اسلامی سیاست کا فلسفہ

تعلیمات وحی کے ساتھ اسلامی سیاست کے فلسفہ کا رابطہ اور دینی نصوص (قرآن وروایات ) کا اسلامی فلسفیوں کے افکار واذہان پر اثر انداز ہونا اور فلسفی مباحث کے رخ کو اسلامی طرز تفکر کی طرف موڑدینا سنّت اسلامی میں پہلا مسئلہ ہے، مسلمان فلاسفہ کا عمدہ مفروض دانش بشری کو وحی الٰہی سے اخذ کرنا ہے جس کی تعلیم انبیاء الٰہی علیہم السلام کے ذریعہ بشر کو دی گئی ہے ۔

فلسفہٴ سیاست کی ترکیب فلسفہ مضاف کی اقسام میں سے ہے کہ جو بہت سی دوسری ترکیبی اقسام کی نسبت بہت قدیم ہے، ہرچند سیاسی فلسفہ کی اصطلاح بھی رائج ہے لیکن اگر فلسفہ سیاست کو سیاسی کام میں فلسفی تاٴمُّلات کے معنی میں لیا جائے تو یہ زیادہ دقیق ہوگا، فلسفہ سیاست کو اسلامی قید سے مقید کرنے کے سلسلے میں بہت سے نظریات پائے جاتے ہیں، ”اسلامی سیاست کے فلسفہ“ کے رائج معنی، مسلمانوں کی سیاست کے فلسفہٴ کے ہیں؛ ہرچند کہ فلسفہ سیاست کو اگر اسلامی تعلیمات اور پیش فرضوں سے اقتباس کئے ہوئے کہ معنا میں لیں اور نیز عقلی استدلال کو دینی متون میں جاری کرنے کے معنی میں لیں تو بیجا نہ ہوگا ۔

ہرچند کہ فلسفہ سیاست کو اسلامی تعلیمات کے مقدمات اور فرضیوں سے متاثرہونے کے معنی میں اور ایسے ہی عقلی استدلال کو دینی متون میں جاری کرنے کے معنی میں بھی لیں تو قابل قبول ہے ۔

یہ مقالہ مفہوم، مکاتب، روش شناسی اور اسلامی سیاست کے فلسفہ کے بیان کرنے کے لئے ایک مختصر سی کوشش ہے ۔

بیانِ مسئلہ

فلسفہ سیاسی یا فلسفہ سیاست تفکر انسانی کی سیاسی زندگی کے باب میں سب سے قدیم مسئلہ ہے، پرانے معاشرے میں اجتماعی سیاسی زندگی کی تشکیل کے ساتھ ہی اس کے باب میں عقلی تاٴمل وتفکر وجود میں آگئے تھے اور انھوں نے تکامل کی راہیں طے کرلی تھی، اگر باب سیاست سیاسی، فلسفی تفکر کے اصلی معیار کو میں بشر کا عقلانی تفکر جانیں تو انسانوں کے مختلف ادوار میں اس کی ترقی کے لئے اس کا بہت بڑا حصّہ ہے، مختلف تہذیبوں نے اپنے عقلانی تاٴمُّلات سے طرح طرح کے سیاسی فلسفے ایجاد کئے اور پیش کئے ہیں؛ البتہ باب سیاست میں عقلانی تاٴمُّلات ہمیشہ ترقی کی راہوں پر گامزن نہیں رہے بلکہ کبھی کبھی سیاسی۔ فلسفی تفکر میں پسپا ہوئے اور ان میں ضعف میں دکھائی دینے لگا ۔

ہر چند کہ بطور عمدہ سیاست کے باب میں فلسفی تفکر ، بشری فکر کے نتائج ہیں؛ لیکن دین اور مذہبوں نے بھی اس فکری میدان میں مختلف راستوں سے اپنا کردار نبھایا ہے، ادیان ومذاہب، تھئوریوں کے بنانے یا کبھی کبھی خاص موضوعات میں عقلانی استدلال کے ذریعہ ذہن بشری کو فعّال بنانے کی وجہ سے ”سیاسی فلسفہ“ کی ترقی، شکوفائی اور تحوّل کا باعث ہوئے ہیں ۔

اس کے واضح نمونوں کو دو سیاسی، فلسفی مکتب فکر یعنی اسلام اور مسحیت میں بخوبی دیکھا جاسکتا ہے، اسلامی دورہ میں فلسفہ سیاست نے وحیانی تعلیمات کو کشف کرنے کی کوشش کی کہ جن کا ثمرہ سیاسی، فلسفی تفکرات میں عقلانی اور وحیانی تعلیمات کی ہماہنگی قرار پائی، فارابی، مسکویہ، ابن سینا اور ملّا صدرا جیسے فلسفی حضرات نے اس سلسلے میں کوششیں کیں ۔

فلسفہٴ سیاست، ایک دوسرے نظریہ کے مطابق فلسفہ کی اقسام میں سے بھی ہے، انسان نے عقلی تفکرات اور جہان ہستی اور اپنی انسانی حیات میں غوروفکر کے بعد، انسان سے مربوط مختلف مسائل میں عقلانی غور وفکر کی طرف متوجہ ہوا اور اس نے مضاف فلسفوں کو ایجاد کیا، ان عقلانی تاٴمُّلات کے مسائل میں سے ایک مسئلہ سیاست کے باب میں موجود ہے کہ جو حقیقت میں سیاست کے مسئلہ کا عقلی پوسٹ مارٹم اور سیاسی زندگی کی ضروریات کے نتیجے کا اخذ کرنا ہے ۔

مقالہٴ حاضر میں کوشش کی گئی ہے کہ فلسفی، سیاسی تفکرات کو یا سیاسی تفکر میں فلسفہ سیاست اور اس کی خصوصیات کے مفہوم کو واضح اور روشن کرنے کے ساتھ اس کے مہم مسائل کی شناسائی اور اس سے مرتبط علوم جیسے کلام سیاسی، فقہ سیاسی اور علم سیاست کے درمیان وجہِ امتیاز کو بیان کریں اور پھر دورہٴ اسلامی میں فلسفہ سیاست کے مشخصات کی تحقیق کریں، ایسے ہی اس مختصر سی تحریر میں اسلام دنیا میں فلسفہ سیاست کی حالیہ وضعیت کی اجمالی طور سے تحقیق کریںاور اس کی آفتوں اور مشکلات کو تاحدّے پہچنوائیں گے ۔

۱۔ اسلامی فلسفہٴ سیاست کیا ہے؟

اسلامی فلسفہ سیاست کے مفہوم کو پہچاننے کے لئے ضروری ہے کہ اس کی کئی نظریوں سے تحقیق کی جائے:

۱۔۱ ۔ فلسفہٴ سیاست یا فلسفہ سیاسی

اس سلسلہ میں بحث کرنا دو کلموں ”فلسفہٴ سیاست“ اور ”فلسفہ سیاسی“ کی طرف پلٹتی ہے، فلسفہ ٴ سیاسی کی اصطلاح پہلے سے ہی اسلام کی علمی میراث میں رائج تھی اور اس کو مختلف تعبیرات جیسے علوم مدنی اور حکمت مدنی یہاں تک کہ کبھی کبھی فلسفہٴ اسلامی سے یاد کیا جاتا تھا، مغربی ممالک میں بھی اس جیسی تعبیرات سے استفادہ ہوتا ہے (1998;REP;1970;ee:Raphael)

گذشتہ چند سالوں میں بہت سے لوگوں نے فلسفہٴ سیاسی کے بجائے فلسفہٴ سیاست کی اصطلاح کی تجویز پیش کی ہے، ان لوگوں کی نظر کے مطابق ہرچند انگلریزی لفظ Philospphy political بھی صفتی معنی کے طور پر استعمال ہوا ہے، لیکن یہ ترکیب صحیح نہیں ہے اور اس موضوع کو کامل طور سے بیان نہیںکرتی ہے، ان اشخاص میں سے ایک شخص کی وضاخت کے مطابق:

ہم نے اب تک ”فلسفہ“ کی شاخوں یا شعبوں کے عنوان کے تحت دس عنوان کا پتہ چلایا ہے جو اس طرح ہیں: فلسفہٴ اخلاق، فلسفہٴ علوم اجتماعی، فلسفہٴ منطق، فلسفہٴ تعلیم وتربیت، فلسفہٴ حقوق․․․․ فلسفہٴ دین، فلسفہٴ تاریخ، ان تمام اصطلاحات کی ترکیب مضاف اور مضاف الیہ کی صورت میں ہے؛ لیکن فلسفہٴ سیاسی کی ترکیب موصوف صفت کی صورت میں ہے (محمودی، ۱۳۷۶، ص۳۔۱)

موصوف کی نظر میں ان میں سے ہر ایک اضافی اصطلاح کا مفہوم واضح اور وشنہے اور مضاف الیہ کے فلسفی مطالعہ کو روشن کرتا ہے، جبکہ صفتی ترکیب میں ان معنا کا استفادہ نہیں ہوتا؛ لہٰذا تجویز یہ ہے کہ فلسفہٴ سیاسی کی جگہ ترکیب اضافی یعنی فلسفہٴ سیاست سے استفادہ کیا جائے، فلسفہٴ سیاست فلسفہ سے مراد یہ ہے کہ سیاست کا موضوع قرار پائے ”فلسفہٴ، سیاست کو چون وچرا جیسے سوالوں کا موضوع قرار دینا، اس بات کی کوشش کرتا ہے کہ کی تحلیل کی کوشش کی جائے ، اس کی اہمیت کو بتلایا جائے، اُس پر تنقید کرنا اور اس کی ”کیا“ اور ”کیوں“ کے بارے میں گفتگو کی جائے“ (گذشتہ حوالہ) ایسی دقت نظری با اہمیت ہے؛ لیکن ”فلسفہٴ سیاسی“ کی اصطلاح کا کلاسیکل دوران اور عصر حاضرمیں استعمال وصفی ترکیب کے ساتھ ہونا ہے کہ یہ ترکیب وصفی بھی قابل استفادہ ہے ۔

اسلامی دورہ میں بھی وہ کلمہ ”علممدنی“ کے ساتھ استعمال ہوا ہے، فارابی نے ”التنبیہ علی سبیل السعادة“ میں اس کلمہ کو استعمال کیا ہے (فارابی، ۱۳۴۶: ص۲۱) البتہ ”فلسفہٴ سیاست کی ترکیبی اصطلاح میں ایک دوسرا احتمال بھی پایا جاتا ہے کہ جو دیگر اضافی ترکیبات کی طرح علم سیاست پر درجہ دو کی نگاہ کو بیان کرتا ہے یہ اس وجہ سے کہ کہ فارسی زبان میں سیاست کی اصطلاح کے دومعنی، یعنی فعل سیاست اور علم سیاست میں استعمال ہوتا ہے، اس جہت سے فلسفہ کا سیاست کی طرف مضاف ہونا، دو معنی کا متحمل ہے، پہلے استعمال میں فلسفہٴ سیاست سے منظور، فلسفہٴ فعل سیاسی ہے جبکہ دوسرے استعمال میں فلسفہٴ علم سیاست کی حکایت ہوتی ہے، اسی چیزکا ”فلسفہٴ تاریخ“ میں بھی اتفاق ہوا ہے اور تاریخ میں ذو معنیین ہونے کی وجہ سے کبھی تاریخی حوادث اور کبھی علم تاریخ کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔

فلسفہٴ تاریخ بھی دو نوع، نظری اور جوہری یا تاریخ پر درجہ اوّل کی نگاہ اور تحلیلی، تنقیدی یا تاریخ پر درجہٴ دوم کی نگاہ سے یعنی علم تاریخ پر تقسیم ہوتا ہے ۔

مضاف ومضاف الیہ والی ترکیب جیسے ”فلسفہٴ حقوق، فلسفہٴ اخلاق“ میں اس جیسا احتمال دیکھا جاسکتا ہے، تحقیق حاضر میں فلسفہٴ سیاست سے مراد، پہلے درجہ کا مطالعہ یا فعل سیاسی کا فلسفہٴ ہے کہ جو فلسفہٴ سیاسی کے مترادف استعمال ہوتا ہے؛ البتہ یہ بھی قابل ذکر ہے کہ حالیہ سیاسی میراث میں چاہے وہ اسلامی سنت میں ہو یا مغربی دنیا کی فکری روایت میں، عمدہ طور سے ”فلسفہٴ سیاسی“ کی تعبیر سے استفادہ ہوا ہے ۔

۱۔۲۔ فلسفہٴ سیاست کی تعریف

فلسفہٴ سیاسی کی غرض وغایت، مسائل اور چون وچرا پر مختلف نظریات ہونے کے باوجود، ان تمام نظریات کو سیاسی مسائل کے باب میں عقلی غورو فکر کے معنی میں خلاصہ کیا جاسکتا ہے ۔

یہ مشترک صفت وہ چیز ہے جس سے اینتھونی کوئنٹن نے فلسفہٴ سیاسی کی بدوی تعریف میں استفادہ کیا ہے، اس کی نظر میں ”فلسفہٴ سیاسی“ وہ چیز ہے جو ایک موضوع پر لکھی گئیں مشہور کتابوں جیسے جمہور افلاطون، سیاست ارسطو، شہریار ماکیاول وغیرہ کا مشترک موضوع ہے (کوئنٹن، ۱۳۷۴: ص۱۱) فلسفہٴ سیاسی کی اسی تعریف اور تفسیر ایک گشاد اور وسیع تعریف ہے کہ جو فلسفہٴ سیاسی کو فقط اسی موضوع سے منسلک افراد کو پہچنواتی ہے؛ لیکن جیسا کہ وہ بھی یقین رکھتا ہے کہ بیسوی صدی کی سنگین علمی فضا اور تجربہ گرائی میں کہ جس میں فلسفہ محجوریت کا شکار ہوگیا تھا، ممکن ہے ایس

ی صفت مغربی قارئین کی نظر میں فلسفہٴ سیاسی کا ایک کلی مفہوم واضح کردے ۔

اسلامی فلاسفہ ارسطو کی جانب سے حکمت کی دو قسموںنظری اور عملی تقسیم ہونے کی اتباع میں معمولاً اپنی کتابوں کے آغاز میں علوم کی حکمی اور فلسفی طبقہ بندی اور تعریف کرتے اور ان میں سے ہر ایک کے مقام کو مشخص کرتے تھے؛ احصاء العلوم میں فارابی نے سب سے قدیم طبقہ بندی میں مختلف علوم کی شناسائی، طبقہ بندی اور ان کی تعریف بیان کی ہے اسی لئے اس سلسلے میں اپنے عمدہ مباحث کو اپنی تین کتابوں، کتاب الملّہ، احصاء العلوم اور التنبیہ علیٰ سبیل السعادہ میں تحریر کیا ہے، فارابی کا عقیدہ ہے:

فلسفہٴ مدنی کی دوقسمیں ہیں: پہلی قسم وہ ہے جو اچھے افعال اور نیک اخلاق کو پہچنواتی ہے اور اُس کہ جن سے افعال جمیلہ صادر ہوتے ہیں اور ان کے اسباب وعلل پر توانائی عطا کرتی ہے اور ان کو ”صناعة خلقیہ“ کہا جاتا ہے ۔

دوسری قسم وہ علم ہے جو اُن امور کی معرفت کو شامل ہے کہ جو اشیاء جمیلہ کے لئے شہریوں کو حاصل کرنے کا سبب اور ان کے کسب اور حفاظت کی توانائی کا ذریعہ قرار پاتے ہیںاور اس علم کو فلسفہٴ سیاسی کہا جاتا ہے ۔(فارابی، گذشتہ حوالہ)

ایک کلی مرور میں، فارابی نے علم مدنی کو ایک عام معنی میں استعمال کیا ہے کہ جو فقہ وکلام کو بھی شامل کرتا ہے، وہ تمدن اسلامی میں سیاسی دانش کی ایک مہمترین صفات پر اسرار کرتا اور علم سیاست کو فلسفے کے انحصاری قلمرو اورفلسفی تحقیقات کے تنگ دائرہ سے خارج کرتا، اور فقہ وکلام اسلامی کی سیاسی خصلت پر جیسا کہ چوتھی صدی میں اس کا رواج تھا، تاکید کرتا ہے (فیرحی، ۱۳۷۸، ص۷۰)

