تربت حسینی کی ہتک حرمت

 

 اس لئے کہ تربت کی توہین صاحب قبر کی ہتک حرمت کا مترداف ہے اور صاحب قبر امام (علیہ السلام) کی توہین گناہ کبیرہ ہونا واضح ہے جس کے لئے دلیل کی ضرورت نہیں۔

بنا برایں تربت کربلائے معلی لا پرواہی اور اہانت سے زمین پر پھینکنا،پائمال کرنا،نجس کرنا اور اس طرح دوسرے طریقے سے توہین گناہ کبیرہ ہیں۔اگر رفع حاجت کے وقت کسی کے ساتھ تربت سیدا الشہداء (علیہ السلام) سے بنی ہوئی تسبیح یا سجدہ گاہ ہو اور وہ بیت الخلاء میں گر جائے تو باہر نکانا اور پاک کرنا واجب ہے جب تک باہر نہ نکالی جائے وہاں رفع حاجت کرنا حرام ہے۔اگر نکالنا ممکن نہ ہوتو اس کا دروازہ بند رکھنا چاہئے چنانچہ یہ مسئلہ ہتک حرمت قرآن کے ضمن میں بیان ہوا۔

تربت حسینی کی فضیلت

زمین کربلا کی شرافت اورترتب حسینی کی فضیلت اس کے عظیم اثرات کے متعلق بہت سی روایتیں موجود ہیں۔ہم ذیل میں فضیلت تربت کی دو روایتوں اور توہین کے برے اثرات پر مبنی دو واقعات بیان کرنے پر اکتفا کرتے ہیں۔

جناب شیخ مفید کے استاد شیخ ابن قولویہ اپنی کتاب کامل الزیارت میں اپنے استاد کے حوالے سے محمد بن مسلم سے روایت نقل کرتے ہیں۔ وہ کہتا ہے میں مدینہ منورہ گیا اور وہاں بیمار پڑگیا۔حضرت امام محمد باقر (علیہ السلام) نے اپنے غلام کے ساتھ ایک برتن میں تھوڑا سا شربت جس پر رومال ڈھکا ہوا تھا۔میرے لئے بھجوایا ۔غلام نے کہا اس دوائی کو پی لیں ۔امام (علیہ السلام) نے مجھے حکم دیا ہے جب تک آپ اس دوا کو نہ پئیں میں واپس نہ جاوٴں ۔میں نے غلام کے ہاتھ سے لے وہ دوا پی لی ۔وہ ایک خوش مزہ ٹھنڈا شربت تھا جس سے مشک کی خوشبو آرہی تھی ۔غلام نے کہا حضرت کا حکم ہے دوا نوش کرنے کے بعد ان کی خدمت میں حاضری دیں۔ میں نے تعجب کیا کہ میں حرکت پر قدر نہیں پیروں پر کھڑا نہیں ہوسکتا کیوں کر آپ کی خدمت میں جاسکوں گا؟لیکن جیسے ہی میں نے شربت کو گلے سے اتارا گویا جکڑے ہوئے زنجیر سے آزاد ہوگیا۔میں اپنے پیروں پر چل کر در دولت امام (علیہ السلام) پر حاضر ہوا اور داخل ہونے کی اجازت چاہی ۔امام نے فرمایا۔صبح الجسم فادخل تیرا بدن صحت یاب ہوا اب داخل ہوجاوٴ۔

میں گریہ کناں بیت الشریف میں داخل ہوا۔امام (علیہ السلام) کو سلام کیا۔آپ کے ہاتھوں اور سر کو بوسہ دیا۔فرمانے لگے اے محمد کیوں دو ر رہے ہو؟ میں نے عرض کیا مولا میری جان آپ پر فدا ہو میں اپنی کمی قدرت ،غربت اور راہ کی دوری۔آپ سے جدائی اور آپ کی خدمت میں حاضر رہنے کی کمی سعادتی پر رورہا ہوں اور بار بار دیکھ رہا ہوں۔

