ابوذر غفاری حصہ دوم

ابوذر غفاری حصہ دوم

 

کیا تو اپنے خدا کو حقیر سمجھتا ہے؟

مالک نے نیزے سے اس پر حملہ کیا۔ خادم صیفی نے اونٹ کی گردن سے لگام کھول کر اس کو آزاد کر دیا اور مالک بن کلثوم اس کو لے کر چلا گیا۔ اب خدمت گار خود کو فلس کی پناہ میں لے آیا‘ اس کے پاس کھڑا ہو گیا اور مالک بن کلثوم کی طرف رخ کر کے اپنے ہاتھوں کو تضرع و زاری کے ساتھ بلند کیا‘ اس طرح کہ فلس کو دکھا دکھا کر کہہ رہا تھا:
اے پروردگار! آج مالک بن کلثوم نے ایک خوبصورت اونٹ تجھ سے چھین لیا اور عہد شکنی کی۔ اے میرے پروردگار! آج تک کسی کو میرے پر ایسا ستم روا رکھنے کی جرات نہ ہوئی تھی۔
اور اسی طرح کی شدت آمیز باتیں کر کے فلس کو مالک کے خلاف اکساتا رہا‘ وہ چاہتا تھا کہ اس کا پروردگار مالک کو درد ناک انجام سے دوچار کرے۔ وہیں اس مجمع میں عدی بن حاتم کے ساتھ ایک اور شخص بھی تھا‘ وہ دونوں فلس کے قریب ہی بیٹھے تھے اور اس تمام واقعہ کو دیکھ بھی رہے تھے اور ان کی باتیں بھی سن رہے تھے۔

عدی کہنے لگا: دیکھیں آج مالک بن کلثوم کے ساتھ کیا پیش آتا ہے؟ لیکن دن پہ دن گزرتے رہے اور پھر کچھ بھی ظہور میں نہ آیا۔ عدی نے بھی فلس اور دوسروں بتوں کی پوجا چھوڑ دی اور نصرانی ہو گیا۔ سبھی لوگ سر جھکا کر سوچنے لگے‘ افکار کی سیاہ پرچھائیاں سب کے چہروں پر عیاں تھیں۔ اتنے میں ابوذر۱۱کو یک گونہ روحانی سکون کا احساس ہوا۔

یہ داستان ابوذر کے لئے ایسے ہی تھی جیسے ایک جگر سوختہ اور پیاسے پر ٹھنڈا پانی ڈال دیا جائے‘ اس کے دل پر حقیقت میں بہت اثر ہوا۔ اہل بزم سبھی منتشر ہو گئے اور سب کے سب “منات” کے اطراف میں اپنے بستروں میں لیٹ گئے اور پھر سب کو اونگھ آنے لگی۔ ہر طرف نفیر خواب (سونے کے اوقات کی جرس) کا شور بلند ہوا اور رات نے ہر چیز کو بڑے سکون اور خاموشی کے ساتھ اپنے پروں تلے لے لیا‘ لیکن ابوذر یوں تو اپنے بستر میں دراز تھا‘ مگر اس کی نظریں آسمان کے ستاروں پر گڑی ہوئی تھیں اور وہ محفل میں ہونے والی باتوں کے بارے میں سوچوں میں غلطاں تھا‘ اب وہ ان بتوں سے انکاری تھا‘ وہ ان کی طاقت و توانائی اور خدائی کے بارے میں غور و خوض کر رہا تھا اور سرگوشی کے انداز میں زیرلب کہہ رہا تھا کہ “منات” تو محض ایک پتھر کا ٹکڑا ہے جو نہ تو کسی کی نجات پر قادر ہے اور نہ ہی کسی کو گمراہ کرنے کی طاقت رکھتا ہے۔

اچانک سوچ کا ایک لپکا سا اس کے ذہن میں آیا‘ وہ اپنی خواب گاہ سے اٹھا اور اس نے آہستہ آہستہ چلنا شروع کر دیا‘ یہاں تک کہ وہ “منات” کے پاس پہنچ گیا‘ اس کے برابر کھڑا ہو گیا‘ اس نے محسوس کیا کہ وہ تو ایک بے حس و حرکت مجسمہ ہے جس کو نہ تو کسی چیز کا احساس ہے‘ نہ وہ کچھ سنتا ہے‘ نہ دیکھ سکتا ہے‘ آزمائش کے طور پر اس نے ایک پتھر اٹھایا اور اس پر دے مارا اور کسی قسم کا ردعمل اس نے نہیں دیکھا‘ سوائے ایک پتھر کے دوسرے سے ٹکرانے کی آواز کے‘ وہ اسی طرح نادانی اور حیرت کا مجسمہ تھا۔

