اخلاق کے اصول- اخلاق کی جاودانی

اخلاق کی جاودانی

مقدمہ

(الف) اخلاقی نسبیت پسندی کے نتیجے

(ب ) ا خلاق میں مطلق پسندی اور اس کی دلیلیں

( ج ) سو ا لا ت اور جوابات

مقدمہ

١۔مسئلہ کی وضاحت: ناقص بچوں اور بوڑھوں کو قتل کرنا، چوری کرنا، قومی برتری پر اعتقاد رکھنا وغیرہ بعض گذشتہ معاشرے میں جائز مانا جاتا تھا اور اُنھیں اخلاق کے خلاف شمار نہیں کیا جاتا تھا۔ آج معاشرے کی اکثریت ان  چیزوں کو غیر اخلاقی مانتی ہے۔اس زمانے میں بھی مختلف تہذیبیں اخلاقی فضائل ورذائل کے بارے میں متعدد قسم کے نظریات رکھتی ہیں۔ ایسی صورت میں جبکہ بعض معاشرے ”چند بیویوں، ، کے ہونے کو جائز اور حجاب کو ضروری جانتے ہیں، اکثر عیسائی تہذیبوں میں ”چند بیویوں، ، کا ہونا غیر اخلاقی بات اور حجاب کو غیر ضروری جانا جاتا ہے۔

اس طرح کی حقیقتوںپر توجہ کر نے سے ہم اخلاق سے متعلق ایک اہم سوال کی طرف متوجہ ہوتے ہیں کہ کیا اچھی اور بری اخلاقی عادتیں اور خصلتیں آفاقی و جاودانی ہیں ؟ اخلاقی عدالتوں نے انسانوں کی ظاہری اور باطنی صفتوں کے لئے جن احکام کو صادر کیا ہے کیا وہ عالمی اور ابدی اعتبار رکھتی ہیں ؟ دوسرے لفظوں میں کیا اخلاقی خوبیا ں اور برائیاں مطلق اور عام ہیں یا نسبی خصوصیتیں رکھتی ہیں اور تنہا کسی خاص دور اور زمانہ یا خاص مکان و معاشرہ اور مخصوص حالات کے لئے اعتبار اور معنی رکھتی ہیں ؟

٢۔ بحث کی تاریخ: اس بحث کی شروعات قدیم یونان کے زمانہ تک پہنچتی ہے اور مغربی ملکوں کے جدید علمی زمانہ میں بھی یہ سوال اخلاقی فلسفیوں کے لئے ایک بنیادی سوال بن گیا ہے۔ اسلامی مکاتب میں اخلاق کے نسبی رجحان کو اشعری متکلمین کے یہاں پایاجا سکتا ہے، اگرچہ ان لوگوں نے اشیاء کے عقلی وذاتی حسن وقبح

سے انکار کرنے میں ” اخلاقی نسبیت”(Ethical relataivity)کی اصطلاح سے فائدہ نہیں اٹھایا ہے۔ لیکن یہ بحث موجودہ زمانہ میں مسلمان دانشوروں کے علمی حلقوں میں بھی ایک بلند درجہ رکھتی ہے اور مختلف زاویوں سے اس پر بحث کی گئی ہے۔

٣۔ موضوع کی دینی اہمیت: اُن آثار کے علاوہ جو اس بحث کے نتیجوں پر اثر انداز ہوتے ہیں اور آگے بیان کئے جائیں گے یہ موضوع مسلمانوں کے سب سے زیادہ بنیادی و کلیدی عقیدوں اور اعتقادی و ایمانی ارکان میں سے کسی ایک سے بہت زیادہ نزدیکی رابطہ رکھتا ہے۔ اسلام کا مکمل اور خاتم ہونا اور نتیجةً اس کا عالمی اور جاودانی ہونا ایسی خصوصیت ہے کہ اسے گذشتہ و حال کے کٹگھروں سے آزاد کرتا ہے۔ مسلمانوں کا یہ عقیدہ، گذشتہ وآئندہ کے ادیان سے بشر کے بے نیاز ہونے کو بیان کرتا ہے، اخلاق کا جاودانی ہونا اس بات کی تاکید ہے کہ جغرافیائی موقعیت، تاریخی ادوار، زمان و مکان کے حالات، دینی تعلیمات اور منجملہ ان کے اخلاقی احکام اس کو اپنے زیر اثر قرار نہیں دیتے ہیں مگر ان مجازو بہترراستوں سے جسے دین نے خود معین کیا ہے۔

وہ مبانی و نظریات جو نسبیت کو اچھائیوں اور برائیوں کے دائرہ میں قبول کرتے ہیں، اسلام کے کمال اور خاتمیت کی معقول تفسیر کے سلسلہ میں ٹکراتے نظر آتے ہیں۔ اس بناء پر مذکورہ اصل کی پابندی، اخلاقی مفاہیم میں ثبات واطلاق کے اثبات کی مرہونی ہے۔ یہ بات ثابت ہو نا چاہئے کہ اخلاقی موضوعات کی ابتدائی طبعیت ہمیشہ ایک حکم رکھتی ہے اور جغرافیائی اختلاف زمانہ کا گذر، تہذیبوںکا اختلاف، ایک اخلاقی موضوع کے اچھائی یا برائی سے متّصف نے میں کوئی اثر نہیںرکھتا ہے۔

