حق کے اظہار سے باطل کا سحر ٹوٹتا ہے

‘دنیا اور ا?رائشِ دنیا’کی حقیقت  ہی کیا ہے؟’محض ایک کھیل تماشہ اور ظاہری ٹیپ ٹاپ’ انسان شاید کھیل کود سے اس قدر تفریح اسی لئے حاصل کرتا ہے کہ اس میں کہیں نہ کہیں اسے دنیا کی حقیقت نظر ا?تی رہتی ہے۔اس جہانِ فانی میں مختلف لوگ  مختلف کھیل کھیلتے ہیں لیکن ان تمام کھیلوں کے اندر جو کھیل  حقیقت سے  قریب ترین ہے سو وہ ‘جنگ ‘ہے۔  جی ہاں جنگ، اس کھیل میں کسی نہ کسی حیثیت سے سبھی ملوث ہیں کوئی میدان کے اندر سر گرمِ عمل ہے تو کوئی اسٹینڈ پر تماش بین بنا بیٹھا ہے۔کوئی ٹیلی ویڑن کی کھڑکی سے اس کے اندرجھانک رہا ہے تو کوئی انٹر نیٹ کے ذریعہ رسائی حاصل کررہا ہے۔کسی کو  اس کے انتظا م وانصرام سے فرصت نہیں تو کسی نے سٹہ بازی میں اپنے  ا?پکو مصروف کررکھا ہی ہر نیادن ہرفرد کیلئے ایک نیا میچ لیکر نمودار ہوتا ہیاورہر شام ایک بازی سمیٹ کرروانہ ہو جاتی ہے لیکن یہ روز روز کیمقابلہ دراصل اس ٹورنامنٹ کا حصہ ہیں جو ایک مدت خاص تک ہر کسی کا مقدر کر دیا گیا ہے۔ہر شخص ایک خاص لمحہ میں پالے میں اترتا ہے اور اپنے طے شدہ وقت پر ریٹائر ہوکر کھیل سے باہر ہوجاتا ہے لیکن اس کے باوجودزندگی کی اس جنگ کیکھیل ہونے کا اعتراف کوئی نہیں کرتا اس لئے کہ اس میں زندگی اور موت ایک دوسرے سے بر سرِ پیکار ہوتی ہے لیکن ایسا کون سا انسان جس کے اندر یہ دونوں قوتیں باہم ایک دوسرے کے ساتھ بر سرِ جنگ نہیں ہوتیں؟ بقول عاصم واسطی   ?

اک جنگ سی ہوتی ہے مسلسل مرے اندر

لیکن کوئی نیزہ ہے،  نہ تلوار ہے مجھ میں

زندگی ہر لمحہ موت سے لڑتی رہتی اور اسے پچھاڑتی رہتی ہییہاں تک کہ موت کی فیصلہ کن فتح کا لمحہ ا?ن پہونچتا ہے بالا?خر موت کی سیٹی اس  کھیل کے خاتمہ کا اعلان کردیتی ہے ۔نہ کوئی انعام پاتا ہے اور نہ کوئی اکرام سے نوازہ جاتا ہے۔ انسان کفِ افسوس ملتا  ہے سوچتا ہے ہائے  یہ کیسا مقابلہ تھا کہ جس میں نہ کوئی جیتا اور نہ کوئی ہارا ؟لیکن یہ اس کی کوتاہ بینی ہیوہ نہیں جانتا کہ اس کھیل کی ابتدا اور ا نتہا کی مانند انعام و اکرام کی تقریب کا بھی ایک وقت متعین ہے اور جب وہ وقت ا?جائیگا تو کچھ لوگ فاتح قرار دئیے جائیں گے اور شکست کچھ لوگوں کا مقدر بن جائیگی دنیا کی زندگی اور جنگوں کے کھیل  میں جو سب سی بڑی مماثلت ہے وہ یہ کہ دونوں کو دوام نصیب نہیں ہوتا وہ عارضی نوعیت کی ہوتی ہیں اور یہ مقابلہ کبھی بھی برابری پر نہیں چھوٹتا اس میں یقیناً ہر فریق  کے حصہ میں ایک ابدی  کامیابی یا ناکامی ا?تی  ہی ہے