ابوذر بغض و عناد کے باعث کہنے لگا: آخرکار تو تو عاجز اور بیچارہ ہے‘ قدرت نہیں رکھتا‘ تو مخلوق ہے خالق نہیں ہے‘ نہ تو تیرے میں طاقت ہے نہ استطاعت‘ پھر آخر کس بات کے لئے تیری پرستش کی جائے اور بکریوں کو کیوں تیرے حضور میں قربان کیا جائے اور تیرے پاس نذرانے کے طور پر لائی جائیں؟ میرے قبیلے والے تو واضح گمراہی میں زندگی بسر کرتے رہے ہیں۔

ابوذر۱آہستہ سے اپنی خواب گاہ میں واپس آیا اور بڑے ہی سکون اور اطمینان سے اپنی آنکھیں موند لیں اور گہری نیند سو گیا۔

جب سپیدئہ صبح نمودار ہوا اور آکاش کی دلہن اپنے حجلہ عروسی سے باہر نکلی اور اس نے اپنے نرم و نازک اور لطیف دامن کے ساتھ سوئے ہوؤں کو تھپکی دی اور منات کے پجاریوں کو جوش و خروش کے ساتھ بیدار کیا۔ منات ویسے ہی نادانی اور ناواقفیت میں مستغرق تھا اور اپنے مقام پر جما ہوا تھا‘ نہ وہ کوئی چیز محسوس کرتا تھا‘ نہ سنتا تھا‘ نہ اس میں دیکھنے کی استعداد تھی‘ سبھی مرد اور عورتیں برکت کی خاطر اس کے گرد طواف کر رہے تھے۔ صرف ایک ابوذر تھا جو ان کی ان سرگرمیوں میں شریک و سہیم نہیں تھا‘ اس نے خاموشی سے ان کی طرف سے منہ پھیرا اور اپنے اونٹ پر سوار ہو کر چل دیا۔

اس کی سوچوں کا پرندہ اس وسیع و عریض کائنات میں اڑا چلا جا رہا تھا۔ اس نے آسمان کی طرف سر اٹھایا‘ اس کی پہنائیوں‘ عظمتوں اور رفعتوں پر غور و خوض کرتے ہوئے خود سے ہم کلام ہوا کہ یہ آسمان کیسے بلند کیا گیا؟ آخر کس ہستی نے اس کو بنایا ہے؟ اس نے سورج کی طرف نظر اٹھائی‘ گویا اس طرح کہ وہ ایک نئی چیز دیکھ رہا تھا‘ اس نے محسوس کیا کہ ایک لامحدود فضا میں وہ تیر رہا ہے۔ اب وہ ان سوچوں میں گم تھا کہ یہ سورج کس طرح اپنی چار دیواری سے نکل کر اپنی تمام تر تابانیوں کے ساتھ چمک رہا ہے تاکہ اپنی مقررہ منزلیں طے کرتے ہوئے صدر آسمان سے ہوتے ہوئے وہاں سے نیچے اترے اور افق میں جا کر منہ چھپا لے۔

وہ اس فکر میں غرق تھا کہ کس طرح اس کے بعد سیاہ رات آ موجود ہوتی ہے… اور یہ ستارے جو اپنی تابانیوں کے ساتھ ساتھ روشنی‘ آرام اور سکوت کو ہر سو نچھاور کر رہے ہیں‘ اب وہ اس سیاہی کا سینہ چیر دیں گے۔

وہ ایک ایسی گہری سوچ میں ڈوبا ہوا تھا جس سے یقین کی روشنی طلوع ہو رہی تھی‘ وہ فکر جو شک کو خشک ایندھن کی طرح آگ میں جلا کر بھسم کر ڈالے۔

