ایران کی پہلی پائلٹ خاتون

ایران کی پہلی پائلٹ خاتونقدیم زمانے سے ہی انسان میں پرواز کرنے کا جذبہ موجود رہا ہے۔ علم و سائنس میں ترقی و پیشرفت اور انواع و اقسام کے چھوٹے بڑے ہوائي جہازوں کے بننے سے انسان کے پرواز کرنے کے خواب نے حقیقت کا روپ دھار لیا۔ ماضی میں پائلٹ صرف مرد حضرات بنتے تھے لیکن آہستہ آہستہ خواتین نے بھی اس میں دلچسپی لینا شروع کر دی۔ ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد ہوابازی سمیت مختلف شعبوں میں خواتین نے بھرپور طریقے سے حصہ لینا شروع کر دیا۔

محترمہ شہلا دہ بزرگی ایران کی پہلی پائلٹ خاتون ہیں۔ انہوں نے ہوابازی کا لائسنس حاصل کیا ہے۔ انہوں نے اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد باپردہ خواتین کے لیے تخصصی کاموں کے حالات سازگار ہونے پر باقاعدہ طور پر ہوابازی اور پرواز کا آغاز کیا۔ وہ اس بارے میں کہتی ہیں کہ پرواز عشق کا تقاضا کرتی ہے اور صرف پرواز سے عشق اور دلچسپی ہی راستے کو ہموار کرتی ہے۔

محترمہ شہلا دہ بزرگی انیس سو ستاون میں شیراز میں پیدا ہوئيں وہ کچھ عرصے کے بعد اپنے گھرانے کے ساتھ تہران آ گئیں اور اس شہر میں اپنی تعلیم کا سلسلہ شروع کیا۔ انہیں بچپن سے ہی ہوائی جہازوں اور پرواز کا شوق تھا۔ وہ اس بارے میں کہتی ہیں کہ انیس سو چوہتر میں جب میں تعلیم حاصل کر رہی تھی تو مجھے فائنگ کلب کے بارے میں پتہ چلا میں نے اس کلب میں داخلہ لیا اور ہوابازی کی تعلیم حاصل کرنا شروع کر دی۔ وہاں پہلے میں نے تھیوری کی تعلیم حاصل کی اور اس کے بعد پرواز سے وسائل سے آشنا ہوئی۔ اس کے کچھ عرصے کے بعد میں نے پہلی ایرانی خاتون پائلٹ کی حیثیت سے کامیاب پرواز انجام دی اور ہوابازی کا لائسنس حاصل کیا۔اس وقت یہ ایرانی خاتون اسلامی جمہوریہ ایران کی قومی ایئرلائن میں کام کر رہی ہیں۔

شہلا دہ بزرگی نے ایران پر صدام کی فوج کے حملے کے زمانےمیں اپنے دیگر ہم وطنوں کی طرح ملک کا دفاع کیا اور جاسوسی کی بہت سے پروازوں میں حصہ لیا۔ وہ اس بارے میں کہتی ہیں مجھے یہ فخر ہے کہ آٹھ سالہ دفاع مقدس (88-1980)کے دوران میں نے ایران کے دوسرے پائلٹوں کے ساتھ مل کر اپنے وطن کے دفاع میں حصہ لیا۔ محترمہ شہلا دہ بزرگی ایران کے خلاف صدام کی مسلط کردہ جنگ دوران اپنی پروازوں کو یادگار پروازیں قرار دیتی ہیں کہ جس کے دوران انہوں نے اپنی زندگی اور جان کو خطرے میں ڈالا۔ وہ اس بارے میں کہتی ہیں کہ مجھے یہ کہنا چاہیے کہ میری نظر میں ہر پرواز اپنی جگہ یادگار ہوتی ہے خاص طور پر وہ پروازیں جو جنگ کے زمانے میں وطن کے دفاع کے لیے انجام دی گئیں۔

محترمہ شہلا دہ بزرگی اس وقت چھوٹے اور بڑے ہوائی جہاز اڑانے کے ساتھ فیلکن جیٹ ہوائی جہاز کی بھی پائلٹ ہیں۔ وہ ہواباز کے ساتھ دیگر کاموں میں بھی مصروف ہیں۔ وہ اس بارے میں کہتی ہیں میں مہینے میں بیس گھنٹوں سے زائد ہوائی جہاز اڑانے کے ساتھ دیگر دفتری پوسٹوں پر بھی کام کر رہی ہوں۔ یہ باہمت ایرانی خاتون ایک ماہر ہواباز ہیں کہ جو ملک کے لیے اچھے ہوابازوں کی تربیت کا کام انجام دے رہی ہیں۔ وہ اپنی ان کامیابیوں میں سب سے پہلے خدا کی توفیق اور لطف و کرم کو اہم قرار دیتی ہیں اور اس کے بعد اس شعبے میں اپنی دلچسپی کو اپنی کامیابی کی وجہ قرار دیتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ہر آدمی اپنی جوانی میں ایسی چیزوں کے بارے میں سوچتا ہے کہ جو اس کے مستقبل کو بناتی ہیں میں نے بھی اپنی ذاتی دلچسپی کی بنا پر اس زمانے کے امکانات کے تحت اور خدا کے فضل و کرم سے یہ شعبہ اختیار کیا اور اپنے مقصد کو پا لیا۔

