بشر کو وحی اور نبوت کی ضرورت

بعثت انبیاء  (ع) کی ضرورت۔

یہ مسئلہ نبوت کے مسائل میں سے ہے جسے ایک ایسے برہان کے ذریعہ ثابت کرنا ہوگا کہ جو تین مقدمات پر مشتمل ہو۔

پہلا مقدمہ یہ ہے انسان کی خلقت کا ہدف یہ ہے کہ وہ اپنے مختار ہونے کے ساتھ اعمال کے ذریعہ راہ تکامل کو انتہائی کمال تک طے کرے، ایسا کمال کہ جو انسان کے مختار ہوئے بغیر قابل دست رسی نہیں ہے، ایک دوسری تعبیر کے مطابق انسان کو اس لئے خلق کیا گیا ہے، کہ وہ خدا کی اطاعت و عبادت کے ذریعہ اپنے وجود میں رحمت الٰہی کی دریافت کی لیاقت پیدا کرے، جو صرف اور صرف انسان کامل سے مخصوص ہے، اورخدا کاا رادہ بھی انسان کی سعادت اور اس کے کمال سے متعلق ہے لیکن چونکہ یہ سعادت اختیاری افعال انجام دئے بغیر میسر نہیں ہے اس مسئلہ نے بشری زندگی کو   دو راہے پر کھڑا کردیا ہے ،تا کہ وہ اپنے اختیار سے جسے چاہے انتخاب کرے جن میں سے ایک راستہ شقاوت کی طرف جاتا ہے جو بالتبع ارادہ الٰہی سے متعلق ہے نہ بالاصالةً۔

یہ مقدمہ عدل و حکمت الٰہی کی بحث کے ضمن میں واضح ہوگیا۔

دوسرا مقدمہ: یہ ہے کہ غور و فکر کے ذریعہ اختیار و انتخاب کرنا، مختلف ا مور کی انجام دہی میں بیرونی عوامل کا مہیا ہونا اور ان کی طرف باطنی کشش کے پائے جانے کے علاوہ امور کے صحیح یا غلط ہونے اور اسی طرح شائستہ اور ناشائستہ راستو ں کی ضرورت ہے، اور انسان اسی صورت میں غور و فکر کے ساتھ انتخاب کر سکتا ہے کہ جب ہدف اور اس تک پہنچنے والے راستہ کو اچھی طرح جانتا ہو ، اور اس کے فراز و نشیب ، پیچ و خم سے پوری طرح آگاہ ہو لہذا حکمت الٰہی کا تقاضا یہ ہے کہ ایسی معرفت کے حصول کے لئے خدا وند متعال ضروری وسائل و امکانات ، بشر کے اختیار میں قرار دے، وگرنہ اس کی مثال اس شخص کی ہوگی جو کسی کو اپنے مہمان سرا پر دعوت دے، لیکن اسے اس کا پتہ اور وہاں تک جانے والے راستہ کی نشاندہی نہ کرے ، ظاہرہے کہ ایسا عمل حکمت اور غرض کے خلاف ہوگا۔

یہ مقدمہ بھی چونکہ واضح ہے لہٰذا ا س کے لئے زیادہ وضاحت کی ضرورت نہیں ہے۔

تیسرا مقدمہ :یہ ہے کہ انسانوں کی وہ معمولی معرفت جو حس و عقل کی بنیاد پر حاصل ہوتی ہے اگر چہ انسانی ضروریات کو پورا کرنے میں اپنا پورا کردار ادا کرتی ہے لیکن سعادت حقیقی اور راہ کمال کو فردی و اجتماعی ، مادی  و معنوی، دنیوی و آخروی پہلوں کے لحاظ سے پہچاننے کے لئے کافی نہیں ہے، اور اگر ان مشکلات کے حل کے لئے کوئی اور راستہ نہ ہو تو انسان کی خلقت سے خدا کا ہدف پورا نہیں ہو سکتا۔

ان مقدمات کی بدولت ہم اس نتیجہ تک پہنچے ہیں کہ حکمت الٰہی کا تقاضا یہ ہے کہ راہ تکامل کی پہچان کے لئے حس و عقل کے علاو ہ کوئی دوسرا راستہ انسان کے اختیار میں ہونا چاہیے، تا کہ انسان   براہ راست یا ایک یا چند واسطہ کے ذریعہ اس سے مستفید ہو سکے، ہاں،یہ وہی وحی کا راستہ ہے جسے خدا نے اپنے انبیاء  (ع)کے اختیار میں دے دیا ہے، جس سے عوام، انبیاء  (ع)کے ذریعہ اور انبیاء  (ع) براہ راست مستفید ہوتے ہیں، اور جو چیز کمال نہائی اور سعادت کے حصول میں ضروری ہے اسے انسانوں کے اختیار میں قرار دیا ہے۔