اس کے علاوہ مذکورہ سوال کا جواب دینے کا ہمارا طریقہ اخلاق کے سلسلہ میں ہمارے نظریہ کو بھی بیان کرے گا اور اخلاقی تحقیقات کے تانے بانے پر بہت اثر ڈالے گا اور نہ صرف اخلاقی اچھائی اور برائی کے سلسلہ میں ہمارا فیصلہ بدل جائے گا بلکہ اخلاق میں بحث کے طریقے، اس کے منابع اور یہاں تک کہ اخلاقی احکام کے مخاطبین کے حدود کو بھی بیان کرے گا۔

٤۔اطلاق اور نسبیت کا مفہوم: اخلاقی مطلق پسندی سے مراد اس عقیدہ پر زور دینا ہے کہ اخلاقی اصول و تعلیمات، ا خلاقی موضوعات کی ذات اور ان کے حقیقی آثار ونتائج کے علاوہ کسی بھی دوسری چیز سے وابستہ نہیں ہیں۔ دوسرے لفظوں میں کسی موضوع کے اچھے یا برے ہونے کی جو چیزیں سبب بنتی ہیں صرف موضوع کی ذات میں موجود عناصر کا مجموعہ اور اس پر پڑنے والے واقعی آثارہیں نہ کہ اس سے باہر کے حالات و حوادث۔جیسے کسی سماجی، اجتماعی، ثقافتی، اقتصادی زندگی کے حالات یا فاعل کے ذوقی ونفسیاتی حالات۔ا س بناء پر بوڑھوں کی مناسب طریقہ سے دیکھ بھال کرنا، ابتداء سے پرہیزگار و پاک دامن رہنا اور اخلاقی لحاظ سے دوسروں کی عزت کی حفاظت کرنا اگر ایک پسندیدہ عمل مانا گیا ہے تو اصولی طور پر ہر زمان ومکان میں اور ہر فاعل کے ذریعہ تمام حالات میں اسے سراہا گیا ہے اور اخلاقی بھی مانا گیا ہے مگر یہ کہ حالات کا بدل جانا عمل کی ماہیت میں تبدیلی کا سبب قرار پائے یا قدروں کے درمیان کش مکش کا سبب بن جائے۔ (١)

نسبیت یعنی ایک شئے کا اس کے اصلی آثار اور ذات سے خارج و متغیر امر یا امور سے وابستہ ہونا۔اس بناء پر ایک اخلاقی مفہوم کی نسبیت خواہ فضیلت ہو یا رذیلت اس طرح سے ہے کہ ایک باطنی صفت یا ظاہری  رفتار پر اس کا صادق آنا یا نہ آنامعلوم ہو اور وہ صفات (باطنی یا ظاہری ہوں) اپنے اصلی آثار اور حقیقت سے خارج اور متغیّر عناصر سے وابستہ ہوں۔ جیسے اس صفت کا حامل انسان یا اس رفتار سے مربوط فاعل، وہ سماج جس میں وہ انسان زندگی گذار رہا ہے اور جس میں وہ قاعدہ و طریقہ پایا جاتا ہے، اور اس زمانہ کے حالات۔ مثلاًبوڑھوں سے متعلق رفتار، اخلاقی لحاظ سے ہمیشہ ایک حکم نہیں رکھتی۔ یا مختصر شراب پینا یا حجاب کی پابندی نہ کرنا، عیسائی سماج میں زندگی بسر کرنے والے کے لئے ایک اخلاقی برائی شمار نہیں کی جاتی لیکن اسلامی سماج میں زندگی گذارنے والے کے لئے ایک برا اور اخلاق کے خلاف عمل مانا جاتا ہے۔  (٢)

ایک موضوع کو اخلاقی اچھائی یابرائی سے متّصف ہونے کے اعتبار سے موضوع کی ذات اور اس کے اصلی آثار سے باہر کس متغیّر چیز کے تابع قرار دیا جائے اس کے لئیاخلاقی نسبت پسندی کو مختلف قسموں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے:

ایک کلی تقسیم کی بناء پر (٣) وہ لوگ جو اخلاقی اصول کو سماجی تہذیب کی تبدیلی کے تابع قرار دیتے ہیں وہ نسبیت قرار دادی (4) کے طرفدار ہیں اور وہ لوگ جو اسے انسان کی خواہش اور انتخاب کے تابع قرار دیتے ہیں، نسبیت ذہنی (5) کو قبول کرتے ہیں۔ ان کے مقابلہ میں وہ لوگ جو اخلاقی اصول کے لئے عینی وخارجی اصل اور مبدأ کے قائل ہیں وہ اصالت عین (6) کے طرفدار ہیں۔

َ

١۔ رجوع کیجئے: اسی کتاب میں اخلاقی قدروں میں تزاحم اور ترجیح کا معیار اور سوالات وجوابات کی طرف (صفحہ ٦٧ پر) ۔

٢۔ رجوع کیجئے علامہ طباطبائی: المیزان، ج: ١، ص: ٣٧٦، ٣٧٧۔

٣۔ رجوع کیجئے: لوئس پویمن۔ نقدی برنسبیت اخلاقی، ترجمہ فتح علی۔ ( بحوالۂ مجلّہ نقد و نظر، ش ١٣، ١٤، ص٣٢٦)

Objectivsm. ۔6  Subjectivism.     ۔5  Conventional.        ۔4

دوسری تقسیم کے لحاظ سے اخلاقی نسبیت پسندی کی قسموں کو مندرجہ ذیل طریقہ سے بیان کیا جاسکتا ہے:

١۔علم حیات کے سلسلہ میں نسبیت کا رجحان: اخلاقی اصول، انسان کی متغیر زندگی کے حالات کے تابع ہیں۔

٢۔علم سماجیات کے سلسلہ میں نسبیت کا رجحان: اخلاقی اصول اس سماج کے متغیر حالات کے تابع ہیں جس میں انسان زندگی گذار تا ہے۔

