امریکا فرعون زمان

شہنشاہ عالم پناہ کا لشکر جرار ”فاتحانہ عزم“ سے سرشار ، افغانستان کے جنوبی صوبے ۔ ہیلمند پر یلغار کرنے کے لئے تیار کھڑا ہے۔ اور میں سوچ رہا ہوں! میں سوچ رہا ہوں کہ قدرت کی سزائیں بھی کیا عجب ہوتی ہیں۔ اپنے حجم سے کہیں زیادہ پھول جانے والی قوتیں اپنے تئیں دنیا کو تسخیر اور قوموں کو بے توقیر کرنے میں لگی ہوتی ہیں۔ اور انہیں اندازہ ہی نہیں ہو پاتا کہ دراصل وہ اپنی بستیوں کی جڑوں میں بارود بو رہی ہیں اور ان کی اپنی قوم عذاب کے کوہ گراں تلے کچلی جانے کو ہے۔ یہ کوئی دو سال پہلے کا ذکر ہے ۔ سینیٹر بارک اوباما صدارتی انتخابی مہم پہ تھے۔ 21فروری 2008ء کو ”تبدیلی “ کا نعرہ لگانے والے پرعزم سیینٹر نے پرجوش امریکیوں کے ایک بے تاب ہجوم کے سامنے تقریر کرتے ہوئے کہا ۔” میں ساری دنیا سے جنگوں کا خاتمہ چاہتا ہوں ۔ خوف کے زیر اثر پالیسیاں بنانا حکومتوں کے لئے کوئی اچھا مشورہ نہیں ہوتا۔ میں زخموں سے چور امریکی فوجیوں کو وطن واپس آتے دیکھ کر تھک گیا ہوں۔ وہ جو نفسیاتی طور پر بھی زخم خوردہ ہیں اور جسمانی طور پر بھی۔ سب پر واضح ہو جانا چاہئے کہ ہم اربوں ڈالر پھونک کر دنیا کو پہلے سے زیادہ غیر محفوظ بنا رہے ہیں۔ “ بارک حسین اوباما کو امریکی صدارت پر فائز ہوئے اور تبدیلی کے سفر شوق کا آغاز کئے اب دوسرا سال جا رہا ہے۔ اس دوران اسکے فراخ سینے پر امن، کے نوبل پرائز کا تمغہ بھی سج چکا ہے۔ لیکن جنگ جاری ہے۔ امریکی پرچموں میں لپٹے آبنوسی تابوتوں میں بند کٹی پھٹی لاشیں امریکی ہوائی اڈوں پر اتر رہی ہیں۔ نفسیاتی اور جسمانی زخموں سے چور فوجیوں کے قافلے تھمنے میں نہیں آ رہے ۔ بے مقصد جنگ کے ہیجان سے اکتائے گورے خودکشیاں کر رہے ہیں اور ”تبدیلی“ کا کبوتر ابھی تک قصر سفید کی منڈیروں پر نہیں اترا۔ اوباما نے ”تبدیلی“ کا آغاز، تیس ہزار مزید فوجی افغانستان بھیجنے کے اعلان سے کیا۔ ان کے لئے 33ارب ڈالر کا اضافی بجٹ منظور کیا گیا۔ اب طے پایا کہ ہیلمند پر ایک بڑی اور فیصلہ کن یلغار کی جائے۔ اس یلغار کو ”مشترک“ کا نام دیا گیا ہے جانے اس ”اشتراک “میں ہمارا کتنا حصہ ہے۔؟امریکی فوجی قیادت کا کہنا ہے کہ ویت نام کے کم و بیش چالیس برس بعد اس پائے کی فوجی مہم کا پلان بنایا گیا ہے۔1991ء کی جنگ خلیج کے بعد پہلی بار زبردست فضائی قوت استعمال کی جا رہی ہے۔ امریکی کمانڈر اعلیٰ نے ایک سوال کے جواب میں کہا ۔“ ہمیں اس سے کچھ غرض نہیں کہ ”آپریشن مشترک“ میں کتنے طالبان ہلاک ہوتے ہیں “ رابرٹ گیٹس کا کہنا ہے۔ ہیلمند کو طالبان کا مضبوط گڑھ نہیں رہنے دیا جائے گا تاکہ افغان فوج موثر کنٹرول سنبھال سکے “۔ شدید سردی، برف باری اور بارش کے اس موسم میں ہزاروں لوگ نقل مکانی کر رہے ہیں۔ ان نہتے اور بے سرو ساماں لوگوں پر کیا گزرے گی ؟ انہیں کہاں پناہ ملے گی ؟ یخ بستہ ہوائیں اور بھوک ان کے کتنے معصوم بچوں کو نگل جائے گی ؟ انسانی حقوق کے پرچم بردار شہنشاہ عالم پناہ کو ان سوالوں سے کوئی غرض نہیں۔ افغانستان پر حملہ کئے اسے نواں سال جا رہا ہے۔ 43کے لگ بھگ دوسرے ممالک کی افواج قاہرہ، امریکہ کے پہلو بہ پہلو نبرد آزما رہی ہیں۔ جدید ترین ٹیکنالوجی ، ہلاکت آفریں اسلحہ، ہر نوع کا سازو سامان جنگ، طرح طرح کے بمبار طیارے، گن شپ ہیلی کاپٹرز ، خونخوار میزائل، بکتر بند گاڑیوں جیسے زرہ پوش فوجی اور مقابلہ کس سے ہے؟ وہ آتش بجال ،جن کے پاس ، جز دو حرف لا الہ کچھ بھی نہیں ۔