انسان، روح اور بدن سے بنا ھے

جو لوگ اسلامی علوم سے کسی حد تک واقفیت رکھتے ھیں وہ جانتے ھیں کہ قرآن و سنت میں روح، جسم ، نفس اور بدن کے بارے میں بے حد� بیان کیا گیا ھے یا یہ کہ جسم اور بدن کا تصور جو ادراک کے ذریعے محسوس ھوسکتاھے، اس کوکسی حد تک سمجھنا آسان ھے اور روح یا نفس کا تصور مبھم اور پیچیدہ ھے۔

شیعہ اور سنی علمائے علم و بحث، ماھرین علم کلام اور فلسفہ، روح کی حقیقت کے بارے میں مختلف نظریات رکھتے ھیں لیکن ایک حد تک مسلّم ھے کہ اسلامی نظرئے کے مطابق روح اور بدن دو مختلف اور ایک دوسرے کے مخالف حقائق ھیں لیکن روح ایسی نھیں ھے بلکہ حقیقی زندگی روح میں موجود ھے اور جب تک روح بدن سے متعلق ھے، بد ن بھی اسی سے زندگی حاصل کرتا ھے اور جب روح بدن سے جدا ھو جاتی ھے اور بدن سے تعلق توڑ لیتی ھے یعنی جب موت آجاتی ھے تو بدن بے جان ھو جاتا ھے، لیکن روح اسی طرح اپنی زندگی جاری رکھتی ھے۔

جو کچھ قرآن مجید میں غور و خوض اور فکر و تدبر سےنیز ائمہ اھل بیت علیھم السلام کے بیانات سے حاصل ھوتا ھے، وہ یہ ھے کہ انسانی روح ایک ایسا غیر معمولی مظھر ھے جو بدن کے ساتھ ایک قسم کی ھم آھنگی اور یگانگت رکھتا ھے۔ اللہ تعالیٰ اپنی کتاب قرآن مجید میں فرماتا ھے:

وَلَقَدْ خَلَقنَا الاِنْسانَ مِنْ سُلٰلَةٍ مِّنْ طِینٍ ثُمَّ جَعَلْنَاہ نُطفَةً فِی قَرَارٍ مَّکِینٍ ثُمَّ خَلَقْنَا النُّطفَةَ عَلَقَةً فَخَلَقْنَا الْعَلقةَ مُضْغَةً وَ خَلَقنَا الْمُضْغَةَ عِظاماً فَکَسَونَا الْعِظامَ لَحْماً ثُمَّ اَنْشَانٰہ خَلقاً آخَرَ۔(۲۷)

�بتحقیق ھم نے انسان کو مٹی کے جوھر سے پیدا کیا ھے۔ پھر اس کو نطفے میں تبدیل کردیا ھے اور امن کی جگہ پر محفوظ رکھا ھے۔ پھر نطفے کو منجمد خون کی شکل دے دی۔ اس کے بعد منجمد خون کو چبائے ھوئے گوشت کی شکل میں تبدیل کیا۔ پھر اس چبائے ھوئے گوشت کو ھڈیوں میں تبدیل کردیا۔ پس ھڈیوں پر گوشت چڑھا دیا۔ اس کے بعد اس کو ایک ایسی موجود بنایا جس کی اس سے پھلے مثال نہ تھی۔

ان آیات کے معنی سے واضح ھے کہ مندرجہ بالا آیات فطرت کے مادی اور تدریجی ارتقاء کو بیان کرتی ھیں اور اس کے ذیل میں جب روح یا شعور اور ارادے کی پیدائش کے بارے میں اشارہ کرتی ھیں تو ایک اور فطرت کو بیان کرتی ھیں جو پھلی قسم کی پیدائش یا فطرت کے بالکل بر عکس اور مخالف ھے۔

اسی طرح قرآن مجید ایک دوسری جگہ قیامت کے منکروں کے جواب میں اس مضمون کی طرف اشارہ کرتا ھے کہ انسان موت کے بعد بدن کے ختم ھوجانے اور زمین کے اجزاء میں گم ھوجانے کے بعد کس طرح دوبارہ زندہ ھوتا ھے اور پھلے انسان کی طرح ھو جاتا ھے؟ اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ھے:

اے پیغمبر! کھہ دو کہ موت کا فرشتہ تمھیں تمھارے بدنوں سے الگ کردیتا ھے، اور اس کے بعد تم اپنے خدا کی طرف واپس لوٹ جاتے ھو یعنی جو چیز موت کے بعد ٹکڑے ٹکڑے ھوکر زمین کے اجزاء میں گم اور حل ھوگئی ھے وہ تمھارے بدن ھیں۔ لیکن تم کو (تمھاری روح کو) موت کے فرشتے نے تمھارے بدن سے باھر نکال لیا ھے اور ھمارے پاس محفوظ ھو۔(۲۸)

