انفاق قبول ہونے کی شرط

(سورہٴ بقرہ:آیت ۲۶۴۔۲۶۵) 

ایمان والو! اپنے صدقات کو احسان جتا نے اور اذیت کرنے سے برباد نہ کرو اس شخص کی طرح جو اپنے مال کو دکھاوے کے لئے صرف کرتا ہے اور اس کا ایمان نہ خدا پر ہے اور نہ آخرت پر اس کی مثال اس صاف چٹان کی ہے جس پر گرد جم گئی ہو مگرتیز بارش کے آتے ہی بالکل صاف ہو جائے یہ لوگ اپنی کمائی پر بھی اختیا ر نہیں رکھتے اور اللہ کافروں کی ہدایت بھی نہیں کرتا ۔ 

اور جو لوگ اپنے اموال کو رضائے الٰہی کی طلب اور اپنے نفس کے استحکام کی غرض سے خرچ کرتے ہیں ان کے مال کی مثال اس باغ کی ہے جو کسی بلندی پر ہو اور تیزبارش آکر اس کی فصل کو دو گنا بنا دے اور اگر تیز بارش نہ آئے تو معمولی بارش ہی کافی ہو جائے اور اللہ تمہارے اعمال کی نیتوں سے خوب با خبر ہے۔ 

وضاحت 

انفاق کے عوامل و نتائج مختلف ہوتے ہیںاور اس کی صورتیں بھی متعدد ہوتی ہیں ۔

مذکورہ بالا دو آیتوں میں سب سے پہلے اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ مومنین کو راہ خدا میں کئے ہوئے انفاق کو احسان جتانے اور اذیت کرنے کے ذریعہ باطل اور بے اثر نہیں کرنا چاہئے ۔ 

اس کے بعد احسان جتانے ،اذیت اور دکھاوے کے لئے انفاق کرنے اور اخلاص و انسانی محبت کی بنا پر انجام پانے والے انفاق کی خوبصورت مثال بیان کی گئی ہے۔

سخت اور صاف پتھر کے ایک ٹکڑے کو نظر میںرکھیں جس پر مٹی کی ایکباریک پرت ہو اور اس مٹی کی پرت پر چھڑک دیئے جائیں اور اس پر کھلی ہوا اور دھوپ پڑتی ہو اس کے بعد بارش کے بڑے بڑے قطرے برسیں تو بات یقینی ہے کہ بارش کے قطرے اس کے علاوہ کوئی اورکام نہ کرےں گے کہ مٹی کی اس باریک پرت کو دانوں کے ساتھ بہالے جائے گی اور سخت وصاف پتھر جس پر کسی طرح کی کوئی گھاس نہیں اگ سکتی وہ اپنے سخت اور صاف چہرے کو آشکار کر دے گا اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ دھوپ ،کھلی ہوا اور بارش کے قطروں نے اس پر کوئی برا اثر ڈالا ہے بلکہ اس کا سبب یہ ہے کہ یہ جگہ ان بیجوں کے لئےمناسب نہ تھی ۔یہ پتھر ظاہری طور سے خوبصورت ہے لیکن اندر سے سخت اورکسی چیز کو قبول نہیں سکتا۔ صرف مٹی کی ہلکی سی پرت نے اسے چھپا رکھا تھا ۔ حالانکہ سبزہ اگانے کے لئے ضروری ہے کہ زمین کے علاوہ،زمین کا اندرونی حصہ بھی جڑوں کو قبول کرنے اور اسے خوراک دینے کے لئے تیارہو۔

قرآن کریم نے دکھاوے والے عمل اور احسان جتانے اور آزار واذیت سے ملے ہوئے انفاق کو مٹی کی اس ہلکی پرت سے تشبیہ دی ہے جو سخت پتھر کے ظاہر کو چھپائے ہوتی ہے ۔جس سے کسی طرح کا کوئی فائدہ حاصل نہیں کیا جا سکتا ہے بلکہ کسان کی زحمتوں کو بھی ضائع کر دیتا ہے۔ 

(یہ وہ مثال ہے جو پہلی آیت میں دکھاوے کے انفاق، احسان اور آزار واذیت کے ساتھ انفاق کے لئے بیان کی گئی ہے۔)