فرمایا دیکھو قدرت و توانائی کی کمی سے ہمارے چاہنے والے شیعیان تمہاری طرح مشکلات اور مصیبتوں میں مبتلا رہتے ہیں۔لیکن جہاں تک تمھاری غربت کا تعلق ہے تو مومن اس دنیا میں شر پسند لوگوں کے درمیان غریب ہی غریب ہے یہاں تک کہ وہ رحمت خدا سے پیوستہ نہ ہوجائے ۔لیکن تمہارا یہ کہنا کہ میرا مکان مدینہ سے دور ہے تو تمہیں چاہئے کہ حضرت ابی عبدا للہ الحسین کی پیروی کرو کہ مدینہ سے دور نہر فرات کے کنارے خوابگاہ ابدی میں ہیں ۔باقی رہا ہماری محبت اورشوق دیدار کی تمنا۔پس خداوند کریم تمہارے دل کی کیفیت سے آگاہ ہے وہ تمہاری اس نیک نیتی کی صلہ یقنیاً عطا فرمائے گا۔

اس کے بعد فرمایا کیا امام حسین (علیہ السلام) کی قبر کی زیارت کو جاتے ہو؟

میں نے عرض کیا ۔ہاں مگر بہت ڈر اور خوف کے ساتھ ،فرمانے لگے۔ماکان فی ھذا اشدفالثواب فیہ علی قد الخوف(نفس المہموم ص۲۹۴) خصائص تالیف شیخ شوشتری)جتنا خوف اورسختی ہو گی اس کا ثواب اتنا ہی زیادہ ہوگا۔ اس سفر میں جس کو خوف زیادہ ہوگا وہ روزقیامت کی ترس سے محفوط رہے گا۔اور گناہوں سے پاک ہو کر واپس لوٹے گا۔مزید ارشاد فرمایا تم نے اس شربت کو کیسا پایا۔میں نے کہا گواہی دیتا ہوں کہ آپ اہل بیت رحمت اور اوصیاء کے وصی ہیں۔جس وقت غلام شربت لے کر آیا مجھ میں اتنی قوت نہیں تھی کہ پیروں پر کھڑا ہوتا۔ میں اپنی زندگی سے مایوس ہو چکا تھا۔جب میں نے وہ شربت پیا تو میں نے محسوس کیا کہ میں نے اس سے پہلے اتنا خوش مزہ،سرد اور خوشبودار شربت کبھی نہیں پیا تھا۔

غلام نے کہا میرے مولا نے فرمایا کہ میرے پاس چلے آوٴ میں نے طے کر لیا چاہے میری جان ہی کیوں نہ چلی جائے میں اس حال میں بھی جاوٴں گا۔جب میں روانہ ہو ا تو مجھے محسوس ہوا گویا میری بیماری دور ہوگئی میں اس خدا کا شکر ادا کرتا ہوں جس نے آپ کو شیعوں کے لئے سبب رحمت قرار دیا ہے۔فرمایا ان الشراب الذی شربتہ من طین قطر الحسین (علیہ السلام) وھو افضل مااستثقیٰ (کامل الزیارت تالیف ابن قولویہ)تم نے جو شربت پیا وہ قبر حضرت حسین (علیہ السلام) کی مٹی سے تھا وہ بہترین شئے ہے جسے میں شفاء کے لئے استعمال کرتا ہوں خبردار کسی چیز کو اس کے برابر نہ سمجھنا ہم اسے اپنے بچوں اور عورتوں کھلاتے ہیں اور اس سے بے شمار خیروبرکت محسوس کرتے ہیں۔میں نے عرض کیا میری جان آپ پر فدا ہو ہم بھی اسے اٹھا کر اپنے لئے طلب شفاء کریں گے ۔آپ نے فرمایا جب لوگ اس تربت کو اٹھا کر حایر حسینی)حدود کربلا) سے باہر نکل جاتے ہیں تو اس کی حفاظت میں احتیاط نہیں کرتے اور محفوظ طریقے سے باندھ کر نہیں رکھتے ہیں۔ایسی صورت میں ہر جن وجانور اور دوسری مخلوق جو کسی تکلیف میں مبتلا ہو اسے سونگھتے ہیں تو اس کی برکت دوسرے حاصل کر لیتے ہیں۔لیکن جس تربت سے شفاء ہوتی ہے اس کو اس طرح نہیں چھوڑنا چاہئے جس سے اس کا اثر زائل ہو ۔اگر حفاظت میں غفلت نہ ہو تو اسے اپنے بدن سے مس کر ے یا اسے کھائے اسی وقت شفاء پاجائے گا۔ تربت بالکل حجر اسود کی مانند ہے جو ابتداء میں سفید یاقوت کی طرح چمکتا تھا جو بیمار اپنے آپ کو اس سے مس کرتا اسی وقت شفا یا ب ہو جاتا۔چونکہ بیماریو میں مبتلا اہل کفر و جاہلیت اپنے آپ کو اس سے مس کرتے تھے اس لئے اسکا رنگ سیاہ پڑھاگیا اور اس کے اثر میں کمی واقع ہوگئی۔

