جناب زينب (سلام اللہ عليہا)انساني اقدار كي عظيم محافظ

 

جناب زينب (سلام اللہ عليہا)انساني اقدار كي عظيم محافظ

اس مقالہ ميں جناب زينب سلام اللہ عليہا كے بعض صفات و خصوصيات كي طرف اشارہ كيا جائے گا اور انكي زندگي كے بعض نوراني پہلووں كو پيش جائے گا۔ جو عورت حماقت اور جہالت كي دنيا سے باہر نكلنا چاہتي ہے اور نہيں چاہتي كہ اہل دنيا كي ہوس كا شكار ہو اس كے لئے يہ سوال پيدا ہوتا ہے كہ وہ كيسے جئے اور زندگي كا صحيح طريقہ كس سے سيكهے؟ كيا اس پر طلاطم مادي دنيا اور اسكي رنگينيوں ميں خود كو بنانے اور سوارنے كا كوئي راستہ ہے جب كہ يہ دنيا اپني زرق و برق كے ساته ايك ديندار انسان كو بهي اپني طرح كهينچتي ہے؟كيا ہمارے معاشرے ميں عورت ايك صحيح فكر ،مستقل مزاج اور اپني فطرت كے مطابق زندگي بسر كر سكتي ہے؟تاكہ خود غرض انسانوں اور ہوا وہوس ميں گرفتار لوگوں كے ہاتهوں كا كهلونا نہ بنے۔اس مقالہ ميں جناب زينب سلام اللہ عليہا كے بعض صفات و خصوصيات كي طرف اشارہ كيا جائے گا اور انكي زندگي كے بعض نوراني پہلووں كو پيش جائے گا۔
جو عورت حماقت اور جہالت كي دنيا سے باہر نكلنا چاہتي ہے اور نہيں چاہتي كہ اہل دنيا كي ہوس كا شكار ہو اس كے لئے يہ سوال پيدا ہوتا ہے كہ وہ كيسے جئے اور زندگي كا صحيح طريقہ كس سے سيكهے؟
كيا اس پر طلاطم مادي دنيا اور اسكي رنگينيوں ميں خود كو بنانے اور سوارنے كا كوئي راستہ ہے جب كہ يہ دنيا اپني زرق و برق كے ساته ايك ديندار انسان كو بهي اپني طرح كهينچتي ہے؟كيا ہمارے معاشرے ميں عورت ايك صحيح فكر ،مستقل مزاج اور اپني فطرت كے مطابق زندگي بسر كر سكتي ہے؟تاكہ خود غرض انسانوں اور ہوا وہوس ميں گرفتار لوگوں كے ہاتهوں كا كهلونا نہ بنے۔
جي ہاں ايسا ہو سكتا ہے ليكن اس سوال كے جواب كے لئے ہميں قرآن اور تاريخ اسلام كے سامنے زانوئے ادب تہہ كرنا ہوں گے۔قرآن كريم ايسي خواتين كي مثال پيش كرتا ہے جنہوں نےخود كو سنوارا اور ايك پاك وپاكيزہ زندگي بسر كي۔فرعون كي بيوي آسيہ اور جناب عيسي كي والدہ جناب مريم اس كي مثال ہيں۔تاريخ اسلام ميں بهي ہميں ايسي خواتين ملتي ہيں جنہوں ہميں سكهايا كہ كيسے رہيں ؟اور كس طرح ايك پاكيزہ زندگي بسر كريں۔آسمان تاريخ ايسے ستاروں سے پر ہے جو ہميشہ انسانيت كو اپنے نور وجود سے منور كرتے رہتے ہيں اور سب كےلئے مشعل راہ ہيں۔انہيں عظيم شخصيات ميں ايك شخصيت جناب زينب سلام اللہ عليہا كي ہے ۔جن كي خصوصيات اور صفات پر مختصر روشني ڈالنے كے لئے يہ تحرير پيش كي جارہي ہے۔

 امام علي عليہ السلام كے گهر كا ماحول
انسان كي سب سے پہلي تربيت گاہ اس كا گهر ہے۔جناب زينب ايسےوالدين كي بيٹي ہيں جو انسانيت كا مكمل نمونہ ہيں۔علي عليہ السلام ہي كو ديكهئے جب تك اس دنيا ميں رہے ايك لقمہ حرام بهي نہيں كهايااور كهانے ميں جو كي روٹي اور دوده ہي پر اكتفا فرماتے تهے۔وہ آخرت كو زندگاني دنيا كي آسائش و آرام پر ترجيح ديتے تهےاور اگر ان كے سامنے دو الہي كام ہوتے تو ان ميں سے اسے انتخاب كرتے تهے جو زيادہ سخت ہو۔كنويں سے خود پاني نكالتے اور آگ جلانے كےلئے لكڑي خود مہيا كرتے تهے۔ہميشہ ہشاش بشاش،مسكراتے اور منكسر تهے۔غلاموں كي طرح زمين پر بيٹه كركهانا كهاتے تهے۔عبادت ميں بے مثل تهے۔ہر شب ہزار ركعت نماز پڑها كرتے تهے۔ان كا گهرانہ ايثار ،محبت اور نيكيوں ميں تعاون كي ايك مثال تها۔يہ تهے زينب كے والد۔
