انسان کی سب سے بڑی دولت بندگی و عبادت

’’جو جوان خدا ئے متعال کے لئے دنیا اور اس کے لہو و لعب کو چھوڑ کر اپنی جوانی کو خدا کی اطاعت میں بوڑھا کر لے ، اللہ تعالی بھی اسے بہتّر صدیقین کے اجر و ثواب عطا کرتا ہے“

 دنیا کا انسان کے لئے طفیلی ہونا: 

حدیث شریف کے اس حصہ میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم، انسان کی کمال جوئی اور راہ تکامل اختیار کرنے والے کی عظمت، کی اہمیت بیان فرماتے ہیں۔کیونکہ بعض آیات و روایات سے استفادہ ہوتا ہے کہ یہ کائنات اپنی پوری و سعتوں او ر عظمتوں کے ساتھ انسان کے کمال تک پہنچنے کیلئے خلق کی گئی ہے اور حقیقت میں اس دنیا کی تخلیق کا اصلی مقصد انسان ہے اور دوسرے تمام مخلوقات انسان کے طفیل میں خلق کی گئی ہیں ۔خدائے متعال فرماتاہے: 

’’ہو الذی خلق السموات و الارض فی ستہ ایام و کان عرشہ علی الماء لیبلوکم ایکم احسن عملا‘‘ (ھود/۷) 

”اور و ہی وہ ہے جس نے آسمانوں اور زمینوں کو چھ دنوں میں پیدا کیا ہے اور اس کاتخت اقتدار پانی پر تھا تا کہ تمھیں آزمائے کہ تم میں سب سے بہتر عمل کرنے والا کون ہے“ 

آیہٴ مبارکہ کا مضمون یہ ہے کہ خدا ئے متعال نے آسمانوں، زمینوں اور عالم طبیعت کو اس لئے خلق کیا ہے تا کہ انسان کی خلقت کے اسباب فراہم ہو جائیں اور پھر انسان کو خلق کیا تا کہ اس کی آزمائش کرے۔آیہٴ شریفہ کا مضمون حیرت انگیز ہے اور اس کا درک کرنا ہمارے طرز تفکر اور رفتار میں کافی اثر ڈالتا ہے یہ حقیقت ہے کہ خدائے متعال نے عالم وجود کو اس عظمت کے ساتھ اس لئے خلق کیا ہے کہ اس میں انسان کو پیداکرے تا کہ وہ اس کے امکانات سے استفادہ کرکے اپنے کمال تک پہنچے ، انسان کی قدر و منزلت اور اس کی ذمہ داری کی گہرائی کی دلیل ہے۔ 

گزشتہ مطالب کا ذکر کرنا اس لئے ضروری ہے کہ انسان اپنے وجودکی قدر و قیمت کو دوسری مخلوقات کے مقابلہ میں در ک کرے اور جان لے کہ وہ کیڑے اور مینڈک جیسی مخلوقات کے مانند ایک سادہ مخلوق نہیں ہے ، بلکہ وہ ایک عظیم اور قدرو منزلت والی مخلوق ہے کہ جس کی زندگی کی تسہیل کے لئے بہت سے سرمایہ کو وجود بخشا ،اور کائنات کو اسی آب وتاب کے ساتھ خلق کیا تا کہ ایک با شعور، با ارادہ او رصاحب اختیار مخلوق کی حیثیت سے اپنے وجودکی قدرو قیمت کو سمجھے لہٰذا پہلی فرصت میں ایک عاقل اور متفکر وجود ہونے کے ناطے ایک انسان کا فریضہ یہ ہے کہ وہ اپنی اہمیت کو درک کرے، لیکن ان تمام اہمیتوںکے پیش نظر صرف اس نکتہ کا در ک کرنا کافی نہیں ہے بلکہ اسے عالم ھستی میں اپنی ذمہ داری اور وظیفہ کی عظمت کو بھی درک کرنا ضروری ہے اور جاننا چاہئے کہ وہ عبث ، بیہودہ، باطل اور بغیر مقصد خلق نہیں کیا گیا ہے۔ 

مخلوقات عالم میں انسان ایک ایسی خصوصیتوں کا حامل ہے کہ دوسری مخلوقات میںوہ خصوصیتنہیں پائی جاتی ہیں اور و ہ عقل کی نعمت سے آراستہ ہے۔ انسان کی دوسری تمام مخلوقات پر برتری او رفضیلت کے معنی یہ ہیں کہ عقل کے علاوہ دوسری خصوصیات و صفات میں بھی انسان دوسری مخلوقات پر برتری رکھتا ہے اور دیگر موجودات میں جو بھی کمال پایاجاتا ہے، وہ انسان میں بھی بدرجہ اعلی موجود ہے۔ یہ معنی انسان کا دیگر مخلوقات سے خوراک، لباس، رہائش اور ازدواج میں موازنہ کرنے سے بالکل واضح ہو جاتاہے۔ 

ہم دیکھتے ہیں کہ انسان جو اپنے اجتماعی زندگی کے نظم و تدبیر میں تبدیلیوں اورموجودہ ترقی سے جس طرح استفادہ کرتا ہے، وہ کسی بھی دوسری مخلوق میں نظر نہیں آتا۔ اس کے علاوہ انسان اپنے مقاصد تک پہنچنے کے لئے تمام مخلوقات کو بہ روئے کار لاتا ہے لےکن اس کے مقابلہ میں تمام حیوانات و نباتات و غیرہ ایسے نہیں ہیں، بلکہ ان کے بہت معمولی، بسیط اور مخصوص قسم کے اختیارات ہیں، وہ اپنے پیدائش سے آج تک اپنی حالت سے ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھے ہیں اور ان میں کسی قسم کی قابل توجہ تبدیلی نہیں آئی ہے۔جب کہ انسان نے اپنی زندگی کے تمام شعبوں میں بہت زیادہ ترقی کی ہے اور اس کی ترقی کا یہ سفر جاری ہے۔ 

مختصر یہ کہ انسان تمام مخلوقاتِ عالم میں ان سے جس خصوصیت و برتری کا مالک ہے، وہ عقل کی خصوصیت ہے اس عمل کے ذریعہ اس نے دنیا کی تمام موجودات پر فوقیت حاصل کی ہے اسی کے ذریعہ وہ حق و باطل ، خیر و شر اور نفع و نقصان میں فرق پیدا کیا ہے۔ 

انسان کامل کی شرافت اور کرامت: 

’’ولقد کرّمنا بنی آدم و حملنا ھم فی البرّ و البحر و رزقنا ھم من الطّیبات و فضّلنا ھم علی کثیر ممّن خلقنا تفضیلا‘‘ (اسراء/۷۰) 

”اور ہم نے بنی آدم کو کرامت عطاکی ہے انھیں خشکی اور دریاوٴں میں سواریوں پر اٹھایا ہے اور انھیں پاکیزہ رزق عطا کیا ہے اور اپنی مخلوقات میں سے بہت سوں پر فضیلت دی ہے۔

طباطبائی رحمة اللہ علیہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں: 

”یہ آیت منّت رکھنے کے سیاق میں ہے، البتہ وہ منّت جو سرزنش کے ساتھ آمیختہ ہے۔ گویا خداوند متعال ، انسانوں سے اپنی فراوان نعمتوں اور فضل و کرم کا تذکرہ کرتا ہے کہ اس نے انھیں ان نعمتوں کو حاصل کرنے اور رزق سے اپنی زندگی کوبخوبی گزارنے کے لئے ، بیابانوں اور دریاوٴں میں سواریاں اور کشتیاں چلائیں، اس نکتہ کی طرف متنبہ کرتاہے کہ انسان نے اپنے پروردگار کو فراموش کر دیا ہے، اس سے منہ موڑلیا اور اس سے کو ئی چیز نہ مانگی اور دریا سے نجات پانے کے بعد پھر سے اپنی گزشتہ روش پرگامزن ہو، با وجودیکہ وہ ہمیشہ اس کی نعمتوں میں غرق تھا۔ 

