کیوں کربلا کویادکریں؟

نصر اللہ فخر الدین

کیوں کربلا کو یاد کریں؟

*نصراللہ فخرالدّین*

مقدمه
واقعہ کربلا میں جہاں ایک طرف ظلم و ستم اور تاریک پہلو ہے جسے دیکھ کر انسانیت شرماجاتی ہے اور شاید اسی لئے جب خدا نے آدم کو زمین پر خلیفہ بنانا چاہا تو فرشتوں نے کہا تھا کہ ایک ایسے موجود کو جو مفسد اور قتل و غارتگری کرنے والا ہے، خلیفہ بنا رہے ہو؟ کیونکہ فرشتے تصویر کا صرف ایک رخ دیکھ رہے تھے جہاں انہیں صرف شیطان ، فرعون، نمرود، دقیانوس، شمر و یزید اور صدام وغیرہ نظر آرہے تھے جنہوں نے تاریخ کے اوراق کو اپنے ظلم وستم ، فسق و فجور، لھو لعب اور قتل و غارتگری سے سیاہ کردیا ۔اور انسانی اقدار کو اپنے پیروں تلے روند دیا۔ تو دوسری طرف روشن اور مثبت پہلو ہے جسے دیکھ کر انسانیت فخر کرتی ہے اسی لئے خدا نے بھی فرشتوں کے جواب میں کہا تھا کہ میں وہ جانتا ہوں جو تم نہیں‌جانتے ہو۔کیونکہ خدا جانتا تھا کہ ہر زمانے کے ظاغوت سے مقابلہ کرنے کے لئے اس کے اپنے برگزیدہ بندےآنے ہیں جو اپنی جدو جہد، صبر و استقامت،شجاعت و بہادری، فداکاری، جود و سخا، انفاق اور اخلاق کے ذریعے تاریخ انسانیت کے صفحات کو پر کرینگے اور قیام عدل، مستضعفین جہاں کی سربلندی ، مستکبرین جہاں کی سرنگونی اور انسانی اقدار کی حفاظت کے لئے اپنا سب کچھ قربان کرینگے۔ تاریخ کے ہزاروں واقعات میں سے بہت کم ایسے واقعات ہیں جو زندہ و تابندہ ہیں اور حادثہ کربلا وہ واحد واقعہ ہے جو نہ صرف زندہ ہے بلکہ دن بہ دن اور سال بہ سال زندہ تر ہوتا جارہا ہے۔ کیونکہ یہ واقعہ مثبت اور منفی دونوں پہلؤوں کے اعتبار سے اپنے اوج پر پیش آیا ہے۔ چونکہ کربلا اقدار کی جنگ ہے لہٰذا ان اقدار کو زندہ رکھنے لئے ضروری ہے کہ کربلا کو ہمیشہ یاد رکھیں۔ اس مقالہ میں گنجائش نہ ہونے کی بنا پر ذیل میں کچھ اقدار کو ذکر کیا جارہا ہے:
*1۔ صبرواستقامت*
انقلابی تحریکوں کی کامیابی کا ایک اہم راز استقامت ہے جس کے بغیر کوئی تحریک نہ چل سکتی ہے اور نہ فتح و کامیابی حاصل کر سکتی ہے کیونکہ اس راہ میں بہت ساری مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے یہاں تک کہ بعض اوقات انسان کو اپنی جان بھی قربان کرنا پڑتا ہے۔ خاص طور پر جب قیام الٰہی ہوں تو دوسری تحریکوں کی نسبت بہت زیادہ مزاحمت کا سامنا ہوتا ہے اور بہت ساری شیطانی قوتیں اس قیام کو روکنے کی کوشش کرتی ہیں جن کے ساتھ صبرو استقامت سے ہی مقابلہ ممکن ہے ، اور یہ ایک قرآنی اصول ہے جس کے ذریعے اللہ تعالی کی مدد حاصل ہوتی ہےپھر کسی چیز کا خوف اور غم نہیں رہتا۔ چنانچہ قرآن کریم میں آیا ہے:
“بیشک جن لوگوں نے یہ کہا کہ اللہ ہمارا رب ہے اور اسی پر جمے رہےان پر ملائکہ یہ پیغام لے کر نازل ہوتے ہیں کہ ڈرو نہیں‌اور رنجیدہ بھی نہ ہواور اس جنت سے مسرور ہو جاؤ جس کا تم سے وعدہ کیا جارہا ہے۔” یہاں تک کہ جب پیغمبرؐ سے اصحاب نے پوچھا کہ آپ کے بال اتنی جلدی کیوں سفید ہوگئے تو فرمایا: سورہ ہود اور واقعہ نے مجھے بوڑھا کر دیا ۔ پیغمبر نے یہ کیوں فرمایا؟ اس لئے کیونکہ ان دونوں سورتوں میں‌آپ کو خدا کی راہ میں صبرو استقامت دکھانے کا حکم ہوا تھا۔ لہٰذا آپ پوری زندگی صبرواستقامت کے ساتھ خدا کی راہ میں جہاد کرتے رہیں اور اسی استقامت کے پھل کو بچانے کے لئے آپ کے لخت جگر سید الشہداءؑ نے قیام کیا جس میں آپ پر ایک سے بڑھ کر ایک مصیبت آئی ، اسی راستے میں اپنا سب کچھ لُٹایا لیکن دشمن کے سامنے تسلیم نہیں ہوئے بلکہ صبر و استقامت سے اپنی تحریک کو کامیاب بنایا۔ اگر امام عالی مقام اور آپ کے اصحاب و انصار اور اسیران کربلا مصائب اور مشکلات پر صبر و استقامت سے طاغوت کا مقابلہ نہ کرتے تو آج حق و حقیقت نامی کوئی چیز باقی نہ رہتی۔
*2۔ ایثار و قربانی*
ایثار و قربانی ایک اہم انسانی اقدار اور اعلیٰ صفات میں سے ہے۔ جس کے ذریعے انسان انسانیت کی خاطر نہ صرف اپنے مال و دولت سے گزر جاتا ہے بلکہ اپنی اولاد، عزیز و اقارب، ناموس اور اپنی جان بھی اس راہ میں دینے کے لئے تیار ہوجاتا ہے۔ یعنی اعلیٰ ہدف کو حاصل کرنے کےلئے کوئی بھی چیز رکاوٹ بنے اسے قربان کردے اور اپنی خواہشات کو پیروں تلے روند دے۔ جس انسان کے اندر یہ جذبہ نہ ہوں درحقیقت وہ خود غرض اور خود خواہ کہلائے گا۔ کیونکہ اپنے لئے تو سب جینا چاہتے ہیں لیکن کامیاب وہ ہیں جو خود سے زیادہ دوسروں کے لئے جینا چاہتے ہیں۔ چنانچہ قرآن کریم نے بھی اسی بات کی طرف اشارہ کیا ہے:
وَ يُؤْثِرُونَ عَلى‏ أَنْفُسِهِمْ وَ لَوْ كانَ بِهِمْ خَصاصَةٌ وَ مَنْ يُوقَ شُحَّ نَفْسِهِ فَأُولئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُون
اور اپنے نفس پر دوسروں کو مقدم کرتے ہیں چاہے انہیں کتنی ضرورت ہی کیوں‌نہ ہو اور جسے بھی اس کے نفس کی حرص سے بچا لیا جائے وہی لوگ نجات پانے والے ہیں۔ پوری تاریخ میں واقعہ عاشورا کے اندر جس قدر ایثار و قربانی نظر آتی ہے وہ کسی اور واقعہ میں نظر نہیں آتی کہ جہاں ہر کوئی سب سے پہلے اسلام پر قربان ہونا چاہتا ہے۔ آج جب ہم اپنے معاشرے کے اندر انسانی اقدار مٹتے ہوئے ، ظلم و ستم کا عروج اور عدل و انصاف کا زوال دیکھتے ہیں ، حق کو نابود اور باطل کو ابھرتے ہوئے دیکھتے ہیں تو کسی کو اپنی جان ، مال ، اولادکی فکر ہوتی ہے اور کسی کو اپنی عزت و شہرت اور مقام کی فکر ہوتی ہے۔ معاشرے میں مستکبر مستکبر تر ہوتا جارہا ہے تو مستضعف مستضعف تر ، امیر امیر تر ہوتا جارہا ہے تو غریب غریب تراور ظالم ظالم تر ہوتا جا رہا ہے تو مظلوم مظلوم تر۔ان تمام برائیوں کو ایثار و قربانی ، صبر و استقامت اور شجاعت و بہادری کے ذریعے ہی ختم کیا جاسکتا ہے۔ جس معاشرے کے لوگ اس عظیم صفت سے خالی ہوں درحقیقت وہ معاشرہ حیوانی معاشرہ ہوسکتا ہے انسانی نہیں۔