ان كي ماں فضائل و مناقب كي ختم نہ ہونے والي ايك كتاب ۔بچوں كي ايسي تربيت كي كہ جس كي مثال نہيں ۔گهر كے سبهي كام خود كرتيں۔چكي سے خود گيہوں پيس كر آٹا بناتيں اور روٹي بناتيں ۔شبہائے جمعہ كو صبح تك حالت ركوع وسجود ميں رہتيں صرف دوسروں كے لئے دعا كيا كرتي تهيں۔اتنا كام كرتي تهيں كہ ان كے جسم پر اس كے آثار نظر آتے تهے جيسا كہ خود حضرت علي نے فرمايا: كنويں سے پاني نكالنے كي وجہ سے زہرا كے سينے پر رسي كا نشان تها اور چكي پسينے كي وجہ سے ان كے ہاتهوں ميں گٹهے پڑ گئے تهے۔اور كهانے اور صفائي كي وجہ سے ان كے كپڑے گرد سے اٹے رہتے تهے۔وہ صادق ترين انسان تهيں۔
ايك دوسرے كا احترا م كرنے كے سلسلے ميں يہ گهرانہ بہترين گهرانہ ہے۔شريك زندگي كا احترم اس گهر انے كي زندگي كا سب سے اہم اصول ہے۔امام علي عليہ السلام فرماتے ہيں :”خدا كي قسم ميں نے كبهي فاطمہ كو ناراض نہيں كيا اور انہيں كسي كام كے لئے مجبور نہيں كيا۔اسي طرح فاطمہ نے بهي كبهي مجهے ناراض نہيں كيا اور ميري نا فرماني نہيں كي۔ميں جب بهي انہيں ديكهتا تها تو ميرے تمام غم واندوہ دور ہوجاتے تهے۔”اس گهرانے كا انفاق سب كے لئے نمونہ عمل ہے كيونكہ يہ گهرانہ يتيموں مسكينوں اور اسيروں كي پناہ گاہ تها اور يہاں كا بچہ بهي اپنا كهانا خدا كي راہ ميں ضرورتمند كو دے ديا كرتا تها۔سورہ هل اتي كي آيت
۷ تا ۱۱، اس گهرانہ كے جود و بخشش كا قصيدہ پڑهتي ہيں۔
اسي گهرانے كي ايك فرد جناب زينب كبري ہيں جنہوں نے اس عظيم ماں باپ سے علم ،زہد،تقوي،صبر ،شجاعت ،عزت نفس اور اجتماعي امور ميں حاضر ہونا ميراث ميں پايا تها۔بہت سي روايات سے يہ ثابت ہوتا ہے كہ آپ كو بہت سے علوم خدا كي طرف سے عطا ہوئے تهے۔زينب ايك ايسے گهرانے كي تربيت يافتہ خاتون ہيں ۔انہوں نے عالم بشريت كے بہترين اساتذہ سے درس زندگي و بندگي ليا۔
 آپ كا علم خدا كا عطيہ
بہت سي روايات سے ثابت ہوتا ہے كہ آپ كو بہت سے علوم پروردگار كي بارگاہ سے عطا ہوئے تهے۔امام سجاد عليہ السلام آپ سے مخاطب ہو كر فرماتے ہيں : [انتِ بحمد للہ عالمۃ غير معلمۃ و فهمۃ غير مفہهمۃ]آپ بحمد للہ ايسي عالمہ ہيں جس نے كسي كے سامنے زانوئے ادب تہہ نہيں كئے اور ايسي دانا ہيں جسے كسي نے نہيں سكهايا۔
آپ مفسرہ قرآن بهي تهيں ۔امام علي عليہ السلام كے دور حكومت ميں كوفہ ميں آپ اپنے گهر پر خواتين كے لئے تفسير قرآن بيان كيا كرتي تهيں۔ايك دن آپ “كهيعص” كي تفسير بيان كر رہي تهيں اتنے ميں امام علي گهر ميں داخل ہو ئے اور آپ سے فرمايا: اے نور نظر كيا تم “كهيعص ” كي تفسير بيان كر رہي تهيں؟جواب ديا جي ہاں۔