توبہ؛ نہج البلاغہ کي روشني ميں

تہ دل سے ،سرزد ہونے والے اعمال پر نادم و پشیمان ہونا۔’’التوبہ ندم بالقلب‘‘.

دل کي پشیماني کو استغفار کي شکل میں زبان پر لانا اور خدا سے طلب استغفار کرنا۔’’واستغفار با للسان‘‘ 

1. توبہ کا لغوي اور اصطلاحي معني:

’’توبہ ‘‘ کلمہ توب سے لیاگیا ہے جس کے اصل معني پلٹنے اور واپس آنے کے ہیں۔ چونکہ خالق کاینات،مالک انس وجن نے انساني سعادت و بلندي کي خاطر آئين حیات کے عنوان سے کچھ اصول وقوانین عاید کر کے انسان کو ان کي اتباع کا پابند بنایا جنہیں شریعت کي زبان میں احکام خمسہ اور دنیائے اخلاق و ادب میں اعمال فضایل ورزایل کے نام سے جانا جاتاہے، اس طرح انساني اعمال و افکار الٰہي حدود ونگراني میں حفظِ مراتب کا سرمايہ بن کرصفحہ وجود انساني پرابھرتے ہيں۔پس اس حدودونگراني ميں رہ کر مقاصدِ حیات کي تکمیل کو اطاعت و بندگي اور اس سے تجاوزو کو گناہ ومعصیت سے تعبیر کیا جاتا ہے اور دوبارہ ندامت وپشیماني کے احساس کے ساتھ حدود میں پلٹ آنے کے عمل کو توبہ اور پلٹنے والے کو توّاب يا تائب کہا جاتا ہے جو نگاہ پروردگار میں ایک بلند مقام حاصل کرتا ہے اور ’’ان اللہ یحبّ التوابین‘‘کامصداق بنتاہے لہٰذا اگر عمداً یا سہواً گناہ و معصیت کے ذریعہ حدود ِالٰہي سے تجاوز کر جائے تو عقل ودانائي کا تقاضيٰ یہي ہے کہ اعمال ِخلاف ِالٰہي کو صدق قلب اور احساس پشیماني کے ساتھ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ترک کرتا ہوا عفوو بخشش کي امید کے ساتھ بارگاہ رب العزّت میں پلٹ آے ۔اس حقیقت کو راغب اصفھاني اس طرح قلم بند کرتے ہيں۔ ’’التوبہ ترک الذنب علي اجمل الوجوہ و ھوا بلغ وجوہ الاعتذار‘‘(مفردات راغب٧٦).

2. توبہ دایرہ شریعت میں :

یوں تو توبہ کے لیے ہر علم ومجال میں مختلف شرایط بیان کیے گے ہیں جن میں سے بعض کمال توبہ تو بعض صحت توبہ پر منطبق ہوتے ہیں لہٰذا دایرہ شریعت میں بیان ہونے والے شرایط و ضوابط کا تعلق توبہ کي قبولیت اور صحت پر ہے نہ کہ اس کے کمال و مراتب پر اور یہ شرایط صحت و قبول توبہ ،کے مرحلہ اول سے تعلق رکھتے ہیں۔نگاہ شریعت میں توبہ کي قبولیت کے لیے چار بنیادي شرئط ہیں :

١۔ گناہ کو برا جانتے ہوے ترک کرنا۔ ’’ترک الزنب لقبحہ‘‘

٢۔ گناہ کي انجام دہي پر پشیمان ہونا۔ ’’والندم علي مافرط منہ‘‘

٣۔ دوبارہ گناہ کي طرف نہ پلٹنا۔ ’’والفرمۃ علي ترک المعاورۃ‘‘

٤۔ ترک شدہ وظیفہ کي قضا کرنا۔ ’’وتدارک ما امکنہ ان تبدارک من الاعمال بالاعادہ‘‘ (مفردات راغب ٧٢).

3. بدتر گناہ وبدترين گناہگار:

واقعاً گناہ اور نافرماني انسان کے دامن عصمت پر ایک بد نما داغ ہے کہ اگر رہ جاے توانسان کي دنیا و آخرت کو بد نما بنا دے ليکن اس سے بھي کہیں زیادہ برا گناہ کے بعد توبہ اور اس کي بھرپائي میں غفلت وکوتاہي کرنا یا سرزد ہونے والے گناہ و خطا کو چھوٹا سمجھ کر نظر انداز کرنا ہے کیونکہ انسان کي یہ غفلت اس کو ایک بڑے خسارے کي طرف دعوت دیتي ہے کہ جس کا تدارک ناممکن ہوتا ہے ۔ گناہ سے کہیں زیادہ گناہ گار وہ جو اپنے نفس کو دھوکا دے اور توبہ و استغفار میں سبقت کے بجائے سستي سے کام لے جیسا کہ امیرالمومنین ٴ بیان فرماتے ہیں:’’خدا کے نزدیک مطیع ترین شخص وہ ہے جو اپنے نفس کو نصیحت کرے اور گناہ گار ترین وہ ہے جو اپنے نفس کو دھوکا دے۔ واقعاً نفس کو فریب دینے والا خسارہ میں ہوگا۔‘‘(خطبہ ٨٦۔٣).

چونکہ گناہ کرنے والا ضمیر کي آواز کو نظرانداز کرکے نفس کي ہمراہي اختیار کرتا ہوا گناہ اور نافرماني سے ہمکنار ہوتا ہے، ندامت و پشیماني کے بجائے غفلت و کوتاہي اس کے وجود ناقص پر خیمہ زن نظر آتي ہے اور علي الظاہر وہ اپني خود مختار زندگي پر مطمئن و شاد نظر آتا ہے ليکن حقیقت امر یہ ہے کہ وہ اپنے اور اپنے نفس کے ساتھ دھوکہ کر رہا ہے۔ یقیناً نگاہ پروردگار میں بد ترین گناہ،گناہ کو سبک جاننا اور توبہ و استغفار سے اس کي بھرپائي کے بجائے اس کو نظرانداز کرکے مطمئن ہو جانا ہے۔ جیسا کہ امیرالمومنین ٴ فرماتے ہیں :’’بد ترین گناہ وہ گناہ ہے جسکو گناہ گار چھوٹا جانے۔‘‘ (حکمت ٤٧٧ ).

4. توبہ انساني کے مرا حل: توبہ انسان کے چار اہم مرحلے ہیں :

١۔ تہ دل سے ،سرزد ہونے والے اعمال پر نادم و پشیمان ہونا۔’’التوبہ ندم بالقلب‘‘

٢۔ دل کي پشیماني کو استغفار کي شکل میں زبان پر لانا اور خدا سے طلب استغفار کرنا۔’’واستغفار با للسان‘‘

٣۔ اس برائي اور گناہ کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ترک کر دینا۔ ’’و ترک بالجوارح‘‘

٤۔ گناہ کي طرف کبھي نہ پلٹنے کا تہ دل سے ارادہ کرنا ۔’’واضمار الايعود‘‘

١۔ گناہ گار وںپرخدا کي عنایت : خدا اپنے بندوں پر اس قدر مہربان و شفیق ہے کہ بندوں کي نافرماني اور گناہ کے باوجود بھي بندوں پر اپني مہرباني اور لطف کو کم نہیں کرتا بلکہ فیض و کرم کا دریا جاري رکھتا ہے اور زندگي کے آخري حصہ تک بندے کے توبہ کرنے اور پلٹنے کا منتظر رہتا ہے۔ یہاں پر گناہ کے باوجود گناہ گار بندوں پر خدا کي بعض عنایت خاص کا ذکر قابل توجہ ہے:

أ‌. توبہ کا دروازہ بند نہیں کرتا:

خدا وند عالم گناہ کے باوجود اپنے بندے کي امید کو منقطع نہیں کرتا بلکہ توبہ و استغفار کے راستے اسکي تطہیر کا دروازہ کھول رکھا ہے تاکہ بندہ اپنے نامہ اعمال کو دوبارہ گناہوں سے پاک کر سکے۔ خدا کے لا يحصي احسانات ميںسے اس کا ایک احسان یہ ہے کہ توبہ کا دروازہ ہمیشہ کے لیے بندوں پر کھول رکھا ہے۔ ( حکمت ٦٣٥ )

ب‌. گناہ کے بعد بھي توبہ کا دروازہ بند نہیں کرتا:

نہ جانے کتنے گناہ ایسے ہیں جو نزول رحمت و نعمت کا سلسلہ روک دیتے ہیں، انسان پر نعمت و رحمت کے دروازے بند ہو جاتے ہیں، انسان خوشگوار خوشبختي کي حالت سے نکل کر مصیبتوں اور بدبختي کي منزل میں آ جاتا ہے، انسان کے گناہ بڑھتے جاتے ہیں یہاں تک کہ خدا کي جانب سے نازل ہونے والي ساري نعمتوں کا سلسلہ رک جاتا ہے جہاں دور دور تک امید کي کوئي کرن نظر نہیں آتي، سارے راستوں اور تدبیروں کا سدباب ہو جاتا ہے۔ ایسي ناگوار کیفیت و حالت میں بھي باب توبہ کھلا رہتا ہے اور بندے کو امید کي روشني دیتا رہتا ہے۔ یہ تو خدا کي ایک خاص عنایت ہے کہ تمام دروازوں کے بند ہونے کے باوجود بھي توبہ کا دروازہ کھلا رہتا ہے۔جیسا کہ حضرت عليٴ فرماتے ہیں: ’’خدا کے احسانوں میں ایک احسان یہ ہے کہ ارتکاب گناہ کے باوجود بھي اس نے توبہ و استغفار کا دروازہ بند نہیں کیا۔‘‘ (نامہ٣١۔١٠)

ت‌. گناہ کے فوراً بعد عذاب نہیں کرتا:

خدا کے احسانات میں سے ایک یہ بھي ہے کہ گناہ کے فوراً بعد بندے کا نہ تو محاکمہ کرتا ہے اور نہ ہي عذاب میں مبتلا کرتا ہے بلکہ زندگي کے آخري حصہ تک توبہ و استغفار کي مہلت دیتا ہے اور بندے کے پلٹنے کا منتظر رہتا ہے ورنہ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ بندہ ادھر گناہ کا ارتکاب کرے ادھر فوراً اس کو اس کے گناہ کي سزا مل جائے مگر اپنے نفس پر رحمت کو مقدم کرنے والے خدا نے اپنے بندوں پر ایک اور احسان کرتے ہوئے عذاب میں تعجیل سے کام نہیں لیا :’’اس کا ایک احسان یہ بھي ہے کہ عذاب و سزا میں تعجیل سے کام نہیں لیتا۔‘‘ ( نامہ٣١۔١٠)

ث‌. توبہ کو عیب نہیں جانا:

خدا کا ایک یہ بھي خاص لطف رہا ہے کہ توبہ کو نہ صرف يہ کہ قبیح عمل نہیں جانا بلکہ ایک احسن عمل کا درجہ دیا ۔ جیسا کہ حضرت عليٴ فرماتے ہیں:’’توبہ کر کے لوٹ آنے کو عیب نہیں جانا۔‘ ‘( نامہ ٣١-١٠)

٥۔ بندوں کو رسوا نہیں کرتا:

ذرہ کو آفتاب اور عدم کو وجود میں بدلنے والا پروردگار اپنے بندوں کو کس قدر چاہتا ہے کہ نہ تو خود بندوں کو رسوا کرتا ہے اور نہ ہي کسي کو اجازت دیتا ہے کہ کوئي اس کے بندوں کو ذلیل اور رسوا کرے ۔اس کا یہ لطف صرف پاک دامن اور محسن صفت انسان ہي کے ساتھ نہیں بلکہ گناہ گار بندوں کے ساتھ بھي اس کا یہي شیوہ رہاہے لہٰذا اس نے بھي بندوں کو حکم نہیں دیا کہ اپنے گناہ لوگوںکو بتائے تاکہ اس کي آبرو لوگوں کے درمیان سے چلي جائے، سماج سے اپنا مقام و منزلت کھو دے اورنگاہ انسانیت میں اس کي حیثیت گرجائے۔ اگر وہ چاہتا تو گناہ کرنے والے کو دنیا میں رسوا وذلیل اور آخرت میں عذاب سے ہمکنار کرتا ليکن بندوں سے بے پناہ محبت کرنے والا کس قدر ستار العیوب ہے کہ اپني نافرماني کرنے والے کے عیوب کو بھي لوگوں پر فاش نہیں کرتا اور اگر بندہ گناہوں کي توبہ کر لے تو بندے کو یوں طاھر و پاک کر دیتا ہے جیسے اس نے کوئي گناہ کیا ہي نہ ہو۔

’’خدا کا ایک احسان یہ بھي رہا ہے کہ گناہ کے باوجود اس نے تم کو رسوا نہیں کیا‘‘۔(نامہ٣١۔١٠).