خدائے متعال اس آیت میں اپنی کرامتوں اور فضل کا ایک خلاصہ بیان فرماتاہے، تا کہ انسان یہ سمجھ لے کہ اس کا پروردگار اسے کس قدرعنآیت کرتاہے اور انتہا ئی افسوس ہے کہ انسان اس عنآیت کا بھی دوسری نعمتوں کے مانند کفران کرتاہے ۔ ۱ 

——————————————- 

۱۔المیزان د ار الکتب لاسلامیہ ، طبع سوم ج ۱۳، ص ۱۶۵ 

اس لئے بجا ہے کہ انسان اپنے وجود کے گوہر او ر صدف کی قدر و منزلت کو جان لے اور اسے حقیر اور پست دنیا کے عوض فروخت نہ کرے۔ 

چشم دل باز کن تا کہ جان بینی 

آنچہ نادیدنی است آن بینی 

گربہ اقیلم عشق روی آری 

ہمہ آفاق گلستان بینی 

بر ہمہ اہل آن زمین بہ مراد 

گردش دور آسمان بینی 

آنچہ بینی دلت ہمان خواہد 

وآنچہ خواہد دلت ہمان بینی ۱۔

(د ل کی آنکھیں کھولو تاکہ روح”ہستی“ کو دیکھ لو ،جو دیکھنے کے قابل نہیں ہے اسے دیکھ لو گر ملک عشق کی طرف تو جہ کرو گے تو تمام آفاق کو گلستان پاؤ گے، تمام اہل زمین، گر دش افلاک کو اپنے مقصدکے مطابق خیال کریں گے جسے دیکھو گے تمھارا دل اسی کو چاہے گا اور تمھارے دل اور آرزو کے مطابق تمام چیزیں نظر آئیں گی) 

انسان کو انسانی کما لا ت تک پہنچنے کے لئے بعض خاص شرائط اور سہولتوں کی ضرورت ہو تی ہے اوریہ دنیا جو عالم طبیعت کے ای پر شکوہ نظام کا حصہ ہے اپنے تمام تر تبدیلیوں اور ترقیوں کے ساتھ انسان کے اختیار میں ہو نی چاہئے۔ ہم کسی حد تک جانتے ہیں کہ اگر عالم طبیعت میں وہ تحو لات اور متواتر نظم نہ ہو تا تو یا انسان کی اختیا ری زندگی متحقق نہ ہوتی یاناقص صورت میں متحقق ہو تی ۔ 

ہم اجمالی طور پر جانتے ہیں کہ کائنات کا ایک ہما ہنگ نظام ہے اوراس کے اجزا و عوامل ایک دوسرے کے محتاج ہیں ۔ ان عوامل کا ایک نمو نہ مختلف سیاروں میں پایا جانے والا قوئہ جاذبہ ہے یہاں تک کہ اگر اس معین اور دقیق جاذ بہ میں کسی قسم کاخلل ایجاد ہو جائے اور ایک سیارہ اپنے مدار سے ہٹ جائے تو تمام سیاروں کا نظام در ہم بر ہم ہو جائے گااور ایک خلاف تو قع المیہ پیش آئے گا۔ 

جیسا کہ اشارہ ہوا، عالم اس عظمت کے ساتھ انسان کی خلقت اوراس کے کمال تک پہنچنے کا ایک مقدمہ ہے۔ اور جن کمالات تک انسان پہنچنا چاہتا ہے،اور یہ بات شائستہ ہے ایک عالم اتنی وسعت و عظمت کے ساتھ اس کی حیثیت انسان کے لئے طفیلی۔ اگر چہ تمام انسانوں میں سے بہت کم ہی لوگ ایسے ہوتے ہیں جو ان کما لات کی انتہا تک پہنچتے ہیں اور بقیہ افراد تو ان کے و جود کے سایہ میں کسی حد تک بہرہ مند ہوتے۔ 

——————————————- 

۱۔ہا تف اصفہانی کے اشعار 

ہیں اور ان کے وجود کا دارو مدار ان نیک اور منتخب شخصیات کے و جود کے تابع ہے ۔ مثال کے طور پر پچاس کلو میٹر وسیع و عریض علاقہ پر پوری گہرائی سے چند دانے ہیر ے حاصل کر نے کے لئے و سیع پیمانے پر کھدائی کی جائے تویہاں پر اصلی مقصد ہیروں کے چند دانے حاصل کرنا ہے، اگر چہ اس کھدائی کے دوران پتھرکے کو ئلہ کا بھی استخر اج ہو تا ہے لیکن اس کی کوئی خاص اہمیت نہیں ہو تی ہے۔لہٰذا ہیر وں کی کھدائی کے لئے کہ جومعدن کے استخراج کا اصلی مقصدہے دوسرے موادبھی مو جود ہو تے ہیں کہ جن کو ددسرے در جے کی اہمیت حاصل ہے ان کے علاوہ کچھ بے فائدہ چیز یں بھی ملتی ہیں جنھیں ضایعات کے طور پر دور پھینکا جاتا ہے۔ 

اس دنیا کی خلقت کا مقصد کچھ انوار پاک ہیں کہ ان میں بر جستہ تر ین و مشخص ترین انوار مقدس چہاردہ معصو مین علیہم السلام ہیں، اور ان کے بعد تمام انبیاء اور وہ افراد ہیں جو اپنے کمال کے درجات کے مطابق ان میں ملحق ہو تے ہیں ۔( تقریبا ایک لاکھ چو بیس ہزار انبیاء اور اولیائے خدا ہیں۔ ان میں سے بعض انبیاء دوسرے انبیاء سے بر تر ہیں ہم انکی تعداد سے بے خبر ہیں)۔ 

پس کمالات انسانی کا آخری درجہ اور مرتبہ پیغمبر اسلام صلی ا للہ علیہ و آلہ و سلم اور آپ کے اہل بیت علیہم السلام کی ذات میں منحصر ہے اور ان کمالات کے ادنی مراتب ان لوگوں میں پائے جاتے ہیں جو دوسروں کے بعد بہشت میں داخل ہوں گے۔ ان افراد کے علاوہ ، دوسرے لوگ جن کے دل ایمان کے نور سے خالی ہیں، انھیں ضائعات کے مانند قہرالہی کی آگ میں جلادیا جائے گا:

’’ولقد ذرانا لجہنّم کثیرا من الجن و الانس لہم قلوب لا یفقہون بہا و لہم اعین لا یبصرون بہا و لہم آذان لا سمعون بہا۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘ (اعرف/ ۱۷۹) 

”اور یقیناً ہم نے انسان و جنا ت کی ایک کثیر تعداد کو گویا جہنّم کے لئے پیدا کیا ہے کہ ان کے پاس دل ہیں مگر سمجھتے نہیں اور آنکھیں ہیں مگر دیکھتے نہیں ہیں اور کان ہیں مگر سنتے نہیں ہیں۔ ۔ ۔ ۔“ 

جہنم میں اس دنیا کے ضائعات ہیں اور خلقت عالم کا اصلی مقصد ، پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ، فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا اور ائمہ معصومین علیہم السلام ہیں کہ عالم اپنی پوری وسعت اور عظمت کے ساتھ فضیلت و کما ل کے لحاظ سے ان میں سے کسی کے ساتھ قابل موازنہ نہیں ہے ؛ بلکہ ان کے ایک دن کی قیمت پورے اس کائنات کے برابر ہے۔ اس عالم کے اصلی وارث و ہ انسان ہیں حو سعادت پاکر خدا کا تقرّب حاصل کر چکے میں: 

’’انّ المتقین فی جناتٍ و نہرٍ فی مقعد صدقٍ عند ملیکٍ مقتدر‘‘ (قمر/۵۴و۵۵) 