طواف ختم ہو گیا‘ سب روانگی کے لئے تیار ہو گئے‘ ابوذر۱کا کا بھائی انیس اس کے پاس آیا اور بھائی کے برابر کھڑا ہو گیا‘ چند لمحوں کے لئے بھائی کے مات و مبہوت چہرے کی طرف دیکھتا رہا‘ جو افکار کی موجوں میں غلطاں تھا۔ اس نے زبان سے کچھ نہ کہا اور قافلے کے ہمراہ غفار نامی بستی کی جانب چل دیا۔ ابوذر۱ بھی اسی طرح خاموش اور پریشان سا چلا جا رہا تھا‘ یہاں تک کہ قافلے نے ایک درے میں پڑاؤ ڈالا۔ اس کی کھوج لگانے والی نگاہیں بلند و بالا پہاڑوں کی طرف اٹھ گئیں‘ وہ سوچنے لگا کہ آخر کس ذات نے کس طرح ان کو اٹھا رکھا ہے؟ یوں لگتا تھا جیسے ابوذر نے پہلی مرتبہ اس دنیا اور اس کی نیرنگیوں کو دیکھا ہو‘ اس نے زمین کی طرف بڑے غور سے دیکھا‘ دل میں سوچا کہ آخر یہ زمین کس طرح اس قدر مسطح اور ہموار ہے؟ ایسے ہی افکار اس کے ذہن میں جوش کھا رہے تھے اور اس کے دل میں زندگی ایک نئی جنبش سے ہمکنار ہو رہی تھی‘ اس کو نور ہدایت کی ایک روشنی مل گئی تھی جو اس کے دل کی گہرائیوں کو بھی تابناک بنا رہی تھی‘ اسی روشنی کی بنا پر اب وہ سرگرم عمل رہنا چاہتا تھا۔ اس کو مستقبل تابناک دکھائی دے رہا تھا‘ شکوک اور گمراہیوں کی سیاہی جس میں وہ سالہا سال سے زندگی بسر کر رہا تھا‘ اب وہ چھٹتی ہوئی دکھائی دے رہی تھی۔ ابوذر اسی طرح کشاں کشاں قافلے کے ساتھ چلا جا رہا تھا‘ یہاں تک کہ وہ لوگ غفار پہنچ گئے۔ عورتیں‘ مرد سبھی اپنے اونٹوں سے اتر پڑے‘ ابوذر بھی ایک دم خاموش اور تنہا سا اپنے گھر کی طرف چل دیا۔ وہ گھر جس میں قبر کی سی تاریکی اور موت کا سا سکوت کارفرما تھا‘ وہ اپنے گھر میں داخل ہوا‘ سیدھا اپنی خواب گاہ میں گیا تاکہ سفر کی تھکن دور کر لے‘ لہٰذا اس نے تھوڑی دیر کے لئے سو جانا چاہا‘ مگر نیند اس کی آنکھوں سے کوسوں دور تھی‘ اس کے خیالات کا پرندہ ادھر ادھر پرواز کر رہا تھا‘ کبھی وہ آسمانوں کی بلندیوں پر پرواز کرتے ہوئے خود سے ہم کلام ہوتا کہ آخر وہ کون سی ذات ہے‘ جس نے ان کو اٹھا رکھا ہے؟ کبھی وہ زمین کے فرش کی طرف متوجہ ہوتا کہ آخر اس کو کس نے بچھایا ہے؟ کبھی وہ اپنی ذات میں ڈوب ڈوب سا جاتا اور اس ہستی کے بارے میں سوچتا جس نے اسے پیدا کیا‘ اس کو چشم بینا عطا کی جس کی مدد سے وہ دیکھ سکتا ہے‘ اس کو زبان ودیعت کی جس سے وہ بات چیت کرتا ہے اور وہ فطرت بھی دی ہے جس سے وہ خیر و شر اور تقویٰ و فساد کو اس کے دل میں ڈالتا ہے۔ اس نے خود سے کہا کہ بلاشبہ آسمان کا پیدا کرنے والا آسمان سے زیادہ صاحب عظمت ہے اور انسان کا پیدا کرنے والا خود انسان سے کہیں زیادہ بزرگ و برتر ہے اور وہ ذات جس نے اس حیران کن ہستی کو پیدا کیا‘ یہ طے شدہ امر ہے کہ یہ ہستی منات‘ لات‘ عزیٰ‘ اساف‘ نائلہ‘ سعد اور دوسرے معبودوں سے زیادہ لائق عبادت ہے۔ وہ ہستی اچھوتی اور نادر تخلیقات کو معرض وجود میں لانے والی ہے اور بہت ہی توانا مصور ہے‘ مگر ان پتھروں میں نہ تو کوئی طاقت ہے اور نہ اچھوتا پن (ندرت) ہے۔

