تحريک امام حسين ميں مضمر تين عظيم پہلو

تاريخ ميں ہميشہ کيلئے باقي رہنے والي اِس حسيني ٴتحريک کو تين پہلووں سے ديکھا جاسکتا ہے اور اِن تين پہلووں ميں سے جو پہلو سب سے زيادہ جلوہ افروز ہے وہ عزت و سربلندي اور افتخار کا پہلو ہے۔

اِس تحريک کا ايک اور پہلوطاقتور باطل اور حق کے درميان جنگ ہے کہ جس ميں امام حسين نے ايک انقلابي تحريک اور اصلاح کيلئے جدوجہد کي روش کواپنايا، اِس تحريک کا ايک اور پہلو معنويت و اخلاق ہے ۔ اِس قيام و تحريک ميں ايک ايسا مبارزہ اور جنگ وجود رکھتي ہے جو سياسي اور اجتماعي پہلووں، انقلابي اقدامات اور حق و باطل کے علي الاعلان برسرپيکار آنے کے علاوہ ہے اور وہ انسانوں کے نفس اور اُن کے باطن کي جنگ ہے جہاںانساني وجود کے اندر موجود کمزورياں، مختلف قسم کي لالچيں، ذلت و پستي ، شہوت پرستي اور خواہشات نفساني کي پيروي اُسے بڑے اور اہم فيصلے کرنے اور بڑے بڑے قدم اٹھانے سے روکتي ہے۔يہ ايک ميدانِ جنگ ہے اوريہ ايسي جنگ ہے جو اپني سختي و دشواري کے لحاظ سے اپنا جواب نہيں رکھتي؛ جہاں اہل ايمان اور فداکار مرد و زن کي ايک مختصر سي جماعت سيد الشہدا کے پيچھے چل پڑتي ہے تو وہاں اُن کے احساسِ ذمہ داري کے سامنے دنيا و مافيھا، دنيوي لذتوں اور اُس کي زيبائي اور رنگينيوں کي کوئي حيثيت باقي نہيں رہتي!يہ ايسے انسان ہيںکہ جن کے باطن ميں اُن کي معنويت کہ جسے روايات ميں جنود عقل (خدائي لشکر) سے تعبير کيا گيا ہے ،نے اُن کے شيطاني لشکروںيعني جنود جہل (شيطاني لشکر)پر غلبہ پاليا ہے اور اُن کا نام عظيم انسانوں کي حيثيت سے تاريخ ميں سنہري حروف سے آج تک درج ہے۔ تيسرا پہلو کہ جو عوام ميں زيادہ مشہور ہے ، وہ مصائب اور غم و اندوہ کا پہلو ہے ليکن اِس تيسرے پہلو ميں بھي عزت و سربلندي اپنے عروج پر نظر آتي ہے لہٰذا اہل فکر و نظر کو اِن تينوں پہلووں کو مدنظر رکھنا چاہے۔

امام حسين کي تحريک وقيام کي پہلي جہت ميں کہ جہاں امام ٴ نے ايک انقلابي تحريک کي بنياد رکھي، عزت و سربلندي موجزن ہے ؛سيد الشہدا کے مدمقابل کون تھا؟ آپ کے مد مقابل ايسي ظالم و فاسق حکومت تھي کہ جو ’’يَعمَل فِي عِبَادِاللّٰہِ بِالاِثمِ وَالعُدوَان‘‘ ،جو معاشرے ميںگناہ و سرکشي سے حکو مت کر رہي تھي۔اُس معاشرے کي حالت يہ تھي کہ پورا معاشرہ اُس ظالم حکومت کے پنجوں ميںجکڑا ہوا تھا اور جہاں بندگانِ خدا پرظلم و ستم ، غرور و تکبر اور خود خواہي اور خود پرستي کي بنيادوں پر حکومت کي جاتي تھي، لوگوں کے ايمان و معنويت اور اُن کے انساني حقوق کا ذرا سا بھي خيال نہيں رکھا جاتا ہے، برسر اقتدار طبقہ نے اسلامي حکومت کو ظہوراسلام سے قبل دنيا ميں موجود طاغوتي حکومتوں ميں تبديل کرديا تھاجبکہ ايک اسلامي نظام کي اہم ترين خصوصيت،اُس کي ’’عادلانہ حکومت ‘‘ہے اور اُس تصوّراتي معاشرے (مدينہ فاضلہ)کے خدوخال کہ جسے اسلام شکل و صورت دينا چاہتا تھا،حکومت کے طرز عمل اور حاکم وقت کے رويے سے تعلق رکھتے ہيں۔