امام نے كہا:بيٹي يہ ايك راز ہے ان مصيبتوں كا جوہمارے بعد آپ عترت پيغمبر پر پڑ نے والي ہيں اور پهر ان كے لئے كچه مصيبتيں بهي بيان كيں جنہيں سنكر جناب زينب گريہ كرنے لگيں۔” آپ كے علمي مقام منزلت كي دوسري دليل شام و كوفہ ميں آپ كے وہ خطبے ہيں جنہيں بہت سے علما نےمكمل شرح كے ساته بيان كيا ہے۔يہ خطبے اسلامي علوم بالخصوص قرآن مجيد پر آپ كے علمي احاطے كا پتہ ديتے ہيں۔آپ نے اپنے خطبوں ميں جس طرح آيات قرآني كا استعمال كيا ہے وہ بہت سے اعتقادي اور دوسرے شبہات كو جواب بهي ہے۔ آپ نے اپنے خطبوں سے يہ ثابت كيا كہ آپ كو اسلامي تعليمات سے مكمل آگاہي تهي كيونكہ جو قرآن اور اسلام سے آشنا نہ ہو وہ قرآن آيات سے اس طرح استدلال نہيں كر سكتا ہے جسے سن كر دشمن كے دانت بهي كهٹے ہو جائيں۔جي ہاں دريائے قرآن كا ايك ماہر غوطہ زن ہي پيغام امامت اور امانت الہي كا حامل ہو سكتا ہے۔ امام سجاد عليہ السلام كي بيماري كے ايام ميں وہ امام حسين عليہ السلام كي نيابت خاص ميں لوگوں كے مسائل كا جواب ديتي تهيں اور لوگ بهي حلال وحرام كے مسائل ميں آپ كي طرف رجوع كيا كرتے تهے۔
آپ كے علمي مرتبہ كو ان روايات سے بهي سمجها جا سكتا ہے جو آپ سے نقل ہوئي ہيں جن ميں سے سب سے اہم آپ كي والدہ ماجدہ جناب فاطمہ زہرا كا وہ خطبہ ہے جو انہوں نے مدينہ كي مسجد ميں ديا۔اور اسي طرح كربلا ميں پيش آنے والے واقعات كے سلسلے ميں مشہور حديث جو حديث”ام ايمن” كے نام سے مشہور ہے۔
 خدا كے حضور
 
نقل ہوا ہے كہ جناب زينب سلام اللہ عليہا نے زندگي ميں كبهي نافلہ بهي ترك نہيں كي ۔امام سجاد عليہ السلام فرماتے ہيں :” ميري پهو پهي زينب كوفہ سے شام كے راستے ميں بهي واجب اور مستحبي نمازيں پڑها كرتي تهيں اوربعض مواقع پر پر بهوك اور پياس كي شدت سے مجبور ہو كر بيٹه كر نمازيں پڑها كرتي تهيں۔”چونكہ امام حسين اپني بہن كي عبادتوں سے واقف تهے اس لئے وہ جانتے تهے خدا كے يہاں ان كا ايك خاص مرتبہ ہے بلكہ وہ مسجاب الدعوات ہيں اسي لئےبہن سے رخصت ہوتے وقت فرمايا: “يا اختاہ لا تنساني في نافلۃ الليل” اے بہن مجهے شب كے نافلہ ميں فراموش نہ كرنا۔” بلكہ كہا جاسكتا ہے بي بي عرفاني اور معنوي درجات ميں مقام امامت سے كم نہيں تهے۔وہ اپني ماں حضرت زہرا كي طرح اتني عبادت كرتي تهيں آپ كے پيروں ميں ورم آجاتا تها۔انہوں نے اپنے اس عمل سے يہ ثابت كيا كہ پرودگار كي بندگي كے اعتبار سے مرد و عورت ميں كوئي فرق نہيں ہے۔قرآن مجيد فرماتا ہے:[من عمل صالحا من ذكر او انثي وهو مومن فلنحيينہ حياۃ طيبۃ و لنجزينهم اجرهم باحسن ما كانو ايعملون]جو بهي عمل صالح انجام دے گا-چاہے مرد ہو يا عورت-اگر وہ اہل ايمان ہے تو ہم اسے پاك زندگي عطائے فرمائيں گےاور انہيں ان كے عمل سے بہتر جزا ديں گے۔
یزہد كے آئينے ميں
زاہد اس فقير كو نہيں كہا جاسكتا جو اپني ناتواني كي وجہ سے دنيا سے منہ موڑ لے بلكہ زاہد وہ ہے جو امكانات اور مال ومنال كے ہوتے ہوئے اس دنيا سے وابستہ نہ ہو۔زينب اس ماں كي آغوش ميں پلي ہے جس كے گهر كا فرش بهيڑ كي كهال تهي اور جس كا باپ اپنے جوتے خود ٹانكتا تها اور اپني خلافت كے زمانے ميں ايك وقت ميں دو سالن نہيں كهائے۔
