ايمان کي علامتیں

 

سيّد علي حسيني خامنہ اي

پیغمبر(ص)واھل بیت(ع)> متفرق مقالات

کتابیں>اخلاق و معنویت

2010/3/3 »

خلاصہ :

ايمان کي علامتيں گناہ انجام نہ دينا ، خدا سے ڈرنا ، بندگان خدا کے ساتھ اچھا برتاو کرنا ، دشمنان خدا کے ساتھ سختي اور دشمني سے پیش آنا ، مومنوں کے چھوٹے موٹے اختلافات کو نظر انداز کر دينا وغيرہ ہيں ۔ 

در حقيقت ، ايمان اگر محبت و خلوص جيسے رابطوں سے عاري ہو تو اس کي کوئي حيثيت نہيں ہے ۔يہ محبت ہي ہے جو ميدان عمل ميں ايمان کو اہميت و ارزش بخشتي ہے ۔ محبت و خلوص کے بغير کسي تحريک کو آگے نہيں بڑھايا جا سکتا ۔ اسلامي نقطہ نظر سے عشق و محبت کا عالي ترين عنوان ’’ محبت اہلبيت ‘‘ ہمارے پاس ہے ۔ اس محبت کا عروج ہميں کربلا ميں روز عاشورا ديکھنے کو ملا کہ چند افراد پر مشتمل ايک گروہ نے تاريخ و تمدن تشيع کي ايک ايسي بنياد ڈالي کہ آج بھي اس تاريخ و تمدن کے نقوش روز بروز روشن ہوتے جا رہے ہيں ۔ 

متن:

ايمان کي علامتيں گناہ انجام نہ دينا ، خدا سے ڈرنا ، بندگان خدا کے ساتھ اچھا برتاو کرنا ، دشمنان خدا کے ساتھ سختي اور دشمني سے پیش آنا ، مومنوں کے چھوٹے موٹے اختلافات کو نظر انداز کر دينا وغيرہ ہيں ۔ 

در حقيقت ، ايمان اگر محبت و خلوص جيسے رابطوں سے عاري ہو تو اس کي کوئي حيثيت نہيں ہے ۔يہ محبت ہي ہے جو ميدان عمل ميں ايمان کو اہميت و ارزش بخشتي ہے ۔ محبت و خلوص کے بغير کسي تحريک کو آگے نہيں بڑھايا جا سکتا ۔ اسلامي نقطہ نظر سے عشق و محبت کا عالي ترين عنوان ’’ محبت اہلبيت ‘‘ ہمارے پاس ہے ۔ اس محبت کا عروج ہميں کربلا ميں روز عاشورا ديکھنے کو ملا کہ چند افراد پر مشتمل ايک گروہ نے تاريخ و تمدن تشيع کي ايک ايسي بنياد ڈالي کہ آج بھي اس تاريخ و تمدن کے نقوش روز بروز روشن ہوتے جا رہے ہيں ۔ 

دنيا ميں رونما ہونے والے انقلاب ، حکومتيں ، ادارے وغيرہ اس وقت منحرف ہوتے ہيں جب ان کے اندر معنويت ، ايمان ، خدا سے رابطہ وغيرہ کا فقدان ہو جاتا ہے ۔ انقلاب جمہوري اسلامي سے متعلق بھي اگر غور کيا جائے تو ہميں انھيں مقامات پر خفت کا سامنا کرنا پڑا ہے جہاں مذکورہ بالا صفات کا فقدان پايا گيا ۔ 

ہمارے اور خدا وند عالم کے درميان تعلق و ارتباط کو غير اہم شمار نہيں کيا جانا چاہيے ہماري زندگي کا انحصار ہي اس رابطہ اور تعلق پر ہے ۔ يہي رابطہ ہے جو دشمن سے مقابلہ کرتے وقت ہمارے دل کي ڈھارس بنا رہتا ہے ۔ يہي رابطہ ہے جو ہميں مومنوںسے محبت کرنے پر اکساتا ہے تاکہ ہم آپسي کے اختلافات کو نظر انداز کر سکيں ۔ يہي رابطہ ہے جو ہم سے کہتا ہے کہ اپني خواہشات کي بنا پر ہم حقائق کو نظر انداز نہ کريں ، اپني ذاتي غرض کي خاطر خدائي مصلحتوں کو فراموش نہ کريں ۔ يہي رابطہ ہے جو ہميں صراط مستقيم سے منحرف ہونے سے بچنے اور اس راہ ميں پيش آنے والي مشکلات و مسائل کو ہمارے لئے آسان کرتا ہے ۔ يہ ايک ايسا رابطہ و تعلق ہے جو ہميشہ اور ہر حال ميں ہمارے لئے ممکن ہے ۔ 

