قلب روح احاديث ميں

دين كے رہبروں اور حقيقى انسان كو پہچاننے والوں نے انسان كى روح اور قلب كے بارے بہت عمدہ اور مفيد مطالب بتلائے ہيں كہ ان ميں سے بعض كى طرف يہاں اشارہ كيا جاتا ہے كہ بعض احاديث كى بناپر قلب اور روح كو تين گروہ ميں تقسيم كيا گيا ہے_ امام محمد باقر عليہ السلام فرماتے ہيں كہ ”ہم تين طرح كے قلب ركھتے ہيں_ پہلى نوع_ ٹيڑھا قلب جو كسى خير اور نيكى كے كاموں كو درك نہيں كرتا اور يہ كافر كا قلب ہے_ دوسرى نوع وہ قلب ہے كہ جس ميں ايك سياہ نقطہ موجود ہے يہ وہ قلب ہے كہ جس ميں نيكى اور برائي كے درميان ہميشہ جنگ و جدال ہوتى ہے ان دو ميں سے جو زيادہ قوى ہوگا وہ اس قلب پر غلبہ حاصل كريگا_ تيسرى نوع قلب مفتوح ہے اس قلب ميں چراغ جل رہا ہے جو كبھى نہيں بجھتا اور يہ مومن كا قلب ہے_ 

امام جعفر صادق عليہ السلام اپنے پدر بزرگوار سے نقل كيا ہے كہ ”آپ نے فرمايا كہ قلب كے لئے گناہ سے كوئي چيز بدتر نہيں ہے_ قلب گناہ كا سامنا كرتا ہے اور اس سے مقابلہ كرتا ہے يہاں تك كہ گناہ قلب پر غالب آجاتا ہے اور وہ قلب كو ان اور ٹيڑہا كرديتا ہے _ 

اور امام سجاد عليہ السلام نے ايك حديث ميں فرمايا ہے كہ ” انسان كى چار آنكھيں ہيں اپنى دو ظاہرى آنكھوں سے دين اور دنيا كے امور كو ديكھتا ہے اور اپنى دو باطنى آنكھوں سے ان امور كو ديكھتا ہے جو آخرت سے مربوط ہيں جب اللہ كسى بندے كى بھلائي چاہتا ہے تو اس كے قلب كى دو باطنى آنكھوں كو كھول ديتا ہے تا كہ اس كے ذريعے غيب كے جہان اور آخرت كے امر كا مشاہدہ كرسكے اور اگر خدا اس كى خير كا

ارادہ نہ كرے تو اس كے قلب كو اس كى اپنى حالت پر چھوڑ ديتا ہے _ 

امام صادق عليہ السلام نے فرمايا ہے كہ ” قلب كے دو كان ہيں ايمان كى روح آہستہ سے اسے كار خير كى دعوت ديتى ہے اور شيطن آہستہ سے اسے برے كاموں كى دعوت ديتا ہے جو بھى ان ميں سے دوسرے پر غالب آجائے وہ قلب كو اپنے لئے مخصوص كرليتا ہے_ 

امام صادق عليہ السلام نے رسول خدا صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم نے نقل كيا ہے كہ ”آپ (ص) نے فرمايا كہ سب سے بدترين اندھاپن قلب كا اندھا پن ہے_ 

امام محمد باقر عليہ السلام نے فرمايا ہے كہ ” انسان كے قلب ميں ايك سفيد واضح نقطہ ہوتا ہے اگر گناہ كا ارتكاب كرلے تو اس كے قلب ميں سياہ نقطہ پيدا ہوجاتا ہے اگر اس كے بعد توبہ كرلے تو وہ سياہ نقطہ مٹ جاتا ہے اور اگر گناہ كرنے پر اصرار كرے تو وہ سياہ نقطہ آہستہ سے بڑھنے لگ جاتا ہے يہاں تك كہ وہ اس سفيد نقطے كو گھير ليتا ہے اس حالت ميں پھر اس قلب كا مالك انسان نيكيوں كى طرف رجوع نہيں كرتا اور اس پر يہ آيت صادق آجاتى ہے كہ ان كے اعمال نے ان كے قلوب پرغلبہ حاصل كرليا ہے اور انہيں تاريك كرديا ہے_ 