اس قسم کی آیات کے علاوہ قرآن مجید ایک جامع بیان کے ذریعے روح کو غیر مادّی چیز کھتا ھے:

اے نبی! تم سے روح کی حقیقت کے بارے میں سوال کرتے ھیں، تو کھہ دو کہ روح خدا کا امر ھے ۔(۲۹)

دوسری جگہ خدا کے امر کا یوں تعرف کراتا ھے:

خدا جب کسی چیز کو بنانا چاھتا ھے تو فرماتا ھے کہ ۔ ھوجا ۔ اور وہ چیز بن جاتی ھے، اور ھر چیز کی حقیقت بھی یھی ھے (۳۰)

ان آیات کا تقاضا یہ ھے کہ جھان اوراشیاء کی پیدائش میں خدا کافرمان تدریجی نھیں ھے اور زمان اور مکان کی تسخیر میں بھی نھیں آسکتا۔ پس روح جو کہ خدا کے فرمان کی حقیقت کے سوا اور کچھ بھی نھیں ھے، مادی نھیں ھو سکتی اور اپنے وجود میں مادیات کی خاصیت بھی نھیں رکھتی کیونکہ مادیات کی خاصیت زمان و مکان کی زد میں بتدریج ارتقاء حاصل کرتی ھے۔

روح کی حقیقت

عقلی تحقیق اور غورو فکر بھی روح کے بارے میں قرآن کریم کے نظرئے کی تصدیق کرتی ھے، تمام انسانوں میں سے ھر ایک اپنے بارے میں ایک حقیقت کو سمجھتا ھے اور اس سے �میںکی تعبیر کرتا ھے۔ انسان میں یہ ادراک ھمیشہ موجود ھے حتی کہ کبھی کبھی اپنے سر، ھاتھ، پاوٴں اور تمام اعضائے بدن کو یا پورے جسم کو بھول جاتا ھے لیکن جب تک خود موجود ھے، خودمیںاسکے ادراک سے باھر نھیں نکلتا اور یہ مشھود جیسا کہ واضح ھے قابل تقسیم اور قابل تجزیہ نھیں ھے اور اگر چہ انسان کا بدن ھمیشہ تغیر و تبدل کرتا ھے۔اسی طرح مختلف مکانات اپنے لئے انتخاب کرتا رھتا ھے اور گوناگون حالات و زمان اس پر گزرتے رھتے ھیں مگر مذکورہ بالا حقیقت یعنیمیںاپنی جگہ پر ثابت رھتی ھے اور یہ اپنی واقعیت اور حقیقت میں ناقابل تغیر و تبدل ھے۔ لھذا واضح ھے کہ اگر یہ حقیقت مادی ھوتی تو جیسا کہ مادیات کی خصوصیت ھے، زمان مکان کی تبدیلیوں اور تقسیموں کو بھی ضرور قبول کر لیتی ۔بدن ان تمام خواص کوقبول کر لیتا ھے اور روحانی تعلق اورارتباط کی وجہ سے یہ خواص روح سے بھی منسوب کر دئے جاتے ھیں لیکن تھوڑی سی توجہ سے انسان پر واضح ھو جاتا ھے کہ اس وقت یا اُس وقت، یھاں یا وھاں، یہ مشکل یا وہ مشکل اور اس طرف یا اس طرف، یہ تمام خواص بدن کے لئے ھیں اور روح ان خواص سے پاک اور بری ھے اور یہ تمام صفات بدن کے ذریعہ اس تک بھی پھنچتی ھیں۔

اس قسم کا بیان خاص کر ادراک و شعور (علم) میں جو کہ روح کے خواص میں سے ھے، ھمیشہ جاری ھے اور ظاھر ھے کہ اگر علم کی خاصیت مادی ھوتی تو مادہ کے مطابق تقسیم تجزیے اور زمان و مکان کو قبول کرلیتا۔ البتہ اس عقلی بحث کا دامن بھت زیادہ وسیع ھے اور بے اندازہ سوالات کا حامل ھے جنکے جوابات یھاں ممکن نھیں ھیں ۔ اس بحث میں اسی قدر اشارے کے طور پر یھاں بیان کیا گیا ھے۔ مکمل بحث کے لئے اسلامی فلسفے کی کتابوں کی طرف رجوع کیا جائے۔

۲۷۔ سورہٴ مومنون / ۱۲۔۱۴

۲۸۔ سورہٴ سجدہ /۱۱

۲۹۔ سورہ ٴ بنی اسرائیل / ۸۵

۳۰۔ سورہ ٴ یٰسین/۸۳

 

تبصرے
Loading...