جمہوري اسلامي کي اسلامي تحريک ، اسلامي انقلاب اور اس کي برکت سے دوسري اسلامي اقوام و ملتوں کے پاس آج جو کچھ بھي ہے وہ خدا پر توکل ، خدا پر بھروسہ اور ذکر خدا کي وجہ سے ہے ۔ اس طرف سے ہميں کسي لمحے بھي غافل نہيں رہنا چاہيے ۔ اگر خدا پر بھروسہ اور توکل نہ ہوتا تو مشکل سے ہي تصور کيا جا سکتا تھا کہ ايران ميں کبھي اسلامي انقلاب آسکے گا ۔ اس اسلامي انقلاب کي اساس اور بنياد انسان سازي پر رکھي گئي ہے ۔ پہلے مرحلے ميں انسان سازي يعني دل کي تعمير اور روح کا آباد کرنا ہے ۔ دنيا اگر نعمتوں اور لذتوں سے پر ہو ليکن انسان اخلاق ، انسانيت اور دينداري سے عاري ہو تو يہ دنيا اہل دنيا کو کچھ نہيں دے سکتي ، بشريت کو آسائش اور تسکين نہيں بخش سکتي ۔ انسان کي آسائش کي تسکين کا سامان اس اخلاق سے فراہم کيا جا سکتا جس کا سر چشمہ دين ہے ۔ دنيا ميں اگر اخلاق و معنويت اور دين نہ پايا جائے تو وہي ہوگا جس کا ہم آج اس دنيا مين مشاہدہ کر رہے ہيں کہ چند استکباري قوتيں اور طاقتيں دنيا کي ايک بڑي مظلوم آبادي پر اپنے مظالم کا منھ کھولے ہوئے ہيں ۔ 

اسلامي انقلاب کے عوامل 

اسلامي انقلاب کن عوامل کي بنياد پر عالم وجود ميں آيا ہے ؟ اسلامي انقلاب کسي ايک وجہ سے نہيں بلکہ متعدد و مختلف عوامل کي بنا پر رونما ہوا ہے ۔ اسلامي انقلاب کو سمجھنے کے لئے علمي ، تاريخي،جامعہ شناس اور عميق و دقيق نگاہ کي ضرورت ہے کہ انسان آئے اور غور و فکر کرے ۔ البتہ يہ انقلاب کن عوامل کي بنا پر رونما ہوا ، ايک طويل علمي بحث ہے ليکن اتنا ضرور کہا جا سکتا ہے کہ وہ چيز جس کے ذريعہ اس انقلاب کي روح اور گہرائي تک پہنچا جا سکتا ہے ،وہ حُبِ خدا ، الہي تکاليف کي انجام دہي اور قيام ? یعني خدا کے لئے اٹھ کھڑا رہنا ہے ۔ يہ بھي ممکن ہے کہ بعض افراد کے اذہان ميں دوسرے عوامل مثلاً جنگ وغيرہ بھي آئيں ليکن يہ بھي صحيح ہيں اور يہ بھي اس انقلاب کي علتوں ميں شامل ہيں ۔ 

اسي طرح کي علتيں انقلاب سے پہلے بھي اذہان ميں پائي جاتي تھيں اور يہ انقلاب کے رونما ہونے ميں موثر تھيں ليکن ان تمام عوامل کے پس پشت بھي ايک طاقت کار فرما تھي اور وہ تھي روح ديني اور ذمہ داري و وظیفہ کي انجام دہي کے احساس کي طاقت کيونکہ ظلم و ستم سے مقابلہ ، فساد سے مبارزہ ، پسماندگي ، فقر وغيرہ سے جنگ ان موارد ميں سے ہيں جو رضائے الہي کا باعث بنتے ہيں ۔ خدا وند عالم نے بھي انسان کیلئے مختلف مقامات پر اس طرح کے احکامات بیان فرمائے ہيں ۔ 

اگر عنصر ديني نہ پايا جائے تو اس طرح کے عوامل سماج کے ہر طبقے ميں عميق و وسيع صورت ميں سامنے آتے ہيں ۔ يہي وجہ ہے کہ يہ انقلاب ايک ختم نہ ہونے والا انقلاب ہے ۔ اگر عنصر ديني نہ پايا جائے تو کوئي بھي تحريک ہو مختصر سے عرصے کے بعد دم توڑ ديتي ہے ۔ 

چند معین شدہ افراد ايک سمت ميں آگے بڑھتے ہيں اور پھر آہستہ آہستہ اپني اپني جگہ خاموش بيٹھ جاتے ہيں يا چند افراد اپنے اہداف تک رسائي حاصل کر ليتے ہيں اور چند ديگر حکومت و جاہ و حشم ميں پھنس کر رہ جاتے ہيںايک گروہ عيش و عشرت کا شکار ہو جاتا ہے اور دوسرا فقر و فاقہ کا ۔

اس طرح آہستہ آہستہ يہ قصہ يہيں ختم ہو جاتا ہے ۔ 

اس کي مثال دنيا کي مختلف تحريکوں اور انقلابوں ميں بطور عياں ديکھي جا سکتي ہے کيونکہ ان تحريکوں ميں اسم خدا ، نام خدا ، ياد خدا ، عنصر عبادت و اخلاص نہيں پايا جاتا تھا ، امام خميني ۲ کے جيسا کوئي الہي معنوي رہبر موجود نہيں تھا ، لہذا يہ تحريکيں اپنا ذرا سا بھي اثر چھوڑ ے بغير مختصر سے عرصے ميں ختم ہو گئيں ليکن اسلامي انقلاب ميں معاشرے کے سارے افراد ، مرد و زن ، بوڑھے ، بچے شريک تھے حتي ايسے افراد بھي اس انقلاب ميں پيش پيش تھے جو اجتماعي امور ميں کبھي دخيل نہيں رہے تھے ۔ اس کے علاوہ ايسے افراد کو بھي ديکھا گيا کہ جنھوں نے اپني پوري زندگي ميں خود اپني خاطر کبھي کوئي بڑا اور خطرناک کام انجام نہيں ديا تھا ۔ 