میں نے عرض کیا میری جان آپ پر قربان ہو تربت مبارکہ کو کیسے اٹھاوٴں اور محفوظ رکھوں۔ ا مام (علیہ السلام) نے فرمایا تم بھی ترتب کو دوسروں کی مانند اٹھاتے ہو کسی چیز میں محفوظ کئے بغیر اپنے میلے تھیلے میں ڈال دیتے ہو اس طرح اس کی برکت ختم ہوجاتی ہے۔

میں نے عرض کیا مولا آپ درست فرماتے ہیں پھر فرمایا میں اگر تھوڑی تربت تمہیں دے دوں تو کس طرح لے جاوٴ گے؟ میں نے عرض کیا اپنے کپڑوں کے درمیان رکھ کر لے جاوٴں گا۔آپ نے فرمایا اسی قرار داد کے مطابق جب تم واپس جاوٴ تو اسی شربت سے جس قدر چاہو پیو اور تربت ساتھ نہ لے جاوٴ کہ تم سے اس کی حفاظت نہ ہوسکے گی۔آنحضرت نے اس شربت کومجھے دو مرتبہ پلایا اس کے بعد کبھی اس درد بیماری میں مبتلا نہیں ہوا۔(مستند الشیعہ ص۲۰۲۔لئالی الاخبارص۴۲۵کلیات مفاتیح الجنان ص۸۷۰ ملاحظہ فرمائیں)

جنازہ کے ساتھ تربت رکھنا

ایک زنا کر عورت تھی وہ جب بی زنا سے بچہ پیدا کرتی تو اپنے خاندان کے خوف سے اسے تنور میں جلادیتی۔اس کی ماں کے علاوہ کوئی دوسراشخص اس بدکاری سے واقف نہ تھا۔جب مرگئی اور اسے دفن کیا گیا تو زمین نے اسے قبول نہ کیا اور اسے قبر سے باہر نکال پھینکا۔کسی اور مقام پر دفن کیا گیا وہاں بھی اس کے ساتھ یہی حال رونما ہوا اس کے خاندان والوں نے امام جعفر صادق (علیہ السلام) کو اس واقعہ کی خبردی امام نے اس کی ماں سے پوچھا تیری بیٹی نے دنیا میں کیا کیا گناہ کئے ؟ جب اس کی ماں نے اس کے گناہوں کی تفصیل بیان کی تو امام نے فرمایا۔زمین ہر گز اسے قبول نہ کرے گی کیوں کہ وہ مخلوق خدا کو اس عذاب میں مبتلا کرتی تھی جس کا حق صرف خدا ہی کو ہے(آتش جہنم میں جلانا صرف رب العالمین کا مختص عذاب ہے کسی اور کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ مخلوق خدا کو آگ مین جلائے)پھر فرمایا اس کی قبر میں تھوڑی سی تربت امام حسین (علیہ السلام) رکھ دو ۔لوگوں نے ایسا ہی کیا اس کے بعدزمین حرکت میں نہ آئی اور اسے قبول کیا۔(مستند الشیعہ کتاب طہارت ص۲۰۲)