*3۔ شجاعت و بہادری*
تاریخ میں‌بہت سارے ایسے لوگ گزرے ہیں‌جنہوں نے دم اسلام کا بھرا لیکن بجائے اس کے کہ اسلام پر اپنی جانیں قربان کریں، اسلام کو اپنے اوپر قربان کیں‌اور آج بھی ہم اپنے معاشرے میں بہت سے ایسے لوگوں کو دیکھتے ہیں‌کہ جب وہ مشکل میں‌پھنس جاتے ہیں‌تو اسلام کو اپنے لئے سپر قرار دیتے ہیں‌اور اسلام کے نام پر اپنے لئے سب کچھ کر جاتے ہیں، لیکن جب بھی اسلام پر کڑا وقت آتا ہے تو ایسا لگتا ہے کہ گویا یہ لوگ مسلمان ہی نہیں ہیں اور جنگ کا نام سن کر ہی ڈر سے ان کی جانیں نکل جاتی ہیں۔ جبکہ ایسے لوگوں کے مقابل میں‌ہمیشہ الٰہی لوگوں کا طریقہ یہی رہا ہے کہ اپنی جانوں کو اسلام کے لئے سپر قرار دیں‌نہ کہ اسلام کو اپنے لئے۔ کیونکہ الاسلام یعلو ولا یعلی عليه یعنی اسلام ہر چیز سے بلند اور کوئی شیئ اس سے بالا نہیں۔ اسلام پر سب کچھ قربان کیا جاسکتا ہے لیکن اسلام کو کسی چیز پر قربان نہیں کیا جاسکتا۔
بعض لوگ موت کا نام سن کر ہی ڈرجاتے ہیں لیکن جب ہم تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں‌تو ایسے لوگوں کو پاتے ہیں‌جنہوں‌نے موت کو گلے سے لگایا ہے۔ نہضت امام حسینؑ میں‌ہم دیکھتے ہیں‌کہ اصحاب شوق شہادت کی وجہ سے میدان جنگ میں‌جانے کے لئے ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کرتے تھے اور شہادت کو اپنی آنکھوں‌سے دیکھ کر ان کے چہرے کھل جاتے تھے۔ کسی نے موت کو احلیٰ من العسل تو کسی نے موت ہم پر آپڑے یا ہم موت پر جا پڑیں کہہ کر موت کو گلے سے لگا دیا۔ لہذا ایسے ہی لوگوں کے خون سے اسلام کی آبیاری ہوئی ہے اور اگر آج تک اسلام باقی ہے تو انہیں‌لوگوں کی قربانی سے باقی ہے۔
*4۔ ستم ناپذیری*
ایک اہم درس واقعہ کربلا سے ہمیں ملتا ہے وہ ستم ناپذیری ہے یعنی جتنی بھی مصائب اور مشکلات انسان پر آجائیں پھر بھی ظالم اور جابر انسانوں کے سامنے نہ جھکنابلکہ ان تمام مشکلات اور سختیوں سے مقابلہ کرتے ہوئے حق اور حقیقت کے پیغام کو دنیا والوں تک پہنچانا۔کیونکہ ظلم ایک قبیح عمل ہے جسے آزاد اور خداپرست انسان کبھی قبول نہیں کرتا۔ تاریخ کا اگر مطالعہ کریں تو تمام انبیاء ، ائمہ اور الٰہی لوگوں کو ہر زمانے کے طاغوت کے ظلم و ستم کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ لیکن کبھی بھی کسی الٰہی رہبر نے کسی طاغوت کے سامنے سر نہیں جھکایا۔ بلکہ اس کے ظلم و بر بریت اور فتنہ و فساد کے مقابلے میں سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی مانند کھڑے رہیں یہاں تک کہ اسی راہ میں اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کئے۔ کیونکہ اسلام کہتا ہے کہ نہ ظلم کرو اور نہ ظلم سہو۔ “لاتظلمون ولا تظلمون”
