جزیرہ نما عرب سے بت پرستی کا صفایا

 

١۔ مشرکین سے اعلانِ برائت

جب جزیرہ نما عرب میں اسلامی عقیدے اور شریعتِ سہلہ کا فروغ ہو گیا اور بہت سے لوگوں نے اسے قبول کر لیا تو وہاں شرک و بت پرستی پر چند ہی لوگ قائم رہے وہاں صریح طور پر ایہ اعلان کرنا ضروری تھا کہ عبادی و سیاسی مناسک میں شرک و بت پرستی کا مظاہرہ نہیں کرنے دیا جائے گا۔

اب وقت آ گیا تھا کہ اسلامی حکومت ہر جگہ اپنے نعروں اور شعار کا اعلان کرے، نرمی اور تالیف قلوب کا زمانہ ختم ہو چکا تھا گذشتہ دور اس بات کا مقتضی تھاکہ اب اس کی ضرورت نہیں تھی۔

اس اعلان کے لئے رسولۖ نے زمانہ کے لحاظ سے قربانی کا دن اور جگہ کے اعتبار سے منیٰ (١) کو منتخب کیا اور ابوبکر کو سورۂ توبہ(٢) کی ابتدائی آیتیں پڑھنے کے لئے مقرر کیا گیا۔یہ آیتیں اسی سلسلہ میں نازل ہوئی تھیں ان کے ضمن میں تمام مشرکین سے صریح طور پر برائت کا اعلان تھا، برائت کی شقیں درج ذیل ہیں:

١۔ کافر جنت میں نہیں جائیگا۔

٢۔ برہنہ حالت میںکسی کو خانہ کعبہ کا طواف نہیں کرنے دیا جائیگا۔( یہ جاہلیت کی رسم تھی)

٣۔ اس سال کے بعد کسی مشرک کو حج نہیں کرنے دیا جائے گا۔

٤۔ جس کا رسولۖ سے معاہدہ ہے وہ اپنی مدت پر ختم ہو جائیگا لیکن جس کا کوئی معاہدہ نہیں ہے اس کے لئے چار ماہ کی مہلت ہے اس کے بعد دار الاسلام میں اگر مشرک پایاجائیگا تو اسے قتل کر دیا جائے گا۔

اسی اثنا میں رسولۖ پر وحی نازل ہوئی: ‘انّہ لا یؤدِّی عنک الا انت او رجل منک’اس پیغام کو آپۖ یا وہ شخص پہنچا سکتا ہے جو آپۖ سے ہو۔ پس آنحضرت ۖ نے حضرت علی کو طلب کیا اور فرمایا: عضباء ناقہ پر سوار ہو کر ابو بکر کے پاس جائو اور ان سے وہ پیغام لے لو اور اسے تم لوگوں تک پہنچائو۔(3)

علی بن ابی طالب حاجیوں کے مجمع میں کھڑے ہوئے اور ہمت و جرأت کے ساتھ خدا کے بیان (پیغام)کو پڑھا ہر چیز کو واضح طور سے بیان کیا، لوگوں نے اسے کھڑے ہو کربہت توجہ اور خاموشی کے ساتھ سنا مشرکین پر اس اعلان کا یہ اثر ہوا کہ وہ فرمانبردار ہو کر رسولۖ کی خدمت میں حاضر ہوگئے۔

٢۔ نصارائے نجران سے مباہلہ

نصارائے نجران کو رسولۖ نے خط لکھ کر اسلام کی طرف دعوت دی، ان کے سردار اور صاحبان حل و عقد اس خط کے بارے میں غور و فکر کرنے کے لئے جمع ہوئے لیکن کسی خاص و قطعی نتیجہ پر نہیں پہنچ سکے کیونکہ ان کے پاس ایسی تعلیمات کا علم تھا جو جناب عیسیٰ کے بعد ایک نبی ۖ کی آمد کی تاکید کرتے تھے اور محمدۖ کے معجزات و افعال اس بات پر دلالت کرتے تھے کہ آپ نبی ۖ ہیں۔ اس لئے انہوں نے یہ طے کیا کہ نبی ۖ کے پاس ایک وفد بھیجا جائے جو ان سے گفتگو کرے۔

یہ وفد رسولۖ کے پاس پہنچا لیکن رسولۖ نے ان کے ظاہر کو دیکھ کر انہیں کوئی اہمیت نہ دی یہ بھی بت پرستوں کی وضع قطع میں تھے۔ حر یرو دیبا کی ردا ڈالے ہوئے، سونا پہنے ہوئے اور گردنوں میں صلیب لٹکائے ہوئے تھے، دوسرے دن انہوں نے اپنی وضع قطع بدلی اور پھر حاضر ِ خدمت ہوئے تو رسولۖ نے انہیں خوش آمدید کہا، ان کا احترام کیا اور انہیں ان کے مذہبی امور بجالانے کی سہولت فراہم کی۔(4)

اس کے بعد ان کے سامنے اسلام پیش کیا، قرآن مجید کی کچھ آیتوں کی تلاوت کی لیکن انہوں نے قبول نہ کیا بہت زیادہ بحث و مباحثہ ہوا آخر کار رسولۖ نے فرمایا کہ اب میں تم سے مباہلہ کرونگا یہ بات آپۖ نے حکم خدا سے کہی تھی اگلے روز مباہلہ کرنے پر اتفاق ہو گیا۔

حکم خدا کی اطاعت میں ان سے مباہلہ کے لئے رسولۖ اس طرح بر آمد ہوئے کہ حسین کو(گود میں) اٹھائے اور حسن کا ہاتھ پکڑے ہوئے تھے آپۖ کے پیچھے آپۖ کی بیٹی فاطمہ اور ان کے بعد آپۖ کے ابن عم علی بن ابی طالب تھے اس کا ذکر قرآن مجید میں اس طرح ہے :

(فمن حاجک فیہ من بعد ما جاء ک من العلم فقل تعالوا ندع ابنائنا و ابنائکم و نسائنا و نسائکم و انفسنا و انفسکم ثم نبتھل فنجعل لعنة اللّہ علیٰ الکاذبین)(5)

جب تمہارے پاس علم آ چکا تو اگر کوئی شخص اس سلسلہ میں تم سے حجّت کرے تو تم ان سے یہ کہدو کہ تم اپنے بیٹوں کو لائو ہم اپنے بیٹوں کو لائیں تم اپنی عورتوں کو لائو ہم اپنی عورتوں کو لائیں تم اپنے مردوں کو لائو ہم اپنے مردوں کو لائیں پھر مباہلہ کریںاور جھوٹوں پر خدا کی لعنت قرار دیں۔

