حضرت سیدنا علی بن حمزہ بن امام موسیٰ کاظم)شاہ چراغ)

حضرت شاہ چراغ کے بھتیجے سیدنا میر علی بن حمزہ بن امام موسیٰ کاظم معرکۂ شیراز میں شدید زخمی ہو کر پہاڑ کی جانب نکل گئے ۔ شیراز کے صبوی پہاڑ کے دامن میں پہنچے تو زخموں کی بے اندازہ تکلیف اور بدن مبارک سے بہت زیادہ خون بہہ جانے کے باعث کمزور ہو کر گر پڑے ۔ اس پہاڑ کے ایک غار میں صاحب تقویٰ بزرگ، علی المعروف بابا کوہی دنیا سے کنارہ کش ہو کر کئی برسوں سے عبادت اور یاد الٰہی میں محو تھے ۔ اس روز کسی ضرورت کے تحت پہاڑ کے دامن میں آئے ۔ سیدنا علی کو شدید زخمی اور انتہائی مجبور حالت میں دیکھ کر نظر باطن سے پہچان گئے کہ یہ انمول موتی سلسلۂ امامت کے جواہرات میں سے ہے ۔

امامزادے کو پشت پہ رکھ کے اپنی خانقاہ لے گئے اور پورے عزم سے شہزادے کی خدمت کے لئے کمر ہمت باندھ لی ۔ تین ماہ کی خدمت گزاری بار آور ہوئی اور امامزادہ علی بن حمزہ کے زخم ٹھیک ہو گئے ۔ آپ مسلسل سات سال شیخ کے ساتھ  رہے اور شیخ نے تمام تر توجہ شہزادے کی خاطر داری اور خدمت گزاری پہ مرکوز کر لی ۔ ایک دن چراغ میں جلنے والا تیل ختم ہو گیا ۔ شیخ کوہی نے کہا کہ ڈبہ لے کر شہر سے تھوڑا سا تیل لے آئیں تا کہ چراغ جلائیں ۔ شہزادے نے ڈبہ لیا اور دامن کوہ میں آئے ۔ وہاں پانی کا چشمہ تھا ۔ ڈبہ پانی سے بھرا اور واپس خانقاہ تشریف لے گئے ۔ اس رات وہی پانی تیل کی طرح چراغ میں جلتا رہا ۔ شیخ کوہی نے یہ دیکھ کر کہا: ’’میرے سید! آپ میرے آقازادے ہیں، کرامت آپ کی اور آپ کے خاندان کی برحق ہے ۔ خارق عادت امور آپ کے شایان شاں ہیں ۔ بہتر یہی ہے کہ تکلیف کر کے شہر جائیں اور چراغ کے لئے تھوڑا سا تیل لے آئیں ۔ اس پر آپ کو اجر ملے گا ۔ لوگوں کے پانی سے اجتناب فرمائیں ‘‘۔

صبح امامزادے نے ڈبہ لیا اور شہر کی جانب روانہ ہوئے ۔ شہر پہنچ کر تیل حاصل کیا ۔ واپس روانہ ہونے لگے تو منافقین کے ایک گروہ نے آپ کے حسن و جمال اور رعب داب دیکھ کر حیرانگی کا اظہار کیا اور ایک دوسرے سے کہنے لگے کہ یہ جوان کون ہے ؟ معلوم ہوتا ہے کہ خاندان اہلبیت سے ہے ۔ ہم نے سنا ہے کہ بابا کوہی کے  پاس کوئی بوترابی جوان رہتا ہے ۔ گمان غالب ہے کہ یہ وہی جوان ہے ۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے شہزادے کو پہچاننے کی کوششیں شروع کر دیں ۔ جب اچھی طرح پہچان لیا تو شہزادے کے تعاقب میں رستہ بدل کر شہر سے باہر آگئے اور دروازے کے قریب خشک نالہ پر امامزادہ کے قریب پہنچ کر چاروں جانب سے حملہ کرکے سیدنا علی بن حمزہ کو شہید کر دیا۔

