امریکی فلاسفرپروفیسر محمد لیگن ہاوزن شیعہ ہوئے؛ کیوں اور کیسے!

اشارہ: پروفیسر ڈاکٹر محمد لیگن ہاؤزن 3 مئی 1953 کو نیویارک میں پیدا ہوئے ان کا اصل نام گرے کارل لیگنہاؤزن (Gary Carl Legenhausen) ہے وہ سنہ 1979 سے 1989 تک ہیوسٹن یونیورسٹی میں مقدمۂ منطق (یا منطق کا تعارف)، جمالیات، سائنس کا فلسفہ، اخلاقیات، فلسفۂ مذہب اور مابعدالطبیعیات کے استاد تھے اور سنہ 1989 میں ایران کی انجمن حکمت و فلسفہ کی دعوت پر ایران آئے اور یہیں تدریس میں مصروف ہوئے اور سنہ 1993 سے شہر قم ميں باقرالعلوم (ع) یونیورسٹی اور امام خمینی (رح) انسٹٹیوٹ کے استاد ہیں۔ پروفیسر لیگن ہاؤزن سنہ 1983 میں جنوبی ٹیکساس کی ایک مسجد میں مسلمان ہوئے تھے۔ وہ ایران میں ہی محترمہ نرجس جوان دل صومعہ سرائی کے ساتھ رشتۂ ازدواج میں منسلک ہوئے ہیں۔

مجلہ حوزہ نے ڈاکٹر محمد لیگن ہاؤزن کے ساتھ ایک مکالمہ ترتیب دیا ہے جس کا اردو ترجمہ پیش خدمت ہے:
س: آپ ہمارے قارئین کو اپنے آبائی وطن، نشوونما کے ماحول کے بارے میں بتائیں اور آپ نے زندگی کہاں اور کیسے گذاری؟
ج: میں 1953 کو امریکہ کے ایک کیتھولک عیسائی خاندان میں پیدا ہوا اور کیتھولک اسکول سے ہی اپنی تعلیم کا آغاز کیا لیکن ابتداء ہی سے عیسائیت کے سلسلے ميں میرے ذہن میں متعدد سوالات ابھرا کرتے تھے۔ میں ہائی اسکول میں ہی اس نتیجے پر پہنچا کہ حضرت عیسی (ع) خدا نہيں ہیں اور جس طرح کی ہمیں تعلیم دی جارہی تھی اس طرح میں تثلیث کو بھی قبول نہيں کرسکتا تھا لیکن اس کے باوجود اپنے آپ کو ایک عیسائی سمجھتا تھا حتی کہ میرا داخلہ ریاست نیویارک کے علاقے البانی میں اسٹیٹ یونیورسٹی میں ہوا جہاں میں عیسائیت سے اپنا تعلق کھو گیا اور لادین ہوگیا۔
ان حالات میں میں پوسٹ گریجویشن کے لئے ٹیکساس کی لاس یونیورسٹی میں چلاگیا جہاں سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد جنوبی ٹیکساس یونیورسٹی میں پڑھانے لگا اور اسی یونیورسٹی میں مختلف اسلامی ملکوں کے مسلم طلبہ سے ملا جن کا تعلق ایران، لبنان، پاکستان، فلسطین، اردن، نائجیریا اور سعودی عرب سے تھا۔
مختلف مسائل میں ان کی رائے میرے لئے دلچسپ تھی اور میں سوچ رہا تھا کہ دین کے بارے میں ان لوگوں کی نگاہ مختلف ہے اور مجھے اس قسم کی نگاہ اور سوچ کا تجربہ نہیں تھا۔ یہ بات میرے لئے نئی تھی چنانچہ مجھے مزید تحقیق کرنی پڑی۔ یونیورسٹی انتظامیہ نے مجھے اختیار دیا تھا کہ میں جو پڑھانا چاہوں اس کا انتخاب خود کروں چنانچہ میں نے فلسفۂ دین کا انتخاب کیا اور فلسفۂ دین کے دو سمسٹر پڑھا دیئے اور اسی دوران میں نے طلبہ کے ساتھ بڑے بڑے ادیان پر بحث و مباحثہ کیا اور اسی دوران قدم بقدم اسلام سے قریب ہوا حتی کہ اسلام کو گلے لگایا۔ 