٣۔ علم نفسیات کے سلسلہ میں نسبیت کا رجحان: اخلاقی مفاہیم، انسان کے متغیر نفسیاتی حالات اور اس کے ذوق وشوق، رغبت وسلیقہ کے تابع ہیں۔ اس طرح کی قسم کو کبھی ذوقی نسبیت پسندی یا (نظریۂ اصالت وجود) {Egzistansialism} اگز سٹنسیا لیسٹی بھی کہتے ہیں۔

٤۔ تہذیب وثقافت کے سلسلہ میں نسبیت کا رجحان: اخلاقی فضائل و رذائل اخلاقی سماج کے آداب و رسوم کے پابند ہیں۔

٥۔ مادہ پرستی کے سلسلہ میں نسبیت کا رجحان: کسی صفت یا رفتار کی اچھائی یا برائی کا معیار، انسانوں کے درمیان مادی لحاظ سے برابری اور مساوات کو ایجاد کرنے اور امکانات کو مساوی لحاظ سے تقسیم کرنے کے سلسلہ میں اس کی تثیرو کار کردگی کو قرار دیا گیا ہے۔ (١)

الف۔ اخلاقی نسبیت پسندی کے نتیجے:

کلی طور پر اور ہر اس دلیل و مبنیٰ کی بنیاد پر جسے دعوے کے طور پر پیش کیا جائے، اخلاقی نسبیت کا رجحان، تباہ کن نتائج کا حامل اور غیر قابل قبول ہے اور وہی دلیلیں اسے باطل کرنے کے لئے کافی ہیں۔ اس کے بعض کلی اور مشترک نتیجے مندرجہ ذیل ہیں:

١۔ ذمہ داری کا سلب ہونا:اخلاق مطلق اور عمومی و جاودانی اصول سے انکار کرنے سے کسی بھی انسان کو اس کی رفتار کے مقابلہ میں، اخلاقی لحاظ سے اور بہت سی جگہوں پر حقوقی لحاظ سے بھی ذمہ دار نہیں مانا جاسکتا ہے۔ (٢)

َ١۔ رجوع کیجئے: پُل رو بیجک: موافق و مخالف اگزسٹنسیالیزم،  ترجمہ: سعید عدالت نژاد، نقل ازمجلہ ء نقد و نظر، ش١٣۔١٤، ص: ٣٠٠تا٣٢٣۔

٢۔ رجوع کیجئے: پُل رو بیجک: ایضاً، (نقل ازمجلہ ء نقد و نظر، شمارہ: ١٣۔١٤، ص: ٣٠٥)۔

٢۔اخلاقی احکام کا بے ثمر ہونا:اخلاقی احکام اور قضیے اس صورت میں مفید ہیں جب وہ تاثیر گذار ہوں۔ اس کے علاوہ مخاطبین کے ذوق وشوق، تسلیم و رضا کو پروان چڑھائے اور ان کو ایثار و فداکاری کے لئے آمادہ کرے۔ یہ چیزیں عام ومطلق کی حقانیت اور اخلاقی اصول کی جاودانی کو قبول کرنے اور ان سے عشق کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ اخلاقی نسبیت کا رجحان ان تمام امور سے ٹکراؤ رکھتا ہے اور ہر طرح کے مشترک اخلاقی  اصول کی سفارشوں سے لگاؤ اور اس سے محبت کی گرمی کو ٹھنڈا کردیتا ہے۔ (١)

جس کے نتیجہ میں تبلیغ و ہدایت اور ارشاد و تربیت بے معنی ہیں اور خدا کے نبیوں اور ولیوں کو بشر کی ہدایت کے لئے نہ کسی اجازت کی ضرورت ہوگی اور نہ ہی سماجی مصلحین اپنی دعوت پر لبیک کہنے کے لئے لوگوں کے کسی معقول جواب کے منتظر رہ سکتے ہیں۔

٣۔ دین کے مکمل اور جاودانی ہونے کی نفی: اخلاق دین کی نظر میں ایک بلند اور وسیع مرتبہ کا حامل ہے۔ اور اتنا بلند ہے کہ اس کی نظر میںتکوین و تشریع کا اصل مقصد، اخلاق کی عالی فضیلتوں تک پہنچنا اور اسے حاصل کرنا بتایا گیا ہے۔اسی وجہ سے دین کی  تمام تعلیمات میں اخلاقی باتوں کا لحاظ رکھا گیا ہے اور اکثر دینی تعلیمات براہ راست اخلاقی موضوعات کے بارے میں ہوتی ہیں۔

اس حقیقت پر توجہ کر تے ہوئے اخلاقی احکام کے عدم ثبات اور تغیّر کو قبول کرنا دینی تعلیم کا عصری اور وقتی ہونا مانا جائے گا اور اس کا نتیجہ یہ ہے کہ دین کے کامل اور خاتم ہونے کی نفی کردی جائے۔ اس بناء پر اخلاقی نسبیت اور دین کا عالمی و جاودانی ہونے میں ٹکرائو نظر آتا ہے جبکہ کمال اور خاتمیت دین کی شان ہے۔

