حجاب : نسوانیت کی اصل زیبائش

آج عالم انسانیت خصوصاً مغربی ممالک جنسی بے راہ روی کے تباہ کن نتائج سے بر سرپیکار ہیں۔ان نتائج کے منفی اثرات کو زائل کرنے کے سلسلے میں دانشور، علماء،سائنس دان غرض ہر ذمہ دار طبقہ اپنے طورسعی کر رہاہے۔ سارازورنتائج کی روک تھام پر لگایا جارہا ہے اور اسباب سے چشم پوشی کی جاتی ہے۔اسباب پر قدغن لگانے کی کسی کو ہمت نہیں ہوتی،ہوگی بھی کیسے؟ اس میں فری سیکس کے نظرئیے کو الٰہی قانون پر قربان جو کرنا پڑے گا۔

 مغربی دانشوراور اہل بصیریت افراد جنسی بے راہ روی کے سبب ہورہی تباہی کو دیکھ کر اس بات سے آگاہ ہیں کہ یہ ساری تباہی و بربادی قانونِ قدرت اور الٰہی تعلیمات کے خلاف بغاوت کا ہی شاخسانہ ہے لیکن وہ محض اپنی انا اور ’’جنسی کمیونزم‘‘جیسے نظریات کی ساخت بحال رکھنے کیلئے جنسی بے راہ روی کے خلاف حرف تر دید تک زبان پر لانے سے کترارہے ہیں۔ اپنے خود ساختہ آئین واصول کی پیروی میں یہ لوگ اس مقام پر پہنچے ہیں جہاں انہیں اپنی ہولناک منزل صاف نظر آرہی ہے مگر اپنے پیش رو نظریہ سازوں کو دیئے ہوئے ’’وچن ‘‘ کے تحت ’’جان جائے پر وچن نہ جائے ‘‘کے اصول پر کاربند ہیں ،شرم و حیاء کا جنازہ نکلے، خاندانی ڈھانچہ ٹوٹ کر بکھرجائے ، ازدواجی زندگی میں نفرت و دوری کا زہر گھل جائے، روزانہ سینکڑوں جانیں ایڈس کی بھینٹ چڑھ جائیں انہیں یہ سب منظور ہوگا۔ فرائیڈ جیسے آوارہ اور عیاش ذہن کے نظر یہ کو جو زندہ رکھنا ہے اور ہم مرسل اعظم ؐ کے پیروکار آپؐ کے لائے ہوئے بہترین لائحہ عمل کو مسجدوں اور خانقاہوں تک ہی محدود رکھ کر عملی طور مغربی افکار و نظریات کی پیروی کرنے لگے ہیں۔ نیز مغربی معاشرے میں گھرے ہوئے مصیبت زدہ افراد کی تقلید پر کمر کس چکے ہیں۔ہم دور سے ان کی مادی چمک دمک دیکھ کر مرعوب ہورہے ہیں اور ان کی اخلاقی پستی اور جنسی بے راہ روی کو نظر انداز کر دیتے ہیں ۔ہمارے لئے افسوس کا مقام ہے کہ وہ اپنے تعیش پسند دانشور کے کہے کی خرابی کو جان کر بھی اسے رد کرنے پر تیار نہیںاور ہم رسول اکرمـؐ کی تعلیمات کو نسخۂ کیمیا سمجھ کر بھی عملی میدان میں انہیں نظر انداز کر دیتے ہیں۔ 

مجلسِ وعظ میں بھی جاتے ہیں گاہے گاہے 

محفل عیش میں بھی داد سخن لیتے ہیں 

اپنا اسلام تو ملا کی قباہے یارو 

گھر میں رکھ لیتے ہیں مسجد میں پہن لیتے ہیں 

 

