کربلا اور عبرتيں

کربلا اور عبرتيں

کربلا،جائے عبرتکربلا درس وسبق لينے کے علاوہ ايک جائے عبرت بھي ہے۔ انسان کو چاہيے کہ اِس واقعہ کو غور سے ديکھے تاکہ وہ عبرت حاصل کرسکے۔ کربلا سے عبرت لينے کا کيا مطلب ہے؟ يعني تاريخ کا قاري اپنے آپ کا اُن حالات اور نشيب و فراز سے موازنہ کرے تاکہ وہ ديکھے کس حال و وضع ميں ہے، کون سا امر اُس کيلئے خطرے کا باعث ہے اور کس امر کي انجام دہي اُس کيلئے لازمي و ضروري ہے ؟ اِسے عبرت لينا کہتے ہيں۔ يعني آپ ايک راستے سے گزر رہے ہيں تو آپ نے ايک گاڑي کو ديکھا کہ جو الٹ گئي ہے يا اُس کے ساتھ کوئي حادثہ پيش آيا ہے، وہ نقصان سے دوچار ہوئي ہے اور نتيجے ميں اُس کے مسافر ہلاک ہوگئے ہيں۔ آپ وہاں رک کر نگاہ کرتے ہيں، اِ س ليے کہ اِس حادثے سے عبرت ليں تاکہ يہ معلوم ہو کہ تيز رفتاري اور غير محتاط ڈرائيونگ کا انجام يہ حادثہ ہوتا ہے ۔ يہ بھي درس و سبق لينا ہے ليکن يہ درس از راہ عبرت ہے لہٰذا اِ س جہت سے واقعہ کربلا ميں غور وفکر کرنا چاہيے۔
پہلي عبرت:مسلمانوں کے ہا تھوں نواسہ رسول ۰ کي شہادت!واقعہ کربلا ميں پہلي عبرت جو ہميں اپني طرف متوجہ کرتي ہے وہ يہ ہے کہ ہم يہ ديکھيں کہ پيغمبر اکرم ۰کے وصال کے بعد اسلامي معاشرے ميں وہ کون سے حالات وقوع پذير ہوئے کہ نوبت يہاں تک آپہنچي کہ امام حسين جيسي شخصيت، اسلامي معاشرے کي نجات کيلئے ايسي فدا کاري کي زندہ مثال قائم کرے۔ اگر ايسا ہوتا کہ امام حسين رسول اکرم ۰ کي وفات کے ايک ہزار سال بعد اسلامي ممالک ميں اسلام کي مخالف و معاند اقوام کے اصلاح و تربيت کيلئے ايسي فداکاري کرتے تو يہ ايک الگ بات ہے ليکن يہاں امام حسين وحي کے مرکزيعني مکہ و مدينہ جيسے عظيم اسلامي شہروںميں انقطاعِ وحي کہ پچاس سال بعد ايسے اوضاع و حالات کا مشاہدہ کرتے ہيں کہ اُن کي اصلاح کيلئے اپني جان کو فداکرنے اور قرباني دينے کے علاوہ کوئي اور چارہ کار نہيں پاتے! مگر وہ کون سے حالات تھے کہ جن کيلئے امام حسين نے يہ احساس کيا کہ فقط اپني جان کي قرباني ہي کے ذريعہ اسلام کو زندہ کرنا ممکن ہے واِلَّا سمجھو کہ پاني سر سے گزر گيا! عبرت کا مقام يہ ہے۔