آپ کا سر مبارک تن سے جدا کر کے اپنے سردار کے پاس لے جانے کی کوشش کی لیکن خدا کی قدرت کہ سر اتنا بھاری ہو گیا کہ زمین سے ہلا بھی نہ سکے اور نامراد شہر واپس چلے گئے ۔ شیخ کوہی نے شام تک شہزادے کا انتظار کیا لیکن جب شام تک واپس نہ آئے تو پہاڑ سے اتر کر شہر روانہ ہوئے ۔ خشک نالے پر پہنچ کر دیکھا کہ امامزادہ خون میں لت پت شہید پڑے ہیں ۔ شیخ کوہی نے قریب پہنچ کر کہا :  ’’مردان خدا چنیں نخسیند‘ ‘یعنی ’’مردان خدا اس طرح نہیں سویا کرتے ‘‘۔ شیخ کوہی نے یہ کہہ کر شہید امامزادے کا جسد مبارک اٹھا یا اور سر مبارک بغل میں دباکر وہاں تک لے گئے جہاں آپ دفن ہیں ۔ وہاں پہنچ کر زمین پہ گر پڑے ۔ شیخ جان گئے کہ اُن کا مدفن شریف یہی ہے ۔ شیخ نے شہر آکر بیلچہ لیا اور راتوں رات قبر کھود کر دفن کر دیا ۔ رات بھر وہاں ذکر اذکار اور تلاوت کلام پاک میں مصروف رہے ۔ صبح ہونے پر قبر مطہر کی علامت بنا دی ۔

امیر عضدالدولہ کے زمانہ میں اس مزار مقدس پر خوبصورت گنبد تعمیر کروایا گیا۔ آپ کا مستجاب الدعوات، با ہیبت روضہ مبارک شیراز کے دروازۂ اصفہا ن میں جلوہ نما ہے ۔ آپ کے والد سیدنا ابوالقاسم حمزہ بن امام موسیٰ کاظم  کا روضۂ اقدس تہران میں شاہ عبدالعظیم حسنی کے مزار میں ہے ۔ شاہ عبدالعظیم آپ کی تربتِ عالیہ کے مجاور تھے اور وہیں انتقال فرمایا۔ سیدنا ابوالقاسم حمزہ کے تین صاحبزادے تھے ۔ سیدنا علی بن حمزہ کی اولاد نہ تھی ۔ آپ کے دو بھائیوں سیدنا قاسم اور سیدنا حمزہ بن سیدنا حمزہ بن امام موسیٰ کاظم کی اولاد بلاد عجم میں کثیر ہے ۔ سلاطین صفویہ موسویہ اور حاجی سید وارث علی شاہ المعروف وارث پاک، تاجدارِ دیوا شریف انڈیا سیدنا قاسم حمزہ کی اولاد اطہار کے دمکتے ستارے ہیں ۔

شاہ چراغ (شدت ضربِ شیر خدا اور ہے)

دوسرے روز طرفین کی صف بندی ہوئی اور کُشن کے مقام پر لڑائی کا بازار گرم ہوا۔ اس روز سیدنا میر احمد اور دوسرے امامزادوں نے میدان کارزار میں بہادری کے وہ جوہر دکھائے کہ اہل شیراز کو حیدرِ کرار یاد آگئے ۔ سیدنا میر احمد کی تلوار، تیغ ذوالفقار کی عکاس تھی تو آپ کے زورِ بازو میں لَافَتیٰ اِلاّعَلی کے نعرے گونج رہے تھے ۔علی کا گھر بھی وہ گھر ہے کہ اس گھر کا ہر اک بچہ جہاں پیدا ہوا شیر خدا معلوم ہوتا ہےلشکر اسلام کا دباؤ دیکھ کر جماعتِ اشرار نے میدان چھوڑنا شروع کر دیا۔ دوسرے روز قتلغ خان نے پھر سرکشی کی مگر اہل اسلام نے اسے شکست دے دی ۔ قتلغ خان، فی النار ہونے والوں کی لاشوں کو دفن کرنے کے بعد تیسرے دن پھر حملہ آور ہوا مگر شکست خوردگی سے میدان چھوڑنا پڑا۔ جماعت اشرار نے راہ فرار اختیار کی ۔سیدنا میر احمد اور دوسرے شہزادگان نے میدان جنگ سے لے کر دو میل دور قلعہ شیراز کی پشت تک دشمنان اسلام کا تعاقب کیا ۔ شیر خدا کے بپھرے شیر، عباسی لومڑیوں پر غضبناک حملے کر رہے تھے۔ جہاں رخ کرتے منافقین کی جماعت متفرق کر دیتے ۔ لڑائی کے آخری روز قلعہ کی پشت تک پہنچ گئے ۔ دشمن شہر میں داخل ہو کر دروازے بند کر کے برجوں پہ چڑھ گئے ۔ سیدنا میر احمد اپنے لشکر کے ہمراہ خیمہ گاہ واپس تشریف لائے ۔ اس روز امام زادوں کو  بہت زخم آئے اور لشکر اسلام سے قریباً تین سو مجاہدین شہادت رسید ہوئے ۔ اگلے روز سیدنا احمد نے حکم دیا کہ لشکر اسلام شہر کے دروازے کے عقب میں خیمہ زن ہو جائے ۔

