موت پر گفتگو

جس وقت میرے والد محترم نے موت کے بار ے میں گفتگو کرنی شروع کی ، اس وقت میں بہت زیادہ خوف زدہ ہوا، کہ میں اپنی اس پریشانی اور اضطرابی کیفیت کو آپ سے مخفی ومستور نہیں رکھ سکتا-

حواس باختگی، سخت پریشانی اور بے قراری میرے والد کے چہرہ سے ظاہر ہو رہی تھی جب کہ وہ موت کے سلسلہ میں مسلسل گفتگو کر رہے تھے، ان کی آواز آہستہ آہستہ اور اس کے اتار چڑھاؤ میں جو شکستگی تھی وہ ان کی باطنی حالت کو آشکار کررہی تھی،اور اسی طرح میں آپ سے اپنی اس حالت کو نہیں چھپا سکتا، جب کہ میرے والد موت کا نام لیتے (ایسا نام کہ جو خوف دلانے والا مرعوب کرنے والا ہے)تو فوری طورپر میں اپنے اندر ایک غیر فطری خوف محسوس کرتا، اور جب ان کی باتوں کی طرف دھیان دیتا تو میرے چہرہ اور رخساورں کا رنگ بدل جاتا، جس کی بناپر میری پیشانی اور ناک کے اوپر گرم پسینے کی بوندیں نظر آتیں تھیں۔

اور جب میرے والد کی آواز ہلکی گلو گیرہوگئی کہ جس کو وہ چھپانہ سکے اور وہ برابر موت اور میت کی تفاصیل کو بیان کررہے تھے تو خوف ووحشت بڑھی جاتی تھی، یہاں تک کہ میں بے قرارہوجاتا۔

پھریہ حزن وملال اور بڑھ گیا اور جب میرا یہ حزن وملال ظاہر ہوگیا تو میرا دل تنگ ہوگیا اور جب میرے والد نے میرے چہرے اور آنکھوں پر غم واندوہ کو ملاحظہ کیا تو مجھ سے فرمانے لگے کہ:

سوال: کیا آپ خائف ہیں؟

جواب: کیسے خائف نہ ہوں!

سوال: آپ موت سے زیادہ ڈرتے ہیں یا میت سے؟

جواب: میں موت سے زیادہ میت سے ڈرتا تھا، لہٰذا میں نے کہا میت سے، ایسا خوف ورعب میرے اوپرطاری تھا کہ جس کا میں اعتراف کر رہاتھا، میں نے اپنی عمر میں کسی کو حالت احتضار میں یا مرتے ہوئے دیکھا نہ تھا بلکہ اس سے پہلے کوئی ایسا واقعہ سنا تک نہ تھا، میرے لیے مناسب تھا کہ میرے سامنے کوئی حالت احتضار میں ہوتا یا کوئی مرتا اس وقت یہ قصہ موت، میں سنتا تو بہتر تھا۔

ایک روز میں نے ایک جنازہ دیکھا جس کولوگ اٹھائے ہوئے لے جارہے تھا اس کو دیکھ کر میری حالت مغموم ومحزون اورپریشان ہوگئی ،یہاں تاکہ میں نے اپنی نظر اس جنازہ کی طرف سے موڑ لی، تاکہ ذہن کے سوچنے سمجھنے کا نظام منقطع نہ ہوجائے۔

ہاں میں میت سے ڈرتا ہوں میں نے دوبارہ دہرایا ۔

سوال: کیا آپ موت اور موت کے بعد ڈرنے سے زیادہ میت سے ڈرتے ہیں؟

میرے والد نے مزیدفرمایا کیا آپ اس کی موت سے ڈرتے ہیں جو کچھ دیر پہلے زندہ تھا آپ کی طرح کھاتاپیتا اور روتا، ہنستا، اپنے آپ کو پاک وصاف رکھتااور سوتا تھا ۔

پھرموت کی غشی کا اس پر حملہ ہوا، کہ جیسے ہر ذی روح پر اس کا حملہ ہوتا ہے آپ واقعیت کوکیوں نہیں لیتے، آپ کو میت سے زیادہ موت سے ڈرنا چاہیے، کیاآپ نے اپنے نفس سے سوال نہیں کیا کہ پچھلی امتیں اور ان کی نسلیں کہاں گئیں، آج ان کے ٹھکانے ان کی قبریں ہوگئیں اور ان کے اموال وراثت میں تقسیم ہوگئے، ان کے آثار باقی نہ رہے، وہ اپنے رونے والوں کے پاس نہیں آتے، اور جو ان کو بلاتاہے جواب نہیں دیتے۔

كَمْ تَرَكُوا مِن جَنَّاتٍ وَعُيُونٍ . وَزُرُوعٍ وَمَقَامٍ كَرِيمٍ . وَنَعْمَةٍ كَانُوا فِيهَا فَاكِهِينَ . كَذَلِكَ وَأَوْرَثْنَاهَا قَوْمًا آخَرِينَ

”کتنے باغات اور چشمے اور کھیتیاں اور اچھے اچھے مکان اور نعمتیں جن کا وہ لطف اٹھایا کرتے تھے، چھوڑگئے، ایساہی ہوا کرتا ہے اور ہم نے ان چیزوں کا وارث دوسرے لوگوں کو بنادیا“(سورہ دخان۲۵ تا۲۸)پھر جو آپ کو جانتا تھا وہ کہاں گیا اور کیوں گیا؟

جواب: آپ کے پچھلے آباء واجداد کہاں گئے ،فلاں ۔۔۔کہاں ۔۔۔فلاں ۔۔۔کہاں فلاں۔۔۔ کہاں؟وہ زمین کے اوپر سے زمین کے نیچے چلے گئے، وسعت سے تنگی میں، وطن سے غربت میں ، اور روشنی سے تاریکی میں چلے گئے۔