٤۔ اخلاقی شکّاکیت :  اخلاقی نسبیت پر اعتقاد رکھنے سے کسی اخلاقی موضوع کے سلسلہ میں کوئی حتمی فیصلہ کرنے کا امکان ختم ہوجا تا ہے۔ اخلاقی نسبیت پسندی سے تہذیبی ماحول اور کسی خاص سلیقہ کے تحت، صداقت کے قبیح ہونے کے  بارے میں کسی فیصلہ کا جتنا احتمال ہوسکتا ہے اتنا ہی حسن صداقت کے سلسلہ میںبھی ممکن ہے۔ اخلاقی نسبیت پسندی، واقعیت کی توصیف اور اسے بیان کرنے والے کی حیثیت سے نہیں ہے بلکہ اخلاقی احکام کی ماہیت کے بارے میں اپنے نظریہ کوبیان کرنے کی حیثیت سے ہے اور اس کے مطابق اخلاقی اصول کا سالم وناسالم ہونا، انسان یا سماج کے متغیر عوامل پر منحصر ہے۔ اس بناء پر کسی اخلاقی موضوع کے بارے میں کوئی مستقل فیصلہ نہیں کیا جاسکتا ہے اور یہی اخلاقی شکاکیت ہے۔

َ

١۔ رجوع کیجئے: پُل رو بیجک: (نقل ازمجلہ ء نقد و نظر، شمارہ: ١٣۔١٤، ص: ٣١٢)۔

٥۔خادموں اور خائنوں کا یکساں ہونا:اخلاقی نسبیت کا سب سے زیادہ ناپسندیدہ اور وجدان کے خلاف نتیجہ یہ ہے کہ خدمت وخیانت، اصلاح وجنایت، خیر خواہی وشرارت وغیرہ اخلاقی دائرہ میں سبھی برابر اور سبھی ایک نظر سے دیکھے جاتے ہیں اور ایک ہی طریقہ سے ان کی تعریف و تنقیص ہوتی ہے۔اس بناء پر فرعون و معاویہ کا عمل اتنا ہی معقول ہوگا جتنا حضرت آسیہ وحضرت زینب   کے عمل کو پسندیدہ کیا گیا ہے۔

ب۔ ا خلاق میں مطلق پسندی اور اس کی دلیلیں

اخلاقی نسبیت کے رجحان کے تباہ کن نتیجوں پر توجہ کرنے کے بعد ضروری ہے کہ جاودانہ اخلاق کی معقول اور عقلی بنیادوں پر بیان کیا جائے اور اُن نظریاتی اختلافات اور نقصانات کو راستہ سے ہٹادیا جائے جو اس نظریہ کے لئے خطرہ کا باعث ہیں۔ اس نظریہ کو حاکم بنانا اور اس کا معقول قوام واقتدار حاصل کرنا اس شرط کے ساتھ ہے کہ اپنے دعوے کو عقل وبرہان کی بنیادوں پر استوار کیا جائے۔

١۔پائدار اخلاق کی نشاندہی کی ضرورت: اخلاقی نسبیت کے رجحان کے بعض نتیجوں پر اجمالی نظر ڈالتے ہی اخلاق کے جاودانی ہونے کی ضرورت آشکار ہوجاتی ہے۔ انسان کا با مقصد ہونا اور اس کا اپنی ذمہ د اری کو قبول کرنا، تعلیم وتربیت اور ترغیب وترہیب (ڈرانے) کی حکیما نہ توجیہ، عدل وظلم کے بارے میں گفتگو کا امکان، انسانی حقوق کا دفاع اور اس کی حق تلفی کے خلاف جنگ، فضیلت ورذیلت، خیر و شر، خائن وخادم، جزاء و سزا، ثواب وعقاب، جنت وجہنم، عادل وفاسق کے درمیان تمیز پیدا کرنا، انبیاء واولیاء کی رسالت، مصلحین اور خیر خواہوں کی کوششوں کا دفاع کرنا، ابدی اور کامل دین کی طرفداری، اخلاقی حسن وقبح کو سمجھنے اور سمجھانے کے لئے عمومی اصولوں اور معیاروں کی نشاندہی کا امکان اور دسیوں اور سیکڑوں ایسے انسانی زندگی کے اصول و ارکان جن کو نظر اندازکرنے سے انسانی زندگی کا شیرازہ بکھرجائے گا لہٰذا اُن کی بقاء صرف ثابت اور پائدار اخلاقی اصولوں کو قبول اور بیان کرنے اور اُن کی نشاندہی کرنے سے ممکن ہے۔

٢۔ اخلاق کے جاودانی اصولوں کو بیان کرنا:مختلف اخلاقی مکاتب میں اخلاق کے جاودانی اصولوں کی عقلی تفسیر مختلف شکلوں میں کی جاتی ہے۔یہاں اختصار کے طور پر اخلاق کی صرف اُن بحثوں کا ذکر ہوگا جو اسلامی دائرہ میں داخل ہیں۔اس دائرہ میں اخلاق جاودانہ کے عقلی بنیاد وں کو بیا ن کرنے کے لئے جس مطلب کو سب سے زیادہ قوی مانا گیا ہے وہ حقیقت میں اخلاقی فرائض کی بحث کے سلسلہ میں علامہ طبا طبائی  کی قائم کردہ بنیادوں سے اخذشدہ نظریہ ہے۔اس نظریہ کی مختصر شرح درج ذیل عبارت میں بیان کی جارہی ہے۔