”بےشک صاحبان تقوی باغات اور نہروں کے در میان ہوں گے۔اس پاکیزہ مقام پر جو صاحب اقتدار بادشاہ کی بارگاہ میں ہے“ 

بہشت مومنین اور محبان اہل بیت کی جگہ: 

ہمارا اعتقاد ہے کہ با ایمان مرنے والے بہشت میں جائیں گے؟حتی اگر ان کا ایمان سب سے ادنی درجہ کا بھی ہو اور وہ ایمان مرتے وقت کفر میں تبدیل نہ ہوا ہو۔ (وہ عالم برزخ کے بعد بہشت میں داخل ہوتاہے، اس میں کوئی شک نہیں کہ کمال ایمان ،اعتقاد اور محبت اہل بیت علیہم السلام کے ذریعہ حاصل ہو تا ہے چنانچہ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: 

”۔ ۔ ۔ ۔الا و من مات علی حبّ آل محمدٍ مات مومناً مستکمل الایمان، الا و من مات علی حبّ آل محمدٍ بشّرہ ملک الموت بالجنة۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘ 

”بےشک جو آل محمد کی محبت میں مرجائے، وہ مؤمن اور ایمانِ کامل کے ساتھ مراہے۔بےشک جو آل محمد کی محبت میں مرجائے، ملک الموت اسے بہشت کی بشارت دیتے ہیں۔“ 

اس لحاظ سے جو شیعہ محب اہل بیت علیہم السلام ہے اور خدا ئے متعال اور اولیائے خدا کے حکم کے مقابلہ میں خاضع اور فرمانبردار ہے، اسے موت کی کوئی پروا نہیں ہے، کیونکہ موت مومن کے سامنے رضائے الہی تک پہنچنے کا ایک پل ہے۔ 

حضرت اما م حسین علیہ السلام نے عاشورا کے دن اپنے اصحاب سے مخاطب ہو کر فرمایا: 

”اے شریف زادو! صبر و تحمل سے کام لو کہ موت صرف ایک پل ہے جو تمہیں سختیوں اور مشکلات سے عبور کراکے وسیع باغوں اور ابدی نعمتوں میں پہنچاتی ہے اور حقیقت میں تم میں سے کون راضی نہیں ہے جو زندان سے محل کی طرف روانہ ہو جائے؟ “ ۲ 

———————————- 

۱۔بحار الانوار ،ج ۲۳، ص ۲۳۳ 

۲۔ شیخ صدوق ، معانی الاخبار ، ص ۲۸۹ 

حضرت علی علیہ السلام متقین کے لقاء اللہ کے شوق کے بارے میں فرماتے ہیں: 

”اگر ان کے لئے (متقین) موت معین اور مقدر نہ کی گئی ہوتی تو ثواب کے شوق اور عذاب کے ڈر سے ان کی جان ان کے بدن میں ایک لمحہ کے لئے بھی باقی نہ رہتی“ 

ان کی نظروں میں پروردگار عالم عظیم ہے اس لحاظ سے دوسرے ان کی نظروں میں چھوٹے ہیں “ ۱۔ 

ایک شخص نے جناب ابوذر (رۻ) سے پوچھا: ہم کیوں موت سے بیزارہیں؟ جناب ابوذر (رۻ) نے جواب میں فرمایا: 

”لانّکم عمّرتم الدنیاوخرّبتم الآخرہ فتکرہون ان تنتقلوا من عمران الی خراب۔ “ ۲ 

”چونکہ تم لوگوں نے اپنی دنیا کو آباد کیا ہے اور اپنی آخرت کو ویران کیا ہے۔اس لئے آبادی سے ویرانی کی طرف منتقل ہونے کے لئے راضی نہیں ہو۔“ 

افراد اپنے ایمان و اعمال کے مرا تب کے مطابق بہشت سے بہرہ مند ہوتے ہیں: کچھ لوگ مرنے کے بعد برزخی بہشت میں داخل ہوتے ہیں اور اس کے بعد قیامت کے دن بہشت میں جاتے ہیں۔ لیکن جو لوگ گناہ گار تھے،مگر یہ کہ ان کے وجود میں ایمان کا ایک ضعیف روشن تھا، و ہ عذاب الہی میں گرفتار ہونے کے بعد اور ممکن ہے برسوں تک عذاب برداشت کریں اور گناہوں سے پاک ہونے کے بعد بہشت میں داخل ہوں گے۔ان کی مثال اس سونے کی سی ہے جسے بھٹی میں ڈال دیا جاتا ہے تا کہ آلود ہ اور غیر خالص مادہ اس سے دور ہو جائے اور خالص سونے میں تبدیل ہو جائے۔ یقیناً یہ لوگ بہشت کے مالک نہیں ہیں، بلکہ یہ ایسے مہمان ہیں جو بہشت کے اصلی مالکوں کی شفاعت اور خدائے متعال کے لطف و کرم سے بہشت میں پہنچے ہیں۔ 

۱۔ صاحبان بہشت: 

بہشت کے اصلی مالکوں کا خدائے متعال نے یوں تعارف کرایا ہے : 

—————————————— 

۱۔نہج البلاغہ (ترجمہ فیض الاسلام ) ،ج ۱۸۴، ص ۶۱۲ 

۲ ۔فیض کاشانی، محجہ البیضاء، ج ۸، ص ۲۵۸ 

’’ومن یطع اللہ و الرّسول فاولئک مع الذین انعم اللہ علیہم من النبییّن و الصّدیقین و الشّہداء و الصّالحین و حسن اولئک رفیقا‘‘ (نساء/۶۹) 

”اور جو بھی اللہ اور رسول کی اطاعت کرے گا وہ ان لوگوں کے ساتھ رہے گا، جن پر خدانے نعمتیں نازل کی ہیں انبیاء، صدیقین، شہداء اور صالحین اور یہی بہترین رفقاء ہیں۔“ 

یہ آیہٴ مبارکہ بہشت کے اصلی مالک کی حیثیت سے چار گروہ کا تعارف کراتی ہے اور دوسرے افرادان کی پیروی اور شفاعت سے بہشت میں داخل ہوتے ہیں اور حقیقت میں وہ لوگ میزبان اور صاحب خانہ ہیں اور دوسرے مہمان۔ صاحبانِ بہشت، یعنی انبیاء ، صدیقین، شہداء اور صالحین وہ لوگ ہیں جن پر خدائے متعال نے اپنی نعمتیں تمام کی ہیں اور ہمیں حکم دیاہے کہ ہم ہر روز نماز میں خداسے دعا کریں کہ ہمیں ان کی راہ کی طرف ہدآیت فرمائے: 

’’اہدنا الصّراط المستقیم صراط الّذین انعمت علیہم ‘‘  

قابل ذکر بات یہ ہے کہ مذکور ہ آیہٴ مبارکہ میں ،شہد اء سے مراد قیا مت کے دن بندوں کے اعمال پر گواہی دینے والے ہیں کہ ان کا مقام دیگر شہداء سے بلند ہے۔ چنانچہ علا مہ طبا طبا ئی ر حمة ا للہ علیہ فر ما تے ہیں: 

” شہاد ت کا مقصود( بعض آ یتوں میں) لو گوں کے اعمال پر شہادت ہے اور اس سے مراد ان اعمال کے حقائق کو دیکھنا اور بر داشت کر ناہے جنھیں لو گ دنیا میں انجام دیتے ہیں ،خواہ وہ حقیقت سعادت ہو یاشقا وت ۔پس قیامت کے دن شاہد اس چیزکی شہادت دیتا ہے جسے اس نے دیکھاہے جس دن خدا ئے متعال ہر چیز سے گواہی لیتا ہے، حتی بدن کے اعضا سے بھی شہا دت لیتا ہے، جس دن پیغمبر اسلام صلی ا للہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے ہیں : 