اميرالمومنين عليہ السلام نے فرمايا ہے كہ ” جس ميں تقوى اور خوف خدا كم ہو اس كا قلب او ردل مرجاتا ہے اور جس كا دل مرجائے وہ جہنم ميں داخل ہوگا _ 

حضرت اميرعليہ السلام نے اپنے فرزند كو وصيت ميں فرمايا كہ ”اے فرزند فقر اور نادارى ايك مصيبت اور بيمارى ہے اور اس سے سخت بيمارى جسم كى بيمارى ہے اور دل كى بيمارى جسم كى بيمارى سے بھى زيادہ سخت ہے_ مال كى وسعت اللہ تعالى كى ايك نعمت ہے اس سے افضل بدن كا سالم رہنا ہے اور اس سے افضل دل كا تقوى ہے_ 

رسول خدا صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم نے فرمايا ہے_ كہ ” حضرت داود پيغمبر (ع) نے اللہ تعالى كى درگاہ ميں عرض كيا خدايا تمام بادشاہوں كے خزانے ميں تيرا خزانہ كہاں ہے؟

اللہ تعالى نے جواب ميں فرمايا كہ ميرا ايك خزانہ ہے جو عرش سے بڑا اور كرسى سے وسيع تر اور بہشت سے زيادہ خوشبودار اور تمام ملكوت سے زيادہ خوبصورت ہے اس خزانہ كى زمين معرفت اور اس كا آسمان ايمان_

اس كا سورج شوق اور اس كا چاند محبت اور اس كے ستارے خدا كى طرف توجہات اس كا بادل عقل اس كى بارش رحمت اس كا ميوہ اطاعت اور ثمرہ حكمت ہے_ ميرے خزانے كے چار دروازے ہيں پہلا علم، دوسرا عقل، تيسرا صبر، چوتھا رضايت، جان لے كہ ميرا خزانہ ميرے مومن بندوں كا قلب اور دل ہے_

اللہ تعالى كے ان بندوں كے جو قلب اور دل اور روح كو پہنچانتے ہيں ان احاديث ميں بہت مفيد مطالب بيان فرمائے ہيں كہ كچھ كى طرف ہم يہاں اشارہ كرتے ہيں_

قلب كافر

كافر كے دل كے متعلق كہا گيا ہے كہ وہ الٹا اور ٹيڑہا ہے اس ميں كوئي بھلائي نہيں ہے_ اس طرح كا دل اپنى اصلى فطرت سے ہٹ چكا ہے اور عالم بالا كى طرف نگاہ نہيں كرتا وہ صرف دنياوى امور كو ديكھتا ہے اسى لئے وہ خدا اور آخرت كے جہاں كا مشاہدہ نہيں كرتا اس كے بارے نيكى اور خوبى كا تصور نہيں كيا جاسكتا كيونكہ نيك كام اس صورت ميں درجہ كمال اور قرب الہى تك پہنچتے ہيں جب وہ رضا الہى كے لئے انجام ديئےائيں ليكن كافر نے اپنے دل كو الٹا كرديا ہے تا كہ وہ خدا كو نہ ديكھ سكے وہ اپنے تمام كاموں سے سوائے دنيا كے اور كوئي غرض نہيں ركھتا وہ صرف دنيا تك رسائي چاہتا ہے نہ خدا كا قرب_ اس طرح كا دل گرچہ اصلى فطرت والى آنكھ ركھتا تھا ليكن اس نے اپنى آنكھ كو اندھا كر ركھا ہے_ كيونكہ وہ واضح ترين حقيقت وجود خدا جو تمام جہاں كا خالق ہے كا مشاہدہ نہيں كرتا وہ اس دنيا ميں اندھا ہے اور آخرت ميں بھى اندھا ہوگا_ اس نے اس دنيا ميں امور دنيا سے دل لگا ركھا ہے اور آخرت ميں بھى اس كے لئے