دوسری خوبصورت مثال

ایک سر سبز و شاداب باغ اور کھیت کو نظر میں رکھیں جو بلند اور زرخیز زمین کھلی فضا میں ہوں اوراس پر دھوپ پڑتی ہو اوراس پر بارش کے بڑے بڑے قطرے گریں اوراگر بارش نہ ہو تب بھی کم سے کم شبنم اور ہلکی ہلکی پھوار کے ذریعہ باغ کی لطافت و شادابی ویسے ہی باقی رہتی ہے۔

اس کے نتیجہ میں ایسے کھیت دوسرے کھیتوں کے مقا بلہ میں دو گنا پھل دیتے ہےں اس لئے کہ اس کی زمین بھی زرخیز ہے اورہلکی ہلکی پھوار بھی پھل کو تیار کرنے کے لئے کافی ہیں چہ جائیکہ موسلادھار بارش اس کی وجہ یہ ہے کہ کھیت ایک بلندی پر واقع ہے اور وہ کھلی فضا اور دھوپ سے اچھی طرح بہرہ مند ہوتا ہے ۔ اس کے علاوہ وہ دور سے دیکھنے والوں کی نگاہوں میں ایک خوبصورت منظر پیش کرتا ہے اور سیلاب کے خطرے سے بھی محفوظ ہو تا ہے۔ 

لہٰذا جو لوگ رضائے پروردگار اور روح میں ایمان کے راسخ ہو جانے کی غرض سے انفاق کرتے ہیںوہ اس کھیت کے مانند ہیں جو بابرکت،مفید اورقیمتی ثمر دےتے ہیں۔

یہاں پر چند نکات کی طرف توجہ ضروری ہے:

(۱) ”لَاْ تُبْطِلُوْا صَدَقَاتِکُمْ بِالْمَنِّ وَالْاٴَ ذیٰ“(اپنے انفاق کو احسان جتانے اوراذیت کے ذریعہ باطل نہ کرو)سے معلوم ہوجاتا ہے کہ کچھ برے اعمال، نیک اعمال کے اثر کو ختم کر دیتے ہیں اور اسی کو احباط کہا جاتا ہے جس کی وضاحت عقائد کی کتابوں میں آئی ہے 

(۲) دکھاوے کے عمل کو ایک سخت و صاف پتھر کے ٹکڑے سے تشبیہ دینا جسے مٹی کی ایک ہلکی سی پرت نے چھپا رکھا ہوایک واضح تشبیہ ہے اس لئے کہ ریاکار انسان اپنے سخت باطن اور بے فائدہ وجود کو خیر خواہی اور احسان کے پردے میں پوشیدہ کرنے کی کوشش کرتا ہے اور ایسے اعمال انجام دیتا ہے جن کی اس کے وجود میں کوئی ثابت جڑ نہیں ہوتی لیکن بہت جلدہی اس کی زندگی کے نشیب و فراز اس کے اوپر پڑے ہوئے پردے کو ہٹا دیتے ہیں اور اس کےباطن کو سب کے سامنے ظاہر کر دیتے ہیں ۔ 

(۳) جملہٴ”ابْتِغَآءَ مَرْضَاتِ اللّٰہِ وَ تَثْبِیْتاً مِّنْ اَنْفُسِہِمْ“انفاق کے صحیح اور الٰہی مقاصد کو بیان کر رہا ہے اور وہ دو چیزہے: رضائے پروردگار کی طلب (۲) ایمان کو قوی اور مستحکم بنانا اور روحی سکون و اطمینان حاصل کرنا ۔ 

یہ جملہ بیان کررہا ہے کہ حقیقی انفاق کرنے والے وہ لوگ ہیں جو پروردگار کی خوشنودی اور اچھے اخلاق کو پروان چڑھانے اور ان صفات کو اپنے اندر مستحکم کرنے اور اسی طرح ان اضطراب اور تکلیفوں کو ختم کرنے کے لئے انفاق کرتے ہیں جو محروموں اور فقیروں کی نسبت احساس ذمہ داری کی وجہ سے ان کے وجدان میں پید اہو تی ہیں لہٰذا آیہٴ کریمہ میں ”مِن“”فی“ کے معنی میں آیاہے۔ 