افغانستان کے تنا ظر میں رونما ہونے والی تازہ ترین صورتحال  نیدر لینڈ اور اسپین کے درمیان کھیلے جانے والے فٹ بال فائنل کی بنسبت زیادہ  دلچسپ ہیں۔اس ہفتہ منعقد ہونے والی حکومت ِامریکہ کی رابطہ کمیٹی برائے خارجہ امورکیاجلاس کا افتتاح  ڈیموکریٹ سنیٹر جان کیری نے اس مایوس کن مشاہدے کیساتھ کیا کہ انہیں اندیشہ ہے کہیں ایک مستحکم افغان ریاست کی تعمیر کے سلسلے میں واضح حکمت عملی کا فقدان ،  ١٠٠٢?سے اب تک افغا نستان  میں صرف والا خون اور سرمایہ کو رائیگاں نہ کردے۔کیری نے اعتراف کیا کہ ناٹو کو افغانی فوجیوں کی تربیت ، انتظامی اصلاحات  اور معاشی ترقی کے بارے میں جس پیش رفت کی توقع تھی اس میں حوصلہ افزا کامیابی حاصل نہیں ہوئی ہے۔ اس کے بر عکس انتظامیہ کا دفاع کرتے ہوئے افغانستان کیلئے خصوصی سفارتکار رچرڈ ہولڈبروک نے کامیابیوں کو گنوانے کے بعد اس بات پر زور دیا کہ افغانستان کے معاملے میں کسی پیش رفت کی توقع اسوقت تک ممکن نہیں ہے جب تک کہ عالمی برادری  اوربالخصوص عظیم امریکہ محض فوجیوں کو روانہ کرنے پر اکتفا کرنیکیبجائے  اپنی دیگرعہد و پیمان کو پورا نہیں کرتا۔ اس دلچسپ  بحث کو ا?گے بڑھاتے ہوئے اجلاس میں موجود حزبِ اختلاف کے معمر رہنما رچرڈ لوگر نے اعلان کیا کہ افغانستان میں معاشی، سیاسی اور محفوظ تہذیب  کے قیام کا عظیم خواب ہماری قوت اور وسائل سے فروتر ہے۔اگر ایسا ہے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہیکہ ا?خر دس سال قبل خود ان کی اپنی ری پبلکن پارٹی نے افغانستان میں فوج کشی کی  حماقت کیوں کی تھی؟ اس وقت ١١ستمبر کی خواری  سے عوام کی توجہ ہٹانے کیلئے غالباً یہ انتظامیہ کی مجبوری تھی جو اب اس کے گلے کی ہڈی بن گئی ہے نہ اگلی جاتی ہے اور نہ نگلی جاتی ہے جس کی وجہ بقول شاعر یوں  ہے    ?

 