تربت کے ساتھ میت کی تجہیز

قبر میں میت کے چہرے کے سامنے تھوڑی مقدار میں تربت حسینی رکھنا مستحب ہے۔ میت کو حنوط دیتے وقت معمولی مقدار اس تربت شریفہ کا کافور میں ملانا بھی مستحب ہے۔ لیکن صرف پیشانی اور دونوں ہاتھوں کو تربت سے مسح کیا جائے۔دونوں گھنٹوں اور پاوٴں کی بڑی انگلیوں کو فقط کافور سے مسح کیا جائے کیونکہ گھنٹوں اور انگلیوں کوتربت سے مسح کرنا احترام کے منافی ہے۔

تربت ہر بیماری کا علاج ہے

شیخ طوسی اعلی اللہ مقامہ امالی میں اپنے مشائخ کرام سے روایت کرتے ہیں کہ محمد ازدی نے کہا میں مدینہ کی جامع مسجد میں نماز پڑھ رہا تھا اور میرے برابر دو آدمی بیٹھے تھے جن میں سے ایک سفری لباس میں ملبوس تھا وہ دوسرے سے کہہ رہا تھا حضرت حسین (علیہ السلام) کی تربت ہر بیماری کے شفاء ہے۔میں ایک بیماری میں مبتلا تھا۔اور کسی دوا سے افاقہ نہیں ہو رہا تھا اور زندگی سے ناامید ہو چکا تھا۔موت سامنے نظر آنے لگی کہ ایسے میں کوفہ کی رہنے والی ایک بوڑھی عورت میرے پاس آئی۔میں اس وقت بیماری کی شدت سے درد وغم کے عالم میں مبتلا تھا وہ مجھ سے کہنے لگی میں دیکھ رہی ہوں روز بروز تمہاری حالت متغیر اور تکلیف میں اضافہ ہو رہا ہے۔میں نے کہاہاں!ایسا ہی ہے۔کہنے لگی اگر چاہو تو میں تمہارے اس مرض کا علاج کروں اور نجات دوں میں نے کہا معالجہ کی ضرورت ہے۔اس نے ایک برتن میں پانی ڈال کر مجھے دے دیا۔میں نے جیسے ہی ہو پانی پیا اسی وقت تندرست ہو ا گویا کبھی بیماری نہ تھا۔

چند ماہ گزرنے کے بعد عورت دوبارہ میرے گھر آئی۔اس کا نام سلمہ تھا میں نے اس سے خدا کی قسم دے کر پوچھا وہ دوا کیا تھی جو تم نے مجھے دی تھی؟ کہنے لگی میں نے اس تسبیح کے ایک دانہ سے جواس وقت میرے ہاتھ میں ہے تیرا علاج کیا۔ میں نے پوچھا اس تسبیح کو خصوصیت کیا ہے؟تو کہنے لگی یہ حضرت امام حسین (علیہ السلام) کی قبر مبارک کی خاک ہے۔

میں نے اس سے کہا اے رافضیہ تو نے میرا علاج حسین کی قبر کی مٹی سے کیا؟ وہ عورت غضبناک حالت میں میرے پاس سے اٹھ کر چلی گئی اس وقت میری بیماری لوٹ آئی۔بیماری کی شدت اب اتنی بڑھ گئی کہ مجھے اپنی موت کا یقین ہو گیا۔