(۴) جملہ”وَاللّٰہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْر“ (تم جو کچھ بھی انجام دیتے ہو خدا اس سے آگاہ ہے ) ہر نیک کام انجام دینے والے کو ٹہوکا دے رہا ہے کہ تمہاری نیت میں یا طرز عمل میں ذرہ برابر بھی ریا کاری کا شائبہ تمہارے نیک عمل کے اجروثواب کو برباد کر سکتا ہے اس لئے کہ خدا مکمل طور سے تمہارے اعمال کانگراں اور دیکھنے والاہے۔

 

۲۰. موانع قبول

(سورئہ بقرہ:آیت ۲۶۳) 

(حاجت مندوں کے سامنے)نیک کلام اور مغفرت، اس صدقہ سے بہتر ہے جس کے پیچھے دل دکھانے کا سلسلہ بھی ہو۔خدا سب سے بے نیاز اور بڑا بردبارہے۔

وضاحت

گذشتہ آیات کی طرح یہ آیہٴ کریمہ بھی انفاق کرنے والوںکو خبردار کر رہی ہے کہ جو لوگ حاجت مندوں کے سامنے نیک کلامی کرتے ہیں اور ان کے اصرار ، یہاں تک کہ ان سخت کلامی کے باوجود بھی انہیں معاف کر دیتے ہیں۔ ایسے ہی لوگوں کایہ برتاؤ ان لوگوں کے انفاق سے بہتر ہے جو انفاق کے بعد صاحبان حاجت کو اذیت پہونچاتے ہیں ۔ 

یہ آیہٴ کریمہ انسانوں کی سماجی حیثیت اور عزت و آبرو کے سلسلہ میں اسلامی اصول کو بیان کر رہی ہے اور جو اس انسانی سرمایہ کی حفاظت کے لئے کوشش کرتے ہیں اور حاجت مندوں کو نیک کلام اور اچھائی کی طرف رہنمائی کرتے ہیں اور ان کے راز کو فاش نہیں کرتے ایسے لوگوں کے عمل کو خود خواہ اور کوتاہ نظر افراد کے انفاق سے برتر اور با لاتر قرار دیتی ہے جو ذرا سے انفاق کے بعد با عزت لوگوں کو برا بھلا کہنے لگتے ہیں اور ان کی شخصیت اور عزت وآبرو سے کھیلتے ہیں۔ درحقیقت ایسے افراد دوسروں کو نفع سے زیادہ نقصان پہنچاتے ہیں اور اگر کسی کو کوئی چیز دیتے ہیں تو اس کے بدلے میں اس سے کئی چیزیں لے بھی لیتے ہیں ۔

گذشتہ باتوں سے واضح ہو جاتا ہے کہ ”قَوْلٌ مَّعْرُوْفٌ“وسیع اور عام معنی میں ہے اور ہر نیک کلام ،دلداری اوررہنمائی کو شامل ہے۔ 

مغفرت صاحبان حاجت کی سخت کلامی کو معاف کردینے کے معنی میں ہے جن کا پیمانہٴ صبر سختیوں اور پریشانیوں کے پے در پے حملہ کی وجہ سے لبریزہو جاتا ہے اورکبھی کبھی بغیر قصد و ارادہ کے ان کی زبان پر سخت کلمات جاری ہو جاتے ہےں ۔

ایسے افراد اس طرح اس ظالم سماج سے انتقام لینا چاہتے ہیں جس نے ان کے حق کو ادا نہیں کیا ہے۔ لہٰذا سماج اور مالدار افراد ان کی محرومیت کو کم کرنے کے لئے کم سے کم جو کام انجام دے سکتے ہیں وہ یہ ہے کہ ان کی سخت کلامی کو برداشت کریں اور خوش دلی اور نرمی سے جواب دے کر ان کی زبانیں بند کر دیں۔

بے شک فقراء کی سخت کلامی کو برداشت کرنا اور ان کے برے برتاوٴ کو معاف کر دینا ان کے غضب کو کم کر دے گا۔ یہاں پر اس اسلامی حکم کی اہمیت کا اندازہ کیا جا سکتا ہے اور کبھی کبھی ایسے نیک برتاوٴ کی اہمیت انفاق کرنے سے کہیں زیادہ ہوتی ہے۔