امور دنيا سے ہى وابستگى باقى رہے گى ليكن وہ اسے وہاں حاصل نہ ہوں گے اور وہ اس كے فراق كى آگ ميں جلتا رہے گا_ اس قسم كے دل ميں ايمان كا نور نہيں چمكتا اور وہ بالكل ہى تاريك رہتا ہے_

كافر كے دل مقابل مومن كامل كا دل ہے_ مومن كے دل كا دروازہ عالم بالا اور عالم غيب كى طرف كھلا ہوا ہوتا ہے ايمان كا چراغ اس ميں جلتا ہوا ہوتا ہے اور كبھى نہيں بجھتا_ اس كے دل كى دونوں آنكھيں ديكھ رہى ہوتى ہيں اور عالم غيب اور اخروى امور كو ان سے مشاہدہ كرتا ہے_ اس طرح كا دل ہميشہ ہميشہ كمال اور جمال اور خير محض يعنى خداوند تعالى كى طرف متوجہ رہتا ہے اور اس كا تقرب چاہتا ہے وہ خدا كو چاہتا ہے اور مكارم اخلاق اور اعمال صالح كے ذريعے ذات الہى كى طرف حركت كرتا رہتا ہے_ اس قسم كا دل عرش اور كرسى سے زيادہ وسيع اور بہشت سے زيادہ خوبصورت ہوتا ہے اور يہ قدرت ركھتا ہے كہ اللہ تعالى كا مركز انوار الہى اور خزانہ الہى قرار پائے_ اس طرح كے دل كى زمين اللہ كى معرفت اور اس كا آسمان اللہ پر ايمان اور اس كا سورج لقاء الہى كا شوق اور اس كا چاند اللہ كى محبت_ مومن كے دل ميں عقل كى حكومت ہوتى ہے اور رحمت الہى كى بارش كو اپنى طرف جذب كرليتا ہے كہ جس كا ميوہ عبادت ہے اس طرح كے دل ميں خدا اور اس كے فرشتوں كے سوا اور كوئي چيز موجود نہيں ہوتي_

ايسا دل تمام كا تمام نور ا ور سرور اور شوق اور رونق اور صفا والا ہوتا ہے اور آخرت كے جہان ميں بھى اسى حالت ميں محشور ہوگا_ (ايسے دل والے كو مبارك ہو)

مومن كا دل جب كبھى گناہ سے آلودہ ہوجاتا ہے تو ايسے مومن كا دل بالكل تاريك اور بند نہيں رہتا بلكہ ايمان كے نور سے روشن ہوجاتا ہے اور كمال الہى اور تابش رحمت كے لئے كھل جاتا ہے ليكن گناہ كے بجالانے سے اس كے دل پر ايك سياہ نقطہ موجود ہوجاتا ہے اور اسى طريق سے شيطن اس ميں راستہ پاليتا ہے_ اس كے دل