’’۔ ۔ ۔ یا رب ان قو می اتّخذوا ھذاالقرآن مھجو را ‘‘ (فرقا ن/۳۰) 

”پر وردگارا:میری قوم نے قر آن مجیدکو چھوڑ دیا ہے“ 

و اضح رہے کہ اس قسم کا عظیم مرتبہ پو ری امت کی شان میں نہیں ہو سکتا ہے ،چوں کہ یہ ایک خاص فضیلت ہے جوخدا کے او لیائے طا ہرین کے لائق ہے کم ترین مقام جو یہ گواہ ( اعمال کے شاہد) ر کھتے ہیں ، وہ یہ ہے کہ وہ خدا کی و لا یت کے تحت اور اس کی نعمت کے سایہ میں پلتے ہیں اور اصحاب صراط مستقیم ہیں۔ ۱۔ 

—————————————— 

۱۔ المیزان(دارالکتاب الاسلامیہ، طبع سوم)ج/۱،ص /۳۲۴۔۳۲۵ 

پس ہم نے یہ نتیجہ اخذ کیاکہ خدا کے بر ترین بندے اور وہ جن کے حق میں خدا ئے متعال نے اپنی نعمتیں تمام کیں اور انھیں صاحبان بہشت قراردیا، انبیاء،صدیقین،شہداء اور صالحین ہیں ۔ دوسرے بندے ان چار گرو ہوں کی پیروی اور و ابستگی کی وجہ سے بہشت میں داخل ہوں گے البتہ جو لوگ خدا کے نیک و صالح بندوں سے رابطہ کی وجہ سے سعاد ت و بہشت تک پہنچتے ہیں وہ مراتب کے لحاظ سے ایک دوسرے سے متفاوت ہیں اور سب ایک مرتبہ میں نہیں ہیں، یہاں تک کہ خود وہ چار گروہ مراتب کے لحاظ سے یکساں نہیں ہیں اور بعض کو بعض دو سروں پرفوقیت و برتر ی حاصل ہے۔ 

الف: انبیاء اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا مقام: 

فرمان الٰہی کے مطا بق انبیاء دوسرے لو گوں پر بر تری رکھتے ہیں۔ 

’’ ان اللّٰہ اصطفی آدم و نوحا و آل ابراھیم و آل عمران علی العالمین‘‘ ( آل عمران/۳۳) 

” اللہ نے آدم ، نو ح اور آل ابراھیم اور آل عمران کو دنیا کے لوگو ں پر بر تری بخشی ہے“ 

اس کے علاوہ بعض پیغمبر دوسرے پیغمبر وں پر بر تری رکھتے ہیں: 

’’ تلک الرسل فضّلنا بعضھم علی بعض:‘‘ (بقرہ/۲۵۳) 

” ان رسولوں میں سے بعض کو ہم نے بعض پر بر تری دی ہے“ 

ایک لاکھ چو بیس ہزار انبیاء میں سے صر ف۳۱۳ افراد مقام رسالت کے حامل تھے۔ اور ان میں سب رسول صاحب شریعت نہیں تھے، بلکہ صرف پانچ رسول صاحب شریعت تھے کہ جن سے یہ افراد مراد ہیں : نوح علیہ السلام، ابراہیم علیہ ا لسلام ، موسیٰ علیہ ا لسلام، عیسیٰ علیہ ا لسلام ، اور حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ۔ یہ ا ولو ا لعزم انبیاء د یگر تمام رسولوں سے برتر ہیں اور ہما ر ے اعتقاد کے مطا بق حضرت خاتم الا نبیاء محمد مصطفیٰ صلی ا للہ علیہ و آلہ وسلم ان سب سے افضل و بر تر ہیں چنانچہ پیغمبر اکرم نے فر ما یا ہے : 

” یا علی ان اللّٰہ تبارک وتعالی فضّل انبیائہ المر سلین علی ملائکتہ ا لمقربین و فضّلنی علی جمیع النبیین والمرسلین والفضل بعدی لک یا علی وللاٴئمة من بعدک وان الملائکة لخدّامنا وخدام محبینا۔ ۔ ۔“ ۱۔ 

—————————————— 

۱۔ بحار الانوار ، ج ۱ ، ص ۳۴۵ 

” اے علی علیہ السلام! خدا ئے متعال نے اپنے پیغمبروں کو اپنے مقرب فرشتوں پر بر تری عنایت کی ہے اور مجھے تمام انبیاء اور پیغمبروں پر فوقیت و برتری دی ہے اور میرے بعد برتری کے مستحق تم اور تمھارے بعدآنے والے ائمہ ہیں ، بیشک فر شتے ہما رے اور ہمار ے دوستو ں کے خدمت گزار ہیں “ 

ثابت ہوا کہ انسان کی خلقت کا اصلی مقصد خدا کے منتخب بندے ہیں اور چونکہ عام افراد انسانی کمالات میں ایک دوسرے سے متفاوت ہیں ، انبیاء و صالحین او ر خدا کے دوستوں میں بھی کمالات انسانی کے لحاظ سے فرق ہے اور ان کے مراتب اور درجات میں اختلاف ہمارے لئے قابل درک نہیں ہے اور صرف خدا ان سے آگاہ ہے۔ 

انبیائے الہی اور اولیائے خدا حتی ایک پلک جھپکانے کے برابر بھی شرک و گناہ میں آلودہ نہیں ہوئے ہیں، یہاں شرک بہ معنی حقیقی ہے یعنی غیر خدا کی طرف لو لگانا بت پرستوں کے شرک کی تو بات ہی نہیں ہے،ان کا مقصود و مطلوب خدائے متعال ہوتا ہے اور اس کے علاوہ ان کا کوئی مقصود و مطلوب نہیں ہوتا۔اگر وہ کبھی غیر خدا کی طرف توجہ کرتے ہیں تو فریضہ اور خدا کی اطاعت کے طور پر ہے کہ ان سے خدانے یہ چاہا ہے کہ اس کے دوسرے بندوں سے غافل نہ رہیں او ر اپنے اصلی مقصد تک پہنچنے کے لئے اپنے مادی وسائل سے فائدہ اٹھائیں ورنہ ان کا مقصد صرف خدا ہے اور بس۔  

ہم انبیائے کرام کے اعلیٰ مدارج اور بلند مراتب کے بارے میں صرف ایک ضعیف تصور رکھتے ہیں اور ان کی گہرائیوں تک نہیں پہنچ سکتے ، بلکہ اگر ہم ان کے مقام کی کیفیت کے بارے میں فکر کریں تو ہماری عقل حیران ہوجاتی ہے۔ ان کے مقام و منزلت کے بارے میں صرف وہ اور ان کاخدا واقف ہے اور دوسرے ان کے انسانی مرتبہ اور مقام و منزلت کی معرفت حاصل کرنے سے عاجز ہیں : 

’’فلا تعلم نفس ما اخفی لہم من قرّہ اعینٍ جزاء بماکانوا یعملون‘‘ (سجدہ /۱۷) 

”پس کسی نفس کو نہیں معلوم ہے کہ اس کے لئے کیا کیاخنکی چشم کاسامان چھپا کر رکھاگیا ہے جو ان کے اعمال کی جزا ہے۔“ 

ب۔صالحین کا مقام: 

منجملہ انسانی عالی مراتب، جن کی طرف اشارہ ہوا، صالحین کامرتبہ ہے کہ ان کے بلندمرتبہ اور عظمت و منزلت کے بارے میں خدائے متعال حضرت موسی علیہ السلام کی زبانی فرماتاہے: 

رب ھب لی حکما و الحقنی بالصالحین‘‘  (شعراء/۸۳) 

”خدایا !مجھے علم وحکمت عطا فرمااور مجھے صالحین کے ساتھ ملحق کردے۔“ 

ایک دوسری جگہ پر فرماتاہے: 