یہ واقعہ کتنا عبرتناک ہے! ہونا تویہ چاہیے تھا کہ اس کرامت کو دیکھ کر اس کی بصیرت میں اضافہ ہو جاتا وہ حق کو پہچان کر اس کی پیروی کرتا لیکن اس کے بجائے تربت مقدس کی توہین کی اور فوراًاس کی برکتوں سے محروم ہوا اور دوبارہ بیماری میں مبتلا ہو کر اس آیت کا مصداق قرار پایا۔ وننزل من القراٰن ما ھو شفاء و رحمتہ للمومنین ولا یزید الظالمین الاخسارا (سورہ اسراء آیت ۸۲)اور ہم قرآن میں وہی چیز نازل کرتے ہیں جو مومنوں کے لیے سراسر شفاء اور رحمت ہے مگر نافرمانوں کے لئے گھاٹے کے سوا کچھ فائدہ نہیں۔

سعد ی نے کیا خوب کہا ہے آب باران رحمت الہی ہے اس کی لطافت و پاکیزگی میں شک نہیں لیکن اگر اس کے قطرے صدف میں گریں تو قیمتی موتی اور سانپ کے منہ میں گریں تو زہر قاتل بنتے ہیں۔

تربت کی توہین ہلاک کر دیتی ہے

شیخ طوسی کتاب مذکور میں موسی بن عبد العزیز سے نقل کرتے ہیں کہ اس نے کہا ایک نصرانی طبیب یوحنا مجھ سے ملاقات کے لئے آیا اور کہنے لگا ۔میں تم کو تمہارے دین اور پیغمبر کی قسم دیتا ہوں مجھے بتلاوٴ کیا ہو شخص جو قصر ابن ہبیرہ(کربلا) میں دفن ہے اور لوگ جس کی زیارت کو جاتے ہیں کیا وہ تمھارے پیغمبر کے اصحاب میں سے ہے؟ میں نے کہا نہیں ۔وہ ہمارے پیغمبر کے نواسے حضرت حسین (علیہ السلام) ہیں۔تم مجھے یہ بتلاوٴ قسم کے ساتھ یہ سوال کیوں کیا؟تو کہنے لگا میں نے اس کی عجیب داستان سنی ہے ۔اس نے کہا ایک رات ہارون الرشید ملعون کے خادم شاپورنے مجھے طلب کیا جب میں اس کے پاس گیا تو وہ مجھے ساتھ لے کر موسی بن عیسیٰ کے گھر لے گیا جو خلیفہ کا قریبی رشتہ دار تھا۔

میں نے دیکھا وہ بستر پر بے ہوش پڑا ہوا ہے۔ اور اس کے سامنے طشت میں اس کے اندرونی اعضاء بدن پڑے تھے۔ہارون الرشید نے اس کو ان دنوں کوفہ سے طلب کیا تھا۔ شاپور نے موسی کے خصوصی خادم سے اس کے آقا کے متعلق پوچھا کہ اس کی کیا حالت ہے جو میں دیکھ رہا ہوں؟ خادم نے جواب دیا اب سے ایک گھنٹے پہلے بہت ا چھی حالت میں تھا اور اپنے ساتھیوں سے گفتگو کر رہا تھا ۔ان میں سے ایک شخص نے جو بنی ہاشم میں سے تھا اپنا واقعہ بیان کرتے ہوئے کہا میں شدید بیمار تھا کسی طبیب کے علاج سے فائدہ نہ ہوا یہاں تک کہ میرے کاتب نے مجھ سے کہا حضرت حسین (علیہ السلام) کی تربت سے اپنا علاج کرو۔میں نے ایسا ہی کیا اور صحت یاب ہو گیا۔

موسیٰ نے کہا کیا اس تربت کا کچھ حصہ تمہارے پاس باقی ہے؟ اس نے جواب دیا ہاں اور فوراً کسی کو بھجوا کر تھوڑی سی تربت منگوائی۔موسیٰ نے تربت لے کر توہین کے ارادے سے اسے اپنی نہاں گاہ کے سوارخ میں ڈال دیا۔موسیٰ نے اسی وقت ایک چیخ ماری النا ر النار یعنی میںآ گ میں جل رہا ہوں اس سے فوراً ایک طشت منگوایا اب جو کچھ تم طشت میں دیکھ رہے ہو وہ اس کے اندرونی اعضاء کے ٹکڑے ہیں۔اس کی یہ حالت دیکھ کر تمام ساتھی نکل گئے اور اس کا گھر ماتم کدہ میں تبدیل ہوگیا۔

