گناہ اور بلاء

خلاصہ: کیونکہ انسان اس دنیا میں زندگی گذاررہا ہے اس لئے اس کے اعمال اور کردار اس دنیا میں اثر انداز ہوتے ہیں، جس کے بارے میں امام رضا(علیہ السلام) اس طرح فرماتے ہیں: جب بھی لوگ ان گناہوں کے انجام دیتے ہیں جن کے وہ پہلے مرتکب نہیں ہوتے تھے خداوند متعال ان پر جدید بلاؤں کو نازل فرماتاہے۔
کافی،  محمد ابن یعقوب کلینی، ج۲، ص۲۷۵، دارالکتب اسلامیۃ، تہران، ۱۴۰۷ق۔

گناہ اور بلاء

بسم اللہ الرحمن الرحیم
     آج کا انسان اس دنیا میں زندگی گذار رہا ہے کہ وہ یہ نہیں کہہ سکتا کہ میں جو کام چاہے کرو مجھے دوسروں سے کیا مطلب، مجھے دوسری مخلوقات سے کوئی مطلب نہیں یے، اس کا نتیجہ یہی ہوگا جیسا کہ کسی نے اپنے لئے آگ کو جلایا ہو اور اس کے دھنوے کے وجہ سے لوگوں کو اذیت ہورہی ہے، کیا وہ یہاں پر یہ کہہ سکتا ہے کہ مجھے لوگوں سے کیا مطلب میں تو اپنا کام انجام دیرہا ہوں؟ یہاں پر انسان یہ نہیں کہہ سکتا  کیونکہ اس کے آگ جلانے کی وجہ سے دوسروں کو اذیت ہورہی ہے، اور نہ جانے اس کے صرف آگ کے لگانے کی وجہ سے اس دنیا میں کتنے لوگوں کو کتنی مشکلوں کا سامنہ کرنا پڑرہا ہے، یہ انسان کا ایک چھوٹا سا کام ہے جس کی وجہ سے دوسروں کو بہت زیادہ مشکلوں کا سامنہ کرنا پڑرہا ہے، لیکن جب انسان اپنے خالق کی نافرمانی کریگا تو اس کا اثر اس سے زیادہ اس دنیا پر پڑیگا جس کے بارے میں معصومین(علیہم السلام) سے  بہت زیادہ روایتیں نقل ہوئی ہیں، جن میں سے ایک یہ ہے کہ حضرت علی(علیہ السلام) دعاء کمیل میں اس طرح خدا کی بارگاہ میں عرض فرمارہے ہیں: «اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِيَ الذُّنُوبَ الَّتِي تُنْزِلُ‏ الْبَلَاءَ[۱] خدایا میرے ان گناہوں کے بخش دے جن کے وجہ سے بلاء نازل ہوتی ہے»، حضرت علی(علیہ السلام) کے اس فقرہ سے مرتبت دوسری جگہ امام رضا(علیہ السلام) اس طرح فرمارہے ہیں: «جب بھی لوگ ان گناہوں کے انجام دیتے ہیں جن کے وہ پہلے مرتکب نہیں ہوتے تھے خداوند متعال ان پر جدید بلاؤں کو نازل فرماتا ہے[۲]»۔
     مثال کے طور پر ہم آج کل کی جدید بیماریوں کو پیش کرسکتے ہیں جو پہلے نہیں تھیں لیکن اب بہت زیادہ ہیں جن کے وجہ سے بیت زیادہ لوگ اس دنیا کو رخصت کرنے پر مجبو ہوگئے ہیں، کیونکہ ان کا علاج ابھی تک اطباء کے سمجھ میں نہیں آیا۔
     بعض بلائیں اور مصیبتیں ایسی ہیں جن پر انسان کا کوئی اثر نہیں ہوتا، مثال کے طور پر موت جس کے بارے میں خداوند متعال قرآن مجید میں اس طرح ارشار فرمارہا ہے: «أَیْنَما تَکُونُوا یُدْرِکْکُمُ الْمَوْتُ وَ لَوْ کُنْتُمْ فی بُرُوجٍ مُشَیَّدَة[سورۂ نساء، آیت:۷۸] تم جہاں بھی رہو گے موت تمہیں پالے گی چاہے مستحکم قلعوں میں کیوں نہ بند ہوجاؤ»۔
     اور بعض بلائیں اور مصیبتیں ایسی ہیں جن میں انسان کا کردار اثر انداز ہوتا ہے جس کے بارے میں خداوند متعال اس طرح فرمارہا ہے: «أَوَ لَمَّا أَصابَتْکُمْ مُصیبَةٌ قَدْ أَصَبْتُمْ مِثْلَیْها قُلْتُمْ أَنَّى هذا قُلْ هُوَ مِنْ عِنْدِ أَنْفُسِکُم[سورۂ آل عمران، آیت:۱۶۵] کیا جب تم پر وہ مصیبت پڑی جس کی دوگنی تم کفّارپر ڈال چکے تھے تو تم نے یہ کہنا شروع کردیا کہ یہ کیسے ہوگیا تو پیغمبر آپ کہہ دیجئے کہ یہ سب خود تمہاری طرف سے ہے»
     دوسرے قسم کی جو بلائیں او مصیبتیں ہیں وہ انسان کے فردی یا اجتماعی گناہوں کی وجہ سے نازل ہوتی ہیں جس کے بارے میں خداوند متعال اس طرح فرمارہا ہے: «ظَهَرَ الْفِسادُ فِى الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ بِما کَسَبَتْ أَیْدِى النَّاسِ لِیُذِیْقَهُمْ بَعْضَ الَّذِی عَمِلُوا لَعَلَّهُمْ یَرْجِعُونَ[سورۂ روم، آیت:۴۱] لوگوں کے ہاتھوں کی کمائی کی بنا پر فساد خشکی اور تری ہر جگہ غالب آگیا ہے تاکہ خدا ان کے کچھ اعمال کا مزہ چکھا دے تو شاید یہ لوگ پلٹ کر راستے پر آجائیں»۔
    اس آیت میں قرآن مجید نے ان گناہوں کی طرف اشارہ فرمایا ہے جن کے وجہ سے سب لوگ پریشانیوں میں گرفتار ہوجاتے ہیں، علامہ طباطبائی اس کے بارے میں فرماتے ہیں کہ انسان کے اعمال اور انسان کی تکوینی زندگی کے درمیان بہت گہرا تعلق پایا جاتا ہے، اگر انسان فطرت کے قانون پر چلتا رہے تو خدا کی برکتیں اس پر نازل ہوتی رہینگی اور جب خدا کے بنائے ہوئے قانون کو توڑنے لگیگا تو ان کی زندگی خراب ہوجائیگی[۳]۔     امام باقر(علیہ السلام) انسان کے گناہوں کے اثرات کے بارے میں اس طرح فرمارہے ہیں: « جان لو کہ کسی بھی سال کی بارش گذشتہ سال سے کم نہیں ہوتی، بلکہ خدا جس جگہ پرچاہے اس کو برساتا ہے۔ بے شک جب معاشرے میں لوگ گناہوں کے مرتکب ہوتے ہیں تو خدا اس حصہ کی بارش وہاں پر نہیں برساتا اور اس بارش کو بڑے اور وسیع بیابانوں اور پہاڑوںپر برسادیتا ہے»[۴].