س: مہربانی کرکے اپنے مسلمان ہونے کی کیفیت کی وضاحت کریں اور بتائیں کہ آپ اس وقت آپ کس قسم کی روحانی اور نفسیاتی کیفیت سے گذر رہے تھے؟
ج: جو لوگ دین کی تبلیغ کرتے ہیں ان کے لئے میرے قبول اسلام کی داستان کافی پیچیدہ ہے کیونکہ میری اس تبدیلی میں علمی اور جذباتی مسائل کا کردار تھا۔ میری جنوبی ٹیکساس یونیورسٹی میں تدریس کے دوران ایک ایرانی طالبعلم [شہید] اکبر نوجہ دہی شناسائی ہوئی۔ انھوں نے “تعارف فلسفہ” کا مضمون میرے پاس پڑھا۔ اکبر دو ہفتے میری کلاس سے غیرحاضر رہے حتی کہ مجھے وہ یونیورسٹی کے دفتر میں ملے؛ میں نے کلاس میں نہ آنے کا سبب پوچھا تو انھوں نے کہا: ہمارے عوام نے ایران میں ایک انقلاب بپا کیا اور میرا خیال ہے کہ یہ بات بہت اہم ہے کہ یہاں کے طلبہ اس انقلاب کی صحیح صورت حال سے آگہی حاصل کریں چنانچہ میں نے ضروری سمجھا کہ اس انقلاب کو طالبعلموں کے درمیان متعارف کرانے کی کوشش کروں چنانچہ میں آپ کی کلاس میں نہيں آسکوں گا۔
میں نے ان کی بات کی تصدیق کی اور کہا کہ آپ صحیح کہہ رہے ہيں لیکن آپ کا فرض یہ بھی ہے کہ اپنی تعلیم جاری رکھیں۔ میں نے ان سے وعدہ کیا کہ انقلاب ایران کی معلومات طلبہ تک پہنچانے کا کام میں اپنے ذمے لے لوں چنانچہ انھوں نے قبول کیا اور میں اپنے عہد پر عمل کرنے لگا اور وہ بھی کلاسوں میں باقاعدہ حاضری دینے لگے اور ہم نے مل کر مختلف کام سرانجام دیئے یہاں تک کہ گریجویشن کرکے ایران لوٹ آئے اور بعد میں مجھے معلوم ہوا کہ وہ جنگ کے دوران میدان جنگ چلے گئے ہيں اور وہاں فیض شہادت پر فائز ہوچکے ہیں۔
میں اکبر کے ساتھ ان کے عقائد کے بارے میں بحث کیا کرتا تھا۔ وہ بہت اچھے طالب علم تھے؛ بڑی صداقت سے بات کرتے تھے اور عقائد میں بہت سنجیدہ تھے اور انہیں اپنے عقائد میں کسی قسم کا کوئی شک نہيں تھا۔ اکبر کے ساتھ ملنے اور متعارف ہونے کے تین سال بعد میں مسلمان ہوا۔ اس زمانے میں میں مساجد میں جاکر مسلمانوں کے ساتھ بات چیت کیا کرتا تھا اور اسلام کی جاذبیتوں کا زیادہ سے زيادہ ادراک کیا کرتا تھا۔ میرا مقصد اسلام کے بارے میں علمی کام کرنا تھا اور مجھے تجسس تھا کہ مسلمان کس طرح سوچتے ہیں لیکن غیرارادی طور پر جتنی زیادہ تحقیق کرتا اتنی ہی اسلام سے میری محبت میں اضافہ ہوتا تھا؛ میں نے نماز پڑھنا سیکھ لیا تھا اور بعض اوقات نماز بھی ادا کرتا تھا بالخصوص نماز جماعت کو بہت زیادہ پسند کرتا تھا لیکن ابھی میں نے شہادتین زبان پر جاری نہيں کی تھیں حتی کہ ایک دن مسجد کی پارکنگ میں کئی سیاہ فام امریکی مسلمان میرے قریب آکر کہنے لگے کہ وہ مجھ سے متعارف ہونا چاہتے ہیں اور جاننا چاہتے ہیں کہ میں اسلام سے کیونکر روشناس ہوا؟ اور میں نے ان کی موجودگی ميں اور ان کی تجویز پر شہادتین جاری کردیں اور رویا اور باقاعدہ طور پر مسلمان ہوا۔ وہ بہت خوش ہوئے اور مجھ سے کہا کہ ان کی نماز کی امامت سنبھالوں اور اس کے بعد ہم بہت سے شعبوں میں آپس میں تعاون کرتے رہے۔ اس کے بعد ہم نے مل کر جنوبی ٹیکساس یونیورسٹی میں مسلم اسٹوڈنٹس ایسوسی ایشن کی بنیاد رکھی گوکہ یونیورسٹی میں موجود مسلمانوں کی اکثریت سنی مسلمانوں کی تھی؛ لیکن مجھے ابتداء سے کبھی بھی اس شک کا سامنا نہيں کرنا پڑا تھا کہ شیعہ ہوجاؤں یا سنی؛ کیونکہ میں نہج البلاغہ کا بغور مطالعہ کیا تھا اور چاہتا تھا کہ یا شیعہ اسلام کو قبول کروں یا پھر لادین ہی رہوں۔
س: آپ نے سیاہ فام مسلمانوں کے ساتھ مل کر کیوں شہادتین جاری کردیں کیا وہاں کوئی خاص واقعہ پیش آیا؟
ج: نہیں! یہ واقعہ اچانک رونما نہیں ہوا بلکہ اس سے قبل بھی اس کے بارے میں طویل عرصے سے سوچتا رہا تھا لیکن ان امریکی مسلمانوں کی ملاقات نے مجھے اسلام قبول کرنے کی تحریک دلائی یعنی میں جو مسلمانی کی سرحد پر تھا اور دین اسلام کے بہت قریب پہنچ چکا تھا لیکن ان کی ملاقات میرے لئے بہت جاذب و دلچسپ تھی اور ان کا اخلاص میرے لئے خوشآیند تھا اور اور ان کے اخلاص نے مجھے اسلام قبول کرنے کی ترغیب دلائی اور مجھے اسلام کے دامن میں پہنچایا۔ 
س: اسلام کو باقاعدہ قبول کرنے کے بعد آپ کی روزمرہ زندگی میں کیا تبدیلیاں رونما ہوئیں اور آپ نے ایران آنے کا فیصلہ کیونکر کیا؟
ج: یونیورسٹی میں مسلمانوں کی تعداد میں اضافہ ہوگیا تھا اور اسی وجہ سے یونیورسٹی کی انتظامیہ کے ساتھ میرے اختلافات نمایاں ہوچکے تھے؛ وہ مجھے جامعہ کے انتظامی شعبوں میں منتقل کرکے کاغذوں کے کھیل میں الجھانا چاہتے تھے لیکن میں صرف پڑھانا چاہتا تھا چنانچہ میں نے ایران آنے کا فیصلہ کیا۔ 
اس زمانے میں ڈاکٹر سید کمال خرازی اقوام متحدہ میں ایران کے سفیر تھے اور ایک طالب علم نے مجھے ان سے ملایا اور اس کے بعد میں نے یونیورسٹی سے استعفا دیا اور سنجیدگی سے ایران آنے کا فیصلہ کیا اور میرا منصوبہ یہ تھا کہ دو سال تک ایران میں رہوں اور اسلامی فلسفے کے بارے میں بھی کچھ سیکھ لوں اور اسلام کو زيادہ بہتر سمجھ لوں اور اس کے بعد امریکہ لوٹ کر چلا جاؤں۔
ڈاکٹر خرازی کی مدد سے تہران کی انجمن حکمت و فلسفہ کی طرف سے مجھے دعوت نامہ ملا اور طے پایا کہ میں ایران آجاؤں۔ ڈاکٹر خرازی کے دفتر میں اتفاق سے آیت اللہ مصباح سے ملاقات ہوئی۔ وہ امریکہ کے دورے پر تھے اور میں نے وہیں سے ان کو پہچان لیا اور ڈاکٹر خرازی نے ان سے میرا تعارف کرایا جس کے بعد ہم نے بات چیت کی اور آیت اللہ مصباح نے مجھے دعوت دی کہ قم میں امام خمینی (رح) انسٹٹیوٹ میں کام کروں جو اس وقت “باقرالعلوم فاؤنڈیشن” کے نام سے پہچاناجاتا تھا۔ 