’’ووھبنا لہ اسحاق و یعقوب نافلة و کلّا جعلنا صالحین‘‘ (انبیاء /۷۲) 

”اور پھر ابراہیم کو اسحاق اور ان کے بعد یعقوب عطاکئے اور سب کو صالح اور نیک کردارقرار دیا۔‘‘  

ج۔ صدیقین کا مقام: 

ایک اور بلند انسانی مرتبہ، صدیقین کا مرتبہ ہے کلمہٴ ”صدیقین“ جیسے کہ خود کلمہ دلالت کرتاہے کہ ”صدق “ کا مبالغہ ہے، یعنی وہ جو بہت زیادہ سچے ہیں۔حقیقت میں صدق صرف زبانی نہیں ہے: اس کے مصادیق میں سے ایک انسان کی گفتگو ہے جو وہ بولتا ہے، اس کا دوسرا مصداق عمل ہے، کہ اگر عمل بات اور دعوی کے مطابق ہے، تو صادق ہے۔ چونکہ انسان کا عمل اس کے اندرونی اعتقاد کی حکآیت کرتاہے اور انسان اس حکآیت میں اس وقت صادق ہے جب وہ مافی الضمیرکو مکمل طور پر حکآیت کرے اور اس میں سے کوئی چیز باقی نہ رکھے، ایسا عمل صحیح اور صادق ہے۔اس کے مقابلہ میں اگر ما فی الضمیرکی حکآیت نہ کرے یا صحیح اور مکمل طور پر حکآیت نہ کرے ، تو وہ عمل غیر صادق ہے۔ 

سچ بات بھی وہ بات ہے جو واقع اور خارج کے ساتھ مطابقت رکھے، چونکہ بات کرنا بھی ایک فعل ہے، قہری و فطری طور پر جو اپنے فعل میں صادق ہے وہ اس وقت تک بات نہیں کرے گاجب تک کہ اس کے سچ ہونے کے بارے میں علم نہ ہو جائے اور یہ بھی جانتا ہو کہ وہ بات کہنا مناسب اور بجا ہے اور اس کا کہنا حق ہے۔ اس بناپر ایسی بات خود اور بولنے کی صداقت کی حکآیت بھی ہے اور کہنے والے کی صداقت کی حکآیت بھی ۔ 

پس صدیق وہ ہے جو کبھی اور کسی صورت میں جھوٹ نہیں بولتا ہے اور جس کام کے حق ہونے کے بارے میں نہیں جانتاہے اسے انجام نہیں دیتا ہے خواہ، وہ کام کتنا ہی اس کے نفسانی خواہشات کے مطابق کیوں نہ ہو، اسی طرح جس بات کے سچ ہونے کے بارے میں نہیں جانتا، اسے نہیں کہتا ہے اور جو کام عبودیت کے ساتھ سازگار نہیں ہے، اسے انجام نہیں دیتا ہے۔ 

حضرت علی علیہ السلام اپنی توصیف میں فرماتے ہیں: 

”۔ ۔ ۔ وانی لمن قوم لا تاخذہم فی اللّٰہ لومة لائم،سیماہم سیما الصدیقین وکلامہم کلام الابرار“ ۱۔  

”میں ان لوگوں میں سے ہوں جو را ہ خدا میں سرزنش و ملامت کرنے والوں سے باز نہیں آتے ہیں ۔ان کی نشانیاں سچّوں کی نشانیاں ہیں اور ان کی باتیں سچے کر دار والوں کی باتیں ہیں“ 

صدیقین کا مقام ایک ایسا مقام ہے کہ جب خداوند متعال اپنے بعض پیغمبروں کے مقام کی توصیف کرنا چاہتا ہے تو فرماتاہے: 

’’واذکر فی الکتاب ابراہیم انّہ کان صدّیقا نبیّا‘‘ (مریم /۴۱) 

”اور کتاب خدا میں ابراھیم کا تذکرہ کرو کہ وہ ایک صدیق پیغمبر تھے۔“ 

یا حضرت عیسی علیہ السلام کی والدہ حضرت مریم(ع) کے بارے میں فرماتا ہے: 

’’و امّہ صدّیقہ‘‘ (مائدہ/۷۵) 

———————————– 

۱۔ نہج البلاغہ ” ترجمہ شہیدی“ خطبہ /۱۹۲ص/۲۲۴

البتہ ہمیں کوئی طمع نہیں ہے کہ صدیقین یا صالحین کے جیسے مقام تک پہنچ جائیں، لیکن انسان کی کوشش کسی بھی حالت میں پست نہیں ہونی چاہئے۔اس اپنی استعدادوں اور توانائیوں کے مطابق کوشش کرنی چاہئے اور برتر مراتب تک پہنچنے کے لئے سعی کرے۔اسے ان مراحل تک پہنچنے کی کوشش کرنی چاہئے ، جن تک غیر معصوم انسان پہنچ سکتے ہیں ،علما ء کے درمیان ایسے بزرگ بھی گز رے ہیں جو انسانی مرا حل کے اعلی مقام تک پہنچے تھے ، ہم نے ان میں سے بعض کو دیکھا ہے اوران سے واقف ہیں اور کتنے ایسے بزرگوار ہیں جو تکامل کے اس مر حلے تک پہنچے ہیں جو خاصان خدا سے مخصوص ہے اور ہم ان کے بارے میں خبر نہیں رکھتے ہیں۔ یقینا ایسے بلند وبالا مقامات عالی ہمت اورپیہم کوششوں کے نتیجہ میں حاصل ہو تے ہیں جیسے شا عر کہتا ہیں: 

ہمت بلنددارکہ مر دان روز گار 

از ہمت بلند بہ جائی رسیدہ اند 

( اپنی ہمت کو بلند کر وکہ مردان روز گار بلند ہمت سے ہی عالی مقامات تک پہنچے ہیں) 

ایک دوسرا شاعر کہتا ہے: 

ہمت اگر سلسلہ جنیان شود 

مور تواند کہ سلیمان شود 

اگر ہمت اور حوصلہ کو بہ روئے کار لایا جائے تو ایک چونٹی بھی سلیمان ہو سکتی ہے۔ 

خدا کے منتخب بندوں کے لئے عصمت کاایک خاص درجہ: 

خدائے متعال نے انسان کی تکامل و ترقی اور بالیدگی کی راہ میں کو ئی رکاو ٹ قرار نہیں دی ہے۔ اگر انسان ہمت کرے تو وہ مقام صالحین جیسے بلند مقامات تک پہنچ سکتا ہے ، اگر چہ وہ معصوم نہیں ہو سکتا صدیقین اور صالحین کا مقام معصومین کے مقام سے پست تر ہے ۔ اس لحاظ سے ہر انسان ان مقامات تک پہنچ سکتا ہے۔ہر انسان اپنی پوری عمر میں گناہ نہیں کر سکتا ہے اور حقیقت میں جو شخص چاہتا ہے کہ گناہ میں آلودہ نہ ہو اور اپنی نفسانی خواہشات پر کنٹرول رکھے اور صرف خدا کی خو شنودی کےلئے اپنے آپ کووقف کر دے، تو وہ عمل میں معصوم ہے، اگر چہ معصوم کی اصطلاح اس پر صادق نہیں آ تی ہے۔اس مطلب کی وضاحت میں کہنا چاہئے: 

