’’احد‘‘ ہے۔
سادہ لفظوں میں، ایک خدا دو تین چار کے مقابلے میں نہیں ہے، اس لیے کہ وہ ’’احد‘‘ ہے اور احد ایک حقیقت ہے عدد کا ایک نہیں ہے۔ یعنی خداوند عالم ایسا ایک ہے جس کے مقابلے میں کوئی دوسرا عدد معنی اور مفہوم نہیں رکھا اور نہ قابل تصور ہے۔
اس کے بعد تاکید کرتے ہیں کہ ’’خدا کے علاوہ کوئی نہیں ہے‘‘ یعنی وہ واجب الوجود ہے اور اس کا وجود کسی سے لیا ہوا نہیں ہے بلکہ ذاتی اور از خود ہے۔
ہمارے بزرگوں نے بہت ہی حکمیانہ انداز میں بچوں کو سنائی جانے والی کہانیوں میں درس توحید پیش کیا ہے جو در حقیقت سورہ توحید سے آغاز ہوتا ہے لیکن افسوس کہ ہم میں سے زیادہ تر اس کے معنی سے ناواقف ہیں بلکہ یوں کہوں کہ نماز کا سلام کہہ دیتے ہیں لیکن یہ پتا نہیں ہوتا کہ کیا کہا اور کیا پڑھا۔

تبصرے
Loading...