آہستہ آہستہ اس کو یہ احساس ہونے لگا کہ اس کا دل ایک طرح کے سرور سے سرشار رہتا ہے۔ اس کی آنکھوں پر شک کے جو تاریک پردے پڑے تھے‘ اب وہ یقین کی شعاعوں سے چھٹ رہے تھے۔ آتش شوق اس کی روح میں شعلہ فشاں تھی‘ اس کی آنکھیں آنسوؤں سے لبریز ہو گئیں اور زمین پر گر کر جہانوں کے پروردگار کے حضور میں سجدہ ریز ہو گیا۔

ابوذر۱کا یقین ابھی تشنہ کام تھا‘ وہ اسی سرچشمے کا متلاشی تھا جو کہ اس کو مل گیا تھا اور اب وہ حقیقت کے ٹھنڈے اور خنک پانی سے اپنے من کی تشنہ کامیوں کو سیراب کر رہا تھا۔

ابوذر نے طویل سجدے سے اس عالم میں سر اٹھایا کہ اس کے آنسو اور پسینے کے ٹھنڈے قطرے آپس میں مل گئے اس سے اس کا گندمی چہرہ اور کمزور ہاتھ تر ہو گئے اسی حالت میں وہ اپنی خواب گاہ میں واپس چلا گیا۔ اس کی پیشانی پر ایک ملکوتی حسن سایہ فگن تھا‘ اب اس کے اندر ایک خدائی روح حلول کر چکی تھی‘ جس نے اس کی آنکھوں کو بینا اور دل کو بیدار کر دیا۔ وہ اولین سجدہ جو اس نے باری تعالیٰ کے حضور میں کیا‘ اس سے اس کے سالہا سال کے عقدے کھل گئے‘ جن سے اس کا دم گھٹا جاتا تھا اور اس کو اپنے سینے میں تنگی سی محسوس ہوتی تھی‘ وہ رات ابوذر۱۱کو تمام راتوں سے زیادہ سبک محسوس ہوئی اور وہ نسبتاً زیادہ سکون سے سویا۔

اگلے دن کی صبح طلوع ہوئی‘ وہ اپنی انگلیوں کی پوروں سے ہر چیز کو چھو کر اس کے لمس کی لطافتوں سے لطف اندوز ہو رہا تھا اور اپنے لئے کوئی ایسا راستہ ڈھونڈ رہا تھا کہ اس کے لئے ابدیت کی جانب ایک روزن کھل جائے۔ ابوذر۱آہستہ سے اٹھا اور اپنے دونوں ہاتھ آسمان کی طرف بلند کر دیئے اور وہ بڑے ہی دلنشیں اور والہانہ انداز میں خدا کو پکارا‘ اسی اثنا میں انیس اندر داخل ہوا‘ اپنے بھائی کو خضوع و خشوع کے ساتھ کھڑے ہوئے دیکھا۔ اس نے اس سے بات چیت کرنا چاہی‘ مگر وہ اس حیرت انگیز منظر میں کھو کر رہ گیا کہ خود کو بھی بھول گیا‘ وہ کھڑے ہو کر حیرت زدہ بھائی کو دیکھتا رہا‘ وہ اپنے ایک ایسے نئے دوست کے ساتھ راز و نیاز کر رہا تھا جو اس کو بہت جستجو کے بعد ملا تھا‘ ایک مدت دراز کی جدائی کے بعد اب وصال کے لمحے اس کو میسر آئے تھے‘ وہ جذبات کی رو میں اتنا غرق تھا کہ اس کو انیس کی آمد کا بھی پتہ نہ چلا۔ انیس اسی طرح متحیر کھڑا رہا‘ آخرکار وہ ہوش میں آیا تو ابوذر سے کہا: تو یہ کیا کر رہا ہے؟

ابوذر نے مڑ کر دیکھا تو بھائی پر نظر پڑی‘ کہنے لگا:

میں نماز پڑھ رہا ہوں۔ انیس کہنے لگا: کس کے لئے؟ کہا کہ اپنے خدا کے لئے نماز پڑھ رہا ہوں‘ یعنی اپنے معبود کے حضور میں جو لائق پرستش ہے‘ میں نہ تو لات کی خاطر نماز پڑھ رہا ہوں اور نہ ہی کسی دوسرے بت کیلئے۔