يہ تھا اسلامي انقلاب اور ايسا انقلاب کہ ساري اسلامي تاريخ پہلي اسلامي حکومت کے بعد سے ہمارے زمانے تک ايسا انقلاب نہيں دکھا سکتي ۔ آخر يہ کيسا انقلاب تھا ؟ اس انقلاب کے پس منظر ميں کون سي طاقت کار فرما تھي ؟ 

يہ طاقت تھي اسلامي طاقت ، قرآني طاقت ، ديني طاقت ۔اس انقلاب کي بنياد اس نکتہ پر رکھي گئي تھي کہ آئندہ آنے والي حکومت ایک اسلامي حکومت ہوگي ، قوانين ، اسلامي قوانين ہوں گے ۔ آپ تاريخ اٹھا کر ديکھ ليں ايسا آپ کو کہيں نہيں ملے گا ۔ 

البتہ يہ بھي ايک حقيقت ہے کہ آج کچھ افراد ناشکري کر رہے ہيں ۔ خدا کي نعمتوں کو حقير شمار کرتے ہيں ۔ بطور مثال اگر کسي عدالت نے ايسا کوئي حکم صادر کر ديا ہے ، کسي سرکاري افسر نے کہيں کوئي ايسي بات کہہ دي ہے جو ان لوگوں کے مزاج اور مرضي کے خلاف ہوتي ہے تو ايک واويلا مچ جاتا ہے ۔ انقلاب ، حکومت ، جمہوري اسلامي ، ولايت یعني اس عظيم تحريک کے تمام جوانب پر ايک سواليہ نشان لگا ديتے ہيں ۔ ہر چيز کي مخالفت شروع کر ديتے ہيں جب کہ يہ لوگ اصل حقیقت آشنا بھي نہيں ہوتے ۔ 

حقيقت يہ ہے کہ آج انقلاب کے اتنے سال گزرنے کے بعد بھي دنيا کے کونے کونے سے ہمارے پاس مسلمان دانشمند و علمائ حضرات تشريف لاتے ہيں اور ہم سے يہ کہتے ہيں کہ آپ ايران ميں زندگي گزارتے ہيں ، آپ نے اپنے ہاتھوں سے انقلاب کي آبياري کي ہے ، آپ کو احساس نہيں ہے کہ آپ کا برپا کيا ہوا يہ انقلاب کتنا عظيم انقلاب ہے ۔ يہ انقلاب تاريخ کا منفرد انقلاب ہے ۔ 

ايک ايسا ملک جو امريکہ کي پناہ گاہ تھا ، جس کے وزرائ دنيا کي استکباري طاقتوں کے آگے جبہ سائي کرتے تھے ، جس ملک کي حکومت حاکموں کے گھروں (خاندانوں)ميں تقسيم ہوتي تھي ، روز بروز معاشرے کو دين سے جدا کيا جا رہا تھا ، عوام کو زبردست اخلاقي پسماندگي ، جنسي بے راہ و روي کي طرف مائل کيا جا رہاتھا ، اگر ايسے ملک ميں کوئي آئے اور ايک مستقل، آزاد و عوامي حکومت کي بنياد رکھے تو يہ کوئي معمولي بات نہيں ہے ۔ عوام کے عام طبقے سے خواص تک سبھي انسان ، پارليمينٹ کے اراکين ، قوہ قضائيہ و مجريہ اور فوج وغيرہ کے ذمہ دار افراد سبھي مومن و متدين ہيں ۔ ان ميں سے بعض نافلہ خوان اور نماز شب کے پابند بھي ہيں ۔ ايران کوئي عام ملک نہيں ہے بلکہ ايک ايسا ملک ہے جو امريکہ جيسي طاقت سے بھي بغير کسي خوف و خطر کے ٹکرا جاتا ہے ۔ 

يہ معمولي نکات نہيں ہيں بلکہ قابل غور و اہم ہيں ۔ بہر حال اگر اسلامي حکومت کے تحت کچھ موارد ايسے مل جائيں جن پر اعتراض کيا جا سکے تو کيا حضرت علي ٴ کے دور حکومت ميں ايسے موارد نہيں تھے ؟ کيا اس وقت بد اخلاقي نہيں تھي ؟ حد شرعي جاري نہيں ہوتي تھي ؟ کيا اس زمانے ميں چورياں نہيں ہوتي تھيں ؟ يقينا تاريخ کي روشني ميں کہا جاسکتا ہے کہ يہ سب کچھ تھا ليکن يہ بھي حقيقت ہے کہ جہاں چورياں ہوتي تھيں وہيں حدود شرعي بھي جاري ہوتي تھي ۔ قابل اعتراض يہ نہيں کہ چوري ہو اور حد شرعي بھي جاري ہو بلکہ قابل اعتراض يہ ہے کہ چوراور فاسد افراد کے خلاف حدود شرعي جاري نہ ہوں اور ان کو دين کي طرف مائل نہ کيا جائے ۔ 

