خواہشیں ! احادیث اہلبیت کی روشنی میں

 

تقویٰ کی بنا پر نجات پانے والے تین لوگوں کا واقعہ

نافع نے ابن عمر سے نقل کیا کہ پیغمبر اسلام ۖنے فرمایا:تین آدمی چلے جار ہے تھے کہ بارش ہونے لگی تو وہ لوگ پہاڑکے دامن میں ایک غار میں چلے گئے اتنے میں پہاڑ کی بلندی سے ایک بڑا سا پتھر گرااور اسکی وجہ سے غار کا دروازہ بند ہوگیا۔تو ان لوگوں نے آپس میں کہا:اپنے اپنے اعمال صالحہ پر نظر دوڑائو اور انھیں کے واسطہ سے خدا سے دعاکرو شائد خدا کوئی آسانی پیداکردے۔ ان میں سے ایک نے کہا کہ میرے والدین بہت بوڑھے تھے اورمیرے بچے بھی بہت چھوٹے چھوٹے تھے۔ میں بکریاں چراکر ان کا پیٹ پالتا تھا واپس آکر بکریوں کا دودھ نکالتا تو پہلے والدین کے سامنے پیش کرتا اس کے بعد اپنے بچوں کودیتا۔

اتفاقاً میں ایک دن صبح سویرے گھر سے نکل گیا اور شام تک واپس نہ آیا۔جب میں واپس پلٹا تومیرے والدین سوچکے تھے میں نے روزانہ کی طرح دودھ نکالا اور دودھ لے کر والدین کے سرہانے کھڑا ہوگیا مجھے یہ گوارہ نہ ہوا کہ انھیںبیدار کروں اور نہ ہی یہ گوارہ ہوا کہ والدین سے پہلے بچی کو دودھ پیش کروں حالانکہ بچی بھوک کی وجہ سے رو رہی تھی اور میرے قدموں میں بلبلا رہی تھی مگر میری روش میں تبدیلی نہ آئی یہاں تک کہ صبح ہوگئی پروردگار ا!اگر تو یہ جانتا ہے کہ یہ عمل میں نے صرف تیری رضا کے لئے انجام دیا ہے تو اسی عمل کے واسطہ سے اتنی گنجائش پیدا کردے کہ ہم آسمان کو دیکھ سکیں اﷲ نے اتنی گنجائش پیدا کردی اور ان لوگوں کو آسمان دکھائی دینے لگا۔

دوسرے نے کہا:میرے چچاکی ایک لڑکی تھی میں اس سے ایسی شدید محبت کرتا تھا جیسے کہ مرد عورتوں سے کرتے ہیں میں نے اس سے مطلب برآری کی خواہش کی اس نے سودینار کی شرط رکھی میں نے کوشش کرکے کسی طرح سودینار جمع کئے انھیں ساتھ لے کر اسکے پاس پہونچ گیا۔اور جب شیطانی مطلب پورا کرنے کی غرض سے اس کے نزدیک ہو ا تو اس نے کہا”اے بندئہ خدا اﷲ سے ڈرو اور ناحق میرا لباس مت اتارو”یہ بات سن کر میں نے اسے چھوڑدیا۔پروردگار اگر میرا یہ عمل تیرے لئے ہے تو تھوڑی گنجائش اور مرحمت کردے۔اللہ نے تھوڑی سی گنجائش اور عطا کردی۔

تیسرے آدمی نے کہا میں نے ایک شخص کوتھوڑے چا ول کی اجرت پراجیرکیا جب کام مکمل ہوگیا تو اس نے اجرت کا مطالبہ کیا میں نے اجرت پیش کردی لیکن دہ چھوڑ کر چلا گیا میں اسی سے کاشت کرتا رہا یہاں تک کہ اسکی قیمت سے بیل اور اسکا چرواہاخرید لیا۔ایک دن وہ مزدور آیا اور مجھ سے کہا:خدا سے ڈرو اور میرا حق مجھے دے دو۔میں نے کہا جائووہ بیل اور چرواہا لے لو اس نے پھر کہا خدا سے ڈرو اور میرا مذاق مت اڑائو۔میں نے کہا میں ہرگز مذاق نہیں کررہا ہوں یہ بیل اور چرواہا لے لو۔چنانچہ وہ لے کر چلاگیا۔پروردگار میرا یہ عمل اگر تیرے لئے تھاتوہمارے لئے بقیہ راستہ کھول دے ۔ اﷲ نے راستہ کھول دیا۔(١)

…………..