کربلا میں امام حسینؑ نے “إنی لاأری الموت إلا سعادةً و الحیاة مع الظالمین إلا برماٌ”کہہ کر یہ درس دیا کہ ظالم کےساتھ زندگی کرنے سے بہتر یہ ہے کہ انسان عزت اور شرافت کی موت کو قبول کر لے۔ کیونکہ ظالم کے ساتھ گزارنے والی زندگی میں ذلت اور رسوائی کے سوا کچھ نہیں۔ چنانچہ آج اگر کچھ لوگ ستم ناپذیر ہیں تو انہوں نے کربلا سے درس لیا ہے جس کی وجہ سے ظالم اور طاغوت کے مقابلہ میں پوری قوت کے ساتھ کھڑے ہیں۔ اسی لئے کربلا کو یاد کرنا ضروری ہے تاکہ لوگوں میں ستم ناپذیری کی یہ صفت زندہ و باقی رہے۔ لیکن اگر انسان ظلم و ستم اور بربریت کے سامنے جھک جائے اور ذلت کی زندگی کو قبول کرےتو ایسی صورت میں ظالم اور جابر انسانوں کی حوصلہ افزائی ہوگی انسانیت درندہ صفت انسانوں کے پیروں تلے دب جائے گی یوں‌معاشرہ ظلمت و تاریکی میں ڈوب کر غرق ہوجائے گا ۔
*5۔ عزّت*
قرآن کریم کے بنیادی الفاظ میں سے ایک اہم لفظ عزت ہے جسے پروردگار نے “و لله العزة و لرسوله وللمؤمنین ۔۔۔” کہہ کر اپنے اور اپنے رسول اور مؤمنین کے ساتھ مخصوص کی ہے۔ اسی لئے امام حسینؑ سے جب بیعت کا مطالبہ کیا اور بیعت نہ کرنے کی صورت میں قتل کی دھمکی دی تو فرمایا: ألا و ان الدعي بن الدعي قد ترکني (رکزني) بين‏السلة و الذلة، و هيهات له ذلک مني، هيهات منا الذلة، أبي الله ذلک لنا و رسوله و المؤمنون‏ “اس زنا زادے کے بیٹے زنا زادے نے مجھے دو کاموں عزت کی موت اور ذلت کی زندگی کے درمیان مخیر کردیا ہے اور بہت بعید ہے کہ میں ذلت کو قبول کروں کیونکہ خدا ، رسول ؐ، اور مؤمنین جو ظالم کے ساتھ زندگی کرنے کو ننگ و عار سمجھتے ہیں، راضی نہیں کہ میں ذلت کو قبول کروں۔ آج بعض نام نہاد اسلامی ممالک عزت حاصل کرنے کے لئے مغرب کی طرف ہاتھ پھیلائے ہوئے ہیں درحقیقت وہ اپنی ذلت کا سامان کر رہے ہیں۔ان کے مقابلے میں جن ممالک نے اللہ پر بھروسہ کیا ، اللہ سے عزت چاہا اور واقعہ عاشورا کو اپنے لئے اسوہ قرار دیا ہے ۔ وہ باعزت اور باوقار طریقے سے سر اُٹھا کر چل رہے ہیں۔
اگر امام حسینؑ چاہتےکہ عیش و عشرت کے ساتھ زندگی کریں اور زندگی کی تمام خوبصورتیاں اور سہولیات انہیں حاصل ہوں تو یزید کی بیعت کرکے ممکن تھا بلکہ اگر بیعت بھی نہ کرتے صرف یزید کی مخالفت چھوڑ دیتے تب بھی ممکن تھا لیکن زندگی ذلیلانہ ہوتی اور قیامت تک آنے والوں کے لئے عزت اور شرافت کی زندگی کا مفہوم مبہم رہ جاتا۔ اسی لئے امام عالی مقامؑ نے نہ صرف یزید کی بیعت سے انکار کیا بلکہ اس کے خلاف قیام کر کے رہتی دنیا تک کے لئے یہ پیغام دیا کہ جو مجھے اپنا رہبر و راہنما سمجھے گا ، میرا نام لیوا ہوگا اور مجھے اپنے لئے نمونہ عمل قرار دیگا وہ کبھی یزید جیسے فاسق و فاجر اور ظالم انسان کے سامنے سر تسلیم خم نہیں ہوگا اگرچہ اپنی جان سے بھی ہاتھ دھونا کیوں نہ پڑے۔ اگر اس جذبے کو ہم اپنے معاشرے میں زندہ رکھنا چاہیں تو ضروری ہے کہ کربلا کو یاد کریں۔ کیونکہ یہ درس وہیں سے ہی ملتا ہے۔
*6۔ حرّیت و آزادی*