خواتین کی بے پردگی بھی اسی اندھی تقلید کا ایک تکلیف دہ عنصر ہے جس نے ہمارے سماج میں اعلیٰ روحانی و مذہبی اقدار کو ڈانواں ڈھول کر دیا ۔اس بے پردگی کے ذمہ دار کون سے افراد ہیں ؟ کیا یہ صرف اس عورت کا اسلامی اصولوں کے خلاف باغیانہ طرز عمل ہے ؟ یا کوئی در پردہ ہاتھ ہے جس نے صنف نازک سے وہ پُروقار چادر، جو مذہب اسلام کی عنایت کردہ تھی ،چھین لی اور اب خود بھی اس کی بے پردگی پر واویلا کررہا ہے ؟ بالفاظ دیگر اپنے ہی ہاتھوں لگائی ہوئی آگ کو بجھانے پر زور دے رہاہے ؟ یہ چند سوالات ہیںجن کے جوابات روز مرہ مشاہدہ کی روشنی میں ہم باآسانی حاصل کر سکتے ہیں بشر طیکہ باریک بینی سے تجز یہ کیا جائے۔مشاہد ہ کی بنا ء پراولین خامی لڑکیوں کے تیٔں والدین کی صحیح اور مذہبی و روحانی تربیت کا فقدان ہے۔اکثر و بیشتر والدین بچوں کو بہترین تعلیم سے آراستہ کرنے کے سلسلے میں مشہور و معروف مغربیت کے دلدادہ اسکولوں میں داخلہ دلوا کر بڑی رقم ان کی تعلیم پر خرچ کرنے تک ہی اپنی ذمہ داریوں کی حدودمتعین کرتے ہیں اور اخلاقی و روحانی تربیت کی جانب کوئی خاص توجہ نہیں دیتے مثلاََ ایک چھوٹی مگر باشعور بچی کے متعلق دو رکعت نماز پڑھنے کی عادت ڈلوانے کا خیال جب والدین کے ذہن میں آتا ہے تو یہ کہہ کر اس سعید خیال کوٹال دیا جاتا ہے کہ ابھی اس کی عمر ہی کیا ہے؟ بالغ ہو کر خود ہی پڑھ لے گی اور جب اسی کم عمر بچی کو کمپیو ٹر سکھانے کی بات چھڑ جاتی ہے تو فوراََ یہ کہہ کر عملی تائیدکی جاتی ہے کہ ابھی سے کمپیوٹر کے متعلق اسے جانکاری ہونی چاہے۔ بلوغیت کے بعدہائر کلاسز میں پہنچنے کے سبب وقت کی اہم ایجاد کے متعلق کچھ سوچنے اور سیکھنے کا موقع نہیں ملے گا۔نتیجتاًیہ بچی بڑی ہوکر اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے علاوہ کمپیوٹر کو چلانے کی صلاحیت حاصل کرتی ہے ۔ نیز اس کے کام کاج پر دسترس حاصل کر پاتی ہے لیکن اپنے مقصد تخلیق کے متعلق اپنے خالق کے بتائے ہوئے اصول و ضوابط سے بالکل نا آشنا رہتی ہے۔