(١)صحیح بخاری،کتاب الادب،باب اجابةدعاء من بَرّوالدیہ ج٥ ص٤٠ط؛مصر١٢٨٦ھ ق۔فتح الباری للعسقلانی ج١٠ص٣٣٨شرح القسطلانی ج٩ص٥۔صحیح مسلم کتاب الرقاق باب قصةاصحاب الغار الثلاثةوالتوسّل بصالح الاعمال ج٨ص٨٩ط؛دارالفکر۔ وشرح النووی ج١٠ص٣٢١وذم الہوی لابن الجوزی ص٢٤٦

٣۔کففت علیہ ضیعتہ

اس جملہ کے دو معنی ہوسکتے ہیں کیونکہ”کف” جمع کرنے اوراکٹھاکرنے کے معنی میں بھی ہے اور یہی لفظ منع کرنے اورروکنے کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے لہٰذاپہلے معنی کے لحاظ سے اس جملہ” و کففت علیہ ضیعتہ”کے معنی یہ ہوں گے ”میں اس کے درہم برہم امور کو جمع کردوں گا اس کے سامان واسباب کانگہبان ،اسکے امور کا ذمہ دار اور اسکی معیشت کا ضامن ہوں”ابن اثیر اپنی کتاب ”النہایة”میں ”کف”کے معنی کے بارے میں تحریر کرتے ہیں کہ احتمال ہے کہ یہ لفظ ”جمع کرنے ”کے معنی میں ہو جیسے کہ حدیث میں آیا ہے:

( المؤمن أخ المؤمن یکفّ علیہ ضیعتہ)(١)

”ایک مومن دوسرے مومن کا بھائی ہے جو اسکے سرمایہ کو اسکے لئے اکٹھاکرکے رکھتا ہے ”

اسکے دوسرے معنی منع کرنا،روکنا اور دفع کرنا ہیں جیسے :

(کفّہ عنہ فکفّ، أی دفعہ وصرفہ ومنعہ،فاندفع وانصرف،وامتنع)

اس نے اسکو روکا یعنی اسکا دفاع کیا منع کیا اور واپس پلٹایا تو وہ دفع ہوگیا ،پلٹ گیا اور رک گیا اس معنی کے لحاظ سے مذکورہ حدیث کے معنی یہ ہونگے :

”میں نے اسکی بربادی کو دفع کردیا اور اسکی بربادی اور اسکے درمیان حائل ہوگیا اور اسے ہدایت دیدی اور راستے کے تمام نشانات واضح و روشن کردئے”(٢)

علامہ مجلسی(رح)نے اس فقرہ کی تفسیر میں اپنی کتاب بحار الانوار میں تحریر کیا ہے :کہ اس جملہ میں چند احتمالات پائے جاتے ہیں :١۔وہ معنی جو ابن ثیر نے نہایہ میں ذکر کئے ہیں یعنی اسکے درہم 

…………..

(١)النہایة لا بن ا لاثیرج٤ص٩٠۔

(٢)اقرب المواردج٢ص١٠٩٣۔

برہم معاملات معیشت کو سمیٹ دو نگااور اسمیں ”علیٰ”کے ذریعہ جو تعدیہ ہے اسکی بنا پر،برکت اور شفقت و غیرہ کے معنی میں ہے یا”علیٰ ”الیٰ کے معنی میں ہے جسکی طرف نہایہ میں اشارہ موجود ہے البتہ اس صورت میں برکت وغیرہ کے معنی مراد نہ ہونگے”

٢۔”کف”منع کرنے اور ”علیٰ ”،”فی” کے معنی میں ہو اور” ضیعہ”ضائع اوربربادہونے کے معنی ہو یعنی اس نے اسکی جان،مال ،محنت او ر اسکی تمام متعلقہ چیزوں کو ضائع ہونے سے بچالیا اسکی تائید اس فقرہ ”وکففت عنہ ضیعتہ”سے بھی ہوتی ہے جو شیخ صدوق(رح)کی روایت کے ذیل میں آئندہ ذکر ہوگا۔

ہمیں یہ دوسرے معنی زیادہ مناسب معلوم ہوتے ہیں جو حدیث کے سیاق کے مطابق اور اس سے مشابہ بھی ہیں خاص طور سے جب ہمیں یہ بھی معلوم ہوگیا کہ شیخ صدوق (رح) نے بعینہ اسی روایت میں ”وکففت عنہ ضیعتہ”نقل کیا ہے جس میں علیٰ کی جگہ عن سے تعدیہ آیا ہے اور جیسا کہ ہم نے ذکر کیا ہے کہ کف دفع یا منع کرنے اور پلٹانے کے معنی میں ہے جو کہ رفع کے معنی سے مختلف ہیں کیونکہ دفع کے معنی ،کسی چیز کے وجود میں آنے سے پہلے اسے روک دینا ہیں اور رفع کے معنی کسی چیز کے وجودمیں آجانے کے بعد اسے زائل کردینا یا ختم کردینا ہیں یا دوسرے الفاظ میں یہ سمجھ لیں کہ رفع علاج کی طرح ہوتا ہے اور دفع بیماری آنے سے پہلے اسے روک دینے کی طرح ہے ۔

