یومِ علی کے ایام اور افعین حرم !

یومِ علی کے ایام اور مدافعین حرم !!!!
سویرا بتول

ہم میں سے بعض لوگوں کا اعتقاد ہےکہ مدافعینِ حرم کی تاریخ نٸی ہے جبکہ تاریخِ اسلام میں اسکے واضح شواہد موجود ہیں کہ مدافعین کی تاریخ ظہورِ اسلام سے پہلے کی ہے۔اسلام میں سب سے پہلے مدافع نبوت رسول اللہﷺ کے چچا جناب ابو طالب علیہ السلام ہیں۔جناب ابو طالب علیہ السلام نہ صرف مدافع نبوت ہیں بلکہ مدافع ولایت بھی ہیں۔آپ نے اُس وقت اپنے بھتیجے کی نصرت کا اعلان کیا جب تمام اہل عرب نے بنو ہاشم کا باٸیکاٹ کر دیا تھا۔آپ علیہ السلام کو اگر اول مدافع نبوت کہا جاٸے تو غلط نہ ہوگا گویا مدافعین کی تاریخ ظہوراسلام سے ہے اور آج تک ہنوز جاری ہے۔

تاریخی روایت سے ظاہر ہوتا ہے کہ جنابِ ابو طالبؑ نے قریش کے دباؤ، سازشوں، دھونس، دھمکیوں اور ان کی طرف لاحق خطرات کے مقابلے میں رسول اکرمؐ کے بےشائبہ اور بےدریغ حمایت جاری رکھی۔ گوکہ ابو طالبؑ کی عمر رسول اللہؐ کی بعثت کے وقت پچھتر برس ہوچکی تھی، تاہم انھوں نے ابتداء ہی سے آپؐ کی حمایت و ہمراہی کو ثابت کر دکھایا۔ انھوں نے قریش کے عمائدین کے سے باضابطہ ملاقاتوں کے دوران رسول اللہؐ کی غیر مشروط اور ہمہ جہت حمایت کا اعلان کیا۔ یعقوبی کے مطابق یہ حمایت اور محبت اس حد تک تھی کہ جناب ابو طالبؑ اور ان کی زوجہ مکرمہ حضرت فاطمہ بنت اسد(س) رسول اللہؐ کے لئے ماں باپ کی صورت اختیار کرگئے تھے۔آپ کی رسول اللہ ﷺ سے یہ الفت اور محبت محض چچا بھتیجے کی حد تک نہ تھی بلکہ آپ علیہ السلام رسول اللہ کی معرفت سے باخوبی آشنا تھے۔

مردوں میں پہلے مدافع نبوت جناب ابو طالب ہیں جبکہ خواتین میں پہلی مدافع ولایت جناب فاطمہ الزہرا سلام علہیا ہیں۔بعد از رحلتِ پیغمبرِ اسلام ﷺ آپ سلام علہیا جس طرح ولایت کا دفاع کرتیں دیکھاٸی دیتیں ہیں اُس کی نظیر کہی نہیں ملتی۔جب در زہرا پر آگ لاٸی جاتی ہے اور آگ کے شعلوں میں علی ع کو گھر سے باہر نکالاجاتا ہے تب سیدہ زہرا سلام علہیا ابوالحسن کا دفاع کرتیں دیکھاٸی دیتیں ہیں۔ چاہے وہ مدینے کاہردر کھٹکٹانا ہو،ابوالحسن کو ہمت و حوصلہ دینا ہو،حسنین کی ڈھارس بننا ہو یا دربار جانا ہر مقام پر جناب فاطمہ زہرا سلام علہیا کی زندگی کا حماسی پہلو نمایاں نظر آتا ہے۔

ہم میں سے بہت کم لوگ جناب فاطمہ زہراسلام علہیا کی زندگی کے حماسی پہلو سے آشنا ہیں جبکہ درحقيقت معصومین ع کی پوری حیات اور شخصيت کا یہ اہم جزوہے۔حماسہ کے معنی شدت اور سختی کے ہیں جبکہ کبھی یہ لفظ شجاعت اور حمیت کے لیے استعمال ہوتا ہے۔جناب زہرا سلام علہیا نے بعد از رسول اللہ جس شجاعت اور بہادری کا مظاہرہ کیا اُس کی مثال کہی نہیں ملتی۔آپ خود بتاٸیے کہ ایک ایسی خاتون جن کے والد ابھی گزرے ہوں،محسن شہید ہوٸے ہوں، خانہ زہرا پر آگ لاٸی گٸی ہو وہ کیسے تن تنہا ان مصاٸب کا سامنا کر سکتی؟ ان تمام مصاٸب و درد الم کے باوجود سیدہ ع ابو الحسن کے ہمراہ استقامت کے ساتھ ہر محاذ پر کھڑی دیکھاٸی دیتیں ہیں۔یہ پہلو سیدہ ع کی حماسی زندگی کی عکاسی کرتا ہے اور آپ کو اول مدافع حرم و ولایت کے طور پر تسلیم کرتا ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ اگر ولایت کا دفاع اس قدر اہم چیز ہے تو آج ہم اس سے غافل کیوں ہیں؟ آج مدافعین حرم کے نام پر قاٸم اس حساسیت کے حصار کو ختم کرنے میں اپنا کردار ادا کیوں نہیں کرتے؟ جناب سیدہ زہرا سلام علہیا نے جس شجاعت،بصیرت،استقامت اور عزم و حوصلہ سے ولایت کا دفاع کیاآج ہم میدانِ عمل میں نظرکیوں نہیں آتے؟ آخر کب تک ہمارے جوان جو سیدہ ع کے محافظ بنے گمنامی کی زندگی بسر کرتے رہیں گے؟ ہمیں تو چاہیے تھا کہ ان پاک طینیت جوانوں کے افکار کو عام کرتے،ان پر کتب مرتب کی جاتیں،انکی مناجات کو عام کیا جاتا اس کے برعکس ہم سب حساسیت کے حصار کی نظر ہوگٸے۔یومِ علی ع کےان ایام میں ہمیں چاہیے کہ جناب فاطمہ زہرا کی زندگی کے حماسی پہلو کا دقیق مطالعہ کریں تاکہ ہمیں علم ہو کہ کیسے جناب سیدہ نے ولایت کا دفاع کیا۔وہ آگ جسکے شعلوں میں در سیدہ تو جل گیا مگر ابوالحسن پر آنچ نہیں آٸی۔محسن تو شہید ہوٸے مگر ولایت کا دفاع کرتے ہوٸے ولایت کی اول محافظہ کہلاواٸی۔جناب زہرا کی حماسی زندگی کے اس پہلو سے آشناٸی بے حد ضروری ہے تبھی ہم مدافعین حرم کو باخوبی سمجھ سکتے اور آج کی کربلا میں اپنا کردار ادا کرسکتے ورنہ صبح شام علی کی ولا کے دعوی ہمیں دنیا میں تو سرخرو کر سکتے مگر علی ع کی نظروں میں نہیں۔

آج کی کرب و بلا کے محافظ با کردار ہیں زینبیون
عزم و حسینی عزم خمینی کی للکار ہیں زینبیون
تکفیریت بھاگ رہی ہے ہم مختار ہیں زینبیون
زینب ع کے روضے پہ شہادت کو تیار ہیں زینبیون

Urdu calamUrdu libraryکالممدافع حرمیوم علی