انیس نے وضاحت چاہی کہ پھر تو کس کی خاطر نماز ادا کر رہا ہے؟ ابوذر نے کچھ سوچ کر کہا کہ میں نے اس ناپیدا کنار کائنات میں ایک نشانی ڈھونڈی ہے‘ جس نے تمہارے خدا کے علاوہ ایک حقیقی خدا کی طرف میری رہنمائی کی ہے۔ وہ عظمت والا اور طاقت والا ہے‘ انسانی عقل و دانش اس کی حقیقت اور انتہا کو نہیں پہنچ سکتی‘ نہ ہی بحث و مباحثے کے ذریعے اس کو پایا جا سکتا ہے‘ وہ ایک ایسی قوت ہے جو ان سب سے بالاتر ہے اور اس کو احاطہ ادراک میں لانا حد امکان میں نہیں ہے۔

انیس نے کہا کہ اس خدا کے لئے جس کو نہ تم دیکھ سکتے ہو‘ نہ پا سکتے ہو‘ پھر بھی تم اس کے لئے نماز پڑھتے ہو؟

ابوذر نے انیس سے کہا: میں نے اس کو پایا تو نہیں لیکن اس کی علامت میں نے ڈھونڈ لی ہے۔

عجیب بات ہے‘ تمہارا یہ کہنا کہ ایک خدا مجسم صورت میں تمہارے سامنے ہے۔ دیکھو تو یہ سارے وہ خدا ہیں جن کو تم جس وقت چاہو پا سکتے ہو‘ جس وقت چاہو چھوڑ سکتے ہو۔ ابوذر! یہ تم نے بڑی عجیب بات کہی۔

یہ جو بہت سارے خدا ہیں‘ یہ سوائے پتھر کے کچھ بھی نہیں ہیں۔ یہ نہ تو کوئی بات سمجھتے ہیں‘ نہ ان کو کسی کے نفع یا نقصان سے کوئی سروکار ہے۔

اچھا! تو تمہارے خیال میں ہماری اور ہمارے باپ داداؤں کی عقل باطل ہے؟

ارے نہیں بھائی! آخر اس میں میری تو کوئی تقصیر نہیں جو ہمارے باپ دادا اپنی نادانی اور ناواقفیت کی بنا پر دل بینا نہیں رکھتے تھے۔ انیس بھائی! ہمارے دین کی بنیادیں بڑی کمزور ہیں‘ اتنی کمزور جیسے کہ مکڑی کا جالا۔ دیکھو! فرض کرو! ہم میں سے ایک شخص سفر پر جاتا ہے‘ راستے میں وہ چار خوبصورت سے پتھر اٹھا لیتا ہے‘ پھر ان میں سے خوبصورت ترین کو اپنا رب (معبود) بنا لیتا ہے‘ بقایا تین کو دیگچی کے نیچے چولہا روشن کرنے کے لئے استعمال کرتا ہے۔ دیکھو تو یہ کتنا عجیب سا لگتا ہے کہ ایک پتھر کے ٹکڑے کو تو ہم خدا کہیں‘ صرف اس لئے کہ وہ ذرا نسبتاً خوبصورت ہے اور باقیوں سے چولہا بنانے کا کام لیں‘ کیونکہ وہ ہمیں پسند نہیں آئے۔

ہم اپنے سفر میں بالکل بھی ایسا کام نہیں کرتے‘ ہاں البتہ خانہ کعبہ کے اعمال میں ارکان کی بجاآوری کے دوران ان پتھروں کو استعمال کرتے ہیں‘ ان کو ہم ذاتی حیثیت میں نہیں پوجتے بلکہ اساف و نائلہ کے روپ میں ان کی پوجا پاٹ کرتے ہیں جو کہ عین خانہ کعبہ میں نصب ہیں۔

اساف اور نائلہ کی حیثیت تو محض دو زنا کاروں کی ہے۔ کیا تم چاہو گے کہ دو زانیوں کو پوجو؟