بعض علماء نے اس آیہٴ کریمہ میں کلمہٴ مغفرت کو اس کے اصل معنی (یعنی پوشیدہ کرنا ،چھپا نا )میں لیا ہے اور اس کلمہ کو آبرو مند فقراء اور حاجت مندوں کے اسرار کی پردہ پوشی کی طرف اشارہ کیا ہے۔ البتہ اس تفسیر اور اوپر بیان کی گئی تفسیر کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے اس لئے کہ اگر مغفرت کی ایک عمومی معنی میں تفسیر کی جائے تو عفو و بخشش کو بھی شامل ہو جا ئے گا اور فقراء اور حاجت مندوں کے اسرار کو پوشیدہ رکھنے کو بھی۔ 

تفسیر نور الثقلین میں رسولخدا سے منقول ہے کہ نے آپ نے ارشاد فرمایا: 

اذا سئل السائل فلا تقطعوا علیہ مساٴلتہ حتّی یفرغ منھا ثُمَّ ردّوا علیہ بوقارٍ و لینٍ اما ببذل یسیراٴوردّ جمیل فاِنّہ قد یاٴتکم من لّیس باٴنس ولا جان ینظر ونکم صنیعکم فیماخوّلکم اللّٰہ تعالیٰ

اس حدیث نبوی میں آداب انفاق کے ایک گوشہ کی وضاحت کی گئی ہے۔ آنحضرت نے ارشاد فرمایا: جب کوئی حاجت مند تم سے کسی چیز کا سوال کرے تو اس کے کلام کو قطع نہ کرو یہاں تک کہ وہ اپنی بات پوری طرح بیان کردے۔اس کے بعدادب اور نرمی سے اس کا جواب دو یا اپنی قدرت بھر کوئی چیز اسے عطا کردو یا شائستہ طریقہ سے اسے واپس کر دو اس لئے کہ ممکن ہے کہ سوال کرنے والا فرشتہ ہو جو تمہارا امتحان لینے کے لئے بھیجا گیا ہے تا کہ تمہیں آزمائے کہ تم خدا کی دی ہوئی نعمتوں میں کس طرح عمل کرتے ہو۔

وَاللّٰہُ غَنِیٌّ حَلِیْم ٌ

چھوٹے چھوٹے جملے جو آیات کے آخر میں آئے ہیں اور خدا کی کچھ صفتوں کو بیان کرتے ہیں ان کے مضمون انھیں آیات سے مربوط ہوتے ہیں ۔اس نکتہ کے پیش نظر جملہ ”وَاللّٰہُ غَنِیٌّ حَلِیْم ٌ “ سے مراد یہ ہے کہ چونکہانسانی طبیعت سرکش اور باغی ہے لہٰذا وہ منصب ا ور دولت پانے کے بعد اپنے آپ کو بے نیاز سمجھنے لگتی ہے اور کبھی کبھی یہ حالت فقراء کے ساتھ بد کلامی کا سبب بنتی ہے۔ لہٰذا پروردگارفرما رہا ہے کہ صرف خدا ہے جو بے نیاز ہے ۔ 

درحقیقت صرف خدا ہے جو ہر شے سے بے نیاز ہے اور انسان کی بے نیازی سراب سے زیادہ کوئی چیز نہیں ہے۔ لہٰذا مال ودولت، فقراء اورحاجت مندوں کے سامنے غرورو گھمنڈ کا سبب نہ بننے پائے اور اس سے بڑھ کر اگر خدا وندعالم اپنے نا شکرے بندوں کے سا تھ حلیم اور برد بار ہے تو صاحبان ایمان کو بھی ایسا ہی ہونا چاہئے۔

ممکن ہے کہ مذکورہ جملہ اس بات کی طرف اشارہ ہو کہ خدا تمہاری بخشش اور انفاق سے بے نیاز ہے اورتم جو کچھ بھی انجام دیتے ہووہ سب تمہارے ہی فائدہ کے لئے ہے۔ لہٰذا کسی پر احسان نہ جتاوٴ ۔اس کے علاوہ وہ تمہارے برے برتاوٴ کی نسبت حلیم اور بردبار ہے اور وہ سزا دینے میں جلدی نہیں کرتاتاکہ تم بیدار ہو جاوٴاور اپنی اصلاح کر سکو۔اس پر غور وفکر کیجئے۔

