حضرت امام موسی کاظم (علیہ السلام) کی شہادت

امام کاظم (ع) سنہ 128 ہجری قمری میں پیدا ہوئے۔ آپ نے بیس سال تک کی عمر اپنے والد ماجد حضرت امام صادق (ع) کی ذات مقدس کے ساتھ گزاری اور امام صادق (ع) کی شہادت کے بعد 35 سال تک مسلمانوں کی امامت و ہدایت کی ذمہ داری انجا

امام کاظم (ع) سنہ 128 ہجری قمری میں پیدا ہوئے۔ آپ نے بیس سال تک کی عمر اپنے والد ماجد حضرت امام صادق (ع) کی ذات مقدس کے ساتھ گزاری اور امام صادق (ع) کی شہادت کے بعد 35 سال تک مسلمانوں کی امامت و ہدایت کی ذمہ داری انجام دی ۔ اس راہ میں آپ نے بہت سی مشکلات اور صعوبتیں برداشت کیں۔ آپ (ع) کے علم سے فیضیاب ہونے والے بہت سے فقیہ اور دانشور شاگردوں نے اسلامی علوم و تعلیمات کوپوری دنیا میں رائج کیا۔ امام کاظم (ع) نے اسلامی علوم اور تعلیمات کی ترویج و اشاعت کے ساتھ ساتھ عباسی حکومت کے خلاف جد و جہد بھی جاری رکھی ۔ سرانجام عباسی خلیفہ ہارون رشید نے امام موسیٰ کاظم (ع) کو گرفتار کرلیا اور ایک سازش کے تحت زہر دے کر شہید کردیا۔

آپ کے دو مشهور لقب ”کاظم“ اور ”باب الحوائج“ تھے ۔ آپ کی ولادت باسعادت ۱۲۸ہجری قمری میں مقام ”ابواء“ (مدینہ کے قریب ایک مقام) پر ہوئی۔ آپ کی زندگی بنی عباس سلطنت کے زیر اثر مشکلات سے دوچار رہی ہے۔
جب حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام نےفرائض امامت سنبھالے اس وقت عباسی خلیفہ منصوردوانقی بادشاہ تھا یہ وہی ظالم بادشاہ تھا جس کے ہاتھوں بے شمارسادات مظالم کا نشانہ بن چکے تھے سادات زندہ دیواروں میں چنوائے گئے یا قید کرکے رکھے گئے تھے۔
امام موسي کاظم عليہ السلام نے مختلف حکام کے دور ميں زندگي بسر کي۔ آپ کا دور، حالات کے اعتبار سے نہايت مصائب اور شديد مشکلات اور گھٹن سے بھرا ہوا دور تھا۔ ہرآنے والے بادشاہ کي امام پرسخت نظر تھي ليکن يہ آپ کا کمال امامت تھا کہ آپ شدید مصائب مشکلات کے دورميں قدم قدم پر لوگوں کو درس علم وہدايت عطا فرماتے رہے۔ اتنے نامناسب حالات ميں آپ نے اس یونیورسٹی کي جوآپ کے پدر بزرگوارکي قائم کردہ تھي، پاسداري اور حفاظت فرمائي آپ کا مقصد امت کي ہدايت اورنشرعلوم آل محمد تھا جس کي آپ نے قدم قدم پر ترويج کي اور حکومت وقت توبہرحال امامت کي محتاج ہے ۔
چنانچہ تاريخ ميں بیان ہوا ہے کہ ايک مرتبہ مہدي جو اپنے زمانے کا حاکم تھا مدينہ آيا اور امام مو سيٰ کاظم سے مسلۂ تحريم شراب پر بحث کرنے لگا وہ اپنے ذہن ناقص ميں خيال کرتا تھا کہ معاذ اللہ اس طرح امام کي رسوائي کي جائے ليکن شايد وہ يہ نہيں جانتا تھا کہ يہ وارث باب مدينۃ العلم ہيں چنانچہ امام سے سوال کرتا ہے کہ آپ حرمت شراب کي قرآن سے دليل پیش کریں؟ امام نے فرمايا : خداوند متعال سورۂ اعراف ميں فرماتا ہے اے حبيب ، کہہ دیجئے کہ ميرے خدا نے کار بد کو چاہے وہ ظاہرہو یا مخفي و اثم و عدوان قرار ديا ہے اور يہا ں پر اثم سے مراد شراب ہے۔ امام يہ کہہ کر خاموش نہيں ہوتے ہيں بلکہ فرماتے ہيں خدا وند سورۂ بقرہ میں بھی فرماتا ہے اے ميرے حبيب، لوگ تم سے شراب اور جوئے کے بارے ميں سوال کرتے ہيں کہہ دو کہ يہ دونوں گناہ عظیم ہیں۔ اسي سبب شراب کو قرآن مجید میں واضح طور پر حرام قرار دیا گیا ہے۔