ايک معاشرے ميں، ايک قوم کي تعليم و تربيت ايک مختصر عرصے ميں يعني چند برسوں ميں تو نہيں کي جا سکتي ۔ اس کے لئے ايک طويل زمانہ چاہيے ۔ جمہوري اسلامي ایران کا اسلامي انقلاب ، اتنا عظيم واقعہ ! دوسرے افراد بھي اس بات کي تائيد کرتے ہيں اور ہم بھي اس بارے ميں غور و فکر کرتے ہيں کہ ايک دن آئے گا کہ يہي اسلامي انقلاب ايک بڑي اور عالمي تحريک ميں تبديل ہو جائے گا ۔ اس انقلاب کو ايک عظيم انقلاب کہا جا رہا ہے ۔ اس کي وجہ بھي واضح ہے اور وہ يہ کہ امريکہ ، اسرائيل ، استکباري طاقتيں اور عالمي قوتيں اس اسلامي نظام کو کسي بھي صورت ميں قبول نہيں کر پا رہي ہيں يہي وجہ ہے کہ اس عظيم تحريک کي ساري دنيا مخالفت کر رہي ہے ۔ ايک ايسي قوم کو جو اتنا عظيم انقلاب برپا کر دے اور پھر اس انقلاب کے خاطر خواہ نتائج بھي ظاہر ہو جائيں ، اسي پر اکتفا نہيں کرنا چاہيے بلکہ روز بروز ترقي کي طرف مائل رہنا چاہيے ۔ 

امريکہ اور اس وقت کي روس جيسي عالمي طاقتيں موجودہ اسلامي نظام کي از اول مخالف تھيں ۔ بحمد ? روس ختم ہو گيا ليکن امريکہ ابھي تک اپني تمام تر پليدگيوں کے ساتھ باقي ہے ۔ امريکہ نے ايران کے سلسلے ميں اپني مخالفت اس طرح ظاہر کي کہ عراق کے پس پردہ ايران کے ساتھ آٹھ سال تک جنگ لڑي ليکن يہ اس انقلاب کي برکت تھي کہ ہماري قوم نے ان تمام مشکلات کا سامنا کيا اور دشمن کو منھ کي کھاني پڑي ۔ 

مذکورہ عالمي استکباري طاقتوں ميں سے ہر طاقت ميں اتني صلاحيت ہے کہ ايک نظام يا حکومت کو تہہ و بالا کر دے ليکن ايران کے خلاف اقتصادي پابندياں ، جديد ترين اسلحہ جات کے ذريعہ طويل جنگ اس پر مستزاد عالمي پروپيگنڈہ بھي ايران کا کچھ نہ بگاڑ سکا ۔آٹھ سال تک طويل جنگ لڑنے کے باوجود بھي ايران کي ايک انچ زمين حاصل نہ کي جا سکي ۔ يہ کوئي معمولي کارنامہ نہيں ہے بلکہ يہ ايک عظيم کارنامہ ہے ۔ 

يہ عظيم کارنامہ اس انقلاب اور اس نظام حکومت کي ہي برکت تھي کہ ايران و عراق کے مابين ٨ سالہ جنگ ختم ہوئي اور ايک مرتبہ پھر ملک کي ترقي اور فلاح و بہبود کے لئے کوششيں شروع کر دي گئيں ۔ آج آپ ملک کے کسي بھي گوشے ميں چلے جائيں آپ کو ايسے افراد مل جائيں گے جو ملک کي آئندہ خوشحالي کے لئے کوشاں ہيں۔ ملت ، قوم ، افسران بالا وغيرہ سبھي اس سمت ميں جد و جہد کر رہے ہيں ۔ يہ اس انقلاب کا اثر ہے اور يہ آئندہ بھي دوام حاصل کرے گا ۔ ملک کي خوشحالي ، رفاہ اور فلاح و بہبود کے لئے شروع کي گئي يہ تحريک مستقبل ميں بھي باقي رہے گي ۔ ہماري قوم کسي بھي صورت ميں ميدان چھوڑ کر فرار اختيار نہيں کر سکتي ۔ 

يہ سب دين کي برکتيں ہيں ۔ يہ انقلاب ، دين و مذہب سے جدا انقلاب نہيں ہے ۔ يہ سياسي پارٹيوں اور مختلف اشخاص کے نظريات پر مبني انقلاب نہيں ہے بلکہ ايک ايسا انقلاب ہے جو ايک متدين اور مذہبي قوم کے ذريعہ عالم وجود ميں لايا گيا ہے ۔ لہذا اس انقلاب کا اصل عنصر بھي يہي ہے ۔

ہمارے معاشرے کي سعادت کا راز خدا پر ايمان 

ملت ايران بنام اسلام رو بہ ترقي ہے اور اسلام ہي کي خاطر جد و جہد کر رہي ہے اسي بنا پر يہ عظيم واقعہ بھي رونما ہوا کہ عصر حاضر ميں دين خدا اور اسلامي تعليمات کي اساس پر ايک نظام حکومت و معاشرہ کي بنياد پڑي ۔مادي وسائل کے ذريعہ کسي بھي قيمت پر يہ چيز ممکن نہيں تھي ۔ اسلامي اقوام ، ايران کي اس اسلامي تحريک کي طرف شدت سے مائل ہيں ۔ يہ مبالغہ نہيں ہے بلکہ ايک حقيقت ہے ۔ اس اسلامي مملکت کے خلاف وسيع پيمانے پر پروپيگنڈہ کے با و جود ہم ديکھ رہے ہيں کہ مسلمان قوميں ايران کے اسلامي انقلاب کے متعلق پر اميد ہيں اور اسي لئے اس سمت ميں حرکت بھي کر رہي ہيں ۔ آج دنيا ميں شايد ہي کوئي مسلمان قوم ہو جو اس اسلامي تحريک سے متاثر نہ ہو ۔ 