ضمناًیہ بات بھی کہتا چلوں کہ اسلام جدید تعلیم وٹیکنالوجی سے استفادہ کرنے کے ساتھ ساتھ روحانی و اخلاقی تربیت پر بھی زور دیتا ہے۔جدید دور کے تقاضوںکے مطابق بچوں کو جدید علوم سے مزّین کرنا نیزانہیں خداوندکریم کے مطیع اور فرمانبردار بندوں کی حیثیت سے بھی تیار کرنا لازم و ملزوم ہے۔گھر میں انہیں والدین کا تیار کردہ ماحول بھی بے حیائی اور بے پردگی کو ہوادے رہا ہے ۔کمرے میں بیٹھے باپ کے ساتھ جوان بیٹی بھی ٹی وی پر حیاسوزفلمیں دیکھتی ہے۔ایک باپ اپنی بیٹی کے ہمراہ بے حیائی،عریانیت،فحاشی کے گھناونے مناظر دیکھ کر اپنے اور اپنی بیٹی کے درمیان حائل شرم و حیاء کے غیر مرئی پردے کو اپنے ہی ہاتھوں تار تار کرتا ہے ۔باوجود اس کےکہ یہ خواہش کہ اس کی بیٹی کا شرم وحیاء برقراررہے چہ معنی دارد؟یہ ہے گھرکا ماحول۔ اب ذرا باہر آکے اس باپ کا کردار دیکھیں۔ جدید قسم کی آرام دہ گاڑی میں باپ بیٹی کہیں جارہے ہیں،بیٹی بحیثیتِ ڈرائیورگاڑی کو چلارہی ہے اس حالت میں کہ سر پر دوپٹہ نہیں،بدن پر پورا لباس نہیں، امیرانہ بناؤ سنگھار کئے ہوئے اور باپ پچھلی سیٹ پر بے حس و حرکت بیٹھا ہے۔ازراہ انصاف بتایئے ؟ کیا اُس دکاندار اور اِ ن صاحب میں کوئی فرق ہے جو اپنی دُکان یا شوروم کو پر کشش بنانے کیلئے جاذبِ نظر اشیاء کودو کان یا شوروم کے اس حصے میں سجاکر رکھتا ہے ۔جہاں پر بآسانی عام وخاص کی نگاہیں انہیں دیکھ سکیں۔فرق صرف اتنا ہے کہ دوکان دار،دوکان کو دلہن کی طرح معاشی منفعت کی خاطر سجاتا سنوارتا ہے اور گاڑی میںبیٹھا یہ شخص اپنی عزت و ناموس کی نمائش کیلئے اپنی موبائیل شوروم کو لے کر سٹرکوں اور بازاروں میں بھٹکتاپھرتا ہے ۔یہ ایک ’’باپ کی زندہ اور ترقی یافتہ تصویر ‘‘کی ایک جھلک ہے۔ اس سلسلے میں ایک ماں بھی کچھ کم نہیں۔ وہ بھی خود کو سر سے پیر تک (اگر تھوڑا سا خوفِ خدادل میں موجود ہو تو)پردہ ڈھانپ کے نکلتی ہے مگر اس کے ساتھ جواں بیٹی بے پردگی کی حالت میں ہوتی ہے۔ یہ کیسی ماں ہے جو اپنی عزت وعفت کے تحفظ کا بندوبست تو کرتی ہے لیکن اپنی جگر پارہ بیٹی کا اُس کاخیال نہیں حالانکہ بوڑھی ماں سے زیادہ جواں بیٹی ہی پردے کی مستحق تھی۔ 