٦۔ توبہ کومشکل نہیں بنایا:

اپنے بندوں پر بے پناہ شفقت کرنے والے خدا نے جہاں توبہ کو بخشش گناہ کا ذریعہ قرار دیا وہیں توبہ کے لیے کوئي سنگین اور بھاري شرایط بھي بیان نہیں کیے کہ جن کي ادایگي بندوں پر سخت ہوتي اور بندہ گناہ کي معافي سے عاجز رہتا۔ خدا کي اس عنایت کو حضرت عليٴ ان جملوں میں بیان فرماتے ہیں:’’خدا کي ایک عنایت یہ بھي ہے کہ توبہ و استغفار کے لیے دشوار و سنگین شرایط نہیں رکھے‘‘۔(نامہ ٣١۔١٠)

٧۔ نا امید نہیں کرتا:

جہاں گناہوں کے سبب نزول نعمت و برکت کا سلسلہ رک جاتا ہے اور انسان نا امیدي کے اس مقام پر پہنچ جاتا ہے کہ جہاں سے کسي طرح کي کوئي امید نظر نہیں آتي اور زندگي کا مقدر ناکامي اور شکست بن جاتي ہے وہاں پر بھي خدا اپني رحمت سے بندے کو نا امید نہیں کرتابلکہ توبہ کا دروازہ کھول کر اس کي امید کو عروج بخشاہے۔ جیسا کہ حضرت عليٴ فرماتے ہیں:’’گناہ کے باوجود بھي اس نے تم کو نا امید نہیں کیا۔‘‘ (نامہ ٣١۔١٠).

٨۔ گناہ سے زیادہ سزا نہیں دیتا:

خدا کا بندوں پر ایک یہ بھي بڑا لطف رہا ہے کہ جہاں ایک نیکي اور ثواب کو دس نیکي کے برابر حساب کرتا ہے وہیں ایک گناہ کو ایک ہي جانتا ہے۔ یہ وہ حقیقت ہے کہ جسکا تذکرہ قرآن میں بھي بیان ہوا ہے گویا اس کي تفسیر حضرتٴ اس طرح فرماتے ہيں: ’’خدا ہر گناہ کو ایک اور نیکي کو دس برابر حساب کرتا ہے۔‘‘(نامہ٣١۔١٠).

٩۔ پکارنے والوں کي دعا سنتا ہے:

کہتے ہیں روئے زمین پر سب سے زیادہ محبت کرنے والے وجودکوروایت و تجربہ کي نگاہ میں ماں کہتے ہیں۔ ساري دنیا کي ناراضگي کے باوجود ماں اپنے بچے سے ناراض نہیں ہوتي اور اگر ناراض بھي ہوتي ہے تو سب سے آخر میں ناراض ہوتي ہے اور سب سے پہلے راضي ہوجاتي ہے۔ اس کي شفقت کي مثال کاینات میں نہیں ملتي لیکن خدا کي شفقت ماں کي شفقتوں سے بھي زیادہ ہے۔ روایت میں آیا ہے کہ شفقتوں کا ٩٩ در صدخدا کي شفقت کو شامل کرتا ہے یہي سبب ہے کہ گناہ گار سے گناہ گار شخص اگر خداکوایک بار پکار لیتا ہے تو اس کي آواز پر لبیک کہتا ہے اور اس کي دعاوں کو اجابت کے زیور سے آراستہ کرتا ہوا ناامیدي میں امید کي کرن چمکاتا ہے۔ اس حقیقت کي طرف حضرتٴ اس طرح اشارہ کرتے ہیں: ’’خدا پکارنے والوں کي آواز پر لبیک کہتا ہے۔‘‘ (نامہ ٣١۔١٠).

١٠۔ توبہ کا وقت محدود نہیں کیا:

خدا کا ایک لطف یہ بھي رہا ہے کہ اس نے توبہ کے لیے کسي خاص زمان و مکان کي کوئي قید نہیں لگائي اور نہ ہي کسي محدود وقت میں توبہ کا حکم دیا بلکہ زندگي کے آخري حصہ تک توبہ کي مھلت دي ہے۔ اگر انسان مرنے سے پہلے کسي وقت بھي توبہ کر لے تو وہ اس کي توبہ کو قبول کرتا ہے اور دوبارہ رحمتیں اس پر سایہ فگن ہو جاتي ہیں یعني توبہ کي قبوليت کے لیے یہ لازم نہیں ہے کہ گناہ کے فوراً بعد توبہ کي جائے تب ہي قبول ہے ورنہ نہیں بلکہ گناہ سرزد ہونے سے ليکرزندگي کے آ خري حصہ تک موت سے قبل کسي وقت بھي توبہ کي جا سکتي ہے ۔اس حقیقت کو حضرت ٴاس طرح بیان فرماتے ہیں:’’توبہ کا دروازہ خدا نے ہمیشہ کے لیے کھول رکھا ہے۔‘‘(نامہ٣١۔١٠)

مذکورہ بالا گفتگو کا مقصد اصلاً یہ نہیں ہے کہ گناہ کے فوراً بعد توبہ نہیں کرني چاہیے بلکہ مقصد یہ ہے کہ اگر غفلت و کوتاہي کے سبب توبہ سے قاصر رہا ہے تو مرنے سے قبل زندگي کے کسي بھي حصہ میں کبھي بھي توبہ کیاجا سکتا ہے ورنہ اس سے بہتر کیا ہے کہ کسي سبب انسان سے گناہ سرزد ہو جاے تو فوراً توبہ کر کے خود کو طاہر کر لے۔ دوسرے یہ کہ توبہ میں کسي خاص زمان و مکان کي قید نہیں ہوتي لیکن قبوليت کي تاثير میں زمان و مکان کا اپنا خاص نقش ہے – زمان کي مثال-ماہ رمضان،عرفہ کے روز-مکان کے اعتبارسے -مکہ، حرم ائمہٴ میں حضور پیدا کر کے دعا کرنے کي اپني خاص تا ثيرہے۔

٢ ۔ توبہ کرنے والے پر خدا کي عنایت:

نگاہ پروردگار میں توبہ کرنے والے کا ایک بلند مقام ہے۔ اگر توبہ اس کے شرایط و ضرابط کے ساتھ ہو تونہ صرف یہ کہ اس کے نامہ اعمال سے گناہ و معصیت کي سیاہي دور ہو جاتي ہے بلکہ یہي توبہ قرب ِالٰہي اور محبوبیت پروردگار کا باعث بن جاتي ہے اور دیگر بندوں کے مقابل تو اب بندوں پر خدا کي کچھ خاص عنایت شریک حال ہوتي ہے :

١۔ توبہ کرنے والے پر خدا کي خاص رحمت :

’’خدا کي رحمت اس شخص پر ہے جو توبہ کرے اور موت سے پہلے اپنے گناہوں کي معافي طلب کرے اور اپنے امور کي اصلاح کرے۔‘‘(خطبہ ١٤٣۔٥)

٢۔ توبہ کے بعد گناہوں کا محاکمہ نہیں کرتا:

بندہ کتنا ہي گناہگار ہو لیکن اگر بارگاہ خداوندي میں ایک بار بھي تہ دل سے توبہ کر لیتا ہے تو خدا ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اس کے گناہ کو اس کے نامہ اعمال سے پاک کر دیتا ہے اور اس گناہ پر بندے کا محاسبہ بھي نہیںکرتا۔ اس حقیقت کو حضرت ٴکے کلام سے اس طرح دیکھا جا سکتا ہے:’’توبہ کے بعد گناہوں کا محاکمہ نہیں کرتا۔‘‘(نامہ ٣١۔١٠)

٣۔ توبہ ، نگاہ خدا میں عیب نہیں:

خدا وند عالم اپنے بندوں پر اس قدر مہربان و شفیق ہے کہ توبہ کو جہاں گناہوں سے طہارت کا ذریعہ جانا وہیں اس عمل میں کسي قسم کي کوئي قباحت بھي نہ رکھي بلکہ ایک احسن اور اچھے عمل کا درجہ قرار دیا لہٰذا توبہ کرنے والے کا صرف گناہ ہي معاف نہیں ہوتا بلکہ پروردگار کي نگاہ میں محبوب بھي ہو جاتا ہے جس کا روشن نمونہ قرآن میں موجود ہے۔’’ان اللہ يحب التوابین‘‘خدا توبہ کرنے والے کو محبوب رکھتا ہے اس حقیقت کوامیرلمومنینٴ اس طرح ارشاد فرماتے ہیں:’’اور توبہ کو اس نے تمہارے لئے عیب نہیں جانا۔‘‘( نامہ ٣١۔١٠)

٤۔ توبہ کو نیکي کا درجہ ديا:

توبہ ایک ایسا احسن عمل ہے کہ جس کو پروردگار عالم نے نیکي کا درجہ دیا ہے، یہیں سے اس کي اہمیت اور بلندي کا اندازہ کیا جا سکتا ہے ۔اس حقیقت کو حضرت عليٴ اس طرح بیان کرتے نظر آتے ہیں:’’توبہ نگاہ خدا میں ایک پسندیدہ عمل ہے‘‘ ۔(نامہ ٣٠۔١٠)

٥۔ توبہ کے بعد عذاب نہیں کرتا:

خدا وند عالم کا اپنے بندوں پر ایک یہ بھي بڑا لطف ہے کہ گناہگار بندوں کے لیے توبہ استغفار کا دروازہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے کھول رکھا ہے اور توبہ کرنے والے کي توبہ کو قبول کرنے کي ضمانت بھي لي ہے اور توبہ کے بعدنہ اس گناہ کا محاکمہ کرتا ہے اور نہ ہي اس پر عذاب کرتا ہے۔ ’’توبہ کے بعد بندوں کو گناہوں کي سزا نہیں دیتا‘‘ ۔(نامہ ٣١۔١٠)

٣۔ایک گناہ گار کاوظیفہ:

اگر انسان سے کسي سبب گناہ ہو جائے تو اس گناہ گار شخص کي کیا ذمہ داریاں بنتي ہیں، اس کي خوبصورت تصویر حضرت عليٴ کے کلام میں دیکھي جا سکتي ہے۔ البتہ ان ذمہ داریوں کو حضرت کے کلام کے مختلف حصوں سے اقتباس کر کے نمبر وایز پيش کرنے کي کوشش کي گي ہے۔

١۔ اعتراف گناہ:

اگر انسان سے کوئي خطا یا گناہ سرزد ہوجائے تو بزرگي نفس کا تقاضا ہے کہ اپنے پروردگار کي بارگاہ میں اس کا اعتراف کرے اور اس کي توبہ بارگاہ کردگار سے طلب کرے۔ البتہ اعترافِ گناہ و معصیت اپنے پروردگار کي بارگاہ میں ہوني چاہیے نہ کہ لوگوں کے سامنے چوںکہ بارگاہ خدا میں معصیت ایک قسم کي جسارت ہے۔ ہاں اگر گناہ کا تعلق صرف حقوق الناس سے ہے جیسے کسي نے کسي کي غیبت کي تو اس صورت میں خدا کے حکم کي نافرماني کے ساتھ ساتھ بندے کي دل آزاري ہے لہٰذا خدا سے معافي طلب کرے اور جس کي غیبت کي ہے اس سے بھي معافي طلب کرے۔ گویا اس کا بھي حق ضایع ہوا ہے لہٰذا گر اس تک رسائي ممکن ہو تو خود اس شخص سے اعتراف کے ساتھ معافي طلب کرے مثلاً اگر اس سے بنفس نفیس معذت کرے اور اگر اس سے معافي مانگنا ممکن نہ ہو جيسے وہ دنیا سے گزر گیا ہو تو اس کے حق میں دعائے خیر کرے انشائ اللہ خدا اس کي خطاوں کو معاف کر دیگا لہٰذا اگر انسان سے کبھي بھي کسي طرح کاکوئي بھي گناہ ہو جائے تو بغیر کسي تاخیر و شرم کے بارگاہ خدا میں توبہ کے ساتھ اعتراف کرے۔ حضرت عليٴ گناہ پر اعتراف کو بندگان خدا کي ایک صفت سے تعبیر کرتے ہيں:’’اگر ان سے گناہ ہو جاتا ہے تو وہ اس کا (بارگاہ خدا میں) اعتراف کرتے ہیں۔‘ ‘( خطبہ ٨٣۔٢١)

٢۔ دل کا راز خدا سے کہیں:

خدا وند عالم بہترین محسن و شفیق ہے لہٰذا انسان کو چاہیے کہ اپنے دل کے راز کو ادھر ادھرکہنے کے بجائے اپنے پروردگار سے بیان کرے ۔یقیناً وہ خالق کے ساتھ ساتھ رب اور مسبب الاسباب بھي ہے اگر اس کي عنایت ہو تو مسدود راہ کھل جاتي ہیں،بھٹکا ہوا راہ پاتا ہے اورنا امیدي میں امید کي کرن پھوٹتي نظر آتي ہے ۔وہ ان باتوں سے بھي واقف ہے جو انسان کي زبان پر جاري ہوتي ہیں اور ان رازوں سے بھي آشنا ہے جو انسان کے نہاں خانوں میں پوشیدہ ہیں ممکن ہے انسان اس سے غافل ہو جائے لیکن وہ اپنے بندوں سے غافل نہیں ہوتا نہ ہي اپنے فیض کا دریا کسي کے اوپر بند کرتا ہے۔ خدا انسان کے اس گناہ سے بھي واقف ہے جو غفلت و تنہائي میں انجام پاتے ہیں جس کا علم کسي کو نہیں لہٰذا ایک عاقل اور دانا انسان کي ذمہ داري بنتي ہے کہ اپنے پروردگار کي جانب رجوع کرے اور اپنے دل کے راز اس سے بيان کرے۔ یقینا وہ دلوں کامداواکرنے والا،مشکلات سے نجات دلانے والا غفورور رحیم پروردگار ہے ۔ جیسا کہ حضرت عليٴ فرماتے ہیں:’ ’اس نے تم پر توبہ اور واپسي کے راستے کھول رکھے ہیں جب بھي تم اس کو پکارتے ہو وہ تمہاري آواز سنتا ہے تم اس سے دل کا راز کہتے ہو وہ اس کو جانتا ہے پس اپني حاجت اور ضرورت کو اس سے بیان کرو اور جو کچھ بھي دل میں ہے اس کے سامنے رکھ دو اپني پریشانیاں خدا سے بیان کرو تاکہ وہ تمہاري پریشانیوں کو دور کرے اور مشکلات میں تمہاري مدد کر سکے۔‘‘(نامہ٣١۔٦٨)

٣۔ لذتِ معصیت سے دسبردار ہونا:

ایک خطا کار انسان پر یہ بھي لازم ہے کہ بارگاہ پروردگار میں اعتراف اور دعائے استغفار کے ساتھ ساتھ اپنے آپ کو گناہ و معصیت سے دور بھي کرے ورنہ اس کا یہ عمل استغفار اس کو کوئي فایدہ پہنچانے والا نہیں ہے اوریہ توبہ ایک قسم کا نفس کے ساتھ دھوکا ہوگا جیسا کہ حضرت عليٴ فرماتے ہیں: ’’اگر گناہ گار توبہ کرے اور گناہ سے دستبردار ہو جاے تو خدا سلب شدہ نعمتوں کو پلٹا دینے والا ہے۔‘‘(خطبہ١٤٣۔٢١)

٤۔ ہمیشہ کے لیے نافرماني کا سدباب کرے:

ایک گناہ گار کا وظیفہ یہ بھي ہے کہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے نافرماني اور گناہ کا سدباب کرے اور دوبارہ برگشت کے ارادہ اور امکان کو ختم کر دے ۔یہ اسي صورت میں ممکن ہے جب توبہ کے بعد نفس کي تربیت کا برابر خیال رکھا جاے۔ بقول ائمہ طاہرینٴ انسان کو اپنے نفس کا ہر روز محاسبہ کرنا چاہیے۔لہٰذا بہتر ندامت یہ ہے کہ نافرماني کا تکرار نہ ہو جیسا کہ حضرت عليٴ فرماتے ہیں:’’نافرماني کا ہمیشہ کے لیے سدباب کرے۔‘‘(خطبہ١٤٣۔٢)

٥۔ کمال اخلاص کے ساتھ خدا سے دعا کرے:

گناہ گار کي ذمہ داریوں میں ایک یہ بھي ہے کہ اگر گناہ سرزد ہو جائے تو خلوص نیت اور صدق قلبي سے بارگاہ پروردگار میں باکمال تضرع و گریہ، طلب مغفرت کرے۔ جیسا کہ حضرت ٴفرماتے ہیں:’’اگر بلا نازل ہونے لگے اور نعمتیں سلب ہونے لگیں توپاک نیت اور خلوص کے ساتھ بارگاہ خدا میں گریہ و زاري کے ساتھ دعا کرے‘‘۔(خطبہ ١٧٨۔٧)

٦۔ خدا کي محبت پر تکیہ کرے:

یقینا یہ نکتہ ہمیشہ ہمارے ذہن میں ہونا چاہیے کہ خدا وند عالم دنیا کي ہر شے سے زیادہ اپنے بندوں سے محبت کرنے والا ہے اور اس کي محبت کا فیض ہمیشہ بندو ں پر جاري ہے ۔اب اگر کسي سبب نافرماني د امن گیر ہو جائے تو اس کي محبت پر تکیہ کرتے ہوے فوراً بارگاہ خدامیں طلب مغفرت کرے اسي کو کمال بندگي کہتے ہیں۔ اس حقیقت کو اميرالمومنین ٴ اس طرح فرماتے ہیں:’’(اگر گناہ و معصیت کے سبب)بلائيں نازل ہونے لگیں اور نعمتیں سلب ہو نے لگيں تو فوراً بارگاہ خدا میں ’’صدق نیت‘‘ اور خدا کي محبت پر تکیہ کرتے ہوئے بارگاہ کردگار سے طلب مغفرت کرے ۔جو کچھ بھي گناہوں کے سبب چھن چکا ہے تم کو حاصل ہو جاے گا۔‘‘(خطبہ١٧٨۔٨)

٤۔ توبہ کرنے والے کا وظیفہ:

کمال انساني کے لیے گناہ کے بعد صرف توبہ کر لینا کافي نہیں ہے بلکہ چند نکات کي نگراني بہر کیف اس پر لازم ہے جن میں سے بعض کا تعلق توبہ کي بھرپائي سے ہے تو بعض کا تعلق تہذیب نفس سے ہے تاکہ نفس دوبارہ کسي قسم کے گناہوں کے دلدل میں نہ اتر جاے۔

١۔ امور کي اصلاح:توبہ کے بعد انسان کي سب سے پہلي ذمہ داري اپنے امور کي اصلاح کرناہے کہ جس کے بعد توبہ انسان کے لیے سرمایہ نجات اور دوسروں کے لیے مشعل حیات بن کر سامنے آتي ہے۔ اس حقیقت کو امیرالمومنینٴ کے کلام میں مختلف تعبیروں میں دیکھا جا سکتا ہے۔ آپٴ فرماتے ہیں:’’اپنے مسایل کي اصلاح کرو کیونکہ توبہ تمہارے ہمراہ ہے‘‘ ۔(خطبہ ١٦۔١٠)

یا اس طرح فرماتے ہیں :’’خدا اس شخص پر رحمت نازل کرتا ہے جو توبہ کا استقبال کرے،خطا کي معافي چاہے اوراپنے امور کي اصلاح کرے‘‘۔(خطبہ ١٤٣۔٥)

٢۔ بچي ہوي زندگي کا صحیح مصرف: توبہ کے بعد ضروري ہے کہ باقي ماندہ حیات کو غنیمت جانے اور ان ایام کا صحيح اور بروقت استعمال کرے ۔جیسا کہ حضرتٴ فرماتے نظر آتے ہیں:’’باقي ماندہ ایام زندگي کاصحيح مصرف کرو… کیونکہ باقي ماندہ زندگي غفلت اور خدا سے دوري والے ایام سے کم ہے‘‘۔( خطبہ ٨٦۔٩ )

٣۔ معصیت کے مقابلہ صبر :گناہ کرنے کے بعد نفس کو گناہ و معصیت کا ذایقہ مل جاتا ہے اور زندگي میں بارہا انسان کو مختلف وسیلے سے اس کو اپني طرف کھینچتا ہے کہ جس کے نتیجہ میں انسان بعض اوقات دوبارہ لغزشوں کا شکار ہو جاتا ہے لہذاانسان کو چاہئے کہ اس گناہ و معصيت کے مقابلہ صبر سے کام لے اور نفس پرکنٹرول بنائے رکھے۔ جیسا کہ حضرتٴ فرماتے ہیں:’’گناہ ومعصيت کے برابر صبرسے کا م لو ۔‘‘(خطبہ ٨٦۔٩)

٤۔ اپنے آپ کو زیادہ آزادي نہ دے:توبہ کرنے والے کي ایک ذمہ داري یہ بھي ہے کہ وہ خود کو حد سے زیادہ آزادي نہ دے۔ یہاں پر خود سے مراد نفس انساني ہے کیونکہ اگر نفس کو آزاد چھوڑ دیا جاے تو وہ انسان کو پست ترین مقام تک کھینچ لے جاتا ہے جہاں سے واپسي دوبارہ مشکل نظر آتي ہے۔ البتہ یہ و ظیفہ صرف توبہ کرنے والے کا نہیں ہے بلکہ ہر انسان کے لئے ضروري ہے کہ زندگي کے کسي بھي حصہ میں نفس کو مطلق العنان نہ ہونے دے۔ جیسا کہ حضرتٴ فرماتے ہیں : ’’خود کو حد سے زیادہ آزادي نہ دو ورنہ یہ آزادي تم کو ظلم و تجاوز کي جانب لے جائے گي۔‘‘ (خطبہ ٨٦۔٩)