مہدي، امام کے اس عالمانہ جواب سے بہت متاثر ہوا اور بے اختيارکہنے لگا ايسا عالمانہ جواب سوائے خانوادۂ عصمت و طہارت کے کوئي نہيں دے سکتا۔ يہي سبب تھا کہ لوگوں کے دلوں پر امام کي حکومت تھي۔ ہارون کے حوالے سے ملتا ہے کہ ايک مرتبہ وہ رسول اللہ کی قبر مقدس کے پاس پر کھڑ ے ہو کر کہتا ہے اے خدا کے رسول آپ پر سلام، اے میرے چچازاد بھائی آپ پر سلام – وہ يہ چاہتا تھا کہ ميرے اس عمل سے لوگ يہ جان لیں کہ خليفہ وقت سرور کائنات کا چچازاد بھائي ہے – اسي وقت امام کاظم قبر پيغمبر کے نزديک آئے اورفرمايا’’اے اللہ کے رسول! آپ پرسلام۔ اے پدر بزرگوار! آپ پرسلام‘‘ ہارون امام کے اس عمل سے بہت ناراض ہوا۔ فورا امام کي طرف رخ کر کے کہتا ہے آپ فرزند رسول ہونے کا دعوی کيسے کرسکتے ہيں ؟ جب کہ آپ علي مرتضيٰ کے فرزند ہيں – امام نے فرمايا تو نے قرآن کريم ميں سورۂ انعام کي آيت نہيں پڑھي جس ميں خدا فرماتا ہے ’’قبيلۂ ابراہيم سے داۆد، سليمان، ايوب، يوسف، موسيٰ، ہارون، زکريا، يحييٰ، عيسيٰ، اورالياس يہ سب کے سب ہمارے نيک اورصالح بندے تھے ہم نے ان کي ہدايت کي۔ اس آيت ميں اللہ نے حضرت عيسيٰ کو گزشتہ انبياء کا فرزند قرار ديا ہے – حالانکہ عيسيٰ بغير باپ کے پيدا ہوئے تھے – اس آيت کی روشنی میں بيٹي کا بيٹا فرزند ہوتا ہے۔ اس دليل سے ميں اپني ماں فاطمہ زہراء کی جانب سے فرزند رسول ہوں۔ اس کے بعد امام فرماتے ہيں کہ اے ہارون! يہ بتا کہ اگر اس وقت پيغمبر اسلام آ جائيں اور تیری بیٹی کا ہاتھ مانگیں تو تو اپني بيٹي پيغمبر کي زوجيت ميں دے گا يا نہيں ؟ ہارون فورا کہتا ہے کہ نہ صرف يہ کہ ميں اپني بيٹي کو پيامبر کي زوجيت ميں دوں گا بلکہ اس پرتمام عرب و عجم پر فخر کروں گا۔ امام فرماتے ہيں کہ تو اس رشتے پر ساری دنیا میں فخر کرے گا ليکن پیغمبر ہماري بيٹي کے بارے ميں يہ سوال نہيں کر سکتے اس لئے کہ ہماري بيٹياں پیغمبر کي بيٹياں ہيں اور باپ پر بيٹي حرام ہے۔ امام کے اس استدلال سے حاکم وقت شرمندہ ہو گیا۔ دشمنان اسلام امام موسی کاظم کے علم اور ان کی خدمات سے بہت خوفزدہ تھے اسی لئے خلیفہ وقت ہارون الرشید نے قید خانہ میں زہر دغا سے شہید کرا دیا۔ آپ کی قبر مبارک کاظمین میں امام جواد علیہ السلام کے برابر میں ہے۔

امام موسی کاظم علیہ السلام صبر استقامت کی خوبصورت تصویر