امیر المؤمنینؑ فرماتےہیں: “ولا تکن عبد غیرک وقد جعلک الله حرّا” اور خبردار کسی کے غلام نہ بن جانا جب کہ پروردگار نے تمہیں آزاد قرار دیا ہے۔ بدقسمتی سے آج ہمارے معاشرے کے اندر لوگ غلامی کے مختلف قسم کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہیں جس کی وجہ سے معاشرہ زوال اور انحطاط کی طرف جا رہا ہے دینی احکامات پائمال ہوتے جارہے ہیں اور غلامی کی زنجیریں دن بہ دن مضبوط ہوتی جارہی ہیں۔ کوئی شیطان کی غلامی تو کوئی مال و دولت ، شہرت، نام نہاد عزت اور اپنے خواہشات کی غلامی اور کوئی جاگیرداروں، وڈیروں، اور طاغوتوں کی غلامی تو کوئی غلط رسم و رواج اور قومیت و نژاد پرستی کی غلامی میں پس رہے ہیں۔ خدا کی بندگی سے نکل کر دنیا کی بندگی اختیار کر چکے ہیں۔ اور امام حسین ؑ کے اس قول کے مصداق بنے ہیں کہ :
“الناس عبید الدنیا والدین لعق علی السنتهم یحوطون مادرت معایشهم فاذا محصو با البلاء قل الدیانون” لوگ دنیا کے غلام ہیں اور دین صرف ان کی لقلقہ زبان ہے کیونکہ جب انسان خدائے عظیم و مہربان و زیبا کے سامنے نہیں جھکتا تو ہر نجس اور پلید کے سامنے جھکنا پڑتا ہے۔ ایسے میں واقعہ کربلا کی وضاحت ضروری ہے جس میں عباد الرحمٰن(الٰہی بندے) نے غلامی کی ان تمام زنجیروں کو توڑ کر صرف خدا کی بندگی اختیار کی۔ اور صرف خدا کے سامنے جھکے تو کسی اور کے سامنے جھکنا نہیں پڑا۔ اور امام ؑ کے فرمان کے آخری حصے کا مصداق بنے۔ “فاذا محصوا با البلاء قل الدیّانون” جب امتحان میں مبتلا ہو جائیں گے تو دیندار بہت کم نکلیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ سن ۶۱ھ میں صرف ۷۲ افرادنکلے۔ لہٰذا آج کل کے ہمارے معاشرے سے ان تمام زنجیروں کو توڑ کر انسانی اقدار کے سائے میں زندگی گزارنے اور صرف خدائے واحد کے سامنے سر بسجود ہونے کےلئے ضروری ہے کہ واقعہ کربلا کو یاد کریں۔
*حرف آخر*
اگر آج ہم چاہتے ہیں کہ ہمارا معاشرہ کمال و سعادت کی راہ پر گامزن ہوں ، لوگ ظلم و ستم اور غلامی کی زنجیروں کو توڑ کر عزت و شرافت اور انسانی اقدار کےسائے میں زندگی گزاریں اور جاہلیت کے آداب و رسومات کو اکھاڑ پھینک دیں تو ضروری ہےکہ واقعہ عاشورا کو ہر قسم کی تحریفا ت سے بچا کر معاشرے میں بیان کریں اور لوگوں کو اس میں موجود اقدار سے آشنا کرائیں۔ بدقسمتی سے ہمارا معاشرہ واقعہ کربلا سے ناآشنائی کی وجہ سے ایک الٰہی اور قرآنی معاشرے میں بدل نہیں‌سکا کیونکہ (رہ گیا رسم عزا روح حسینی نه رهی )ہم عزاداری کو صرف ایک رسم کے طور پر مناتے ہیں اور روح عزاداری سے کوئی سروکار نہیں ہے۔

*منابع*
قرآن کریم
نہج البلاغہ، ذیشان حیدر جوادی
مجلسی، باقر، بحار الانوار، ناشر مؤسسہ وفا بیروت، الطبعہ الثانیہ۱۴۰۳ھ
مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ ، ناشر دار الکتب الاسلامیہ، چاپ سی وہشتم1392ھ ش۔
جامع التفاسیر