ايسا اسلامي معاشرہ کہ جس کے رہبر اور پيغمبر ۰ مکۃ و مدينہ ميں بيٹھ کر اسلام کے پرچم کو مسلمانوں کے ہاتھوں ميں ديتے تھے اور وہ جزيرۃ العرب کے کونے کونے ميں جاتے اور شام و ايران و روم اُن کے وجود سے کپکپاتے تھے اور انہيں ديکھتے ہي فرار کرجانے ميں اپني غنيمت سمجھتے تھے، يوں مسلمان فاتحانہ اندار ميں واپس لوٹتے تھے؛ بالکل جنگ تبوک کي مانند۔ يہي اسلامي معاشرہ تھا کہ جس کي مسجدوں اور کوچہ و بازار ميں تلاوتقرآن کي صدا ئيںبلند ہوتي تھي اور پيغمبر اکرم ۰ بہ نفس نفيس خود اپني تاثير گزار صدا اور لحن سے آيات الٰہي کو لوگوں کيلئے تلاوت کرتے تھے اور عوام کو ہدايت کے ذريعہ انہيں بہت تيزي سے راہ ہدايت پر گامزن کرتے تھے۔اب پچاس سال بعد کيا ہوگيا کہ يہي معاشرہ اور يہي شہر، اسلام سے اتنے دور ہوگئے کہ حسين ابن علي جيسي ہستي يہ ديکھتي ہے کہ ِاس معاشرے کي اصلاح و معالجہ ، سوائے قرباني کے کسي اور چيز سے ممکن نہيں ۔ يہي وجہ ہے کہ يہ قرباني پوري تاريخ ميں اپني مثل و نظير نہيں رکھتي ہے۔ آخر کيا وجوہات تھيں اور کيا علل و اسباب تھے کہ جو اِن حالات کا پيش خيمہ بنے؟ مقام عبرت يہ ہے ۔
دوسري عبرت :اسلامي معاشرے کي آفت وبيماريموجودہ زمانے ميں ہميں چاہيے کہ اِس جہت و زاويے سے غور وفکر کريں۔ آج ہم بھي ايک اسلامي معاشرہ رکھتے ہيں،ہميں تحقيق کرني چاہيے کہ اُس اسلامي معاشرے کو کون سي آفت و بلا نے آگھيرا تھا کہ جس کے نتيجے ميں يزيد اُس کا حاکم بن بيٹھا تھا ( اور لوگ اُسے ديکھتے اور جانتے بوجھتے ہوئے بھي خاموش تھے)؟ آخر کيا ہوا کہ امير المومنين کي شہادت کے بيس سال بعد اُسي شہر ميں کہ جہاں امير المومنين حکومت کرتے تھے اور جو آپ کي حکومت کا مرکز تھا، اولاد علي کے سروں کو نيزوں پر بلند کرکے پھرايا جاتا ہے (اور آل نبي ۰کي خواتين کو قيدي بناکر اُسي شہر کے بازاروں اور درباروں ميں لايا جاتا ہے)؟ 1کوفہ کو ئي دين سے بيگانہ شہر نہيں تھا، يہ کوفہ وہي شہر ہے کہ جہاں کے بازاروں ميں امير المومنين اپنے دور حکومت ميں تازيانہ اٹھا کر چلتے تھے اور مسلمانوں کو امر بالمعروف اور نہي عن المنکر کيا کرتے تھے؛ رات کي تاريکي ميں غريبوں اور مسکينوں کي مدد کرتے ، پردئہ شب ميں مسجد ِکوفہ ميں علي کي مناجات اور صدائے تلاوت قرآن بلند ہوتي تھي اورآپٴ دن کي روشني ميں ايک مقتدر قاضي کي مانند حکومت کي باگ دوڑ کو سنبھالتے تھے۔ آج اکسٹھ ہجري ميں يہ وہي کوفہ ہے کہ جہاں آل علي کي خواتين کو قيدي بناکر بازاروں ميں پھرايا جارہا ہے!!اِن بيس سالوں ميں يہ کيا ہوا تھا کہ حالات يہاں تک پہنچ گئے تھے!