اُ س زمانے کي بزرگ ہستيوں کے بقول، امامت کو ملوکيت و سلطنت ميں تبديل کرديا گيا تھا۔ امامت يعني دين و دنيا کي رہبري و راہنمائي، يعني اُس کارواں کي قيادت جو ايک خاص الخاص اور عظيم ہدف کيلئے حرکت کررہا ہو کہ جہاں ايک فرد آگے آگے رہ کر کارواں ميں شامل تمام افراد کي راہنمائي و قيادت کرے۔اِس طرح کہ اگر کوئي راستہ گم کردے (يا کارواں سے پيچھے رہ جائے) تو وہ رہبراُس کا ہاتھ تھام کر اُسے دوبارہ قافلے سے ملا دے، اگر کوئي تھک کر راستے ميں بيٹھ جائے تو بقيہ راستہ طے کرنے کيلئے اُس کي ہمت بندھائے، اگر کسي کا پاوں زخمي ہوجائے تو اُس کي مرہم پٹي کرے اور قافلے ميں شامل تمام افراد کي مادي اور معنوي مدد کرے۔ اِسے اسلامي اصطلاح ميں ’’امام‘‘ يعني امامِ ہدايت کہا جاتا ہے؛ جبکہ ملوکيت و سلطنت اِس مفہوم و معني کے بالکل متضاد

ہے، سلطنت و ملوکيت يعني ميراث ميں ملنے والي بادشاہت کہ جو سلطنت کي ايک قسم ہے ۔چنانچہ دنيا ميں ايسے بھي سلاطين ہيں کہ جن کے نام سلطان اور بادشاہ نہيں ہيں ليکن اُن کے باطن دوسروں پر تسلط و برتري اور ظلم و ستم کي رنگ و بُو سے پُر ہيں۔ جو بھي تاريخ کے جس دور ميں بھي جب اپني قوم يا دوسري اقوام پر ظلم کرے گا،خواہ اُس کا نام کچھ بھي ہو، اُسے سلطنت و ملوکيت ہي کہا جا ئے گا۔ ايک ملک کا صدر کہ جس کي تمام حکومتيں مستبکراورڈکٹيٹر رہي ہيں اور آج اُس کا واضح نمونہ امريکا ہے، اپنے آپ کو يہ حق ديتا ہے کہ کسي اخلاقي، علمي اور سياسي حقوق کے بغير اپنے اور اُس کي حمايت کرنے والي کمپنيوں کے منافع کو ملينوں انسانوں کے منافع پر ترجيح دے اور دنيا کي اقوام کے فيصلے خود کرے؛ يہ ہے سلطنت وملوکيت اور آمريت،خواہ اِس کانام بادشاہت ہو يا نہ ہو!

امام حسين سے بيعت کے مطالبے کي حقيقت!

حضرت امام حسين کے زمانے ميں امامت کو اِسي قسم کے نظام حکومت ميں تبديل کرديا گيا تھا کہ’’ يَعمَلُ فِي عِبَادِاللّٰہِ بِالاِثمِ وَالعُدوَانِ‘‘ ؛ ظلم و ستم اور گناہ کے ذريعہ لوگوں پر حکومت کي جارہي تھي اور حضرت امام حسين نے اِن بدترين حالات سے مقابلہ کيا۔آپ کي جنگ مسلمانوںکو آگاہ کرنے،حقائق کو روشن و واضح کرنے، لوگوںکي ہدايت اور يزيد يا اُس سے قبل کے زمانوںکے حق و باطل کي درمياني حد کو مشخص کرنے کي جنگ تھي۔ فرق يہ ہے کہ جو کچھ يزيد کے زمانے ميں وقوع پذير ہوا وہ يہ تھا کہ وہ ظلم ، فاسق اور گمراہ حاکم اِس موقع کے انتظار ميں تھا کہ امام حسين جيسا ہدايت کا ہادي اور راہنمااُس کي حکومت کو قبول کرلے اور اُس کے کاموں پر اپني رضايت و پسنديدگي کا اظہار کرے! جس بيعت کا امام حسين سے مطالبہ کيا گيا تھا وہ يہي تھي۔