ان تینوں مقدموں میں تیسرے مقدمہ کی بہ نسبت ممکن ہے کسی کے دل میں کوئی شبہ پیدا ہو لہٰذا اس سلسلہ میں تھوڑی سی وضاحت کریں گے تا کہ اس طرح راہ تکامل کی تشخیص میں علوم بشری کی کمزوری اور بشر کیلئے راہ وحی کی ضرورت پوری طرح روشن ہوجائے۔

بشری علوم کی ناکامی۔

زندگی کے صحیح راستہ کو اس کے تمام جوانب کے ساتھ پہچاننے کے لئے ضروری ہے کہ سب سے پہلے انسان کے آغاز و انجام نیز بقیہ موجودات کے ساتھ اس کے روا بط اور مخلوقات کے ساتھ اس کی معاشرت کے علاوہ سعادت و شقاوت میں اثر انداز ہونے والے مختلف پہلؤں کا جانا ضروری ہے      نیز مصالح و مفاسد ،سود و زیاں میں کمی اور زیادتی کی تشخیص بھی ضروری ہے، تا کہ اس طرح کھربوں انسان کے وظائف مشخص ہو سکیں، جو مختلف طبیعی اور اجتماعی شرائط اور بدنی او روحی تفاوت و اختلافات کے ساتھ زندگی گذار رہے ہیں، لیکن ان تمام امور پر ایک یا چند افراد کی بات کیا ہزاروں علو م انسانی کے ماہرین بھی اکٹھا ہوجائیں تو بھی ایسے پیچیدہ فارمولے کو کشف کرکے اسے منظم اصول و قوانین کی ایسی شکل نہیں دے سکتے کہ جو تمام انسانوں کے لئے فردی و اجتماعی، مادی، معنوی، دنیوی و اخروی  اعتبار سے مصالح و مفاسد کی ضمانت دے سکے، اس کے علاوہ بے شمار مصالح و مفاسد کے ٹکرائو کے دوران جو اکثر اوقات پیش آتے ہیں ان میں اہم کو انتخاب کر کے وظیفہ کو معین کرنا بھی ان کی استطاعت کے باہر ہے۔

تاریخ بشر میں بدلتے ہوئے قوانین نے اس بات کو ثابت کردیا ہے کہ ہزاروں سال تک ہزاروں حقوق دانوں کی تحقیق و جستجو سے آج تک کامل اور عیب و نقص سے مبرا قوانین کا ایک مجموعہ وجود میں نہیں آسکا ،بلکہ ہمیشہ قانون کو وضع کرنے والے ایک مدت کے بعد اپنے ہی وضع کردہ قانون میں خطا سے آگاہ ہوئے، یا تو اسے بدل دیا یا پھر اسے کسی دوسرے  وضع کردہ قانون کے ذریعہ کامل کردیا۔

لیکن اس مقام پر اس مطلب کی طرف توجہ مبذول رہے ،کہ انھوں نے بہت حد تک اپنے قوانین کو وضع کرنے میں الٰہی قوانین کا سہارا لیا ہے اور یہ بھی معلوم رہے، کہ قانون گذاروں کی تمام سعی و کوشش دنیوی اور اجتماعی زندگی کو سنوارنے کے لئے صرف ہوتی رہی ہے، لیکن کبھی بھی انھوں نے اخروی منافع کی طرف کوئی توجہ نہ دی اور دنیوی قوانین سے اس کا کوئی موازنہ نہیں کیا، بلکہ اگر وہ اس مسئلہ کو مد نظر رکھ کر قو انین وضع کرتے تو کبھی بھی اس راہ میں کامیاب نہ ہوتے، اس لئے کہ مادی اور دنیوی مصلحتوں کو ایک حد تک تجربوں کے ذریعہ معین کیا جاسکتا ہے لیکن معنوی اور اخروی مصلحتیں کسی بھی حال میںتجربہ حسی کے قابل نہیں ہیں، اور پوری طرح سے اس کے مصالح کا اندازہ نہیں لگایا جاسکتا، اسی طرح ان کے لئے مصالح اخروی اور مصالح دنیوی کے ٹکرائو کے ہنگام اہم ومہم کو تشخیص دینا بھی غیر ممکن ہے؟

بشر کے موجودہ قوانین کی حالت کو دیکھتے ہوئے ہزاروں سال پہلے جینے والے انسانوں کے علوم کا انداہ لگایا جا سکتا ہے اور یہ قطعی نتیجہ حاصل کیا جا سکتا ہے کہ گذشتہ ادوار میں جینے والے اس عصر میں جینے والوں کے مقابلہ میں زندگی کے صحیح راستہ کی تشخیص میں نہایت ناتواں تھے، اور اگر یہ فرض کرلیا جائے کہ اس عصر کے انسانوں سے ہزاروں سالہ تجربات کے پیش نظر کامل قوانین کے مجموعہ کو وضع کرنے میں کامیابی حاصل کر بھی لی ہے یا بالفرض یہ قوانین انسانوں کی اخروی سعادت کے ضامن بھی بن گئے ہیں، لیکن پھر بھی یہ سوال اپنی جگہ باقی ہے کہ کس طرح ہزاروں انسانوں کو ان کی جہالت میں چھوڑ دینا حکمت الٰہی سے سازگار ہے؟