كى آنكھ اندھى نہيں ہوتى ليكن گناہ كى وجہ سے بيمار ہوگئي ہے اور اندھے پن كى طرف آگئي ہے_ اس طرح كے دل ميں فرشتے بھى راستے پاليتے ہيں اور شيطن بھي_ فرشتے ايمان كے دروازے سے اس ميں وارد ہوتے ہيں اور اسے نيكى كى طرف دعوت ديتے ہيں شيطن اس سياہ نقطہ كے ذريعے سے نفوذ پيدا كرتا ہے اور اسے برائي كى دعوت ديتا ہے_ شيطن اور فرشتے اس طرح كے دل ميں ہميشہ جنگ اور جدال ميں ہوتے ہيں_ فرشتے چاہتے ہيں كہ تمام دل پر نيك اعمال كے ذريعے چھاجائيں اور شيطن كو وہاں سے خارج كرديں اور شيطن بھى كوشش كرتا ہے كہ گناہ كے بجالانے سے دل كو تاريك بلكہ تاريك تر كردے اور فرشتوں كو وہاں سے باہر نكال دے اور پورے دل كو اپنے قبضے ميں لے لے اور ايمان كے دروازے كو بالكل بند كردے_ يہ دونوں ہميشہ ايك دوسرے كو دكھيلنے پر لگے رہتے ہيں اور پھر ان ميں كون كامياب ہوتا ہے اور اس كى كاميابى كتنى مقدار ہوتى ہے_ انسان كى باطنى زندگى اور اخروى زندگى كا انجام اسى سے وابستہ ہوتا ہے يہ وہ مقام ہے كہ جہاں نفس كيساتھ جہاد كرنا ضرورى ہوجاتا ہے كہ جس كى تفصيل بيان كى جائيگي_

قسى القلب

انسان كى روح اور دل ابتداء ميں نورانيت اور صفاء اور مہربانى اور ترحم ركھتے ہيں_ انسان كا دل دوسروں كے دكھ اور درد يہاں تك كہ حيوانات كے دكھ اور درد سے بھى رنج كا احساس كرتا ہے اسے بہت پسند ہوتا ہے كہ دوسرے آرام اور اچھى زندگى بسر كريں اور دوسروں پر احسان كرنے سے لذت حاصل كرتا ہے اور اپنى پاك فطرت سے خدا كى طرف متوجہ ہوتا ہے اور عبادت اور دعا راز و نياز اور نيك اعمال كے بجالانے سے لذت حاصل كرتا ہے اور گناہوں كے ارتكاب سے فوراً متاثر اور پشيمان ہوجاتا ہے_ اگر اس نے فطرت كے تقاضے كو قبول كرليا اور اس كے مطابق عمل كيا تودن بدن اس كے صفا قلب اورنورانيت اور مہربان ہونے ميں اضافہ ہوتا جاتا ہے_

عبادت اور دعا كے نتيجے ميں دن بدن عبادت اور دعا اور خدا سے انس و محبت ميں زيادہ علاقمند ہوتا جاتا ہے_ اور اگر اس نے اپنے اندرونى اور باطنى خواہشات كو نظرانداز كيا اور اس كے مخالف عمل كيا تو آہستہ آہستہ وہ پاك احساسات نقصان كى طرف جانا شروع كرديتے ہيں يہاں تك كہ ممكن ہے وہ بالكل ختم اور نابود ہوجائيں_ اگر اس نے دوسروں كے درد كے موارد كو ديكھا اور ان كے خلاف اپنے رد عمل كا مظاہرہ نہ كيا تو آہستہ آہستہ ان سے مانوس ہوجاتا ہے اور ان كے ديكھنے سے معمولى سا اثر بھى نہيں ليتا بلكہ ہوسكتا ہے كہ ايسے مقام تك پہنچ جائے كہ دوسروں كے فقر اور فاقہ اور ذلت و خوارى بلكہ ان كے قيد و بند اور مصائب سے لذت حاصل كرنا شروع كردے_ انسان ابتداء ميں گناہ كرنے پر پشيمان اور ناخوش ہوتا ہے ليكن اگر ايك دفعہ گناہ كا ارتكاب كرليا تو دوسرى دفعہ گناہ كرنے پر تيار ہوجاتا ہے اور اسى طرح دوسرى دفعہ گناہ كے بعد تيسرى دفعہ گناہ كرنے كے لئے حاضر ہوجاتا ہے اور گناہ كرنے كے اصرار پر ايك ايسے مقام تك پہنچ جاتا ہے كہ پھر گناہ كرنے سے پيشمانى كا احساس تو بجائے خود بلكہ گناہ كرنے كو اپنى كاميابى اور خوشى قرار ديتا ہے_ ايسے انسانوں كے اس طرح كے دل سياہ اور الٹے ہوچكے ہوتے ہيں اور قرآن اور احاديث كى زبان ميں انہيں قسى القلب كہا جاتا ہے شيطين نے ايسے دلوں پر قبضہ كرليا ہوتا ہے اور اللہ تعالى كے مقرب فرشتوں كو وہاں سے نكال ديا ہوتا ہے_ اس كے نجات كے دروازے اس طرح بند ہوجاتے ہيں كہ اس كے لئے توبہ كرنے كى اميد بھى نہيں كى جاسكتي_