خواجہ نصیر الدین طوسی نے فلسفہٴ سیاسی کی تحقیق اور علوم کے درمیان اس کے مقام کی جستجو کے بعد، حکمت کو دو قسموں نظری اور عملی پر تقسیم کی ہے، انھوں نے ابتدا میں حکمت عملی کے موضوع کو نوع انسانی کے صناعی افعال اور حرکت ارادی کے مصالح جانا ہے، وہ افعال کو فردی اور اجتماعی زندگی کی طرف تقسیم کرنے کے بعد، اجتماعی زندگی کی دو قسموں میں سے ایک کو سیاست مدنی کا نام دیتے ہیں (خواجہ نصیر، ۱۳۷۳: ص۴۰) وہ ایک دوسری عبارت میں تحریر کرتے ہیں:

قوانین کلی کے منظور نظرعمومی مصلحت ہوتی ہے،اس جہت سے کہ تعاون کی طرف متوجہ ہوں تو کمال حقیقی (حاصل ہوگا)، (اس علم کا موضوع بھی) وہ ہیئت اور انجمن ہے جو اجتماع سے حاصل ہوتی اور بروجہ اکمل اجتماع کے افعال کا منبع قرار پاتی ہے اور اس کا فائدہ دنیا میں اچھے اچھے کاموں کی نشر واشاعت اور بُرے کاموں کو بقدر استطاعت انسانی معاشرہ سے دور کرنا ہے (گذشتہ حوالہ، ص۲۵۵۔۲۵۴)

معاصر ادبیات میں بھی فلسفہٴ سیاسی کی طرح طرح کی تعریفیں ہوئی ہیں اُن میں سے ”لئواشتراوس“ کی تعریف ہے، وہ اپنی نظر کو اس طرح بیان کرتا ہے: ذاتی طور سے تمام سیاسی اعمال کی جہت، مفہوم خیر کی معرفت کی طرف ہے؛ یعنی اچھی زندگی یا اچھے معاشرے کی معرفت کی طرف، کیوں اچھا معاشرہ ہی سیاسی سعادت کا کمال ہے، اگر معرفت کی طرف اس جہت کی ”خیر“ سے تعبیر ہو اور اگر انسان اپنے صریح مقصد کو اچھی زندگی اور اچھے معاشرے کی نسبت معرفت حاصل کرنے کا وسیلہ قرار د یں توفلسفہٴ سیاسی وجود میں آتا ہے․․․ ”فلسفہٴ سیاسی,, کی اصطلاح میں کلمہٴ ”فلسفہ“ سیاسی مقولہ کی بحث کی روش کو روشن کرتا ہے: یہ ایک فراگیر روش ہے اور اس مسئلہ کی اصل کی طرف بھی متوجہ ہے، کلمہٴ ”سیاسی“ موضوع بحث کو بھی بیان کرتا ہے اور اس مشغلہ کے خصوصی کام کو بھی معین کرتا ہے․․․ فلسفہ کی سیاسی اُس فلسفہٴ شاخ ہے جو سیاسی زندگی یعنی غیر فلسفی زندگی اور بشری زندگی سے زیادہ نزدیک ہے (اشتراوس، ۱۳۷۳: ص۲۰۴)

اشتراوس کی نظر کے مطابق، فلسفہ، معرفت کل کو گمان کل کا جانشین بنانے کی ایک کوشش ہے، اس بناپر فلسفہٴ سیاسی بھی امور سیاسی کی ماہیت کو ان امور کے بارے میں گمان کا جانشین بناتا ہے“ اشتراوس فلسفہٴ سیاسی کو تاریخی اور کلاسیک ادوار میں تقسیم کرتا ہے، کلاسیک فلسفہٴ سیاسی کہ جو بطور عمدہ یونانی فلاسفہ کی قلمی آثار میں متجلی ہوتا ہے اور امور ”نیک“ امور ”عادلانہ“ اور مقولات ”خیر“ و ”عدالت“ سے سروکار رکھتا ہے ایسے مقولات عقلی زندگی پر موقوف، یعنی کلاسیکل فلسفہ سیاسی کے بلند وبالا موضوعات ہیں ۔

اس کی نظر میں ماڈرن سیاسی فلسفہ میں اس طرح کا کوئی دغدہ نہیں ہے، ماڈرن سیاسی فلسفہمیں سیاست اور نیک اور عقلی زندگی کا رابطہ کہ جو انسانی فضیلت پر مبتنی ہے، قطع ہوجاتا ہے، اشتراوس کی وضاحت کے مطابق سیاست کے میدان ماڈرن تفکر ”ماکیاولی“(۱) طرز تفکر سے شروع ہوتا ہے اور اب تک اس نے تین ادوار کو طے کیا ہے، اور یہ تین ادوار ماکیاولی، روسو اورآخر میں نتیجہ کے نام سے رقم ہوئے ہیں (گذشتہ حوالہ)

کلائمر رودی نے بھی فلسفہٴ سیاسی کی یہی تعریف کی ہے ، ہر سیاسی عمل، بنیادی سیاسی اقدار کا لازمہ ہے؛ پس پُر واضح ہے کہ سیاسی متفکرین افلاطون سے لے کراب تک اُن اقدار کے بارے میں فکر کریں جو اچھے اور عادلانہ معاشرہ کا اصول ہے، فلسفہٴ سیاسی اچھے معاشرے، عدالت اور اسی طرح کے مسائل سے بحث کرتا ہے ۔

علوم سیاسی کے دوسرے مختلف جزئی موضوعات بھی ہیں اور فلسفہٴ سیاسی ان جزئی موضوعات میں سے بہت کم علمی صفات کا مالک ہے اور سیاسی نظام کے عملی اور ہنجاری روش استلزامات اور ایسے ہی بشر کی اقدار اولیہ کے ساتھ اس کا رابطہ ، یہ وہ راہ وروش ہے جس کو حکومت اور جامعہ ایجاد کرتی اور شہری نظام اس پر گامزن ہوتے ہیں ۔

سیاسیت کے جدید متفکرین ہرچند کہ علوم سیاسی کو تاحد ممکن علمی بنانے کی کوشش کریں لیکن یہ مسئلہ فلسفہٴ سیاسی کی اہمیت کو کم نہیں کرے گا(Others$ Rodee) ۔

۱۔ وہ سیاست جس کے نہ کوئی اصول ہیں اور نہ کوئی اخلاقی مبانی اور وہ اپنے مقصود تک پہنچنے کے لئے ہر طرح کے عمل کو جائز جانتی ہے یہ لفظ ماکیاول، اٹلی کے سیاستداں اور مصنف کی طرف منسوب ہے،۱۴۶۹، ۱۵۲۷ئئ

اس تعریف میں سائنسی (Scientisistic)نظر کا غلبہ کامل طور سے روشن ہے اور فلسفہ، علوم سیاسی کا اقسام میں سے سب سے کم علمی شاخ سے پہچنوایا گیا ہے ۔ حسین بشیریہ نے بھی فلسفہ سیاسی کی اس کی روش کی خصوصیات کے ساتھ تعریف کی ہے، فلسفہٴ سیاسی غالباً حکومت کی انتزاعی غایتوں اور ان کو مناسب وسائل کے ذریعہ حاصل کرکے حکومت کی بہترین شکل سے سرورکار رکھتا ہے، فلسفہٴ سیاسی کے اصلی موضوعات کو کچھ اس طرح کے مباحث جیسے حقیقت کو ثابت کرنے کی کیفیت، عدالت عمومی خیر وصلاح کے اصول، آزادی اور برادری کے لوازمات، سیاسی زندگی کو اخلاقی اصول کے مطابق ڈھالنا، حکومت کے وجود کی دلیل اور ضرورت، عوام کو حکومت کی اطاعت کے دلائل اور ان کو حکومت کا جزء ہونا، تشکیل دیتے ہیں()بشیریہ، ۱۳۷۹: ص۱۷)