پھر میرے والد نے چند مصرعے پڑھے۔

”کلنا فی غفلۃ والموت یغدوویروح“

”ہم سب کے سب غفلت میں ہیں اور موت صبح وشام ہمارے پیچھے ہے“

” نح علی نفسک یا مسکین ان کنت تنوح“

”اگر تم اپنے نفس پر نوحہ کرسکتے ہو تو نوحہ کرو“

”لست بالباقی ولو عمرت ما عمر نوح“

”تم باقی نہیں رہوگے اگرچہ عمر نوح کو حاصل کرو“

اس کے بعد میرے والد کے لب پر مکمل خاموشی چھاگئی اور چند منٹ اسی میں گزر گئے ،جیسےکہ وہ اپنے ذہن میں کسی صورت کی ترتیب دے رہے ہوں ،یا کسی بکھری ہوئی شئے کو جمع کررہے ہوں، یہاں تک کہ ان کی آوارنے اس سکوت کو یہ کہتے ہوئے توڑا۔

اے اباالحسن علیہ السلام ! خدا آپ پر رحم کرے کہ آپ نے ا پنی موت سے کچھ دیر پہلے کتنا اچھا فرمایا تھا:

”کل تک میں تمارا ساتھی تھا، اور آج تمہارے لیے عبرت ہوں، اور کل میں تم سے جدا ہوجاؤں گا، میرا رخصت ہونا تمہارے لیے نصیحت ہے،میرا ورود مخفی ہے،میرے اطراف سکون ہے، پس میں عبرت حاصل کرنے والوں کے لیے فصیح وبلیغ گفتار سے اور سنی ہوئی بات سے زیادہ موعظہ ہوں“

اے آقا!ایک روز آپ نے فرمایا تھا:

”واعلمواانہ لیس لھذا الجلد الرقیق صبر علی النار (الخ)

”جان لوکہ یہ نازک جلد آگ کو برداشت نہیں کرسکتی،پس تم اپنے نفسوں پر رحم کرو،اس لیے کہ تم نے مصائب دنیا میں ان سے تجربہ حاصل کرلیا ہےیعنی جب یہ نفوس دنیا کے مصائب نہیں برداشت کرسکتے تو آخرت کے عذاب کو کس طرح برداشت کریں گے۔

کیا تم نے کسی محزون۔۔۔ کو دیکھا ہے جب وہ مصیبت زدہ ہو اور کسی گرے ہوئے کو جب کہ وہ زخمی ہو اور بخاروالے کو جب کہ اس کا بدن جل رہاہو، پس کیا حال ہوگا اس شخص کا جو جہنم کے دوطبقوں کے درمیان ہوگا۔؟

تم کو معلوم ہونا چاہیے کہ جب آگ کا مالک آگ پر غضبناک ہوتا ہے تو وہ اپنے غضب کی بناپر،اور جب بجھنے لگتی ہے تو وہ اپنے مالک کی مہیب دار آواز پر پھر بھڑک جاتی ہے۔

اب آپ کے لیے مناسب ہے کہ آپ موت اور موت کے بعد جو سختی ہے اس سے ڈریں۔

”یوم ترونھا تذھل کل مرضعۃ عما ارضعت وتضع کل ذات حمل حملھا وتری الناس سکاری وماھم بسکاری ولکن عذاب اللہ شدید“؟؟؟

”جس دن تم اس (قیامت ) کو دیکھو گے دودھ پلانے والی اس سے غافل ہوجائے گی کہ جسے دودھ پلایا کرتی تھی اور ہر حمل والی اپنا حمل گرادے گی اور تم لوگوں کونشے کی حالت میں دیکھوگے، حالانکہ وہ نشے میں نہ ہوںگے بلکہ خداکا عذاب ہی سخت ہوگا“۔

(سورہ حج ۲)

پھر اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں ارشاد فرماتاہے۔

”یوم تجد کل نفس ما عملت من خیر محضر وما عملت من سوء تود لو ان بینھا وبینہ امدا بعیدا ویحذرکم اللہ نفسہ واللہ رؤف بالعباد‘

”اس روز ہر نفس اپنی نیکی اور بدی کو کہ جس کو وہ کرچکاہے،موجود پائے گا اور یہ خواہش کرے گا کہ کاش خود اس کے اور اس دن کے مابین ایک مدت طویل حائل ہوتی، اور اللہ تعالی ٰتم کو اپنے سے ڈراتا ہے اور اللہ تمام بندوں پر مہربان ہے۔،،(آل عمران:۳۰)

اور موت واحتضار صرف یاد دھانی کراتی ہے اس کی کہ جس کی طرف تم کو جانا ہے خائف اور مرعوب نہیں کرتی ۔

میرے والد بزرگوار موت کے بارے میں کہہ کرخاموش ہوگئے، اس وقت میں اپنی عبرت دلانے والی چیزوں کو مترتب کرنے اور ان میں نئے سرے سے غور وفکر کرنے میں نظر ثانی کررہاتھا یہاں تک کہ میرے اس غورو فکر کو میرے والد نے یہ تاکید کرتے ہوئے منقطع کیا :

جب تم کبھی کسی مسلمان کو احتضار کی حالت میں دیکھو تو اپنے ڈر کو ایک طرف رکھتے ہوئے اس کا چہرہ قبلہ رخ کردو-

اقتباس از آسان مسائل (حصہ اول) عبد الہادی محمد تقی الحکیم ترجمہ سید نیاز حیدر حسینی 

ناشر مؤسسہ امام علی،قم القدسہ، ایران