۲۱. انفاق کی قبولیت کے دوسرے موانع

(سورئہ بقرہ/آیت/۲۶۲)

جو لوگ راہ خدا میں اپنے اموال خرچ کرتے ہیں اور اس کے بعد احسان نہیں جتاتے اور اذیت بھی نہیں دیتے ان کے لئے پروردگار کے یہاں اجر بھی ہے اور نہ انھیں کوئی خوف ہے اور نہ کوئی حزن۔

وضاحت

انمول اور قابل قبول انفاق کیا ہے؟ 

اس سوال کا جواب مذکورہ آیت میںدیا گیا ہے خدا وند عالم فرماتا ہے: راہ خدا میںکیا گیا انفاق اسی وقت اس کی بارگاہ میں قبول ہوسکتا ہے جب اس کے ساتھ احسان جتا نے اور حاجت مندوں کو تکلیف دینے والی کوئی چیز نہ ہو ۔ 

لہٰذاجو لوگ راہ خدا میں مال توخرچ کرتے ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ ریاکاری کرتے ہیں، حاجت مندوں کو اذیت دیتے اوران پر احسان جتاتے ہیںجو ان کی رنجیدگی کا سبب بنتا ہے ایسے افراد اپنے اس ناپسندیدہ عمل کے ذریعہ اپنے اجروثواب کو ضائع کر دیتے ہیں ۔ 

اس آیہٴ کریمہ میں جس چیز کی طرف زیادہ توجہ دی گئی ہے وہ یہ ہے کہ قرآن مجید انسانی زندگی کے سرمایہ کو صرف مادی سرمایہ ہی نہیں جانتا ہے بلکہ وہ معنوی اور اجتماعی سرمایہ پر بھی نظر رکھتا ہے۔ 

جو شخص کسی کو کوئی چیز دیتا ہے اوراس پر احسان جتاتا ہے یا اسے اذیت دے کر اس کا دل توڑ دیتا ہے تودرحقیقت اس نے اسے کچھ دیانہیںہے اس لئے کہ اس نے ایک مادی سرمایہ دیا ہے اس کے بدلے میںاور ایک معنوی سرمایہ اس سے چھین لیا ہے اور بسا اوقات یہ ذلتیں اور روحی اذیتیں اس مال سے کہیں زیادہ ہوتی ہیں جو اسے دی گئی ہےں۔ 

لہٰذااگر ایسے افراد اجروثواب کے مستحق نہ ہوں تو عدالت کے موافق بات ہے بلکہ بہت سے مقامات پر حاجت مند افراد مقروض ہونے کے بجائے طلب گار بن جاتے ہیں۔ اس لئے کہ انسان کی عزت وآبر، مال وثروت سے کہیں زیادہ بر تر و بلند ترہے۔ 

دوسرا اہم نکتہ یہ ہے کہ آیہٴ کریمہ میں احسان جتانے اور اذیت دینے کو کلمہٴ”ثُمَّ“ کے ساتھ بیان کیا گیا ہے جو عام طور سے دو واقعہ کے درمیان فاصلہ کے لئے آتا ہے (اصطلاحاًتراخی کے لئے)لہٰذا آیت کا معنی یہ ہے کہ !جو لوگ انفاق کرتے ہیں اور بعد میں احسان نہیں جتاتے اور اذیت نہیں دیتے ان لوگوں کا اجر و ثواب خدا کے پاس محفوظ ہے ۔ 

یہ تعبیر خود اس بات کی گواہ ہے کہ قرآن کا مقصد صرف یہی نہیں ہے کہ انفاق ادب و احترام کے ساتھ ہو اور احسان جتا نے سے خالی ہو بلکہ مہینے اور سال گذرنے کے بعد بھی اسے یاد کرکے اس پر احسان نہ جتایا جائے اور یہ تعبیر اسلام میں خالص اور بے ریا خدمات کی طرف نشاندہی کر رہی ہے ۔