بیج بیتوقیر شاید  بوئے  تھے   بنیاد   میں

اس لئے لٹکی ہوئی ہے اب خزاں دیوار پر

جان کیری نینہایت دانشمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کسی اختلافی بحث میں پڑنے کے بجائیلوگر سے اتفاق کرلیااور دونوں رہنما اس نتیجے پر پہونچ گئے  کہ ‘حریت پسند عوام کے اوپر بندوق کی نوک سے اپنا سیاسی نظام اور اپنے تہذیبی اقدار کو مسلط نہیں کیا جاسکتا’۔یہ بے پناہ اہمیت کی حامل ایک عظیم حقیقت کا اعتراف ہے کاش کہ دس سال قبل اس بات کا احساس امریکہ بہادر کو ہوجاتا اور عالمِ انسانیت ایک عظیم جانی و مالی زیاں سے محفوظ رہ جاتی ‘لیکن اب پچھتائے کا ہوت جب چڑیا چگ گئی کھیت’ یہ فطرت کیمکافاتِ عمل کا وہ قانون ہے جس کے اندردنیا کی عظیم طاقتوں کے بننے بگڑنے کا فیصلہ مضمر ہوتا ہیامریکی انتظامیہ کی ایک ناعاقبت اندیشی اور مغربی اقوام  کی بلاشرط حمایت نے ایک کمزور اور غیر تہذیب یافتہ سمجھی جانے والی کوہستانی قوم کے ذریعہ مغرب پر ذلت و رسوائی کا کلنک چسپاں کر دیا یہ ایک ایسا خنجر ہے جسے کھیل تماشے کے طورافغانستان کی جانب اچھالا گیا تھا یہ سوچ کر کہ یہ بے ضرر لوگ ہمارا کیا بگاڑ لیں گے ابتدا میں کابل سے طالبان کی بے دخلی نے اس خیالِ غلط کی تصدیق بھی کر دی لیکن وہ بھول گئے کہ ایک عظیم حکمتِ عملی کے تحت قدم پیچھے ہٹائے جارہے ہیں اس کے بعد ایک خاموشی چھا گئی لوگ یہ سمجھ نہ سکے کہ یہ ایک طوفان کا پیش خیمہ ہے اور پھر اس کے بعد ایک عظیم جہاد کے بال و پر دکھلائی دینے لگیجو اب  کونپل سیایک تناور درخت بن گیاہے بلکہ مجاہدین کی لہلہاتی کھیتی جسے انہوں نے اپنے لہو سے سینچا  ہے اہل ایمان کو کس قدر بھلی معلوم ہورہی ہے ان کی ا?نکھوں کو اس سے ٹھنڈک ملتی ہے لیکن منکرین اور اسے دیکھ کر کڑھتے ہیں مستکبرین کے راتوں کی نیند اور دن کا سکون اس نے غارت کر رکھا ہے۔ لیکن رفتہ رفتہ ان پر حقیقت منکشف ہوتی جارہی ہے وہ بھی اعترف کی جانب کھسکنے لگے ہیں کیری اور لوگر کے درمیان پائی جانے والی ہم ا?ہنگی اس امر کی تصدیق کرتی ہے ایسا لگتا ہے گویا  دونوں رہنما حیرت و استعجاب کے ساتھ ایک دوسرے کو یہ شعر سنا رہے ہیں  ?

عجیب چال اچانک حریف نے چل دی                                                                                                  

 بساط پر مرا  غلبہ تھا ، مات سے  پہلے

اپنے نقطہ نظر کی مزید وضاحت کرتے ہوئے جان کیری یوں گویا ہوئے’ اصل مسئلہ یہ ہے کہ اس حکمتِ عملی کے سب سے اہم عناصر یعنی ان کوششوں سے،افغانی عوام کی رضامندی اور ان کا انہیں اپنانا ، ان دونوں پر ہمارا بہت کم اختیار ہے۔ اس موقع پر ایک اور سوال  پیدا ہوتا ہیکہ ا?خر دس سال کا طویل عرصہ گذرنے کے بعد کہ بعد اچانک یہ حکمت و سمجھداری ان امریکی استعماروں میں  اچانک کہاں سے ا?گئی؟ در اصل بات یہ ہیکہ جب کوئی مستکبر طاقت کینشہ میں غرق ہوتا ہے تو اس کی عقل ماو?ف ہوجاتی  ہے۔گھمنڈ ہے اس کی گردن اکڑ جاتی ہے اسیاپنے علاوہ کچھ بھی نظر نہیں ا?تا وہ اپنے ا?پکو رب اعلیٰ سمجھنے لگتاہے لیکن جب مظلوموں کی کشمکش رنگ لاتی ہے اوراسکے نتیجہ میں ظا لموں اور جابروں کے پیروں تلے کی زمین کھسکنے لگتی ہے تو ان کی عقل ٹھکانے ا?تی ہے۔ افغانی مجاہدین صد ہزار مبارکباد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے سوویت یونین کے بعد امریکہ کے غرور کا سر بھی نیچا کر دکھایا ان مجاہدین  کے عزم و حوصلہ کی ترجمانی اس شعر میں ملاحظہ فرمائیں     ?