اب وقتِ شہادت ہے آیا

قتلغ خان نے یہ خبر سن کر اپنے افسروں اور شہر کے اکابرین کو جمع کر کے کہا ،’’ہم ان ہاشمیوں کا مقابلہ نہیں کر سکتے البتہ کسی تدبیر سے کامیاب ہو سکتے ہیں ۔ تجویز یہ ہے کہ ہم ہر گزرگاہ پہ فوج کا ایک دستہ پوشیدہ رکھیں اور تھوڑی فوج کے ساتھ شہر کے دروازے پر ان کا مقابلہ کریں ۔ ہم شکست خوردہ شکل میں شہر سے بھاگیں، دروازے کھلے چھوڑ دیں، جب ہاشمی تعاقب کرتے ہوئے شہر میں داخل ہو جائیں گے تو شہر میں متفرق ہو جائیں گے ۔ چونکہ ان کی تعداد تھوڑی ہے ہم شہر میں انہیں آسانی سے قتل کر دیں گے ‘‘۔تمام خارجیوں نے اس رائے کو پسند کیا ۔ دوسرے روز انہوں نے اسی تجویز پہ عمل کیا ۔ امامزادے شہر میں داخل ہو گئے ۔ کفار کی چال کامیاب ہوئی ۔ امامزادگان کو شہر میں جہاں جہاں پایا شہید کردیا گیا ۔ سیدنا میر احمد یکہ و تنہا رہ گئے تو وسط شہر میں تشریف لائے ۔ لوگ آپ کے رعب و جلال سے خوفزدہ تھے اور آپ کا سامنا کرنے کی تاب نہ رکھتے تھے ۔ گروہ در گروہ فرار اختیار کرتے ۔ جب آپ سرزد محلہ کے قریب پہنچے تو ایک ستمگر نے عقب سے آپ کے سر مبارک پہ وار کیا ۔ تلوار آپ کی ابروؤں تک اتر آئی ۔ آپ کی پشت پر مزید زخم لگائے گئے جن سے آپ ناتواں ہو گئے ۔خارجی آپ کو بے بس جان کر آپ کی جانب بڑھنا شروع ہوئے ۔ انتہائی زخمی حالت میں بھی آپ اپنا دفاع فرماتے انہیں دھکیل کر سوق الغازان، بازارِ ریسمان تک لے گئے جہاں آپ کا مشہد مقدس ہے ۔ حضرت کو بہت زخم آچکے تھے۔ ناتوانی غالب ہوئی تو خوارج نے مل کر یلغار کردی اور ان ظالموں نے آپ کو شہید کر دیا ۔ قدرت خدا کہ آپ کا جسد منور ان ظالمین سے غائب ہو گیا اور کسی کو پتہ نہ چلا کہ آپ کا جسد پاک کہاں ہے ۔ طویل عرصہ تک یہ مشہد و مدفن عوامی نگاہوں سے مخفی رہا۔

شاہ چراغ،سیدنا امامزادہ میراحمد بن امام موسیٰ کاظم ( شیراز آمد)