ان کے علاوہ رسولۖ نے مسلمانوں میں سے کسی ایک کو اپنے ساتھ نہیں لیا۔یہ مباہلہ آپۖ نے اس لئے کیا تھا تاکہ آپۖ کی نبوت و رسالت کی صداقت سب پر ثابت ہو جائے۔ اس موقعہ پر نجران کے اسقف نے کہا: اے قوم نصاریٰ! میں ایسے چہرے دیکھ رہا ہوں کہ اگر وہ خدا سے یہ دعا کریں کہ پہاڑ اپنی جگہ سے ٹل جائے تو خدا اسے اس کی جگہ سے ہٹا دے گا۔ پس ان سے مباہلہ مت کرو، ورنہ ہلاک ہو جائو گے اور روئے زمین پر کوئی نصرانی باقی نہیں بچے گا۔

جب نصارای نجران نے رسولۖ اور آپۖ کے اہل بیت( ان پر خدا کا درود ہو)سے مباہلہ کرنے سے انکار کیا تو آپۖ نے فرمایا:

‘اما اذا ابیتم المباہلة فاسلموا یکن لکم ما للمسلمین و علیکم ما علیٰ المسلمین’۔

جب تم نے مباہلہ سے انکار کر دیا ہے تو اسلام قبول کرو اس طرح تم نفع و ضرر میں مسلمانوں کے شریک ہو جائو گے، لیکن انہوں نے یہ بات بھی قبول نہ کی تو رسولۖ نے فرمایا: ‘انی انا جزکم القتال’ میں تم سے جنگ کرونگا، انہوںنے کہا: ہم عرب سے جنگ نہیں کر سکتے ہاں ہم آپۖ سے اس بات پر صلح کرتے ہیں کہ اگر آپۖ ہم سے جنگ نہیں کریں گے اور ہمیں ہمارے دین سے نہیں پلٹائیں گے توہم ہر سال آپۖ کودو ہزار حلے ایک ہزار ماہ صفر میں اور ایک ہزار ماہ رجب میں دیا کریں گے اور لوہے کی تیس زرہیں دیا کریں گے۔ رسولۖ نے اس پر ان سے صلح کر لی۔

‘و الّذی نفسی بیدہ ان الھلاک قد تدلی علٰی اھل نجران، ولولاعنوا لمسخوا قردة وخنازیر ولا ضطرم علیہم الوادی ناراً، ولأُ ستاصِلَ نجران و اھلہ حتی الطیر علیٰ رؤوس الشجر، ولما حال الحول علیٰ النصاری کلھم حتی یھلکوا۔ فرجعوا الیٰ بلادھم دون ان یسلموا۔'(6)

اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے، ہلاکت اہل نجران سے قریب آ چکی تھی ( عذاب ان کے سروں پر منڈلا رہا تھا) اگر وہ لعنت کرتے تو وہ بندر اورسور کی صورت میں مسخ ہو جاتے اور پوری وادی آگ برساتی اور اہل نجران مع اہل یہاں تک کہ درختوں پر بیٹھے ہوئے پرندے بھی ہلاک ہو جاتے، ایک سال کے اندر سارے نصاریٰ ہلاک ہو جاتے، وہ اسلام لائے بغیر اپنے شہروں کو لوٹ گئے۔

روایت ہے کہ نصاریٰ کے سرداروں میں سے سید اور عاقب اپنے اسلام کا اعلان کرنے کے لئے تھوڑی ہی دیر بعد رسولۖ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔(7)

رسولۖ ساری انسانیت کے لئے بہترین نمونہ تھے، آپۖخدا کی آیتوں کو اس طرح پہنچاتے تھے کہ ان کی تفسیر اور ان کے احکام واضح طور سے بیان کرتے تھے سارے مسلمان آپۖ کے قول و فعل کی اقتدا کرتے تھے- ہجرت کے دسویں سال ماہ ذی القعدہ میں رسولۖ نے فریضہ حج کی ادائیگی کا قصد کیا-اس سے قبل آپۖ نے حج نہیں کیا تھا، اس حج کی ایک غرض یہ بھی تھی کہ مسلمان حج کے احکام سے آگاہ ہو جائیں چنانچہ ہزاروںمسلمان مدینہ آ گئے اور نبی ۖ کے ساتھ حج پر جانے کی تیاری کرنے لگے۔ ان مسلمانوں کی تعداد ایک لاکھ ہو گئی، ان میں اہل مدینہ ، بادیہ نشین اور دیگر قبائل کے لوگ شامل تھے۔ یہ لوگ کل تک ایک دوسرے کی جان کے دشمن ، جاہل اور کافر تھے لیکن آج انہیں سچی محبت، اسلامی اخوت نے رسولۖ کی آواز پر لبیک کہنے کے لئے ایک جگہ جمع کردیا ہے ، اس سفر میں رسولۖ نے اپنی تمام ازواج اور اپنی بیٹی فاطمہ زہراۖ کو ساتھ لیا، فاطمہ ۖ کے شوہر علی بن ابی طالب کو رسولۖ نے ایک مہم سر کرنے کے لئے بھیجا تھا، وہ اس سفر میں آپۖ کے ساتھ نہیں تھے، ابو دجانہ انصاری کو مدینہ کا عامل مقرر کیا۔

مقام ذو الحلیفہ پر آپۖ نے احرام باندھا دو سفید کپڑے پہنے، احرام کے وقت تلبیہ کہی ‘لبیک الّلھم لبیک، لبیک لا شریک لک لبیک، ان الحمد و النعمة لک و الملک ، لبیک لا شریک لک لبیک’۔

چوتھی ذی الحجہ کو رسولۖ مکہ پہنچے، تلبیہ کہنا بند کر دیا خدا کی حمد و ثنا اور شکر بجالائے، حجر اسود کو چوما، سات مرتبہ طواف کیا۔ مقام ابراہیم کے پاس دو رکعت نماز پڑھی پھر صفا و مروہ کے درمیان سعی کی اور حاجیوں کو اس طرح مخاطب کیا: ‘من لم یسق منکم ھدیا فلیحل و لیجعلھا عمرہ و من ساق منکم ھدیا فلیقم علیٰ احرامہ’ تم میں سے جس شخص نے قربانی کا جانور نہیں بھیجا ہے اسے احرام کھول دینا چاہئے اور اسے عمرہ قرار دنیا چاہئے اور جس نے قربانی کا جانور بھیجا ہے اسے اپنے احرام پر باقی رہنا چاہئے۔

بعض مسلمانوں نے رسولۖ کے اس فرمان پر عمل نہیں کیا انہوںنے یہ خیال کیا کہ ہمیں وہی کام انجام دینا چاہئے جو رسولۖ نے انجام دیا ہے اور آپۖ نے احرام نہیں کھولا۔ ان کی اس حرکت پر رسولۖ ناراض ہوئے۔ اور فرمایا:

‘لوکنت استقبلت من امری ما استدبرت لفعلت کما امرتکم'(8)

اگر ماضی کی طرح مستقبل مجھ پر روشن ہوتا تو میں بھی وہی کام کرتا جس کا تم کو حکم دیا ہے ۔

حضرت علی بن ابی طالب یمن سے واپسی پر مکہ کی طرف روانہ ہوئے تاکہ وہاں خدمت رسولۖ میں حاضر ہو جائیں آپۖ نے قربانی کے لئے ٣٤ جانور ساتھ لئے، مکہ کے قریب پہنچے تو آپۖ نے شہر میں داخل ہونے کے لئے اپنے دستہ پر کسی کو اپنا جانشین مقرر کیا اور خدمت نبیۖ میں پہنچے، یمن میں آپ کی عظیم کامیابی کی خبر سن کر اور آپ کو دیکھ کر رسولۖ بہت مسرور ہوئے اور فرمایا:

جائیے طواف کیجئے اور اپنے ساتھیوں کی طرح مکہ میںداخل ہو جایئے، آپ نے عرض کی: اے اللہ کے رسولۖ! جس نیت سے آپۖ نے احرام باندھا ہے میں نے بھی اسی نیت سے باندھا ہے ۔ نیز عرض کی: میں نے احرام باندھتے وقت یہ کہا تھا اے اللہ میں اس نیت کے ساتھ احرام باندھتا ہوں جس نیت سے تیرے بندے، تیرے نبیۖ اور تیرے رسولۖ محمدۖ نے احرام باندھا ہے، اس کے بعد رسولۖ نے حضرت علی سے فرمایا: اپنے دستہ میں واپس جائیے اور ان لوگوں کے ساتھ مکہ آئیے۔ جب آپ کے ساتھی خدمت رسولۖ میں پہنچے تو انہوں نے آنحضرتۖ سے آپ کی شکایت کی ۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ان لوگوں نے حضرت علی کی عدم موجودگی میں بیت المال میں غلط طریقہ سے جو تصرف کیا تھا اسے آپ نے قبول نہیں کیا تھا۔ ان کی شکایت کا آنحضرتۖ نے یہ جواب دیا:

‘ایھا النّاس لا تشکوا علیاً فو اللّہ انہ لا خشن فی ذات اللہ من ان یشتکی’۔(9)

اے لوگو! علی کی شکایت نہ کرو کیونکہ وہ حکمِ خدا نافذ کرنے میں کسی کی شکایت کی پروا نہیں کرتے ہیں۔

٩ ذی الحجہ کو رسولۖ مسلمانوں کے ساتھ عرفات کی طرف روانہ ہوئے اور غروب آفتاب تک وہیں رہے۔ تاریکی چھا جانے کے بعد اپنے ناقہ پر سوار ہوئے اور مزدلفہ پہنچے وہاں رات کا ایک حصہ گذرا اور طلوع فجر تک مشعر الحرام میں رہے ، دسویں ذی الحجہ کو منیٰ کا رخ کیا۔ وہاں کنکریاں ماریں قربانی کی اورسر منڈوایا اس کے بعد حج کے باقی اعمال بجالانے کے لئے مکہ چلے گئے۔

اس حج کو حجة الوداع اس لئے کہتے ہیں کہ اس میں رسولۖ نے مسلمانوں کو وداع کیا ، اسی میں آپۖ نے یہ خبر دی کہ آپۖ کی وفات کا زمانہ قریب ہے ، اس حج کو ‘حجة البلاغ’ بھی کہتے ہیںکیونکہ اس حج میں آپۖ نے اپنے بعد ہونے والے خلیفہ کے سلسلہ میں خدا کی طرف سے نازل ہونے والے حکم کی بھی تبلیغ کی تھی، اس کو حجة الاسلام بھی کہتے ہیں کیونکہ یہ رسولۖ کا پہلا حج تھا کہ جس میں آپۖ نے حج کے اعمال سے متعلق اسلام کے دائمی احکام بیان فرمائے تھے۔

حجة الوداع میں رسولۖ کا خطبہ

روایت ہے کہ رسولۖ نے ایک جامع خطبہ دیا خدا کی حمد و ثنا کے بعد فرمایا:

‘ یا ایھا النّاس اسمعوا منی ابین لکم فانی لا ادری لعلی لا القاکم بعد عامی ھذا فی موقفی ھذا۔ ایھا النّاس ان دمائکم و اموالکم علیکم حرام الیٰ ان تلقوا ربکم کحرمة یومکم ھذا فی شھرکم ھذا فی بلد کم ھذا۔ الاھل بلغت؟ الّلھم اشھد فمن کانت عندہ امانة فلیؤدھا الیٰ الذی ائتمنہ و ان ربا الجاہلیة موضوع، و ان اول رباً ابدأ بہ ربا عم العباس بن عبد المطلب ان مآثر الجاہلیة موضوعة غیر السدانة و السقایة، و العمد قود و شبہ العمد ما قتل بالعصا و الحجر ففیہ مائة بعیر فمن زاد فھو من اھل الجہالیة۔

ایھا النّاس ان الشیطان قد یئس ان یعبد فی ارضکم ھذہ و لکنہ رض ان یطاع فیما سویٰ ذلک مما تحتقرون من اعمالکم۔

ایھا النّاس انما النسء زیادة ف الکفر یضل بہ الذین کفروا یحلونہ عاماً و یحرمونہ عاماً لیواطئوا عدة ما حرم اللہ۔ و ان الزمان استدار کھیئتہ یوم خلق اللہ السموات و الارض و ان عدة الشھور عند اللہ اثنا عشر شھراً ف کتاب اللہ یوم خلق السماوات والارض، منھا اربعة حرم، ثلاثة متوالیات وواحد فرد:

ذو القعدة و ذو الحجة و المحرم و رجب الذ بین جمادی و شعبان۔ الا ھل بلغت؟ الّلھم اشھد۔

ایھا النّاس ان لنسائکم علیکم حقاً و ان لکم علیھن حقاً۔ لکم علیھن ان لا یوطئن فرشکم غیر کم ولا یدخلن احداً تکرھونہ بیوتکم الا باذنکم ولا یأتین بفاحشة، فان فعلن فان اللّہ قد اذن لکم ان تعضلوھن و تھجروھن ف المضاجع و تضربوھن ضرباً غیر مبرح، فان انتھین و اطعنکم فعلیکم رزقھن و کسوتھن بالمعروف، و انما النساء عندکم عوار لا یملکن لانفسھن شیئاً، اخذتموھن بامانة اللّہ و استحللتم فروجھن بکلمة اللّہ فاتقوا اللّہ ف النساء و استوصوا بھن خیراً۔