متوجہ رہنا چاہئے کہ احسان جتانا اور اذیت دینا جو کہ انفاق کے قبول نہ ہونے کا سبب ہے صرف حاجت مندوں اورفقیروں سے مخصوص نہیں ہے بلکہ عمومی اور سماجی کاموں میں بھی اس بات کی رعایت کرنا ضروری ہے جیسے راہ خدا میں جہاد کرناعام فلاحی کام انجام دیا مدرسے،مسجدیں ،اور اسپتال بنانا۔ 

جملہٴ”لَھُمْ اَجْرُہُمْ عِنْدَ رَبِّہِمْ “( ان کے اجرو ثواب ان کے ان پروردگار کے پاس ہیں )راہ خدا میں انفاق کرنے والوں کو اطمینان دلاتا ہے کہ ان کے اجرو ثواب ان پروردگار کے پاس محفوظ ہیں اوروہ اطمینان کے ساتھ اس راہ میں قدم اٹھائیں اس لئے کہ جو چیز خدا کے پاس ہے اس کوہی نابودی کا کوئی خطرہ ہے اور نہ ہی کمی کا، بلکہ تعبیر”ربہم“ (ان کا پروردگار ) گویا اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ خدا وند عالم ان کے اجر و ثواب کو زیادہ اور برابر اس میں اضافہ کرتا رہتا ہے جیسا کہ دوسری آیات میں بھی اس بات کو بیان کیا گیا ہے۔ 

جملہٴ”وَلَاْ خَوْفٌ عَلَیْہِمْ وَلَاْ ہُمْ یَحْزَنُوْنَ “اس بات کے پیش نظر کہ ”خوف“،آنے والے امور کے سلسلہ میں ہوتا ہے اور حزن وغم گذری ہوئی چیزوں کے متعلق ہوتا ہے لہٰذا فرماتا ہے کہ انفاق کرنے والے پروردگار کے نزدیک اپنے اجرو ثواب کے محفوظ ہونے کی وجہ سے نہ ہی مستقبل اور قیامت سے خوفزدہ ہیں اور نہ ہی اپنے کئے ہوئے انفاق پر محزون اور فکر مند ہیں ۔ 

روایات اسلامی میں انفاق کی قبولیت کے شرائط

روایات میں راہ خدا میں کئے ہوئے انفاق کو آفات سے بچانے کے لئے کچھ تاکیدی احکام بیان کئے گئے ہیں ۔نمونہ کے طور پر:

۱ -حضرت علی – نے ارشاد فرمایا:

آفةالعطاء المطل (۱)

انفاق اور بخشش کی ایک آفت اس میں دیر کرنا ہے۔

۲ -امام جعفر صادق(ع) ارشادفرماتے ہیں: 

اذا کانت لک ید عند انسان فلا تفسدھا بکثرةالمنّ والذّکر لھا ولکن اتبعھا باٴفضل منھافاِٴن ذٰلک اجمل بک فی اخلاقک

جب کسی شخص کو کچھ عطا کرو تو احسان جتانے اور زیادہ یاد دلانے کے ذریعہ اسے ضائع نہ کرو بلکہ اسے بہتر چیز دے کر اسے کامل کرو کہ یہ کام تمہارے اخلاق کو بہتر بنانے میںزیادہ موثٴر ہے۔(2) 

۳-حضرت علی – نے عہد نامہٴ مالک اشتر میںارشاد فرمایا ہے: 

ایاک والمن علیٰ رعیتک باحسانک او التزید فیما کان من فعلک او ان تعدھم فتتبع موعدک بخلفک فان المن یبطل الاحسان والتزید یذھب بنورالحق۔(2)

اور خبردار!رعایا پر احسان بھی نہ جتانا اور جو سلوک کیا ہے اسے زیادہ سمجھنے کی کوشش بھی نہ کرنا یا ان سے کوئی وعدہ کرکے اس کے بعد وعدہ خلافی بھی نہ کرنا کہ یہ طرز عمل احسان کو برباد کر دیتا ہے اور زیادتی عمل کا غرور حق کی نورانیت کو فنا کردیتا ہے۔

________________________________________

(1) غررالحکم

(۱)بحار الانوار،ج۷۵،ص۲۸۳

(۲)نہج البلاغہ،مکتوب۵۳

 

 

تبصرے
Loading...