اہل بیت پیغمبر علیہم السلام کی خصوصیات میں سے ایک خصوصیت یہ تھی یہ عظیم ہستیاں معاشرے میں رونما ہونے والے ہرطرح کے واقعات و حادثات کی گہرائیوں اوران کے مضمرات سے بھی مکمل آگاہی رکھتی تھیں اور یہ لوگ اپنی خاص درایت و تدبیر کے ذریعے واقعات کے تاریک اور پنہاں پہلوؤں کو آشکارا کرتے تھے تا کہ لوگ حق و باطل میں تمیز دے کر صحیح راستے کی طرف گامزن ہوں ۔یہیں پر ہم پیغمبر اعظم حضرت محمّد مصطفیٰ (ص) کے اس قول کی اہمیت کو سمجھ سکتے ہیں آپ فرماتے ہیں میں تمہارے درمیان دو گرانقدر چیزیں چھوڑے جارہا ہوں ایک قرآن اور دوسرے میرے اہل بیت، فرزند رسول حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام تقریبا” 35 سال مسند امامت پر فائز رہے مگر اس میں سے بیشتر حصہ قید و بند میں گزارا یا پھر جلد وطن رہے یہ حالات اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ آپ کے زمانے میں اہل بیت علیہم السلام کے سلسلے میں عباسی حکمرانوں کی سختیاں اور دشمنی کس قدر شدت اختیار کرگئی تھی جس چیز نے فرزند رسول حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کو اپنے دور کے حالات کے خلاف آواز اٹھانے پر مجبور کیا وہ مسلمانوں پر حکمفرما فاسد سیاسی اور سماجی نظام تھا ۔عباسی حکمرانوں نے حکومت کو موروثی اور آمرانہ نظام میں تبدیل کردیا تھا ۔ ان کے محل بھی حکمرانوں کے لہو ولعب اور عیش و نوش و شراب و کباب کا مرکز تھےاور ان بے پناہ دولت و ثروت کا خزانہ تھے جو انہوں نے لوٹ رکھے تھے ۔جبکہ مفلس و نادار طبقہ غربت ، فاقہ کشی اور امتیازی سلوک کی سختیاں جھیل رہا تھا ۔اس صورتحال میں امام موسیٰ کاظم علیہ السلام لوگوں کی سیاسی اور سماجی آگہی و بصیرت میں اضافہ فرماتےاور بنی عباس کے حکمرانوں کی روش کو اسلامی تعلیمات کے منافی قراردیتے دوسری طرف ہارون الرشید اس بات ک اجازت نہيں دیتا کہ لوگ امام کے علم و فضل کے بحر بیکران سے فیضیاب ہوں اوروہ اس سلسلے میں لوگوں پر سختیاں کرتا ۔لیکن ہارون الرشید کی ان سختیوں کے جواب میں امام کا ردعمل قابل غور تھا ۔
امام موسیٰ کاظم علیہ السلام ہر مناسب وقت سے فائدہ اٹھا کرخداوند عالم کے حضور نماز و نیایش اور تقرب الہی میں مصروف ہوجاتے ۔آپ پرجتنا بھی ظلم و ستم ہوتا وہ صبر اور نماز سے سہارا لیتے امام موسیٰ کاظم علیہ السلام ہرحال میں صبر و شکر ادا کرتے بصرہ کا زندانباں عیسی بن جعفر کہتا ہے ۔ میں نے بہت کوشش کی کہ امام پر ہرلحاظ سے نظر رکھوں یہاں تک کہ چھپ چھپ کران کی دعاؤں اور نیایش کو سنتا تھا مگر وہ فقط درگاہ خداوند سے طلب رحمت و مغفرت کرتے اور وہ اس دعا کی بہت زيادہ تکرار فرماتے ،خدایا تو جانتا ہے کہ میں تیری عبادت کے لئے ایک تنہائي کی جگہ چاہتا تھا اور اب جبکہ تو نے ایک ایسی جگہ میرے لئے مہیا کردی ہے میں تیرا شکر ادا کرتا ہوں ۔
فرزند رسول امام موسیٰ کاظم علیہ السلام اپنے ایک مقام پر فرماتے ہیں ، عرش الہی پرایک سایہ ہے جہاں ایسے لوگوں کو جگہ ملے گی جنہوں نے اپنے بھائیوں کے حق میں نیکی اور بھلائی کی ہوگی، یا مشکلات میں ان کی مدد کی ہوگی ۔امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کا روز مرہ کا ایک معمول محتاجوں اور ناداروں کی خبر گیری کرنا تھا ۔
