اسلام برطانیہ میں تیزی سے فروغ پارہا ہے/ 10 سال بعد اسلام برطانیہ کا اکثریتی دین

 

 رشیا ٹوڈے کے نامہ نگار پالی بویکو نے رپورٹ دی ہے کہ گوکہ نصف کے قریب برطانوی باشندے کہتے ہیں کہ “ہم عیسائی ہیں” لیکن ان میں سے بہت کم لوگ گرجا گھر جاتے ہیں۔ اور اتوار کے روز گرجا گھر جانے والوں میں بڑی تعداد بوڑھوں کی ہے۔

اطلاعات کے مطابق برطانیہ میں عیسائیت کے زوال کی رفتار اس سے کہیں زيادہ تیز ہے جو قبل ازیں تصور کیا جاتا تھا۔ اب پہلی بار 25 سال سے کم عمر کے برطانویوں میں سے نصف سے بھی کم لوگ اپنا تعارف عیسائی کی حیثیت سے کراتے ہیں۔ 

برطانیہ کی ہیومینسٹ انجمن کے انتظامی ڈائریکٹر اینڈر کیپسن کا کہنا ہے کہ عیسائیت کی تنزلی اور کلیسا کے زوال طویل المدت تھا لیکن اس وقت یہ مشکل بہت نمایاں ہوچکی ہے اور گرجاگھر جانے والے افراد کی تعداد میں شدت سے کمی واقع ہوئی ہے۔ اس وقت عام اتوار کے روز 95 فیصد برطانوی گرجاگھر نہيں جاتے۔

پالی بویکو کہتا ہے: برطانوی شماریاتی ادارے کے اعداد و شمار کے مطابق، ایسے حال میں کہ برطانوی گرجاگھروں کو شرکاء کی شدت قلت کا سامنا ہے انگلینڈ اور ولز میں مسلمانوں کی آبادی میں 75 فیصد اضافہ ہوا ہے جن کی اکثریت نوجوان ہیں۔ برطانوی شماریاتی ادارے کے مطابق برطانیہ کی نصف مسلم آبادی کی عمریں 25 سال اور اس سے کم ہیں۔ 

بویکو کہتا ہے: ہم مشرقی لندن کی مسجد میں گئے تو مسجد نمازیوں سے کھچاکھچ بھری ہوئی تھی اور مسجد کے اعزازی ڈائریکٹر محمد عبدالباری نے ہم سے کہا: لوگ مختلف محرکات کی بنا پر مسجد آتے ہیں اور مسجد میں آنے کے لئے مسلمانوں کا ایک اہم محرک یہ ہے کہ وہ اپنے بچوں کی صحیح تربیت کرنا چاہتے ہیں اسی بنا پر برطانوی مسلم خاندانوں کے اکثر سربراہ اپنے تمام بچوں کو بھی ساتھ لاتے ہیں اسی وجہ سے نماز کے لئے یا دیگر دینی مراسمات کے موقع پر ہماری مسجد میں آنے والے افراد میں سے آدھی تعداد نوجوانوں اور بچوں کی ہوتی ہے۔ ہم بھی نوجوانوں کے مسائل حل کرنے کا خاص اہتمام کرتے ہیں؛ اسی وجہ سے وہ اپنے آپ کو مسجد کا حصہ اور مسلمانوں کے بڑے کنبے کے افراد سمجھتے ہيں۔ 

بویکو نے مزید کہا: دینی تھنک ٹینک “پیو” نے برطانیہ میں اندازہ لگایا ہے کہ اگر اس ملک میں اسلام کی پیشرفت کا عمل اسی رفتار سے جاری رہا تو آگلے بیس برسوں میں مسلمانوں کی آبادی دو گنا ہوکر 55 ملین ہوجائے گی۔ اس تخمینے کے مطابق 2030 میں مسلمانوں کی آبادی کویت کی پوری آبادی سے بڑھ جائے گی۔

بویکو نے کہا: برطانیہ میں مختلف اسلامی پروگراموں کا خیرمقدم مسلمانوں کے درمیان اس قدر زيادہ ہے کہ مثال کے طور پر ایک ریڈیو چینل انسپائر (Inspire) صرف ماہ مبارک رمضان میں کام کرتا تھا اور چند مسلم نوجوانوں نے اس ریڈیو کی بنیاد رکھی تھی لیکن مسلمانوں نے اس کا اس قدر وسیع خیرمقدم کیا کہ اب یہ مسلمانوں کے ریڈیو چینل کے عنوان سے مسلسل کا کررہا ہے۔ 