مسلمان قوموں ميں اس انقلاب سے متعلق يہ اميد و تمائل اسي صورت ميں باقي رہ سکتا ہے جب ہم دين خدا پر ايمان رکھتے ہوئے ذرہ برابر انحراف کا شکار نہ ہوں۔ عالمي طاقتوں ، عالمي مسائل ، ملکي سياست ، خارجي و داخلي سياست سے بھي ہم مذکورہ صورت ميں ہي مقابلہ کر سکتے ہيں ۔ 

ہميں چاہيے کہ معاشرے سے اس راز سعادت یعني ايمان بہ خدا کو اپني زندگي اور معاشرے ميں لمحہ بہ لمحہ قوي اور مستحکم کريں ۔ ملک و ملت کو اسلامي تعليمات کي طرف بيشتر راغب کريں ۔ معاشرے کے جوان طبقے کو اسلامي تعليم و تربيت پر عمل پيرا ہونے کي عملي دعوت ديں ۔ ہماري دانشگاہوں کا فريضہ ہے کہ وہ جوانوں کو نہ فقط عالم بلکہ مسلمان عالم با عمل بنا کر معاشرے ميں پيش کريں اور يہي اسکول وکالج وغيرہ کي بھي ذمہ داري ہے ۔ غير ازيں يہ بھي ہماري ذمہ داري ہے کہ معاشرے ميں اسلامي تعليمات کو اس قدر رائج کريں کہ دوسري تمام تعليمات و افکار ماند پڑ جائيں ۔ 

خدا پرايمان اسلامي فوج کا امتياز 

اگر چہ فوج کے لئے اسلحہ وغيرہ بنيادي ضرروتوں ميں سے ہے ليکن وہ چيز جو ہماري اسلامي فوج کو دوسري افواج سے متمائز کرتي ہے وہ خدا پر ایمان ، فرمان الہي کي انجام دہي اور جہاد في سبيل ا? کا احساس ہے ۔ يہ وہ اصل عنصر ہے کہ اگر اس کو جدا کر ديا جائے تو ہماري اسلامي فوج بھي دوسرے ممالک کي افواج کي طرح فقط افراد پر مبني فوج ہو کر رہ جائے گي يعني اگر اسلحہ جات ، افراد ، استعداد وغيرہ پر تسلط حاصل ہو گيا تو ممکن ہے کہ استقامت پيدا ہو جائے ليکن اگر دشمن کي طاقت ہم سے ذرا سي زيادہ ہو گئي تو ممکن نہيں ہے کہ ہم مقابلہ کر سکيں ۔ 

آج ہم سب پر واضح ہے کہ اسلام دشمن طاقتيں تعداد اور افراد يعني ماديات کے لحاظ سے اسلامي مملکت اور افواج سے قوي تر ہیں ۔ قوي تر اس صورت ميں ہيں جب ہم ايمان کو اسلامي افواج سے خارج کر ديں ليکن اگر ايمان کو مد نظر رکھ کر ديکھا جائے تو دنيا کي بڑي سے بڑي طاقت اسلامي لشکر کا مقابلہ نہيں کر سکتي ۔ يہي وہ عنصر ہے جس کو ہميں اپني فوج ميں راسخ کرنا ہے ورنہ ظاہري قدرت و طاقت کوئي ايسي چيز نہيں ہے جس ميں ہم ان کا مقابلہ نہيں کر سکتے کيونکہ صرف اتنا ہي توہے کہ يہ طاقتيں ہم سے اس ميدان ميں آگے ہيں۔ اگر ہم کوشش کريں تو اس ميدان ميں ہم بھي ان کا مقابلہ کر سکتے ہيں ۔ ايمان ايک ايسا عامل اور ايک ايسا عنصر ہے جو ہمارے قبضہ قدرت ميں ہے ۔ہميں چاہيے کہ ہم اسے اپني دفاعي افواج کي رگ رگ ميں داخل کر ديں ۔ 

ہمارے انقلاب کي تاريخ ہے کہ ہم جب بھي فاتح ہوئے اسي ايماني قوت کي بنا پر اور جب بھي ہم نے دشمن کے ہاتھوں شکست کھائي اسي ايمان کے نہ ہونے کي بنا پر ۔ اگر عراق کے خلاف ہماري دفاعي جنگ ميں کئے گئے ہمارے مختلف فوجي آپريشن کا تجزيہ کيا جائے تو نتيجہ وہي بر آمد ہو گا جو ذکر کيا جا چکا ہے ۔ جہاں جہاں ہمارے قلوب حرارت ايماني سے شعلہ ور تھے وہاں وہاں ہم نے تمام رکاوٹوں کو جڑ سے اکھاڑ پھينکا تھا اور جس جس مقام پر ہم نے ماديات اور ظاہري فتوحات کي طرف مائل ہو کر فرمان الہي اور احکام شرعي کو پس پشت ڈال ديا تھا اس اس مقام پر مغلوب ہو گئے تھے ۔ 