آپ كے شوہر عبدا للہ ابن جعفر اپنے زمانے كے شرفا اور ثروتمند افراد ميں سے تهے اور جو وسخا ميں اتنے مشہور كہ انہيں “ابو المساكين” كہا جاتا تها۔ اس كے باوجود بي بي زينب كے پاس كوئي ذخيرہ نہيں تها ۔وہ خالي ہاته كربلا گئيں اسير ہوئيں اور پهر مدينہ واپس آگئيں۔امام سجاد فرماتے ہيں:” حضرت زينب نے اپني زندگي ميں مستقبل كے لئے كوئي ذخيرہ اندوزي نہيں كي۔
انہوں نے كربلا كي ہجرت كو مدينہ ميں اور اپنے شوہر كے پاس رہنے پر ترجيح دي اور چند روزہ دنيا كي فريفتہ نہيں ہوئيں اور امام وقت كے ساته نكل پڑيں۔كربلا كے حادثات ،اپني بهائي كي شہادت اور اپني اسيري سے آگاہ ہونا ان كے زہد ميں اور چار چاند لگاتا ہے۔ آپ اپنے دو بيٹوں كو بهي كربلا لے گئيں جو شہيد ہوگئے۔اگر چہ بيٹے سے ماں كي محبت ايك فطري چيزہے ليكن وہ اپنے بچوں كے جنازے ديكهنے خيمے سے باہر نہيں آئيں تاكہ ان كے صبر اور ايمان ميں كوئي خلل نہ واقع ہو۔انہوں نے مسلم خواتين كو يہ درس ديا كہ دوسروں كي تقليد ميں دنيا سے لو لگانے سے بہتر ہے كہ دنيا كو آخرت كا ذريعہ قرار ديں۔دنيا كي يہ زينت انسان كو ابديت نہيں بخشتي بلكہ جو چيز انسان كو جاويدانگي عطا كرتي ہے وہ اس كي معنويت ہے۔
 
 تسليم و رضا
انسان كا كمال اس كے شرف كے لئے قضائے الٰہي سے راضي ہونا اور زندگي كي بلائوں و مصيبتوں كے سامنے تسليم محض ہونا ہے ۔[ا حسب الناس ان يتركو ا ان يقولوا آمنا و هم لايفتنون –و لقد فتنا الذين من قبلهم…..]كيا لوگ يہ گمان كرتے ہيں كہ ايمان لانے كے بعد انہيں يوں ہي چهوڑ ديا جائے گااور ان كا امتحان نہيں ليا جائے گا؟ايسا ہرگز نہيں ہے۔ہم گزشتہ امتوں ميں سب كو امتحان اور آزمائش كي منزل سے گزارا ہے۔
تمام انبيا اور اولائے خداكا امتحان ليا گيا ليكن سب كا امتحان ايك جيسا نہيں تها بلكہ بعض كا امتحان كٹهن اور بعض كا معمولي تها۔بعض افراد امتحان كي منزل پر پورا نہيں اترتے اور نتيجۃً انہيں كچه حاصل نہيں ہوتا ليكن جناب زينب سلام اللہ امتحان كي منزل ميں مكمل طور سے سرخرو ہوئيں ۔دين الٰہي كے بارے ميں كبهي كوئي نامناسب بات نہيں كہي اور اپني والدہ ماجدہ كے بعد خواتين كے لئے نمونہ عمل قرار پائيں۔وہ نفس مطمئنہ جس نے “راضيۃ مرضيۃ ” كے مرتبہ پر پہنچ كر “ارجعي” كي ندا پر لبيك كہتے ہوئے آلام و مصائب پر تسليم و رضا كي منزل ميں قدم ركها اور پهر اپني شير دل بہن كو بهي اس كي تلقين كي ۔
ابن زياد حضرت زينب سلام اللہ عليہا سے كہتا ہے:”كيف رايت ما صنع اللہ باخيك و اهلبيتك” خدا نے جو تمہارے بهائي اور خاندان والوں كے ساته كيا اسے تم نے كيسا پايا؟آپ نے جوا ميں فرمايا: “ما رايت الا جميلا” حسن و جمال كے سوا ميں كچه نہيں ديكها۔
يعني وہ نہ صرف يہ كہ اس شہادت پر راضي تهيں بلكہ اس بہادرانہ جنگ و جہاد پر فخر كرتي ہيں كيونكہ اس كا انجام نہايت حسين ہے۔جو خون و شہادت اور سروں كے كٹنے اور ان كے نيزوں پر بلند كئے جانے كو حسن قرار دے وہ ہميشہ سرخرو ہے۔اس حسن كي علت بيان كرتے ہوئے كہتي ہيں : يہ وہ افراد ہيں جن كي جبين تقدير پر خدا نے شہادت مقدر كر دي تهي اور اب يہ اپنے حقيقي مرتبہ پر فائز ہوئے ہيں ۔