٥۔ نفس کے ساتھ سستي نہ کرو:نفس کي لگام کو ہمیشہ تھامے رکھنا چاہئے کیونکہ تھوڑي سي غفلت بھي انسان کو بد تر نتیجہ تک پہنچا سکتي ہے۔ علمائ اخلاق نفس کي شباہت وحشي جانور سے دیتے ہیں۔ وحشي جانور کي چاہے کتني بھي تربیت کي جائے پر وہ انسانوں کے درمیان خوشگواري محسوس نہیں کرتے لہٰذا چند منٹ کي بھي غفلت ہو جاے تو نفس اپنا کام کر جاتا ہے۔ جیسا کہ حضرتٴ فرماتے ہیں:’’نفس کے ساتھ سستي سے کام نہ لو ورنہ ناگہاں گناہوں کے مرتکب ہو سکتے ہو‘‘۔(خطبہ٨٦۔٩)

٦۔ نفس کو وعظ و نصیحت کرتا رہے: توبہ کے بعد نفس کو گناہ سے دور رکھنے کے لئے ضروري ہے کہ وعظ و نصیحت کے آب سے غفلت و کوتاہي کي گرد صاف کرتا رہے ورنہ کبھي کبھي چھوٹي سي غفلت ایک بڑے جرم کا مقدمہ بن کر صفحہ وجود پر نمایاں ہوسکتي ہے۔جیسا کہ حضرتٴ فرماتے ہیں:’’اور وہ نصیحت ووعظ کو قبول کرتے ہیں‘‘۔(خطبہ ١٤٣۔٢)

٥۔ توابین کے اوصاف

١۔ ہدایت کي نشانیاں ہیں:

توابین کو حضرت ٴہدایت کا منارہ و نشاني بیان کرتے ہیں ۔شاید اس کا راز یہ ہے کہ جب دوسرے گناہگار ان کي زندگي کو دیکھتے ہیں تو ان پر رشک کرتے ہو ئے خود میں عفو و بخشش کي امید پیدا کر لیتے ہیں اور ان کي تاسي میں راہ توبہ پر گامزن ہو جاتے ہیں ۔ جیسا کہ حضرتٴ فرماتے ہیں:’’وہ ہدایت کي نشانیاں ہیں‘‘ ۔(خطبہ ٢٢٢۔١٢)

٢۔ اندھیروں کے چراغ ہیں:

توابین کو کبھي اندھیرے اور تاریکي کا چراغ بتایا ہے۔ شاید اس کي وجہ یہ ہو کہ جیسے جیسے انسان گناہ کا مرتکب ہوتا جاتا ہے نا امیدي اس پر اندھیرااور تاریکي بن کر چھاتي چلي جاتي ہے اور انسان راہ اور منزل دونوں کو ہي گم کر بیٹھتا ہے پس یہ گناہوں کي سیاہي اس کے مقدر کي تاریکي بن کر سامنے آتي ہے لہٰذا ایسے میں توابین کي زندگي اور ان کا شیو ہ عمل ایک عام اور گناہ گار انسان کے لیے چراغ کا درجہ رکھتا ہے جو انتخاب راہ و منزل میں معاون بنتا ہے جیسا کہ حضرتٴ فرماتے ہیں:’’توابین تاریکي اور اندھیرے کا چراغ ہيں۔‘‘( خطبہ ٢٢٢۔١٣)

٣۔ فرشتوں کے حلقے میں رہتے ہیں:

توبہ کرکے واپسي کرنے والے کا درجہ نگاہ رب العزت میں بہت بلند ہے لہٰذا توابین پر خدا کا ایک احسان یہ بھي ہے کہ فرشتوں کي ایک جماعت ہمیشہ ان کو اپنے حلقے ميں رکھتي ہے۔ جیسا کہ حضرتٴ فرماتے ہیں:’’فرشتے ان پر نازل ہوتے ہیں‘‘۔(خطبہ٢٢٢۔١٣)

٤۔ توابین پر خدا کي جانب سے سکون و اطمنان کي بارش ہوتي ہے:

جیسا کہ حضرت عليٴ فرماتے ہیں: ’ان پر سکون و اطمینان خیمہ زن رہتا ہے‘‘۔(خطبہ٢٢٢۔١٣)

٥۔ توبہ کرنے والے پر رحمت کا دروازہ کھلا ہوتا ہے:

توابین پر خدا کا ايک یہ بھي لطف رہا ہے کہ ان پر رحمت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں ۔جیسا کہ حضرت عليٴ فرماتے ہیں:’’اور ان پر آسمان کے دروازے کھلتے ہیں۔‘‘ (خطبہ ٢٢٢۔١٣)

٦۔ تو ابین کا خدا کے نزدیک بلند مقام ہے:

نگاہِ پروردگار میں توابین کا ایک خاص مقام ہے کہ جہاں پر وہ رحمت خدا وندي سے بہرہ مند ہوں گے:’’ان کے لیے ایک بلند مقام ہے جہاں وہ رحمت پروردگار کا مشاہدہ کریں گے۔‘ ‘(خطبہ ٢٢٢۔١٤)

٧۔ توابین کي کوشش مشکور ہے:

توبہ کرنے والا گویا توبہ کے ذریعہ قرب الٰہي حاصل کرنا چاہتا ہے لہٰذا اس راہ پرپیش آنے والے مشکلات کا سامنا کرتے ہو ئے خدا تک پہنچتاہے یا گناہ کے ذریعہ خدا اور اس کے درمیان ہو جانے والے فاصلے کو کم کرنے کي کوشش کرتا ہے تو اپنے بندوں پر شفیق پروردگار بندے کي سعي کو ضایع نہیں کرتا بلکہ مقبولیت کا درجہ دیتا ہے۔’’خدا ان کي کوششوں کو قبول کرتا ہے۔‘‘(خطبہ ٢٢٢۔١٤)

٨۔ توابین کے حق میں فرشتے دعا کرتے ہيں:

توبہ کرنے والا کرامت کي اس بلندي پر پہنچ جاتا ہے کہ معصوم فرشتے بھي اس کے حق میں دعا کرتے ہیں اور بارگاہ خدا وندي میں اس کي مغفرت طلب کرتے ہیں۔‘‘(خطبہ٢٢٢۔١٤)

٩۔ اپني ضرورتيں خدا سے چاہتے ہيں:

توابین کي ایک یہ بھي برجستہ صفت ہے کہ نہ تو وہ کسي سے دل کا راز کہتے ہیں اور نہ ہي اپني جبین ِنیاز کو کسي کے در پر خم کرتے ہیں۔ اپنے راز و نیاز خدا سے کرتے ہیں اور اپني ضرورتیں بھي خدا سے چاہتے ہیں اور’’الفقر فخري‘‘ کا روشن مصداق بن جاتے ہیں۔ اس حقیقت کو حضرت عليٴ اس طرح ترسیم کرتے ہیں:’’اپني امید کو خدا کے دروازئہ امید سے منسلک کرتے ہیں اور اس کے سامنے دست سوال دراز کرتے ہیں جو مانگنے والوں کو نا امید نہیں کرتا۔‘‘ (خطبہ ٢٢٢۔١٥)

١۔ توبہ کے شرایط:

توبہ کے یہ وہ شرایط ہیں کہ جن کو خود حضرت عليٴ نے حسب مراتب ایک ہي مقام پر بیان فرمایا ہے ۔کسي نے آپٴ کے حضور ميں کہا’’استغفراللہ‘‘جس پر حضرت ٴنے فرمایاکہ تیري ماں تیرے ماتم میں بیٹھے۔ آیا جانتا ہے کہ استغفار کیا ہے ؟استغفار کا ایک بلند درجہ ہے جسکے چھ شرایط ہیں:

١۔ندامت

توبہ کي پہلي شرط ہے گزشتہ اعمال پرتہ دل سے پشیماني کي جا ئے ۔’’اولھا الندم علي مامضي‘‘ پہلي شرط گزشتہ پر پشیمان ہوناہے۔‘‘ (حکمت٤١٧)

٢۔ گناہ کي جانب بازگشت نہ کرنا

توبہ کي دوسري اساسي شرط یہ ہے کہ توبہ کے بعد دوبارہ گناہ کا رخ نہ کرے:’’والثاني العزم علي ترک العود الیہ ابداً‘‘ ’’وسري شرط گناہ کي طرف دوبارہ کبھي بھي نہ پلٹے۔‘‘(حکمت ٤١٧)

٣۔ ادائیگي حقوق

توبہ کي تیسري اساسي شرط لوگوں کے حقوق کي ادایگي کرناہے ۔’’لوگوں کے حقوق کو ادا کر دو تاکہ جب خدا سے ملاقات کرو تو تمہاري گردن پر کوئي قرض نہ رہے۔‘‘ (حکمت٤١٧)

٤۔ واجبات کي ادائیگي

قضا ہونے والے واجبات کي ادایگي کي جا ئے۔’’قضا ہو جانے والے فرایض کو ادا کرو۔‘‘ (حکمت ٤١٧)

٥۔ حرام کا ازالہ کرے

حرام کے ذریعہ جو گوشت اضافہ ہو گیا ہے اس کو کم کیا جائے ۔’’وہ گوشت جو حرام طریقے سے بدن پر اضافہ ہو گیا ہے یاد خدا میں گریہ کے ذریعہ اس کو پگھلا دیا جائے یہاں تک کہ چمڑا ہڈي سے مل جاے اور نیا گوشت چڑھ جائے۔‘‘ (حکمت ٤١٧)

٦۔ جسم کو اطاعت و بندگي کا ذایقہ عطا کریں

جسم کو اطاعت خدا میں مشغول کریں کہ جسم اطاعت کي راہ میں ہونے والي مصیبت کو تحمل کرے، جس طرح توبہ سے قبل معصیت کا ذایقہ چکھ رہاتھااورجب یہ شرایط ممکن ہو جائيں تب انسان کو چاہیے کہ بارگاہ خداوندي میں کہے ’’استغفراللہ‘‘۔ (حکمت٤١٧)

٢۔ موانع توبہ

توبہ کے بہ شمار فوائد ہونے اور درِ توبہ ہمیشہ کے لئے کھلا ہونے کے باوجود بھي نہ جانے کتنے ایسے لوگ ہيںجو خدا کے فیض سے بہرمند نہیں ہوتے اور گناہ کے مرتکب ہونے کے باوجود بھي توبہ کي ضرورت محسوس نہیں کرتے ۔کلام امیرالمومنینٴ میں اس لاپرواہي کے چند علل بیان ہوئے ہیں:

١۔ بڑي بڑي آرزوں کو دل میں جگہ دینا:

دنیا میں بہت سے ایسے لوگ ہیں جو آرزوں کے گرد اب میں پھنس کر رہ جاتے ہیں اور توبہ کي فرصت ان کے ہاتھوں سے چلي جاتي ہے۔ جیسا کہ حضرت عليٴ فرماتے ہیں:’’و یر جيّ التوبتہ بطولِ الامل ‘‘’’ان لوگوں میں نہ ہو جاو جو بڑي بڑي آرزوں کي وجہ سے توبہ کو پس پشت ڈال دیتے ہیں۔‘‘(حکمت١٥٠)

یقینا طول امل یعني بڑي اور طولاني آرزو نگاہ خدا وندي میں ایک نا پسند دیدہ عمل ہے جس کي معارف اسلامي میں شدت سے مذمت کي گئي ہے حضرت عليٴ نہج البلاغہ میں طول امل کو آخرت فراموشي کاذریعہ جانتے ہیں۔ پس اگر کوئي آخرت کو بھلا دے تو گناہ سے پرہیز اور اس پر توبہ کا تصور ہي نہیں پایا جاتا۔