خدا کے ساتھ رابطے کي برقراري ہم سب کي ذمہ داري ہے

اس مقام پر ہمارے لئے ضروري ہے کہ ہم اپني ذمہ داريوں کي شناخت حاصل کريں ۔ ہم ميں سے ہر فرد کي ذمہ داري ہے کہ خدا پر ايمان اور خدا کے ساتھ رابطہ کو برقرار رکھے اور کسي بھي قيمت پر اس کو منقطع نہ ہونے دے ۔ خدا کے ساتھ ارتباط و رابطہ سے مراد يہ ہے کہ ہم اپنے قلب ، عمل ، اخلاق ، رفتار و گفتار کو رضائے الہي کے مطابق قرار ديں ۔ خود پرستي ، دروغ گوئي ، تہمت ، فريب ، نفس پرستي و خواہشات نفساني سے پرہيز کريں ۔ ياد خدا ، ذکر خدا ، توجہ بہ خدا ، نفس امارہ کي مخالفت اور عبادت حقيقي کو روز بروز اپنے اندر قوي سے قوي تر کريں ۔ يہي ہم سب کي ذمہ داري ہے ۔ 

گذشتہ ٢٠ ،٢٥ برسوں ميں ہماري ملت کے اسلامي مجاہدين کي شجاعت ، قدرت توانائي ، ايثار ، روحي استقلال ، خود اعتمادي اور خدا پر توکل وغيرہ کے متعلق جو کچھ گزرا ہے وہ کسي بھي طرح قابل تعريف نہيں ہے ۔ ہماري ملت کے شجاع مردوں اور غيور عورتوں نے دور حاضر کي عالمي طاقتوں کے جديد ترين اسلحوں کا مقابلہ کيا ہے اور انہيں ناکارہ بنا ديا ہے ۔ ان واقعات کا بيان آخر کس طرح کيا جا سکتا ہے ! ان واقعات کو قلم و کاغذ کے ذريعہ مقيد نہيں کيا جا سکتا بلکہ يہ ان سے بھي ماورائ چیزیں ہيں ۔ 

ايماني قوت کے مقابل استکباري قوت کي کوئي حیثیت نہيں ہے

دور حاضر کے عالمي استکبار کے پاس کيا ہے ؟ آخر امريکہ کے پاس کيا ہے کہ مختلف ممالک اور حکومتوں پر اپنا حکم چلاتا ہے ؟ مادي اسلحہ ، پيسہ ، ايٹم بم ، جنگي جہاز ، جديد ٹيکنالوجي …. اور کيا ہے ؟ ليکن يہ کہا جا سکتا ہے کہ ظاہري قدرت کے لحاظ سے يہ چيزيں يقينا اہميت کي حامل ہيں ليکن ايمان کے مقابلے ميں ان کے پاس کيا ہے ؟ ايمان ايک ايسي طاقت ہے کہ امريکہ کي ساري ظاہري توانائي و طاقت بھي اس طاقت کے مقابلے ميںصفر ہے ۔ 

بحمدہ تعالي ہماري ملت اس ايماني قوت سے مالا مال ہے اور يہي وجہ ہے کہ ساري دنيا ميں ظاہري طاقتيں مل کر بھي ايران کے اسلامي انقلاب کو مغلوب نہيں کر سکتيں ۔ ملت ايران اس عميق ايمان کي بنا پر ايک مغلوب نہ ہونے والي ملت ہے ۔ کوئي طاقت اس ملت کو شکست نہيں دے سکتي ۔ نہ خارجي دشمن اور نہ داخلي دشمن ۔ 

نصرت خدا اور مومنين پر اعتماد 

اہم امور کے سلسلے ميں فقط خدا کي نصرت اور عوام الناس کے ايمان پر تکيہ کرنا چاہيے ۔ ظاہري طاقت و قوت ، اسلحہ ، پيسہ وغيرہ کسي خاص اہميت کے حامل نہيں ہيں ۔ البتہ اس بات کا بھي خيال رکھنا چاہيے کہ نصرت الہي اور عوام الناس کا ایمان ايک دوسرے کے مساوي نہيں ہيں يعني جب ہم خدا اور نصرت خدا پر بھروسہ کريں گے تو خود بخود لوگوں کے قلوب خدا وند عالم کي طرف مائل ہو جائيں گے ۔ 

خدا وند تبارک و تعالي نے رسول گرامي کو عظيم ترين ذمہ دارياں عطا کرنے کے بعد فرمايا ? ھو الذي ايدک بنصرہ و بالمومنين ? ( سورہ انفال ٦٢ ) يعني اسي نصرت خدا اور مومنين کي امداد نے تمہيں آگے بڑھنے ميں مدد کي ہے ۔ يہي وجہ ہے کہ ہميں يقين ہے کہ جب ظاہري طاقتيں حق کے مقابل آتي ہيں تو ہيچ ہوجاتي ہیں ۔ اگر باطل سے بے اعتنائي برتي جائے اور اپنے ارادے اور نصرت خدا کے سہارے اس کا مقابلہ کيا جائے تو باطل کچھ نہيں کر سکتا ۔ جب کبھي بھي عوامي طاقت کے ذريعہ مقابلہ کيا جائے گا باطل خود بخود عقب نشيني اختيار کرنے پر مجبور ہو جائے گا ۔ 