لغت میں(( عصمت)) روکنے اور رکاوٹ بننے کے معنی میں ہے اور اصطلاح میں ایک نفسانی ملکہ کو کہتے ہیں جوانسان کو گناہ حتی خطا و اشتباہ سے محفوظ رکھے ۔اب کیا یہ ملکہ ما نع ہے اور اسی لئے اسے ملکہ”عصمت“ کہتے ہیں، یا یہ کہ خدا ئے متعال اس انسان کو گناہ، خطا و اشتباہ سے روکتا ہے جس میں یہ ملکہ پایا جاتا ہے فی ا لجملہ دونوں معنی صحیح ہیں ،خواہ ہم یہ کہیں کہ معصوم وہ ہے جو ایسا ملکہ رکھتا ہے اور وہ ملکہ اسے خطا اور گناہ سےمحفوظ ہے ، یا یہ کہیں کہ معصوم وہ شخص ہے کہ اللہ تعالی اسے گناہ اور اشتباہ سے روکتا ہے،توہم نے خطانہیں کی ہے کیونکہ خدائے متعال بھی اسی ملکہ کے ذریعہ اس کا تحفظ کرتا ہے۔پس معصوم وہ ہے جوخطا وگناہ سے پاک ہو یا صرف گناہ سے محفو ظ ہو۔ 

عصمت کی قسمیں: 

۱۔ گناہ سے عصمت: یعنی معصوم وہ ہے جو اختیار و قصدسے کسی گناہ کا مر تکب نہ ہو جائے۔ 

۲۔ خطا و اشتباہ سے عصمت: یعنی معصوم وہ ہے جو گناہ کو ترک کر نے کے علا وہ خطا و اشتباہ سے بھی پر ہیز کر ے ،عصمت کی پہلی قسم ، مقام عمل میں عصمت ہے،لیکن عصمت کی دوسری قسم، عمل اور غیر عمل دونوں کو شامل ہے، یعنی مقام ادراک اور تشخیص میں بھی معصوم ہے ، چو نکہ دو سری قسم کا معصوم وہ ہے کہ نہ صرف مقام عمل میں گناہ نہیں کر تا ہے، بلکہ تشخیص میں بھی خطا سے دو چار نہیں ہوتاہے۔ یعنی صحیح سمجھ بھی سکتے ہیں صحیح بیان بھی کر تے ہیں اور صحیح عمل بھی کرتےہیں ۔ 

علا مہ طباطبائی ر حمة اللہ علیہ انبیاء اور ا ئمہ معصو مین کی عصمت کے بارے میں فر ما تے ہیں: 

قر آن مجید صراحت کے ساتھ فر ما تا ہے کہ خدائے متعال نے انھیں اپنے لئے منتخب کیا ہے اور اپنے لئے خالص قرار دیا ہے، جیسے کہ فرماتا ہے: 

’’ و من ء آبائھم و ذریا تھم و اخوانھم و اجتبیناھم و ہدیناھم الی صراط مستقیم‘‘ ( انعام/۸۷) 

”اور پھر ان کے باپ دادا، اولاد اور برادری میں سے اور خود انھیں بھی منتخب کیا اور سب کو سیدھے راستہ کی ہدا یت کر دی “ 

خدا ئے متعال نے انھیں علم میں سے وہ مرحلہ عطا کیا ہے جو عصمت کا ملکہ ہے اور وہ انھیں گناہ کے ارتکاب اور جرائم سے روکتا ہے۔ اس ملکہ کے ہوتے ہوئے ان سے گناہ کا ( حتی گناہ صغیرہ) سر زد ہو نا محال ہوتا ہے ۔ اگر چہ عصمت،اورعد الت کے دونوں ملکہ گناہ کے مر تکب ہو نے سے مانع ہوتے ہیں ، لیکن ان میں یہ فر ق ہے کہ عصمت کے ملکہ ساتھ گناہ کا سر زد ہونا ممتنع ہو تاہے، لیکن عدالت کے ملکہ ساتھ گناہ کا سرزد ممتنع نہیں ہو تا ہے۔ 

مزید فرماتا ہے: 

”عصمت“کا ملکہ سے سے نہ صرف یہ کہ اس کا اثر کو نہیں بدلتا ہے بلکہ اس کا اثر قطعی اور دائمی ہے ، اسی کے ساتھ طبیعت انسانی کو ——کہ وہی اپنے ارادی افعال میں مختار ہو ناہے —— تغیر دئیے بغیر اسے عصمت کے لئے مجبور ومضطرب نہیں کیا جاسکتا۔ اسے کیسے مجبور کر سکتاہے،جبکہ علم خود اختیارات کا مقدمہ ہے اور علم کا قوی ہونا ارادہ کے قوی ہونے کا سبب ہو تا ہے ، مثلا جو تندرستی کاطالب ہے، اگر یقین پیدا کر لے کہ فلاں چیز زہر قاتل فوری ہے، بلکہ یقین اسے مجبور کر دیتا ہے کہ اپنے کو ارادہ و اختیار کے ساتھ اس زہر یلے سیال مادہ کو پینے سے روک لے۔ ۱۔  

مذ کورہ مطالب کے پیش نظر ، حتی بعض افراد جیسے حضرت ابو الفضل العباس علیہ السلام اور حضرت علی اکبر علیہ ا لسلام اور بہت سے امام زادے دوسری قسم کی عصمت ——جو بعض انبیاء ، ائمہ معصو مین اور حضرت زہرا سلام اللہ علیہا سے مخصوص ہے —— کے مالک نہیں ہیں، جبکہ وہ اپنی پوری زندگی میں مر تکب گناہ نہیں ہو ئے ہیں ۔ البتہ اس میں کسی قسم کا شک و شبہ نہیں ہے کہ ان بزرگوں کا مقام دوسرے لو گوں سے بدرجہ ہا بلند ہے اور وہ ایک قسم کے مقام عصمت کے مالک ہیں، البتہ جو عصمت بعض انبیاء اور ائمہ کے لئے مخصوص ہے ، اس کے یہ مالک نہیں ہیں۔ 

نتیجہ نکلا کہ انسان گناہ سے عملی عصمت کا مالک ہو سکتا ہے اور عملا گناہ نہ کر ے اور اگر بلند ہمت رکھتا ہے اور تز کیہ نفس اور نفسانی خواہشات کو کچل کر خدائے متعال سے اپنے رابطہ کو مستحکم کرلے تو وہ صدیقین کے مقام تک پہنچ سکتا ہے۔لہذا ہمیں معنوی کمالات تک پہنچنے کے لئے اپنے قدم آگے بڑھانا چاہئے اورخودکوصدیق یا صالح بننے کی تلقین کرنا چاہئے۔ بیشک اگر انسان کو شش کرے اور ضروری ظرفیت اور کما حقہ تمام شائستگی کو کسب کرے، تو خدائے متعال ایسے مقامات عطاکرنے میں بخل نہیں کرتاہے ۔ بنیادی طو ر پر خود خدائے متعال نے انسان کی ہمت افزائی کی ہے کہ وہ بلند مقام تک پہنچے اور اسلام نے مو من کو بلند ہمتی کی دعوت دی ہے اور خدائے متعال چاہتا ہے کہ مو من کے حوصلے بلند ہوں اور وہ تھوڑے پر مطمئن اور قانع نہ ہوجائے ، انبیاء کے مقام پر نظر رکھے اور کو شش کرے کہ ان کی پیروی کریں۔ 

اگر ہم انبیاء کے درجہ اور مقام عصمت تک نہیں پہنچ سکتے ،لیکن صدیق اور صالح بن سکتے ہیں، کیونکہ انبیاء اور ائمہ معصو مین کی خصوصی عصمت کے لئے ان دونوں چیزوں کی شرط نہیں ہے۔ چنانچہ ہم نے اس سے پہلے بھی کہا ”صدیق یعنی“ سچ بولنے اور راست گفتاری میں مبالغہ ہے، یعنی جو اپنی زندگی میں جھوٹ کو اپنے نزدیک آنے کی اجازت نہ دے،نہ اپنے گفتار میں،نہ کردار میں اور نہ اپنی سوچ میں حتی غلط فکر اوربرا تصور بھی نہیں کرتا ہے ۔ 

——————————- 

(۱)المیزان(دارالکتب الاسلا میہ ،طبع سوم)ج۱۱،ص۱۷۷۔۱۸۹ 

ایمان میں صداقت کی اہمیت اوراس تک پہنچنے کا راستہ: 