**************

محترمہ شہلا دہ بزرگی گھرانے کو بہت زیادہ اہمیت دیتی ہیں۔ وہ اپنی شادی کے بارے میں کہتی ہیں کہ میرے شوہر میرے ساتھ کام کرتے تھے دفتر میں ہماری روزانہ ایک دوسرے سے ملاقات ہوتی تھی آخرکار میرے شوہر اپنے گھر والوں کے ساتھ میرا رشتہ مانگنے ہمارے گھر آئے اور پھر گھر والوں کی رضامندی سے ہماری شادی ہو گئی۔ میرے دو بیٹے ہیں اور دونوں ہی آرکیٹیکٹ بن رہے ہیں۔چونکہ محترمہ شہلا دہ بزرگی اور ان کے شوہر دونوں ہی پائلٹ ہیں تو ان کے بیٹوں خاص طور پر بڑے بیٹے کو ہوابازی سے بہت زیادہ دلچسپی ہے۔ وہ اس بارے میں کہتی ہیں کہ میرا بڑا بیٹا بچپن سے ہی کمرے کے درودیوار پر مختلف قسم کے ہوائی جہازوں کی تصویریں لگاتا تھا اسے بھی اپنے والدین کی طرح ہوابازی میں بہت زیادہ دلچسپی ہے۔

محترمہ دہ بزرگی اس ہوائی سفر کو اپنی زندگی کا یادگار واقعہ قرار دیتی ہیں کہ جس میں ان کے شوہر جہاز پائلٹ تھے وہ اس بارے میں کہتی ہیں کہ شادی کے بعد ہم نے جو سفر پائلٹ کے طور پر اکٹھے کیا وہ میری زندگي کا ایک یادگار سفر تھا۔ اس سفر کے علاوہ کچھ اور سفر بھی تھے کہ جن میں میرے شوہر جہاز کے پائلٹ تھے اور میں اور میرے بیٹے مسافر کے طور پر اس جہاز میں موجود تھے۔ یہ سفر میرے بیٹوں کے لیے بھی یادگار تھا کیونکہ وہ ایسے جہاز پر سوار تھے کہ جس کے پائلٹ ان کے والد تھے۔

یہ محنتی اور انتھک ایرانی خاتون کوشش کرتی ہیں کہ جو بھی تھوڑا بہت فارغ وقت انہیں میسر ہو تو وہ اسے اپنے گھر والوں کے ساتھ گزاریں۔ وہ اس بارے میں کہتی ہیں کہ ہم پائلٹوں کے پاس فارغ وقت بہت کم ہوتا ہے لیکن میں نے اور میرے شوہر نے ہمیشہ یہ کوشش کی ہے کہ چھوٹے سے چھوٹے موقع سے بھی فائدہ اٹھائیں اور زیادہ وقت اپنے گھر والوں خاص طور پر اپنے بچوں کے ساتھ گزاریں۔

محترمہ شہلا دہ بزرگی جسمانی صحت و سلامتی کو بھی بہت اہمیت دیتی ہیں اور اسی بنا پر وہ کھیل اور ورزش کرنے کی تلقین کرتی ہیں۔ انہوں نے اپنے لیے مختلف ورزشیں منتخب کی ہیں وہ کہتی ہیں کہ میں نے باقاعدہ تیراکی سیکھی ہے اور میں باقاعدگی سے تیراکی کرتی ہوں جو جسمانی صحت کے لیے بہت ہی مفید ہے۔

وہ ایران میں خاتون پائلٹ کے مقام و مرتبے کے بارے میں کہتی ہیں کہ وقت گزرنے کے ساتھ اب معاشرے میں ایرانی خواتین بہت سے شعبوں میں سرگرم عمل ہیں اور معاشرہ انہیں قبول بھی کر رہا ہے۔ وہ پارلیمنٹ کی ممبر بھی ہیں صدر کی مشیر بھی ہیں اور ہوابازی جیسے مختلف شعبوں میں کام میں مصروف بھی ہیں۔ ایران میں عورت کے مقام و مرتبے اور پوزیشن میں بہت تبدیلی آئی ہے اور وہ اپنے اصلی مقام سے قریب تر ہو گئی ہے۔

محترمہ شہلا دہ بزرگی ان تمام افراد کو خاص طور پر خواتین کو جو پائلٹ بننا چاہتی ہیں، اس بات کی تلقین کرتی ہیں کہ سب سے پہلے تو اپنے شعبے میں دلچسپی لیں اور اس میں انتھک کوشش کریں لیکن اس کے ساتھ ہی ساتھ بعض پہلوؤں کو بھی مدنظر رکھیں اور صبروتحمل سے اپنے کام کو جاری رکھیں اگر انہوں نے ایسا نہ کیا تو وہ اس شعبے میں ترقی نہیں کر سکیں گے۔ وہ دعا کرتی ہیں کہ زیادہ سے زیادہ خواتین اس شعبے میں پیشہ ورانہ طور پر مشغول ہوں۔ ان کا کہنا ہے کہ خواتین کو چاہیے کہ وہ اسلامی اقدار اور اخلاقی اصولوں پر عمل پیرا ہوں۔ وہ پردے اور حجاب کو اہم اسلامی اقدار میں سے قرار دیتی ہیں اور کہتی ہیں کہ اگر عورتین اپنے وجود اور باطن میں حجاب اور پردے پر اعتقاد رکھتی ہوں تو یقینی طور پر ہر قسم کے حالات میں وہ ظاہر میں بھی اس کا خیال رکھیں گی۔

تبصرے
Loading...