اخلاقی مفاہیم، انسان کے اختیاری افعال کے درمیان عینی اور حقیقی رابطوں کا نتیجہ اور مظہر ہوتے ہیں۔ حقیقت میں یہ مفاہیم اُن دونوں ( عینی اور حقیقی رابطوں) کے درمیان پائے جانے والے علت و معلول کے رابطہ سے حاصل ہوتے ہیں۔ یہ رابطہ فاعل کے علم وجہل و ارادہ اور سماج پر حاکم حالات سے آزاد ومستقل اور حقیقی ہوتا ہے۔ اخلاقی خوبی و بدی اور اوامر و نواہی اسی واقعی و تکوینی نسبت کا مظہر ہیں، اِسے جیسے انسان کے اختیاری فعل کا اس کے نفسانی کمال پر پڑنے والی تثیر کی نوعیت سے تعبیر کیا گیا ہے۔ چونکہ یہ رابطہ، عینی وتکوینی ہے اور علیت کے رابطہ کی نوعیت سے متعلق ہے لہٰذا وہ تغیّر وتحوّل سے دوچار نہیں ہوتا۔ دونوں (عینی اور حقیقی) روابط کے ثبات و پائداری کی وجہ سے یہ نسبت ثابت و جاودانی ہے۔ اس طرح اس سے حاصل اخلاقی مفا ہیم بھی عالمی اور جاودانی ہیں۔ کیونکہ انسان کی روح اور حقیقت میں جو رابطہ کا ایک سرا ہے تبدیلی واقع نہیں ہوتی۔ اور وہ مشخص فعل اور عمل بھی جو اخلاقی حکم کا موضوع اور رابطہ کا دوسرا سرا ہے،  اسے بھی واحد اور ثابت فرض کیا گیا ہے۔ (١)

کتاب و سنت کی نظر میں بھی انسان کی واقعی شخصیت اور روح پر اس کے اختیاری اعمال کا رابطہ اور اثرایک حقیقی اورعینی امر ہے۔ یہ حقیقت قرآن میں جابجا نظر آتی ہے۔ نمونہ کے طور پر چند مورد کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے قرآن کریم اُن لوگوں کے بارے میں جو قیامت اور آیات الٰہی سے انکار کرتے ہیں، فرماتا ہے کہ ایسا نہیں ہے بلکہ ان کی بد اعمالیوں کی تاریکی نے ان کے دلوں پر غلبہ حاصل کر لیا ہے۔ (٢)

علامہ طباطبائی کے قول کے مطابق ا س آیت سے معلوم ہوتا ہے:

١۔برے اعمال کی مختلف شکلیں ہوتی ہیں اور وہ انسان کے نفس کو اپنے مطابق بنادیتی ہیں۔

٢۔ یہ نقوش اور صورتیں، نفس اور حقیقت کو درک کرنے میں مانع اور حائل ہوجاتی ہیں۔

١۔ رجوع کیجئے: علامہ طبا طبائی، اصول فلسفہ و روش رئالیسم، مقالہء اعتباریات و رسائل سبعہ، مقالہء اعتباریات۔اسی طرح زیادہ معلومات کے لئے رجوع کیجئے: استاد مطہری کی جاودانگی و اخلاق، یاد نامہ استاد مطہری، ج: ١، ص: ٤١٠ ،٤١٨ وانہی استاد کی: حکمت عملی، ص: ١٤، ٢٠ و اسلام و مقتضیات زمان ج: ١، ص: ٣٤١ ، ٣٥١ و ج: ٢، ص: ٢٤٦۔

٢۔ سورہ ٔ مطففین، آیت: ١٤۔

٣۔نفس اپنی ابتدائی طبیعت کے لحاظ سے ایسا پاک اور نورانی ہوتا ہے کہ حقائق کو درک کرسکتا ہے اور حق و باطل کے درمیان تمیز پیدا کرسکتا ہے۔ (١)

اسی طرح قرآن کریم میں آیا ہے کہ جو کوئی تقویٰ اختیار کرے گا خدا اس کے لئے نجات کا راستہ کھول دے گا۔(٢)

اور فرمایا کہ اے ایمان لانے والو! اگر تم تقوائے الہی اختیار کروگے تو حق وباطل میں تشخیص کی قدرت تم کو وہ عطا کر دے گا۔ (٣)

علامہ طباطبائی مرحوم اِن آیات کی تفسیر کر تے ہوئے فرماتے ہیں:

”معرفت” حاصل کرنے کے لئے تقویٰ ایک مستقل ذریعہ نہیں ہے بلکہ تقویٰ، انسان کی طبیعت کے اپنے فطری اعتدال پر پلٹنے کے لئے سبب بنتا ہے اور یہ اعتدال اس بات کا سبب بنتا ہے کہ انسان کی رغبتیں پہلے کی بہ نسبت عالی بن جائیں اور اس کے ذریعہ بہتر اعمال انجام پائیں۔ یعنی اعمال صالح، پسندیدہ اور نیک اخلاق کی حفاظت کا ضامن نیز حقیقی معرفت، مفید علوم اور صحیح افکار کی پیدائش کا موجب بنتا ہے۔ (٤)

اس بیان میں فضیلتوں اور رذیلتوں کے پیدا ہونے کے اسباب کے ثابت ہونے کی کیفیت کی شرح کے ساتھ خوبی اور بدی کے اطلاق اور اثبات کو نتیجہ کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ یعنی جب انسان کی باطنی طاققتیں ثابت ہیں اور ان میں افراط وتفریط و اعتدال جیسی تینوں حالتیں بھی ایک ہی طرح ہیں، لہٰذا اخلاقی فضایل ورذایل جو انھیںحالات سے وجود میںآتے ہیں بالطبع ثابت ہوں گے اور نسبیت و تبدیلی سے دور ہوں گے۔

یہ بیان باطنی قوّتوں سے مربوط ایک خاص معرفت شناسی پر مبنی ہے۔یہاں کوشش کی گئی ہے کہ عقلی لحاظ سے اورانسان کی نفسانی قوّتوں کی مخصوص وضاحت پر تکیہ کرتے ہوئے تمام اخلاقی مفاہیم کی تفسیر کی جائے۔ اخلاق اسلامی کے وہ مشہور منابع جو فلسفی نظریات پر مبنی ہیں، اس شیوہ کی پیروی کرتے ہیں۔ یہ روش ایک ایسے نظام سے متثر ہے جسے ارسطو نے اخلاقی قضیوں کو بیان کرنے کے لئے پیش کیا ہے۔