٢۔ لذت گناہ:

توبہ نہ کرنے کا دوسرا راز گناہ کي لذت ہے جو قلب انسان میں سر اٹھائے ہوتي ہے جیسا کہ حضرت عليٴ فرماتے ہیں:’’دو عمل کے درمیان کتنا فاصلہ ہے : ایک وہ کام جس کي لذت ختم ہو گئي پر اس کا بد اثر باقي ہے اور دوسرا وہ کام جسکي مشقت ختم ہو گئي پر جزا باقي ہے۔‘‘ (حکمت١٢١ )

پھر فرماتے ہیں:’’اطاعت الٰہي اور انجام واجبات انسان کے لئے سخت ہیںلیکن گناہ انسان کے لئے آسان اور مرغوب ہے ۔خدا وند اس شخص پر مہربان ہے جو نفس کي پیروي سے گریز کرے اورہوائے نفساني کو خود میں جگہ نہ دے‘‘۔(خطبہ١٧٦)

٣۔ گناہوں کي بدي سے لا علمي

نہ جانے کتنے ہي لوگ ایسے ہیں جو گناہ کي بدي اور اس کي عاقبت سے نا واقف ہونے کي وجہ سے گناہ کے مرتکب ہو جاتے ہیں لیکن اگر ان کو اس کي عاقبت اور بدحالي کا علم ہوتا تو شاید کبھي بھي وہ انجام نہ ديتے ۔کبھي کبھي عاقبت اور بدحالي کے علم کے باوجود بھي گناہ انجام دیتے ہیں اور اس کي وجہ بھي یہي ہے کہ عاقبت اور اس کي بدحالي کو صحيح معني میں احساس اور درک نہیں کر پاتے ہیں۔یہي چیز عصمت کے بعد معصومین سے گناہ سرزد نہ ہونے کي دلیل ہے چونکہ معصوم کو گناہ کي عاقبت اور بدحالي کا مکمل علم ہوتا ہے لہٰذا گناہ کیا اس کا تصور بھي نہیں پایا جاتا۔

٤۔ گناہ کو معمولي اور چھوٹا جاننا

جو بھي عمل خدا کي نافرماني میں انجام پائے اس میں چھوٹا بڑا نہیں ہے بلکہ ذرہ برابر نافرماني بھي بہت بڑا جرم ہے ليکن اس سے بھي بڑا گناہ،گناہ کو چھوٹا جاننا ہے اور نظرانداز کرنا ہے۔’’شدید ترین گناہ یہ ہے کہ گناہ کرنے والا اس کو چھوٹا جانے‘‘ ۔(حکمت٣٤٨)

٥۔ رحمت خدا سے نا امیدي

توبہ نہ کرنے کي ایک وجہ یہ بھي ہے کہ انسان کبھي کبھي یہ تصور کر لیتا ہے کہ اب واپسي اور بازگشت کا راستہ باقي نہیں ہے اور نہ ہي اصلاح ممکن ہے جبکہ بھول جاتا ہے کہ خدا کي رحمت سب سے بڑي ہے اور اس سے نا امیدي خود ایک گناہ ہے ،خدا ہر آن اپنے بندوں پر مہربان ہے۔ وہ تو بندے کو معاف کرنے کا ایک بہانہ تلاشتا ہے ادھر بندے نے ارادہ کیا ادھر رحمت پروردگار جوش میں آئي اور پھر انسان کتنا ہي گناہگار کیوں نہ ہو یوں پاک ہو جاتا ہے جیسے اس سے کبھي گناہ ہوئے ہي نہ ہوں۔’’جس کو دعا عطا کي گئي ہے وہ اجابت سے محروم نہیں ہو سکتا ،جس کو توبہ کي توفیق دي گئي ہے وہ قبولي توبہ سے محروم نہیں ہو سکتا اورجس کو استغفار کي فرصت دي گئي ہے وہ مغفرت سے محروم نہیں ہو سکتا۔‘‘(حکمت١٣٥)

آیا ممکن ہے کہ خدا توبہ کي قبولي کا وعدہ کرے اور لوگوں کي توبہ قبول نہ کرے؟!!…

کبھي اس طرح فرماتے ہیں:’’ایسا نہیں ہے کہ خدا توبہ کا دروازہ بندے پر کھولے اور مغفرت کا دروازہ اس پر بند کر دے۔‘‘(حکمت٣٣٥)

کبھي ایسے لوگوں پر افسوس ظاہر کرتے ہوئے یوں فرماتے ہیں:’’عجبت لمن يقنط و معہ الاستغفار‘‘’’تعجب ہے اس شخص پر جو استغفار کے باوجود نا امید ہو۔‘‘(حکمت٧٨)

٦۔غرور و تکبر

ارتکابِ گناہ کا ایک سبب یہ بھي ہے کہ انسان زندگي کي آسائش اور دنیاوي نعمتوں میں اس قدر غرق ہو جاتا ہے کہ اس کو کسي برے بھلے کي تمیز باقي نہیں رہتي۔وہ زندگي کي رو میں بہتا چلا جاتا ہے لیکن اگر نگاہوں سے غفلت کي گرد چھٹ جائے اور عاقبت پر نظر ڈالے تو نہ صرف ارتکاب گناہ سے پرہیز کریگا بلکہ ما سبق پر تہ دل سے توبہ بھي کریگا۔جیسا کہ مولاٴ فرماتے ہیں:’’اے انسان! کس چیز نے تجھ کو گناہ کرنے کي جرآت دي ہے؟ کس چیز نے تجھ کو خدا کے مقابل مغرور بنا دیا ہے؟کس چیز نے تجھ کو تیري بربادي پر آمادہ کر دیا؟‘‘(٢٢٣۔١)

٧۔ گناہ کي توجیہ کرنا

بعض لوگ گناہ کے بعد اس پر نادم اور پشیمان ہونے کے بجائے اس کي توجیہ کر کے خود کو اپنے اور لوگوں کے نزدیک بَري اور منزہ ثابت کرنے کي کوشش کرتے ہیں۔در حقیقت ان کا یہ کام ایک طرح کي خیانت ہے جو نفس کے ساتھ کي جا رہي ہے۔ جیسا کہ حضرتٴ فرماتے ہیں: ’’گناہ گار کا گناہ کي صفائي اور اس کي توجیہ پیش کرنا نا درست ہے کیونکہ اس کي توجیہ بے اساس اور اس کي خوش حالي جہالت کي دلیل ہے۔‘‘ (خطبہ٢٢٣۔١ )

١۔ توبہ کي مھلت :

آیا توبہ کي قبولي کے لیے کسي محدود وقت یا زمان کي شرط ہے ؟یعني اگر گناہ کے فوراً بعد توبہ کي جائے تو قابل قبول ہے ورنہ نہیں ؟یا گناہ کے چند روز کے درمیان اگر توبہ کي جائے تو قابل قبول ہے ؟یا زندگي کے کسي بھي حصہ میں توبہ کي جائے تو قابل قبول ہے؟

اس میں کوئي شک نہیںکہ اگر انسان سے کسي طرح کي کوئي بھي خطا سرزد ہو جاے تو کمال اخلاص کے ساتھ بارگاہ خداوندي میں توبہ کي جائے تو اس سے اچھا کچھ نہیں لیکن اگر کسي سبب توبہ میں کوتاہي ہو گئي ہوتو جب بھي غفلت کے ابر آفاق ِاحساس سے چھٹے توبہ کر لے یہاں تک کہ زندگي کے آخري حصہ میں بھي اگر احساس جاگ جائے تو توبہ کے ذریعہ گناہوں کا ازالہ کرے اور دنیا سے مرحوم ومغفور اٹھے ۔اس حقیقت کو حضرت ٴکے کلام میںمختلف تعبیروں میں مشاہدہ کیا جا سکتا ہے:

١۔ ساٹھ سال تک توبہ قبول ہو سکتي ہے :’’العمرالذي اعذراللہ فيہ الٰي ابن آدم ستون سنتہ‘‘ ’’خدا فرزند آدم کي توبہ ساٹھ سال کي عمر تک قبول کرتا ہے۔‘‘(حکمت ٣٢٦)

مذکورہ بالا روایت میں ستون سنتہ سے مراد عمر کا آخري حصہ ہے یعني اگر فرزند آدم عمر کے آخري حصہ میں بھي توبہ کرے تو خدا اس کي توبہ قبول کرتا ہے کیونکہ دوسري روایتیں اس تفسیر پر دلالت کرتي ہیں۔

٢۔ توبہ موت سے قبل

اس سے پہلے کہ موت انسان کو اپنے پنجے میں جکڑ لے اور انسان اپنے ارادہ و اختیار کو کھو بیٹھے اور اپنے سیاہ اعمال کے ساتھ بارگاہ خدا میں حاضر ہوتو بہ کرکے خود کو پاک کر لے۔ جیسا کہ حضرت ٴفرماتے ہیں:’’قیامت تمہارے سامنے اور موت تمہارے پیچھے چلي آ رہي ہے ۔اس سے قبل کہ اس سے ملاقات کرو خود کو پاک کرو۔‘‘(خطبہ ٢١)

٣۔ توبہ میں سبقت

انسان کے لیے بہتریہي ہے کہ توبہ میں جلدي کرے اگر چہ قبولي توبہ کي مھلت زندگي کے آخري حصہ تک ہے لیکن یہ کس کو معلوم ہے کہ کون ساحصہ زندگي کا آخري حصہ ہے لہٰذا گناہ کے فوراًبعد توبہ کر لے ۔ممکن ہے یہي حصہ زندگي کا آخري حصہ ہو کہ اگر اس ميں غفلت ہو گئي تو شاید بعد میں توفیق نہ مل سکے۔ اس حقیقت کو آپٴ اس طرح فرماتے ہیں:’’ممکن ہے ناگہاني موت تم کو اپنے پنجے میں جکڑ لے، تمہاري آواز کو خاموش کر دے ، تم عدم کي وادي میں بکھر جاو،تمہاري نشانیاں نابود ہو جائيں اور گھر و يران ہو جائيں…۔‘‘(توبہ کر لو) (خطبہ ٢٣٠۔٢)

٤۔ توبہ کبھي بھي کي جا سکتي ہے

توبہ زندگي کے کسي بھي حصہ میں کي جا سکتي ہے کیونکہ توبہ کا دروازہ کھولنے والے کا ایک یہ بھي لطف رہا ہے کہ اس نے توبہ کا دروازہ کبھي بھي اپنے بندوں پر بند نہیں کیا کیونکہ وہ یہ کبھي نہیں چاہیگا کہ اس کا بندہ دنیا سے معصیت کار اٹھے:’’ولا یفتح لعبد باب التوبہ و تعلق عنہ باب المغفرہ‘‘آیا اس نے توبہ کا دروازہ کھول نہیں رکھا ہے کہ اجابت کا دروازہ بند کر دے گایعني اگر توبہ کا دروازہ کھولا ہے تو اجابت کي ضمانت بھي اس قادر مطلق پروردگار نے لي ہے ۔وہ تو منتظر ہے کہ کب میرا بندہ مجھ کو پکارے اور میں اس کي آواز پر لبیک کہوں۔

٥۔ توبہ، اختتام حیات سے پہلے

اس سے پہلے کہ آثار موت و مرگ انسان پر نمایاں ہوں بہتر ہے کہ انسان اپني خطاوں پر توبہ کرلے جیسا کہ حضرت عليٴ فرماتے ہیں:’’افلاتایب من خصیتہ قبل منیتہ‘‘آیا کوئي ہے جو موت کے پہنچنے سے پہلے اپنے گناہوں کي توبہ کرے؟‘‘ (خطبہ ٢٨۔٢)