اس ايمان کو قوي اور مستحکم ہونا چاہيے اور ملت کو اپني ايماني طاقت کے سہارے پيش قدمي کرنا چاہيے يعني نصرت الہي پر اعتماد کرتے ہوئے آگے بڑھنا چاہيے۔ مشکلات و مسائل سے خوفزدہ نہيں ہونا چاہيے تاکہ دشمن ہمارے اندر خود کو نافذ نہ کر سکے ۔ ماضي ميں ايسے افراد تھے جو

نہايت سطحي افکار کے حامل تھے اور فقط ظاہر کو ديکھ کر فيصلہ کر ليا کرتے تھے البتہ ان افراد کو متہم نہيں کيا جا سکتا ليکن اتنا ضرور ہے کہ يہ افراد باور نہيں کر پاتے تھے کہ ہماري قوم بھي دشمن کاخاطر خواہ مقابلہ کر سکتي ہے ليکن وہ شخص جو تاريخ اور سنت الہي سے آشنا ہے وہ مقاومت کرتا ہے اور اپنے ارادے کو قوي و مستحکم بنائے رکھتا ہے ۔ 

اسلام پر ايمان 

اسلامي دنيا ميں جو اہم ترين حادثات و واقعات رونما ہوئے ہيں ان ميں کليدي کردار اسلام پر ايمان ہے ۔ چونکہ ہم اسلام کي خاطر فداکاري اور ایثار کرتے ہيں لہذا خدا وند عالم بھي ہماري نصرت کرتا ہے ۔ جمہوري اسلامي ایران چونکہ خدا ، اسلام اور قرآن کي پيرو ہے لہذا دنيا کي دوسري اقوام بھي ايراني قوم کو احترام کي نگاہ سے ديکھتي ہیں ۔ 

امام خميني ۲ چونکہ صادقانہ اور مخلصانہ طور پر اپني تحريک کو لے کر آگے بڑھے تھے اسي لئے دنيا ميں اُنکا ايک اہم اور محترم مقام بنا اور اسي لئے دنيا کو متاثر کر سکے تھے ۔ يہي وجہ تھي کہ خداوند عالم نے بھي ان کي مدد فرمائي اور دور حاضر کا اتنا بڑا کارنامہ انجام دے ديا ۔ 

اسلامي انقلاب کي کاميابي کا راز اب تک جو ہم کشف کر سکے ہيں وہ ايمان ہے اور يہي وہ راز ہے جس کي تہہ تک ہمارے دشمن يعني دنيا بھر کي استکباري طاقتيں پہنچ گئي ہيں ۔ اوائل اسلام اور رسول اکرم کے زمانے کي طرح ايک بار پھر دشمن اپني تمام تر قوت و طاقت کے ساتھ ہمارے اس ايمان سے نبرد آزما ہے ۔ لہذا دشمني کي اصل وجہ ايمان ہے ۔ آج دنيا سمجھ گئي ہے کہ ايران اسي ايمان کي بنا پر متحد رہے گا اور اپنے رہبر کا انتخاب کرے گا ۔ يہي ايماني قوت ہے جس کي بنا پر ايران کسي بھي طاقت سے زيادہ خوف زدہ نہيں رہتا ہے ۔ ايران کي ترقي ، عروج ، فلاح و بہبود سب کچھ اس ايمان کي وجہ سے ہے ۔ لہذا آج دنيا ہمارے ايمان ، ہمارے مذہب کي وجہ سے ہماري مخالف ہو گئي ہے اور چاہتي ہے کہ کسي نہ کسي طرح اسلام و اسلامي انقلاب کو مخدوش کر ديا جائے ۔ اپنے خيا ل ميں وہ لوگ ہميں برا بھلا کہتے ہيں ، ہميں قدامت پسند کہتے ہيں در حاليکہ اس صورت ميں وہ ہماري تعريف ہي کرتے ہيں ۔ 

ہميں فخر ہے کہ ہم اسلامي اصول و تعليمات کي طرف پلٹ آئے ہيں ۔ يہي ہماري بلندي و قدرت کاراز ہے ۔ گذشتہ چند برسوں کے دوران دنيا بھر نے ہمارے خلاف پروپيگنڈہ کيا ہے ۔ ہماري ملت ايسے افراد کو کسي بھي صورت ميں معاف نہيں کر سکتي جو کسي نہ کسي صورت ميں اسلام کي اہانت کرتے رہے ہيں ۔ اسلام و ايمان ہماري عزت اور ہماري نصرت ہے ۔ يہي اسلام و ايمان ہماري دنيا و آخرت کا ضامن ہے ۔

اسلامي انقلاب اور خدا پر ايمان 

دنيا کے دوسرے انقلابوں کے بر خلاف ہمارا اسلامي انقلاب ايمان الہي کي بنا پر عالم وجود ميں آيا ہے ۔ يہي وجہ ہے کہ انقلاب کے حامي اور پيرو دنيا کي کسي بھي مادي طاقت کے آگے سر خم نہيں کرتے ? و يستبشرون بالذين لم يلحقوا بھم من خلفھم الا خوف عليھم و لا ھم يحزنون ? ( سورہ آل عمران ١٧٠ ) 

