رمضان خودسازی کا مہینہ

خود سازی، خود شناسی (معرفت نفس) سے آغاز ہوتی ہے۔ سب سے پہلے انسان کو اپنی معرفت حاصل کرنا چاہیے اور اپنے آپ کو پہچاننا چاہیے تاکہ اپنے آپ کو بنا  سکیں۔ اس لیے کہ خود شناسی اور معرفت نفس، خدا شناسی اور معرفت خدا کا سبب بنتی ہے۔ اور اگر خدا کو پہچان لیا گویا اپنے آپ کو بنا لیا۔

سب سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ ہم کیوں پیدا ہوئے ہیں؟ ہماری خلقت کا مقصد کیا ہے؟ خدا وند عالم قرآن کریم میں واضح طور پر بیان کر رہا ہے: وما خلقت الجن و الانس الا لیعبدون۔ میں نے جن و انس کو صرف اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے۔

بہت ساری تفاسیر میں لیعبدون کو لیعرفون  کے معنی میں لیا ہے۔ یعنی خلقت کا مقصد معرفت ہے۔ ورنہ صرف نماز و روزہ اور دعا کا نام عبادت نہیں ہے۔ نماز و روزہ اور خمس و زکاۃ عبادت کا ایک حصہ ہے۔

کیسے خلیفۃ اللہ بنیں؟

عبادت، سماج میں زندگی گذارنے اور دوسروں کے لیے جینے کا نام ہے۔ یہ جو عبادت کے لیے تاکید کی جاتی ہے  کہ عبادت کو اجتماعی طور پر انجام دینا چاہیےاور مسجد  اور جمعہ جماعت  میں شرکت کرنا چاہیے، اسی وجہ سے ہے کہ انسان کی معرفت اور پہچان اس کی ذات سے منحصر نہ ہو جائے۔ اور اسے دوسروں تک بھی سرایت کرنا چاہیے۔ ہم اس لیے نہیں پیدا ہوئے ہیں کہ صرف  اپنی ہی فکر کریں اور اپنی ہی نجات کے بارے میں  فکر کریں۔ بلکہ سماج اور سوسائٹی کے درمیان زندگی گذاریں۔ معاشرے کو ساتھ لے کر چلیں۔ دوسروں کی فلاح اور بہبود کی بھی فکر کریں ۔بہرحال ہماری بحث معرفت کے بارے میں نہیں کہ جوایک طولانی بحث ہے جس کی یہاں پر گنجائش نہیں ہے۔ یہاں پر ہمیں یہ بیان کرنا ہے کہ کیسے اپنے آپ کو اچھا بنائیں؟ کیسے انسان اپنے آپ کو ایسا بنائے کہ خدا کا خلیفہ کہلائے؟ خود سازی کا مطلب یہ ہے کہ انسان اپنے اخلاق کوا یسا بدلے جیسا خدا چاہتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں، ہمارا جی تکبر اور خود خواہی کی طرف مائل ہوتا ہے تو اپنے نفس کی ایسی تربیت کریں کہ تکبر اور خود خواہی سے نجات پاجائیں اور تواضع اور انکساری ہمارے اندر پیدا ہو جائے۔ اگر ہمارے اندر بخل اور کنجوسی پائی جاتی ہے تو اس مذموم صفت کو ختم کر کے اس کی جگہ کرامت اور بخشش کی صفت پیدا کریں۔ خلاصہ کلام یہ کہ صفات سلبیہ اور رذیلہ کو اپنے نفس و روح سے دور کر کے صفات ثبوتیہ اور حسنہ کا لباس اپنے وجود کو پہنائیں۔

کیا کرنا پڑے گا؟

اس کام کے لیے ہمیں کیا کرنا پڑے گا؟

اپنے دل کو ہر اس چیز سے جو اللہ کی نظر میں ناپسند اور مکروہ ہے پاک اور پاکیزہ بنائیں اور اپنے تمام اعضاء و جوارح کو اس کی رضا اور خشنودی کی راہ میں لگا دیں۔