ان تما م حوصلہ شكن مصيبتوں كے بعد وہ نہ صرف يہ كہ ہاري نہيں بلكہ مقام رضا تك پہنچ گئيں۔جي ہاں زينبي كردار يہي ہے كہ اپنے صحيح كام پر پشيمان نہ ہوا جائے۔
 صبر واستقامت
رسول اسلام (ص )كے فرمان كے مطابق واقعي صابر وہ ہے جو مصيبت، اطاعت اور معصيت كے مواقع پر صبر كرے اور جناب زينب نے ان تينوں مقامات پر صبر كيا۔ان كي عبادتيں مقام اطاعت ميں ان كے صبر كي عكاسي كرتي ہيں اور يہ بهي ثابت ہے كہ جو معصيتوں ميں صبر نہ كرے وہ پرچم كربلا اٹهانے كي لياقت نہيں ركهتا۔
 
ليكن مصيبتوں پر صبر كو ديكها جائے تو تاريخ ميں جناب زينب سے زيادہ مصائب پر كس نے صبر كيا ہوگا ۔ماں كے دكهوں كي شاہد،باپ كي مصيبتوں كي گواہ۔ماں كي شہادت كا منظر اور باپ كا شكافتہ سر۔ حسن جيسے بهائي كےجگر كے ٹكڑے اور كربلا ميں لاشوں پہ لاشے۔حسين جيسے بهائي اور اٹهارہ جوانان بني ہاشم كے جنازے۔پهر اسيري،بهوك ،پياس،در بہ در پهرايا جانااور بے مقنعہ وچادر ہونا۔ان سب كو برداشت كيا ہے جناب زينب نے۔
يہ زينب پر پڑنے والي مصيبتوں كا ايك حصہ ہے۔ يہاں تك كہ ان كو مصائب كي وجہ سے “ام المصائب ” كہا جاتا ہے۔ يقينا اگر يہ مصائب ايك مضبوط پہاڑ پر پڑتے تو وہ بهي پاني پاني ہو جاتے اور اگر دن كے اجالوں پر پڑتے تو وہ رات كي تاريكي ميں تبديل ہوجاتے۔زينب مقام صبر ميں ايك بے مثال كردار كا نام ہے ۔انہوں نے الوالعزم پيغمبروں بالخصوص پيغمبر اسلام سے صبر وراثت ميں پاياہے ۔قرآن مجيد صبر پيغمبر كو اس طرح بيان كرتا ہے: [فاصبر كما صبر اولوالعزم من الرسل]انہوں نے اپنے بهائي سے صبر سيكها اور حسين نے اپنے صبر سے سب كو تعجب ميں ڈال ديا[لقد اعجبت من صبرك ملائكۃ السماء]ان كے صبر سے نہ صرف انسان بلكہ فرشتے بهي تعجب ميں پڑ گئے۔
امام سجاد فرماتے ہيں: “جب ہم قتلگاہ ميں پہنچے اور ہماري نگاہيں اپنے بابا اور ان كے ساتهيوں كے ٹكڑے ٹكڑے بدن پر پڑيں تو ميں مضطرب ہوگيااور قريب تها كہ ميري روح پرواز كر جائے ۔جب ميري پهوپهي نے ميري پريشاني ديكهي تو فرمايا:[مالي اراك تجود بنفسك؟] بيٹا تمہيں كيا ہوگيا ہےكيا اپني جان دے دو گے؟اتنے بيتاب نہ ہوجائو خدا كي قسم يہ رسول خدا كا وعدہ تها تمہارے جد ،تمہارے بابا اور تمہارے چچا كے ساته۔
 آپ كي شجاعت
شجاعت صرف يہ نہيں ہے كہ ميدان ميں دليرانہ جنگ لڑي جائے اور كسي طرح كا خوف وہراس نہ ركهے كيونكہ ممكن ہےيہي شخص مصيبتوں كے وقت صبر كهو بيٹهے يا پهر خواہشات نفساني كا مغلوب ہو جائے جيسا كہ پيغمبر اكرم (ص)نے فرمايا: “سب سے زيادہ شجاع وہ ہے جو اپني خواہشات نفساني پر قابو ركهتا ہو۔” مومن وہ ہے جو پہاڑ كي طرح ثابت قدم ہو اور حادثات زمانہ اس كے پائوں ميں لغزش نہيں لا سكتے۔