١۔ اصلي عامل؛معاشرتي سطح پر پھيلنے والي گمراہي اور انحرافاگر ايک معاشرے ميں ايک بيماري موجود ہو تو وہ بيماري اُس معاشرے کوکہ جس کے حاکم پيغمبر اکرم ۰ اور امير المومنين جيسي ہستياںہیں، صرف چند دہائيوں ميں اُن خاص حالات سے دوچار کردے تو سمجھناليناچاہيے کہ يہ بيماري بہت ہي خطرناک ہے، لہٰذا ہميں بھي اِس بيماري سے ڈرنا اور خوف کھانا چاہيے۔امام خميني۲ جو خود کو پيغمبر اکرم ۰ کے شاگردوں ميں سے ايک ادنيٰ شاگرد سمجھتے تھے ، اُن کيلئے يہ با ت باعث ِفخر تھي کہ وہ پيغمبر اکرم ۰ کے احکامات کا ادراک کريں، اُن پر عمل کريں اور اُن کي تبليغ کريں۔ امام خميني۲ کجا اور حضرت ختمي مرتبت ۰کجا! اُس معاشرے کے موسس و باني خود پيغمبر اکرم ۰ تھے کہ جو آپ۰ کے وصال کے چند سالوں بعد ہي اِس بيماري ميں مبتلا ہوگيا تھا۔ ہمارے معاشرے کو بہت ہوشيار رہنے کي ضرورت ہے کہ وہ کہيں اُس بيماري ميں مبتلا نہ ہوجائے، يہ ہے عبرت کا مقام! ہميں چاہيے کہ اُس بيماري کو پہچانيں (کہ اُس کي کيا علامات ہيں، اُس کے نتائج کيا ہيں اور بيمار بدن آخر ميں کس حالت سے دوچار ہوتا ہے) اور اِس سے دوري و اجتناب کريں ۔ميري نظر ميں کربلا کا يہ پيغام، کربلا کے دوسرے پيغاموں اورد رسوں سے زيادہ آج ہمارے ليے سب سے زيادہ ضروري ہے۔ ہميں اُن علل و اسباب کو تلاش کرنا چاہيے کہ جس کي وجہ سے اُس معاشرے پر ايسي بلا نازل ہوئي تھي کہ دنيائے اسلام کي عظيم ترين شخصيت اور خليفہ مسلمين حضرت علي ابن ابيطالب کے فرزند حسين ابن علي کے بريدہ سر کو اُسي شہر ميں کہ جہاں اُن کے والد حکومت کرتے تھے، پھرايا جائے اور کوئي بھي صدائے احتجاج بلند نہ کرے! اُسي شہر سے کچھ افراد کربلا جائيں اورنواسہ رسول ۰ اور اُس کے اہل بيت اصحابٴ کو تشنہ لب شہيد کرديں اور حرم امير المومنين کو قيدي بنائيں!اِس موضوع ميں بہت زيادہ گفتگو کي گنجائش موجود ہے۔ ميں اِس سوال کے جواب ميں صرف ايک آيت قرآن کي تلاوت کروں گا۔ قرآن نے اِس جواب کو اِس طرح بيان کيا ہے اور اُس بيماري کو مسلمانوں کيلئے اِس انداز سے پيش کيا ہے اور وہ آيت يہ ہے۔ ”فَخَلَفَ مِن بَعدِھِم خَلف? اَضَاعُوا الصَّلَاۃَ وَ اتَّبَعُوا الشَّہوَاتَ فَسَوفَ يَلقَونَ غَيًّا ‘‘ (سورئہ مريم / ٥٩) ،”اور اُن کے بعد ايک ايسي نسل آئي کہ جس نے نماز کو ضايع کيا اور شہوات و خواہشات کي پيروي کي تو يہ لوگ بہت جلد اپني گمراہي کا نتيجہ ديکھيں گے‘‘۔
گمراہي اور انحراف کي اصل وجہ؛ذکرخدا ا ور معنويت سے دوري اور خواہشات کي پيروياِس گمراہي اورعمومي سطح کے انحراف کے دوعامل اور عنصر ہيں؛ ايک ذکرِ خد سے دوري کہ جس کا مظہر نماز ہے، يعني خدا اور معنويت کو فراموش کرنا، معنويت و روحانيت کو زندگي سے نکال دينا، خدا کي طرف توجہ، ذکر ، دعا وتوسل ، خدا کي بارگاہ ميں طلب و تضرّع و زاري، توکّل اور خدائي حساب کتاب کو زندگي سے باہر نکال پھينکنا اور دوسرا عنصر ”وَاتَّبَعُوا الشَّہوَاتَ ‘‘ شہوت راني کے پيچھے جانا ، ہوا و ہوس اور خواہشات کي پيروي يا با الفاظ ديگر دنيا طلبي، مال وثروت کي جمع آوري کي فکر ميں پڑنا اور لذات ِدنيوي سے لُطف اندو زہو کرخداو قيامت کو فراموش کردينااور اِن سب امور کو ”اصل‘‘ جاننا اور ہدف و مقصد کو فراموش کردينا۔