وہ عزم تھا کہ ہٹتی گئی خود رکاوٹیں

وہ عشق تھا کہ راہ کی دیوار ،در بنی

جان کیری نے اجلاس میں ایک فکر انگیز تجویز پیش کی’ چونکہ اکثر لوگ اب اسے ایک ہاری ہوئی بازی ہوئی سمجھنے لگیہیں  اس لئیضرورت اس بات کی ہے کہ افغانستان میں کامیابی کی تعریف متعین کی جائے اوراس بات کی واضح نشاندہی کر دی جائے کہ افغانستان کے اندر قابلِ تسلیم ریاست کا معیاراور اس کے حصول کا طریقہ کار کیا ہے؟اس قدر جانی و مالی نقصان کے بعد اگر کوئی قوم ان بنیادی سوالات کا جواب اپنے پاس نہیں رکھتی تو اس کی ناعاقبت اندیشی کے بارے میں کیا کہا جاسکتا ہے؟امریکہ میں عام طور پر اس بارے میں جوابہام اور کنفیوڑن پایا جاتا ہے اسکی بازگشت رچرڈ لوگرکے اعتراف میں دکھائی پڑی انہوں نیجولائی   ١١٠٢?کے اندرافغانستان سے فوجوں کے انخلائ  کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ میرے نزدیک نہ صرف صدر کا ٹائم ٹیبل غیر واضح ہے بلکہ میں یہ بھی نہیں جانتا کہ افغانستان کو محفوظ و مامون سمجھنے کی کسوٹی ا?خر کیا ہوگی ؟ جس پر جانچ کرہم یہ فیصلہ کریں گے کہ فوجوں کی واپسی کا مناسب وقت ا?ن پہونچا ہے۔انہوں نہایت تاسف بھرے انداز میں اپنی گفتگو کاخلاصہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ’مجھے اندیشہ ہیکہ کھربوں ڈالر خرچ کرنے کے بعدبھی قابض طاقتیں کوئی خاطر خواہ مقصد حاصل نہیں کرپائیں گی’ گویا جس رنج کے عالم میں کیری نے غزل کا مطلع پڑھا تھااسی افسوس کے لہجہ میں لوگر نے مقطع بھی پڑھ دیا  ،جمہوری تماشے میں دو مخالف جماعتوں کے اندر اس طرح کی یگانگت کم ہی دیکھنے میں ا?تی ہے۔ممکن ہے اسکی وجہ افغانستان کیموجودہ حالات او رخاص طور پر اس ہفتہ رونما ہونے والے واقعات ہوں اس لئے کہ بقول خواجہ مسیح الدین  ?

روشنی ہوتو  اندھیروں  کا ا ثر ٹوٹتا  ہے                                                                                                      

حق کے اظہار سے باطل کا سحر ٹوٹتا ہے

افغانستان کے حالات پہلے اس قدر دگر گوں نہیں تھے لیکن جب سے ناٹو نے شمال مشرقی قندھار کی جانب پیش قدمی کا ارادہ کیا دن بدن حالات سنگین ہوتے جارہے ہیں ابھی تک امریکہ اپنے  ٠٠٠١ ہزار فوجیوں کی ہلاکت کا اعتراف کر چکا ہے۔پیرکوکابل میں جاری کی گئی اپنی تازہ رپورٹ میں  ایک غیر سرکاری تنظیم ”افغانستان رائٹس مانیٹر ” نے ملک میں تشدد کے واقعات اور شہری ہلاکتوں میں اضافے کے باعث ٠١٠٢?کو افغانستان کے لیے بدترین سال قرار دیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق لڑائی اور تشدد کے واقعات میں رواں سال روزانہ چھ عام شہری ہلا ک ہو رہے ہیں جو انتہائی تشویش ناک امر ہے۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مجموعی طور پر پچھلے چھ ماہ کے دوران ہلاک ہونے والے ٤٧٠١عام شہریوں میں سے١٦٦ افراد طالبان کے حملوں میں مارے گئے اس کا مطلب ہے بقیہ ٣١٤ شہریوں کو ناٹو فوجیوں نے ہلاک کیا ، رواں سال اب تک پرتشدد کارروائیوں میں ٠٠٥١ شہری زخمی بھی ہوئے ہیں۔ جون میں ٠٠٢١پر تشدد کیواقعات رونما ہوئے۔ر ٢٠٠٢? سے اب تک کسی ایک مہینے میں ہونے والے یہ سب سے زیادہ واقعات کی تعداد ہے۔ یہی وجہ ہیکہ اس سال جون کے مہینے میں ٢٠١ غیر ملکی فوجی ہلاک ہوئے، نیٹو افواج کو  کسی ایک مہینے میں پچھلے نو سالوں کے دوران پہنچنے والا سب سے بڑا جانی نقصان ہے افغانستان میں اس وقت امریکی اور نیٹو کیکل  ایک لاکھ ٠٤ہزار فوجی تعینات ہیں اور آئندہ آنے والے ہفتوں میں مزید ٠١ ہزار فوجیوں کا اضافہ متوقع ہے۔افغان نجی تنظیم نے کہا کہ ملک میں رواں سال کے دوران نہ صرف عدم تحفظ میں اضافہ ہو ا ہے بلکہ طالبان کی کارروائیوں میں شدت و وسعت آئی ہے اور بین الاقوامی افواج کی تعداد میں اضافے کے باوجود طالبان پر بظاہر اس کا کوئی اثر نہیں پڑ ا ہے۔اس لئے کہ ان کا حال بقول شاعر یہ ہے  ?