واقعہ كربلا كے بعد نہ صرف يہ كہ جناب زينب كا ايما ن كمزور نہيں ہوا بلكہ خدا پر توكل كے نتيجے ميں ان كےايمان ميں روز بروز اضافہ ہوتا گيا۔آپ كي بہادري كربلا كے بعد سامنے آئي ہے اور آپ وہاں اپني شجاعت كا مظاہرہ كرتي ہيں جہاں بني اميہ كي ظالم وجابر حكومت نے سب كي زبانوں پر خاموشي كا تالا لگا ديا تها۔جب تك امام حسين زندہ تهے طاغوت وقت سے لڑتے رہے ليكن ان كے بعد كسي ميں كهل كر اس كي مخالفت كي ہمت نہيں تهي۔ايسے ماحول ميں زينب كبريٰ روي زمين پردين خدا كي محافظ ،امر بالمعروف اور نہي عن المنكر كي علمبردار،ظلم وجور كا پردہ فاش كرنے والي ،شريعت محمدي كي پاسدار اور امام حسين و شہدائے كربلا كے خون كي نگہبان بن كے اٹهيں۔
جب ابن زياد كے دربار ميں آئيں تو اس كي طرف كوئي توجہ نہيں دي ۔ابن زياد نے پوچها يہ عورت كون ہے؟ آپ نے كوئي جواب نہ ديا تو وہ توہين كرتے ہوئے بولا:”حمد و ثنا اس خدا كي جس نے تم لوگوں كو رسوا كيا تميں قتل كيا اور تمہارے جهوٹ كو برملا كيا”آپ نے جواب ميں فرمايا: حمد اس خدا كي جس نے محمد جيسے پيغمبر كے ذريعہ ہميں كرامت بخشي۔ہم نہيں بلكہ رسوا وہ ہے اور جهوٹا وہ ہے جو خاندان نبوت كے علاوہ كسي سے تعلق ركهتا ہے۔”يعني تم ہو ذليل و رسوا۔يہ ہے ايك ظالم كے نمائندے كے سامنے زينب عليا مقام كي شجاعت بلكہ خود يزيد جيسے ظالم كے سامنے تو اس سے بهي بڑه كر شجاعت كا مظاہرہ كيا۔
اے يزيد !سطنت نے تيري انسانيت كو مٹي ميں ملا ديا ہے ۔تو آخرت كے عذاب كا شكار ہوگا۔تو ا س كي اولاد ہے جسے ميرے جد رسول اكرم نے آزاد كيا تها۔لعنت ہو تم پر۔ميري نظر ميں تيري كوئي حيثيت نہيں اور ميں تجهے سرزنش كرتي ہوں۔تو دين محمدي سے جنگ كر رہا ہے ليكن جان لے كہ اگر اپني پوري كوشش بهي كر لے اس دين كو نہيں مٹا سكتا ۔جناب زينب كي اس شجاعت نے يزيد كو اتنا ذليل كيا كہ وہ پشيمان ہو گيا۔اور لوگ بهي يزيد كےگهنائونے چہرے سے واقف ہو گئے۔ سب نے يزيد كي لعنت ملامت كي ۔اہل بيت كي طرف مائل ہوگئے۔يزيد نے سوچا خود كو امام حسين كے خون سے بري كرے لہذا اس نے اس قتل كو ابن زياد سے منسوب كر ديا ۔ابن زياد كي ملامت كرنے لگا اور امام كے قتل پر پشيماني كا اظہار كرنے لگا۔
جناب زينب كي اس قدرت كا سرچشمہ خدا پر ايمان ہے كيونكہ مومن ہميشہ عزت وشوكت والا ہے اور ذلت سے اس كا كوئي واسطہ نہيں [فللہ عزۃ و لرسولہ وللمومنين]
پهر گريہ كيوں؟
اس صبر و تحمل كے باوجود آپ نے متعدد مقامات پر گريہ كيا ہے اپنے گريہ سے دوسروں كو بهي رلايا ہے۔ يہ گريہ ان كے صبر و شجاعت سے ناسازگار نہيں ہے۔انہوں نے جہاں ايك طرف صبر و شجاعت كے ذريعہ بلند مقا م حاصل كيا وہيں اپنے گريہ كے ذريعہ سيد الشہدا اور شہدائے اہل بيت كي اہميت كو اجاگركيا۔اور گريہ كيوں نہ كرتيں انسان معنوي اعتبار سے كتنا بهي بلند مرتبہ ہو ليكن انسان ہونے كے اعتبار سے احساسات اور جذبات كا مالك ہوتا ہے اور اس ميں عطوفت،رقت اور محبت كے عناصر پائے جاتے ہيں لہذا عزيزوں پر گريہ ايك فطري بات تهي بالكل اسي طرح جيسے جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ نے اپنے بابا پر اور امام جعفر صادق نے اپنے بيٹے پر گريہ كيا۔
بچوں كي سرپرستي