اصلي اور بنيادي درد: ہدف کے حصول کي تڑپ کا دل سے نکل جانايہ ہے اُس معاشرے کا بنيادي اور اصلي درد و تکليف ؛ ممکن ہے ہم بھي اِس درد و بيماري ميں مبتلا ہوجائيں۔اگر ہدف کے حصول کي لگن و تڑپ اسلامي معاشرے سے ختم ہوجائے يا ضعيف ہوجائے ،اگر ہم ميں سے ہر شخص کي فکر يہ ہو کہ وہ اپنا اُلّو سيدھا کرے، ہم دنيا کي دوڑ ميں دوسروں سے کہيں عقب نہ رہ جائيں، دوسروں نے اپني جيبوں کو بھرا ہے اور ہم بھي دونوں ہاتھ پھيلا پھيلا کر جمع کريں گے جب معاشرے کے افراداپنے انفرادي مفادات کو اجتماعي مفادات پر ترجيح ديں توظاہر سي بات ہے کہ اِس قسم کي تاويلات سے معاشرہ اجتماعي سطح پر اِس قسم کي بلاوں سے دُچار ہوگا۔اسلامي نظام، عميق ايمانوں ، بلند ہمتوں ، آہني عزموں ، بلند و بالا اہداف کي رہائي کيلئے با مقصد شِعَاروں کو بيان کرنے اور اُنہيں اہميت دينے اور زندہ رکھنے سے وجود ميں آتا ہے، اِنہي امور کے ذريعہ اُس کي حفاظت کي جاتي ہے اوروہ اِسي راہ کے ذريعہ ترقي و پيش رفت کرتا ہے۔ اِن شِعَاروں کو کم رنگ کرنے، اُنہيں کم اہميت شمار کرنے، انقلاب و اسلام کے اصول و قوانين سے بے اعتنائي برتنے اور تمام امور اور چيزوں کو مادّيت کي نگاہ سے ديکھنے اور سمجھنے کے نتيجے ميں معلوم ہے کہ معاشرہ ايسے مقام پر جا پہنچے گا کہ اُس کي اجتماعي صورتحال يہي ہوگي۔اوائلِ اسلام ميں بھي معاشرہ اِسي حالت سے دوچار تھا۔
جب خلافت کے معيار و ميزان تبديل ہوجائيں!ايک وہ زمانہ تھا کہ جب مسلمانوں کيلئے تمام شعبہ ہائے زندگي ميں اسلام کي پيش رفت، ہر قيمت پر رضائے الٰہي کا حصول، اسلامي تعليمات کا فروغ اور قرآن و قرآني تعليمات سے آشنائي ضروري و لازمي تھي۔ حکومتي نظام اور تمام محکمے و ادارے ، زھد و تقويٰ کے حصول ميں کو شاںاور دنيا و مافيھا اور خواہشات نفساني سے بے اعتنائي برتنے کے سائے ميں پيش پيش تھے۔ اِنہي حالات ميں علي ابن ابيطالب جيسي ہستي خليفہ بنتي ہے اور حسين ابن علي ايک ممتاز شخصيت کي صورت ميں سامنے آتے ہیں۔ اِس ليے کہ اِن ہستيوں ميں دوسروں سے زيادہ ہدايت و راہنمائي اور امامت و خلافت کے معيارات وجود رکھتے تھے۔جب تقويٰ، دُنيا سے بے اعتنائي اور راہ خدا ميں جہاد؛ امامت و خلافت کا معيار ہوں اور ايسے افراد جو اِن صلاحيتوں کے مالک ہوں ، حکومتي باگ ڈور سنبھاليں اور زمام کار کو اپنے ہاتھوں ميں ليں تو معاشرہ، اسلامي معاشرہ ہوگا۔ ليکن جب امامت و خلافت کے انتخاب کے معيار ہي تبديل ہوجائيں اور سب سے زيادہ دنيا طلب ، سب سے زيادہ شہوتوں اور خواہشات کا اسير و غلام ، شخصي منافع کو جمع کرنے کيلئے سب سے زيادہ عيّار و چالاک اور حيلہ گر اور دوسروں کي نسبت صداقت و سچائي سے بيگانہ و ناآشنا فرد حکومت کي باگ ڈور سنبھالے تو نتيجہ يہ ہوگا کہ عمر ابن سعد، شمر اور عبيد اللہ ابن زياد جيسے افراد زيادہ ہوں گے اور حسين ابن علي جيسے افراد کو مقتل ميںبے دردي سے قتل کرديا جائے گا۔