يزيد امام حسين سے اِس بات کا خواہاں تھا کہ وہ آپ کو مجبور کرے کہ آپ لوگوں کو ہدايت و راہنمائي کرنے کے بجائے اِس ظالم حکومت کي گمراہي و ضلالت کو لوگوں کيلئے جائز صورت ميں بيان کريں کہ آو اور اِس ظالم حکومت کي تائيد کرو اور اِس کے ہاتھ مضبوط بناو! امام حسين کا قيام اِسي جگہ سے شروع ہوتا ہے۔ اگر يزيدي حکومت کي طرف سے اِس قسم کا بے جا اور بيہودہ و احمقانہ مطالبہ نہيں کيا جاتا تو اِس بات کا امکان تھا کہ سيد الشہدا نے جس طرح معاويہ کے دور حکومت ميںامّت کي ہدايت و راہنمائي کي اورجس انداز سے آپ کے بعد آنے والے آئمہ رہنمائي فرماتے رہے،آپ بھي پرچم ہديت کو اٹھاتے، لوگوں کي ہدايت کرتے اور حقائق کو اُن کيلئے بيان فرماتے۔ ليکن يزيد نے اپني جہالت و تکبر اور تمام فضائل اور معنويات سے دوري کي وجہ سے جلدي ميں ايک قدم آگے بڑھايا اور امام حسين سے اِس بات کي توقع کي کہ وہ اسلام کے بے مثال’’ نظريہ امامت‘‘ کے طاغوتي اور سلطنت و بادشاہت کي تبديلي کے سياہ قانون پر دستخط کرديں يعني اُس کے ہاتھوں پر بيعت کرليں۔ يہ وہ مقام ہے کہ جہاں سيد الشہدا فرماتے ہيں کہ ’’مِثلِي لَا يُبَايِعُ مِثلَہُ ‘‘ ١ ،’’ميرا جيسا يزيد جيسے کي ہرگز بيعت نہيں کرسکتا‘‘، يعني حسين کبھي ايسي بيعت نہيں کرے گا۔ امام حسين کو پرچم حق کے عنوان سے تاابد تک باقي رہنا ہے اور حق کا پرچم نہ توباطل طاقتوں کيلئے استعمال ہوسکتا اور نہ ہي اُس کے رنگ ميں رنگ سکتا ہے۔ يہي وجہ ہے کہ امام حسين نے فرمايا ’’ھَيھَات مِنَّا الذِّلَّۃ‘‘ ٢ ،’’ذلت ہم سے دور ہے ‘‘۔امام حسين کي تحريک ،عزت و سربلندي کي تحريک تھي يعني عزت ِ حق، عزتِ دين، عزتِ امامت اور رسول اللہ ۰ کے دکھائے ہوئے راستے کي عزت! سيد الشہدا چونکہ عزت کا مظہر کامل تھے لہٰذا آپ نے قيام فرمايا؛ يہ ہے حسيني ٴعزت و سربلندي!

ايک وقت کوئي شخص کوئي بات زبان سے ادا کرتا ہے اور اپني بات کہہ کر اپنے مقصد کو بيان کرتا ہے ليکن ہدف کے

حصول تک اپني بات پر قائم نہيں رہتا اور سخت حالات اور پريشانيوں کي وجہ سے عقب نشيني کرليتا ہے تو ايسا شخص ہرگز باعث عزت و افتخار نہيں ہوسکتا۔ عزت و افتخار اُس انسان، جماعت يا قوم کيلئے سزاوار ہوتي ہے کہ جو اپني زبان سے ادا کي گئي باتوں پر آخر وقت تک قائم رہتے ہيں اور اِس بات کا موقع نہيں آنے ديتے کہ جو پرچم اُنہوں نے بلند کيا ہے طوفان کي تُند و تيز ہوائيں اُسے گراديں۔ امام حسين اِس پرچم ہدايت کو مضبوطي سے تھامے رہے اور اِس راہ ميں اپني اور اپنے عزيز ترين افراد کي شہادت اور اپنے اہلِ وعيال کي قيد تک مضبوطي سے اپنے قدم جمائے رکھے؛ يہ ہے انقلابي تحريک ميں عزت و افتخار اور سربلندي کا معني۔