میں نے ان سے کہا کہ وہ میرے لئے دعوت نامہ بھجوائیں تاہم میں ان کی طرف سے دعوتنامے کا انتظار نہ کرسکا اور تہران میں انجمن حکمت و فلسفہ میں چلاآیا۔ وہاں میں نے ڈاکٹر اعوانی کے پاس اسلامی فلسفہ سیکھنا شروع کیا اور انھوں نے مجھے اسلامی فلسلفہ سکھانے میں بڑی محنت سے کام لیا۔
میں نے ایران آنے سے قبل فارسی ادب بھی پڑھ چکا تھا لیکن جب کوئی مجھ سے حال احوال کرتا تو میں جواب دینے سے قاصر تھا اور فارسی میں بات چیت نہيں کرسکتا تھا چنانچہ ڈاکٹر اعوانی نے تجویز دی کہ زبان فارسی کو تقویت دوں اور یہ کہ اسلامی فلسفہ ہم فارسی کتب سے شروع کریں چنانچہ “آموزش فلسفہ اسلامی” اور سہروردی کے فلسفی رسالوں سے استفادہ کرنے لگا۔ اس وقت جب میں فارسی میں بات کرتا تو دوست ہنس پڑتے تھے۔ 
کچھ عرصہ بعد ڈاکٹر اعوانی نے کہا کہ اگر میں فلسفہ اچھی طرح سیکھنا چاہتا ہوں تو سہروردی کے رسالے عربی میں بھی پڑھنے کی ضرورت ہوگی؛ چنانچہ ہم نے سہروردی کے تین رسالے عربی میں بھی پڑھ لئے جبکہ کہا جاتا ہے کہ سہروردی نے یہ تین رسالے فارسی میں بھی لکھے تھے اور عربی میں بھی۔ ہم نے جب یہ رسالے عربی اور فارسی میں الگ الگ پڑھ لیئے تو نتیجہ بہت زبردست تھا۔ 
س: آیت اللہ مصباح سے آپ کا تعاون اور امام خمینی (رح) انسٹٹیوٹ میں آپ کی فعالیت کے آغاز کی کیفیت کیا تھی؟
ج: امام خمینی (رح) انسٹٹیوٹ اور آیت اللہ مصاح کے ساتھ میرا تعاون حادثاتی تھا۔ میرا ایک عراقی نژاد امریکی دوست تھا جس کی پیدائش اور پرورش ٹیکساس میں ہوئی تھی۔ وہ قم مقدسہ میں ایک عراقی لڑکی کا رشتہ مانگنا چاہتا تھا چنانچہ اس کی درخواست پر میں بھی اس کے ساتھ قم کے سفر پر گیا۔ قم میں اتفاق سے آیت اللہ مصباح کے ایک معاون سے سڑک پر ملاقات ہوئی ـ جو مجھے پہلے سے جانتے تھے ـ انھوں نے مجھ سے آیت اللہ مصباح کے پاس جانے کی درخواست کی چنانچہ ہم آیت اللہ مصباح کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ مجھے دیکھ کر وہ بہت خوش ہوئے اور مجھ سے کہا: آپ قم کیوں نہيں آئے؟ 
میں نے کہا: میں باقاعدہ دعوت نامے کا منتظر تھا چنانچہ انھوں نے کہا: میں اسی وقت آپ کو باضابطہ طور پر دعوت دیتا ہوں۔ اس ملاقات کی وجہ سے میں مسلسل ایک سال تک ہر ہفتے ایک دن کے لئے قم آتا رہا اور سابقہ “باقرالعلوم فاؤنڈیشن” اور موجودہ “امام خمینی (رح) انسٹٹیوٹ” میں پڑھاتا رہا۔ دوسرے سال یہ دورانیہ ہر ہفتے دو دن تک پہنچا۔ چونکہ میں فارسی زیادہ بہتر انداز سے سیکھنا چاہتا تھا اسی لئے فیصلہ کیا کہ ایک سال مزید ایران میں رہوں اور میں تہران سے قم میں آکر مقیم ہوا اور تیسرا سال بھی اسی طرح گذرا۔ اسی سال میرے ایک شاگرد نے ایک خاتون سے رشتہ ازدواج میں منسلک ہونے کی پیشکش کی۔