عباس منوچہری نے بھی فلسفہٴ سیاست اس کی خصوصیات پاراڈائمParadigm(نمونوں) کی بنیاد پرتعریف کرنے کی کوشش کی ہے (منوچہری، بغیر تاریخ کے) اس بنیاد پر موصوف نے فلسفہٴ سیاسی کی پاراڈائمی کے بزرگ پس منظر (Macro) کے تحت جستجو کی ہے، یہ پاراڈائم روایتی ماڈرن اور زیادہ ماڈرن پاراڈائم سے عبارت ہیں، روایاتی پاراڈائم کی دو خصوصی خصلتیں ہیں: ایک اس کا فلسفی ہونا اور دوسرے اخلاقی ہونا، اسلامی فلسفہٴ سیاسی کا نظریہ بھی کہ جس کا ایک واضح نمونہ فارابی کی تحریر ہے اسی پاراڈائم سے تعلق رکھتا ہے، ماڈرن زمانہ کے خود دو پاراڈائم ہابزی اور روسوئی ”ہابزی پاراڈائم کی وجہ امتیاز غالباً ”طبیعی حالت سے نکل کر ”مدنی حالت“ میں داخل ہونا ہے“ اس پاراڈائم واضح صفت ، قدرت طلبی کو جائز جانتا ہے؛ لیکن اس نظریہ کے مقابل میں روسوی پاراڈائم ہے جس کی وجہ غالب موجودہ مدنی نظم ونسق جدا، دوسرے نظم ونسق کو برقرار کرنا ہے․․․ اس پاراڈائم میں اخلاق ایک مجموعہ کی طرح ہے اور اجتماعی ذمہ داری فردی آزادی سے قابل تفکیک نہیں ہے“ زیادہ ماڈرن پاراڈائم فوکو اورلیو تار جیسے متفکروں کی محوریت پرتشکیل پاتا ہے اور عمدہ طور سے حیات انسان اور طاقت دنیا کی تاثیر پرمتمرکز ہے، جالب نظر ہے کہ شک گرائی کا زیادہ ماڈرن تفکر بھی ”سوزہ“ کی نفی کے ساتھ عقل کو بھی ردّ کرتا ہے اور ایک طرح کا فلسفہٴ سیاسی کہا جاتا ہے کہ جو عقل کے محور پر مبتنی، یہ بات تواُسی کی طرح ہے کہ ہم سوفسطائی فلسفہ کے بارے میں گفتگو کریں کہ جو خود اپنے اندر تناقضات کا شکار ہے ۔

رافائل کی تحلیل نے بھی فلسفہٴ سیاسی کی تحلیل اور اس کیفیت کو اہمیت دی ہے، اس کی نظر میں فلسفہٴ سیاسی اور نظریہٴ سیاسی ایک دوسرے کے مترادف اور ایک دوسرے کی جگہ استعمال کے قابل ہیں، البتہ وہ صراحت کے ساتھ کہتا ہے: ”نظریہ سیاسی“ نظریہ فلسفی اور نظریہ علمی سے عام ہے (5p:1970;Raphael) اس کی نظر میں فلسفہٴ سیاسی کے پر اہمیت کام عقیدوں کی تنقیدی تحقیق اور سیاسی مفاہم کی تشریح ہے (8-12p;ibid)جین ہمپٹن نے آخری دہائی میں اپنے کچھ قلمی آثار میں، سیاسی فرمانروائی کو مدنظر رکھتے ہوئے فلسفہٴ سیاسی کی دوقدیم اور جدید ادوار میں تحقیق کی ہے اس کی نظر میں سیاسی فلسفی معاشرے کی روز مرّہ کی سیاست سے گذر کر چاہتا ہے کہ ”وہ حکومتوں کی بنیاد کی گہری تہوں میں چلاجائے اور ان کی اخلاقی توجیہہ کودرک کرے․․․ سیاسی فلسفیوں کو چاہیے کہ توصیفی سطح سے آگے بڑھیں اور اخلاق کے مفہوم کی تحلیل اور نظریہ پردازی میں مشغول ہوجائیں تاکہ ممکنہ جوابات کی تصویر کشی کرسکیں“ (ہمپٹن، ۱۳۸۰: ص۱۲)

۳۔۱۔ اسلامی فلسفہ کی سیاست سے مراد

فلسفہٴ سیاست اسلامی کے باب میں اسلامی کی قید کے مفہوم کی وضاحت کرنا ہے یہ مسئلہ اس جہت سے قابل اہمیت کے بہت سے افراد کا عقیدہ ہے : فلسفہ کی تعریف کے مطابق، اس طرح کا موضوع بشری تفکرات کا مستقل نتیجہ ہے؛ لہٰذا اس رو سے دین کی قید سے مقید نہیں ہوسکتا، نتیجةً فلسفہٴ سیاسی اسلامی ایک متناقض عبارت ہوگی، (قادری، ۱۳۸۲،/۸/۷) ایسے نظریہ کے مقابل میں بہت سے جوابات دیئے گئے ہیں کہ جن میں فلسفہٴ سیاسی کو اسلام کی قید کے ساتھ مختلف عبارتوں میں پیش کیا گیا ہے؛ البتہ اسلامی فلاسفہ بھی فلسفہٴ سیاسی کو علم سیاست دینی سے جدا ہونے پر تاکید کرتے ہیں،ان کی طبقہ بندی میں علم سیاست دینی کو علم نوامیس سے تعبیر کیا جاتا ہے (خواجہ، گذشتہ حوالہ، ص۲۵۲) لیکن علم نوامیس کا فلسفہٴ سیاسی سے جدا ہونا، فلسفہٴ سیاسی سے فقہ سیاسی اور کلام سیاسی کی جدائی کے حکم میں ہے اور اسلامی ہونے کی بحث فلسفہٴ سیاسی پر ناظر نہیں ہے، اس علوم میں اس طرح کی تفکیک سیاسی مباحث کی کیفیت کے نظریہ کے مطابق پیش کی جاتی ہے، خواجہ نصیر الدین کی تعبیر کے مطابق فلسفہٴ سیاست کے احکام، امور سیاسی کی طبیعت پر موقوف ہیں اور علم نوامیس، احکام وضعی پر موقوف ہیں (گذشہ حوالہ)

فلسفہٴ سیاست اسلامی کی اسلامی قید کی تشریح کے سلسلے میں بہت سے نظریات پیش کئے گئے ہیں، ان میں اہم نظریات اس طرح ہیں:

۱)۔ اسلامی فلسفہٴ سیاست، اسلامی سیاسی تفکر کے معنی میں ہے: ”فلسفہٴ سیاسی“ کبھی تو غیر تخصصی عبارتوں میں سیاسی تفکر کے معنی میں استعمال ہوتا ہے، سیاسی میدان میں سیاسی تفکر ہر طریقے اور نظریات کو بیان کرتا ہے، اس جہت سے وہ عام اور وسیع ہے، سیاسی تفکر کا سیاسی فلسفہ سے عام اور فراگیر ہونے کی وجہ یہ ہے کہ سیاسی تفکر کسی خاص قید یاروش سے مقید نہیں ہے اور ہر طرح کی سیاسی فکر کو شامل ہے؛ لیکن سیاسی فلسفہ، عقل تفکر اوراستدلال کی حکایت کرتا ہے، بیشک ہم اسلامی تفکر میں ایک خاص سیاسی نظریہ کی تلاش میں ہیں، جس طرح سیاسی تفکر اسلامی صفت سے متصف ہوتا ہے، اسی طرح ”فلسفہٴ سیاسی“ کو ”اسلامی“ صفت سے متصف ہونے میں بھی کوئی مضائقہ نہیں ہے معلوم ہوتا ہے حکیمی بھی اسلامی سیاسی تفکرات کی طبقہ بندی کرتے ہوئے اسلامی سیاسی فلسہ پر اس طرح کا نظریہ رکھتا تھا (حکیمی،۱۳۵۷)

۲) ۔اسلامی فلسفہٴ سیاست مسلمانوں کے فلسفہٴ سیاست کے معنی میں:دوسرا احتمال یہ ہے کہ فلسفہٴ سیاستِ اسلامی سے غرض ”اسلامی متفکرین یا مسلمانوں کا سیاسی فلسفہ ہے“ اس صورت میں اسلام کا فلسفہٴ سیاست، فارابی، ابن رشد، خواجہ نصیر وغیرہ جیسے افراد کا سیاسی فلسفے سے عبارت ہوگا ۔