ایھا النّاس انما المؤمنون اخوة فلا یحل لا مرئٍ مال اخیہ الا عن طیب نفس۔ الا ھل بلغت؟ الّلھم اشہد۔ فلا ترجعوا بعد کفاراً یضرب بعضکم رقاب بعض؛ فانی قد ترکت فیکم ما ان اخذتم بہ لن تضلوا کتاب اللّہ و عترت اھل بیت الا ھل بلغت ؟ اللھم اشھد۔

ایھا النّاس ان ربکم واحد، و ان اباکم واحد، کلکم لآدم، و آدم من تراب، اکرمکم عند اللّہ اتقاکم، لیس لعرب علی عجم فضل الا بالتقوی، الا ھل بلغت؟ قالوا نعم۔قالۖ: فلیبلغ الشاھد منکم الغائب۔ (10)

ایھا النّاس ان اللّہ قد قسم لکل وارث نصیبہ من المیراث ولا یجوز لوارث وصیة ف اکثر من الثلث، و الولد للفراش و للعاھر الحجر، من ادع الیٰ غیر ابیہ او تولی غیر موالیہ فعلیہ لعنة اللّہ و الملائکة و النّاس اجمعین ، لا یقبل اللّہ منہ صرفاً ولا عدلاً… و السلام علیکم و رحمة اللّہ۔

اے لوگو! میری بات سنو تاکہ تمہارے سامنے یہ واضح کر دوں مجھے لگتا ہے کہ اس سال کے بعد اس جگہ تم لوگوں سے شاید میری ملاقات نہ ہو۔ اے لوگو! تمہارا خون اور تمہاری عزت تمہارے لئے مرتے دم تک اسی طرح محترم ہے جیسے تمہارے اس شہر میں آج کا دن محترم ہے۔ کیا میں نے بخوبی تم تک الٰہی پیغام پہنچا دیا؟ اے اللہ! گواہ رہنا۔ پس اگر کسی کے پاس کوئی امانت ہو تو اسے اس شخص کے پاس پہنچا دے جس نے امانت رکھی تھی، زمانہ جاہلیت کا ہر سود باطل ہے سب سے پہلے میں اپنے چچا عباس بن عبد المطلب کے سود کو لغو قرار دیتا ہوں اور جو خون زمانۂ جاہلیت میں بہایا گیا تھا اس کا انتقام و قصاص وغیرہ بھی باطل ہے اور سب سے پہلے میںعامر بن ربیعہ بن حارث بن عبد المطلب کی سزا کو لغو قرار دیتا ہوں اور خانۂ کعبہ کی دربانی و کلید برداری اور حاجیوں کو سیراب کرنے کے علاوہ کوئی کام باعثِ افتخار نہیں ہے جان بوجھ کر قتل کرنے اور عمداً شبہ کی وجہ سے لاٹھی یا پتھر سے مار ڈالنے کی دیت سو اونٹ ہیں اس سے زیادہ کا تعلق اہل جاہلیت سے ہے ۔

اے لوگو! شیطان اس بات سے مایوس ہو گیا کہ تمہاری اس سر زمین پر اس کی پوجا ہوگی لیکن وہ اس بات سے خوش ہے کہ تم بعض اعمال کو اہمیت نہیں دیتے ہو۔

اے لوگو!نسی یعنی مہینوںکو آگے پیچھے کرنا- کفر میں اضافہ کا سبب ہے ان کے ذریعہ کافر گمراہ ہوتے ہیں، کسی سال وہ اس ماہ کو حرمت کا مہینہ قرار دیدیتے ہیں اور کسی سال اسی ماہ میں جنگ و خونریزی کو حلال سمجھ لیتے ہیں اس سے ان کا مقصدان مہینوں کے حساب کو برابر کرنا ہوتا ہے۔ حالانکہ ان کو خدا نے حرام کیا ہے ،

١۔العقد الفرید ج٤ ص ٥٧، الطبقات الکبریٰ ج٢ ص ١٨٤، الخصال: ص ٤٨٧، بحار الانوار ص٢١ ص ٤٠٥، تاریخ کی دوسری کتابوں میں بھی کچھ اختلاف کے ساتھ بیان ہوا ہے ۔

بیشک زمانہ گردش کرتاہے اسی روز سے جس دن خدا نے زمین و آسمانوںکو پیدا کیا تھا اور جیساکہ خداکی کتاب میں لکھاہے زمین و آسمان کی پیدائش کے دن ہی سے خدا کے نزدیک مہینوں کی تعداد بارہ ہے ، ان میں سے چار، ذی القعدہ، ذی الحجة اور، محرم ، تین پے در پے حرمت کے ہیں رجب کا ایک مہینہ جدا ہے جو جمادی الاخریٰ اور شعبان کے درمیان ہے ۔ کیا میں نے پیغام پہنچا دیا؟ اے اللہ گواہ رہنا۔

اے لوگو! بیشک تمہاری عورتوںپر تمہارا حق ہے اور اسی طرح تمہاری عورتوں کا تم پر بھی حق ہے ، ان کے اوپر تمہار ا حق یہ ہے کہ وہ تمہارے بستر پر کسی غیر کو نہ آنے دیں اور تمہارے گھروں میں تمہاری اجازت کے بغیر ان لوگوںکو داخل نہ ہونے دیں جن کو تم پسند نہیں کرتے اور ناشائستہ حرکت(زنا) نہ کریں پس اگر وہ ایسا کریں تو خدا نے تمہیں حق دیا ہے کہ ان پر سختی کر و اور ان کے پاس سونا ترک کر دو (اور اگر پھر بھی نہ مانیںتو) انہیں مارو! لیکن گہری چوٹ نہ آنے پائے، پھر اگر وہ باز آجائیں اور تمہاری اطاعت کرنے لگیں تو تمہارے اوپر فرض ہے کہ انہیں معمول کے مطابق روٹی کپڑا دو۔ عورتیں تمہارے پاس امانت ہیں وہ اپنے اوپر اختیار نہیں رکھتی ہیں تم نے انہیں خدائی امانت کے عنوان سے اپنے اختیار میںلیاہے اور کتاب خدا کے مطابق انہیں اپنے لئے حلال کیا ہے۔ پس ان کے بارے میں خدا سے ڈرو! اور ان کے ساتھ اچھا برتائو کرو۔