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سچائی وصداقت کی قدر و قیمت کے بارے میں فرماتے ہیں: 

”ان ا لصدق یھدی الی البروالبر یھدی الی الجنة و ان الرجل لیصدق حتی یکتب عنداللہ صدیقا” ۱۔ 

” صدق ،نیکی کے لئے راہنما ہے اور نیکی بہشت کے لئے، اور مرد سچ نہیں کہتاہے مگر یہ کہ خدا کے نزدیک صدیق کی حیثیت سے پہچانا جائے“ 

شایدہم بولنے فکر کرنے اور رفتار وکردار میں صداقت پیدا کرنے کومشکل نہ سمجھیں او راپنی جگہ یہ تصور کریں کہ ایسا ممکن ہے کہ ہم جھوٹ نہ بولیں ، برُی فکر کو اپنے ذہن میں پلنے نہ دیں اورناشائستہ رفتار سے پر ہیز کریں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ کام بہت مشکل ہے ۔ ہم سب دعوی کر تے ہیں کہ خدا پر ایمان رکھتے ہیں اور ہمیشہ خدا کو حاضر وناظر جانتے ہیں ،لیکن کیا ہماری رفتار و گفتار ہمارے ایسے دعوی کی تائید کرتی ہیں؟ 

ہم بعض اوقات تنہائی میں ایسے کام انجام دیتے ہیں کہ ا گر ایک چھوٹا بچہ ہمارے پاس ہو تا تو ہم شرم کے مارے ڈوب مرتے اور وہ کام انجام نہ دیتے،اب ہم کیسے اعتقاد رکھتے ہیں کہ خدا حاضرو ناظر ہے جبکہ ہم برے کام انجام دیتے ہیں!حقیقت میں ہم خدائے متعال کو ایک بچے سے بھی کم تر جانتے ہیں اور اپنے اعتقاد میں صادق نہیں ہیں بلکہ ہمارے اعتقاد میں جھوٹ اور کذب کا شائبہ پایا جاتا ہے ۔ہم اعتقاد رکھتے ہیں کہ اگر انسان اپنی عمر کو خدا کی اطا عت میںصرف کرے ، تو خدا ئے متعال اس کی عمر کے ہر لمحہ کے مقا بلہ میں اسے ایسی جزا دیتا ہے کہ اس کی قیمت پوری دنیا اورجو کچھ اس میں موجود ہے ، کے برابر ہے ،لیکن کیا ہم اس اعتقاد اور باور میں صادق ہیں ؟کیا ہماری رفتار اس اعتقاد کی تصدیق کر تی ہے؟ 

اگر کسی کے پاس سو نے سے بھری ایک چھوٹی سی تھیلی ہو، کیا وہ اسے بیہودہ طور پر کنویں میں ڈ ال دے گا؟ کیا کو ئی عاقل انسان ایسا کر سکتا ہے ؟یا یہ کہ اگر سونے کا ایک سکہ بھی اس کے پاس ہوتو اسے ایک محفوظ جگہ پر چھپا ئے رکھتا ہے تاکہ گم نہ ہوجائے یا چو ری نہ ہوجائے؟پس انسان کبھی اپنے مادی سر مایہ اور دولت کو بیہودہ طور پر ضائع نہیں کرتا ہے ،کیو نکہ اس کام کو وہ معقول تصور نہیں کرتا ہے۔ اب ہم اگر یقین کر تے ہیں کہ ہماری عمر کا ہر لمحہ ہیرے سے گراں قیمت ہے کیا ہم حاضر ہیں اسے مفت میں کھو دیں ؟ کیا ہم اس فکر میں ہیں کہ گناہ نہ کریں ، کیا ہم اپنی عمر کو بیہو دگی اور لغو کے عالم میں ضائع نہیں کر تے؟ 

—————————————– 

۱۔ فیض کاشانی،المحجة ا لبیضاء ،ج۸،ص۱۴ 

اگر ہم حقیقت میں اعتقاد رکھتے کہ ہماری عمر کے ہر لمحہ کے بدلے میں پوری دنیا سے زیادہ جزا ملنے والا ہے ، تو ہم ہر گز اسے مفت میں ہاتھ سے جانے نہیں دیتے، کیو نکہ ہم مال دنیاکو مفت میں ہاتھ سے جانے نہیں دیتے ہیں۔ اگر ہم سو رو پیہ کھو دیں تو پریشانی کے عالم میں ہما رے ہوش اڑ جاتے ہیں حتی ہم نماز پڑھتے وقت بھی انھیں پانے کی فکر میں ہو تے ہیں۔ 

( عام طور پر بعض لوگ نماز میں اپنی گم شدہ چیز وں کے تصور میں کھوئے رہتے ہیں اور جو چیزبھول گئے ہیں نماز میں وہ انھیں یاد آتی ہے) 

اگر انسان محنت اور کو شش کے نتیجہ میں کو ئی دولت کمائے ،تو وہ کبھی حاضر نہیں ہوتا ہے کہ اسے آسانی کے ساتھ کسی کو بخش دے اور وہ اس کی قدر کو جانتا ہے ،کیو نکہ اس نے اسے حاصل کر نے میں کافی محنت کی ہے ،لیکن یہ ممکن ہے کہ معمولی سے نقصان کا احساس کئے بغیر انسان اپنی عمر کے بہت سے گھنٹوں کو باطل راستہ پر صرف کرے ۔دوسرے الفاظ میں ممکن ہے انسان مال خرچ کر نے میں بخیل ہولیکن اپنی عمرکو صرف کر نے میں بخیل نہ ہو، با وجود یکہ مال کی قیمت کا عمر کی قیمت سے موازنہ نہیں کیا جاسکتا ہے۔ پس ہم آخرت اور اخروی ثواب کے بارے میں جو ہماری عمر کے ہر لمحہ کے لئے موجود ہے۔ اس دعوے اور ایمان میں صادق نہیں ہیں، ورنہ اگر ہم سچا ایمان رکھتے،تو اپنی عمر کو بیہودہ طور پر نہ گزار تے، اسے گناہ کی راہ میں صرف کر نے کی بات ہی نہیں۔ حقیقت میں ہماری زندگی ان جھو ٹے دعووںکے ساتھ آمیختہ ہے۔ اگر خدا نخواستہ ہماری رفتار اور گفتار میں بھی جھوٹ سرایت کرجائے تو یہ ہمارے لئے بدتر مصیبت ہو گی۔ 

خدائے متعال قرآن مجید میں فرماتا ہے: 

’’ وما یوٴمن اکثر ھم با لله الا و ھم مشر کو ن‘‘ (یوسف/۱۰۶) 

” خدا پر ایمان کا دعوی ٰکر نے والے اکثر مشرک ہیں “ 

شاید خدائے متعال اس آیت کے ذریعہ ہمیں یہ نکتہ سمجھنا چاہتا ہے کہ بہت سے مومنوں کا ایمان شرک کے ساتھ آمیختہ ہے اور خالص نہیں ہے ، اگر کسی کا صرف ایک معبود ہو تا اور وہ مشرک نہ ہوتا تو اس کے اندر لالچ ،مقام پرستی خلاصہ یہ کہ دنیا پرستی کے لئے کوئی جگہ نہ ہوتی ۔ ان رجحانات کا وجود اور باطل سے دل لگی اس بات کی علامت ہے کہ اس کے کئی معبود ہیں نہ کہ ایک معبود: 

’’افرٴیت من اتخذالٰھہ ھواہ واضلّہ اللّٰہ علی علم وختم علی سمعہ وقلبہ وجعل علی بصرہ غشاوة فمن یھدیہ من بعداللہ افلا تذکرون‘‘ (جاثیہ/۲۳) 