اسلامي ، الہي اور معنوي ايمان کي خصوصيت ، خدا پر کامل ايمان ہے ۔ يہ ايمان اولاً اس بات کا موجب ہوتا ہے کہ انسان دشمن سے خوف زدہ نہ ہو اور ثانياً ايسا انسان جو خدا کا معتقد ہے ، اپني تکليف اور ذمہ داري انجام ديتا ہے اور نتيجے کي پرواہ نہيں کرتا يعني اگر قتل کر ديا تب بھي فاتح اور اگر زندہ بچ گيا تب بھي فاتح ۔ ايسا شخص چونکہ مخلصانہ کام کرتا ہے لہذا خدا وند عالم اس کي کوشش رائگاں نہيں جانے ديتا۔ ايک نہ ايک دن اس کا خون رنگ لاتا ہے اور نتيجہ ظاہر ہو جاتا ہے ۔ 

ايک مومن اس طرح سوچتا ہے ۔ امام خميني ۲، اس انقلاب کے باني ، اسي نظريے کے معتقد تھے ۔ اسي لئے آپ جنگ ، سياست ، اقتصاد يات ، سماجیات وغيرہ کسي بھي ميدان ميں کبھي بھي تذبذب کا شکار نہيں ہوتے تھے ۔

امام خميني ۲ کا راستہ اور منزل واضح تھي ۔ لہذا بغير کسي ترديد و تذبذب کے استقامت کے ساتھ انقلاب کو اس کي منزل مقصود تک پہنچا ديا ۔ 

قربت خدا اور ہماري اسلامي حکومت 

ہم سب ہي کي سعي و کوشش يہ ہوني چاہيے کہ خدا کو اپنے سے راضي کر سکيں ۔ ہماري اور ہمارے انقلاب کي کاميابي کا راز بھي يہي ہے ۔ ايک ايسا نظام کہ ساري دنيا کي مادي طاقتيں جس کي مخالفت کر رہي ہيں اور چاہتي ہيں کہ اس کو نيست و نابود کر ديں ، بحمد ا? روز بروز مستحکم اور قوي ہو رہا ہے ۔ اگر ايران ميں اسلامي نظام کے علاوہ اور کوئي دوسرا نظام ہوتا تو نہ جانے کب کا گزشتہ تاریخ ہوگیا ۔ 

ہم نے گذشتہ ٢٠ ، ٢٥بر سوں ميں کبھي بھي اپنے اصولوں کي پامالي نہيں کي ہے ۔ ہمارے جو اصول اوائل انقلاب ميں تھے ، آج بھي وہي ہيں اور انشائ ا… ہميشہ رہيں گے ۔ موجودہ اسلامي نظام حکومت کي استقامت اسي قربت خدا کي بنا پر رہي ہے ۔ 

آج دنيا کے مختلف ممالک ميں ايران کے اسلامي انقلاب کے نام پر نعرے لگائے جا رہے ہيں ۔ ہم يورپ ، افريقہ ، ايشيا وغيرہ کے مسلمانوں سے ايسے کون سے رابطے مستحکم کر سکے ہيں کہ امام خميني ۲ کي تاسف آور رحلت کے بعد ان مسلمانوں نے ہم سے اظہار ہمدردي کيا تھا ؟ امام خميني ۲ کي رحلت کے بعد ايک ايراني وفدکسي دوسرے ملک گيا ہوا تھا ۔ وہاں کي عوام نے اس گروپ کا استقبال اس طرح کيا کہ ان کے ہاتھ پشت گردن پر تھے اور وہ سب گريہ و زاري کر رہے تھے ۔ ہم ميں اور دوسرے ممالک کے مسلمانوں ميں يہ رابطہ کس نے ايجاد کيا ؟ ہم نے ؟ قطعاً نہيں ، ہمارے اور ان کے درميان يہ روحي و قلبي رابطہ خدا وند عالم نے خلق کيا ہے ۔ 

قرآن کريم ميں خدا وند عالم نبي کريم سے فرما رہا ہے ? لو انفقت ما في الارض جميعاً ما الفت بين قلوبھم ? ( سورہ انفال ٦٣ ) يعني اے رسول ! اگر تم دنيا کي ساري دولت خرچ کر ديتے تب بھي تم لوگوں کے قلوب کو نزديک نہيں لا سکتے تھے ۔ اسي طرح اگر دور حاضر ميں ہم بھي اپني ساري دولت خرچ کرديں تب بھي ہمارے اندر اتني صلاحيت نہيں ہے کہ لوگوں کے درميان روحي و قلبي ارتباط قائم کرسکيں ۔ چونکہ فقط خدا ئے تبارک و تعالي سے قرب ہي لوگوں کے درميان رابطہ ومحبت کا باعث بنتا ہے ۔ 

اسلام دين توحيد ہے توحيد يعني خدا ئے بزرگ کے ماسوا کسي کي عبادت نہ کرنا ، کسي کے آگے سر تسليم خم نہ کرنا يعني نظام و حکومت بشري کا گريباں چاک کردينا اور شيطاني و مادي طاقتوں کے طلسم کو ختم کر دينا ۔ 

توحيد يعني خدا کے ذريعہ دئیے گئے مظلوم کي ظالم پر فتح کے سلسلے ميں وعدے پر يقين کامل رکھنا ، رحمت خدا سے پر اميد ہونا اور شکست کے احتمال سے نہ گھبرانا۔ توحيد يعني خدا ئے عز و جل پر اعتماد ، يقين اور بھروسہ ۔ 

 

 

 

تبصرے
Loading...