خدا قرآن ميں فرماتا ہے كہ ”جب ہمارى مصيبت ان پر وارد ہوتى ہے تو توبہ اور زارى كيوں نہيں كرتے؟ ان كے دلوں پر قساوت طارى ہوچكى ہے اور شيطان نے ان كے برے كردار كو ان كى آنكھوں ميں خوشنما بناديا ہے_ 

نيز خدا فرماتا ہے_ ” افسوس ہے ان دلوں پر كہ جنہيں ياد خدا سے قساوت نے گھير ركھا ہے ايسے لوگ ايك واضح گمراہى ہيں پڑے ہوئے ہيں_

امام محمد باقر عليہ السلام نے فرمايا ہے كہ ”ہر مومن كے دل ميں ايك سفيد نقطہ ہوتا ہے اگر اس نے گناہ كا ارتكاب كيا اور دوبارہ اس گناہ كو بجالايا تو ايك سياہ نقطہ اس ميں پيدا ہوجاتا ہے اور اگر اس نے گناہ كرنے پر اصرار كيا تو وہ سياہ نقطہ آہستہ سے بڑھنا شروع ہوجاتا ہے يہاں تك كہ اس دل كے سفيد نقطہ كو بالكل ختم كرديتا ہے اس وقت ايسے دل والا آدمى كبھى بھى اللہ تعالى كى طرف متوجہ نہيں ہوتا اور يہى خداوند عالم كے اس فرمان سے كہ ان كے كردار نے ان كے دلوں كو چھپا ركھا ہے مراد ہے_ 

اميرالمومنين عليہ السلام نے فرمايا ہے كہ ” انسان كے آنسو قساوت قلب كى وجہ سے خشك ہوجاتے ہيں اور قلب ميں قساوت گناہون كے اثر كيوجہ سے ہوتى ہے_ 

رسول خدا نے فرمايا ہے ” چار چيزيں انسان ميں قساوت قلب كى علامتيں ہيں_ آنسوں كا خشك ہوجانا_ قساوت قلب_ روزى كے طلب كرنے ميں زيادہ حريص ہونا_اور گناہوں پر اصرار كرنا_ 

امام سجاد عليہ السلام فرماتے ہيں_ ” اے ميرے خدا ميں دل كے سخت ہوجانے سے آپ سے شكايت كرتا ہوں ايسا دل جو وسواس سے ہميشہ تغيرپذير ہے اور آلودگى اور خشم سے جڑا ہوا ہے_ ميں آپ سے ايسى آنكھ سے شكايت كرتا ہوں جو تيرے خوف سے نہيں روتى اور اس كى طرف متوجہ ہے جو اسے خوش ركھتى ہے_ 