نتیجه:
     دنیا کے حادثے اس حد تک انسان کے اعمال کے تابع ہوتے ہیں کہ اگر انسان خدا کی اطاعت کرے اور اس کی بندگی کرے تو خداوند متعال  اس پر رحمتوں کا نزول کرتا ہے، لیکن اگر خدانا نخواستہ اس کی نافرمانی کرتے ہوئے نظر آئے تو معاشرے میں جدید سے جدید قسم کی بلائیں نازل ہونے لگتی ہیں جس کا ہم اپنے آنکھوں سے اس  پر آشوب دور میں نظارہ کرسکتے ہیں، خدا ہم سب کو خدا کی اطات اور محمد و آل محمد کی اتباع کرنے کی توفیق عطا  فرمائے۔
__________________
حوالے:
[۱]  مصباح المتهجّد و سلاح المتعبّد، محمد ابن الحسن طوسى ، ج۲، ص۸۴۴، مؤسسة فقه الشيعة، بيروت‏،۱۴۱۱ق‏.
[۲] الكافي، محمد ابن يعقوب كلينى‏، ج۲، ص۲۷۵، دار الكتب الإسلامية، تهران‏، ۱۴۰۷ق.
[۳] الميزان فى تفسير القرآن، سيد محمد حسين طباطبايى، ج‏۱۸، ص۵۹، دفتر انتشارات اسلامى جامعه‏ مدرسين حوزه علميه قم، قم، ۱۴۱۷ق.
[۴] الكافي، محمد بن يعقوب کلینی‏، ج۵، ص۳۷۴، دار الكتب الإسلامية، تهران‏، ۱۴۰۷ق‏.

kotah_neveshte: 

بسم اللہ الرحمن الرحیم
     حضرت علی(علیہ السلام) دعاء کمیل میں خدا کی بارگاہ میں عرض فرمارہے ہیں: «اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِيَ الذُّنُوبَ الَّتِي تُنْزِلُ‏ الْبَلَاءَ؛ خدایا میرے ان گناہوں کے بخش دے جن کے وجہ سے بلاء نازل ہوتی ہے». (مصباح المتهجّد و سلاح المتعبّد، ج۲، ص۸۴۴۔) امام(علیہ السلام) کے اس فقرہ کے مطابق ایسے گناہ ہیں جن کی وجہ سے بلاؤوں کا نزول ہوتا ہے، یعنی کے گناہ کی وجہ سے خداوند متعال بلاؤوں کو نازل فرماتا ہے۔
      حضرت علی(علیہ السلام) کے اس فقرہ  سے مرتبت دوسری جگہ امام رضا(علیہ السلام) اس طرح فرمارہے ہیں: «جب بھی لوگ ان گناہوں کے انجام دیتے ہیں جن کے وہ پہلے مرتکب نہیں ہوتے تھے خداوند متعال ان پر جدید بلاؤں کو نازل فرماتا ہے».(کافی، ج۲، ص۲۷۵۔)۔
     مثال کے طور پر ہم آج کل کی جدید بیماریوں کو پیش کرسکتے ہیں جو پہلے نہیں تھیں لیکن اب بہت زیادہ ہیں جن کے وجہ سے بیت زیادہ لوگ اس دنیا کو رخصت کرنے پر مجبو ہوگئے ہیں، کیونکہ ان کا علاج ابھی تک  اطباء کے سمجھ میں نہیں آیا۔
یہ سب بلائیں انسان کے گناہوں کی وجہ سے  نازل ہوئی ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مصباح المتهجّد و سلاح المتعبّد،  محمد ابن حسن طوسی، ج۲، ص۸۴۴، مؤسسہ فقہ الشیعہ، بیروت، ۱۴۱۱ق۔
کافی،  محمد ابن یعقوب کلینی، ج۲، ص۲۷۵، دارالکتب اسلامیۃ، تہران، ۱۴۰۷ق

تبصرے
Loading...