٢۔ معنويت و فضيلت کا مجسم ہونا

معنويت کا عنصر بھي حضرت امام حسين کے قيام اور تحريک ميں مجسم نظر آتا ہے ؛بہت سے افراد امام

حسين کے پاس آتے ہيںاور اُنہيںاُن کے قيام کي وجہ سے سرزنش کرتے ہيں۔ يہ افراد معمولي يا برے افراد نہيںتھے بلکہ بعض اسلام کي بزرگ ہستيوں ميں شمارکيے جاتے تھے ليکن يہ افراد غلط سمجھ بيٹھے تھے اور بشري کمزورياں اِن پر غالب آگئي تھيں۔ يہي وجہ تھي کہ اُنہوں نے چاہا کہ امام حسين کو بھي اُنہي بشري کمزوريوں کے سامنے مغلوب بنا ديں ۔سيدالشہدا نے صبر کيا اور مغلوب نہيں ہوئے اوريوں امام حسين کے ساتھ شامل ايک ايک شخص اِس معنوي اور اندروني جنگ ميں کامياب ہوگيا۔وہ ماں کہ جس نے اپني پوري خوشي اور سر بلندي کے ساتھ اپنے نوجوان بيٹے کو ميدان جنگ بھيجايا وہ نوجوان کہ جس نے دنياوي لذتوں کو خير آباد کہہ کر خود کو ميدان جنگ ميں لہرائي جانے والي خون کي تشنہ تلواروں کے سامنے پيش کرديا يا حبيب ابن مظاہر جيسے بزرگ افراد اور مسلم ابن عوسجہ جيسے لوگ جو اپني ايام پيري کے راحت و آرام، نرم و گرم بستروں اور گھربار کو چھوڑ آئے اور ميدان جنگ کي تمام سختيوں کو تحمل کيا۔اِسي طرح سپاہ دشمن ميں ايک خاص مقام کے حامل شجاع ترين سردار يعني حُر ابن يزيد رياحي نے اپنے مقام و منزلت سے صرف نظر کيا اور حسين ابن علي سے جاملا، يہ سب افراد معنوي اور باطني جنگ ميں کامياب ہوئے۔

اُس معنوي جنگ ميں جو لوگ بھي کامياب ہوئے اور عقل وجہالت کے لشکروں کي محاذ آرائي ميں عقل کے لشکروں کو جہالت کے لشکروں پر غلبہ دينے ميں کامياب و کامران ہوئے، اُن کي تعداد بہت کم تھي ليکن اُن کي استقامت اور ثبات قدم اِس بات کا سبب بنے کہ تاريخ کے ہزاروں افراد اُن سے درس حاصل کريں اور اُن کي راہ پر قدم اٹھائيں۔ اگر يہ لوگ اپنے وجود ميں فضيلتوں کو رذيلتوں پر غلبہ نہيں ديتے تو تاريخ ميں فضيلتوں کا درخت خشک ہوجاتا ہے مگر اِن افراد نے اپنے خون سے اِس درخت فضيلت کي آبياري کي ۔

آپ نے اپنے زمانے ميں بہت سے افراد کو ديکھا ہے کہ جو رذائل و فضائل کي اِس جنگ ميں کامياب ہوئے ہيں اوراُنہوں نے اپني خواہشات نفساني کو عقل اور صحيح ديني فکر سے کنٹرول کيا ہے۔ دنيا کے لوگوں نے آپ سے بہت سي باتيں سيکھي ہيں؛يہ فلسطيني ماں جو اپنے بيٹے کے ماتھے کو چوم کر اُسے ميدان جنگ ميں بھيجتي ہے اِس کي ايک مثال ہے۔اِسي فلسطين ميںسالوںسے زن و مرد اور پيرو جوان سبھي موجود تھے

ليکن اپنے ضُعف اور معنوي جنگ کي صف آرائي ميں عقل کے لشکروں کے جہالت کے لشکروں پر غالب نہ آنے کي وجہ سے فلسطين ذلت و رسوائي کا شکار ہوگيا اور دشمن نے اُس پر غلبہ پاليا۔ ليکن آج يہي فلسطين ايک دوسري شکل ميں موجود ہے، آج فلسطين نے قيام کرليا ہے، آج فلسطيني عوام نے اپنے اندر معنوي جنگ کي صف آرائي ميں معنوي لشکر وںکو غالب کرديا ہے اور يہ قوم کامياب اور سرفراز ہوگئي ہے۔