جب بھی عورتوں کے استحصال کی بات چھڑتی ہے تو ہمیں زمانۂ جاہلیت کے عربوں کو اپنی بیٹیوںکے تئیں زندہ دفنانے والا انسانیت سوز حرکت ضرور یاد آتی ہے۔ دراصل وہ جہلاء عرب فطری جذبے یعنی غیرت کے تحت اپنی عزت و ناموس پر غیروں کا بے جا تصرف دیکھنے سے سخت پریشان تھے اور دفاعی اقدام میں غیروں کے ہاتھوں پڑنے سے پہلے ہی وہ مظلوم بیٹی کو مٹی کے پردے میں چھپا لیتے تھے۔ اپنی بیٹیوں کا دامن عصمت داغدار ہونے کے خدشے سے بے حد مضطرب ہونا یک گونہ فطری عمل تھا۔ اس کے نتیجے میں بیٹیوںکو زندہ دفن کرنا اسے درندوں کی صف میں شامل کرتا تھا۔ اب ذرا اسی میز ان میں اپنے معاشرے کو بھی تولیں۔ فطرت نے مرد کو عورت کے تئیں جو جذبۂ محافظت بخشاہے وہ کافی حد تک پھیکاپڑ چکا ہے۔ جاہلی دور عرب کے پاس کم سے کم غیرت و حمیت کی دولت تو تھی۔آج کا ترقی یافتہ انسان اسے بڑی حد تک مستثنیٰ نظر آتا ہے۔ زندہ مثالیں ہمارے سامنے ہیں،جو مرد اپنی قریبی خواتین کیا اجنبی خواتین پر نا محرم کی نظر برداشت نہیں کرتا تھا وہی اپنی بہو، بیٹی،ماں وغیرہ جیسی قریبی رشتہ دار خواتین کو بے پردہ اور نیم عریان حالت میں گھر سے باہر لے کرآتا ہے۔شہوت پرست نگاہیں ان کے جسموںکو ٹٹولتی رہتی ہیں اور یہ فطری محافظ ٹس سے مس تک نہیں ہوتا ۔باپ کو بیٹی کی فکر نہیں اور بھائی کو بہن کی خبر نہیں تو دخترانِ قوم کی محافظت کی توقع کس سے کی جائے؟ قرآن کریم کے مطابق مرد و عورت ایک دوسرے کا لباس ہیں لہٰذاخواتین اگر اسلامی طرز لباس نہ پہنیںتو مرد ِمسلمان کے کردار کا نقص ظاہر ہوتا ہے۔ بے پردگی کی خطاکے مرتکب خود مرد بھی ہیں کیونکہ یہ عورت کبھی بیٹی ،کبھی ماں تو کبھی بیوی کی حیثیت سے اس کی محافظت اور پردہ پوشی کا مطالبہ کرتی رہتی ہے۔ یہ مرد ہے کہ ان مطالباتِ فطری سے آنکھیں چُراتا ہے ۔ قرآن کریم کے مطابق خداوند کریم نے مردوں کو عورتوں پر جو فوقیت عطا کی ہے اور انہیں عورتوں کی سرپرستی کا اعزاز بخشا ہے اس کا مقصد ہر گز یہ نہیں ہے کہ مرد حضرات خواتین کو ادنیٰ قسم کی باندیاں سمجھ کر ان کا عرصۂ حیات تنگ کریںاور نہ ہی انہیں تفریح کا سامان سمجھ کر تفریح گاہوں کی زینت بنائیں۔ خداوندکریم کی عطاکردہ سربلندی، سرپرستی اور جسمانی و نفسیاتی تفوق کا اکثر خود غرضانہ استعمال ہوتا آیا ہے جس کے نتیجے میں یہ زینت خاندان(عورت)متاعِ کو چہ و بازار بن کر رہ گئی۔مسلم معاشروں میں یوں تو مختلف کرداروں کے حوالے سے مرد عورتوں کا استحصال کرتا آیا ہے لیکن دو متضاد کردار عورتوں کی لاچاری، برہنگی اور بے پردگی کے برابر ساجھے دار ہیں جن میں پہلا کردا ر ’’مُلا‘‘ اور دوسرا کردار ’’مسٹر‘‘ یعنی مغرب زندہ شخص ہے۔ مُلّا چا ہتا ہے کہ صنفِ نازک عمر بھر کال کوٹھری میں پڑی رہے یہاں تک کہ بسااوقات تعلیم کی حصولیابی کیلئے بھی گھر سے باہر عورت کا قدم رکھنا کٹھ ملاؤںکی نظر میں ممنوع قرار پایا اور ’’مسٹر‘‘مُلا کے برعکس یہ خواہش رکھتا ہے کہ عورت گھر سے باہر آکر دوبارہ اس چاردیواری کی جانب مڑ کر دیکھنے کی حماقت نہ کرے۔ ایک اپنی کار ستانیوںکو عین ’’شریعت‘‘گردانتاہے اور دوسرا اپنی ذہنی عیاشی کی بے حیاکال کوٹھری میں پلنے والی آوارہ گردی کی سوچ کو ’’افکارِ حریت ‘‘کا نام دیتا ہے ۔ یہ دونوں کردار انتہاء پسندی کے دوسرِوں پر بیٹھ کر بے چاری عورت کو کھینچاتانی میں مبتلا کر رہے ہیں جس کے نتیجے میں اس مظلوم کا وجود بکھر کر رہ گیا ہے۔ لہٰذا عورتوں کی بے پردگی پر رونے والے مرد حضرات پہلے اپنی ناعاقبت اندیشی پر واویلا کیوں نہیں کرتے؟ خود کو خواتین کا سرپرست جاننے والے اس پوزیشن میں نہیں ہے کہ وہ صنفِ نازک کو اس کی بے پردگی کا سبب پوچھیں ؎ 

بے پردہ کل جو نظر آئیں چند بیبیاں 

اکبر غیرتِ قومی سے زمین میں گڑھ گیا

پوچھا جو اِن سے تمہارا پردہ کیا ہوا 

کہنے لگیں عقل پر مردوں کی پڑ گیا    ( اکبر آلہ آبادی)

تبصرے
Loading...