اور کف ،دفع کے معنی میں ہے نہ کہ رفع کے معنی میں جسکے مطابق اسکے معنی یہ ہونگے خداوند عالم نے اسکو ضائع نہیں ہونے دیا ،یاوہ اسکی بربادی کے لئے راضی نہ ہوا اور یہ بھی ایک قسم کی ہدایت ہے کیونکہ ہدایت کی دو قسمیںہیں :

١۔گمراہی کے بعد ہدایت

٢۔گمراہی سے پہلے ہدایت

ان دونو ںکو ہی ہدایت کہا جاتا ہے لیکن پہلی والی ہدایت اس وقت ہوتی ہے جب انسان گمراہی اور تباہی میں مبتلا ہوچکا ہو لیکن دوسری قسم کی ہدایت اسکی گمراہی اور بربادی سے پہلے ہی پوری ہوجاتی ہے اور یہ قسم پہلی قسم سے زیادہ بہتر ہے ۔

حدیث میں (کف ضیعتہ)بربادی سے حفاظت کا تذکرہ ہے نہ کہ ہدایت کا اور بربادی سے حفاظت ،

ہدایت کا نتیجہ ہے اس لئے یہ منزل مقصود تک پہونچانے کے معنی میں ہے نہ کہ راستہ دکھانے اور یاد دہانی کے معنی میں ۔

ہدایت کے معنی

لفظ ہدایت دو معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ہدایت کے ایک معنی منزل مقصود تک پہونچانا ہیں اور دوسرے معنی راستہ بتا نا ،راہنمائی کرناہیں جیسا کہ خداوند عالم کے اس قول :

(انک لاتھدی من أحببت ولکن اﷲ یھدی من یشائ)(١)

”پیغمبر بیشک آپ جسے چا ہیں ہدایت نہیں دے سکتے بلکہ اللہ جسے چاہتا ہے ہدایت دیدیتا ہے ”

میں یہ لفظ پہلے معنی میں استعمال ہوا ہے ۔طے شدہ بات ہے کہ یہاں جس ہدایت کی نفی کی جارہی ہے وہ منزل مقصود تک پہنچانے کے معنی میں ہے کہ یہ چیز صرف پروردگار عالم سے مخصوص ہے ورنہ راستہ دکھانا رہنمائی کرنا تو پیغمبر اسلام کا فریضہ اورآپ کی اہم ترین ذمہ داری ہے اس معنی میں پیغمبر اکرم ۖ کے لئے ہدایت کا انکار کرکے اسے صرف پروردگا ر سے مخصوص کردینا ممکن نہیں ہے کیونکہ خداوند عالم پیغمبر کے بارے میں فرماتا ہے :

(وانک لتھدی الی صراطٍ مستقیم)(٢)

”اور بیشک آپ لوگوں کو سیدھے راستہ کی ہدایت کررہے ہیں ”

اسی معنی میں قرآن کریم میں مومن آل فرعون کا یہ جملہ ہے :

…………..

(١)سورئہ قصص آیت ٥٦۔

(٢)سورئہ شوریٰ آیت٥٢۔

(یا قوم اتّبعون أھدکم سبیل الرشاد )(١)

”اے قوم والو :میرا اتباع کرو،میں تمھیں ہدایت کا راستہ دکھا دوں گا ”

یہاں پر بھی ہدایت ،راہنمائی اور راستہ دکھانے کے معنی میں ہے نہ کہ منزل مقصود تک پہنچانے کے معنی میں ۔۔۔اس حدیث شریف میں بھی ہدایت کے پہلے معنی (منزل تک پہنچانا) ہی زیادہ مناسب ہیںاس لئے کہ دوسرے معنی کا لازمہ یہ نہیں ہے کہ انسان ضائع نہ ہو بلکہ ایصا ل الی المطلوب ہی انسان کو ضائع ہونے سے بچاتا ہے اور انسان کو قطعی طور پر اللہ تک پہنچانے کا ضامن ہے