٣۔ مصائب کربلا ميں عنصر عزت

کربلا کے تيسرے پہلو يعني مصائب اور مشکلات ميں بھي جابجا مقامات پر عزت و افتخار اور سربلندي کا عنصر نظر آتا ہے۔ اگرچہ کہ يہ مصائب کا ميدان اور بابِ شہادت ہے، اگرچہ کہ جوانانِ بني ہاشم ميں سے ہر ايک کي شہادت،بچوں کي، اطفال صغير کي اور بزرگ اور عمررسيدہ اصحاب کي شہادت حضرت سيد الشہدا کيلئے ايک بہت بڑے غم اور مصائب کا باعث ہے ليکن اِس کے خوداُن کیلئے اور مکتب ِتشيع کيلئے عزت و سربلندي کا باعث ہے۔ ۳

ہمارا وظيفہ :شہادت کي حقيقت و ذکر کو زندہ رکھنا

بنيادي طور پر اربعين (چہلم) کي اہميت اِس بات ميں ہے کہ اِس دن خداوند عالم کي تدبير اور خاندان اہل بيت کي کوششوں سے امام حسين کي تحريک و قيام کا ذکر ہميشہ کيلئے زندہ و جاويد ہوگيا اور روزِ اربعين اِس کام کي مضبوط و مستحکم بنياديں رکھي گئيں۔ اگر شہدائ کے ورثا اور اصلي جانشين، حضرت امام حسين کي روزِ عاشورا شہادت اور ديگر واقعات کے ذکر اور اُن کي شہادت کے آثار و نتائج کي حفاظت کيلئے کمر بستہ نہ ہوتے تو آنے والي نسليں شہادتِ عظميٰ کے نتائج سے زيادہ استفادہ نہيں کرپاتيں۔

يہ بات صحيح ہے کہ خداوند متعال اِس دنيا ميں بھي شہدائ کو زندہ رکھتا ہے اور شہيد تاريخ کے صفحات اور افراد

کے اذہان ميں خودبخود زندہ رہتا ہے ليکن خداوند عالم نے اِس واقعہ کيلئے دوسرے واقعات کي مانند عام نوعيت کے جن وسائل و امکانات کو قرار ديا ہے وہ يہي چيز ہے کہ جو ہمارے اختيار ميں ہے اور ہمارے ارادے سے

وابستہ ہے اوريہ ہم ہيں کہ جو اپنے صحيح فيصلوں سے شہدائ کے ذکر اور فلسفہ شہادت کا احيائ کرسکتے ہيں۔

اگر حضرت زينب کبريٰ ٭ اور امام سجاد اپني اسيري کے ايام ميں خواہ کربلا ميں عصرِ عاشورکا وقت ہو يا کوفہ و شام کي راہوں کي اسيري ہو يا پھر شام اور اُس کے بعد کربلا کي زيارت اور مدينہ روانگي اور اپني حيات

کے آخري لمحات تک کا زمانہ ہو، مقابلہ نہ کرتے اور اپنے بيانات اور خطبات کے ذريعہ باطل کے چہرے پر

پڑي نقاب نہ الٹتے اورکربلا کے حقيقي فلسفے، امام حسين کے ہدف اور دشمن کے ظلم و ستم کو بيان نہ کرتے تو واقعہ کربلا آج زندہ نہ ہوتا۔

حضرت امام جعفر صادق نے يہ کيوں فرمايا کہ ’’اگر کوئي واقعہ کربلا کے بارے ميں ايک شعر کہے اور