َ

١۔ علامہ طباطبائی: المیزان، ج: ٢٠، ص: ١٣٤۔

٢۔ سورئہ: طلاق، آیہ: ٢۔

٣۔ سور١ئہ: انفال، آیہ: ٢٩۔

٤۔ علامہ طباطبائی: المیزان، ج: ٩، ص: ٥٦ وج:١٩، ص٣١٣و٣١٥۔

ج۔ سو ا لا ت اور جوابات

اس بحث کی تکمیل کے لئے مناسب ہے کہ ایسے بعض شبہات جو ممکن ہے اسی طرح بیان کئے جاتے ہوں، سوال و جواب کی شکل میں تحقیق کی جائے۔ اس مربوط واصلی سوالات مندرجہ ذیل ہیں:

پہلاسوال:اگر اخلاقی اصول، مطلق اور جاودانی ہوتے ہیں تو استثنائات کے لئے کیا توجیہ اور تفسیر کی جا سکتی ہے؟

پہلا جواب: حقیقت یہ ہے کہ اخلاقی احکام استثنا نہیں ہوتے اور جس وقت اخلاقی حکم کا موضوع محقق ہوتا ہے اسی وقت اس کا حکم بھی اس کے لئے ثابت ہوجاتا ہے۔ہاں، کبھی اخلاقی حکم کے اصل معیار میں خطا نظر آتی ہے مثلاً ہم کہتے ہیں: ‘ ‘سچ بولنا اچھا ہے” لیکن اگر یہ کسی بے گناہ کا خون بہنے کا سبب بن جائے یا اسلام کے دفاعی نظام کے اسرار کے فاش ہونے کا موجب قرار پائے تو ایسے موقعوں پر ”سچ بولنا اچھا نہیں ہے، ، یہاں اخلاقی  حکم عمومی اور کلی قاعدوں سے جدا ہوگیا ہے۔حالانکہ حقیقت میں ہم نے اخلاقی حکم کے موضوع کو اس کی تما م خصوصیتوں اور قیدوں کے ہمراہ پہچنوانے میں خطا کی ہے۔پہلے والے حکم میں اس کا واقعی موضوع ‘ ‘سچ بولنا کسی بڑی خرابی اور فساد کے بغیر مفید ہونا ” ہے  (١)

قطعی طور پران تمام موارد میں جہاںیہ موضوع محقق ہوتا ہے سچ بولنے کا حکم موجود رہے گا۔سچ بولنا اگر بے گناہوں  کا خون بہنے وغیرہ کا سبب بنے تو یہ معاملہ اخلاقی نہیں ہے۔ (٢)

دوسرا جواب: اخلاقی اصول استثناء کو قبول نہیں کرتے ہیں۔لیکن ایسی جگہ پر جہاں غیر ضروری اور نا مناسب نتائج کا سامنا ہوتا ہے ایسی حالت میں ایک خارجی فعل، دو عنوان کا مصداق بن جاتا ہے۔جیسے پہلے جواب میں درج مثال۔ اُن دو عنوانات میںایک سچ بولنا ہے اور دوسرا بے گناہ کا قتل یا اسلامی فوج کے اسرار کا فاش کرنا۔ اس بناء پر ایک ہی عمل ایک لحاظ سے اچھا ہے اور دوسرے لحاظ سے برا۔ ایسی جگہوں پر مجبوراً ایک ہی طرف کو انتخاب کیا جائے گا۔ کیونکہ یا اس عمل کو ترک کیا جائے یا انجام دیا جائے۔ یہاں تیسری صورت ممکن نہیں ہے۔ عمل کے ترک کرنے یا انجام دینے کے انتخاب میں مجبوراً اس کے حسن وقبح کے درجات کا بھی لحاظ کرنا پڑے گا۔

َ

١۔ اشیاء اور افعال کے ذاتی وعقلی حسن وقبح کو قبول کرنے کی بناء پر۔ جسے شیعہ اور معتزلہ قبول کرتے ہیں۔انسان کا اختیاری عمل، مصلحت کی بناء پر اچھااور مفسدہ وفساد کی بناء پربرا ہوجاتا ہے۔البتہ مصلحت اور مفسدہ کی تشخیص میں اور ان کی اہمیت کے توازن میں عقل کے علاوہ وجدان، فطرت اور وحی بھی بہت زیادہ اثر رکھتی ہے۔

٢۔ ر جوع کیجئے: مصباح یزدی، محمد تقی: دروس فلسفہ ء اخلاق، ص: ٤١، ١٨٧تا ١٨٩۔

اگر ان کی اچھائی یا برائی مرتبہ کے لحاظ سے ایک ہے تو اسے انجام دینے میں انسان نہ مذمت کا مستحق ہے اور نہ تعریف کا۔ لیکن اگر ان میں سے کوئی ایک دوسرے پر مقدم ہے تو اسی کو انتخاب کرنا چاہئے۔ اس بنا پر خوبی اور بدی (اچھائی اور برائی) مطلق ہیں لیکن کبھی عمل کے مرحلہ میں دونوں یکجا ہوجاتے ہے۔ یہاں ان دونوں کے تداخل کوپہلے بیان کی گئی ترتیب سے حل کرنا چاہئے۔ (١)