شاپور کہنے لگا تم درست کہتے ہو لیکن رات یہیں رہو تا کہ اس کی حالت پر نظر رکھ سکو اور انجام معلوم ہو۔میں اس رات وہیں سحر ٹھہر گیا وہ صحر کے نزدیک واصل جہنم ہوا۔

راوی کہتا ہے یوحنا نصرانی طبیب ایک عرصہ تک حضرت سید الشہداء (علیہ السلام) کی زیارت کو آتا رہا۔اس کے بعد وہ مسلمان ہو گیا اور دین دار رہا ۔یہ روایت بحار الانوار کی دسویں جلد کے آخری حصہ میں بھی نقل کی گئی ہے۔

سچے خواب

مرحوم الحاج مرزا حسین نوری نور اللہ مرقدہ اپنی کتاب دار السلام میں تحریر فرماتے ہیں میرا ایک بھائی والدہ کے گھر ملاقات کے لئے گیا۔اس کی نچلی جیب میں حضرت سیدا لشہداء (علیہ السلام) کی تربت کی مہر موجود تھی۔جب والدہ کو اس کے متعلق خبر ہوئی تو اسے تنبیہ کی اور کہنے لگیں اس جیب میں تربت کی مہر رکھنا بے ادبی اور اہانت ہے کیوں کہ بہت ممکن ہے بیٹھتے وقت ران کے نیچے کچل کر ٹوٹ جائے۔میرا بھائی کہنے لگا ہاں ایسا ہی ہے اب تک دوتربت کی مہریں (سجدہ گاہ) میری ران کے نیچے آکر ٹوٹ چکی ہیں۔اس نے والدہ سے کہا کہ آج کے بعد دوبارہ قبا کی نچلی جیب میں نہ رکھے گا۔میرے والد بزرگورا کو اس واقعہ کا کوئی علم نہ تھا اس کے چند دن بعد انہوں نے عالم خواب میں دیکھا کہ حضرت سیدا لشہداء (علیہ السلام) ان کے کتاب خانہ میں داخل ہو کر ان کے پاس بیٹھ گئے ان سے اظہار لطف و مہربانی فرمایا اور ارشاد فرمایا اپنے لڑکوں کو بلاوٴ تا کہ میں ان کو انعام دوں ۔میرے والد کے پانچ بیٹے تھے ۔انہوں نے سب کو بلایا ان کوسامنے حجرے میں بٹھا یا۔امام کے سامنے کچھ لباس رکھے تھے ایک ایک کو طلب فرما کر انعام کے طور پر ایک ایک لباس دئیے جارہے تھے۔جب میرے اس بھائی کی باری آئی جس نے تربت کو قبا کی نچلی جیب میں رکھا تھا امام نے اس کے غضب کی نگاہوں سے دیکھا اور میرے والد کی طرف دیکھ کر فرمانے لگے تمہارے اس لڑکے نے اب تک دوبار میری تربت کی اپنی ران کے نیچے دبا کر توڑا ہے۔امام نے اس بھائی کودوسرے بھائیوں کی مانند حجرے میں طلب نہیں کیا اس کو انعام بھی کم درجے کا دیا بلکہ اس کا انعام حجرے کے باہر ڈال دیا۔جب والد کی آنکھ کھلی تو انہوں نے اس خواب کو میری والدہ سے بیان کیا۔والدہ نے میرے بھائی کے ساتھ گزرا ہوا واقعہ بیان کیا ۔والد اپنے خواب کی سچائی پر تعجب کرنے لگے۔

 

 

 

تبصرے
Loading...