ان كي عظمت كے لئے يہي كافي ہے كہ انہوں نے اپني عمر كا ايك حصہ ان بچوں كي سرپرستي اور تيمار داري ميں گزارا جنہيں محبت اور شفقت كي سخت ضروررت تهي۔ كربلا كے بعد امام سجاد شديد مريض تهے اور بچے بے سرپرست ہوگئے تهے كهانا پينا بهي انہيں بہت كم ملتا تها ايسے حالات ميں انہيں ايك مضبوط سرپرست اور تيمار دار كي ضرورت تهي اور كوئي اور نہيں تها سوائے جناب زينب كے۔
امام سجاد فرماتے ہيں :”جس دن ميرے بابا كو شہيد كيا گيا اس رات ميں بيٹها ہوا تها اور ميري پهوپهي ميري تيمارداري كر رہي تهيں۔ يا دوسري جگہ فرماتے ہيں : كوفہ سے شام سفر كے دوران ميں نے كئي بار ديكها كہ پهوپهي زينب اپنا كهانا بهي بچوں كو دے ديا كر تي تهيں اور ضعف كي وجہ سے بيٹه كر نماز پڑها كرتي تهيں۔
ايك تيمار دار كا كام صرف يہ نہيں ہے كہ بيمار كے سرہانے بيٹها رہے بلكہ وہ خود كو بيمار كي جگہ فرض كرے اور اس كے درد كو اپنا درد سمجهے ،اس كي بهوك كو اپني بهوك تصور كرے اور اس كي آہ و بكا كو اپني آہ وبكا جانے۔اور جناب زينب تيمار داري ميں بالكل ايسي ہي تهيں۔
ہنر مندانہ اقدام
ہنر انسان كي زندگي كي ايك خاص روش كو كہا جاتا ہےجس كے مطابق وہ قدم آگے بڑهاتا ہے۔اگر انسان ہر كام ميں ايك خاص طريقہ اپنائے تاكہ وہ مطلوبہ مقصد پہنچ جائے تو اسے ہنر مندي كہا جائے گا۔
جناب زينب اپنے اس سفر ميں تين چيزوں سے روبرو تهيں:
۱۔دشمن كي كوشش تهي كہ امام حسين كو باغي قرار دے كر ان كي شہادت كو خود كشي اور ہلاكت ثابت كريں۔
۲۔دوسرے غاصبانہ خلافت كا تسلسل 
۳۔اور تيسرے ان امانتوں كي حفاظت جو ان كے سپرد كي گئيں تهيں۔
ان كا فريضہ تها كہ امامت كي امانت كو اسي طرح سے اس كے اصل حقدار كے سپرد كرتيں جيسے امام حسين نے ان كے حوالےكيا تها اور دوسرے يہ كہ بچوں،نوجوانوں كي اپني جان سے بهي زيادہ حفاظت كرتيں۔اب سوال يہ ہے كہ جناب زينب نے ان تينوں چيزوں كے مقابل كيا طريقہ اختيار كيا تاكہ پيش آنے والے خطرات كا مقابلہ كيا جا سكے؟
جباب زينب اپني بلند فكر اور مضبوط ايمان كي بنياد پر دو راستے اپناتي ہيں:
۱۔ اس دور كے پر آشوب ماحول ميں ميدان ميں اتريں اور زمانے كو حسينيت اور يزيديت كي حقيقت سے آشنا كيا ۔
۲۔اور دوسرے اپني اسيري كے ايام ميں پيغام حسيني كي تشہير كرتي رہيں۔
 ميدان ميں
آپ كي نظر ميں سياست كي بنياد عدالت ہے نہ مكاري اور فريب۔كوفہ سے شام اور شام سے مدينہ جناب زينب كا سياسي قيام اس وجہ سے نہيں تها كہ ان كا ايك بهائي يا چند اعزاء و اقرباء مار ڈالے گئے تهےبلكہ ان كي نگاہ ميں يہاں اسلام و كفر اور ايمان و نفاق كي بات تهي۔
جناب زينب كا قيا م ايك وسيع مفہوم ركهتا ہے اور ان كے اس فيصلے كي پختگي كا پتہ ديتا ہے تاكہ غاصبانہ حكومت كا ڈهكا ہوا چہرہ برملا كريں اور امت كو جاہليت كے زمانے سے نكال كر اعتدال كا راستہ دكهائيں۔