تیسرا جواب: اخلاقی فعل و رفتار، اخلاقی خصلت و عادت سے جدا ہے۔ اخلاق کا مطلق ہونا یعنی اخلاقی فعل ورفتار کا مطلق ہونا نہیں ہے۔ اس شبہہ کے پیدا ہونے کی وجہ، اس ظریف نکتہ سے غفلت کا نتیجہ ہے ممکن ہے۔ کہ ایک فعل ایک اعتبار سے اخلاقی ہو اور دوسرے اعتبار سے غیراخلاقی۔ مثال کے طور پر بچہ کی جسمانی تنبیہ کرنا مطلقاً اچھا ہے اور نہ ہی خراب۔ لیکن کبھی یہ رفتار زیادتی و ظلم کا مصداق اور اخلاقی لحاظ سے بری بن جا تی ہے۔ لیکن جب بچہ کی تادیب کے لئے یہی طریقہ باقی رہ جائے تو اخلاقی لحاظ سے یہی اچھا ہے۔اس بنا پر اخلاقی مفاہیم اور خصلتیں مطلق ہیں اور اخلاقی افعال و رفتارنسبی۔ یہاں اخلاقی احکام کا موضوع اخلاقی مفاہیم اور خصلتیں ہیں نہ کہ خاص افعال و رفتار۔ انسان کے افعال و رفتار پر اس وجہ سے کہ وہ کس اخلاقی مفہوم کا مصداق ہے، اخلاقی حکم لگایا جاتا ہے اور چونکہ ایک رفتار مختلف حالات میں مختلف اخلاقی مفاہیم کا مصداق بن سکتی ہے لہٰذا اُس پر مختلف اخلاقی احکام لگائے جائیں گے۔یہ بات ” اخلاقی احکام میں نسبیت ” کے معنی میں نہیں ہے۔(٢)

دوسرا سوال: بعض روایات کے مطابق عورت و مرد کے اخلاقی احکام میں فرق ہے۔ گویا یہ ایسا ہے کہ اسلام کی نظر میں بھی اخلاقی مفاہیم نسبی ہیں۔جیسے حضرت علی   ـ کی یہ فرمائش کہ” عورتوں کی سب سے اچھی خصلتیں مردوں کی سب سے بری خصلتیں ہیں: جیسے تکبر، بزدل ہونا، کنجوس ہونا۔ لہٰذا جب عورت مغرور ہوتی ہے سر

نہیں جھکاتی ہے اور جب کنجوس ہوتی ہے اپنا اور اپنے شوہر کا مال محفوظ رکھتی ہے اور جب بزدل ہوتی ہے اس کے سامنے جو آتاہے اس سے ڈرتی ہے۔(٣)

اس فرمائش سے ظاہر ہوتا ہے کہ بعض اخلاقی مفاہیم، انسانوں کے آدھے حصہ ( مردوں ) کے لئے بُرے اور باقی آدھے حصّہ ( عورتوں ) کے لئے اچھے اور پسندیدہ ہیں۔

َ

١۔ ر جوع کیجئے: مصباح یزدی، محمد تقی: دروس فلسفہ ء اخلاق، ص: ١٨٦و ١٨٧۔

٢۔ ر جوع کیجئے: استاد مطہری، مرتضیٰ: تعلیم وتربیت در اسلام، ص: ١٤٨ تا ١٥٦۔

٣۔ نہج البلاغہ، فیض اسلام، حکمت ٢٢٦۔

جواب: اس روایت میں اس فرمائش کا موضوع، خاص حالات و شرائط کے تحت رفتار و عمل کا وجود میں آنا ہے۔ عورتوں کے لئے تکبر کا پسندیدہ قرار پانا، نا محرم مردوں کی متکبرانہ رفتار کے مقابلہ میں ہے۔ کیونکہ روایت اس حکم کے بیان کی دلیل میں کہتی ہے:

” اگر عورت، نا محرم مرد کے مقابلہ میں اس طرح کی بزرگانہ و متکبرانہ رفتار رکھتی ہے تو دوسروں کے لئے سوء استفادہ اور دست درازی کا امکان نہیں رہتا ہے”۔

عورتوں کے خوف کی تعریف بھی ان کی اپنی عفّت و پا کدامنی کے لئے محتاط رہنے کے معنی میں ہے۔ یعنی جب بھی ان کی عفّت خطرہ سے دوچار ہو تو انھیںاحتیاط کو ترک کرنا اور بے پروا نہیں ہونا چاہئے۔اسی طرح عورتوں کے لئے کنجوسی کو اچھا قرار دینا اصل میں ان کے اپنے شوہر کے مال کو استعمال کرنے کے لئے ہے۔اس کی دلیل یہ ہے کہ حضرت علی   ـ  آگے فرماتے ہیں کہ: ” عورت کا بخل سے کام لینا سبب بنتا ہے کہ اس کے اور اس کے شوہرکے درمیان مشترک مال محفوظ رہے۔، ،

اس بنا پر تکبر، خوف اور بخل، عورت اور مرد کے تئیں نفسانی خصلتوں کے عنوان سے ایک ہی اخلاقی حکم رکھتے ہیں۔ لیکن نا محرم مرد کے مقابلہ میں عورت کی متکبرانہ رفتار اور اس کی اپنی عفّت کے واسطے محتاط رہنا، اور اپنے شوہر اوراپنے کنبہ کے مشترک مال کو استعمال کرنے میں بخل سے کام لینا ایک پسندیدہ عمل ہے۔اور اس طرح یہ وسیلہ اخلاقی نسبیت تک (یہ کہ وہی اخلاقی عادتیں اور خصلتیں ہیں) نہیں پہنچ سکتا ہے۔