سیدنا میر احمد اس وقت تک ثَامِنُ الْحُجَّۃْ کی خدمت میں رہے جب تک مامون الرشید نے حضرت امام کو مدینہ سے خراسان نہ بلا لیا  ۔امام علی رضا خراسان پہنچے تو مامون نے آپ کو ولی عہد سلطنت مقرر کیا ۔ جب یہ خبر مدینہ منورہ پہنچی تو سیدنا احمد اپنے بھائیوں، بھتیجوں، احباء و عقیدت مندوں کے ساتھ جن کی مجموعی تعداد سات سو تھی مدینہ منورہ سے خراسان روانہ ہوئے اور کویت، بصرہ، اھواز، بوشھر سے ہوتے دروازۂ فارس شیراز کے قریب پہنچے ۔ رستہ سے امام کے عقیدت مند اس قافلہ میں شامل ہوتے گئے اور یہ قافلہ دو ہزار نفوس سے تجاوز کر گیا ۔ شہر شیراز سے تین میل کے فاصلہ پر تھے کہ آپ نے امام علی رضا کی شہادت کی خبر سنی ۔مامون الرشید عباسی کو خبر ہوئی کہ امامزادگانِ موسیٰ کاظم خراسان تشریف لا رہے ہیں تو اس نے تمام عمال سلطنت اور حکام کو ایک مراسلہ کے ذریعے حکم دیا کہ امیر المومنین سیدنا امام علی کی اولاد میں سے جو آدمی جس جگہ ملے قتل کر دیا جائے ۔ گورنر شیراز، قتلغ خان کو خصوصی حکم دیا اور سادات عظام کے خلاف بھڑکایا۔ قتلغ خان کو اطلاع ہوئی کہ سیدنا میر احمد شیراز سے تین میل کے فاصلہ پر ہیں تو اس نے فوراً چالیس ہزار سپاہ پہ مشتمل ایک لشکر ترتیب دیا اور شہر سے باہر آکر سادات عظام کا رستہ روکا ۔

سیدنا میر احمد نے پرشکوہ عباسی لشکر کے سامنے قیام فرمایا ۔ آپ کو علم ہوا کہ دشمن جنگ اور خونریزی پہ آمادہ ہے تو انہوں نے اپنے انصار و معاونین کو جمع کر کے امام علی رضا کی شہادت کی خبر سنائی اور فرمایا:

یہ ظالم ہمیں کبھی بھی مدینہ منورہ واپس نہ جانے دیں گے ۔تم میں سے جو بھی مدینہ منورہ واپس جانا چاہتا ہو جلد چلا جائے ۔میں ان شریر ظالموں سے ضرور جہاد کروں گا “۔یہ سن کر آپ کے تمام بھائیوں ، بھتیجوں اور دوستوں نے اعلان کیاکہ ہم آپ کی قیادت میں جہاد کریں گے ۔ سیدنا میر احمد نے ان سب کو دعائے خیر دیتے فرمایا ،’’اچھا تو جنگ کی تیاری کر لیجئے ‘‘۔ یہ دو سو دو ہجری کا زمانہ تھا ۔

شدت ضربِ شیر خدا اور ہے :

دوسرے روز طرفین کی صف بندی ہوئی اور کُشن کے مقام پر لڑائی کا بازار گرم ہوا۔ اس روز سیدنا میر احمد اور دوسرے امامزادوں نے میدان کارزار میں بہادری کے وہ جوہر دکھائے کہ اہل شیراز کو حیدرِ کرار یاد آگئے ۔ سیدنا میر احمد کی تلوار، تیغ ذوالفقار کی عکاس تھی تو آپ کے زورِ بازو میںل َافَتیٰ اِلاّعَلی کے نعرے گونج رہے تھے ۔

علی کا گھر بھی وہ گھر ہے کہ اس گھر کا ہر اک بچہ جہاں پیدا ہوا شیر خدا معلوم ہوتا ہے. لشکر اسلام کا دباؤ دیکھ کر جماعتِ اشرار نے میدان چھوڑنا شروع کر دیا۔ دوسرے روز قتلغ خان نے پھر سرکشی کی مگر اہل اسلام نے اسے شکست دے دی ۔ قتلغ خان، فی النار ہونے والوں کی لاشوں کو دفن کرنے کے بعد تیسرے دن پھر حملہ آور ہوا مگر شکست خوردگی سے میدان چھوڑنا پڑا۔ جماعت اشرار نے راہ فرار اختیار کی ۔سیدنا میر احمد اور دوسرے شہزادگان نے میدان جنگ سے لے کر دو میل دور قلعہ شیراز کی پشت تک دشمنان اسلام کا تعاقب کیا ۔ شیر خدا کے بپھرے شیر، عباسی لومڑیوں پر غضبناک حملے کر رہے تھے۔ جہاں رخ کرتے منافقین کی جماعت متفرق کر دیتے ۔ لڑائی کے آخری روز قلعہ کی پشت تک پہنچ گئے ۔ دشمن شہر میں داخل ہو کر دروازے بند کر کے برجوں پہ چڑھ گئے ۔ سیدنا میر احمد اپنے لشکر کے ہمراہ خیمہ گاہ واپس تشریف لائے ۔ اس روز امام زادوں کو بہت زخم آئے اور لشکر اسلام سے قریبا ًتین سو مجاہدین شہادت رسید ہوئے ۔ اگلے روز سیدنا احمد نے حکم دیا کہ لشکر اسلام شہر کے دروازے کے عقب میں خیمہ زن ہو جائے ۔