ہماری شادی بڑی عجیب تھی۔ ایک دو مرتبہ ملنے کے بعد میں نے شادی کا فیصلہ کیا۔ میں لڑکی اور ان کے خاندان کو کچھ زیادہ نہيں جانتا تھا لیکن اپنے شاگرد کے اطمینان پر شادی کی حامی بھرلی۔ باقاعدہ نکاح ہونے سے قبل میں حضرت سیدہ معصومہ سلام اللہ علیہا کی خدمت میں حاضر ہوا اور بارگاہ رب میں بکثرت دعا کی کہ میری شادی ایک کامیاب شادی ہو اور میرا فیصلہ صحیح ہو۔
شادی کے بعد مستقل بنیادوں پر باقرالعلوم (ع) فاؤنڈیشن میں مصروف ہوا اور کچھ عرصہ بعد میرا مقصد ہی بدل گیا اور میں نے سے سوچا کہ اگر یہیں رہوں اور طلبہ کو پڑھاؤں تو زیادہ خدمت کرسکوں گا۔ 
س: آپ ایک امریکی شہری کے عنوان سے ایران جیسے ملک میں فلسفہ کے میدان میں “چہرہ ماندگار Lasting Face” کی حیثیت سے منتخب ہوا؛ آپ کو کیسے محسوس ہوا؟
ج: یہ میرے لئے اعزاز و افتخار ہے؛ میں جذبہ تشکر و سپاس محسوس کرتا ہوں، اول تو میں اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اس ملک میں خدمت کررہا ہوں؛ اور یہ جو ایران کے ذمہ دار حکام نے میری قدردانی کی میں شکریہ ادا کرتا ہوں؛ ایران عوام کی نگاہ بھی میری نسبت بہت اچھی ہے جس کی وجہ سے میں زیادہ سے زیادہ احساس فرض و ذمہ داری کرتا ہوں اور مجھے امید ہے کہ زیادہ خدمت کرسکوں۔
س: آپ کی کامیابی کا سب سے اہم سبب کیا ہے؟
ج: اللہ کا فضل (تھوڑا سے توقف کرکے ۔۔۔) میں اپنی زندگی کے آغاز پر جب نظر دوڑاتا ہوں تو مجھے صرف نادرست اعمال اور خراب کاریاں نظر آتی ہیں لیکن اللہ کا لطف و کرم ہے جس نے مجھ پر راستہ کھول دیا۔
تقریباً 12 سال قبل جب سفر حج پر گیا تو میرے تمام کام تہس نہس ہوگئے؛ میرا پاسپورٹ کھو گیا، پھر قافلہ مجھے جدہ میں چھوڑ گیا اور قافلے سے بچھڑ گیا ۔۔۔ ہر نیا قدم نئی مصیبت کے ہمراہ تھا لیکن یہ ساری مصیبیتیں حل بھی ہوجاتی تھیں اور مجھے محسوس ہوتا تھا کہ جس طرح کہ حضرت موسی کے لئے دریا کو چیر دیا گیا میرے سامنے سے بھی مشکلات اٹھتی رہیں، میں ان مشکلات کے سامنے استقامت نہيں کرسکتا تھا اور ان کو حل کرنے سے بھی بے بس تھا لیکن وہ مسائل سب حل ہوتے رہے؛ یہ واقعہ میں نے اس لئے سنایا کہ آپ جان لیں کہ کہ بندہ خدا کی کامیابی اللہ کے لطف و کرم کی وجہ سے ہے میرا بھی یہی حال ہے اور میں نے کامیابیاں کمائيں وہ میں نے خود نہيں کمائیں۔ میں نے ہمیشہ یہی دیکھا اور محسوس کیا کہ میں آگے بڑھنے کی صلاحیت نہيں رکھتا لیکن اللہ نے میرے لئے راستہ کھول دیا ہے اور حَجَّةُالاسلام کے وقت جب میں مکہ سے لوٹ کر ایران آنا چاہتا تھا میرا ہوائی ٹکٹ ہمارے قافلہ سالار کے پاس رہ گیا تھا اور وہ ہم سے پہلے ایران آچکا تھا۔ میں جب ہوائی اڈے پہنچا اور اہلکاروں سے کہا کہ “میرے پاس ٹکٹ نہیں ہے” تو انھوں نے کہا: ٹکٹ کے سوا طیارے میں کیسے سوار ہونا چاہتے ہو؟ لیکن جب میں نے قافلہ سالار کا نام لیا تو ایک اعلی اہلکار نے اشتیاق کے ساتھ کہا: وہ میرے دوست ہیں اور فورا ان کو فون کیا اور جب مطمئن ہوئے تو مجھ سے کہا: کوئی بات نہيں! اور یوں میں طیارے پر سوار ہوا اور یہ بہت عجیب سی بات ہے۔ میرا حج ابتداء سے انتہا تک ایسا ہی تھا، اور میں سمجھتا ہوں کہ میری پوری زندگی بھی ایسی ہی ہے اور یہ حج میرے لئے اللہ کی طرف سے ایک نشانی ہے۔ خدا نے مجھے بتایا کہ “تم کچھ بھی کرنے کے اہل نہیں ہو اور کچھ بھی نہيں کرسکتے ہو اور تمام امور میرے ہاتھ میں ہیں”۔ 
س: اگر آپ مسلمان نہ ہوتے تو آپ کا کیا خیال ہے کہ آپ کیا کرتے اور کس کام میں مصروف ہوتے؟
ج: خدا ہی جانتا ہے، میں تصور نہيں کرسکتا کہ کیا حادثہ رونما ہوتا، کبھی میں اپے بیٹے سے بحث کرتا ہوں اور وہ ہمیشہ کہتا ہے: “بابا! اگر آپ مسلمان نہ ہوتے تو میں معرض وجود میں ہی نہ آتا”۔ 
س: اگر ممکن ہوتا کہ آپ دوبارہ ماضی میں لوٹیں اور زندگی کا دوسری بار تجربہ کریں تو آپ زندگی میں کیا تبدیلیاں لانے کی کوشش کرتے؟
ج: اگر ایسا ہوسکتا تو اپنی خطاؤں اور گناہوں اور ۔۔۔ سے ـ جو میں نے ماضی میں انجام دیئے پرہیز کرتا اور اگر ایسا ہوسکتا تو بہت اچھا ہوتا؛ یہ بھی ان موضوعات میں سے ہے جن پر میں اپنے بیٹے سے بات کیا کرتا ہوں۔ میرا بیٹا کہتا ہے کہ اگر میں وہ غلطیاں نہ کرتا شاید دوسری غلطیوں کا ارتکاب کرتا!۔
س: آپ اپنی زندگی میں جن چیز سے تعلق خاطر رکھتے ہیں اور کن چیزوں کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں؟
ج: میں بچپن سے ہی بہت سی چیزوں کے درپے تھا جن میں سے ایک یہ ہے کہ میں حقیقت کو کشف کرنا چاہتا تھا، میرے والد کا اصرار تھا کہ ہمیں خود سوچنا چاہئے اور خود ہی حقیقت کو کشف کرنا چاہئے۔ جب میں ایران آیا اور حضرت آیت اللہ مصباح یزدی کی خدمت میں پہنچا تو انھوں نے کئی بار میں مجھ سے کہا کہ “حقیقت کی تلاش میں رہو، یہ مسئلہ میرے لئے بہت اہم ہے کہ ہم کوشش کرکے حقیقت کو کشف کریں اور یہ میری زندگی کا اہم ترین مسئلہ ہے اور ہمیشہ میں اس کے بارے میں سوچتا ہوں۔
س: آپ مسلمان ہوئے تو کیا آپ کے توسط سے آپ کے اعزاء و اقارب اور دوستوں میں سے بھی کوئی مسلمان ہوا؟