پس جو انسان قلب كى سلامتى اور اپنى سعادت سے علاقمند ہے اس كو گناہ كے ارتكاب سے خواہ گناہ صفيرہ ہى كيوں نہ ہو بہت زيادہ پرہيز كرنى چاہئے_ اور ہميشہ اپنى روح كو نيك كاموں عبادت دعا اور خدا سے راز و نياز مہربانى احسان اور دوسروں كى مدد مظلوموں اور محروموں كى حمايت اور خيرخواہى نيك كاموں ميں مدد عدالت خواہى اور عدالت برپا كرنے ميں مشغول ركھے تا كہ آہستہ آہستہ نيك اعمال بجالانے كى عادت پيدا كرے اور باطنى صفا اور نورانيت كو حاصل كرلے تا كہ اس كى روح ملائكہ كا مركز قرار پائے_

قلب كے طبيب اور معالج

پہلے بيان ہوچكا ہے كہ دل اور روح بھى جسم كى طرح سالم ہوا كرتا ہے اور بيمار_ انسان كى اخروى سعادت اس سے مربوط ہے كہ انسان سالم روح كے ساتھ اس دنيا سے جائے_ ہمارے لئے ضرورى ہے كہ روح كى سلامتى اور بيماريوں سے واقف ہوں_

ان بيماريوں كى علامات كو پہچانيں تا كہ روح كى مختلف بيماريوں سے مطلع ہوں ان بيماريوں كے اسباب اور علل كو پہچانيں تا كہ ان بيماريوں كو روك سكيں كيا ان بيماريوں كى پہچان ميں ہم خود كافى معلومات ركھتے ہيں يا ان كى پہچان ميں پيغمبروں كے محتاج ہيں_ اس ميں كسى شك كى گنجائشے نہيں كہ ہم روح كى خلقت اور اس كے اسرار اور رموز سے جو اس موجود ملكوتى ميںركھے گئے كافى معلومات نہيں ركھتے_

قاعدتا ہم اپنى روحانى اور باطنى زندگى سے بے خبر ہيں_ نفسانى بيماريوں كے اسباب كو اچھى طرح نہيں جانتے اور ان بيماريوں كى علامتوں كى بھى اچھى طرح تشخيص نہيں كرسكتے اور ان مختلف بيماريوں كا علاج اور توڑ بھى نہيں جانتے اسى لئے پيغمبروں كے وجود كى طرف محتاج ہيں تا كہ وہ ہميں اس كے طريق كار كى ہدايت اور رہبرى كريں_ پيغمبر روح كے معالج اور ان بيماريوں كے علاج كے جاننے والے ہوتے ہيں_ اور اللہ تعالى كى تائيد اور الہامات سے روح كے درد اور اس كے علاج كو خوب جانتے ہيں وہ انسان شناسى كى درسگاہ ميں بذريعہ وحى انسان شناس بنے ہيں اور اس ملكوتى وجود كے اسرار اور رموز سے اچھى طرح مطلع اور آگاہ ہيں_ وہ صراط مستقيم اور اللہ كى طرف سير و سلوك كو خوب پہچانتے ہيں اور انحراف كے اسباب اور عوامل سے واقف ہيں اسى لئے وہ انسان كى اس سخت راستے كو طے كرنے ميں مدد كرتے ہيں اور انحراف اور كجروى سے روكتے ہيں_ جى ہاں پيغمبر اللہ كى طرف سے معالج ہيں كہ تاريخ انسانيميں انہوں نے انسان كى خدمت انجام دى ہے اور ان كى ايسى خدمات كئي درجہ زيادہ بدن كے معالجين سے بڑھ كر كى ہے پيغمبروں نے جوہر ملكوتى ورح كو كشف كرتے ہوئے انسانوں كو اس كى پہچان كرائي ہے اور ان كى انسانى شخصيت كو زندہ كيا ہے_ پيغمبر(ص) تھے كہ جنہوں نے انسانوں كا مكارم اخلاق اور معارف اور معنويات سے روشناس كيا ہے اور قرب الہى كے راستے اور سيرو سلوك كى نشاندہى كى ہے_ پيغمبر تھے كہ جنہوں نے انسان كو خدا اور جہان غيب سے آشنا اور واقف كيا ہے اور انسان كے تزكيہ نفس اور تہذيب كے پرورش كرنے ميں كوشش اور تلاش كى ہے_ اگر انسان ميں معنويت محبت اور عطوفت اور مكارم اخلاق اور اچھى صفات موجود ہيں تو يہ اللہ كے بھيجے ہوئے معالجين كى دائمى اور متصل كوشش بالخصوص خاتم پيغمبر عليہ السلام كى دائمى كوشش كى بركت سے ہيں واقعا پيغمبر اللہ تعالى كے صحيح اور ممتاز بشريت كے معالج ہيں اسى لئے احاديث ميں ان كى عنوان طبيب اور معالج كے عنوان سے پہچان كرائي گئي ہے_