۳)۔اسلامی فلسفہٴ سیاست کا اسلامی دنیا کے جغرافیہ سے تعلق: تیسرا احتمال یہ ہے کہ ”اسلام“ کی قیدکسی خاص جگہ جیسے اسلامی دنیا یا اسلامی ممالک یا کسی خاص زمانہ جیسے اسلامی دور کا درمیانی حصّہ مراد ہو، اس صورت میں بھی فلسفہٴ سیاسی کو اس قید سے مقید کرنے میں کوئی چیز مانع نہیں ہوگی۔

۴)۔ اسلامی فلسفہٴ سیاست میں مفروضات کا اخذ کرنا: ”اسلامی فلسفہٴ سیاست“ سے مراد سیاست کے سلسلے میں اسلام کے قابل قبول مفروضات کو مدّنظر رکھتے ہوئے فلسفی تفکر ہے؛ البتہ اس جیسے نظریہ کو مختلف فلسفیوں میں کسی نہ کسی رنگ میں مشاہدہ کیا جاسکتا ہے، ہر فلسفی مکتب اپنے کچھ مفروضات اور کچھ خاص نظریوں سے پہچانا جاتا ہے، اسی وجہ سے فلسفہٴ عیسائی دنیا میں، عیسائی مفروضات ک تحت تاثیر اور ماڈرن دنیا میں تغییر وتحوّل کے مفروضات کے زیر اثر رہا جس نے رسانس کے بعد مختلف صورتیں اختیار کیں، اسلامی تفکر میں ان مفروضات کو مبادی کے نام سے یاد کیا جاتا ہے (ابن سینا، ۱۴۰۰: ص۳۰)

۵)۔ اسلامی فلسفہٴ سیاست سے اسلام میں سیاسی زندگی سے مرتبط عقلی اور استدلالی تعلیمات: ایک احتمال یہ بھی پایا جاتا ہے کہ فلسفہٴ سیاسی سے مراد فقط سیاسی امور کے متعلق عقلی اندیشے اور منظم استدلال ہو، فلسفہ کی ایسی تعریف میں کوئی ضرورت نہیں ہے کہ ایسے بشری استدلال اور تاٴمُّلات پائے جائیں، اس بنیاد پر کہا جاسکتا ہے کہ اس طرح کے اسلامی فلسفہٴ سیاسی کے بارے میں لب گشائی کی جائے اور کہا جائے: اسلامی فلسفہٴ سیاسی سے مراد خود اسلامی متون مقدس میں ہی عقلی استدلال اور تاٴمُّلات کا وجود ہے ۔

اس احتمال کا تیسرے احتمال سے فرق یہ ہے کہ اس میں استدلال کے مبادی، متون مقدس ہے(قرآن وسنت) لئے گئے ہیں کہ جس کے نتیجے میں مسلمان اُن سے تمسک کرتے ہوئے تفکر سیاسی کا ایک نظریہ پیش کرتے تھے کہ جس کو ہم فلسفہٴ سیاسی کے نام سے جانتے ہیں اور مذکورہ بالا محقق کی نظر میں کلام سیاسی سے متقارن ہے؛ حالانکہ آخری احتمال سے مراد خود اسلامی متون مقدس میں منتظم عقلی استدلال کا وجود ہے ۔

۲۔ اسلامی فلسفہٴ سیاست کا امکان

اسلامی فلسفہٴ سیاست کے بارے میں پیش کئے گئے سب نظریات عملی طور پر اسلامی محققوں اور اندیشمندوں کی نظر میں قابل قبول اور متفق علیہ ہیں پہلے تین نظریات میں محققین کے درمیان نزاع ہے ۔ اسلامی فلسفہ سیاست اسلامی سیاسی تفکر کے معنی میں (پہلا نظریہ ) سیاسی میدان میں مسلمان فلاسفہ اور اندیشمندوں کے تفکرات کے نظریہ کے مطابق اس کی تشریح (تیسرے معنی) یہ تمام متفق علیہ ہیں اور ان میں کوئی مناقشہ نہیں ہے، فلسفہٴ سیاسی کی اندیشہ سے تعریف کرنا غیر رائج اور فلسفہٴ سیاسی سے عقلی روش خارج ہونا ہے ، لیکن آخری ددو معنی یعنی اسلامی تعلیمات کو سیاسی فلسفہ کے مبادی کے عنوان سے اختیار کرنا (چوتھے معنی)اور عقلی وفلسفی روش کو اسلام کے متون مقدس (قرآن وسنت) میں جاری کرنا (پانچویں معنی) بہت سے متفکرین نے مناقشہ کیا ہے ۔

معلوم ہوتا ہے کہ آخری دو معنوں میں سے چوتھا معنی اسلامی فکری سنت میں قابل قبول واقع ہوا ہے ،فلسفہٴ سیاسی میں رئیس اول (فارابی) کے کردار اور عالم عقول سے اس کے روابط کو مد نظر رکھتے ہوئے کہ جو ایک طرح سے پیغمبروں کی کارکردگیوں سے ارتباط رکھتا ہے ، عملی طور سے فارابی کے فلسفی تفکر مں موجود دینی مبادی،باب سیاست میں قبول کئے گئے ہیں، ابن سینا کے فلسفے میں بھی دینی تعلیمات کو فلاسفہ سیاست کے مباحث کو جہت عطا کرنے کے عنوان سے تاکید کی گئی ہے ۔ اس نے ”رسالہ عیون الحکمہ میں فلسفی مباحث “ کی تحقیق کرتے ہوئے عقل کو فقط امور نظری کا ملاک جانا ہے اور حکمت نظری کے تینوں مباحث کو فقط قوہٴ عقلیہ سے قابل درک اور اس بات میں موجود شریعتوں کی ہدایات و ارشادات کو صرف مُنَبِّہ جانتا ہے؛ لیکن علمی مسائل کے باب اور حکمت عملی کے مبادی کے باب میں معتقد ہے: ان تین علوم (حکمت مدنی، منزلی اور خلقی) کا مبداٴ شریعت الٰہی کی جانب سے مستفاد ہے اور اس کے کمال اور حدود شریعت کے ذریعہ روشن ہوتے ہیں اور شریعت کے بیان کرنے کے بعد انسانی قوہٴ نظری قوانین عملی کے استنباط میں مشغول ہوتی ہے اور جزئیات میں ان قوانین کے استعمال کو معین کرتی ہے ۔ (ابن سینا، گذشتہ) بہت سے معاصرین نے بھی فلسفہ کے اسلامی صفت سے متصف ہونے کو، اس میں مبادی دینی کو اخذ کرنے کے معنی میں قبول کیا ہے ۔ نمونہ کے طور پر سید حسین نصر معتقد ہے: فلسفہ اسلامی کے اسلامی ہونے سے مراد ، بہت سی اسلامی تعلیمات کو اس کے اندر، مبادی کی صورت میں قبول کرنا ہے (نصر ۱۳۸۲) کبھی کبھی یہ فکر، علم و فلسفہ کو ایک معرفت کے دائرہ میں یا یعنی لازمی طور سے دین سے غذا حاصل کرنے کے عنوان سے پیش کی گئی ہے (میر باقری ۱۳۸۲/۱۱/۱۸ )

کچھ موارد میں یہ امر فقط منبع وحی میں منحصر ہوا ہے ، اس نظریہ میں عقل وشہود بھی معرفت کے ذرائع ہیں؛ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ہر طرح کی فکرپردازیاں ولایت خدا کے قبول کرنے کے تحت ہونا چاہیے؛ ورنہ باطل ہیں اور حقیقت دین یعنی پوری حیات انسانی میں ولایت الٰہی کو جاری ہونا مانا گیا ہے اور دین حیات انسانی میں ولایتِ خدا سے تولّیٰ ہے اور فلسفہ اسلامی عالم ہستی کے نظری موضوعات کے لئے ولایت خدا کے تعبُّد کی بنیاد پر ایک طرح کی عقلائی کوشش ہے اور اسلام کا سیاسی فلسفہ، حیات بشری میں سیاسی مدیریت پر حاکم مبانی اور تاملات کی ایک ایسی ہی تحلیل ہے؛ (فیاضی، ۱۳۸۲/ ۵/۱۲) البتہ کبھی کبھی عقل کو ہر طرح کے مفروضات سے مستقل جانتے ہوئے، فلسفہٴ اسلامی میں مبادی اسلامی کے اخذ کرنے کے معنی کی نفی کی گئی ہے ۔