زمین ان کیلئے تنگ کردی گئی ہے اور انکی نگاہیں صرف آسمان کی طرف اٹھی ہیں، نو برس ہوئے اور شہنشاہ عالم پناہ کا لشکر جرار کوئی مورچہ سر نہیں کر پایا۔ قدرت کی سزائیں عجب ہوتی ہیں۔ بڑی بڑی دانش گاہوں، عظیم الشان تھنک ٹینکس اور عالی دماغ کے مفکرین کے باوجود امریکہ کو اندازہ نہیں ہو رہا ہے کہ وہ دراصل اپنی بستیوں کو غارت کر رہا ہے۔ اور اپنے عوام کے مستقبل سے کھیل رہا ہے۔ اس کا دفاعی (جنگی) بجٹ، ایک ٹریلین ڈالر( دس کھرب ڈالر) تک پہنچ گیا ہے۔ معروف جاپانی اخبار ”ٹورنٹو سن“ کے تجزیہ کار ایریک مارگولس(Aric Margolis)کا کہنا ہے کہ ”روم کی تعمیر سے لے کر اب تک ،2738سالوں میں ، ہر روز (جی ہاں ! ہر روز) دس لاکھ ڈالر خرچ کئے جائیں تو ایک ٹریلین بنتے ہیں۔ ” یہ ساری دنیا کے دفاعی اخراجات کا پچاس فیصد ہے۔ چین اور روس کا مجموعی دفاعی بجٹ ، امریکی دفاعی بجٹ کا صرف دس فیصد ہے۔ دنیا کے پچاس ممالک میں امریکہ نے 750 فوجی اڈے بنا رکھے ہیں۔ اس کی ڈھائی لاکھ سے زائد فوج بیرون ملک تعینات ہے۔ اس کی آمدنی اور اخراجات کا فرق یعنی بجٹ خسارہ ،ڈیڑھ کھرب ڈالر سے تجاوز کر چکا ہے۔ اس کے قرضوں کا بوجھ12ٹریلین( 120کھرب ) کو چھو رہا ہے۔ ہر امریکی شہری چالیس ہزار ڈالر سے زائد کا مقروض ہے۔پچھلے ڈھائی برس سے امریکہ پر قرضوں کے بوجھ میں3.88ارب ڈالر روزانہ کا اضافہ ہو رہا ہے۔ 2008ء میں452ارب ڈالر سود کی مد میں ادا کرنا پڑے۔ کبھی امریکہ چین کو آنکھیں دکھاتا تھا۔ آج اسے چین کو 798ارب ڈالر ادا کرنے ہیں۔ اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ صورتحال جاری رہی تو اگلے عشرے میں امریکی بجٹ کا خسارہ 9.1ٹریلین ڈالر تک پہنچ جائے گا ۔ روزگار سے محروم امریکیوں کی تعداد2کروڑ سے تجاوز کر چکی ہے۔ بنکوں اور مالیاتی اداروں کو آکسیجن کے ذریعے زندہ رکھا جا رہا ہے۔ ترقیاتی پروگرام تعطل کا شکار ہیں۔ صحت کی سہولتوں کا پروگرام منجمد پڑا ہے۔ تعلیم کا بجٹ کم کر دیا گیا ہے اور سارا زور جنگ آزمائی پر مرکوز ہو چکا ہے۔ قدرت کی سزائیں عجیب ہوتی ہیں۔ کیا یہ سزا نہیں کہ بیکراں وسائل، 32کروڑ کی افرادی قوت، اعلیٰ تعلیم ،سے آراستہ اور سائنسی ترقی کی معراج تک پہنچا ملک ،مستقیم راہوں کو چھوڑ کر سیاہ کاری کے ان دلدلی جنگلوں کی طرف نکل کھڑا ہوا ہے جہاں سے کوئی سلامت نہیں لوٹتا، طاقت ، برتری، بالا دستی، اور رعونت کا جنوں ایک قوم کے وسائل کو کس بری طرح چاٹ رہا ہے؟ دس کھرب ڈالر سالانہ سازو سامان جنگ، ہوس ملک گیری، اور قوموں کو غلام بنانے پر خرچ کرنے والوں کی دانش پر کیسی مہر لگا دی گئی ہے۔ کہ وہ کھربوں ڈالر خرچ کر کے آج کے امریکہ کو کل کا افغانستان بنانے کے درپے ہیں۔ اگر دس کھرب ڈالر میں سے صرف ایک کھرب ڈالر بھوک، افلاس، تعلیم و صحت سے محروم مفلوک الحال قوموں پر خرچ کر دیئے جائیں تو امریکہ کا چہرہ کس قدر اجلا ہو جائے گا ۔،عالمی رائے عامہ کتنی بدل جائے گی اور نفرتیں کس طرح تحلیل ہو جائیں گی ۔ لیکن شاید یہ اسے منظور نہیں جو عزتوں اور ذلتوں کی ڈور اپنے ہاتھ میں رکھتا ہے۔شہنشاہ عالم پناہ کا لشکر جرار ، ہیلمند پر یلغار کے لئے تیار کھڑا ہے۔ اور قدرت دریائے اوغنداب کے کنارے ،انگور کی بیلوں کے جھنڈ میں چھپی مسکرا رہی ہے۔ میں یہاں اسلام آباد میں بیٹھا سوچ رہا ہوں کہ قدرت کی سزائیں بھی کیا عجیب ہوتی ہیں، خود سر قوتوں کو اندازہ ہی نہیں ہو پاتا کہ وہ ہیلمند کو فتح کرنے نہیں ، اپنی بستیوں کی جڑوں میں بارود بھرنے اور اپنی قوم کو عذاب کے کوہ گراں تلے کچلنے جا رہی ہیں۔

تبصرے
Loading...