اب وقتِ شہادت ہے آیا :

قتلغ خان نے یہ خبر سن کر اپنے افسروں اور شہر کے اکابرین کو جمع کر کے کہا :

“ہم ان ہاشمیوں کا مقابلہ نہیں کر سکتے البتہ کسی تدبیر سے کامیاب ہو سکتے ہیں ۔ تجویز یہ ہے کہ ہم ہر گزرگاہ پہ فوج کا ایک دستہ پوشیدہ رکھیں اور تھوڑی فوج کے ساتھ شہر کے دروازے پر ان کا مقابلہ کریں ۔ ہم شکست خوردہ شکل میں شہر سے بھاگیں، دروازے کھلے چھوڑ دیں، جب ہاشمی تعاقب کرتے ہوئے شہر میں داخل ہو جائیں گے تو شہر میں متفرق ہو جائیں گے ۔ چونکہ ان کی تعداد تھوڑی ہے ہم شہر میں انہیں آسانی سے قتل کردیں گے”۔

تمام خارجیوں نے اس رائے کو پسند کیا ۔ دوسرے روز انہوں نے اسی تجویز پہ عمل کیا ۔ امامزادے شہر میں داخل ہو گئے ۔ کفار کی چال کامیاب ہوئی ۔ امامزادگان کو شہر میں جہاں جہاں پایا شہید کردیا گیا ۔ سیدنا میر احمد یکہ و تنہا رہ گئے تو وسط شہر میں تشریف لائے ۔ لوگ آپ کے رعب و جلال سے خوفزدہ تھے اور آپ کا سامنا کرنے کی تاب نہ رکھتے تھے ۔ گروہ در گروہ فرار اختیار کرتے ۔ جب آپ سرزدکے محلہ کے قریب پہنچے تو ایک ستمگر نے عقب سے آپ کے سر مبارک پہ وار کیا ۔ تلوار آپ کی ابروؤں تک اتر آئی ۔ آپ کی پشت پر مزید زخم لگائے گئے جن سے آپ ناتواں ہو گئے ۔

خارجی آپ کو بے بس جان کر آپ کی جانب بڑھنا شروع ہوئے ۔ انتہائی زخمی حالت میں بھی آپ اپنا دفاع فرماتے انہیں دھکیل کر سوق الغازان، بازارِ ریسمان تک لے گئے جہاں آپ کا مشہد مقدس ہے ۔ حضرت کو بہت زخم آچکے تھے۔ ناتوانی غالب ہوئی تو خوارج نے مل کر یلغار کردیا اور ان ظالموں نے آپ کو شہید کر دیا ۔ قدرت خدا کہ آپ کا جسد منور ان ظالمین سے غائب ہو گیا اور کسی کو پتہ نہ چلا کہ آپ کا جسد پاک کہاں ہے ۔ طویل عرصہ تک یہ مشہد و مدفن عوامی نگاہوں سے مخفی رہا۔

شاہ چراغ، سیدنا امامزادہ میراحمد بن امام موسیٰ کاظم

 سیدنا امام موسی کاظم (ع)  کی اولاد اطہار میں ہر جلیل المنزلت صاحبزادہ مقام منفرد رکھتا ہے جن کی حیات طیبہ فدا کاری، تبلیغ دین، ایثار اور فلاح انسانی کی باکمال کاوشوں سے لبریز ہے ۔ آٹھویں خلیفہ  راشد سیدنا امام علی بن موسیٰ الرضا (ع) کے بعد سیدنا احمد بن امام موسیٰ کاظم، کمال جاہ وجلال، رفیع الدرجات، قدر ومنزلت اور شان و عظمت کے مالک ہیں ۔ آپ سیدنا امام موسیٰ کاظم کے بزرگ ترین فرزندان میں سے ہیں ۔ امام موسیٰ کاظم (ع)  آپ سے بیحد محبت فرماتے اور تمام امور میں آپ کو مقدم رکھتے ۔ آپ نے اپنی یُسَیْرَہْ نامی جاگیر اُن کے لئے وقف فرمائی ۔ سیدنا احمد، سیدنا محمد اور سیدنا حمزہ  بن امام موسیٰ کاظم ایک والدہ سے ہیں ۔