کیا آپ نے اس شخص کو بھی دیکھا ہے جس نے اپنی خواہش ہی کو خدا بنا لیا ہے اور خدا نے ایسی حالت کو دیکھ کر اسے گمراہی میں چھوڑ دیا ہے اور اس کے کان اور دل پر مہر لگادی ہے اوراس کی آنکھ پر پردے پڑے ہوئے ہیں اور خدا کے بعد کون ہدایت کر سکتا ہے کیا تم اتنا بھی غور نہیں کر تے ہو؟ 

جی ہاں، جن لو گوں میں نفسا نی خواہشا ت ہیں اور انہوں نے ان نفسانی خواہشات کو اپنا معبود قرار دیا ہے وہ مشرک ہیں ۔ حقیقت میں چو نکہ ان کا ایمان نفسانی خواہشات کے ساتھ آلودہ ہے اور خالص نہیں ہے، اس لئے وہ شرک میں آلودہ ہیں، البتہ شرک میں آلودہ ہوئے ایمان سب ایک حد میں نہیں ہو تے۔ بعض اوقات ۹۹ فی صد ایمان ۵ فی صد شرک سے آلودہ ہوتاہے اور کبھی شرک یہا ں تک بڑھتا ہے کہ خدا پر ایمان ہی مکمل طور پر نابود ہو جاتا ہے۔ 

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ہم گناہ میں آلودہ ہیں۔لیکن کیا وہ شخص جس نے سالہا سال تک اپنی عمر کو گناہ اور بیہودگیوں میں صرف کیا ہے،فیصلہ کر سکتا ہے کہ گناہ سے پر ہیز کرے اور اپنے ایمان و اعتقاد میں صادق ہو جائے اور حقیقت میں وہ صدیق بن سکتا ہے یانہیں؟ یقینا یہ امر ممکن ہے، حتی ساٹھ سال عمر کے گزر نے کے بعد بھی انسان مصمم ارادہ کرسکتا ہے کہ صدیق بن جا ئے، اس شرط پر کہ اپنے گذشتہ کے بارے میں تو بہ کرے اورمصمم ارادہ کر ے کہ اپنی باقی عمرکو خدا کی اطاعت میں گزارے ،اور ایسی رفتار کرے جسے خدا پسند کرتا ہے۔ اس کا سونا ،بیداری، اٹھنا،بیٹھنا، معاشرت کرنا گھرمیں برتاؤ اور لوگوں کے ساتھ برتاؤ سب خدا کے لئے ہو ۔یہ امر ممکن ہے ،لیکن مختصر وقت میں حاصل نہیں ہو سکتا اور مختصر زمانے میں انسان صدیق نہیں بن سکتا ہے۔ 

”صدق“ایک ایسا ملکہ ہے جو انسان میں طولانی اور مسلسل سعی وکوشش کے نتیجہ میں پیدا ہوتا ہے ۔ جو ساٹھ سال گناہ کر نے کے بعد صدیق بننے کا مصمم ارادہ کرے، اسے اس قدر کو شش کر نی چاہئے کہ ملکہٴ ” صدق“ اس معنی میں اس میں پیدا ہو جائے،جسے ہم نے دقیق طور پر بیان کیا۔ اب ممکن ہے کوئی شخص دو سال تک مسلسل مشق اور ریاضت کے نتیجہ میں وہ ملکہ حاصل کرلے ،اس صورت جب وہ صدیق بن جاتا ہے، تو اس کا مرتبہ اس شخص کے مر تبہ سے دگنا ہے جس نے مقا م صدق تک پہنچنے کے لئے ایک سال کو شش کی ہے اور اس کا اجر و ثواب بھی اس سے زیادہ ہو گا ۔ اسی طرح اگر اس مقام تک پہنچنے کے لئے مزید بر سوں تک کوشش کرے تو اس کا مر تبہ بلند تر ہو گا۔ کتنا بہتر ہو تا انسان بالغ ہونے کے و قت سے ہی خدا کا بند ہ ہو نے کے لئے مصمم ارادہ کرتا !حقیقی معنوں میں خدا کی راہ کے علاوہ کسی اور راہ پر قدم نہ رکھتا اور خدا کی فکر کے علاوہ کسی اور فکر کو اپنے دماغ میں جگہ نہ دیتا حتی گناہ کا خیال تک نہ کر تا۔ 

ہما رے لئے یہ باور کرنا بہت مشکل ہے کہ انسان ایک ایسے مقام تک پہنچ جائے کہ حتی گناہ کا تصور بھی نہ کرے ، لیکن ہمارے علماء میں ایسے افراد گزرے ہیں جو اس مقام تک پہنچے تھے۔ 

نقل کیا گیا ہے کہ مرحوم سید ر ضی اور سید مر تضی رحمةاللہ علیہمانماز جماعت پڑھنا چاہتے تھے ۔ سید مر تضی —جو بڑے بھائی تھے— اشارتاً سید رضی کو یہ سمجھانا چاہتے تھے کہ اس کی عدالت میں کسی قم کا شبہ نہیں ہے اس لئے انھوں نے کہا: ہم میں سے جس نے آج تک گناہ نہیں کیا ہے وہ نما ز جما عت کی امامت کرے ۔ وہ اپنے بھا ئی کو سمجھانا چاہتے تھے کہ انھوں نے بالغ ہونے سے اس وقت تک کوئی گناہ نہیں کیا ہے! سید رضی نے جواب میں کہا: ہم میں سے اس کو نماز جما عت کی امامت کر نی چاہئے جس نے گنا ہ کا خیال بھی نہیں کیا ہو، یعنی میں نے گناہ کی فکر تک کو بھی ذہن میں جگہ نہیں دی ہے ۔

ایک بزرگ شخص نقل کرتا تھا کہ تقریباً ساٹھ سال پہلے ، خاندان قا چار کا ایک شخص –جو ایک زمانے میں عراق میں ایران کا قو نصلر (سفیر) تھا۔ جو بلند قامت تھا اور وقار کے ساتھ راہ چلتا تھا ۔ وہ چلتے وقت اس قدر وقار اور سر بلندی کے ساتھ قدم بڑھاتا تھا —-کہ بعض اسے متکبرسمجھتے تھے —-لیکن میں احساس کر تاتھا کہ اس کا ایک اور رازتھا وہ یہ کہ تواضع و انکساری میں اس متانت کا مظاہرہ کرتا تھا ۔ میں اسے نہیں جانتا تھا، یہاں تک اس نے مر تے وقت دو مرا جع کو اپنا وصی قرار دینا چاہا۔ اس نے سکرات الموت اور احتضار کی حالت میں ان دو مرا جع کے محضر میں کہا تھا:خداوندا! تو شاہد ہے کہ میں نے بالغ ہو نے کے دن سے آج تک جان بو جھ کر اور عمداً کوئی گناہ نہیں کیا ہے! جب کہ اس حال میں کہ سب اپنے گناہوں کا اعتراف کر تے ہیں،لیکن و ہ شخص دو مراجع کے محضر میں کہتا ہے کہ بالغ ہونے سے اس وقت تک میں نے کوئی گناہ نہیں کیا ہے ۔ وہ بزرگ عالم کہتے تھے:میں نے جب وہ روداد سنی تو مجھے یہ فکر لاحق ہوئی کہ میں اس راز اور حقیقت سے آگاہ ہوجاؤں کہ تو میں نے اس کے دعوی کوسچا پایا۔ شاید وہ بزرگ عالم اس کے باطن کو دیکھ رہے تھے ،کیونکہ بعض اولیائے الٰہی افراد کے باطن کے بارے میں خبر رکھتے ہیں۔ 

ایسا شخص جو جوانی کی ابتدا سے گناہ کا مر تکب نہ ہواور صرف خدا پر نظر رکھتا ہو فرائض اور تکالیف الٰہی کو انجام دینے کی فکر میں ہو،یقینا وہ صدیقین کے مقام سے دور نہیں رہے گا۔

تبصرے
Loading...