امير المومنين عليہ السلام پيغمبر گرامى كے بارے ميں فرماتے ہيں كہ ” محمد(ص) چلتا پھر تا طبيب ہے كہ ہميشہ انسانى روحوں كى طبابت كرنے ميں كوشان تھا اور بيماريوں كے علاج كے لئے مرہم فراہم كر ركھى تھى اور اسے مناسب مورد ميں كام ميں لاتا تھا_ اندھى روح اور بہرے كان گنگى زبان كو شفا ديتے تھے_ اور داؤوں كو انسانوں پر استعمال كرتے تھے جو حيرت اور غفلت ميں غرق اور تھے ان انسانوں كو جو حكمت اور علم كے نور سے استفادہ نہيں كرتے تھے اور حقائق اور معارف الہى كے ناشناس تھے اسى لئے تو ايسے انسان حيوانات سے بھى بدتر زندگى بسر كرتے تھے_

قرآن كو روح كے لئے شفاء دينى والى دواء بيان كيا گيا ہے_

خدا ارشاد فرماتا ہے كہ ” اللہ كى طرف سے موعظہ نازل ہوا ہے اور وہ قلب يعنى روح كے درد كے لئے شفا ہے_

نيز خدا فرماتا ہے كہ ” قرآن ميں ہم نے بعض ايسى چيزيں نازل كى ہيں جو مومنينكے لئے شفاء اور رحمت ہيں_

امير المومنين عليہ السلام قرآن كے بارے ميں فرماتے ہيں كہ ”قرآن كو سيكھو كہ وہ بہترين كلام ہے اس كى بات ميں خوب غور كرو كہ عقل كى بارش روح كو زندہ كرتى ہے اور قرآن كے نور سے شفاء حاصل كرو كہ وہ دلوں كو يعنى روحوں كو شفا بخشتا ہے_

ايك اور جگہ فرماتے ہيں كہ ” جو شخص قرآن ركھتا ہو وہ كسى دوسرى چيز كا محتاج نہ ہوگاہ اور جو شخص قرآن سے محروم ہوگاہ كبھى غنى نہ ہوگا_ قرآن كے واسطے سے اپنے روح كى بيماريوں كا علاج كرو اور مصائب كے ساتھے مٹھ بھيڑ ميں اس سے مدد لو كيونكہ قرآن بزرگترين بيمارى كفر اور نفاق اور گمراہى سے شفا ديتا ہے_