كوفہ ميں آپ نے لوگوں كو امامت كي طرف متوجہ كيا اور ابن زيادہ جيسے مجرم كو ذليل كيا يہاں تك كہ وہ غصہ ميں امام زين العابدين كے قتل كا حكم ديتا ہے ليكن جناب زينب امام سجاد كي سپر بن جاتي ہيں اور فرماتي ہيں: اگر اسے قتل كرنا چاہتے ہو تو اسكے لئے تمہيں پہلے مجهے قتل كرنا پڑے گا۔شام اور مدينہ ميں لوگوں كو حكومت وقت كي مخالفت پر ابهارتي ہيں يہاں تك كہ وہ حكومت پر لعن و طعن كرتے ہيں اس كے خلاف ايك خاموش بغاوت شروع ہوجاتي ہے۔الغرض انہيں جہاں موقع ملتا ہے حكومت كے فساد كو برملا كرتي ہيں۔ لہذا جناب زينب كے ميدان ميں اترنے كا مطلب اسلام كا دفاع اور اس كے پائے مضبوط كرنا ہے جو نہ صرف مرد پر بلكہ عورت پر بهي واجب ہے۔البتہ اتنا ضرور ہے كہ ہر صنف ايك ظرفيت كي مالك ہے لہذا اس كا طريقہ بهي خاص ہي ہوگا۔اسلام كي نگاہ ميں جہاں عورت كا اجتماع ميں آنا ضروري ہوجائے وہاں اسے آنا چاہئے البتہ اپني عفت،ايمان كے ساته وہ حق،عدالت اور ولايت كا دفاع كرے۔
اسيري ميں تبليغ
اسيري كے زمانے ميں وہ تبليغ كو ايك الہٰي فريضہ سمجهتي تهيں لہذا اپني فصاحت و بلاغت،علم،شجاعت كے ساته تبليغ دين كا كام بهي انجام دے رہي تهيں۔وہ اپني فصاحت و بلاغت سے بخوبي اپني يہ ذمہ داري نبهاتي ہيں جس كا اقرار خود ابن زياد كو بهي ان الفاظ ميں كرنا پڑا:”يہ عورت بالكل ايسے ہي مسجع اور مقفع گفتگو كرتي ہے جيسے اس كا باپ علي كرتا تها۔
دربار يزيد ميں اس طرح گفتگو كي كہ يزيد پريشان ہوگيا اور وہ محفل جو اس نے اپنے فخر و مباہات كے لئے سجائي تهي اس كي ذلت كا باعث بن گئي۔يہ باتيں اطراف كے شہروں ميں بهي پہنچيں اور بني اميہ كي گردن ميں لعن و نفرت كے طوق پہنائے جانے لگے۔يزيد اپني فتح كا جشن منانا چاہتا تها ليكن اس بي بي كي باتيں سن كر وہ مجبور ہوگيا كہ خود كو قتل حسين سے بر ي كرے لہذا اس نے سب كے سامنے كہا: خدا لعنت كرے مرجانہ كے بيٹے پر اس نے جلد بازي سے كام ليا ورنہ ميں تو حسين ابن علي كے قتل پر راضي نہ تها۔ليكن يزيد كي ان باتوں كا كوئي اثر نہيں ہوا اور اس كي مٹي پليد ہوگئي۔
 
لبنان كا ايك دانشور لكهتا ہے: جناب زينب نے ثابت كيا كہ اہلبيت كے درميان وہ سب سے زيادہ شجاع،فصيح اور بليغ خاتون ہے۔انہوں نے عقلي استدلالت،قوت نفس اور شجاعت كو فصاحت و بلاغت كے ساته ضم كيا اور كربلا ميں اور اس كے بعد وہ كارنامے انجام دئے كئے كہ سب كو ورطہ حيرت ميں ڈال ديا اس طرح سے ان كي شہرت ہر جگہ پهيل گئي اور وہ ايك ضرب المثل بن گئيں ۔اس مطلب كے گواہ بہت سے مصنفين و مولفين كي كتابيں ہيں۔”جناب زينب كے “باطل كےخلاف جہاد” اور “تبليغ ” كے ذريعہ اپني عاشورائي ذمہ داري كو انجام ديا۔زينب كبريٰ ان بحراني حالات ميں بهي اپني ذمہ داري كو نہيں بهلايااور مكتب انقلاب حسيني كے ذريعہ اسلام كا جونقشہ كهينچا گيا تها اسے ايك پيغمبر كي طرح عملي جامہ پہنايا۔
يہ ہيں زينب كبريٰ ،پيغمبر اسلا م صلي اللہ عليہ و آلہ كي نواسي،امير كلام علي ابن ابي طالب كي بيٹي،زہرا جيسي پارسا خاتون كي گود كي پلي،حسيني قيام و ثبات قدم كي يادگار،تاريخ كي ايك مثالي خاتون،دنيا كي تمام خواتين كے لئے ايك نمونہ عمل ،تحريك كربلا كي علمبردار،اپنے زمانے سے آگا ہ ايك بابصيرت شخصيت،اور دين،مكتب اسلام و ولايت كي تنہا حامي۔
والسلام علي يوم ولدت،و يوم عاشت و يوم استشہدت،و يوم تبعث حيا

 

تبصرے
Loading...