تیسرا سوال:علوم انسانی کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض اعمال ایک گروہ کے درمیان اچھے اور دوسرے گروہ کے نزدیک برے مانے جاتے ہیں، مثلاً بعض کے نزدیک احترام کی خاطر سر سے ٹوپی اتارنا اچھا اور بعض دوسروں کے یہاں بے احترامی اور بے ادبی مانا جاتا ہے۔ اس طرح کے دوسرے بہت سے اعمال ہیں یہ اخلاقی اچھائیوں اور برائیوں کے نسبی ہونے کی دلیل ہے۔(١)

جواب: مذکورہ رفتار اور ان سے متعلق نظریات میں اختلاف علم اخلاق کے دائرہ سے باہر ہے۔حقیقت میں اس طرح کے امور ایک سماج کے آداب و رسوم اور عرف کو تشکیل دیتے ہیں۔

آداب و رسوم قرار دادی (اعتباری) ماہیت رکھتے ہیں اور دوسرے لفظوں میں قرار دادی اعتباریات کی قسموں میں سے ہیں، جو نہ ہی خارجی وجود رکھتی ہیں اورنہ ہی خارجی حصول کے لئے سبب بنتی ہیں بلکہ ایک سماج میں

١۔ر جوع کیجئے: ویل دورانٹ: لذات فلسفہ، ص ٨٣ تا ٩٩۔

رہنے والے لوگوں کے قولی یا عملی توافق سے وجود میں آتی ہیں۔ اسی وجہ سے مختلف معاشرہ کے لوگوں سے وابستگی متفاوت اور نسبی ہے البتہ اُن کا نسبی ہونا اخلاقی احکام نسبیت کا سبب نہیں ہے۔(١)

چوتھا سوال: ادیان و مکاتب اور جوامع کے درمیان ایسے موضوعات جو ذاتی طور پر علم اخلاق کے دائرہ میں داخل ہیں اُن کے سلسلہ میں موجود عقیدوں کے درمیان اختلاف، اخلاقی احکام میں نسبیت کی دلیل ہے۔ مثال کے طور پر، مسلمان نماز پڑھنے کو واجب اور سور کے گوشت کھانے کو حرام جانتے ہیں، جبکہ اس سلسلہ میں عیسائیوں کا عقیدہ دوسرا ہے۔ یا یہ کہ  عیسائیوں کے درمیان چند بیویوں کا رکھنا حرام اور اخلاق کے خلاف ہے اور مسلمانوں کے درمیان محدود طور پر مباح ہے  اور اخلاق کے خلاف نہیں ما نا جاتا ہے۔

جواب: کسی واقعیت اور حقیقت کی معرفت میں اختلاف یا ان کو پہچاننے کے ذریعوں، یا کسی بات کے صدق وکذب یا اخلاقی اچھائی یا برائی کے معیار کے سلسلہ میں نظریاتی اختلاف، واقعی امور کی نسبیت کی دلیل نہیں بن جاتا۔اس حقیقت کو قبول کرنے کے بعد کہ اخلاقی فضائل و رذائل جن کی جڑیں عالم عینی میں ہیں اور ان کی حقیقتیں ثابت اور انسان وجہان میں تکوینی اور وجودی آثار رکھتی ہیں ان کے سلسلہ میں نظریاتی اختلاف کا موجود ہونا، ثابت حقیقتوں کے بدلنے اور ان کے نسبی ہونے کا سبب نہیں بنتا اور نہ ہی وہ اخلاقی حقائق کی تغیّر کا نتیجہ ہوتا ہے، بلکہ ان کو پہچاننے میں بعض لوگوںکے خطا کرنے کی دلیل ہے۔جیسے وہ خطائیں جو مادی اور جسمانی حقیقتوں کو پہچاننیمیں انسان سے سر زد ہوتی ہیں۔ حقیقت میں جو کچھ اخلاقی احکام کے اسباب کے سلسلہ میں بیان ہوا، اس پر توجہ کرتے ہوئے دیکھا جائے تو اس طرح کے اختلافات یا انسان کی کمال مطلوب کے صحیح سمجھ نہ ہونے کی وجہ سے ہیں یا انسان کے فعل کے سلسلہ میں کافی دقت کے باوجود غلطی ہو جانے کی وجہ سے وجود میں آتے ہیں۔ یعنی وہ عمل جو حقیقت میں اس مقصد کے خلاف ہے، اس کے مطابق مانا جاتا ہے اور اس کے بر خلاف بھی ہوتا ہے۔اس طرح اخلاق کے جاودانہ اصولوں کو عقلی اور عقلی طور پر بیان اور سوالوں کا جواب دینے کے بعد معلوم ہوا کہ جاودانہ اخلاق کے نظریے، ایسے نظریے ہیںجو قابل قبول اور شائستہ ہیں۔(٢)

َ١۔ استاد مطہری، مرتضیٰ: اسلام و مقتضیات زمان ج: ٢، ص: ٢٤٨ تا٢٥٨ کی طرف ر جوع کیجئے۔

٢۔ البتہ جاودانہ اخلاق کے دفاع کے لئے دوسرے راستوں کو بھی طے کیا جا سکتا ہے اور وہ یہ ہے کہ بعض مشہور اخلاقی اصولوں کی جدا جدا تحقیق کی جائے تا کہ ان کا مطلق ہونا ثابت ہو جائے۔ (ر جوع کیجئے: استاد مطہری، مرتضیٰ، سیری د ر سیرئہ نبوی، ص: ٩١ تا ١١٦)۔

تبصرے
Loading...