اس ریڈیو چینل کے منتظمین ـ جو ایک دوسرے کو بھائی اور بہن کہہ کر پکارتے ہیں ـ نوجوانوں سمیت مسلمانوں کے مختلف طبقات کے لئے خصوصی پروگرام نشر کرتے ہیں۔

ایف ایم ریڈیو کے ڈائریکٹر محمد طارق کہتے ہیں: ہم اسلامی تعلیمات کی بنیاد پر کام کرتے ہیں اور کسی بھی غیر اسلامی پروگرام یا تبلیغ نشر نہیں کرتے؛ مثلا ہم برطانوی ریڈیو اور ٹیلی ویژن میں نشر ہونے والی موسیقی اس ریڈیو میں نشر نہیں کرتے اور حرام مشروبات، جوابازی وغیرہ کے اشتہارات نشر نہیں کرتے۔ 

بویکو کے مطابق؛ ماہرین کا کہنا ہے کہ ایک چیز جو وبرطانوی شہریوں کے لئے جاذب نظر ہے، وہ، وہ عبودیت اور بندگی کا وہ تقاضآ ہے جو اسلام اپنے پیروکاروں سے کرتا ہے۔

لندن کی سٹی یونیورسٹی کی پروفیسر سارا سلویسٹری (Sara Silvestry) نے کہا: لوگ محسوس کرتے ہیں کہ اسلام ان کے لئے خاص راہ و روش رکھتا ہے اور ان سے بندگی اور نظم و ضبط چاہتا ہے، وہ محسوس کرتے ہیں اسلام انہیں ایک واضح راستے پر گامزن کرتا ہے اور انہیں چھوڑتا نہیں ہے کہ وہ بےراہ روی کا شکار ہوجائیں۔

سلویسٹری نے کہا: دوسری طرف سے برطانوی کلیسا کے راہنماؤں کا خیال ہے کہ اگر وہ عیسائی احکام میں سخت گیری نہ کریں اور انہیں نرم کریں اور اس کی شدت کم کریں تو زیادہ سے زیادہ لوگ کلیسا کی طرف مائل ہوجائیں گے لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ اقدام گرجاگھروں میں لوگوں کی شرکت میں کمی آئی ہے “کیونکہ گرجاگھر میں حاضر ہوئے بغیر بھی عیسائی قوانین سے بے رخی برتی جاسکتی ہے!”۔ 

پالی بویکو نے کہا: البتہ برطانوی کلیسا ان دعؤوں کو مسترد کرتی ہے کہ اور دعوی کرتی ہے کہ حالیہ رپورٹوں میں “برطانیہ میں عیسائیت کی موت” کے امکان کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا ہے۔ 

رشیا ٹوڈے کے نامہ نگار نے آخر میں زور دے کر کہا ہے: بہرحال برطانیہ میں ماہرین شماریات آبادی کا کہنا ہے کہ اگر اسلام کا فروغ اور عیسائیت کا زوال اسی تیزرفتاری سے جاری رہے تو صرف دس سال کے عرصے میں، ممکن ہے کہ مسلمانوں کی تعداد اس قدر بڑھ جائے کہ اسلام برطانیہ کے غالب اور اکثریتی دین میں تبدیل جائے اور عیسائیت دوسرے درجے کا دین بن جائے۔

ایک رپورٹ اور: 

برطانیہ میں نو مسلموں کے بارے میں تازہ تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ بیشتر نومسلم برطانوی خواتین وہ ہیں جو مردوں کی تیز نگاہوں سے بچنے کے لئے اسلام کی طرف مائل ہوتی ہیں کیونکہ انہیں یقین ہے کہ حجاب انہیں اس مشکل سے نجات دیتا ہے۔ 

اکنامسٹ کی رپورٹ میں بھی مردوں کے قبول اسلام کی وجہ خاندانی قرار دی گئی ہے اور کہا گیا ہے کہ اسلام میں مرد کو گھرانے کا نان ونفقہ فراہم کرنے کی بنا پر احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے چنانچہ وہ مسلمان ہوکر اس اسلامی احترام سے بہرہ مند ہونا چاہتے ہیں اور انہیں یہ احترام مل بھی جاتا ہے۔ 

اکانومسٹ کے مطابق بعض برطانوی تجزیہ نگار سابق برطانوی حکومت کے ایک رکن کے بیٹے “جو احمد ڈابسن” (Joe Ahmed-Dobson) اور بی بی سی کے سابق سربراہ یحیی برت (Yahya Birt) کے قبول اسلام اور حتی اسلام کے فروغ کو خطرناک قرار دیتے ہیں۔ 

رشیا ٹوڈے کی ایک رپورٹ اور: 

