امام کی ثابت قدمی

امام تن تنہا میدان میں دشمنوں کے سامنے کھڑے رہے اور بڑے بڑے مصائب کی وجہ سے

 

١۔مقتل الحسینِ مقرم، صفحہ ٣٣٣۔

آپ کے ایمان و یقین میں اضافہ ہوتارہا آپ مسکر ارہے تھے اور آپ کو فردوس اعلیٰ کی منزلوں پر اعتماد تھا۔ نہ آ پ کی اولاد ،اہل بیت اور اصحاب کے شہید ہو جانے سے آپ کی استقامت و پائیداری میں کو ئی کمی آئی اور نہ ہی پیاس کی شدت اور خون بہہ جانے کا آپ پر کو ئی اثر ہوا آپ ان انبیاء اوراولی العزم رسولوں کی طرح ثابت قدم رہے جن کو اللہ نے اپنے بقیہ بندوں پر برتری دی ہے ، آپ کے فرزند ارجمند امام زین العابدین اپنے پدر بزرگوار کے صبر اوراستقامت کے سلسلہ میں فرماتے ہیں:” جیسے جیسے مصائب میں شدت ہو تی جا رہی تھی آپ کے چہرے کا رنگ چمکتا جا رہا تھا ، آپ کے اعضاو جوارح مطمئن ہو تے جا رہے تھے ،بعض لوگ کہہ رہے تھے : دیکھو انھیں مو ت کی بالکل پروا نہیں ہے ”۔(١)

عبد اللہ بن عمار سے روایت ہے :جب دشمنوں نے جمع ہو کر آپ پر حملہ کیا تو آپ نے میمنہ پر حملہ کیایہاں تک کہ وہ آپ سے شکست کھا گئے خدا کی قسم میںنے کسی ایسے شخص کو نہیں دیکھا جس کی اولاد اور اصحاب قتل کر دئے گئے ہوں اور امام جیسی بلند ہمتی کامظاہرہ کرسکے، خدا کی قسم میں نے آپ سے پہلے اور آپ کے بعد آپ کے جیسا کو ئی شخص نہیں دیکھا۔(٢)

ابن خطاب فہری نے آپ کی جنگ کی یوں تصویر کشی کی ہے :

”مھلا بن عمِّنا ظُلمَاتنا

 

اِنَّ بِنَا سُوْرَةً مِنَ القَلَق

لِمثلکم تُحملُ السیوفُ وَلا

 

تُغمزُأَحْسَابُنَامِنَ الرَّفَقِ

اِنِّْ لَاَنْسیٰ اِذَاانْتَمَیْتُ اِلیٰ

 

عِزٍّ عَزِیْزٍ وَمَعْشَرٍصَدِق

بَیْضٍ سِبَاطٍ کَاَنَّ اَعْیُنَھُمْ

 

تَکَحَّلُ یَوْ مَ الھِیَاجِ بِالْعَلَقِ”(٣)

 

١۔الخصائص الحسینیہ مؤلف تستری ،صفحہ ٣٩۔

٢۔تاریخ ابن کثیر،جلد ٨،صفحہ ١٨٨۔

٣۔ریحانة الرسول، صفحہ ٦٤میں آیا ہے کہ بڑے تعجب کی بات ہے کہ جس نے بھی ان اشعار کو مثال کے طور پر پیش کیا وہ قتل کردیا گیاحضرت امام حسین علیہ السلام نے ان اشعار کو یو م الطف ،زید بن علی نے یوم السبخہ اور یحییٰ بن زید نے یوم جوزجان میں ،اور جب ابراہیم بن عبد اللہ بن الحسن نے منصور کے خلاف خروج کرتے وقت ان اشعار کو مثال کے طور پر پیش کیا تو ان کے ساتھیوں نے ان سے بغاوت کی اور کچھ مدت نہیں گذری تھی کہ ان کو تیر مارکر موت کے گھاٹ اتاردیا۔

”اے ہمارے چچا کی اولاد ،ہم پر ظلم کرنے سے باز آجائو کیونکہ ہم اضطراب میں مبتلا ہیں ۔