ایک مدت سے ہیں حالتِ جنگ میں اپنے ساتھ اپنے حالات کی جنگ ہے

واشنگٹن میں جس روز رابطہ کمیٹی برائے امورِ خارجہ کا اجلاس ہورہا تھا اس دن بھی نیٹوترجمان نے تسلیم کیا کہ جنوبی افغانستان میں طالبان کے دو مختلف حملوں میں اس کے ا?ٹھ فوجی ہلاک ہوگئے۔نیٹوکے ایک بیان میں کہا گیا کہ چار فوجی ایک نصب کردہ خود ساختہ بم پھٹنے کے نتیجے میں ہلاک ہوئے جب کہ ایک الگ حملے میں مزید ایک فوجی مارا گیا۔ منگل کی رات جنوبی صوبے قندھار میں طالبان نے افغان پولیس کے مرکز پر ایک مربوط حملہ کر کے تین امریکی فوجیوں اور ان کے ساتھ کام کرنے والے پانچ افغان مترجمین کو ہلاک کر دیا تھا۔ طالبان کے ترجمان نے بدھ کو میڈیا کے نمائندوں سے فون پر رابطہ کر کے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی اور دعویٰ کیا کہ پولس مرکز پرکئے گئے حملے میں ٣ نہیں بلکہ٣١ غیر ملکی فوجی اور آٹھ افغان سکیورٹی اہلکار ہلاک ہوئے ہیں۔ جنوبی ضلع ہنگو میں جمعے کے روز مشتبہ عسکریت پسندوں کے مقامی طور پر تیار کردہ ریمورٹ کنٹرول بم سے پولیس کی ایک گاڑی پر حملہ کیا۔ اس واقعے میں تین پولیس اہلکاروں سمیت پانچ افراد زخمی ہوگئے۔

جانی نقصان کے ساتھ ساتھ ضروری اشیائ خوردونوش کی رسد میں بھی ا?ئے دن مسائل پیش ا?تے رہتے ہیں حالانکہ ان کی بحفاظت سپلائی کیلئے نیٹو انتظامیہ کروڈوں ڈالر مقامی سرداروں کو ہرجانہ کے طور پرادا کرتا ہے  اس کے باوجود پاکستان کے صوبہ بلوچستان کیعلاقے مچھ میں نامعلوم افراد نے جمعہ کی صبح افغانستان میں نیٹو افواج کے لیے تیل لے جانے والے چار آئل ٹینکروں پر فائرنگ کی ہے جس کے نتیجے میں دولاکھ لیٹر تیل جل گیا ہے تاہم کوئی جانی نقصان نہیں ہوا ہے۔یہ آئل ٹینکرز افغانستان میں نیٹو افواج کے لیے کراچی سے سکھرکے راستے قندھار جا رہے تھے۔دوسری جانب وڈھ کے علاقے میں بھی نامعلوم افراد نے ایک کنٹینر کو نذرآتش کردیا، جس سیافغانستان میں نیٹو افواج کے لیے لدا ہوا سامان مکمل طور پر جل گیا۔ بلوچستان کے راستے کراچی سے چمن تک کی بین الاقوامی شاہراہ پر روزانہ بیس ہزار سے زیادہ آئل ٹینکراور کنٹینرز افغانستان آتے اور جاتے ہیں۔اس سے پاکستان کی کلیدی اہمیت کا اندازہ  بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔ اگر کل کو یہ راستے غیر محفوظ ہوجائیں تو ا?فغانستان میں پھنسے ہوئے نیٹوفوجی اوبامہ کے حکم کا انتظار کئے بغیر وہاں سے بھاگ کھڑے ہوں گییا بھکمری کا شکار ہوجائیں گے