سیاق وسباق سے بھی یہی معنی زیادہ مناسب معلوم ہوتے ہیں اس لئے کہ یہ گفتگو ان لوگوں پرخصوصی فضل الٰہی کی ہے کہ جو اپنے خواہشات پر اﷲ کی مرضی کو مقدم کرتے ہیں لہٰذا فضل وعنایت کاخصوصی تقاضا یہ ہے کہ انھیں منزل مقصود تک پہنچا یا جائے ورنہ رہنمائی اور راستہ دکھا ناتو خدا کی عام عنایت ورحمت ہے جوصرف مومنین سے یا ان لوگوں سے مخصوص نہیں ہے کہ جواﷲ کی مرضی کو مقدم کرتے ہوں بلکہ یہ عنایت تو ان لوگوں کے شامل حال بھی ہے کہ جو اپنی خواہشات کو اﷲ کی مرضی پر مقدم کرتے ہیں ۔

اﷲ بندہ کو بربادی اورضائع ہونے سے کیسے بچاتا ہے ؟

درحقیقت یہ کام بصیرت کے ذریعہ ہوتا ہے ۔بصیر ت کے اعلیٰ درجات پر فائز انسان قطعی طور پر ضائع ہونے سے بچ جاتا ہے ۔

لہٰذا جب خداوندعالم کسی بندہ کیلئے خیر کا ارادہ کرتا ہے اور اسے بربادی سے بچانا چا ہتا ہے تو اسے بصیرت مرحمت کر دیتا ہے جس کے نتیجہ میں وہ نجات پاجاتا ہے اور خدا تک اس کی رسائی قطعی ہوجاتی ہے یہ بصیرت اس منطقی دلیل وبرہان سے الگ ہے کہ جس کے ذریعہ بھی انسان خدا تک پہنچتا 

…………..

(١)سورئہ غافرآیت ٣٨۔

ہے اور اسلام اس کا بھی منکر نہیں ہے بلکہ اسے اپنا نے اوراختیار کرنے کی تاکید کرتا ہے وہ اسے ہر شخص کے دل کی گہرائیوں میں اتارنا چاہتا ہے اس لئے کہ انسانوں کی بہت بڑی تعداد عقل و منطق کے سہارے ہی خدا تک پہنچتی ہے ۔

بصیرت کا مطلب حق کا مکمل طریقہ سے واضح دکھائی دینا ہے ۔ایسی رویت منطقی استدلال کا نتیجہ بھی ہو سکتی ہے اور صفائے نفس اور پاکیزگی ٔ قلب کے ذریعہ بھی حاصل ہو سکتی ہے یعنی انسان کسی ایک راستہ سے اس بلند مقام تک پہنچ سکتا ہے یا عقلی اور منطقی دلائل کے ذریعہ یا پاکیزگی ٔ نفس کے راستہ ۔

اسلام ان میں سے کسی ایک کو کافی قرار نہیں دیتا بلکہ اسلامی نقطۂ نظر سے انسان کے اوپر دونوں کو اختیار کرنا ضروری ہے ۔یعنی عقلی روش کو اپنانا بھی ضروری ہے اور نفس کو پاکیزہ بنانا بھی ۔اس آیۂ شریفہ میں قرآن مجید نے دونوں باتوں کی طرف ایک ساتھ اشارہ کیا ہے:

(ھوالذی بعث فی الامیّین رسولاً منھم یتلوا علیھم آیاتہ ویزکّیھم و یعلّمھم الکتاب والحکمة وان کانوا من قبلُ لفی ضلالٍ مبینٍ )(١)

” اس خدا نے مکہ والوں میں ایک رسول بھیجا جو انھیں میں سے تھا کہ ان کے سامنے آیات کی تلاوت کرے ،ان کے نفوس کو پاک کرے اور انھیں کتاب و حکمت کی تعلیم دے”

تزکیہ کا مطلب صفائے قلب اور پاکیزگیٔ نفس ہے جس سے معرفت الہی کے بے شمار دروازے کھلتے ہیں ۔

معرفت کا دوسرا باب (تعلیم )ہے بہر حال بصیر ت چاہے عقل ومنطق کا ثمرہ ہویا تزکیہ وتہذیب نفس کا یہ طے ہے کہ حیات انسانی میں بصیرت کا سر چشمہ پروردگار عالم ہی ہے اسکے علاوہ کسی اور جگہ سے بصیرت کا حصول ممکن نہیں ہے اور اس تک رسائی کا دروازہ عقل وتزکیۂ نفس ہے ۔

…………..

(١)سورئہ جمعہ آیت٢۔

 

 

تبصرے
Loading...