آپ کی والدہ مکرمہ حضرت ام احمد بزرگ ترین خواتین میں سے تھیں ۔ سیدنا امام موسیٰ کاظم ان مخدومہ پہ خصوصی نگاہ کرم فرماتے ۔ جب آپ مدینہ منورہ سے عازم بغداد ہوئے تو تمام تبرکاتِ امامت آپ کے سپرد کرتے فرمایا:

’’یہ تبرکات امامت آپ کے پاس میری امانت ہیں ۔ میری شہادت کے بعد جب کوئی یہ تبرکات طلب کرے تو دے دینا، وہی خلیفہ اور امام ہوں گے ۔ آپ پر اور دیگر لوگوں پر ان کی اطاعت واجب ہو گی ‘‘۔ حضرت امام علی رضا (ع) کو حضرت ام احمد کے گھر میں بڑے احتیاط سے وصیت فرمائی ۔ اس کے بعد ہارون الرشید عباسی نے سیدنا امام موسیٰ کاظم (ع) کو زہر دلوا کر شہید کر دیا ۔

آپ کی جانگداز شہادت کے بعد سیدنا امام علی رضا(ع)، حضرت ام احمد کے پاس تشریف لائے اور تبرکاتِ امامت کا مطالبہ کیا ۔ سیدتنا ام احمد نے یہ سن کر گریہ زاری فرمائی اور سر کوبی فرماتے پوچھا، ’’سیدی ! کیا آپ کے والد بزرگوار شہید ہو گئے ؟ ‘‘۔فرمایا، ’’ہاں، ابھی ان کے دفن کے بعد مدینہ واپس آیا ہوں ۔ آپ وہ امانتیں مجھے دے دیں جو میرے والد بزرگوار نے بغداد کا سفر اختیار کرتے  وقت آپ کے سپرد فرمائی تھیں ۔ میں ان کا خلیفہ اور جن و انس پہ امام برحق ہوں ‘‘۔ مخدومہ پاک نے یہ سن کر شدت سے آہ و زاری کی اور امانتیں واپس کر کے سیدنا امام علی رضا (ع) کی بیعت کی ۔ جب حضرت امام موسیٰ کاظم(ع)  کی شہادت کی خبر مدینہ منورہ میں معروف ہوئی تو اہل مدینہ جوق در جوق حضرت بی بی ام احمد کے گھر کے دروازے پر جمع ہونے لگے ۔

عنایات شاہچراغ

ایک مرتبہ کسی خاص موقع پر انگشتری کی ضرورت محسوس ہوئی ۔خزانچی نے بہت تلاش کی مگر نہ ملی ۔امیر عضدالدولہ بہت پریشان ہوا اور غضبناک ہو کر خزانچی کے قتل کا حکم جاری کر دیا ۔ خزانچی کو اپنی موت سامنے دکھائی دینے لگی تو بھاگ کر حضرت سید میر احمد کے روضہ میں پناہ لی ۔ لوگوں نے امیر عضدالدولہ کو بتایا کہ خزانچی حضرت سیدمیر احمد کے روضہ میں پناہ گزین ہے اور حضرت کی بارگاہ میں عر ض پرداز ہے۔امیر عضدالدولہ صورت حال سے پریشان ہو کر تنہائی میں جا بیٹھا ۔انگشتری غائب ہونے سے اس کا آرام وسکون غائب ہو چکا تھا ۔دل میں سوچا کہ یقینا انگشتری سپرد کرتے وقت میں نے یہ خیال کیا تھا کہ یہ میرا مال ہے ۔اسی وجہ سے انگشتری غائب ہوئی ہے۔وہ اسی پریشانی میں تھا کہ اسے نیند آگئی اور خواب میں وہ حضرت سیدنا میر احمد کی بارگاہ میں شرفیاب ہوا ۔حضرت نے ارشاد فرمایا ،’’اے امیر عضد !انگشتری ہمارے پاس ہے تو گمشدگی کا خیال چھوڑ دے ۔تمہاری حکومت بہت عرصہ تک رہے گی ۔جو انگشتری تمہارے پاس تھی وہ ہم نے واپس منگوا لی ہے ۔اس کی جگہ ہم تمہیں ایک تاج عطا کریں گے جو تمہاری حکومت کے طویل عرصہ رہنے کی دلیل ہو گا ۔پیر عفیف الدین کو میرے پاس روانہ کرو تا کہ تمہارے لئے تاج ارسال کروں ۔امیر عضدالدولہ خواب سے بیدار ہوا تو بہت خوش تھا ۔پیر عفیف الدین کے پاس جا کر انگشتری اور خواب کی ساری کیفیت بیان کی ۔ انہوں نے فرمایا ،’’گزشتہ رات میں نے بھی خواب میں حضرت سید میر احمد کی زیارت کی ۔آپ نے حکم دیا،’’عفیف الدین !دوبارہ ہمارے پاس آؤ تا کہ امیر عضد الدولہ کے لئے تاج ارسال کروں ‘‘،لہٰذا حضرت کے ارشاد گرامی کی تعمیل ضروری ہے ‘‘۔