عام طور پر افغانستان میں مارے جانے والے شہریوں کیلئے طالبان کوبلا روک ٹوک ذمہ دار ٹہرا دیا جاتا ہے اس لئے کہ بین الاقوامی ذرائع ابلاغ پر اتحادیوں کا قبضہ ہے لیکن اس کے باوجود گاہے بگاہے نیٹو کے مظالم منظر ِ عام پر ا?تیرہتے ہیں۔ حال میں نیٹو اور افغان حکام کی تفتیش سے ثابت ہوا ہے کہ صوبہ پکتیا کے ضلع جانی خیل میں چھ شہریوں کی حادثاتی ہلاکت اتحادی افواج کی فائرنگ سے ہوئی ہے۔ یہ واقعہ ایک ایسے وقت سامنے آیا جب ایک روز قبل اتحادی افواج نے اعتراف کیا تھا کہ رواں ہفتے غلط اطلاعات کی بنا پر کیے جانے والے فضائی حملے میں چھ افغان فوجی طالبان عسکریت پسند ہونے کے شبے میں مارے گئے اور اس کی افغان حکومت نے مذمت کی تھی۔حکام کی تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی کہ جمعرات کو ہونے والی یہ شہری ہلاکتیں اتحادی فوجیوں کا نشانہ چوکنے سے ہوئیں۔ بین الاقوامی افواج کی طرف سے جاری کردہ بیان میں اس اعتراف کے ساتھ ہلاک شدگان سے اظہار تعزیت بھی کیا گیا ہے۔ویسے یہ  شرمناک بات  ہیکہ اس سے قبل افغان وزارت داخلہ نے ان ہلاکتوں کو طالبان کی طرف سے داغے گئے راکٹ کا شاخسانہ قراردے دیا تھا۔کرزئی انتظا میہ پر تو یہ شعر صادق ا?تا ہے   ?

بین سنتا ہے نہ فریاد و فغاں دیکھتا ہے                                                                                                          

 ظلم، انصاف کا معیار کہاں دیکھتا ہے

صدر اوباما نے گذشتہ سال دسمبر میں٠٣ ہزار مزید فوجی افغانستان بھیجتے ہوئے انخلائ کی تاریخ  کا اعلان کر دیا اور کہا’ ان مزید امریکی اور بین الاقوامی فوجیوں کی بدولت ہمارے لیے یہ ممکن ہو جائے گا کہ ہم حفظ و امان کی ذمہ داری افغان فورسز کو تیزی سے منتقل کر سکیں اور جولائی ١١٠٢? میں اپنی فوجوں کو افغانستان سے نکالنے کا عمل شروع کر سکیں’ لیکن اس اعلان نے بہت ساری غلط فہمیاں پیدا کر دیں اس لئے وزیر دفاع رابرٹ گیٹس نے ڈیڈ لائن کی اہمیت کم کرنیکوشش کی کیوں کہ انہیں  یہ اندیشہ لاحق ہوگیا کہ مبادہ    انخلائ  کی تاریخ کے سبب طالبان اور پاکستانی و افغانی حکام کو غلط تا ثر  مل سکتا ہے۔ ڈیوڈ کلکولن کے مطابق’ممکن ہے اس اعلان کے بعدپاکستانی اور افغان لیڈر مستقبل میں طالبان کے ساتھ ممکنہ  مذاکرت کی تیاری میں لگ گئے ہوں اور ا سی تاریخ کو بنیاد بنا کر بات چیت کی جا رہی ہو ‘جنرل پیٹریاس نے معاملے کو سنبھالنے کی غرض سے نیا پینترہ بدلہ اور بولے’جولائی ١١٠٢?میں اس  عمل کا ?غازہو گا۔ ایسا نہیں ہیکہ اس  تاریخ امریکہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر واپس چلا جائیگا’گویا امریکیوں نے خود اپنے موقف کے بارے ایک ابہام اور بے یقینی پیدا  کردی جو ان کے اندر پائے جانے والیعدم  اعتماد کی غماز ہے بعض تجزیہ کاروں کے مطابق انخلائ  کے اعلان سے اتنا ضرور ہوا ہے کہ نیٹو نے بہت تیزی سے افغان سکیورٹی فورسز کو تربیت دینی  شروع کر دی ہے تا کہ جب کبھی بین الاقوامی فورسز افغانستان سے جانا شروع کریں، افغان فورسز ان کی جگہ لینے کیلئے تیار ہوں۔