اے لوگو! مومنین آپس میں بھائی بھائی ہیں لہذا کسی شخص پر اس کے بھائی کا مال حلال نہیں ہے مگر یہ کہ وہ خوش ہو، کیا میں نے پیغام پہنچا دیا؟ اے اللہ گواہ رہنا۔ دیکھو میرے بعد کفر کی طرف نہ پلٹ جانا کہ ایک دوسرے کو قتل کرنے لگو، کیونکہ میں نے تمہارے درمیان جو چیز چھوڑی ہے اگر تم اس سے وابستہ رہو گے تو ہر گز گمراہ نہ ہوگے، وہ ہے کتاب خد ااور میری عترت وہی میرے اہل بیت ہیںکیا میں نے پیغام پہنچا دیا؟ اے اللہ گواہ رہنا ۔

اے لوگو! تمہارا رب ایک ہے ، اور تمہارا باپ ایک ہے ، تم سب آدم سے ہو اور آدم مٹی سے ہیں اور خدا کے نزدیک تم میں سے وہی زیادہ مکرم ہے جو زیادہ پر ہیزگار و متقی ہے ، عربی کو عجمی پر کوئی فضیلت نہیں مگر تقوے کے ساتھ، کیا میںنے پیغام پہنچا دیا؟ سب نے کہا: ہاں، پھر فرمایا: جو لوگ یہاں موجود ہیں وہ ان لوگوں تک یہ پیغام پہنچا دیں جو یہاںموجودنہیں ہیں۔

اے لوگو! میراث میںاللہ نے ہر وارث کے حصہ کومعین کر دیا ہے اور کوئی شخص ایک تہائی مال سے زیادہ کے بارے میں وصیت نہیں کر سکتا اور بچہ اس کا ہے جس کی بیوی ہے ،ز نا کار کے لئے پتھر ہے جو شخص خود کو اپنے والد کے علاوہ غیر کی طرف منسوب کرے؛ اورغلام خود کو مولا کے علاوہ کسی دوسرے سے وابستہ کرے تو اس پر خدا اوراس کے فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت ہے ، خدا ایسے لوگوں کی توبہ اور فدیہ قبول نہیں کرتا ہے۔ سلام اور خدا کی رحمت ہو تم پر۔

٤۔ وصی کا تعین (11)

مسلمانوں نے اپنا حج اکبر مکمل کیا وہ پروانہ کی طرح نبی ۖ کے ساتھ ساتھ تھے۔ اپنے مناسک آپۖ سے سیکھ رہے تھے، رسولۖ نے مدینہ کی طرف لوٹنے کا فیصلہ کیا، جب حاجیوں کا عظیم قافلہ غدیر خم کے قریب مقام ‘رابغ’ میں پہنچا تو امر خدا کی تبلیغ کے لئے وحی نازل ہوئی، واضح رہے کہ حاجیوں کے قافلے یہیں سے متفرق ہو کر اپنے اپنے شہروںکی طرف روانہ ہوتے تھے۔

(یا ایّھا الرّسول بلّغ ما انزل الیک من ربّک و ان لم تفعل فما بلّغت رسالتہ و اللّہ یعصمک من النّاس)(12)

اے رسول! اس پیغام کو پہنچا دیجئے جو آپۖ پر نازل کیا جا چکا ہے اور اگر اس پیغام کو نہ پہنچایا تو گویا آپۖ نے رسالت کی تبلیغ ہی نہیں کی خدا آپۖ کو لوگوں کے شر سے محفوظ رکھے گا۔

یقینا یہ خدائی خطاب و پیغام ایک اہم چیز کا حامل تھا اور اس سے زیادہ اہم کون سی تبلیغ ہوگی کہ جس کے بارے میںرسولۖ سے یہ کہاگیا ہے کہ اسے انجام دیں ، جس کو ابھی تک انجام نہیں دیا ہے؟ جبکہ خدا کا رسولۖ تقریبا تیئس سال سے لوگوں کو دین خدا کی طرف دعوت دے رہا تھا اور خدا کی آیتوں کی تبلیغ کر رہا تھا اور اس کے احکام کی تعلیم دے رہا تھا اور اس سال میں آپۖ نے جو تکلیف اور زحمت برداشت کی ہے وہ محتاج بیان نہیں ہے کہ یہ کہا جائے:(فما بلّغت رسالتہ)

اس موقعہ پر رسولۖ نے یہ احکام صادر فرمائے: قافلوں کو روک دیا جائے تاکہ پیچھے رہ جانے والے آجائیں، اس روز اتنی شدید گرمی تھی کہ لوگ سروں اور پیروں پر کپڑا لپیٹنے پر مجبور تھے، اس جگہ پر رسولۖ ان کے سامنے تبلیغ رسالت کو مکمل کرنااور آسمانی پیغام کی تلقین کرنا چاہتے تھے۔ خدا کی حکمت کا یہی تقاضا تھا ایسے سخت موسم اور ایسے تپتے صحرا میں تبلیغ کی تکمیل ہو،تاکہ امت کو ہمیشہ یاد رہے مرورِ زمانہ کے ساتھ ان کے ذہنوں میں اس واقعہ کی یاد تازہ رہے ۔ امت مسلمہ اس کو یاد رکھے۔

اسباب سفر کو جمع کیا گیا، اس سے منبر بنایا گیا اور مسلمانوںکو نماز پڑھانے کے بعد رسولۖمنبر پر تشریف لے گئے ، خداوند عالم کی حمد و ثنا کی ، پھر اتنی بلند آواز میں، کہ جس کو سب سن لیں، فرمایا:’یا ایّھا النّاس یوشک ان ادعی فاجیب و انی مسؤول و انتم مسؤولون فما انتم قائلون؟ قالوا: نشھد انّک بلّغت و نصحت و جاہدت فجزاک اللّہ خیراً۔ قال ۖ الستم تشھدون ان لا الٰہ الا اللّہ و ان محمّداً، عبدہ و رسولہ و ان جنتہ حق و ان الساعة آتیة لا ریب فیھا و ان اللّہ یبعث من فی القبور؟ قالوا: بلیٰ نشھد بذالک قال ۖ الّلھمّ اشھد ثم قال ۖ فانّی فرطکم علیٰ الحوض و انتم واردون علّ الحوض و ان عرضہ ما بین صنعاء و بصریٰ فیہ اقداح عدد النجوم من فضة فانظروا کیف تخلّفونی فی الثقلین۔فنادیٰ مناد وما الثقلان یا رسول اللّہ؟ قالۖ : الثقل الاکبر کتاب اللّہ طرف بید اللّہ عزّ و جلّ و طرف بایدیکم فتمسکوا بہ لا تضلّوا ۔والآخر الاصغر عترت۔ و انّ الّلطیف الخبیر نبّأن انّھما لن یفترقا حتی یردا علّ الحوض فسألت ذلک لھما رب فلا تقدموھما فتھلکوا ولا تقصروا عنھما فتھلکوا۔’