٢۔ مغفرت طلبي اور بخشش گناہ کي راہیں

مذکورہ تمام شرائط کے ساتھ زبان پر استغفار یعني استغفر اللہ کا کلمہ جاري کرے۔ بارگاہ خداوندي میں گناہوں کي توبہ کرنے کے علاوہ اور دوسري راہ و روش بھي حضرت عليٴ کے کلام میں دیکھي جا سکتي ہے:

الف۔مغفرت طلبي کي راہیں:

گناہوں کي مغفرت طلبي کے سلسلہ میںنہج البلاغہ میں چند روش بیان ہوئي ہیں کہ جن کے ذریعہ انسان اپنے گناہوں کي توبہ کر سکتا ہے:

١۔ استغفار کا ورد کرکے گناہوں کي سیاہي کو محو کرے ۔ حضرت عليٴ عثمان بن حنیف کي جانب لکھے نامہ میں فرماتے ہیں:’’خوشاقسمت وہ لوگ ہیں جو راتوں کو بستروں سے فاصلہ اختیار کرتے ہیں اور ان کے لب ذکر پروردگار میں مصروف ہوتے ہیں اور گناہ کثرت و شدتِ استغفار سے معاف ہو جاتے ہیں ۔(نامہ٤٥)یعني تمام شرائط کے ساتھ استغفرا للہ کہنے سے خدا وند عالم بندے کا گناہ معاف کر دیتا ہے۔

٢۔ نماز کے ذریعہ مغفرت طلب کرنا۔ یعني اگر انسان سے کوئي خطا یا گناہ سرزد ہو جاے تو فوراً دو رکعت نماز پڑھے اور اس کے بعد پروردگار سے توبہ کي درخواست کرے انشا ئ اللہ خدا اس کي توبہ کو قبول کریگا ۔یہ وہي روش ہے جسکا ذکر قرآن میں بھي آيا ہے : ’’واستعینوا با الصبر و الصلاۃ‘‘ نماز اور صبر کے ذریعہ خدا سے مدد مانگو۔‘‘ توبہ بھي ایک قسم کي مدد ہے جس کو بندہ بارگاہ خدا وندي سے طلب کرتا ہے۔ اس روش کو حضرت عليٴ اس طرح بیان فرماتے ہیں:’’مجھے وہ گناہ غمگین نہیں کرتا جس کے بعد دو رکعت نماز پڑھنے کي مہلت ملے اور اپنے پروردگار سے آفیت طلب کرو‘‘ ۔(حکمت٢٩٩)

مذکورہ بالا جملہ میں حضرت عليٴ کا نصب العین لوگوں کیلئے روش توبہ کوبيان کرنا ہے نہ کہ یہ بتانا چاہتے ہیں کہ میں گناہ کے بعد نماز کے ذریعہ اپنے پروردگار سے طلب مغفرت کرتا ہوں کیونکہ آپ کے حضور میں گناہ کیا، تصور گناہ بھي امکان نہیں رکھتا۔ یہ تو آپ کي بزرگي ہے کہ روش کو اپنے آپ پر منطبق کر کے بیان فرماتے ہيں۔

ب۔ بخشش گناہ کي راہیں :کچھ اعمال و سکنات ایسے ہیں کہ ا گر انسان ان کو انجام دے تو ثواب و حسنات میں اضافہ کے ساتھ ساتھ گناہوں کي بخشش کاذریعہ بھي ہیں:

١۔ نماز کي پابندي: نماز ایک ایسا احسن عمل ہے جس کي قبولیت پر تمام اعمال کي قبولیت موقوف ہے۔يہ ثواب میں اضافہ کے ساتھ ساتھ گناہوں سے روکتي بھي ہے اور گناہوں کو صفحہ نامہ اعمال سے پاک بھي کرتي ہے۔ اس حقیقت کا ذکر قرآن میں بھي آیا ہے’’انّ الصلاۃ تنھي عن الفحشائ۔۔.‘ ‘ نماز بدکاري اور گناہ سے روکتي ہے۔‘‘

حضرت عليٴ اس حقیقت کو یوں بیان کرتے ہیں:’’نماز کا خیال رکھو اور اس کي پابندي کرو، کثرت سے پڑھو اور اس کے ذریعہ خدا کا تقرب حاصل کرو۔ بیشک نماز گناہوں کو انسان سے یوں دور کر دیتي ہے جیسے پت جھڑ کي فصل درخت سے پتوں کو جدا کر دیتي ہے اور انسان کو گناہوں کي زنجیر سے آزاد کرا دیتي ہے ۔‘‘(خطبہ ٩)

خدا وند عالم ترک گناہ اور اس سے دستبرداري کونيکي و حسنہ سے تعبیر کرتا ہے اور ہر حسنہ کا ثواب دس برابر ہے۔ جیسا کہ حضرت عليٴ فرماتے ہیں:’’خدا نے گناہ سے دوري اختیار کرنے کو حسنات میں جانا ہے۔‘‘(نامہ ٣١)

٣۔ نیکیاں گناہوں کو کھا جاتیں ہیں:نیکیاں انسان کے گناہوں کو یوں کھا جاتي ہیں جیسے آگ لکڑي کو کھا جاتي ہے۔ یقینا کتني نیکیاں ایسي ہیں جو انسان کے گناہوں کي بخشش کا سامان بن جاتیں ہیں۔ جیسا کہ حضرت عليٴ فرماتے ہیں:’’پریشان حال کي مدد کرنا اور نیاز مندوں کي حاجت روائي کتنے ہي گناہ کبیرہ کا کفارہ ہے ۔‘‘(حکمت٢٤)

٤۔ صدقہ، گناہوں کا کفارہ ہے: صدقہ جہاں رد بلا کرتا ہے وہیں نہ جانے کتنے گناہوں کا کفارہ بھي بنتاہے البتہ وہ صدقہ جو صدق نیت اورتقرب الٰہي کے حصول کے لئے دیا جائے نہ کہ شہرت اور اسٹیٹس کو بنانے کے لئے ۔لہٰذا حضرتٴ صدقہ میں پوشیدگي کي شرط بیان کرتے ہیںکیونکہ جس کي نیت رضائے الٰہي اور خوشنودي پروردگار پر ہوتي ہے وہ اپنے ہر عمل پر خدا کو ناظر جانتا ہے اور اسي سے عمل کي جزاچاہتا ہے ۔جیسا کہ حضرتٴ فرماتے ہیں :’’صدقہ السرفانھا تکفر الخطےئۃ‘‘’’مخفیانہ صدقہ گناہ کا کفارہ ہے‘‘۔(خطبہ ١١٠)

٥۔ بیماري، گناہوں کا کفارہ ہے: چونکہ بیماري کے ہمراہ درد و مشکلات ہوتیں ہیں کہ جن کا تحمل واقعاً بہت سخت ہوتا ہے اور اس کے لئے ایک خاص صبر و حوصلے کي ضرورت ہوتي ہے لہٰذا خدا اس صبر و تحمل کو ریزش گناہ کا ذریعہ قرار دیتا ہے۔ حضرتٴ اس شخص کے جواب میں فرماتے ہیں جو اپني بیماري کي شکایت آپ سے کرتا ہے : ’’تم جو نالہ و فریاد کرتے ہو اس کو گناہ کي ریزش کا ذریعہ قرار دیا گياہے ۔بیماري میں کوئي اجر نہیں ہے بس گناہوں کو محو کر دیتي ہے جیسے پت جھڑ کي فصل درخت سے پتوں کو جدا کر دیتي ہے ۔‘‘(حکمت ٤٢)

٣۔ توبہ میں تاخیر

الف۔ توبہ میں تاخیر جائز ہے؟

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا گناہ کي مغفرت کے لئے ضروري ہے کہ فوراً توبہ کي جائے؟اور اگر توبہ میںتاخیر کي جائے تو باب توبہ بند کر دیا جایگا؟یقینا قبولي توبہ میں فوریت کي شرط نہیں ہے بلکہ زندگي کے کسي بھي حصہ میں توبہ کي جا ئے حتي زندگي کے آخري حصہ میں بھي توبہ کي جائے تو قابل قبول ہے کیونکہ باب توبہ موت کے پہنچنے سے پہلے تک کھلا ہے جیسا کہ حضرت ٴفرماتے ہیں : ’’افلا تائب من خطیتہ قبل منیتہ‘‘’’آیا کوئي ہے جو موت سے قبل توبہ کرلے۔‘‘(خطبہ ٢٨)

لیکن باب توبہ کا ہمیشہ کھلا رہنا اس بات کي دلیل نہیں ہے کہ توبہ میں تاخیر کرنا جائز ہے کیونکہ کس کوپتہ ہے کہ کون سي گھڑي اس کي زندگي کي آخري گھڑي ہے ۔ممکن ہے آج کل کرتا رہے اور اچانک موت گلے سے لگ جائے لہٰذا عقل و فہم کا سمجھوتا یہي ہے کہ اگر کسي بھي سبب نافرماني پروردگار ہو جائے تو فوراً بلا فاصلہ توبہ کر کے خود کو پاک کرے اور عذاب و بلائے الٰہي سے خود کو محفوظ کرے۔کیونکہ اگر معارف اسلامي میں آخري وقت تک کي فرصت دي گئي ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ تاخیر ضروري ہے بلکہ ممکن ہے عمداً توبہ میں تاخیر اور غفلت کرنے والے کا عذاب اور زیادہ ہو جائے اور آخري وقت توبہ کي فرصت و توفیق سے محروم رہ جائے تاخیر کا عذر اس صورت میں قابل قبول ہے جب انسان اس وظیفہ سے غافل تھا لہٰذا ایسے شخص پر ضروري ہے کہ جیسے ہي غفلت کي گرد ذہن سے چھٹے فرصت کو غنیمت جانتے ہوئے بارگاہ خدا وندي میں توبہ کرے۔ جیسا کہ حضرت عليٴ فرماتے ہیں:’’عمل کرو! خدا تم پر رحم کرے۔ نیک عمل انجام دو کیونکہ ابھي بھي راہ کھلي ہے جو تم کو دار امن و امان کي جانب دعوت دے رہي ہے ۔ابھي بھي تم جس دنیا میں رہ رہے ہو خدا کي خوشنودي حاصل کر سکتے ہو۔ فرصت کو غنیمت جانو کہ ابھي بھي نامہ اعمال کھلا ہے اور فرشتوں کے قلم جاري ہیں ۔بدن ميں توان ،زبان میں یاراے سخن باقي ہے ،توبہ پر سماعت جاري اور اعمال صالح کي پذیرش ہے۔‘‘(خطبہ٩٤۔٨ )

ایک دوسرے مقام پر یوں فرماتے ہیں:’’اے بندگان خدا! ابھي بھي اعمال صالحہ کا موقع ہے ابھي موت کا پھندہ تنگ نہیں ہوا ہے،ابھي بھي روح کسب کمال کے لئے آزاد اور بدن آمادہ ہے، ابھي بھي جس حالت میں ہو ایک دوسرے کي مشکل کو حل کر سکتے ہو ،ابھي بھي فیصلے کا موقع اور اختیار ہے ،ابھي بھي توبہ کا دروازہ کھلا ہے اورابھي بھي گناہ سے پلٹنا ممکن ہے ۔توبہ کرو اس سے قبل کہ راہ نفس تنگ ہو جاے، موت تم تک پہنچ جائے اور تم خدا کي پکڑ میں آ جاؤ۔‘‘(خطبہ٨٣۔٦٠)