افغان کے خصوصی ایلچی  رچرڈ ہولڈ بروک نے مقامی حفاظتی دستوں کی تیاری کے طریقہ کارکو  واضح کرتے ہوئے کہا ہم اس کام کے کیلئے مقامی لوگوں کو ہلکے پھلکے اسلحہ سے لیس کر کے انہیں عسکری تربیت فراہم کریں گے، ہولڈ بروک کا بیان ان کے زمینی حقائق سے نابلد ہونے کا پتہ دیتا ہیافغانستان کا عام ا?دمی ہمیشہ  سے اسلحہ بردار رہا ہے اور افغان ایک پیدائشی جنگجو قوم ہے سپہ گری ان کا ا?بائی شعار ہے  وہ اس معاملے میں امریکی تربیت کے محتاج ہر گزنہیں ہیں ،لیکن اس حکمتِ عملی  بلکہ عملی حماقت کی بہت بڑی قیمت اتحادیوں کو چکانی پڑیگی جس کا اندازہ اس واقعہ سے کیا جاسکتا ہے جس کے چرچے فی الحال زبان زدِ عام ہیں حکومت ایک  افغان فوجی کو تلاش کر رہی ہے جو منگل کے روز تین برطانوی فوجیوں کو ہلاک کرنے کے بعد فرارہو گیا تھا۔ اس حملے میں چار برطانوی فوجی زخمی بھی ہوئے تھے اور افغان صدر حامد کرزئی نے نیٹو اور لندن سے معافی مانگتے ہوئے واقعے میں ملوث افراد کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کا یقین دلایا۔ آٹھ ماہ قبل بھی ایک افغان پولیس اہلکار نے ہلمند میں ایک چوکی پر تعینات پانچ برطانوی فوجیوں کو ہلاک کر دیا تھا۔ امریکہ کے بعد افغانستان میں تعینات سب سے زیادہ فوجیوں کا تعلق برطانیہ سے ہے جن کی تعداد لگ بھگ ساڑھے نو ہزار ہے۔اب جن لوگوں کو یہ احمق اتحادی، طالبان سے لڑنے کیلئے اسلحہ تقسیم کریں گے ان میں سیکتنے طالبان سے لڑیں گے اور کتنے ان سے جا ملیں گیاس کا اندازہ کرنا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔افغان کی سرزمین پر شکست و ریخت سے دوچار اتحادی ممالک فی الحال جنگ کا سب بنیادی سبق بھول گئے ہیں جس کے مطابق’ہر کسی کو اپنی جنگ ا?پ ہی لڑنی پڑتی ہے ،کائنات ِہستی میں کوئی کسی  اورکی جنگ نہیں لڑتا کرائے کے فوجیوں سے کاروبار تو ہوتا کارزار نہیں ہوتا’ جو فوج اس طلائی اصول کو بھول جاتی ہے اسے شکست دینے کیلئے کسی دشمن کی حاجت نہیں ہوتی موت کے خوف سے لرزہ بر اندام وہ فوج  خود اپنی قبر کھود کر اس میں  برضا و رغبت صاحبِ فراش ہو جاتی ہے اس لئے کہ جبر ایک حد سے گذرنے کے بعد احساسِ جرم میں تبدیل ہوجاتا ہے اور پھر اس کے بعد انسان خود اپنے سائے سے ڈرنے لگتا ہے

تبصرے
Loading...