انسان کے کمال کا راستہ

قادر مطلق ۔۔ جس کي ذات حکمت والي ہے ۔۔ ہم نے انسانوں کو پيدا کرکے وجود جيسي نعمت سے مالا مال کيا ہے تو لازماً اس کے معني يہ ہيں کہ خداوند عالم نے ہماري پيدائش وجود سے ہمارے لئے ايک ہدف و مقصد مقرر کيا ہے اسے ہم يوں بيان کرسکتے ہيں کہ ہميںايک مقرر کردہ راستے پر چلنا ہے تاکہ ہم اپني منزل و مقصد تک پہنچ سکيں، وہ تراستہ اپني اہميت کے سبب باريک ہے اوراس کے وسائل بھي معين شدہ ہيں۔ 

اس لحاظ سے ہميں چاہئيے کہ ہم اس راستے کي معرفت حاصل کريں جو ہماري منزل تک جاتا ہے اور ساتھ ساتھ يہ بھي سمجھيں کہ وہ مطالب و مقاصد کيا ہيں جن کو حاصل کرنے کے لئے اس راستے پر چلنا ضروري قرار ديا گيا ہے تاکہ اپنے راستے اور مقاصد کو سامنے رکھتے ہوئے ہم اس نتيجے پر پہنچيں کہ جس کا خداوند عالم نے وعدہ فرمايا ہے۔ 

پس جو شخص اس راستے پر قدم اٹھالے تو اسے چاہئيے کہ وہ صرف اپنے مقصد تک پہنچنے کے لئے کوشش کرے لہذا جب انسان کو اپنے مقصد تک جانے والي راہ کي اہميت کا اندازہ ہوگا تو اسے يہ خيال ہوگا کہ اس راستے ميں انحرافات اور اس کے عزم و ارادے کو کمزور اور متزلزل کرنے والے خيالات کہيں اسے اپنے جال ميں پھنسا کر راہ مستقيم سے ہٹا نہ ديں چنانچہ اسے اپنے ہدف و مقصد کو پانے کي جدوجہد کو جاري رکھنے اور کم ہمتي اور حوصلہ شکني سے اس کي حفاظت کرنے کے لئے رہبر و ہادي کے احکامات سے ہدايات حاصل کرنے کي ضرورت ہے چنانچہ وہ رہبر اول ۔۔۔ کہ جس نے انسانوں کو ان کے ہدف و مقصد تک پہنچانے کے لئے راستہ مقرر کيا ۔۔۔۔۔ يعني خدا کے پيغمبر کي تعليمات سے ذرہ برابر منہ نہ موڑے اور وہ ان کے مرتب کردہ اصول و قوانين سے ہرگز انحراف نہ کرے۔ 

وہ مقصد ۔۔۔۔ کہ جو انسان کا مقام کمال ہے۔۔۔ کتنا ارفع و اعليٰ ہے يہي ہے کہ انسان کو اس دنيا سے واپس خدا کي جانا ہے جس کے لئے نماز کو مقرر کيا گيا ہے انسان کي پيدائش کي اصلي غرض يہي ہے کہ وہ نيک صفات جو انسان ميں پوشيدہ ہيں ظاہر ہوں اور باطن ميں پنہاں کمالات جلوہ افروز ہوں تاکہ انسان کي تمام صلاحيتيں اور کمالات عملي ہوجائيں اور وہ نيکي کے راستے پر گامزن ہوکر اپني ذات ، تمام دنيا اور تمام انسانيت کو نيک بنائے۔ ليکن لازم ہے کہ انسان اللہ کي معرفت کے ساتھ ساتھ اس راستے کي بھي معرفت حاصل کرے جسے خداوند عالم نے ہم انسانوں کو کمال تک پہنچانے کے لئے مقرر کيا ہے تاکہ اسے پيش نظررکھتے ہوئے سستي اور کاہلي کئے بغير اپنے مقصد و ہدف تک رسائي کے لئے جدوجہد کرے۔ 

وہ کام ۔۔۔۔۔ جو انسان کو اس کے مقصد سے نزديک کرتے ہيں انہيں انجام دينا اور وہ کام۔۔۔۔۔ جو انحرافات و گمراہي سے پر اور انسان کي منزل کي راہ ميں رکاوٹ ہيں۔۔۔ انہيں ترک کرنا يہي وہ طريقہ ہے جو انسان کو اس کي زندگي کے معاني سمجھاتا ہے کہ اس مقرر کردہ خدائي راستے پر چلنا ہي اس کي زندگي کا حقيقي فلسفہ ہے۔ چنانچہ اگر ہم نے ان کاموں کو انجام نہيں ديا جو ہميں ہمارے مقصد و ہدف سے نزديک کرتے ہيں اور ان افعال سے دوري اختيار نہيں کي جو نقصان دہ ہونے کے ساتھ ساتھ ہميں ہمارے مقصد و ہدف سے دور کرديتے ہيں تو حقيقتاً ہماري زندگي بے معني ہوجائيگي کہ جس کے گزارنے کا ہميں کوئي فائدہ نہيں پہنچے گا۔ 

ہم اپني بات کو دوسرے الفاظ ميں يوں بيان کرسکتے ہيں کہ ہماري زندگي ايک کلاس يا کمرہ امتحان کي مانند ہے جہاں ہميں چاہئيے کہ کائنات خلق کرنے والي اور ہميں زندگي عطا کرنے والي ذات نے جو قوانين و فارمولے بنائے ہيں ان پر عمل کريں تاکہ اپني دلي مراد اور نتيجہ اعليٰ تک پہنچ سکيں۔ ہم ان قوانين کو الہي سنتيں اور پيدائش کے (فطري) قوانين کہہ سکتے ہيں چنانچہ ہميں چاہئيے کہ عالم بشريت کو کمال تک پہنچانے والے ان قوانين کي معرفت حاصل کريں اور ان کے مطابق اپني زندگي بسر کريں۔ 

ان تمام باتوں کو عملي جامہ پہنانے کے لئے ضروري ہے کہ ہم اپني ذات کي معرفت حاصل کريں اور يہ بھي جانيں کہ خداوند عالم نے ہمارے باطن ميں کون کون سے کمالات پوشيدہ کئے ہيں اور ہميں اپني منزل تک پہنچنے کے لئے کن کن چيزوں کي ضرورت ہے يہي انسان کي سب سے بڑي مسؤليت اور ذمہ داري ہے اور اسي ذمہ داري کو احسن طريقے سے نبھا کر انسان کو يہ قدرت حاصل ہوگي کہ اس کي اپنے مقصد کو حاصل کرنے کي جدوجہد ۔۔۔۔۔ ہوشياري کے ساتھ ہو اور اس کي جدوجہد ميں خدا کي توفيقات شامل ہوں۔ ليکن اگر ہم نے اس الہي راستے کي ، جو ہمارے کمال کا راستہ ہے۔۔۔۔ معرفت حاصل نہيں کي اور ان قوانين کے مطابق ۔۔۔۔ جو خداوند عالم نے ہمارے کمال کے لئے مقرر کئے ہيں۔۔۔ عمل نہيں کيا اس کا مطلب ہے کہ ہماري زندگي ميں جمود ہي جمود ہے ہاں اگر ہم نے معرفت کے بغير جدوجہد کي يا قہراً تو نہ خدا کي توفيق شامل ہوگي اور نہ ہي ہم اپنے مقصد کو حاصل کرسکيں گے۔ 

تبصرے
Loading...