دلوں ميں تڑپ رکھنے والے افراد، معياروں کو تبديل نہ ہونے ديںيہ دو جمع دواور چار کا قاعدہ ہے ۔ لہٰذا دلوں ميں ميں تڑپ رکھنے والے افراد اِس بات کا موقع ہي نہ آنے ديں کہ معاشرے ميں خدا کي طرف سے مقرر کيے گئے معيار اور اقدار تبديل ہوں۔ اگر انتخابِ خليفہ کيلئے تقويٰ کا معيار معاشرے ميں تبديل کرديا جائے تو ظاہر سي بات ہے کہ حسين ابن علي جيسي با تقويٰ ہستي کا خون آساني سے بہايا جاسکتا ہے۔ اگر امّت کي زِعامت و ہدايت کيلئے دنياوي امور ميں عيّاري ومکاري، چاپلوسي، کوتاہي، ناانصافي، دروغگوئي اور اسلامي اقدار سے بے اعتنائي ، معيار بن جائے تو معلوم ہے کہ يزيد جيسا شخص تخت سلطنت پر براجمان ہوجائے گا اور عبيد اللہ ابن زياد جيسا انسان ، عراق کي شخصيت ِ اوّل قرار پائے گا۔ اسلام کا کام ہي يہ تھا کہ (زمانہ جاہليت کے) اِن معياروں کو تبديل کرے اور ہمارے اسلامي انقلاب کا بھي ايک مقصد يہ تھا کہ بين الاقوامي سطح پر معروف و رائج باطل ،غلط اورمادّي معياروں کے مقابل سيسہ پلائي ہوئي ديوار بن جائے اور اُنہيں تبديل کردے۔آج کي دُنيا، کذب و دروغ، ظلم و ستم، شہوت پرستي اور معنوي اقدار پر مادي اقدار کو ترجيح دينے کي دُنيا ہے؛ يہ ہے آج کي دنيا اور اِس کي يہ روش صرف آج سے مخصوص نہيں ہے، دنيا ميںصديوں سے روحانيت رُوبہ زوال اور کمزور رہي ہے۔ اِس معنويت و روحانيت کو ختم کرنے کيلئے باقاعدہ کوششيں کي گئي ہيں؛صاحبانِ قدرت واقتدار، دولت پرستوں اور سرمايہ داروں نے مادي نظام کاايک جال پوري دنيا ميں پھيلايا ہے کہ جس کي سربراہي امريکہ جيسي بڑي طاقت کررہي ہے۔ سب سے زيادہ جھوٹي، سب سے زيادہ مکّار، انساني مقامات و درجات ميں سب سے زيادہ بے اعتنائي برتنے والي،انساني حقوق کو سب سے زيادہ پائمال کرنے والي اور دنيا کے انسانوں کيلئے سب سے زيادہ بے رحم حکومت اِس مادي نظام کا نظم و نسق سنبھالے ہو ئے ہے اور اِس کے بعد دوسري طاقتيں اپنے اپنے درجات کے لحاظ سے اِ س ميں شريک ہيں؛ يہ ہے ہماري دنيا کي حالت۔ 2———–
1۔وہ معاشرہ جس ميں امام حسين پروان چڑھے اور سب نے پيغمبر اکرم ۰ کا عمل ديکھا کہ وہ امام حسين سے کتنا پيار کرتے تھے، حضرت علي و حضرت فاطمہ ٭ کي کيا کيا فضيلتيں ہيں! ١١ ہجري سے ٦١ ہجري تک يہ کيا ہوگيا کہ يہي امت، حسين کو قتل کرنے کربلا آگئي۔ وہي لوگ جو کل تک امام حسين کي عظمتوں کے گن گاتے تھے آج اُن کے خون کے پياسے بن گئے ہيں؟! ٥٠ سالوں ميں يہ کون سا سياسي، اجتماعي اور ثقافتي انقلاب آيا کہ حالات بالکل بدل گئے اور اسلام و قرآن پر ايمان رکھنے والے لوگ ، فرزند رسول ۰ کے قاتل بن گئے؟! لہٰذا واقعہ کربلا کو سياسي اور ثقافتي حالات کے پس منظر ميں ديکھناچاہيے کہ جوہم سب کيلئے درس عبرت ہو۔(مترجم)
2 کمانڈروں اور بسيج مقاومت فورس کے ماتمي دستوں سے خطاب ٢٢/ ٤/١٣٧١
 

http://shiastudies.com/ur/2228/%da%a9%d8%b1%d8%a8%d9%84%d8%a7-%d8%a7%d9%88%d8%b1-%d8%b9%d8%a8%d8%b1%d8%aa%d9%8a%da%ba/