اے لوگو!عنقریب مجھے دعوت دی جائے گی اور میں اسے قبول کرونگا دیکھو مجھ سے بھی سوال کیا جائیگا اور تم سے بھی باز پرس ہوگی بتائو کہ تم کیا جواب دوگے؟ انہوں نے کہا: ہم یہ گواہی دیں گے کہ آپۖ نے تبلیغ کی، نصیحت کی اور جہاد کیا خدا آپۖ کو جزائے خیر عطا کرے، پھر آپۖ نے فرمایا: کیا تم یہ گواہی نہیں دیتے ہو کہ خدا کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے اور محمدۖ اس کے بندے اور اس کے رسولۖ ہیں، اور جنت حق ہے، قیامت آنے والی ہے اس میں کوئی شک نہیں ہے اور خدا قبروں سے مردوں کو اٹھائے گا؟ سب نے کہا: ہاں! ہم اس کی گواہی دیتے ہیں اس کے بعد آپۖ نے فرمایا: اے اللہ! گواہ رہنا۔ میں تم سے پہلے حوض کوثر پر پہونچونگا تمہارا حوض کوثرپر انتظار کرونگا اور تم میرے پاس حوض کوثرپر پہنچوگے وہ اتنا چوڑا ہے جتنا صنعاء و بصریٰ کے درمیان کا فاصلہ ہے ، اس پر چاندی کے اتنے جام رکھے ہوئے ہیں جتنے آسمان کے ستارے ہیں۔ دیکھتا ہوں تم میرے بعد ثقلین سے کیسے پیش آتے ہو۔

کسی دریافت کرنے والے نے دریافت کیا: اے اللہ کے رسولۖ! ثقلین کیا ہے؟ فرمایا: ثقل اکبر کتاب خدا ہے جس کا ایک سرا دستِ خدا میں ہے اور دوسرا تمہارے ہاتھوں میں ہے ، اس سے وابستہ رہوگے تو گمراہ نہ ہوگے، اور ثقل اصغر میری عترت ہے اور لطیف و خبیر خدا نے مجھے خبر دی ہے کہ یہ دونوںہر گز ایک دوسرے سے جدا نہ ہونگے یہاں تک کہ حوض(کوثر) پر میرے پاس وارد ہونگے اور میں نے خدا سے ان کے لئے ہی سوال کیا ہے ۔ دیکھو!ان سے آگے نہ بڑھ جانا ورنہ ہلاک ہو جائو گے اور ان سے پیچھے نہ رہ جانا ورنہ تباہ ہو جائوگے۔

اس کے بعدآپۖ نے حضرت علی بن ابی طالب کا ہاتھ پکڑ کر اتنا بلند کیا کہ آپۖ کی بغل کی سفیدی نظر آنے لگی جب تمام لوگوں نے علی کو دیکھ لیا تو فرمایا:

‘ایّھا النّاس من اولیٰ النّاس بالمومنین من انفسھم؟ قالوا: اللّہ و رسولہ اعلم قالۖ انّ اللّہ مولای و انا مولیٰ المومنین و انا اولیٰ بھم من انفسھم فمن کنت مولاہ فعلی مولاہ یقولھا ثلاث مرات۔

ثم قال ۖ الّلھم وال من والاہ و عاد من عاداہ و احب من احبہ و ابغض من ابغضہ و انصر من نصرہ و اخذل من خذلہ و ادر الحق معہ حیث ما دار، الا فلیبلغ الشاھد الغائب۔’

اے لوگو! مومنوں پر خود ان کے نفسوں سے زیادہ کون حق تصرف رکھتا ہے ؟ سب نے ایک زبان ہو کر کہا: خدا اور اس کا رسولۖ بہتر جانتا ہے ۔ آپۖ نے فرمایا: خدا میرا مولا ہے اور میں مومنین کا مولا ہوں اور ان پر میں خود ان کے نفسوں سے زیادہ تصرف کا حق رکھتا ہوں، بس جس کا میں مولا ہوں اس کے علی مولا ہیں، یہ جملہ آپۖ نے تین بار دہرایا۔

ا سکے بعد فرمایا:اے اللہ جو اسے دوست رکھے تو اسے دوست رکھ اور جو اس سے دشمنی رکھے تو اس سے دشمنی رکھ ، جو اس سے محبت رکھے تو اس سے محبت کر اور جو اس سے بغض رکھے تو اس سے دشمنی کر ، اس کی نصرت کرنے والے کی نصرت فرما اور جو اس سے الگ ہو جائے اسے چھوڑ دے، اور جدھر یہ جائے حق کو بھی ادھر موڑ دے، جو لوگ حاضر ہیں ان کو چاہئے کہ یہ باتیں ان لوگوں تک پہنچا دیں جو یہاںموجود نہیں ہیں۔

حاضر ین ابھی وہاں سے متفرق نہیں ہوئے تھے کہ جبریل امین وحی لیکر نازل ہوئے:

(الیوم اکملت لکم دینکم و اتممت علیکم نعمتی و رضیت لکم الاسلاما ً دیناً)(13) آج میں نے تمہارے لئے تمہارے دین کو مکمل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت تمام کر دی اور تمہارے لئے دین اسلام کو پسند کر لیا۔

اس کے بعد رسول ۖ نے ،دین کی تکمیل ، نعمت کے اتمام اپنی رسالت اوراپنے بعد علی کے ولی ہونے سے خدا کے راضی ہونے پر تکبیر کہی ۔

‘اللّہ اکبر علی اکمال الدین و اتمام النعمة و رضی الرب برسالتی و الولایة لعلی بعدی’۔

پھر آنحضرت ۖ نے یہ حکم دیا کہ علی کے لئے ایک خیمہ نصب کیا جائے اور مسلمان گروہ در گروہ اس خیمہ میں جائیں اورعلی کو امیر المومنین کہہ کر سلام کریں چنانچہ سارے مسلمانوںنے ایسا ہی کیا۔ اس کے بعد آپۖ نے اپنی ازواج اور دوسری عورتوں کو بھی ایسا ہی کرنے کا حکم دیا۔

حضرت علی کو خلافت کی مبارک باد دینے میں ابوبکر و عمر پیش پیش تھے ان میں سے ہر ایک یہی کہتا تھا:

‘بخٍ بخٍ لک یابن ابی طالب اصبحت و امسیت مولای و مولیٰ کل مومن و مومنة’۔(14)

اے ابو طالب کے فرزند مبارک ہو آپ نے اس حال میں صبح و شام کی ہے آپ ہمارے اور ہر مومن و مومنہ کے مولا ہو گئے ہیں۔