اپنے اندر حلم اور بردباری کی عادت ڈالیں  اس لیے کہ حلم انسان کے مقام کو بلند و بالا کرتا ہے اور لوگوں کے درمیان باعزت و شرف ہونے کا باعث بنتا ہے۔ اور بزرگوں اور بڑوں کا احترام کریں اور ہر وہ چیز جو پستی، سستی اور کہولت کا سبب ہے سے دور رہیں اور جو چیز خدا سے نزدیک اور اس کا تقرب حاصل کرنے کا ذریعہ ہے اسے اپنے وجود کے اندر پیدا کریں۔ اس چیز کی طرف قدم بڑھائیں جو عاقبت بخیر کا باعث ہو اور جس کا ثمرہ اور پھل میٹھا ہو۔

عفت اور پاکدامنی کی حفاظت کریں اور جو چیز نفرت ، خجالت اور شرمندگی کا باعث ہے اور انسان کی شخصیت پر دھبہ لگاتی ہے  اس سے پرہیز کریں۔ صبر سے کام لیں تاکہ یقین اور رضا کی منزل پر پہنچ سکیں خدا کی مرضی کے سامنے سر تسلیم خم رہیں مشکلات، مصائب، سختیوں اور پریشانیوں کے سامنے گھٹنا نہ ٹیکیں۔

عقل و روح کے تکامل کی طرف بڑھیں۔ اور تقویٰ اور عمل کے دو پروں کے ساتھ عزت اور عظمت کی بلندیوں کی طرف پرواز کریں۔ دنیا کی محدود لذتوں سے دل نہ لگائیں بلکہ تقویٰ، ورع، پارسائی اور زہد کے اسلحوں سے اپنے آپ کو مسلح کریں۔ تاکہ شیطان کو میدان جنگ میں شکست دے سکیں۔ اس طریقے سے اپنے نفس پر تسلط حاصل کریں اور نفس کی لگام اپنے ہاتھ میں کس کر رکھیں کہ نہ دوسروں کی تعریف اور مدح سرائی ہمارے اوپر اثر کرے اور نہ ان کا برا بلا کہنا اور گالیاں گلوچ دینا۔

اپنے آپ کو خدا کی ہر ناپسند چیز سے محفوظ رکھیں  نہ اس سے جسے ہمارا نفس ناپسند کرے۔ مولا کی مرضی کے سامنے اپنی مرضی کوئی معنی نہیں رکھتی۔

آج کل کی فکر  کریں اور آج ہی کل کا سرمایہ اگٹھا کریں۔ اور اس ابدی زندگی کے لیے ساز وسامان جمع کریں۔

استقامت اور پائداری کےساتھ تلخ اور ناگوار حادثات کا سامنا کریں اور ہر لمحہ خدا پر بھروسہ رکھیں وہ کل خیر ہے اس کےساتھ وابستہ رہنے سے شر انسان کے قریب نہیں آ سکتا۔ اس کی راہ میں قدم بڑھاتے رہیں اور ہمیشہ اس سے ہدایت کی توفیق طلب کرتے رہیں کہ وہ ہمیں صراط مستقیم پر ثابت قدم رکھے۔ اھد نا الصراط المستقیم۔

مہر و محبت، دوستی اور ایک دوسرے کا ہاتھ ہمبستگی ، ایثار اور قربانی اور عفو اور بخشش کو نفرت، بغض ،کینہ، خود خواہی اور خود غرضی کا جانشین قرار دیں۔

دوسروں کی زندگیوں سے عبر ت حاصل کریں نہ  خود دوسروں کے لیے عبرت بنیں۔

ماہ مبارک رمضان وہ بہترین وقت ہے جس میں انسان کو اپنی فطرت اور سرشت کی طرف رجوع کرنے کا بہترین موقع ملتاہے۔ اور اسے خواب  غفلت سے بیدار کرنے اور گناہوں کے پردوں کو ہٹانے کا بہترین مہینہ ہے۔