ب۔ توبہ میں تاخیر کے اسباب :

کلام امیرالمومنین ٴمیں توبہ میں تاخیر کے سلسلہ میں چند وجوہات بیان ہوئي ہیں:

١۔ طويل آرزوں کا دل میں ہونا: جب انسان بڑي بڑي آرزوں کو دل میں جگہ دیتا ہے تو ان آرزوں کا طوفان اس کے ذہن سے آخرت کا خیال اور خوف خدا جیسي نعمت کو دور کرديتا ہے نتیجہ میں انسان آخرت کو بھلا کر چند روزہ زندگي کے ایام میں مست ہو جاتا ہے اور توبہ کو آج کل پر موقوف کرتا جاتا ہے یہاں تک کہ موت سے گلے لگ جاتا ہے۔ جیسا کہ حضرت عليٴ فرماتے ہیں:’’ان لوگوں میں مت ہو جاؤ جو بغیر عمل کے آخرت کي امید رکھتے ہیں اور طولاني اور بڑي آرزوں کے سبب توبہ میں تاخیر کرتے ہیں ۔‘‘(حکمت١٥٠)

٢۔ شیطان کا فریب تاخیر کا باعث بنتا ہے: شیطان جو انسان کا کھلا ہوا دشمن ہے اور جس نے بني آدم کو گمراہ کرنے کي قسم کھائي ہے ،مختلف روش و راستوں سے انسان کو حق سے دور کرنے کي کوشش کرتا رہتا ہے۔ کبھي ارتکاب گناہ پر آمادہ کرنے کے لئے معصیت کو خوبصورت بنا کر پیش کرتا ہے اورکبھي اپنے حربوں کے ذریعہ انسان کو توبہ سے دور کر دیتا ہے۔ جیسا کہ حضرت عليٴ فرماتے ہیں:’’شیطان جو انسان کي گمراہي کے در پے ہے، گناہ کو خوبصورت بنا کر پیش کرتا ہے تاکہ انسان گناہ کا مرتکب ہو اور بے جاامید کے ذریعہ توبہ میں تاخیر کرواتا ہے‘‘ ۔(خطبہ ٦٤)

٣۔ گناہ کو معمولي جاننا: کوئي بھي گناہ نہ تو چھوٹا ہوتا ہے اور نہ ہي بڑا بلکہ ہر وہ عمل جو نافرماني پروردگار کا باعث بنے انسان کے لئے بڑا جرم ہے ، چاہے دیکھنے میں عمل کتنا ہي چھوٹا ہو لہٰذا کبھي بھي کسي گناہ کو معمولي نہ جانے۔ اگر کبھي بھي کسي بھي سبب گناہ سرزد ہو جائے تو توبہ کے ذریعہ اس کا ازالہ کر لیا جائے، خدا غفور رحیم ہے یقینا معاف کر دیگا لیکن اگر گناہ کو معمولي جانتے ہوئے توبہ کي ضرورت محسوس نہ کي جائے تو انسان کا یہ جرم اس گناہ سے کہیں شدید اور پر عذاب ہے جیسا کہ حضرتٴ فرماتے ہیں:’’بدترین گناہ يہ ہے کہ گناہ کرنے والا اس کو معمولي جانے۔‘‘ (حکمت٣٤٨)

٤۔ کچھ گناہ بغیر توبہ کے قابل بخشش نہیں :گناہ چاہے چھوٹا ہو یا بڑا ، چاہے حقوق اللہ کي منزل میں ہو یا حقوق الناس کي منزل میں ؛ہر صورت میں گناہوں کا ارتکاب،واجبات کا ترک کرنا نافرماني پروردگار ہے اور خدا اور اس کي رحمت سے دوري کا باعث ہے لہٰذا پہلي ہي فرصت میں ہر چھوٹے بڑے گناہ سے توبہ کرکے نامہ اعمال کو پاک و پاکیزہ کر لینا چاہئے لیکن کچھ ایسے گناہ بھي ہیں جن کي توبہ واجب اور ضروري ہے یعني کچھ ایسے گناہ ہیں جنکا کفارہ اعمال صالح بن جاتے ہیں کہ اگر توبہ بھي نہ کي جائے تو اس کي نیکي اس گناہ کي تطہیر کر دیتي ہے لیکن کچھ گناہ ایسے ہیں جن پر توبہ لازم ہے لہٰذا اگر بغیر توبہ کے انسان خدا کي بارگاہ میںحاضر ہو اب چاہے جتنے ہي اعمال انجام ديئے ہو ںاس کو فائدہ پہنچانے والے نہیں ہیں جیسا کہ حضرتٴ فرماتے ہیں:’’خداوند عالم نے کچھ واجبات کو قرآن میں بيان کياہے کہ بندہ کي جزا اور سزا اسي کے مطابق ہو گي اورخدا کي خشنودي اور نارضایتي اسي پر منحصر ہے وہ یہ ہے کہ اگر انسان دنیا سے اس حالت میں اٹھے اور اپنے پروردگار سے ملاقات کرے کہ کوئي ایک ناپسند صفت اس میں ہو اور اس نے اس پر توبہ نہ کي ہو اب چاہے عمل میں جتني ہي زحمتیں برداشت کي ہوں،عمل کو خالص بنایا ہو پر کوئي فائدہ نہ ہوگا۔وہ ناپسند دیدہ صفات یہ ہیں:

١۔ خدا کا شریک قرار دینا : ’’ان عبادت میں خدا کا شریک قرار دینا جسکو خدا نے بندوں پر واجب کیا ہے۔‘‘

٢۔ قتل :’’او يشفي غیظہ بھلاک نفس‘‘ ’’یا کسي کو قتل کرکے اپنا غصہ ٹھنڈا کرے۔‘‘

٣۔عیب جوئي کرنا: ’’او لعر با مر فعلہ غیرہ‘‘ ’’لوگوں کي عیب جوئي کرنا۔‘‘

٤۔ دین میں بدعت ایجاد کرنا: ’’لوگوں کے ذریعہ اپني ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے دین میں بدعت قائم کرنا۔‘‘

٥۔ منافقت کرنا:’’او یلقي الناس بوجھین‘‘’’لوگوں سے دورخي کے ساتھ ملنا۔‘‘

٦۔ سخن چیني کرنا: ’’او یمشي فیھم بلسانین‘‘’’لوگوں کے درمیان چغل خوري کرنا۔‘‘ (خطبہ ٥٣۔٩)

١۔ گناہ کے اثرات :

جس طرح انسان کي نیکیاں آخرت میں ثواب اور دنیا میں خیر و برکت اور دیگر اوصاف کي شکل میں ظاہر ہوتي ہیں اسي طرح انسان کا گناہ جہاں ایک طرف انسان کے نامہ اعمال کو داغدار بنانا ہے وہیں دوسري طرف دنیا میں بھي چند شکلوں میں رونماں ہوتا ہے اور انسان کو اس کے کيے کا احساس دلاتا ہے ۔کبھي انسان احساس کي اس آواز کو سن کر لبیک کہتا ہے تو کبھي خواب غفلت میں ہونے کي وجہ سے ہدایت ضمیر اور احساس کي آواز کو نظر انداز کرکے اپني بدحالي اور ناکامي کي مختلف توجیہ میں مصروف ہوتا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اس کے حالات اس کے گناہوں کا نتیجہ بن کر صفحہ وجود پر نمودار ہو تے ہیں ۔گناہوں کے ان آثار کو امیرالمومنینٴ کے کلام میں یوں دیکھا جا سکتا ہے:

١۔ گناہ، سلب آسایش اور زوال قوم کا باعث ہے: گناہ انساني کا ایک دنیاوي اثر یہ بھي ہے کہ انسان اور نعمت پروردگار کے درمیان میں رکاوٹ بن جاتا ہے نتیجہ میں انسان اپنے پروردگار کي نعمت سے محروم ہو جاتا ہے۔ جیسا کہ آپٴ فرماتے ہیں:’’کسي بھي قوم سے نعمت نہیں چھیني جاتي مگر اس کے گناہ کي وجہ سے‘ ‘۔(خطبہ ١٧٨۔٦)

٢۔ گناہ ،خیر و برکات کو روک دیتا ہے:گناہ کا ایک نقصان یہ بھي ہے کہ وہ خیر و برکات کو انسان سے دور کر دیتا ہے نتیجہ میں زندگي بے رونقي اور نا امیدي کا محور بن کر رہ جاتي ہے مگر یہ کہ صدق دل سے بارگاہ خداوندي میں توبہ کرے اور اس کے امور کي اصلاح ہو جائے۔ جیسا کہ آپٴ فرماتے ہیں:’’خدا گناہ گاروں کي رزق کي کمي اور خیر و برکات کا دروازہ بند کرکے آزمائش کرتا ہے تاکہ بندہ توبہ کرے اور وہ سب دوبارہ جاصل کرے۔‘‘(خطبہ ١٤٣۔٣)

٣۔ گناہ، اموال میں کمي کا باعث ہے: گناہ انسان کے مال میں کمي کے ساتھ ساتھ اس سے خیر و برکات کو اٹھا لیتا ہے:’’خداگناہ کرنے والے بندوں کے مال میں کمي کر دیتا ہے۔‘‘(خطبہ ١٤٣۔٣)

٤۔ گناہ، انسان کي بربادي کا پیش خیمہ ہے:گناہ کا ایک اثر یہ بھي ہے کہ وہ انسان کو صفحہ ہستي سے نیست و نابود کر دیتا ہے۔ تاریخ کے دامن میں نہ جانے ایسي کتني قوموں کے واقعات ہیں جو پہلے نعمت و آسائش میں غرق تھیں لیکن ان کے گناہوں نے صرف نعمتوں کے چھیننے پر ہي اکتفا نہیں کي بلکہ ان کے وجود کو صفحہ ہستي سے مٹا کر رکھ دیا ۔ قرآن مجید میں بھي ایسي بہت سي قوموں کا تذکرہ ہے جن میں قوم عادو ثمود کا نام سر فہرست ہے جو اپنے گناہوں کے نتیجہ میں فنا ہو کر رہ گئیں لہٰذا گناہ گاروں کو متوجہ کرتے ہوے حضرتٴ فرماتے ہیں:’’خود کو حد سے زیادہ آزادي نہ دو کہ نفس تم کو بربریت کي طرف کھینچ لے جائے اور نفس کے ساتھ سستي سے کام نہ لو کہ ناگہاں گناہ تم کو برباد کر دے۔‘‘(خطبہ ٨٦۔٩)

٥۔ گناہوں سے نعمتیں سلب ہوتي ہیں:نہ جانے کتني نعمتیں ہیں جو ایک زمانے تک انسان میں پائي جاتي ہیں اور پھر گناہوں کے سبب وہ نعمت اس سے چھن جاتي ہے لیکن اگر صدق و صفا ے دل سے بارگاہ خدا میں توبہ کرے تو نہ صرف یہ کہ وہ نعمت اس کو دوبارہ حاصل ہو جاتي ہے بلکہ اس میں اضافہ بھي ہو جاتا ہے اوروہ مزید خیر و برکات سے روبرو ہوتا ہے۔ اس حقیقت کو حضرت ٴ یوں بیان فرماتے ہیں:’’اگر نزول بلا کي گھڑي اور سلب ِنعمت کے وقت انسان بارگاہ پروردگار میں صدق نیت کے ساتھ توبہ کر لے تو بلائيں رد ہو جاتیں ہیں اور نعمتیں پلٹ آتیں ہیں ۔‘‘(خطبہ ١٧٨۔٧)