ج: میرے بہت سے دوستوں نے میرے قبول اسلام کے بعد مجھ سے تعلق توڑ دیا اور پھر میں چونکہ ایران میں ہوں اسی لئے گذشتہ دوستوں سے میرا زيادہ تعلق بھی نہيں ہے۔ تاہم چند افراد ایسے بھی تھے جو مسلمان ہوئے لیکن وہ میرے اعزاء اور دوستوں میں سے نہ تھے۔ 
البتہ بہت سے افراد ایسے بھی ہیں جن کا کہنا ہے کہ وہ میری کتابیں پڑھ کر اسلام کی طرف مائل ہوئے ہیں اور اس کے بعد انھوں نے اسلام کے بارے میں تحقیقات کا آغاز کیا ہے۔ 
س: ایرانیوں کے ساتھ آپ کا تعلق کیسا ہے اور ان سے آپ کے ربط و تعلق کی کیفیت کیا ہے؟
ج: عام لوگوں سے میرا تعلق نہیں ہے اور میرا علمی تعلق زیادہ تر دینی طلبہ، اساتذہ اور جامعات کے طلبہ سے ہے؛ لیکن ایرانیوں سے محبت کرتا ہوں اور ایران میں زندگی کو ترجیح دیتا ہوں۔
میں بہت خوش قسمت تھا کہ مجھے ایسے شاگرد اور اساتذہ ملے جو بحث کے دوران بالکل تنگ نظر نہيں ہیں اور ہم مغربی تفکرات سمیت بہت سے موضوعات پر ان کے ساتھ بحث و تمحیص کرتے ہیں اور حقیقت یہی ہے کہ یہ افراد علم کے شوقین ہیں اور انشاء اللہ مستقبل میں دینداری اور دیانتداری کے فروغ میں اہم کردار ادا کریں گے۔ 
س: ایسی کوئی آرزو بھی تھی کبھی جو آپ حاصل کرنا چاہتے تھے اور ابھی تک حاصل نہیں کرسکے ہیں؟
س: میری آرزوئیں اور خواہشیں زیادہ تر علمی مسائل سے تعلق رکھتی ہیں؛ میں نے بعض چیزیں لکھی ہیں اور میری خواہش ہے کہ انہيں مکمل کروں اور ان کی اشاعت سے شیعہ مکتب کی خدمت کروں؛ مثلاً میں نے مختلف موضوعات پر بعض مقالے لکھے ہیں منجملہ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بارے میں اور “مکتب تشیع میں خدا کا مفہوم” جس کے توسط سے شیعہ مکتب کے مختلف پہلؤوں کو متعارف کرانے کی کوشش کی گئی ہے۔ اگر خدا توفیق دے تو ایک کتاب لکھنا چاہتا ہوں اور مکتب تشیع کو دنیا کے انسانوں میں متعارف کرانا چاہتا ہوں اور بعض مقالات میں نے ابن سینا کے بارے میں بھی لکھے ہیں اور مجھے امید ہے کہ ان سب کو اکٹھا کرے ایک کتاب کی صورت میں شائع کردوں۔
س: آپ کا زیادہ تر وقت علمی و تحقیقی کاموں اور تدریس میں گذرتا ہے تفریح کے لئے کیا کرتے ہیں؟
ج: میری کوئی خاص تفریح نہيں ہے اور ہماری سیر و سیاحت صرف گرمیوں کی چھٹیوں تک محدود ہے چنانچہ میں گرمیوں میں نیویارک چلا جاتا ہوں اپنی والدہ کے پاس اور وہاں اپنے اہل خاندان کے ساتھ پارکوں یا تفریحی مقامات پر چلا جاتا ہوں۔ 
س: آخر میں اگر ہمارے قارئین سے کچھ کہنا چاہتے ہیں تو کہہ دیں۔
ج: میں آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں اور میں بہت خوش ہوں کہ یہاں کچھ خدمت کرسکا ہوں اور مجھے امید ہے کہ اللہ ہمیں زيادہ خدمت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ 

تبصرے
Loading...