اُس شعر کے ذريعہ لوگوں کو رُلائے تو خداوند عالم اُس پرجنت کو واجب کرديتا ہے ‘‘! وجہ يہ ہے کہ دشمن کي تمام پروپيگنڈا مشينري واقعہ کربلا بالعموم اہل بيت کو مٹانے اور اُنہيں تاريکي ميں رکھنے کيلئے کمر بستہ ہوگئي تھي تاکہ لوگ اِس واقعہ کي رنگ و بو بھي نہ پاسکيں؛يہ تھا اُن کاپروپيگنڈا۔ اُس زمانے ميں بھي آج کي طرح ظالم و ستمگر طاقتيںاپنے جھوٹے، مغرضانہ اور شيطنت آميز پروپيگنڈے سے زيادہ سے زيادہ استفادہ کرتي تھیں۔ ايسي فضا اور ماحول ميں کيا ممکن تھا کہ واقعہ کربلا جو اپني تمام تر عظمت و سربلندي کے ساتھ دنيا ئے اسلام کے ايک گوشہ ميں رونما ہوا تھا اِس عظمت کے ساتھ باقي رہتا؟ اگر اِن شخصيات کي محنت و جدوجہد اور ايثار و قربا ني نہ ہوتي تو يہ واقعہ تاريخ کے اوراق ميں دفن ہوجاتا ۔

جس چيز نے اِس ذکر کو زندہ رکھا ہے وہ سيد الشہدا کے حقيقي وارث تھے۔ جس طرح امام حسيناور اُن کے اصحاب ِ با وفاکا جہاد ااور اُن کے مصائب سخت تھے،اُسي طرح حضرت زينب ،حضرت امام سجاد اوربقيہ افراد کا جہاد اور اسيري کي صعوبتيں اور سختياں برداشت کرنا بھي بہت دشوار و مشکل ترين کام تھا۔ فرق يہ ہے کہ امام حسين کي شہادت کے بعد ميدانِ جنگ ميں آنے والوں نے تلواروں اور نيزوں سے جنگ نہيں کي بلکہ تبليغ اور (خطبات،اشعار، احساسات اور گريہ و اشک جيسے)ثقافتي ہتھياروں سے دشمن کو زمين بوس کرديا۔ ہميں اِس اہم نکتہ کي طرف توجہ کرني چاہيے۔

درسِ اربعين

اربعين (چہلم) کا درس يہ ہے کہ دشمن کے پروپيگنڈے کے طوفان کي تند وتيز ہواوں ميں ذکرِ شہادت اور اُس کي حقيقت و فلسفے کو زندہ رکھنا چاہيے۔ آپ توجہ کيجئے کہ انقلاب اسلامي کي ابتدا ئ سے لے کر آج تک انقلاب،امام خميني۲،اسلام اورہماري قوم کے خلاف دشمن کا پروپيگنڈا کتنا زيادہ تھا، اگر دشمن کے اِس پروپيگنڈے کے جواب ميں اہل حق کي تبليغ نہ ہوتي اور نہ ہو تو دشمن پروپيگنڈے کے ميدان ميں غالب آجائے گا چنانچہ پروپيگنڈے اور تبليغ کا ميدان بہت عظيم، اہميت والا اور خطرناک ميدان ہے۔

يزيد کے ظالم و جابر نظام حکومت نے اپنے پروپيگنڈے سے امام حسين کو شکست ديني چاہي اور وہ يہ

ثابت کرنا چاہتا تھا کہ حسين ابن علي وہ شخص ہے کہ جس نے عدل و انصاف کے نظام، اسلامي حکومت کے خلاف اور دنياوي مقاصد کے حصول کيلئے قيام کيا ہے!! بعض افراد نے اِس جھوٹے پروپيگنڈے کو من و عن قبول بھي کرليا اور جب سيد الشہدا کو نہايت بے رحمي و بے دردي سے يزيدي جلادوں نے صحرائے کربلا ميں شہيد کيا تو آپ کي شہادت کو ايک عظيم غلبہ اور فتح قرار دينے لگے! ليکن نظام امامت کي اِس ’’تبليغ حق‘‘ نے يزيدي حکومت کے مضبوطي سے بُنے ہوئے اِس جال کا ايک ايک تار کھول ڈالا اور اُس کي بساط الٹ دي اور حق اِسي طرح ہوتاہے۔ ۴

١ بحار الانوار جلد ٤٤، صفحہ ٣٢٥

٢ بحار الانوار جلد ٤٥، صفحہ ٨٣

۳ ’’دو کوھہ‘‘ فوجي تربيتي کيمپ ميں عوامي اجتماع سے خطاب 29/3/2002

۴ حديث ولايت، جلد ٢ صفحہ ١٤٣۔ ١٤١

 

تبصرے
Loading...