اہل بیت علیہم السلام کی نگاہ میں مال و دولت اور مادی وسائل ایک ایسا وسیلہ ہے جس کے ذریعے رضائے پروردگار حاصل کی جا سکتی ہے ۔علّامہ شیخ مفید علیہ الرحمہ لکھتے ہیں امام موسیٰ کاظم علیہ السلام رات کی تاریکیوں میں نکل کر شہر مدینہ کے غریبوں ، محتاجوں اور ناداروں کی دلجوئی فرماتے اور ان کے گھروں کو جاکر انہیں اشیاء ، خوراک اور نقد رقومات فراہم کرتے ۔
امام موسیٰ کاظم علیہ السلام اپنے پدر بزرگوار حضرت امام صادق (ع) کی شہادت کےبعد اپنے دور کے سب سے زیادہ با فضل اورعالم شخصیت تھے امام جعفر صادق علیہ السلام اپنے ایک صحابی کے جواب میں اپنے فرزند امام موسیٰ کاظم کی توصیف بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں ۔ میرا بیٹا موسیٰ کاظم (ع) علم و فضل کے اس درجہ کمال پر فائز ہے کہ اگر قرآن کے تمام مطالب و مفاہیم اس سے پوچھو تو وہ اپنے علم و دانش کے ذریعے انتہائی محکم اور مدلّل جواب دے گا ۔ وہ حکمت و فہم و معرفت کاخزانہ ہے ، تاريخ میں منقول ہے تقریبا” 300 افراد نے امام موسیٰ کاظم (ع) سے حدیث نقل کی ہے جن میں سے بعض راویوں کا نام انتہائی درجے کے علما میں لیا جاتا ہے ۔ امام موسیٰ کاظم (ع) کوجس آخری قید خانے میں قید کیا گيا اس کا زندان باں انتہائي سنگدل تھا جس کا نام سنہری بن شاہک تھا ۔ اس زندان میں امام پر بہت زیادہ ظلم و ستم ڈھایا گيا اور بالآخر ہاروں رشید کے حکم پر ایک سازش کے ذریعہ امام کو زہر دے دیا گیا اور تین دن تک سخت رنج و تعب برداشت کرنے کے بعد 55 سال کی عمر میں درجہ شہادت پر فائز ہوئے ۔
خدا کا درود و سلام ہو اس پر کہ جس کے صبر و استقامت نے دشمنوں کو گھنٹے ٹیکنے پر مجبور کردیا ۔ فرزند رسول امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کی جانگداز شہادت کی مناسبت سے آپ کی خدمت میں ایک بار پھر تعزيت پیش کرتے ہوئے آپ کے گرانقدر اقوال آپ کی خدمت میں پیش کرنے کی سعادت حاصل کررہا ہوں ۔
وہ برتر چیزیں جو خدا سے بندہ کی قربت کا سبب بنتی ہیں وہ خدا کی معرفت کے بعد نماز ، والدین سے نیکی ، ترک حسد ، و خودپسندی و عُجُب ہے ۔امام موسیٰ کاظم علیہ السلام ایک اور مقام پر ارشاد فرماتے ہیں خوش اخلاق اور سخی انسان ہمیشہ خدا کی پناہ میں ہے ۔یہاں تک کہ خدا اسے ایک دن بہشت میں داخل کرے گا ۔دینداروں کے ساتھ ہمنشینی شرف دنیا و آخرت کا باعث ہے اور خیرخواہ عقلمند سے مشورت باعث سعادت و فلاح اور موجب برکت و توفیق الہی ہے ۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ابنا اپنے ناظرین کی خدمت میں حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام کی شہادت کے پر ملال موقع پر تعزیت پیش کرتا ہے۔

تبصرے
Loading...