عملی طور سے ماڈرن مغربی یورپ میں یہ مفروضات طرح طرح کے فلسفی مکاتب کے وجود میں آنے کا باعث ہوئے ہیں، اس کام کا واضح نمونہ کو فرانس کے فلسفی نظریات میں واضح طور سے دیکھا جاسکتا ہے کہ جو فرانسسی فلسفہ کا قارّہ ای فلسفہ سے جدائی کا سبب جانا گیا ہے، اس فلسفی مکتب کے عمدہ مفروضات فرانس میں برگسن کے شہودی تاملات جانے گئے ہیں (ھیوز، ۱۳۶۹)

اسلامی فلسفہٴ سیاست کے پانچویں معنی کے امکان کے سلسلے میں یعنی دینی متون میں فلسفہٴ سیاست سے مرتبط استدلالات کے موجود ہونے کے معنی میں ،معلوم ہوتا ہے کہ ایسے نظریہ کو کچھ قیود کے ساتھ قبول کیا جاسکتا ہے وہ یہ کہ وحی، عقلی بنیادوں پر استوار ہے اور عقل بشری نے اس کو معتبر بنانے کے لئے طرح طرح کے استدلال اقامہ کئے ہیں؛ اس بنیاد پر وحی اور نبوت اپنے عام معنی میں، عقلانی ہونے کے علاوہ فہم بشری کی حدود اور عقلانی مشرب کے اساس پر کچھ خاص قضیے پیش کئے گئے ہیں، اس کے مختلف نمونوں کو قرآن وروایات میں دیکھا جاسکتا ہے(سبحانی،۱۴۱۷)

اسلامی فلسفہٴ سیاست کے اس معنی کو قبول کرنا کچھ نکات پر موقوف ہے: پہلا یہ کہ متون دینی، بشر کے لئے ہدایت کی راہوں کے بیان کرنے کے مقام میں ہے اور اس جہت سے مخاطبان کی صلاحیتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے بشری ہدایت کے لئے بہت سے استدلال اور راہیں پیش کی گئی ہیں ۔

اس کے واضح نمونہ کو قرآن مجید میں بتائے گئے مختلف استدلال کے طریقوں میں بخوبی دیکھا جاسکتا ہے، سورہٴ نحل کی آیت ۱۲۹ میں پیغمبر اسلام صلی الله علیہ وآلہ وسلم کو اسلام کی طرف دعوت دینے کے طریقے کو حکمت آمیز دعوت دینے کی سفارش کی گئی یہ ہے اور بوقت ضرورت آپ کو جدال احسن کا بھی حکم دیا گیا ہے (نحل/۱۲۹)

تبلیغ دین اور انبیاء علیہم السلام دعوت میں اس طرح کی روش کو اپنانا اس بات کا سبب ہوا ہے تاکہ متون دینی (قرآن وروایات) بحسب لیاقت مخاطبان، متنوِّع اور مختلف طُرُق استدلال کو شامل کرلے، اس چیز کا نتیجہ یہ ہوتا ہے متون دینی سے یہ امید نہیں کی جاسکتی کہ تمام مباحث اور فلسفہٴ سیاست کے تمام مسائل یکجا وبصورت مبسوط اس میں جمع کئے گئے ہوں اور فقط عقلی استدلال کی روش کی تائید کی گئی ہو؛ لیکن یہ امر دین کی جامعیت اور اس کے زندگی تمام پہلووٴں پر ناظر ہونے کی نفی نہیں کرتا البتہ متون دینی میں کچھ عقلی استدلال کے ذکر ہونے سے ضروری نہیں ہے کہ اس میں تمام مسائل ، عقلی استدلال کی روش پر بطور کامل موجود ہوں ۔

دوسرا نکتہ یہ ہے کہ فلسفہ کو فقط دانش بشری ماننا اور اس کو فقط عقلائی استدلال سے مخصوص کرنا صحیح نہیں ہے بلکہ اس کو اس سے زیادہ عام کیا جاسکتا ہے، اسلامی فلاسفہ نے غالباً فلسفہ کو باوجود اس کے کہ وہ پیغمبروں علیہم السلام اور دینی تعلیمات پر پورا یقین رکھتے تھے ، اس کے بشری معنی میں اخذ کیا ہے، ان کی نظر میں ”فلسفہٴ انسان کو عالم خارجی سے مشابہ عالم عقلی میں تبدیل کرنے کا نام ہے“(ملا صدرا، ۱۳۶۸: ج، ص۳۰۰)

اس تعریف میں فلسفہ کی انسانی خصلت پر تاکید کی گئی ہے؛ لیکن ہرچند کہ فلسفہ کی بہت سی تعریفوں میں اس قید کا ذکر ہوا ہے پھر بھی اس کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ خصلت انسانی سے بڑھ کر وہ عقلانی استدلال بھی موجود ہیں جو فہم بشر کے عقلانی استدلال کے مطابق ہیں اسلامی فلسفہٴ سیاست کے اس معنی کے مطابق اُن استدلالات کو جو فہم بشری کے قابل ہیں متون دینی میں جاری کیا جاسکتا ہے ۔

۴) اسلامی فلسفہ سیاست کی روش کی پہچان

اسلامی فلسفہ سیاست کے مباحث میں سے ایک بحث، ایک خاص روش کی وضاحت ہے، بزرگ نظریہ کے مطابق، مباحث عقلی نظری کو اس کے متمرکز ہونے پر تاکید کرنا چاہیے، اسلامی فلسفہ سیاست کا دوسرے مطالعاتی موضوعات جیسے کلام سیاسی، فقہ سیاسی، سیاست نامہ نویسی سے وجہ امتیاز یہ ہے کہ اس میں عقلی استدلال کی کوشش کی جاتی ہے، یہ بات اگرچہ ابتداء میں بہت اچھی لگتی ہے، لیکن اسلامی فلسفہٴ سیاست کی روش شناسی میں چند مسائل کو بھی مدنظر رکھنا چاہیے ۔

پہلا مسئلہ: اسلامی فلسفہٴ سیاست کا وحیانی تعلیمات سے رابطہ اور اسلامی فلاسفہ کا نصوص دینی (قرآن وروایات) سے کسب فیض کرنا اور ان کو اس کے مباحث کی طرف صحیح راہنمائی کرنا ہے․․․ مسلمان فلاسفہ کا عمدہ مفروض، وحیانی معرفت کو اپنا سرچشمہ قرار دینا ہے کہ جس کی تعلیم انبیاء الٰہی کے ذریعہ بشر کو دی گئی ہے؛ اس جہت سے دورہ اسلامی میں عقل فلسفی کی چشم امید ہمیشہ شریعت اور وحی الٰہی پر لگی رہی اور حقیقت میں وہ ہی اس کا مرجع اور منبع رہا، مسلمان فلاسفہ غالباً حکمت عملی کے میدان میں سیاسی زندگی کے اصول اور کلیّات کو حاصل کرنے کے لئے عقل پر تکیہ کرتے رہے اور سیاسی زندگی کے جزئیات کو شریعت کے کاندھوں پر ڈالتے رہے ۔

یہ امر فارابی، ابن سینا، خواجہ نصیر الدین طوسی اور ایک طرح سے ملّا صدراکی حکمت متعالیہ میں کامل طور سے واضح اور برجستہ ہے ۔