امیر عضد الدولہ اور پیر عفیف الدین حضرت سید میر احمد کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور اس جگہ کو کھودنے کا حکم دیا ۔جب تہہ خانہ تک پہنچے تو خود کو خوشبوؤں سے معطر کیا اور وہاں موجود تمام لوگوں کو بھی خوشبو لگائی ۔پیر عفیف الدین نے غسل کیا ،خوشبودار لباس پہنا اور تہہ خانہ میں داخل ہو گئے ۔

فردوس بریں :

دیکھا کہ باغات بہشت میں سے ایک باغ ہے جس میں ہر طرف نہریں جاری ہیں اور پھلدار درخت سرسبز وشاداب دکھائی دے رہے ہیں ۔ہوا میں جنتی خوشبو پھیلی ہے ۔ہر جگہ لوگ خوشی ومسرت سے سیر کرتے پھر رہے ہیں ۔پیر عفیف الدین چلتے چلتے اس باغ کے وسط میں پہنچے ۔ایک چبوترہ دیکھا جس کے چاروں طرف نہریں بہہ رہی تھیں اور اس چبوترے پر ایک تخت تھا ۔اس تخت پر ایک شخص جس نے اس دنیا کا لباس فاخرہ پہنا ہوا تھا پیروں کے بل ،سر گھٹنوں پہ رکھے بیٹھا تھا۔اس کے سر پہ گونا گوںموتیوں سے مرصع ایک نہایت ہی خوبصورت تاج تھا اور اون کا بنا ہوا دوسرا تاج سامنے رکھا تھا۔ پیر صاحب اس حصہ کے قریب پہنچے تو سید نامیر احمد کے غیب سے اشعار سنائی دیئے کہ پشم سے بنا تاج اٹھا لو ۔پیر عفیف الدین انتہائی خشوع وخضوع اور ادب احترام سے تخت پہ چڑھے اوراُن حضرت کے دست وپا چومنے کی سعادت حاصل کی ۔اون کا بنا تاج اٹھایا اور باہر آگئے ۔

امیر عضدالدولہ کی نظر اس تاج پر پڑی تو تعظیم وتکریم کے لئے اٹھ کھڑا ہوا۔تاج لے کر بوسے دیئے ۔سر پہ رکھنا چاہا مگر پیر عفیف الدین نے منع کرتے ہدایت فرمائی کہ اسی طرح کے دو تاج اون سے تیار کروا کے تھوڑی سی اون اس تاج کی ان میں لگا دو ۔ایک خود پہنو اور دوسرا میں سر پہ رکھوں ۔اس تاج کی نگہداشت کرو تاکہ تمہارے خاندان اور اولاد میں حکومت باقی رہے ۔امیر عضد الدولہ نے اس ہدایت پہ عمل کرتے ہوئے اون سے دو تاج بنوائے ۔ایک خود رکھا اور دوسرا پیر صاحب کو دے دیا ۔

روضہ ء اقدس :