٥۔نبوت کے جھوٹے دعویدار

غدیر خم کے مقام سے حاجیوں کا مجمع عراق، شام اور یمن کی طرف روانہ ہو گیا اور رسولۖ نے مدینہ کا رخ کیا۔ ان کے ساتھ ساتھ رسولۖکے بعد ان کی آغوش کے پلے ہوئے علی بن ابی طالب کے خلیفہ و جانشین ہونے کی خبر تھی تاکہ نہج نبوی کے مطابق اسلامی تبلیغ و دعوت کا سلسلہ جاری رہے اور امت قائد اول کی رحلت کے بعد دشوار راستوں سے گزر جائے۔ رسولۖ نے علی کی خلافت کا اعلان غدیر کے تاریخی دن میں ہی نہیں کیا تھا بلکہ روز اول ہی سے آپۖ علی کے بارے میں یہ فرماتے چلے آ رہے تھے، وہ میرے خیرخواہ و زیر، غمگسار بھائی، میرے قوت بازو ہیں اور خلیفہ ہیں تمام لوگوں پر واجب ہے کہ نبی ۖ کے بعد آپ کی اطاعت و اتباع کریں اور انہیں اپنا قائد و زعیم سمجھیں۔

جب دین کا اقتدار مسلم ہو گیا اور مدینہ میں اس کا مرکز بن گیا تو پھر بعض لوگوںکا دین سے خارج ہونا یا نبی ۖکی لائی ہوئی چیزوں سے بعض افراد کا مرتد ہونا یا مدینہ سے بہت دور ایسے افراد کا پایا جانا جو اپنی امیدوں اور بے جا خواہشات کو دین کے پیرایہ میں پورا کرنا چاہتے تھے، کوئی بہت اہم بات نہیں تھی۔

یہی وجہ تھی کہ مسیلمہ نے نبوت کا جھوٹا دعویٰ کر دیا اور اس نے رسولۖ کو خط کے ضمن میں یہ لکھا کہ اسے بھی مبعوث کیا گیا ہے اس نے آپۖ سے یہ درخواست بھی کی کہ زمین کی بادشاہت میں آپۖ اس کے شریک ہو جائیں ، رسولۖ نے اس کے خط کا مضمون دیکھا اور خط لانے والوں کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا:

‘لولا ان الرسل لا تقتل لضربت اعناقکما لا نکما اسلمتما من قبل و قبلتما برسالتی فلم اتبعتما ھذا الاحمق و ترکتما دینکما؟’

اگر یہ دستور نہ ہوتا کہ قاصدوں کو قتل نہیں کیا جائے گا تو میں تم دونوں کی گردنیں مار دیتا کیونکہ تم دونوں پہلے اسلام لائے ہواور میری رسالت کو قبول کیاہے اس کے بعد تم دونوں نے اس احمق کا اتباع کیا اور اپنا دین چھوڑ دیا؟

پھر آپۖ نے ایک خط کے ذریعہ مسیلمہ کذاب کی، تردید کی اس خط میں یہ تحریر کیا:

‘بسم اللّہ الرحمٰن الرحیم، من محمد رسول اللّہ الیٰ مسیلمة الکذاب، السلام علیٰ من اتبع الھدی اما بعد فان الارض للّہ یورثھا من یشاء من عبادہ و العاقبة للمتقین’۔(15)

شروع کرتا ہوں رحمان و رحیم خدا کے نام سے ، یہ خط اللہ کے رسول محمدۖ کی طرف سے مسیلمہ کذاب کے نام ہے ، سلام ہو ہدایت کا اتباع کرنے والے پر، پھر واضح ہو کہ زمین خدا کی ہے ، اپنے بندوں میں سے وہ جس کو چاہے گا اس کو وارث بنائے گا اور عاقبت و انجام پرہیز گاروں کے لئے ہے۔

مختصر یہ کہ اسود عنسی، مسیلمہ اور طلحہ ایسے دجالوں کی چلائی ہوئی ارتداد کی تحریکوں کو کچلنے میں مسلمان کامیاب ہو گئے۔

٦۔ روم سے جنگ کے لئے فوج کی عام بھرتی

رسولۖ اسلامی حکومت کی شمالی سرحدوں کو بہت اہمیت دیتے تھے کیونکہ اس طرف روم کی منظم اور عظیم لشکر والی حکومت تھی۔ اسلامی حکومت کو فارس کی حکومت سے کوئی اندیشہ نہیں تھا،کیونکہ اس کی تباہی کے آثار رونما ہو چکے تھے، پھر اس کا کوئی روحانی عقیدہ بھی نہیں تھاکہ جس کا وہ روم کے مسیحیوںکی طرح دفاع کرتے، لہذا نئے اسلامی نظام کے لئے روم ہی خطرہ تھا خاص طور سے ان لوگوں کی طرف سے خطرہ تھا جن کو اسلامی حکومت سے ان کی فتنہ پردازیوں اور نفاق پروری کی بنا پر نکال دیا گیا تھا اور وہ شام چلے گئے تھے بعد میں کچھ اور لوگ ان سے ملحق ہو گئے تھے پھر وہاں نصارائے نجران کا وجود ایک سیاسی وسیلہ تھا جو روم کو ان کی مدد پر اکساتا تھا۔

اس کے باوجودحالات ایسے نہیں تھے کہ جن کی بنا پر اتنا اہتمام کیا جاتا کہ جتنا رسولۖ نے ایک عظیم لشکر بنانے میں کیا ہے ، اس میں آپۖ نے علی اور ان کے بعض مخلصین کے علاوہ بڑے بڑے صحابیوں کو شامل کیا، اس سے رسولۖ کا مقصد سیاسی فضا کو ایسے عناصر سے پاک کرنا تھا جو علی بن ابی طالب کی طرف قیادت کی منتقلی میں حائل ہو سکتے تھے، تاکہ آپۖ کے بعد علی خلیفہ بن جائیں اصل میں رسولۖ اپنے مشن کو جاری رکھنے کے لئے حضرت کی مرجعیت اور ان کی صلاحیتوںکو مسلسل بیان کرتے تھے آپۖنے یہ محسوس کیا کہ علی کی خلافت سے بعض صحابہ خوش نہیں ہیں، یہ بات غدیر میں حضرت علی کی بیعت کے بعد آپۖ نے اچھی طرح محسوس کر لی تھی لہذا رسولۖ نے مدینہ کو سیاسی کشیدگی سے پاک کرنے کا عزم کیا تاکہ آپۖکے بعد اسلامی حکومت کی زمام کسی بھی ٹکرائو اور جھگڑے کے بغیر حضرت علی کے ہاتھ میں پہنچ جائے چنانچہ رسولۖ نے پرچم بنایا اور اسامہ بن زید کے سپرد کر دیا-یہ جوان سپہ سالار تھے جن کو رسولۖ نے منصوب کیا تھااور مہاجرین و انصار کے بزرگوں کو ان کا تابع کیا اور اسامہ سے فرمایا:

١۔رسولۖ نے اسامہ کو ماہ صفر ١١ھ میں علم دیا تھا۔

‘سر الیٰ موضع قتل ابیک فاوطئھم الخیل فقد ولیتک ھذا الجیش فاغز صباحاً علی اھل ابنی ‘۔

اپنے باپ کی قتل گاہ کی طرف جائو، لشکر کو جمع کرو، میں نے تمہیں اس لشکر کا امیر مقرر کیا ہے اور صبح کے وقت اہل ابنی پر حملہ کرنا۔ لیکن جذبۂ تمرد و سرکشی ، اقتدار کی ہوس اورنظم و ضبط کی کمی کی وجہ سے بعض لوگوں نے نبی ۖ کے حکم کو تسلیم نہیں کیا شاید انہیں رسولۖ کے مقاصد کا علم ہو گیا تھا اسی لئے انہوں نے ‘الجرف’ چھاونی میں جمع فوج کی روانگی میں تاخیر کی ان کی تساہلی کی خبر رسولۖ تک پہنچی تو آپۖ غضبناک ہوئے اور گھر سے نکل آئے-اس وقت آپ مخملی چادر اوڑھے ہوئے تھے اور بخار کی شدت کی وجہ سے آپۖ کی پیشانی پر پٹی بندھی ہوئی تھی-مسجد میں پہنچ کر منبر پر تشریف لے گئے خدا کی حمد و ثنا کی اور اس کے بعد فرمایا:

‘ایّھا النّاس فما مقالة بلغتنی عن بعضکم فی تامیری اسامة، ولئن طعنتم فی امارتی اسامة لقد طعنتم فی امارتی اباہ من قبلہ و ایم اللّہ ان کان للامارة لخلیقا وان ابنہ من بعدہ لخلیق الامارة و ان کان لمن احب النّاس الَیَّ و انّھما لمخیلان لکلِّ خیر و استوصوا بہ خیر فانہ من خیارکم ‘۔(16)

اے لوگو! تم میں سے بعض کی طرف سے مجھے یہ اطلاع ملی ہے کہ میر ااسامہ کو سپہ سالار بنانا انہیں گراں گزرا ہے لیکن یہ کوئی نئی بات نہیں ہے تم نے ان کے باپ زید کو سپہ سالار بنانے پر بھی تنقید کی تھی، خدا کی قسم وہ بھی اس منصب کا اہل تھا اور اس کا بیٹا بھی اس کی اہلیت رکھتا ہے ، میں اس سے بہت محبت رکھتا ہوں یہ دونوں ہی ہر نیکی و بھلائی کے مستحق ہیں اس کے بارے میں دوسروں سے نیکی کی سفارش کرو کہ وہ تمہارے نیک و شریف افراد ہیں۔

رسولۖ کو شدید بخار تھا لیکن جیش اسامہ کو بھیجنے میںآپ کو اس کی پروا نہیں تھی فرماتے تھے: ‘انفدوا جیش اسامة'(17) اسامہ کے لشکر کو روانہ کرو۔ آپۖ کے اصحاب میں سے جو بھی آپۖ کی عیادت کے لئے جاتا تھ اسی سے یہ فرماتے تھے: ‘جھزوا جیش اسامة لعن اللہ من تخلف عنہ'(18) اسامہ کے لشکر کو روانہ کرو، لشکرِ اسامہ سے روگردانی کرنے والوں پر خدا کی لعنت ہو۔

کسی نے لشکر گاہ میں یہ خبر پہنچا دی کہ آنحضرت ۖ کی طبیعت زیادہ ناساز ہے اس لئے اسامہ عیادت کے لئے خدمتِ رسولۖ میں آئے تو رسولۖ نے انہیں اس مقصد کی طرف روانہ ہونے کی تاکید کی جس کی منصوبہ بندی آپۖ نے پہلے ہی کر دی تھی۔

اسامہ فوراً اپنے لشکر میں واپس آ گئے اور لشکروالوں کو روانہ ہونے پر ابھارنے لگے لیکن خلافت کی ہوس رکھنے والے اور پس و پیش سے کام لینے والوں نے یہ کہہ کر کہ نبیۖ حالت احتضار میں ہیں لشکر کو روانہ نہیں ہونے دیا باوجودیکہ رسولۖ نے لشکر کو روانہ کرنے کی تاکید فرمائی تھی اور اس بات پر زور دیا تھاکہ لشکر اسامہ کی جو ذمہ داری ہے اس میں کسی قسم کے تردد سے کام نہ لیا جائے۔

…………..

 

١۔دس ذی الحجہ ٩ھ۔

٢۔سورۂ توبہ ١۔١٣۔

 

 

3الکافی ١/٣٢٦، الارشاد ٣٧، الواقدی ٣/١٠٧٧، خصائص النسائی ٢٠، صحیح ترمذی٢/١٨٣، مسند احمد ٣/٣٨٣، فضائل الخمسہ من الصحاح الستة٢/٣٤٣۔

4سیرت حلبیہ ج٣ ص ٢١١، سیرتِ نبویہ ج١ ص ٥٧٤۔

 

5۔ آل عمران:٦١۔

 6۔طبقات الکبریٰ ج١ ص ٣٥٧۔

7۔حجة الوداع

 

8 بحار الانوار ج٢١ ص ٣١٩۔

9۔سیرة نبویہ ج ٢ص٦٠٣، بحار الانوارج ٢١ص٣٥٨۔

 

10۔بحار الانوار ج ٢١، ص ٤٠٥۔

 

11 مزید معلومات کے لئے علامہ امینی کی ‘الغدیر’ جلداول کا مطالعہ فرمائیں۔

12 سورۂ مائدہ ٦٧۔

 

13۔ مائدہ: ٣۔

14۔تاریخ یعقوبی ج٣ ص ١١٢، مسند احمد ج٤ ص ٢٨١، البدایہ و النہایہ ج٥ ص ،٢١٣، الغدیر ج١ ص ٤٣، ص ١٦٥،١٩٦، ص٢١٥، ٢٣٠، ص ٢٣٨، ص ٢٧٦، ص ٢٨٣، ٢٨٥، ص ٢٩٧، ص ٢٧٩، ص ٣٩٣، ص ٤٠٢ جزء ١١ ص ١٣١۔

15۔سیرت نبویہ ج٢ ص ٦٠٠۔

 

16۔ طبقات الکبریٰ ج٢ ص ١٩٠، طبع دار الفکر۔

17 ایضاً۔

 

18 الملل و النحل ج١ ص ٢٣۔

 

 

 

 

 

تبصرے
Loading...