جى ہاں قرآن ميں آيا ہے كہ پيغمبر اسلام نفوس كے طبيب ہيں_ ہمارے درد اور اس كے علاج كو خوب جانتا ہے اور ايسے قرآن كو لايا ہے جو ہمارے باطنى درد كے لئے شفا ديتے كا ضابطہ ہے اور ہميں ايسا قرآن ديا ہے_ اس كے علاوہ كئي اقسام كى باطنى بيماريوں اور ان كے علاج پيغمبر عليہ السلام اور ائمہ اطہار نے واضح كيا ہے اور وہ حديث كى شكل ميں ہمارے لئے باقى موجود ہيں لہذا اگر ہميں اپنے آپ كے لئے روح كى سعادت اور سلامتى مطلوب ہے تو ہميں قرآن اور احاديث سے استفادہ كرنا چاہئے اور اپنى روح كى سعادت اور سلامتى مطلوب ہے تو ہميں قرآن اور احاديث سے استفادہ كرنا چاہئے اور اپنى روح كى سعادت اور سلامتى كے طريق علاج كى مراعات كرنى چاہئے اور قرآن اور پيغمبر(ص) اور ائمہ اطہارعليہم السلام كى راہنمايى ميں اپنى روح كى بيماريوں كو پہچاننا چاہئے اور ان كى علاج كے لئے كوشش اور سعى كرنى چاہئے اور اگر ہم اس امر حياتى اور انسان ساز ميں كوتاہى كريں گے تو ايك بہت بڑے نقصان كے متحمل ہونگے كہ جس كا نتيجہ ہميں آخرت كے جہان ميں واضح اور روشن ہوگا_

تكميل اور تہذيب نفس

پہلے بتاتا جا چكا ہے كہ روح كى پرورش اور تربيت ہمارے لئے سب سے زيادہ ضرورى ہے كيونكہ دنيا اور آخرت كى سعادت اسى سے مربوط ہے اور پيغمبر عليہم السلام بھى اسى غرض كى تكميل كے لئے مبعوث ہوئے ہيں_ روح كى تربيت اور خودسازى دو مرحلوں ميں انجام دينى ہوگي_

پہلا مرحلہ: روح كى برائيوں سے پاك كرنا يعنى روح كو برے اخلاق سے صاف كرنا اور گناہوں سے پرہيز كرنا اس مرحلہ كا نام تصفيہ اور تخليہ ركھنا گيا ہے_

دوسرا مرحلہ: روح كى تحصيل علم اور معارف حقہ فضائل اور مكارم اخلاق اور اعمال صالحہ كے ذريعے تبريت اور تكميل كرنا اس مرحلہ كا نام تحليہ ركھا گيا ہے يعنى روح كى پرورش اور تكميل اور اسے زينت دينا_

انسان كو انسان بنانے كے لئے دونوں مرحلوں كى ضرورت ہوتى ہے اس واسطے كہ اگر روح كى زمين برائيوں سے پاك اور منزہ نہ ہوئي تو وہ علوم اور معارف حقہ مكارم اخلاق اعمال صالح تربيت كى قابليت پيدا نہيں كرے گاہ وہ روح جو ناپاك اور شيطان كا مركز ہو كس طرح انوار الہى كى تابش كا مركز بن سكے گا؟ اللہ تعالى كے مقرب فرشتے كس طرح ايسى روح كى طرف آسكيں گے؟ اور پھر اگر ايمان اور معرفت اور فضائل اخلاق اور اعمال صالح نہ ہوئے تو روح كس ذريعے سے تربيت پا كر تكامل حاصل كرسكے گي_ لہذا انسان كو انسان بنانے كے لئے دونوں مرحلوں كو انجام ديا جائے ايك طرف روح كو پاك كيا جائے تو دوسرى طرف نيك اعمال كو اس ميں كاشت كيا جائے _ شيطن كو اس سے نكالا جائے اور فرشتے كو داخل كيا جائے غير خدا كو اس سے نكالا جائے اور اشراقات الہى اور افاضات كو اس كے لئے جذب كيا جائے يہ دونوں مرحلے لازم اور ملزم ہيں يوں نہيں ہو سكتا كہ روح كے تصفيہ كے لئے كوشش كى جائے اور نيك اعمال كو بجا لانے كو بعد ميں ڈالا جائے جس طرح يہ نہيں ہو سكتا كہ باطنى امور كى اہميت كو نظر انداز كيا جائے اور نيك اعمال بجالانے ميں مشغول ہوا جائے بلكہ يہ دونوں ايك ہى زمانے ميں بجا لائے جانے چاہئيں برائيوں اور برے اخلاق كو ترك كر