اے ابوذر! یہ تم کیسی باتیں کر رہے ہو؟

اساف نامی ایک شخص یمن میں نائلہ نامی ایک لڑکی پر عاشق تھا‘ یہ دونوں زیارت کی غرض سے خانہ کعبہ میں داخل ہوئے‘ جیسے ہی خانہ کعبہ میں ذرا تخلیہ ہوا تو یہ دونوں لوگوں کی نظروں سے بچتے ہوئے زنا کے مرتکب ہوئے‘ اگلی صبح خانہ کعبہ کے زائرین نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ دونوں مسخ ہو چکے ہیں۔ عوام الناس کی عبرت کی خاطر ان دونوں کو خانہ کعبہ میں ہی رکھا گیا۔ جب اس واقعے کو ایک طویل مدت گزر گئی تو آہستہ آہستہ ان کی حیثیت خدا کی سی ہو گئی اور ان کو پوجا جانے لگا۔ ہاں تو یہ ہیں تمہارے خدا۔(ایسی من گھڑت باتیں عربوں میں بتوں کے بارے میں رائج رہی ہیں) اچھا تو پھر یہ سارے معجزات جو ان سے رونما ہوتے ہیں‘ ان کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے؟

ان سے کوئی معجزہ نہ تو ظہور میں آیا ہے نہ آئے گا‘ ان میں نہ قدرت ہے نہ قوت‘ جو کچھ بھی ہوا خدا کی جانب سے ہوا‘ یہ ان بتوں کے ساتھ غلط منسوب کیا گیا ہے۔ ابھی کل ہی تو ہم منات کی زیارت کو گئے اور ہمیں امید تھی کہ وہ بادلوں کو اکٹھا کر کے ہم پہ بارش برسائے گا‘ ہم نے اپنے معبود کے قرب کی خاطر اپنی بکریاں بھی قربان کیں‘ تو پھر اس بت نے کیا کیا؟ کچھ بھی نہیں۔ اس لئے نہیں کہ ہمارے اعمال کی بنا پر وہ ہم پر قہر و غضب کا اظہار کر رہا تھا‘ اس کی وجہ ہمارے گناہوں کی کثرت بھی نہیں تھی۔ نہ وہ واجبات میں کوتاہی کی وجہ سے ہم سے آزردہ خاطر ہوا ہے‘ بلکہ وہ ان سب افعال میں سے کسی ایک پر بھی قادر نہیں ہے۔

بس کرو بھائی… بس کرو… قریب ہے کہ میں تمہاری باتوں کو مان لوں اور اپنے خداؤں میں شک کرنے لگ جاؤں۔

اے انیس بھائی! یہی تو میری تمنا ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ تم بھی میری طرح ان سے بیزار ہو جاؤ اور جب بھی تم دعا کرنا چاہو تو اس خدا کے آگے جھکو جو آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنے والا ہے۔

لیکن کیا ہم اپنے دین کو پرانے کپڑوں کی طرح آسانی سے اتار کر دور پھینک سکتے ہیں؟

ہاں ہاں انیس! جب ہمارا دین ہی پرانے بوسیدہ لباس کی طرح ہو تو یہ کام سہل ہے۔

ان کی والدہ “رملہ”(“رملہ” وقیعہ کی بیٹی قبیلہ غفار سے تھیں) گھر میں داخل ہوئی تو وہ دونوں ایک دم چپ سے ہو گئے‘ پھر اس نے ان کی طرف رخ کر کے کہا: اس بارے میں میرے بیٹوں کا کیا خیال ہے؟

انیس: کس بارے میں؟

ماں نے کہا: وہی صورت حالات کہ جس سے ہم آج کل دوچار ہیں۔ آسمان کے دروازے ہم پر بند ہیں اور بارش نہیں ہو رہی‘ کھیتیاں خشک پڑی ہیں اور ہم سب کو سخت مصیبت کا سامنا ہے۔

انیس نے کہا: یہ رائے تو آپ ہی کی رائے ہے۔

میرا خیال ہے کہ تمہارے ماموں کے پاس چلیں‘ وہ صاحب حیثیت اور صاحب مال ہے۔

ابوذر۱کہنے لگا: جیسے آپ کہتی ہیں رائے تو آپ ہی کی ہے‘ جو ہونی ہے وہ تو ہو کے رہے گی‘ خدا تعالیٰ خود دکھا دے گا۔

http://shiastudies.com/ur/383/%d8%a7%d8%a8%d9%88%d8%b0%d8%b1-%d8%ba%d9%81%d8%a7%d8%b1%db%8c-%d8%ad%d8%b5%db%81-%d8%af%d9%88%d9%85/