اس نظریہ کی رو سے جہان اسلام کے مغربی فلاسفہ کا دوسرے فلاسفہ سے ایک خاص امتیاز ہے اور انھوں نے ہرچند کہ عقل بشری کو وحی الٰہی کے ساتھ متحد ہونے پر تمسک کیا اور اس کو مانا ہے؛ لیکن فارابی اور ابن سینا کے برخلاف ایک فلسفی کو سیاسی مسائل کے جزئیات میں بھی داخل کردیا ہے، وہ لوگ عقل وشرع کے رابطہ میں ایک خاص معمّا سے دوچار تھے ، ان کی نظر میں ہرچند کہ وحی الٰہی، بشری ہدایت کی راہنمائی تھی لیکن شریعت کے ظواہر کی برتری کو جیسا کہ ان کے علماء اور متکلمین اس کی نمائندگی کرتے تھے، قبول کرنے پر حاضر نہیں تھے، جہان اسلام کے مشرقی فلسفہ میں ایسا معمّا قابل حل تھا، فارابی اور ابن سینا مدینہ فاضلہ میں رئیس اول اور فیلسوف پیغمبر کے نقش قدم پر چلنے کی تاکید کے ساتھ عملی طور سے فلسفہٴ سیاست کو جزئی مسائل میں داخل نہیں کرتے تھے، نتیجةً شریعت اور فقہاء کے حاضر رہنے اور تاثیر گذاری کا زمینہ فراہم تھا، تمدن اسلامی کے مغربی فلاسفہ نہ یہ کہ فقیہوں اور متکلموں کی تحلیل کے سامنے سرتسلیم خم کرلیں بلکہ مدنی زندگی میں عقل کے حضور اور اس کے اعتبار پر اصرار کرتے تھے، اس مسئلہ میں ان فلاسفہ کا راہ حل فلسفہ کا باطن شریعت سے ارتباط دینا تھا، جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ان کی نظر میں فلسفہ اور شریعت کے تعارض کے وقت فلسفہ کو مقدم سمجھا جاتا تھا ، ان فلسفیوں کی طرف سے یہ امر ظواہر شرعی کی تاویل کا باعث ہوتا تھا ، ابن رشد ”تاٴویل“ کی تعریف میں اس طرح اظہار خیال کرتا ہے:

تاویل کے معنی لفظ کو اس کی حقیقی دلالت سے نکال کر مجازی دلالت میں داخل کرنا ہے، بغیر اس کے کہ یہ امر عربی زبان کی عادت جیسے ایک چیز کو اس کی شبیہ چیز یا اس کے سبب یا اس کے لاحق یا مقارن کا نام دینے میں یا اصناف کلام کے دیگر مجازات میں خلل ایجاد کرے (ابن رشد، ۱۹۹۹: ص۹۷)

اس نظریہ کے واضح نمونہ کو ابن رشد کا رسالہ ”فصل المقال“ اور ابن طفیل (۱۹۹۶) کے حی ابن یقظان نامی رسالہ میں بخوبی دیکھا جاسکتا ہے (دیکھیں: فیرحی: ۱۳۸۲)

جہاں اسلام کے مغربی سیاسی فاسقہ میں عقلی روش کی ظواہر شرعی پر برتری کی بنیاد پر مدینہ فاضلہ کی جدید تقسیر اور اس کی متضاد چیزیں بیاں ہوئی ہیں ۔ اس تفسیر کے مطابق وہ معاشرہ جس میں فقط ظواہر شریعت حاکم ہوں اور ان کو فلسفہ اور شریعت کو جمع کرنے کی توفیق نہ ہو تو ایسا مدینہ، مدینہ غیر فاضلہ کے مصادیق میں شمار ہوتا ہے، اسی وجہ سے حی بن یقظان آبسال کے ساتھ سلامان کے ظاہر گرا شہر کو ترک کردیتا اور عقل گرا متفکرین کی جائے سکونت کی طرف کوچ کرجاتا ہے ۔ (ابن طفیل، گذشتہ ص ۲۱۹۔ ۲۱۸)

شہودی یا ذوقی روش بھی استدلالی روشوں کے ہمراہ حکمت اسلامی کی دو شاخوں میں استعمال ہوئی ہے ۔ حکمت اشراقی اور ملاصدرا کی حکمت مقالیہ، حکمی مباحث میں شہودی روشوں سے استفادہ کرنے کی کوشش میں تھیں ۔ ابن سینا کی علمی فعالیتوں کے آخری مراحل میں اس کے ذوقی اور شہودی مباحث کی طرف میلاں کو بھی اس کی کتاب ”الاشارات و التنبیھات“ کے نویں نمط میں دیکھا جاسکتا ہے (خواجہ نصیر، ۱۴۰۳: ج ۳، ص ۳۶۳)۔

سُہروردی، حکمت اشراق کے مقدمہ میں حکیمی کو جو حکمت ذوقی اور حکمت بحثی میں متبحّر ہے روی زمین پر خداوند عالم کی جانشینی، خلافت اور ریاست تامَّہ کے لائق جانتا ہے (سہروری، ۱۳۷۷:ص ۲۰۔۱۸)۔ ملاصدرا نے بھی اپنی عرفانی گرائش کی وجہ سے عرفانی اسفار اربعہ سے متاٴثر ہو کر اپنی مہمترین فلسفی کتاب کو اسی کی بنیاد پر تنظیم کیا ہے ۔ وہ اسفا اربعہ نامی کتاب کے مقدمہ لکھتا ہے:

و اعلم انَّ للسلاک فی العرفاء و الاولیاء اسفاراً اربعہ: احدھا السفر من الخلق الی الحق و ثانیھا السفر بالحق فی الحق و السفر الثالث یقابل الاول لانہ من الحق الی الخلق بالحق و الرابع یقابل الثانی من وجہ لانّہ بالحق فی الخلق (ملاصدرا، ۱۳۶۸، ج ۱، مقدمہ مولف) ۔

اسلامی فلسفہٴ سیاست کی روش شناسی میں دوسرا نکتہ، پنہان نگاری شیوہ، (Esotericism) یا فیلسوفان اسلامی کے ذریعہ سطروں کے درمیان لکھنا تھا، لئواشتراوس کہ جو معاصر فلاسفہ میں با اہمیت فلسفی ہے جس نے اسلامی فلسفہ کی تحقیق میں مسلمان فلاسفہ کی اس صفت کی طرف اشارہ کیا ہے، یہ صفت کہ جو فارابی کی سیاسی فکر کا نتیجہ ہے، یہ اشتراوس کی مددگار ثابت ہوئی ہے تاکہ ایک طرف سے تو رائج اور مسلط ”ترقی گرائی“ اور ”تاریخی گرائی“ ، مکاتب کو مناظرہ کی دعوت دے اور دوسری طر ف سے فلسفہ سیاسی نہ فقط فلسفہ اسلامی بلکہ کلاسیکل اور متوسط فلسفہ کو سمجھنے کے لئے جدید روش کو پیش کرے؛ اس کی یہ روش وہ روش ہے جو ہمیشہ اس کی کلاسیکل اور متوسطہ سیاسی متون کی تمام فلسفی تفاسیر میں استعمال ہوئی ہے ۔

حوالے:

۱۔ ابن رشد، فصل المقال فی تقریر ما بین الشریعہ و الحکمہ من الاتصال، مقدمہ و تحقیق محمد عابد الجابری، بیروت: مرکز دراسات الوحدة العربی،۱۹۹۹ م.

۲۔ ابن رشد، فصل المقال فی مابین الحکم و الشریعة من الاتصال، ترجمہ سید جعفر سجادی، تہران، امیرکبیر، ۱۳۷۶.

۳۔ابن سینا، النجاہ، تہران، المکتبہ المرتضویہ، ۱۴۰۶ ق.

۴۔ مجموعہ رسائل: رسالہ عیون الحکمة، قم، انتشار بیدار، ۱۴۰۰ ق.

۵۔ ابن طفیل، حی بن یقظان، تحقیق فاروق سعد، بیروت، دار الآفاق الجدیدة، ۱۹۹۴.

۶۔ اشتراوس، لوی، فلسفہ سیاسی چیست؟، ترجمہ فرہنگ رجایی، تہران، انتشارات علمی و فرہنگی،۱۳۷۳ .

۷۔ امام خمینی، ولایت فقیہ، تہران، موسسہ تنظیم نشر آثار امام خیمنی، چ ۶، ۱۳۷۶.

۸۔ امیدی منتظری، مہدی، امکان فلسفہ سیاسی اسلامی و نقدہای آن، فصلنامہ پژوہش و حوزہ، سال ششم، شمارہ ۲۲- ۲۱،۱۳۸۴، .

۹۔ بشیریہ، حسین، تاریخ اندیشہہای سیاسی در قرن بیستم، تہران، نشر نی،۱۳۷۹ .

۱۰ بہروزلک، غلامرضا، بررسی نسبت کلام سیاسی و فلسفہ سیاسی، فصلنامہ علوم سیاسی، ش۲۲، ۱۳۸۲آ.