اس حقیقت کو حضرتٴ اس طرح بیان فرماتے ہیں:’’خدايا!ا میرے ان گناہوں کو معاف کر جو نعمت کے دروازے کو مجھ پر بند کر دیتے ہیں۔‘‘( دعاے کميل)

٦۔ گناہوں سے بلائیں نازل ہوتي ہیں:گناہ کا ایک بدترین نقصان یہ ہے کہ بلاؤں کو دعوت دیتا ہے۔ کبھي یہ بلا زمیني بلا کي مشکل میں ظاہر ہوتي ہے جیسے زلزلہ ،سیلاب ،زمین کا شق ہو جانا اور کبھي آسماني بلا کي شکل میں ظاہر ہوتي ہے جیسے اڑا لے جانے والي تیز آندھي،آگ کي بارش،پتھروں کي بارش جیسا کہ بعض گزشتہ قوموں کے ساتھ عذاب الٰہي کي يہ شکل ظاہر ہوئي اور قوم کو گناہ کے نتیجہ میں صفحہ وجود سے نابود کر دیا جس کا تذکرہ قرآن مجید میں تفصیل سے پایا جاتا ہے۔ قوم عادو و ثمود کي بربادي کا باعث بھي عذابي شکل میں نازل ہونے والي بلا تھي لیکن اگر انسان توبہ کر لے تو بلاؤں کو رد کر دیا جاتا ہے۔ اس حقیقت کو حضرتٴ اس طرح بیان فرماتے ہیں: ’’بلا کے نزول کے وقت اگر انسان صدق نیت کے ساتھ بارگاہ خدا میں توبہ کر لے تو بلائيں رد ہو جاتیں ہیں۔‘‘(خطبہ ١٧٨۔٧ )

اس حقیقت کا ذکر دعاے کمیل میں بھي اس تعبیر کے ساتھ آیا ہے:’’خدا میرے گناہوں کو بخش دے جو نزول بلا کا باعث بنتے ہیں۔‘‘

٧۔ گناہ باعث عذاب الھي ہے: اگر گناہ کے ہمراہ توبہ نہ ہو تو انسان کا عمل انسان کے لئے عذاب بن کر سامنے آ جائے یا دوسري تعبیر میں توبہ انساني ہے جو انسان اور عذاب الٰہي کے درمیان امن وامان کي دیوار بن کر انسان کو اپنے دامنِ امان میں سمیٹ لیتي ہے۔ جیسا کہ حضرت عليٴ فرماتے ہیں:’’زمین پر دو چیز عذاب الٰہي سے امان کا باعث ہے جس میں سے ایک اٹھا لي گي ہے پس دوسري نعمت کا دامن تھام لو …،زمین پر باقي نعمت استغفار ہے‘‘۔(حکمت٨٨)

اس حقیقت کو دعاے کمیل میں حضرتٴ یوں بیان فرماتے ہیں:’’اللھم اغفرلي الذنوب التي تنزل النقم۔‘‘’’خدا يا! میرے ان گناہوں کو معاف فرما جو نزول عذاب کا باعث ہیں۔‘‘

٨۔ گناہ ،اخلاق رزیلہ کو جنم دیتا ہے: اگر انسان گناہ و نافرماني کا سدباب نہ کرے تو اس کا یہ گناہ نہ جانے کتني خباثتوں کو جنم دیتا ہے اور اخلاقي اعتبار سے انسان کو پست تر بنا دیتا ہے نتیجہ میں برائي انسان کے وجود میں سر اٹھانے لگتي ہے ۔جیسا کہ حضرتٴ فرماتے ہیں:’’لالچ،تکبر،حسد و بغض،اور غفلت و لاپرواہي گناہوں کا ثمرہ ہے۔‘‘(حکمت ٣٧١)

٩۔ گناہ دامن عفت کو داغدار بنا دیتا ہے: گناہ انسان کے صاف و شفاف دامن عصمت کو گندہ اور داغدار بنا دیتا ہے کہ جس کي سیاہي اس کے تقدیر کا اندھیرا بن جاتي ہے ’’ خدايا! میرے ان گناہوں کو بخش دے جو میرے دامن عصمت کو داغدار بناتے ہیں۔‘ ‘(دعائے کمیل )

١٠۔ گناہ قبولي دعا میں مانع بنتا ہے: گناہ دعا اور اس کي قبولي کے درمیان پردہ بن کر حائل ہو جاتا ہے مگر یہ کہ انسان توبہ کے ذریعہ اس رکاوٹ کو بر طرف کرے:’’خدايا! میرے ان گناہوں کو بخش دے جو قبولي دعا میں مانع بنتے ہیں۔‘‘(دعائے کمیل )

٢۔ توبہ کے اثرات:

فوائد توبہ کے باب میں حضرت امیرالمومنین ٴ کے کلام میں متعدد تعبیریں بیان ہوئیں ہیں جنکو مرتب کرکے آثار توبہ کے عنوان سے پیش کیا جا رہا ہے:

١۔ توبہ، عذاب الٰہي سے امان کي باعث ہے:اگر توبہ نہ ہوتي تو انسان کے گناہ عذاب الٰہي بن کر انسان کو تباہ و برباد کر چکے ہوتے لیکن توبہ کے بعد گناہ نامہ اعمال سے یوں صاف کر دیا جاتا ہے گویا اس سے کوئي گناہ ہوا ہي نہ ہو ۔’’دنیا میں صرف دو لوگوں کے لئے بھلائي ہے :ایک اس گناہ گار کے لئے جو توبہ سے اپنے گناہ کا جبران کرے، دوسرے اس شخص کے لیے جو خیر میں سبقت لے جائے۔‘‘(حکمت ٩٤)

اس حقیقت کو ایک دوسري تعبیر میں اس طرح دیکھا جا سکتا ہے:’’زمین پر دو چیزيں عذاب الٰہي سے امان کا ذریعہ تھیں جن میں سے ایک کو اٹھا لیا گیا پس بچي ہوي دوسري سے متمسک ہو جاؤ۔ اٹھائي جانے والي نعمت ذات پیغمبراسلام۰ ہے اور ابھي بھي جو نعمت زمین پر باقي ہے وہ ہے توبہ و استغفار ۔‘‘(حکمت ٨٨)

٢۔ توبہ، بہترین شفیع ہے: حضرت عليٴ توبہ کو انسان کے لئے بہترین شفیع جانتے ہیںجو انسان کي عاقبت کو خیر میں تبدیل کرتي ہے :’’توبہ انسان کے لئے بہترین شفيع ہے۔‘‘(حکمت٣٧١)

٣۔ توبہ نفع بخش ہے:توبہ انسان کا ایک ایسا سرمایہ ہے کہ جس کے ذریعہ انسان دنیا میںعزت و نعمت سے مالا مال ہوتا ہے تو آخرت میں نجات و کامراني سے روبرو ہوتا ہے۔’’اے لوگو! عمل کرو کیونکہ عمل انسان کو بلندي دیتا ہے،توبہ فائدہ پہنچاتي ہے اوردعائیں مستجاب ہوتي ہیں۔‘‘(خطبہ٢٣٠۔٢ )

اعمال صالح کسي ایک خاص عمل کا نام نہیں ہے بلکہ اعمال حسنہ سے لے کر توبہ اور دعا بھي اس میں شامل ہوتے ہیں۔

٤۔ توبہ ذریعہ اصلاح: انسان اپنے آپ میں تبدیلي اور اپنے امور کي اصلاح توبہ کے ہي ذریعہ کر سکتا ہے یعني توبہ ہي ہے جو انسان کونيک بختي عطاکرتي ہے۔ جیسا کہ حضرتٴ اس طرح فرماتے نظر آتے ہیں:’’اپنے امور و مسائل کي اصلاح کرو کیونکہ توبہ کا دروازہ کھلا ہے۔‘‘ (خطبہ١٦۔١٠)

٥۔ توبہ وسعت رزق کا باعث ہے: توبہ گناہ کي بخشش کے ساتھ ساتھ روزي میں وسعت اور برکت کا ذریعہ بھي بن جاتي ہے اور انسان کي زندگي کو پہلے سے بھي بہتر بنا دیتي ہے۔ جیسا کہ حضرتٴ فرماتے ہیں:’’خدا وند کریم نے توبہ کو نزول رزق کا ذریعہ قرار دیا ہے۔‘‘ (خطبہ١٤٣۔٤)

٦۔ توبہ نزول رحمت کا ذریعہ :توبہ کے باب ِفوائد میں ایک فائدہ یہ بھي ملتا ہے کہ توبہ کے ذریعہ رحمت پروردگار کا دروازہ بندے پر کھل جاتا ہے:’’توبہ کو خدا وند عالم نے افزائش رزق اور نزول رحمت کا ذریعہ بنایا ہے۔‘‘(خطبہ ١٤٣۔٤)

٧۔ توبہ سلب شدہ نعمت کو پلٹا دیتي ہے:گناہ جہاں ایک طرف دامن عصمت انساني کو داغدار بنا دیتا ہے وہیں دوسري جانب نعمتوں کو بھي سلب کر دیتا ہے لہٰذا اگر انسان صدق نیت سے بارگاہ پروردگار میں اپنے کيئے کي توبہ چاہے تو خدا وند معافي کے ساتھ ساتھ کھوئي ہوئي نعمت بھي پلٹا دیتا ہے۔اگر انسان صدق نیت اور خدا کي محبت پر تکیہ کرتا ہوا بارگاہ خدا میں توبہ کرے تو کھوئي ہوئي نعمت واپس مل جاتي ہے۔

٨۔ توبہ بگڑے کام بناتي ہے:توبہ ایک ایسا عمل ہے کہ جس کے ذریعہ خود بخود انسان کے عمل کي اصلاح ہو جاتي ہے اور بگڑے کام بن جاتے ہیں۔ اگر صدق دل سے بارگاہ خدا وندي میں توبہ کي جائے تو خدا وند اس کے امور کي اصلاح کر دیتا ہے۔(خطبہ١٧٨۔٨)

٩۔ توبہ کرنے والے پر خدا کا خاص لطف: خدا کے نزدیک توابین بندوں کي عظمت کو مولا کے اس جملے سے با آساني سمجھا جا سکتا ہے۔’’خدا وند اس بندہ پر بہت زیادہ مہربان ہے جو توبہ و استغفار کرتا ہے خطاؤں کي معافي چاہتا ہے اور اپنے امور کي اصلاح کرتا ہے۔‘‘ (خطبہ١٤٣۔٥)

نتيجہ

١۔ گناہ کرکے توبہ کرنے سے کہيں آسان اوربہتر، تربيتِ نفس کے ذريعہ گناہ سے پرہيز کرناہے۔

٢۔ اگرانسان سے کسي سبب گناہ سرزد ہوجاے تو سمجھداري کا تقاضاہے کہ فوراً توبہ کر کے گناہوں کي تطہير کرلے۔

٣۔ توبہ کي قبوليت ميں فوريت کي شرط تو نہيں ہے لیکن جان بوجھ کر تاخیر کرنا جائز بھي نہیں ہے بلکہ جان بوجھ کر تاخیر کرنا سزامیں اضافہ کا باعث بھي ہو سکتا ہے۔

٤۔ توبہ کرنے والے کا مقام نگاہِ پروردگار میں بہت بلند ہے لہٰذا اگر توبہ اپنے تمام شرايط و ضوابط کے ساتھ انجام پائے تو نہ صرف یہ کہ انسان کے گناہ معاف ہو جاتے ہیں بلکہ پہلے سے بھي زیادہ خدا کے نزدیک محبوب بن جاتا ہے۔

 

تبصرے
Loading...