تمہارے جیسے افراد کی وجہ سے تلواریں ساتھ رکھی جا تی ہیںورنہ عطوفت و مہربانی اوررحم وکرم ہمارے ضمیر میں بساہے ۔

جب مجھے کسی صاحب عزت اور سچی جماعت کے ساتھ منسوب کیا جاتا ہے تو میں فراموش کر دیتا ہوں ۔

اس جماعت کی آنکھوں میں اس دن جمے ہوئے خون کا سرمہ نظر آتا ہے ”۔

آپ نے اللہ کے دشمنوں پر حملہ کیا، ان کے ساتھ شدید جنگ کی اور بہت زیادہ لوگوں کو فی النار کیااور جب آپ نے میسرہ پر حملہ کیا تو یوں رجز پڑھا:

”اَنا الحسین ُ ابن ُ عل

 

آلیتُ اَنْ لَا اَنْثَنِ

اَحْمِیْ عِیَالَاتِ اَبِْ

 

اَمْضِْ عَلیٰ دِیْنِ النَّبِ” (١)

”میں حسین بن علی ہوںمیں نے ذلت کے سامنے نہ جھکنے کی قسم کھا ئی ہے ۔

میں اپنے پدر بزرگوار کی ناموس کی حفاظت کروں گامیں نبی کے دین پر قائم رہوں گا ” ۔

آپ ( حسین ) نے دنیا کے منھ کو شرافت و بزرگی سے پُر کردیا ،آپ دنیا میں یکتا ہیں جن کے عزم و حو صلہ کی تعریف نہیں کی جا سکتی ،آپ نے گریہ وزاری نہیں کی اور نہ ہی کسی کام میں سستی کی ،آپ نے دشمنوں کا مقابلہ کرکے ظالموں اور منافقوں کے قلعوں کو ہلاکر رکھ دیا ۔

آپ اپنے جد رسول اکرم ۖ کے راستہ پر گامزن رہے ، اس دین کے تجدّد کا باعث ہوئے ، اگر آپ نہ ہوتے تو وہ مبہم رہ جاتا اور اس کو حقیقی زندگی نہ ملتی۔۔۔

ابن حجر سے مروی ہے کہ امام حسین جنگ کرتے جا رہے تھے اور آپ کی زبان مبارک پر یہ اشعار جاری تھے :

”أنابن علِّ الحُرِّمِنْ آلِ

 

کَفَانِْ ھٰذَا مَفْخَراً حِیْنَ أَفْخَرُ

 

١۔مناقب ابن شہر آشوب، جلد ٤،صفحہ ٢٢٣۔

وَجَدِّْ رَسُولُ اللّٰہِ أَکْرَمُ مِنْ

 

وَنَحْنُ سِرَاجُ اللّٰہِ فِ النَّاسِ

وَفَاطِمَةُ أُمِّْ سُلَالَةُ

 

وَعَم یُدْعیٰ ذُوْ الجَنَاحَیْنِ

وَفِیْنَا کِتَابُ اللّٰہِ اُنْزِلَ

 

وَفِیْنَا الھُدیٰ وَالْوَحُْ وَالْخَیْرُ یُذْکَرُ’ ‘ (١)

”میں فرزند علی ہوں ،آزاد ہوں ،بنی ہاشم میں سے ہوں ،میرے لئے فخر کرنے کے لئے یہی کافی ہے ۔

میرے نانا رسول خدا ،افضل مخلوقات ہیں ہم لوگوں میں نورا نی رہنے والے خدا کے چراغ ہیں ۔

میری ماں فاطمہ بنت رسول ہیں اورمیرے چچا جعفر طیارہیںجن کو ذو الجناحین کہاجاتاہے۔

ہماری ہی شان میں قرآن نازل ہوا،ہم ہی ہدایت کا ذریعہ ہیں وحی اور خیر(بھلا ئی) ہمارے ہی پاس ہے ” ۔

 

تبصرے
Loading...