2011 کی برطانوی مردم شماری کے نئے تجزیوں سے معلوم ہوتا ہے کہ عیسائیوں کی آبادی سابقہ پیشنگوئیوں سے 50٪ زیادہ تیز رفتاری سے کم ہورہی ہے۔ 2011 کی مردم شماری سے معلوم ہوا ہے کہ برطانیہ میں 25 سال سے کم عمر کے 10 فیصد نوجوان مسلمان ہیں۔ 

برطانیہ کے ادارہ شماریات کا کہنا ہے کہ زیادہ تر عیسائی 60 سال سے اوپر ہیں اور پہلی مرتبہ برطانیہ کے 50٪ سے کم نوجوان عیسائی ہیں چنانچہ 10 سال بعد برطانیہ میں ایک چھوٹی سی اقلیت اپنا تعارف عیسائی کے عنوان سے کرائیں گے۔ 

جنگ کی رپورٹ بحوالہ اکنامسٹ: 

ابنا: برطانیہ میں ایک لاکھ افراد اسلام قبول کرچکے ہیں جبکہ سالانہ 5200 برطانوی حلقہٴ اسلام میں داخل ہورہے ہیں۔ 

برطانوی جریدہ ”اکنامسٹ“ نے ”کتنے افراد اسلام قبول کرچکے؟“ کے عنوان سے ایک سوال اٹھایا ہے۔ جریدہ لکھتا ہے کہ اسلام قبول کرنے والوں میں زیادہ تر ان لوگوں کی اکثریت ہے جو کئی برسوں سے مسلمانوں کے ساتھ رابطے میں ہیں۔ برطانیہ میں خواتین کی دو تہائی اکثریت نے اس لئے اسلام قبول کیا کہ وہ کسی مسلمان سے شادی کرنا چاہتی تھی۔ دیگر لوگ اس لئے اسلام کی طرف مائل ہو رہے ہیں کہ وہ برطانوی معاشرے میں پھیلی بے راہ روی اور فحاشی سے تنگ آچکے ہیں جبکہ بہت سے کمیونٹی کے احساس کے حصول کی بات کرتے ہیں۔ 

جریدے کے مطابق اسلام قبول کرنے میں جیلیں موٴثر جگہ ثابت ہورہی ہیں جبکہ اس صورت حال سے مغربی حلقے تشویش کا شکار ہیں کہ جیل میں اسلام قبول کرنے والے زیادہ بنیاد پرست ہیں، تاہم مسلمانوں سے متاثرہ حلقے کا موٴقف ہے کہ اسلام کا نظم و ضبط اور ساخت انہیں ذاتی زندگی کے مسائل سے نمٹنے میں مدد کرتا ہے۔ 

انگلینڈ اور ویلز میں مردم شماری کے دوران شہریوں سے ان کے ماضی کے مذہب کے بارے سوال نہیں کیا جاتا اور برطانوی مساجد بھی نومسلم کا کوئی ریکارڈ مرتب نہیں کرتیں۔ 

کچھ نومسلم اپنے خاندان اور دوستوں کے ردعمل کی وجہ سے تبدیلی مذہب کو خفیہ رکھتے ہیں۔ تاہم یونیورسٹی آف ویلز کے محقق کیون برائس کے مطابق ہر سال 5200 برطانوی اسلام قبول کر رہے ہیں اور اب تک ایک لاکھ برطانوی اسلام قبول کرچکے ہیں۔ 

امریکا میں بھی مردم شماری میں مذہب کے بارے میں سوال نہیں کیا جاتا جبکہ بہت کم مساجد ایسا ریکارڈ مرتب کرتی ہیں۔ امریکا میں مسلمانوں کی مجموعی تعداد کے متعلق کوئی ٹھوس اعداد وشمار نہیں۔ 

2007ء کی پیو ریسرچ کے مطابق 24 لاکھ امریکی مسلمان ہیں جبکہ 2000ء میں امریکی صدر بل کلنٹن کا کہنا تھا کہ 60 لاکھ امریکی مسلمان ہیں۔ پیو ریسرچ کے مطابق امریکی مسلمانوں میں سے ایک چوتھائی نو مسلم ہیں۔ 

کچھ عرصہ قبل برطانوی میگزین ”New Statesman“ نے اپنی رپورٹ میں لکھا کہ نائن الیون کے بعد 2001ء سے 2011ء کے درمیان ایک لاکھ برطانوی شہری حلقہ اسلام میں داخل ہوئے۔ 

اس سے قبل ایک اور جریدے کی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ نائن الیون کے بعد امریکا میں سالانہ 30 ہزار افراد اسلام قبول کر رہے ہیں، جبکہ اسلام قبول کرنے والے برطانوی شہریوں میں 75 فیصد خواتین ہی

تبصرے
Loading...