اس کے بعد امیر عضد الدولہ نے سیدنا احمد بن امام موسیٰ کاظم  کا روضۂ اقدس تعمیر کروایا اور آپ کے حالات زندگی اور دیگر تفاصیل ایک پتھر پہ نقش کر کے آپ کے روضہ ء مطہر کے دروازے پہ نصب کر دیا۔ پتھر کی وہ تختی مدتوں قائم رہی ۔ طویل عرصہ گزرنے پر اس تختی کے نقوش میں تغیر واقع ہوا اوراس تختی کے کچھ نقوش مٹے ہوئے پائے گئے ۔روضہ کے متولیوں میں سے ایک نے علماء شیراز کو جمع کیا اور تختی کے مٹے ہوئے نقوش کو روشن کیا ۔تمام علماء نے اس کی تصدیق پہ دستخط کئے اور مہریں ثبت کیں ۔تختی کی تحریر کو کتاب کی شکل دے کر اس کا نا م ’’نقش حجر ‘‘رکھا ۔ آپ کا روضہ مبارک شیراز کی گنجان آبادی کے عین وسط میں مرجع خلائق ہے ۔موجودہ عمارت اتابک سعد زنگی کی بنائی ہوئی عمارتوں میں سے ایک ہے جس میں مختلف ادوار میں ترمیم وتوسیع ہوتی رہی ہے ۔

شاه چراغ کا جسد جاوداں

یہ اطلاع پا کر پیر عفیف الدین تشریف لائے ۔ غسل فرما کر صاف و معطر لباس زیب تن کیا اور تہہ خانہ میں داخل ہو گئے ۔ چند قدم ہی چلے کہ ایسا نور ظاہر ہوا جس سے اس علاقہ سے اندھیرا غائب ہو گیا اور سب جگہ روشنی ہو گئی ۔ پیر صاحب نہایت ہیبت زدہ حالت میں وسیع تہہ خانہ کے درمیان پہنچے ۔ تہہ خانہ کے عین وسط میں ایک تخت پر سیدنا میر احمدجسدِ اقدس پہ مخمل کی سفید چادر اوڑھے، خون میں لت پت، محو آرام تھے ۔ امانت کی طرح رکھا زمیں نے روز محشر تک ہوا اک موئے تن میلا نہ اک تار کفن بگڑا پیر صاحب تخت کے قریب پہنچے تو حضرت سیدنا میر احمد نے کپڑے کے نیچے سے اپنا دایاں ہاتھ باہر نکالا ۔ ہاتھ میں انگشتری تھی ۔ پیر عفیف الدین کو نزدیک آنے کا اشارہ فرمایا۔ پیر عفیف الدین ان کے قریب جا کر تسلیمات بجا لائے اور آنحضرت کے دست و پا چومے ۔ انگشتری ان کی انگلی سے اتار کر واپس ہوئے ۔ باہر تشریف لائے تو درباریوں نے امیر عضدالدولہ کو اطلاع دی ۔ امیر نے پیر صاحب کا استقبال کیا اور بہت ہی عزت کی ۔ امیر نے حالات دریافت کئے ۔ پیر صاحب نے جو کچھ دیکھا تھا اسی طرح بیان فرما دیا ۔ نقش انگشتری کو پڑھا گیا تو اس پر احمد بن امام موسیٰ کاظم نقش تھا ۔امیر نے حکم دیا کہ شہر میں نقارہ بجا کر اعلان عام کردیا جائے کہ تمام فقرا ء و مساکین کو بطور شکرانہ کھانا کھلایا جائے گا ۔ قیدیوں کو عام معافی دے دی گئی ۔ امیر نے انگشتری پہننا چاہی تو پیر صاحب نے منع کر تے فرمایا،’’یہ فعل ادب و احترام کے خلاف ہے ۔ بہتر یہی ہے کہ انگشتری کو خزانے میں رکھا جائے تاکہ خزانے میں برکت ہو اور مخصوص بڑے ایام میں بطور تبرک اس کی زیارت کروائی جائے ۔ امیر عضدالدولہ نے حکم کی تعمیل کرتے انگشتری ایک مرصع صندوق میں رکھ کر خزانچی کے سپرد کر دی ۔ یہ انگشتری طویل عرصہ اس خزانے میں محفوظ رہی اور خاص خاص دنوں میں بطور تبرک اس کی زیارت کروائی جاتی تھی۔ ایام جنگ میں اس انگشتری کی برکت سے فتح نصیب ہوتی ۔

تبصرے
Loading...