۱۱۔ چیستی کلام سیاسی، فصلنامہ قبسات، ش۲۸ ، ۱۳۸۲ب.

۱۲۔ پزشکی، محمد، چیستی فلسفہ سیاسی اسلامی، فصلنامہ علوم سیاسی،۱۳۸۱، ش۱۷

۱۳۔ روش تفکر سیاسی بر اساس آموزہہای فیلسوفان مشا، فصلنامہ علوم سیاسی، ش ۲۲، ۱۳۸۲.

۱۴۔ توحیدی، ابوحیان، الامتاع و الموٴانسة، بیروت، منشورات دارمکتب الحیا، الجزالثانی، بی۶ تا.

۱۵۔ حقیقت، سید صادق، چیستی فلسفہ سیاسی، فصلنامہ نامہ مفید، ۱۳۸۰، ش ۲۵.

۱۶۔ حکیمی، محمدرضا، دانش مسلمین، تہران، دفتر نشر فرہنگ اسلامی، ۱۳۵۷.

۱۷۔ رجایی، مصطفی، نظریہ سیاسی، فلسفہ سیاسی و ایدؤلوژی سیاسی، احمدرضا طاہریپور، فصلنامہ علوم سیاسی، ۱۳۸۱، ش۱۸.

۱۸۔ رضوانی، محسن، اشتراوس و روش شناسی فہم فلسفہ سیاسی اسلامی، فصلنامہ علوم سیاسی، ش ۲۸، زمستان، ۱۳۸۳.

۱۹۔ مفہوم فلسفہ سیاسی اسلامی، فصلنامہ پژوہش و حوزہ، سال ششم، شمارہ ۲۲- ۲۱، ۱۳۸۴.

۲۰۔ السبحانی، جعفر، الالہیات علی ہدی الکتاب و السنہ و العقل، بقلم حسن محمد مکی العاملی، قم، موسسہ الامام الصادق ع، ۱۴۱۷، ۴ج.

۲۱۔ سہروردی، شہاب الدین یحیی، مجموعہ مصنفات شیخ اشراق، تحقیق و مقدمہ ہانری کربن، تہران، پژوہشگاہ علوم انسانی و مطالعات فرہنگی، ۱۳۸۰.

۲۲۔ حکمة الاشراق، ترجمہ سید جعفر سجادی، تہران، انتشارات دانشگاہ تہران، ۱۳۷۷.

۲۳ شیرازی قطبالدین ، شرح حکمالاشراق، قم: انتشارات بیدار، بی تا.

۲۴۔ طوسی خواجہ نصیر الدین ، اخلاق ناصری، تہران، انتشارات خوارزمی، ۱۳۷۳، چ ۵.

۲۵۔ فارابی، آراء اہل المدینہ الفاضلہ، تحقیق الدکتور البیر نصری نادر، بیروت، دارالمشرق، ۱۹۹۱.

۲۶۔ التنبیہ علی سبیل السعادہ، حیدر آباد دکن: دائرة المعارف العثمانیہ، ۱۳۴۶ ہجری.

۲۷۔ تحصیل السعادہ، تحقیق و تقدیم الدکتور فوزی متری نجار، تہران، منشورات المکتبہ الزہراء، ط ۲، ۱۴۰۵.

۲۸۔ فیاضی، غلامرضا، چیستی فلسفہ سیاسی اسلامی ”فلسفہٴ سیاسی اور پژوہشکدہٴ علوم اندیشہ سیاسی کے گروہ کے ساتھ گفتگو میں“ قم، ۱۳۸۲/ ۱۲/ ۵،

۲۹۔ فیرحی، داود، روششناسی اندیشہ سیاسی در فلسفہ غربِ تمدن اسلامی، فصلنامہ علوم سیاسی، سال ۱۳۸۲، ش ۲۲.

۳۰۔ فلسفہ سیاسی در اسلام، فصلنامہ علوم سیاسی، ۱۳۷۸، ش۶.

۳۱۔ قدرت، دانش و مشروعیت در اسلام، تہران، نشر نی، ۱۳۷۸.

۳۲۔ قادری، حاتم، بحث در باب فلسفہ سیاسی در اسلام، ”فلسفہٴ سیاسی اور پژوہشکدہٴ علوم اندیشہ سیاسی کے گروہ کے ساتھ گفتگو میں“ قم، ۱۳۸۲/ ۷/ ۸،

۳۳۔ کوئینتن، آنتونی، (ویراستار)، فلسفہ سیاسی، مرتضی اسعدی، تہران، انتشارات بہ آور، ۱۳۸۴.

۳۴۔ لمبتون، ک، اس، اندیشہ سیاسی در دورہ میانہ اسلام، ترجمہ عباس صالحی و محمد مہدی فقیہی، تہران، نشر عروج، ۱۳۷۸.

۳۵۔ محمودی، سید علی، عدالت و آزادی، تہران، مسسہ فرہنگ و اندیشہ معاصر، ۱۳۷۶.

۳۶۔ مطہری، مرتضی، آشنایی با علوم اسلامی: بخش کلام، تہران، انتشارات صدرا، بیست و دوم، ۱۳۷۸.

۳۷۔ آشنایی با علوم اسلامی، بخش منطق و فلسفہ، تہران، انتشارات صدرا، بیست و دوم، ۱۳۸۷.

۳۸۔ ملا صدرا، الحکمہ المتعالیہ فی الاسفار الاربعہ، دارحی التراث العربی، بیروت، ۱۹۸۱م.

۳۹۔ الحکمہ المتعالیہ فی الاسفار الاربعہ، قم، مکتبہ المصطفوی، ۱۳۶۸.

۴۰۔ مبداٴ و معاد، ترجمہ احمد ابن محمد الحسینی اردکانی، بہ کوشش عبداللہ نورانی، مرکز نشر دانشگاہی، تہران (بی تا).

۴۱۔ مبد و معاد، تحصیح سید جلال الدین آشتیانی، تہران، انجمن حکمت و فلسفہ ایران، ۱۳۵۴.

۴۲۔ منوچہری، عباس، فلسفہ سیاسی در روایتی پارادایمی، نامہ فرہنگ، ش۳۲.

۴۳۔ موریس، جیمز دابلیو، فیلسوف – پیامبر در فلسفہ سیاسی ابن سینا، مہرداد وحدتی دانشمند، فصلنامہ علوم سیاسی، ۱۳۷۸، ش۶۵.

۴۴۔ مہاجر نیا، محسن، اندیشہ سیاسی فارابی، قم، بوستان کتاب، ۱۳۸۰.

۴۵۔ میرباقری، محمد مہدی، چیستی فلسفہ سیاسی اسلامی ”فلسفہٴ سیاسی اور پژوہشکدہٴ علوم اندیشہ سیاسی کے گروہ کے ساتھ گفتگو میں“ قم، ۱۳۸۲/ ۱۱/ ۱۸․

۴۶۔ نجفی، موسی، مراتب ظہور فلسفہ سیاست در جہان اسلام، تہران، موسسہ فرہنگی دانش و اندیشہ معاصر، ۱۳۸۲.

۳۷۔ نصر، سید حسین، فلسفہ اسلامی، روزنامہ ہمشہری، ۸۲/۵/۳.

۴۸۔ ہمپتن، جین، فلسفہ سیاسی، خشایار دیہیمی، تہران، طرح نو، ۱۳۸۰.

۴۹۔ ہیوز، استوارت، آگاہی و جامعہ، عزت اللہ فولادوند، تہران، سازمان انتشارات و آموزش انقلاب اسلامی، ۱۳۶۹.

۵۰۔ یوسفی راد، مرتضی، امکان معرفتی فلسفہ سیاسی اسلام، فصلنامہ پژوہش و حوزہ، سال ششم، ۱۳۸۴، ش-۲۱.

1992. Netton, Ian Richard, Al-Farabi And His School, London & New York, Routledge,52

1970. Raphael, D. D., Problems of political philosophy, London. Macmilan, .53

.1998 REP (Software): Routledge Encyclopedia of Philosophy, st v., .54

. Rodee, Clymer, and others, Introduction to Political Science, USA: McGraw Hill Book co

تبصرے
Loading...