نتیجہ۔ آغاز سے انجام تک انسانوں کی خلقت کا ہدف اسی صورت میں قابل تحقّق ہے کہ جب زندگی کے حقائق اور فردی و اجتماعی وظائف کی معرفت کے لئے حس و عقل سے ماورا کوئی دوسرا راستہ بھی موجود ہو، اور وہ راستہ وحی کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں ہوسکتا۔

اس بحث کی روشنی میں یہ مطلب بھی واضح ہوگیا کہ اس برہان کا تقاضا یہ ہے کہ اس زمین پر قدم رکھنے والے سب سے پہلے انسان کا نبی ہونا ضروری ہے تا کہ وہ وحی کے ذریعہ زندگی کے صحیح طریقہ کو پہچانے اور ہدف خلقت اُس کے متعلق متحقق ہوجائے اور اس کے بعد آنے والے انسان اسی کے ذریعہ ہدایت یافتہ ہوں۔

بعثت انبیاء  (ع) کے فوائد۔

انبیاء الٰہی انسانوں کے کمال کو مشخص کرنے اور وحی کو دریافت کرنے کے بعد لوگوں کے سامنے اُسے بیان کرنے کے علاوہ انسانوں کے تکامل(بتدریج کمال تک پہنچنے) کے لئے دوسرے مہم راستوں سے بھی آگاہ تھے جو درج دیل ہیں۔

١۔ بہت سے ایسے مطا لب ہیں کہ جنھیں درک کرنے کے لئے انسانی عقول میں طاقت نہیں ہے، بلکہ اسے سمجھنے کے لئے گذشتہ زمانے کے علاوہ بے شمار تجربوں کی ضرورت ہے یا پھر وہ مطالب حیوانی خواہشات میں ملوث ہونے اور مادیات سے وا بسطہ ہونے کی وجہ سے فراموشی کا شکار ہوگئے ہیں، یا پھر زہریلی تبلیغات اور لوگوں کے درمیان غلط پروپگنڈوں کی وجہ سے مخفی ہوگئے ہیں، ایسے مطالب بھی انبیاء الٰہی کی جانب سے بیان کئے جاتے ہیں جنھیں پے درپے تذکرات اور بار بار تکرار کے ذریعہ پوری طرح فراموش ہونے سے بچا لیا جاتا ہے اور صحیح تعلیم کے ذریعہ ایسی زہریلی تبلیغات کے اثرات سے محفوظ کردیا جاتا ہے۔

یہیں سے انبیاء  (ع)کا ”مذکِّر” اور ”نذیر” اور قرآن کا ”ذکر” اور تذکرہ” جیسی صفات سے متصف ہونا سمجھ میں آتا ہے امام علی علیہ السلام بعثت انبیاء  (ع) کی حکمتوں کو بیان کرنے کے دوران فرماتے ہیں(لِیسَتأدُوہم میثاقَ فِطرَتہ و یُذکِّروہم مَنسِِّ نِعمَتِہ وَ یَحتجّوا عَلَیہم

بِالتّبلیغ)یعنی خدا نے اپنے رسولوں کو پے در پے بھیجا تا کہ لوگوں سے پیمان فطرت پر وفاداری کا اقرار لیں، فراموش شدہ نعمتوں کی یاد دلائیں اور تبلیغ کے ذریعہ اتمام حجت کریں:

٢۔انسان کے تکامل(کمال کے آخری درجہ تک پہنچنے) کے مہم ترین عوامل میں سے اسوہ اور نمونہ کا ہونا ہے کہ جس کی ا ہمیت علم نفسیات ثابت ہے انبیاء الٰہی انسان کامل اور دست الٰہی کے ہاتھوں تربیت پانے کی وجہ سے اس کردار کو بہترین صورت میں پیش کرتے ہیں، لوگوںکو اپنی تعلیمات  کامیابی حاصل کرنے کے علاوہ ان کی تربیت اور تزکیہ کا اہتمام بھی کرتے ہیں، اور ہمیں یہ معلوم ہے کہ قرآن میں تعلیم و تزکیہ کو باہم ذکر کیا گیا ہے یہاں تک کہ بعض مقامات پر تزکیہ کو تعلیم پر مقدم کیا گیا ہے۔

٣۔ لوگوں کے درمیان  انبیاء  (ع)کے موجودہونے کی برکات میں سے ایک برکت یہ بھی ہے کہ صورتحال کے موافق ہوتے ہی لوگوں کی سیاسی، اجتماعی رہبری کو بھی سنبھالتے ہیں، اور یہ امر بخوبی روشن ہے کہ ایک سماج کے لئے معصوم رہبر کا ہونا عظیم نعمتوں میں سے ہے اس لئے کہ اس کے ذریعہ سماج کی بہت سی مشکلات کو روک دیا جاتا ہے، اور سماج اختلاف ،گمراہی اور کج روی سے نجات پاجاتا ہے اور کمال کی جانب گامزن ہوجاتا ہے۔

تبصرے
Loading...